25/3/21

رانی کیتکی کی کہانی: ایک مطالعہ - مضمون نگار: مشیر احمد

 



تلخیص

اردو کی زیادہ ترداستانیں عربی،فارسی اور سنسکرت سے ترجمہ ہوئی ہیں۔اردومیں داستان گوئی کو عروج بخشنے اور آسان زبان میں عوام تک پہنچانے میں فورٹ ولیم کالج نے اہم کردار ادا کیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ فورٹ ولیم کالج میں کئی اہم داستانوں کااردو میں ترجمہ کیا گیا یا عوامی زبان کا جامہ پہنایا گیا۔ اسی دور میں جبکہ داستانیں مختلف زبانوں سے اردو میں ترجمہ ہو رہی تھیں،انشاء اللہ خاں انشا نے ایک طبع زاد داستان رانی کیتکی کی کہانی کے نام سے تصنیف کی۔رانی کیتکی کی کہانی کو دو لحاظ سے شرف تقدم حاصل ہے،ایک تو یہ کہ باغ وبہار اور فسانۂ عجائب کے مقابلے میں مختصر ترین ہے اور دوسرے طبع زاد ہے۔ داستان کی بنیادی شرط اس کی طوالت ہے،چونکہ انشا کا سارا زور زبان پر ہے اس لیے یہ داستان طویل نہ ہو کر مختصر ہے۔

داستانوں میں بنیادی طور پر چا ر چیزیں پائی جاتی ہیں۔رزم، بزم،طلسم اور عیاری۔اس نقطۂ نظر سے اگر رانی کیتکی کی کہانی کا مطالعہ کیا جائے تو یہ عناصر اس میں کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی صورت میں ضرور نظر آتے ہیں۔داستان کی شعریات کی اگر بات کی جائے تو داستان میں دلچسپی کوبھی بنیادی اہمیت حاصل ہے اور رانی کیتکی کی کہانی میں دلچسپی بدرجۂ اتم موجود ہے۔

ناو ل کے برخلاف داستان میں کوئی طے شدہ پلاٹ نہیں ہوتا ہے، جہاںتک رانی کیتکی کی کہانی کے پلاٹ کی بات ہے تو اس کا پلاٹ سادہ اور سپاٹ ہے،اور کسی داستان یا کہانی سے ماخوذ نہیں ہے۔کہانی بالکل سیدھے سادے انداز میں بیان ہوئی ہے۔اس داستان میں آغاز،وسط، نقطئہ عروج اور انجام بھی ہے اور کہانی پن ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں ارتقا بھی پایا جاتا ہے۔

انشاء اللہ خاں انشا کی رانی کیتکی کی کہانی میں دو کر دار زندہ ٔجاوید ہیں،ایک اس کہانی کا ہیرو کنوراودے بھان اور دوسری اس کی ہیروئن رانی کیتکی، ان دونوں کر داروں کے علاوہ کوئی اور زندہ یا بھر پور کردار نظر نہیں آتا،البتہ ضمنی کرداروں میں ایک اہم نام مدن بان کا ہے جو رانی کیتکی کی سہیلی اور ہم راز ہے۔

رانی کیتکی کی کہانی میں قصہ ہندوانی ہے اور انشاء اللہ خاں انشا نے ہندوتہذیب ومعاشرت کا بھرپور مطالعہ ومشاہدہ کیاتھا،یہی وجہ ہے کہانی میں جگہ جگہ اس کا عکس صاف طورپر نظر آتاہے۔

انشاکے عہد کا سماج بھی ذات پات، بھید بھاؤ اور اونچ نیچ کے بندھن میں بندھا ہواتھا،جس کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب سورج بھان، راجہ جگت پرکاش کے پاس رانی کیتکی کا ہاتھ مانگنے کے لیے ایک برہمن کو بھیجتے ہیں۔

اس عہد میں شادی بیاہ کی جو رسم تھی اسے بھی انشا نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ اس کہانی میں پیش کیا ہے اور اس موقع پر استعمال ہونے والے محاورات اور عورتوں کے مخصوص طبقے کی زبان کو انھوں نے بھر پور طریقے سے کہانی میں استعمال کیا ہے،جس سے وہ پورا عہد آنکھوں کے سامنے پھر جا تا ہے۔

انشا نے جس وقت یہ کہانی لکھی وہ کہانیوں کا ابتدائی دور تھا اس لیے اس میں جو کچھ پیش کیا گیا ہے ان کا اپنا تجربہ ہے جو منفرد اور جداگانہ ہے۔

رانی کیتکی کی کہانی میں مقفیٰ و مسجع عبارت کی جلوہ گری ہے اور کئی مقامات پر اس طرح کی عبارتیں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔

انشا ء اللہ خاں انشا کی زبان دانی کے تعلق سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ انھیں نہ صرف ہندوستانی زبانوں پر عبور حاصل تھا بلکہ وہ عربی و فارسی زبان کے بھی عالم تھے،ترکی اور ہندی زبان میں بھی اچھی دستگاہ رکھتے تھے۔ رانی کیتکی میں انھوں نے بہت سارے لفظوں کا ترجمہ اس طرح کیا ہے کہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ یہ ترجمہ ہیں۔

رانی کیتکی کی کہانی نثری داستان ہے،لیکن انشاء اللہ خاں انشا نے اس کہانی میں بعض مقامات پر دو ہے وغیرہ بھی لکھے ہیں۔شاعری ؍دوہے کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ یہاں بھی انشا نے اپنے فن کا جوہر دکھایا ہے،یہ الگ بات ہے کہ جو شاعری اس کہانی میں شامل کی گئی ہے وہ بہت بلند پایہ یا معیاری شاعری نہیں کہی جاسکتی، لیکن بیشتر مقامات پر اشعار یا دو ہے موقع و محل کے حساب سے استعمال ہوئے ہیں اور متعلقہ جگہ کے لیے بالکل مناسب اور بر محل ہیں۔

رانی کیتکی کی کہانی میں انشا نے یہ التزام کیا ہے کہ اس میں ہندوی یا ہندوستانی کے علاوہ غیر زبان مثلاعربی و فارسی وترکی وغیرہ کے الفاظ شامل نہ ہوں۔

کلیدی الفاظ

فورٹ ولیم کالج، نثری داستان، طبع زاد داستان، ہندوی چھٹ،بولی سے پٹ، باہر کی بولی، ہندوستانی تہذیب ومعاشرت، رزم، بزم، طلسم، عیاری، شکار، جنگ، مہم، گھوڑا، انگوٹھی، طلسمی بال، بھبھوت، اڑن کھٹولہ،ہرن اور ہرنی وغیرہ۔

——————

سید انشاء اللہ خاں انشا(1754-1817) ولدحکیم میرماشاء اللہ خاںولد حکیم میرنوراللہ خاں کے بزرگوںکا وطن نجف اشرف تھا۔آبائی پیشہ طبابت تھا۔ایک روایت کے مطابق اسی پیشے کی وجہ سے بزرگوں کی آمدہندوستان(دلی)میںہوئی۔

خاندانی پیشے کی شہرت و ناموری نے دربار شاہی تک پہنچایا،اور میر ماشاء اللہ خاں دربار شاہی کے طبیب ہو گئے۔انشا کے دادا نے تو دلی میں ہی مستقل طور پر سکونت اختیارکر لی،ان کے والد میر ماشاء اللہ خاں دلی شہر سے نکل کر مرشدآباد پہنچ گئے،وہیں انشاء اللہ خاں انشا پیدا ہوئے۔میر ماشاء اللہ خاں جہاں بھی رہے قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ان کے خاندانی صفات و کمالات کا اہل دلی و لکھنؤکو بہت پاس و لحاظ تھا۔اس ضمن میں محمد حسین آزاد نے ’آب حیات ـــ‘میںایک واقعہ نقل کیا ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسے یہاں نقل کر دیا جا ئے۔ملا حظہ فرمائیں:

’’ان کے خاندان کی خوبیوں اور گھر کے چال چلن کو دلی اور لکھنؤ کے شرفا سب مانتے تھے۔ادنیٰ نمونہ یہ ہے کہ ان کے ہاں عورتوں کی پوشاک گھر میں دھوتے تھے یا جلا دیتے تھے۔دھوبی کو نہ دیتے تھے کہ نا محرم کے ہاتھ میں عورتوں کا لباس نہ جائے۔‘‘

                        (آب حیات:محمد حسین آزاد،اتر پردیش اردو اکادمی،لکھنؤ،1998،ص247)

جب بنگال کی حالت نا گفتہ بہ ہو گئی تو میر ماشاء اللہ خاں لکھنؤ آ گئے،اس وقت انشا کی عمر تقریباً سولہ برس کی تھی۔لکھنؤ میں نواب شجاع الدولہ کا زمانہ تھا،انشا رفتہ رفتہ ان کے درباریوں میں شامل ہو گئے۔شجاع الدولہ کے انتقال کے بعد دلی پہنچے اور شاہ عالم کے دربار میں جگہ مل گئی،چونکہ شاہ عالم خود بھی شاعر تھے اور شعروسخن میں دلچسپی رکھتے تھے،اس لیے وہاں انشا کی شاعری اور لطائف و ظرائف خوب پروان چڑھے۔دلی میں انشا ء اللہ خاں انشا کا قیام1782سے1788تک تھا، اس کے بعد انشا پھر لکھنؤ آ گئے۔یہاں ان کی زندگی میںمتعدد نشیب و فراز آ ئے۔آخر کارنواب سعادت علی خاں سے قربت ہوئی۔انشا کی زندگی کا یہ دوربہت ہی رنگین تھااور ہنگامہ خیز بھی۔تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں، بس انشا کا مختصر تعارف پیش کرنا مقصود ہے۔(ملاحظہ فرمائیںآب حیات:محمد حسین آزاد)

انشاکی تعلیم و تربیت اور شخصیت کا تذکرہ کرتے ہوئے محمد حسین آزاد لکھتے ہیں:

’’جس طرح اگلے وقتوں میں خاندانی امیر زادے تعلیم پاتے تھے اسی طرح سید انشا کو سب ضروی علوم و فنون سے ماہر کیا۔ باپ کے لیے مثال دے سکتے ہیں کہ عزیز بیٹے کو اس خوبصورتی سے تعلیم کیا مگر بیٹا جو جوہر دار طبیعت اپنے ساتھ لایا تھا، ا س کی کوئی مثال نہیں ہے۔ جب یہ ہونہا ر نونہال تعلیم کے چمن سے نکلا تو ہر ریشہ میں کونپل، پتے،پھول، پھل کی قوا ئے مختلفہ موجود تھیں، اس طرح کہ جس سرزمین پر لگے وہیں کی آب و ہوا کے بموجب بہار دکھلا نے لگے۔ ایسا طباع اور عالی دماغ آدمی ہندوستان میں کم پیدا ہوا ہوگا۔ وہ اگر علوم میں سے کسی ایک فن کی طرف متوجہ ہوتے تو صدہا سال تک وحید عصر گنے جاتے۔ طبیعت ایک ہیولا تھی کہ ہر قسم کی صورت پکڑ سکتی تھی۔ باوجود اس کے شوخی اس قدر کہ سیماب کی طرح ایک جا قرار نہ تھا… ان کی طبیعت جو شیر کی طرح جھوٹا نہ کھاتی تھی،پیشہ آبائی پر نہ مائل ہوئی۔ (آبِ حیات، ص 248)

 اردو ادب کے قارئین سید انشاء اللہ خاں انشا سے بطور شاعر تو بہت اچھی طرح واقف ہیں، لیکن ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے ان کی شناخت بہت بعد کو ہوئی، جب ان کی دو افسانوی تحریروں یا کہانیوں کا علم ہوا۔ اولاً ’رانی کیتکی کی کہانی‘ جس کی تحقیق بابائے اردو مولوی عبد الحق نے کی اور ثانیاً ’سلک گوہر‘ معروف محقق اور ماہر غالبیات مولانا امتیاز علی خاں عرشی نے دریافت کیا۔ زیر نظر مضمون میں ان دونوں کہانیوں سے متعلق تحقیقی نقطۂ نظر سے کوئی گفتگو کرنی مقصود نہیں ہے، البتہ رانی کیتکی کی کہانی کا مطالعہ پیش کرنا ہے، جن میں بیشتر تنقیدی اور ضمناً تحقیقی امور زیر بحث آئیںگے۔

جب ہم انشا کے کارناموں کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں مختلف چیزیں نظر آتی ہیں، جن میں شعری اور نثری اصناف کی ایک طویل فہرست ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسے یہاں نقل کر دیا جائے۔ شعری اصناف کے ذیل میں دیوان غزلیات اردو، دیوان ریختی، قصائد اردو و فارسی، دیوان غزلیات فارسی، مثنویاں (اردو اور فارسی)، ہجویات(کچھ کیڑے مکوڑے کے حوالے سے، بعض شخصیات کے بارے میں)، دیوان بے نقط، شرح ماہ عامل نظم فارسی، متفرق اشعار (رباعیات، قطعات، فردیات، پہیلیاں وغیرہ)۔

دریائے لطافت( جس کا پہلا حصہ انشا نے اور دوسرا حصہ مرزا قتیل نے لکھا ہے)،لطائف السعادت (پچپن لطیفوں کا مجموعہ)، ترکی روزنامچہ، رانی کیتکی کی کہانی (عربی و فارسی لسانی اثر سے مبرا زبان لکھنے کا تجربہ)،سلک گوہر (غیر منقوط نثر لکھنے کا تجربہ) وغیرہ۔

جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے کہ انشا نے دو کہانیاں تصنیف کی ہیں، سلک گوہر اور داستان رانی کیتکی اور کنور اودے بھان کی۔ دونوں کہانیوں میں انشاء اللہ خاں انشا نے کچھ تجربات بھی کیے ہیں۔ اس پس منظر میں مشہور افسانہ نگار انتظار حسین رقم طراز ہیں:

’’اردو میں اب تک شاعری کی روایت تو مختلف مرحلے طے کر چکی تھی، وہاں شاعر کے لیے نئے نئے تجربے کرنے کی گنجائش تھی، مگر اردو نثر نے ابھی زیادہ مرحلے طے نہیں کیے تھے۔ بیان کے اسلوب ابھی بن رہے تھے ایسے میں تجربے کرنے کی نیت کرنا جان جوکھوں کا معاملہ تھا، مگر انشا نے دو کہانیاں لکھ کر اردو نثر میں دو تجربے کر ڈالے۔ سلک گوہر غیر منقوط نثر لکھنے کا تجربہ ہے، رانی کیتکی کی کہانی خالص اردو لکھنے کا تجربہ ہے۔ اپنے اوپر اظہار کی پابندیاں عائد کرنا اور ان پابندیوں پر عبور پا کر اپنی قدرت اظہار کا ڈنکا بجانا، یہ سید انشا کا خاص شوق تھا۔ اس شوق میں انھوں نے نظم ونثر دونوں میدانوں میں مختلف تجربے کیے۔‘‘

(انشا کی دو کہانیاں:رانی کیتکی اور سلک گوہر، مرتبہ انتظار حسین، مجلس ترقی ادب، لاہور، اشاعت دوم، 2008، ص22)

انشاء اللہ خاں انشا کی مشہور زمانہ تصنیف’رانی کیتکی کی کہانی‘تاریخی اور لسانی دونوں اعتبار سے اہمیت کی حامل ہے اور ہندی و اردو دونوں زبانوں میں مقبول و معروف ہے۔اس کے سال تصنیف ؍ تالیف کے بارے میںاختلاف رائے پایاجاتاہے۔ہندی اور اردو کے بیشتر محققین کے مطابق اس کا سنہ تصنیف 1803ہے۔ گیان چند جین کے مطابق یہ کہانی 1803سے قبل وجود میں آچکی تھی،لیکن پر مانند سریواستوکا خیال ہے کہ یہ کہانی 1800-1810کے درمیان لکھی گئی۔بابو شیام سند رد اس نے اسے 1799-1808کے درمیان کی تصنیف مانا ہے۔ ہندی زبان و ادب کے مشہور ناقد و محقق پروفیسر رام چندرشکل رانی کیتکی کی کہانی کازمانۂ تصنیف1798-1803کے درمیان قراردیتے ہیں۔رام بابو سکسینہ اور مولانا احسن مارہروی نے اس کہانی کا سنہ تصنیف 1803لکھا ہے۔ ماہر غالبیات اور مشہور محقق مولانا امتیاز علی خاں عرشی نے  1808کو اس کاسنہ تصنیف قراردیا ہے۔

پروفیسر گیان چند جین اپنی مشہور زمانہ تصنیف ’اردو کی نثر ی داستانیں ‘ میں اس اختلاف کے اسباب پرروشنی ڈالتے ہوئے رقم طراز ہیں :

’’کتب خانۂ رام پور میں انشا کے تر کی روزنامچے کے چند اوراق متعلق بہ 1808/223ھ ہیں۔ اسی سال میں ایک روز حسین علی خاں بہادر کی فر مائش پر انشا نے یہ ٹھیٹ ہندوستانی جملہ کہا:’’ پرانے دھرانے ڈاگ بوڑھے گھاگ سر ہلا کر منہ تھتھا کر ناک بھوں چڑھا کر یہ کھڑاگ لائے ‘‘۔چونکہ یہ جملہ رانی کیتکی کی کہانی میں موجود ہے اس سے عرشی صاحب نے استدلال کیا کہ کیتکی کی کہانی اس کے بعد کی تصنیف ہے۔ حالانکہ یہ صاف نظر آتا ہے کہ یہ جملہ کوئی آزاد حیثیت نہیں رکھتا بلکہ پہلے سے لکھے ہوئے کسی بیانیے میں سے نکال کر پیش کیا گیا ہے۔یعنی رانی کیتکی کی کہانی اس سے قبل موجود تھی۔روزنامچے کے اقتباس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ کیتکی کی کہانی 1808 کے بعد لکھی گئی بلکہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ 1808تک لکھی جا چکی تھی۔ہندی ساہتیہ کے اتہاس میں رام چندر شکل نے اس کہانی کا زمانہ 1798اور 1803کے درمیان قیاس کیا ہے۔ کہانی میں سعادت علی خاں کی مدح ہے، 1798اس کاسال جلوس ہے لیکن آخری سال یعنی 1803کے تعین کی کوئی وجہ ظاہر نہیں کی گئی۔ فی الحال یہی قرین قیاس معلوم ہوتا ہے کہ 1803تک یہ کتاب وجود میں آچکی تھی۔‘‘

(اردو کی نثری داستانیں،ڈاکٹر گیان چند جین،انجمن ترقی اردو پاکستان،کراچی 1969، ص 241)

رانی کیتکی کی کہانی کی دریافت کا سہرا لامار نیٹیز کالج لکھنؤ کے پرنسپل ڈبلیو،ایل کلنٹ کے سر ہے، جنھوں نے اس کہانی کو پہلی بار 1852اور 1855کے درمیان میں رسالہ ایشیاٹک سوسائٹی آف بنگال، کلکتہ میں قسط وار شائع کیا تھا،لیکن اس میں اغلاط بہت تھیں۔مولوی عبدالحق نے اس کی تصحیح کر کے اسے رسالہ اردو کے شمارہ اپریل 1926میں شائع کیا۔ پہلی بار رانی کیتکی کی کہانی انجمن ترقی اردو، اورنگ آباد دکن سے 1933میں ’داستان رانی کیتکی اور کنور اودے بھان کی ‘ کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوئی۔اس کے بعد رام پور رضا لائبریری کے دومخطوطوں کی روشنی میں ایک نیا تصحیح شدہ ایڈیشن 1955میں مولانا امتیاز علی خاں عرشی نے اختلافات نسخ کے ساتھ شائع کیا۔مولانا عرشی کی مرتبہ مذکورہ کتاب انجمن ترقی اردو پاکستان، بابائے اردو روڈ کراچی سے 1955کے علاوہ 1975 اور 1986 میں بھی شائع ہوئی۔ یہاں ضمناً اس بات کا ذکر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ 1955میں جو ایڈیشن مولانا عرشی کے حواشی کے ساتھ شائع ہواتھا اس میں بحیثیت مرتب مولانا امتیاز علی خاں عرشی کانام شامل ہونے سے رہ گیا تھا۔اس کے کیا اسباب تھے اس کا علم نہیں ہوسکا ہے، البتہ اس ایڈیشن کے ’حرفے چند ‘ میں جمیل الدین عالی نے جو انجمن کے معتمد اعزازی تھے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اس کے لیے بابا ئے اردو مولوی عبدالحق نے معذرت بھی کی تھی اور پھر تیسرے ایڈیشن( جو 1975میں شائع ہواتھا) میںمولانا امتیاز علی خاں عرشی کا نام مرتب کی حیثیت سے شامل کیا گیا۔اور ساتھ میں مولوی عبد الحق اور سید قدرت نقوی کا نام بھی بحیثیت مرتب شامل ہے۔

یہاں اس بات کی نشاندہی بھی ضروری اور مناسب معلوم ہوتی ہے کہ مولانا عرشی نے جو اختلافات نسخ حواشی میں درج کیے تھے جس کا ذکر گزشتہ صفحے پر کیا جا چکا ہے مذکو رہ تیسرے ایڈیشن میں نہ تو وہ حواشی شامل کتاب ہیں اور نہ ہی ان کی کوئی دوسری تحریر۔بہر حال یہ تحقیق کا موضو ع ہے کہ اس کے پیچھے کیا اسباب رہے ہیں،یہ بات اہل علم کے سپر دہے۔

رانی کیتکی کی کہانی کے متعدد ایڈیشن اب تک شائع ہوچکے ہیں،جن پر اہل علم کی قیمتی اور معرکۃ الآرا تحریریں بھی شامل ہیں اور جنھوں نے مرتب کیا ہے ان کے بیش قیمت مقدمے ؍دیباچے بھی اس کتاب کی زینت بنے ہیں، ان میں مولوی عبد الحق،سید سلیمان حسین، بابو شیام سندر داس، انتظار حسین، پروفیسر افغان اللہ خاں، پروفیسر عبدالستار دلوی اورپروفیسر صاحب علی وغیرہ کے نام اہمیت کے حامل ہیں۔

رانی کیتکی کی وجہ تسمیہ پر اگر غور کیا جائے تو یہ دلچسپی سے پر ہے۔داستانوں کا یہ رواج رہا ہے کہ اکثروبیشتر پھو لوں اور درختوں کے پتوں کے نام پر ان کے نام رکھے گئے ہیں۔مثال کے طور پر گل بگاؤلی، گل صنو بر اور انار کلی وغیرہ۔ان میں گل بگاؤلی اور انار کلی یہ دونوں نام زبان زدہیں ان کی مقبولیت کسی سے مخفی نہیں۔ خود انشاء اللہ خاں انشا نے اپنے اشعار میں بھی بہت سے پھولوں کو کنیزوں کے روپ میں پیش کیا ہے۔ سید قدرت نقوی نے مقدمے میں بعض اشعار نقل کیے ہیں۔ ملاحظہ ہوں     ؎

اے نوبہار سوچ میں ہوں میںکہ کیاکہوں

کس گل کو دوں مشابہت اس کے بدن کے ساتھ

کیا چیز ہے گلاب،کلی اس کو جو پلشٹ

کر بیٹھے ٹک مقابلہ اس کے دہن کے ساتھ

نر گس میں کیتکی میں نہ رابیل میں کہیں

جو باس ہے رچی ہوئی اس پیرہن کے ساتھ

چنپا میں موگرے میں مدن بان میںکہاں

ہے نازکی کی تہ سی جو ایک اس کے تن کے ساتھ ‘‘

(داستان رانی کیتکی... مولوی عبدالحق،مولانا امتیاز علی عرشی،سید قدرت نقوی،انجمن ترقی اردو پاکستان،کراچی 1986،مقدمہ)

اگر مذکو رہ کہانی کی بات کی جائے تو انشا نے کیتکی نام داستان کی اسی روایت کی مناسبت سے رکھا ہے، جن میں داستان کے لیے پھو لوں وغیرہ کے نام تجویز کیے جا تے تھے۔اس کہانی میں کیتکی کی سہیلی مدن بان بھی ہے جو اصل میں ایک پھو ل کا ہی نام ہے۔سید قدرت نقوی نے لفظ کیتکی کے تعلق سے بعض تفصیلات بھی پیش کی ہیں۔ ملاحظہ ہو:

’’کیتکی کا درخت شکل میں صنوبر سے مشابہ ہوتا ہے۔قد تقریبا سواگز،پھول بے حد خوشبو دار ہوتا ہے۔پھو ل کی پتیاں تقریباً بارہ ہوتی ہیں،پھو ل کی جسامت انڈے جتنی ہوتی ہے، رنگ زردی مائل سفید ہوتا ہے۔اس کا درخت بقول بعض تقریبا چھ سات سال میں پھولتا ہے۔کیوڑے سے اس کو قریبی مناسبت ہے،انشانے تو ایک شعر میں کیتکی کو کیوڑے کی مادہ قرار دیا ہے   ؎

ہے کیوڑے کی مادہ کیا چیز کیتکی جو

اس بو کو تیری پہنچے وہ بوغماچمن میں

غرض کیتکی اور کیوڑے میں قربت،مناسبت اور تعلق ضرور ہے،کیوڑے کادرخت قدرے بلند اور خوشبو تیز ہوتی ہے۔ کیتکی کی خوشبو اس سے کم مگر بھینی ہوتی ہے۔‘‘  

   (ایضاً، مقدمہ۔سید قدرت نقوی)

اس کہانی پر تفصیلی گفتگو کرنے سے قبل مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس کا خلاصہ پیش کر دیا جائے۔ رانی کیتکی کی کہانی کا خلاصہ اس طرح ہے۔کسی دیس میں سورج بھان نام کا ایک راجہ تھا اس کا ایک ہی بیٹا جو کنور اودے بھان کے نام سے مشہور تھا، ایک دن وہ گھوڑے پر سوار ہوکر شکا ر کھیلنے کی غرض سے جنگل کی طرف بہت دور چلاگیا اور ایک خوبصورت ہرنی کا پیچھا کر تے ہوئے راستہ بھول گیا۔وہیں اس نے آم کے باغ میں چند خوبصورت دوشیزائوں کو جھولا جھولتے ہوئے دیکھا۔انھی لڑکیوں میں راجہ جگت پرکاش کی حسین اور خوبصورت بیٹی رانی کیتکی بھی تھی۔کنور اودے بھان کی ملاقات اس سے ہو تی ہے اور دونوں کا دل ایک دوسرے پر آجاتا ہے۔کیتکی کی ایک ہمرازمدن بان تھی،اس کو ایک ترکیب سوجھی کہ دونوں اپنی اپنی انگو ٹھیاں آپس میں بدل لیں،ایسا کر نے کے بعد کنور اودے بھان نے رات بھر آرام کیا اور صبح کو گھر چلاگیا۔گھر پہنچنے کے بعد اس کی حالت غیر ہورہی تھی کسی پل اس کو چین وسکون نہ ملتا تھا۔جب اس کے والدین کو معلوم ہوا توانھوں نے شادی کا پیغام رانی کیتکی کے باپ راجہ جگت پرکاش کے پاس بھیج دیا،لیکن راجہ جگت پرکاش شادی کے لیے راضی نہیں ہوئے اور دونوں میں جنگ چھڑ گئی۔ راجہ جگت پر کاش نے اپنی شکست کو دیکھتے ہوئے اپنے گر وجو گی مہندر گر جو کہ کیلاس پہاڑ پر رہتا تھا اپنی مدد کے لیے بلالیا۔اس نے آتے ہی جا د و کے زور سے سورج بھان، ان کی بیوی لچھمی باس اور کنور اودے بھان کو ہرن ہرنی بنا کر جنگل میں چھوڑ دیا۔مہندر گر نے جا تے ہوئے راجہ کو شیر کی کھال میں سے ایک بال توڑ کر دیا کہ جب بھی میری مدد کی ضرورت ہو یہ بال آگ پر رکھو گے ہم حاضر ہوجائیں گے، ساتھ ہی بھبھوت بھی دیا،جسے آنکھ پر لگانے سے وہ سب کو دیکھ سکے گاپر اسے کوئی بھی نہیں دیکھ سکے گا۔ رانی کیتکی کسی طرح بھبھوت حاصل کر کے آنکھوں میں لگاکر جنگل میں اپنے ہرن کنور اودے بھان کی تلاش میں نکل پڑی۔ادھر رانی کیتکی کی گم شدگی کی وجہ سے راجہ جگت پر کاش پریشان تھے،بالآخر مدن بان رانی کیتکی کو ڈھونڈ کر لاتی ہے۔راجہ جگت پر کاش نے اپنی مدد کے لیے مہندر گر اور راجہ اندر کو بلایا، انھوں نے اودے بھان وغیرہ کو ڈھونڈ کر پھر سے اصل روپ میں کیا اس کے بعد کنور اودے بھان اور رانی کیتکی کی شادی بڑی دھوم دھام سے کر دی جاتی ہے۔

کہانی میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ کنور اودے بھان ایک دن گھوڑے پر سوار ہو کر شکار کھیلنے کی غرض سے جنگل میں بہت دور چلا گیا اور ایک خوبصورت ہرنی کا پیچھا کرتے کرتے راستہ بھول گیا۔ عجمی افسانوی روایت اور ہندی افسانوی روایت دونوں میں خطر پسند مہم جٗو شہزادے راستہ بھولتے ہیں اور مشکلات میں پھنستے ہیں۔ اس گفتگو کی روشنی میں انتظار حسین کا تبصرہ نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے جو انھوں نے راستہ بھولنے کی روایت اور جادو کے زور سے ہرن ہرنی بننے کی روایت کو اس کے حقیقی روپ میں پیش کیا ہے۔ انتظار حسین کی تحریر ملاحظہ ہو:

’’ہندی افسانوی روایت میں شہزادہ بالعموم ہرن یا ہرنی کا پیچھا کرتے ہوئے رستہ بھولتا ہے۔ ہرن، ہندی کہانیوں میں چھل فریب کی علامت ہے۔ شاید یہ رامائن کا اثر ہے۔ راجہ رام چندر جی ایک خوبصورت ہرن کا پیچھا کرتے ہوئے کہیں سے کہیں نکل گئے۔ آخر میں پتہ چلا کہ وہ ہرن نہیں تھا، وہ تو راون نے یہ بھیس لیا تھا۔ ہرن مختلف ہندی کہانیوں میں شہزادوںکو اسی طرح جُل دیتا ہے۔ ظاہر میں ہرن حقیقت میں کچھ اور۔ چندربھان(سہواً چندر بھان ہے،اصلاً اودے بھان ہونا چاہیے) ایک خوبصورت ہرنی کا پیچھا کرتے کرتے راہ سے بے راہ ہوتا ہے۔ یہ راہ عشق کی طرف مڑ جاتی ہے۔ غزال صفت کیتکی کے عشق میں خراب ہو کر خود ہرن بن جاتا ہے۔ گرو مہندر گر کے قہر نے اسے ہرن بنایا تھا۔ گرومہندر گر کی دیا ہی سے وہ واپس آدمی کی جون میں آتا ہے۔ عشق کا سفر یوں پورا ہوتا ہے اور کیتکی سے اس کا ملاپ ہوتا ہے۔‘‘ (انشا کی دوکہانیاں، ص 29)

اردو کی زیادہ تر داستانیں عربی،فارسی اور سنسکرت سے ترجمہ ہوئی ہیں۔ اردومیں داستان گوئی کو عروج بخشنے اور آسان زبان میں عوام تک پہنچانے میں فورٹ ولیم کالج نے اہم کردار ادا کیا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ فورٹ ولیم کالج میں کئی اہم داستانوں کااردو میں ترجمہ کیا گیا یا عوامی زبان کا جامہ پہنایا گیا۔ اسی دور میں جبکہ داستانیں مختلف زبانوں سے اردو میں ترجمہ ہو رہی تھیں،انشاء اللہ خاں انشا نے ایک طبع زاد داستان رانی کیتکی کی کہانی کے نام سے تصنیف کی۔رانی کیتکی کی کہانی کو دو لحاظ سے شرف تقدم حاصل ہے،ایک تو یہ کہ باغ وبہار اور فسانۂ عجائب کے مقابلے میں مختصر ترین ہے اور دوسرے طبع زاد ہے۔داستان کی بنیادی شرط اس کی طوالت ہے،چونکہ انشا کا سارا زور زبان پر ہے اس لیے یہ داستان طویل نہ ہو کر مختصر ہے۔

داستانوں میں بنیادی طور پر چا ر چیزیں پائی جاتی ہیں۔ رزم، بزم،طلسم اور عیاری۔اس نقطۂ نظر سے اگر رانی کیتکی کی کہانی کا مطالعہ کیا جائے تو یہ عناصر اس میں کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی صورت میں ضرور نظر آتے ہیں۔داستان کی شعریات کی اگر بات کی جائے تو داستان میں دلچسپی کوبھی بنیادی اہمیت حاصل ہے اور رانی کیتکی کی کہانی میں دلچسپی بدرجۂ اتم موجود ہے۔

ناو ل کے برخلاف داستان میں کوئی طے شدہ پلاٹ نہیں ہوتا ہے، جہاںتک رانی کیتکی کی کہانی کے پلاٹ کی بات ہے تو اس کا پلاٹ سادہ اور سپاٹ ہے،اور کسی داستان یا کہانی سے ماخوذ نہیں ہے۔کہانی بالکل سیدھے سادے انداز میں بیان ہوئی ہے۔اس داستان میں آغاز،وسط، نقطئہ عروج اور انجام بھی ہے اور کہانی پن ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں ارتقا بھی پایا جاتا ہے۔

انشاء اللہ خاں انشا کی رانی کیتکی کی کہانی میں دو کر دار زندہ ٔجاوید ہیں،ایک اس کہانی کا ہیرو کنوراودے بھان اور دوسری اس کی ہیروئن رانی کیتکی، ان دونوں کر داروں کے علاوہ کوئی اور زندہ یا بھر پور کردار نظر نہیں آتا،البتہ ضمنی کرداروں میں ایک اہم نام مدن بان کا ہے جو رانی کیتکی کی سہیلی اور ہم راز ہے۔ یہاں بھی یہی کہہ سکتے ہیں بقول پروفیسر صاحب علی:

’’ انشا کا مقصد زبان وبیان کا ایک انوکھا نمونہ پیش کر نا تھا نہ کہ بہترین اور عمدہ داستان لکھنا یا کردار نگاری کا نمونہ پیش کر نا۔اس داستان میں سارا زور اسلوب اور زبان وبیان پر ہے۔‘‘ (ایضاً پروفیسر صاحب علی، شعبۂ اردو، ممبئی یونیورسٹی، ممبئی2011، ص 16)

رانی کیتکی کی کہانی کوکر داروں کے تعلق سے اگر دیکھا جائے تو اس کا سب سے پُراثر کردار رانی کیتکی ہے اور وہ پوری کہانی کے مرکز میں ہے۔وہ بہت شوخ،چنچل اور پُر عزم ہے۔دوسرا بااثر کردار مدن بان کا ہے، جو رانی کیتکی کی دکھ درد کی ساتھی ہے۔اس کے علاوہ راجہ جگت پرکاش،مہندر گر وغیرہ ہیں جو اپنا اثر دکھانے میں کامیاب ہیں۔

کردارنگاری کے بعد واقعہ نگاری بھی کمال کی ہے۔یہ کہانی ہندوستا نی سرزمین سے تعلق رکھنے کے علاوہ ہندوستانی تہذیب و معاشرت کی بہترین عکاس ہے۔ داستان کی پوری فضا اور ماحول ہندوستانی ہے اور کردار ہندوستانی زبان بولتے ہیں۔شادی بیاہ،سیر وشکار،جادو ٹونا اور ہجر و وصال وغیرہ کے مناظر اس عہد کی معاشرت اور تہذیب وتمدن کا احساس دلاتے ہیں۔

رانی کیتکی کی کہانی میں قصہ ہندوانی ہے اور انشاء اللہ خاں انشا نے ہندوتہذیب ومعاشرت کا بھرپور مطالعہ ومشاہدہ کیاتھا،یہی وجہ ہے کہانی میں جگہ جگہ اس کا عکس صاف طورپر نظر آتاہے۔ بعض مثالیں ملاحظہ ہوں۔

جب اودے بھان تھکاماندہ آم کے باغ میں پہنچتا ہے تو اسے لال جوڑا پہنے ہوئے رانی کیتکی نظر آئی جو اپنی سہیلیوں کے ساتھ جھولا جھول رہی تھی،ایک اجنبی چہرہ دیکھ کر پہلے وہ ٹھٹھک جا تی ہے،لیکن جب کنور اودے بھان اس کی منت سماجت کر تاہے کہ میں تھوڑی دیر آرام کرنا چاہتاہوں تب کیتکی نے اپنی سہیلیوں کی طرف مخاطب ہوکر کہا:

’’نہ جی،بولیاں ٹھولیاں نہ مارو۔ان کو کہہ دو،جہاں جی چاہے اپنے پڑرہیں اور جو کچھ کھانے پینے کو مانگیں سو انھیں پہنچادو۔گھر آئے کو کسی نے آج تک مار نہیں ڈالا۔ان منہ کا ڈول گال تمتمائے اور ہوٹھ پپڑائے اور گھوڑے کا ہانپنا اور جی کا کانپنا اور گھبراہٹ اور تھر تھراہٹ اور ٹھنڈی سانسیں بھرنا اور نڈھال ہوکر گرے پڑنا ان کو سچا کر تا ہے۔ بات بنائی اور سچوٹی کی کوئی چھپتی ہے؟ پر ہمارے اوران کے بیچ میں کچھ اوٹ سی کپڑے لتے کی کردو۔‘‘

               (داستان رانی کیتکی مولوی عبدالحق،ایجوکیشنل بک ہاؤس،علی گڑھ، سنہ ندارد،ص 16)

انتظار حسین رقم طراز ہیں:

’’رانی کیتکی کی کہانی براہ راست کسی قدیم سنسکرت کہانی کا ترجمہ نہیں ہے، مگر جن اجزا و عناصر سے اس کہانی کا خمیر اٹھا ہے وہ فکشن کی اسی قدیم ہندی روایت ( ہندی نژاد فکشن اور ہندی آمیز اسلوب کی روایت بھی اردو میں بہت پختہ ہے۔ قدیم سنسکرت سے جو کہانیاں اردو میں ترجمہ ہوئی ہیں وہ اسی اسلوب میں ہوئی ہیں۔ مثلاً بیتال پچیسی اور سنگھاسن بتیسی... وغیرہ) سے ماخوذ ہیں اور یہ کہ یہ اجزا و عناصر ہندی اجتماعی تخیل میں رچے بسے ہیں، سو اس کہانی کی تہہ میں ہندو معتقدات اور توہمات کارفرما نظر آئیں گے۔ ‘‘(انشا کی دو کہانیاں، ص 28)

انشاکے عہد کا سماج بھی ذات پات، بھید بھاؤ اور اونچ نیچ کے بندھن میں بندھا ہواتھا،جس کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب سورج بھان راجہ جگت پرکاش کے پاس رانی کیتکی کا ہاتھ مانگنے کے لیے ایک برہمن کو بھیجتے ہیں تو راجہ جگت تحقیر آمیز لہجے میں کہتے ہیں :

’’ اون کے ہمارے ناتا نہیں ہونے کا۔اون کے باپ دادے ہمارے باپ دادوں کے آگے سداہاتھ جوڑکے باتیں کر تے تھے اور جو ٹک تیوری چڑھی دیکھتے تھے تو بہت ڈرتے تھے۔کیاہوا جو اب وے بڑھ گئے اور اونچے پر چڑھ گئے۔جس کے ماتھے ہم بائیں پاؤں کے انگوٹھے سے ٹیکا لگا دیں وہ مہاراجوں کا راجہ ہوجائے،کس کامنہ جو یہ بات ہمارے منہ پر لائے۔‘‘ ( داستان،ص 22)

اس عہد میںشادی بیاہ کی جو رسم تھی اسے بھی انشا نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ اس کہانی میں پیش کیا ہے اور اس موقع پر استعمال ہونے والے محاورات اور عورتوں کے مخصوص طبقے کی زبان کو انھوں نے بھر پور طریقے سے کہانی میں استعمال کیا ہے،جس سے وہ پورا عہد آنکھوں کے سامنے پھر جا تا ہے۔ مثال کے طور پر یہ اقتباس ملاحظہ ہو جس میں انشا نے شادی کے موقع پر عورتوں کی بات چیت کا نقشہ کھینچاہے :

’’اس دھوم دھام کے ساتھ کنور اودے بھان سہر ا باندھے جب دولہن کے گھر تلک آن پہنچا اور جو ریتیں اون کے گھرانے میں ہوتی چلی آتیاں تھیں،ہونے لگیاں،مدن بان رانی کیتکی سے ٹھٹھولی کر کے بولی لیجیے اب سکھ سمیٹیے بھربھر جھولی، سر نہوڑائے کیا بیٹھی ہو؟ آونہ،ٹک ہم تم مل کے جھروکوں سے اونھیں جھانکیں۔رانی کیتکی نے کہا’’نہ ری ایسی نلجی باتیں ہم سے نہ کر ایسی کیا پڑی،جو اس گھڑی ایسی کڑی جھیل کر،ریل پیل کر،اوبٹن اور تیل پھلیل بھرے ہوئے اون کے جھانکنے کو جا کھڑی ہوں ؟‘‘(ایضاً،ص 55)

رانی کیتکی کی کہانی میں انشا نے شادی بیاہ کے تعلق سے مختلف ساز اور باجوں،آتش بازی، رقص و سرود اورناچ گانے کے مختلف طریقوں کے علاوہ اس عہد میں حویلیوں یا گھروں کے نام کس طرح کے ہوتے تھے اورناؤ یا کشتی کی مختلف اقسام کا ذکر انتہائی خوبصورتی کے ساتھ کیاہے۔ مثلاًباجوں کے ذیل میں انھوں نے بین، جلترنگ،مونہ چنگ،گھونگھر و اور کٹ تال وغیرہ کا ذکر کیا ہے،ہتپھو ل، پھلجھڑیاں، جاہی،جوہیاں، کدم، گیندا،چنبیلی وغیرہ مختلف آتش بازیوں کے نام گنائے ہیں۔ناچ گانے کے مختلف طریقوں میں انشا نے دونوں ہاتھ ہلاؤ،انگلیاں نچاؤ،ناک بھنویں تان تان بھاؤ بتاؤ وغیرہ کا ذکر کیا ہے۔گھر وں کے نام کس طرح کے ہوتے تھے اس پر انشا ء اللہ خاں انشا نے روشنی ڈالی ہے مثلا مادھوبلاس، رس دھام،کشن نواس،مچھی بھون اور چندر بھون وغیرہ۔اور کشتیوں کا ذکر کر تے ہوئے اس کے مختلف نام نواڑے،بجرے،لچکے،مور پنکھی، سونا مکھی،سیام سندر،رام سندوغیرہ نام گنائے ہیں۔یہ انشا کی جدت طبع اور ان کی فنکاری کا اعلی نمونہ ہے۔

انشا نے اپنی اس کہانی میں ہندوستانی تہذیب و معاشرت،عیش و عشرت کا سماں مختلف قسم کی تقاریب، شادی بیاہ وغیرہ میں ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا اور آرائش و زیبائش کا نہایت عمدہ نمونہ پیش کیا ہے۔یہ اقتباس ملاحظہ ہو جس میںشادی کے وقت جو اہتمام اور اخراجات ہوتے ہیں اس کی تفصیل بیان کی گئی ہے :

’’وہ اوڑن کھٹولے والیاں جو ادھر میں چھت باندھے ہوئے تھرک رہی تھیں،بھر بھر جھولیاں اور مٹھیاں ہیرے اور موتیوں سے نچھاور کرنے کے لیے او تر آئیاں۔۔۔۔راجا اندر نے دولہن کی منہ دکھائی میں ایک ہیرے کا اکڈال چھپر کھٹ اور ایک پیڑھی پکھراج کی دی اور ایک پارجات کا پودھا جس جس سے جو پھل مانگیے سوہی ملے،دولہن کے سامنے لگادیا۔‘‘ (ایضاًص  62)

اسی موقع کی ایک اور تصویر ملاحظہ ہو:

’’اور سب راج بھر کی بیٹیاں سدا سہاگن بنی رہیں۔۔۔۔سب کو ٹھوں کے ماتھوں پر کیسر اور چندن کے ٹیکے لگے ہوں اور جتنے پہاڑ ہمارے دیس میں ہوں اتنی ہی روپے سونے کے پہاڑ آمنے سامنے کھڑے ہوجائیں اور سب ڈانکوں کی چوٹیاں موتیوں کی مانگ سے بن مانگے تانگے بھر جائیں۔اور پھولوں کے گہنے اور بندن واروں سے سب جھاڑ پہاڑ لدے پھندے رہیں اور اس راج سے لگا اوس راج تلک ادھر میں چھت سی باندھ دو۔‘‘(ایضاً، ص 47)

اس کہانی میں جزئیات نگار ی کی جہاں تک بات ہے تو انشاء اللہ خاں انشا نے کنور اودے بھان اور رانی کیتکی کی شادی کے موقع پر بھرپور نقشہ پیش کیا ہے۔ کیوں کہ شادی کی تقریب ایک ایسا آلہ ہے جس کے ذریعے کسی معاشرت کی بھرپور عکاسی کی جا سکتی ہے۔ اس ضمن میں انتظار حسین لکھتے ہیں:

’’کہانی بیان کرتے کرتے جب اودے بھان اور کیتکی کی شادی کی منزل آتی ہے، تب انشا کا قلم معاشرتی جزئیات نگاری پر مائل ہوتا ہے۔شادی کی تیاریاں، برات، رخصتی، یہ پورا بیان اس کہانی میں جزئیات نگاری کی ایک مثال ہے اور اس کے واسطے سے ایک پورا معاشرہ اپنے رسم و رواج کے ساتھ ہماری آنکھوں میں گھوم جاتا ہے۔یہ بات بھی کچھ نہ کچھ معنی رکھتی ہے کہ انشا نے پوری کہانی میں بس ایک شادی کی تقریب کو جزئیات نگاری کے لیے منتخب کیا ہے۔شاید اس کا مطلب یہ ہے کہ اس تہذیب میں شادی کی تقریب ایک نمائندہ معاشرتی تقریب ہے۔صرف اس ایک تقریب کو بیان کرکے اس پوری معاشرت کا نقشہ پیش کیا جا سکتا ہے۔‘‘(انشا کی دو کہانیاںص،31)

انشا نے جس وقت یہ کہانی لکھی وہ کہانیوں کا ابتدائی دور تھا اس لیے اس میں جو کچھ پیش کیا گیا ہے ان کا اپنا تجربہ ہے جو منفرد اور جداگانہ ہے۔

رانی کیتکی کی کہانی میں مقفیٰ و مسجع عبارت کی جلوہ گری ہے اور کئی مقامات پر اس طرح کی عبارتیں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔مثلاً:

’’جس نے ہم سب کو بنایا اور بات کی بات میںوہ کر دکھایا جس کابھید کسی نے نہ پایا۔‘‘

’’اس کہانی کا لکھنے والایہاں آپ کو جتا تا ہے اور جیسا کچھ لوگ اوسے پکارتے ہیں کہہ سناتا ہے۔‘‘’’اب آپ کان رکھ کے آنکھیں ملاکے سنمکھ ہوکے،ٹک ادھر دیکھیے،کس ڈھب سے بڑھ چلتا ہوں اور اپنے ان پھول کی پنکھڑی جیسے ہونٹوں سے کس کس روپ کے پھول اوگلتا ہوں۔‘‘ ’’کہانی کے جو بن کا ابھار اور بو ل چال کی دولہن کا سنگھار۔‘‘      (داستان...)

انشا ء اللہ خاں انشا کی زبان دانی کے تعلق سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ انھیں نہ صرف ہندوستانی زبانوں پر عبور حاصل تھا بلکہ وہ عربی و فارسی زبان کے بھی عالم تھے،ترکی اور ہندی زبان میں بھی اچھی دستگاہ رکھتے تھے۔

انشاء اللہ خاں انشا کی زبان دانی کے تعلق سے محمد حسین آزاد نے آبِ حیات میں لکھا ہے :

’’ہندوستان کی مختلف زبانیں ان کے گھر کی لونڈی ہیں۔ ابھی پنجاب میں کھڑے ہیں، ابھی پورب میں بیٹھے باتیں کرتے ہیں۔ ابھی برج باسی ہیں۔ ابھی مرہٹے، ابھی کشمیری، ابھی افغان۔ سب زبانوں میں کچھ نہ کچھ کہا ہے۔ ‘‘(آب حیات ص،259)

 رانی کیتکی میں انھوں نے بہت سارے لفظوں کا ترجمہ اس طرح کیا ہے کہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ یہ ترجمہ ہیں۔ بقول سید قدرت نقوی:

’’بات نبھانے کی خاطر انھوں نے بہت سے لفظوں کا ترجمہ ایسے انداز میںکیا ہے کہ پڑھنے والے کو یہ محسوس بھی نہیں ہوتا کہ یہ ترجمہ ہے۔مثلاخالق کے لیے بنانے والا۔ کل کا پتلا،انسا ن،کھلاڑی،کر دگار،بنایا ہوا،مخلوق،بھیجا ہوا،پیغمبر،نبی،رسول وغیرہ قسم کے الفاظ اس کہانی میں ملتے ہیں۔‘‘

(داستان رانی کیتکی ۔۔۔۔مولوی عبدالحق،مولانا امتیاز علی عرشی،سید قدرت نقوی انجمن ترقی اردو پاکستان،کراچی 1986،مقدمہ،ص 22)

گزشتہ صفحات میں ذکر کیا جا چکا ہے کہ رانی کیتکی کی کہانی طبع زاد ہے اور کسی دیگر زبان سے تر جمہ نہیں ہے، نہ ہی کہیں اور سے ماخوذ ہے، بلکہ یہ کہانی انشا کی جدت طبع اور خلا قانہ ذہن کی اختراع ہے لیکن جب ہم اس کہانی کا مطالعہ کر تے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ لفظی صورت میں یہ کہانی کہیں نہ کہیں ترجمہ ضرور ہے، جیسا کہ مذکورہ بالا اقتباس سے بھی معلوم ہوتا ہے۔انشا نے بہت سارے الفاظ کا ترجمہ کرکے اس کہانی میںپیش کیا ہے۔بلکہ اس تعلق سے یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ داستان کا مطالعہ کرتے وقت موجودہ وقت کاقاری اکتا ہٹ اور الجھن کا شکار ہوجاتا ہے،لیکن ایسا کرنا انشا کی مجبوری بھی تھی ورنہ اپنے دعوے میں وہ کامیاب نہیں ہوسکتے تھے، بعض الفاظ ملاحظہ ہوں جن کا ترجمہ کرکے انشا نے کہانی میں استعمال کیا ہے :

            سرجھکا کر ناک رگڑتا ہوں      بڑے ادب کے ساتھ

            کھلاڑی کی سدھ رکھے            خدا کا خیال رکھے

            کل کا پتلا  انسان

            بنانے والا خالق

            کمہار کے کرتب کچھ بتا سکے      خدا کی تعریف بیان کر سکے

            باہر کی بولی             فارسی عربی

            ناک بھوں چڑھا کر   غصہ اور حقارت سے

            اوبھار      آغار

            گٹھ جو ڑا   بیاہ

            مینہ        بارش

            چت چاہی             من چاہی

            سگھڑسے سگھڑ       تمیزدار وغیرہ۔

رانی کیتکی کی کہانی نثری داستان ہے،لیکن انشاء اللہ خاں انشا نے اس کہانی میں بعض مقامات پر دو ہے وغیرہ بھی لکھے ہیں۔شاعری ؍دوہے کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ یہاں بھی انشا نے اپنے فن کا جوہر دکھایا ہے،یہ الگ بات ہے کہ جو شاعری اس کہانی میں شامل کی گئی ہے وہ بہت بلند پایہ یا معیاری شاعری نہیں کہی جاسکتی، لیکن بیشتر مقامات پر وہ اشعار یا دو ہے موقع و محل کے حساب سے استعمال ہوئے ہیں اور متعلقہ جگہ کے لیے بالکل مناسب اور بر محل ہیں۔ مثال کے طور پر داستان کا ابتدائی حصہ جس میں انشا نے حمدباری تعالی لکھی ہے وہاں یہ شعر بالکل بر محل ہے۔ملاحظہ ہو :

آتیاں جاتیاں جو سانسیں ہیں

اس کے بن دھیان سب یہ پھانسیں ہیں

(داستان رانی کیتکی۔۔۔۔۔مولوی عبدالحق،ایجوکیشنل بک ہاؤس،علی گڑھ، سنہ ندارد،ص 10)

انشانے کہانی لکھنے کا جب ارادہ کیا تو ان کا تخیل کس قدر تیز رفتار گھوڑے کے مانند اور بجلی کی طرح چنچل اور اچھلاہٹ میں ہرنی کی مانند کام کر تا ہے اس کا اندازہ ان چار مصرعوں سے لگا یا جا سکتا ہے :

گھوڑے پر اپنے چڑھ کے آتاہوں میں

کر تب جو ہیں سو سب دکھا تا ہوں میں

اوس چاہنے والے نے جو چاہا توابھی

کہتا جو کچھ ہوں کر دکھاتا ہوں میں

(داستان رانی کیتکی، مولوی عبدالحق،ایجوکیشنل بک ہاؤس،علی گڑھ، سنہ ندارد،ص 13)

اودے بھان اور رانی کیتلی کی شادی کے موقع پر جب اودے بھان دولہا بن کر سنگھاسن پر بیٹھتا ہے اور کیتکی سے ملاقات ہوتی ہے اس کا منظر کھینچتے ہوئے انشا نے یہ اشعار پیش کیے ہیں    ؎

دو ہے اپنی بولی کے

اب اودے بھان اور رانی کیتلی دونوں ملے

آس کے جو پھول کملائے ہوئے تھے پھر کھلے

چین ہوتاہی نہ تھاجس ایک کو اس ایک بن

رہنے سہنے سو لگے آپس میں اپنے رات دن

اے کھلاڑی یہ بہت تھا کچھ نہیں تھوڑا ہوا

آن کر آپس میں جو دونوں کا گٹھ جو ڑا ہوا

چاہ کے ڈوبے ہوئے اے میرے داتا سب تریں

دن پھریں جیسے انھوں کے ایسے اپنے دن پھر یں

(داستان رانی کیتکی،مولوی عبدالحق،ایجوکیشنل بک ہاؤس،علی گڑھ، سنہ ندارد،ص 58)

ان اشعار کے مطالعے سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ انشا نے اس کہانی میںکتنی خوبصورتی کے ساتھ اشعار کا استعمال کیا ہے اور کہیں بھی یہ اشعار بے جوڑ اور بے محل نہیں معلوم ہوتے ہیں۔مولوی عبدالحق نے ان دوہوں سے متعلق اپنے دیباچے میں لکھا ہے :

’’جابجا دو ہے ہندی جا مہ پہنے ہوئے ہیں،عبارت کے حسن کو دوبالا کر رہے ہیں۔ اگرچہ آج کل کے تغزل یا شاعری کے معیارسے گرے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔‘‘( ایضاً،ص 9)

جیسا کہ معلوم ہے انشاء اللہ خاں انشا متعدد زبانوں اور بو لیوں کے ماہر اور پارکھی تھے۔اس کا اندازہ ان کے کلیات سے لگایا جا سکتا ہے،جہاں بیشتر زبانوں اور بولی کے اشعار موجود ہیں۔جہاں تک اردو زبان کا معاملہ ہے تو اس کے مختلف رنگ و روپ کو انھوں نے اپنی مشہور کتاب ’دریائے لطافت ‘ میں پیش کیاہے۔

رانی کیتکی کی کہانی میں انشا نے یہ التزام کیا ہے کہ اس میں ہندوی یا ہندوستانی کے علاوہ غیر زبان مثلاعربی و فارسی وترکی وغیرہ کے الفاظ شامل نہ ہوں۔اس ضمن میں محمد حسین آزاد لکھتے ہیں :

’’ایک داستان نثر اردو میں ایسی لکھی ہے کہ ایک لفظ بھی عربی، فارسی کا نہیں آنے دیا۔ باوجود اس کے اُرد وکے رُتبہ سے کلام نہیں گرا۔ ہاں، وہی چوچلے، وہی چہلیں، اس میں بھی چلی جاتی ہیں۔ مقدار میں پچاس صفحہ کی ہو گی۔‘‘ (آ بِ حیات ص،257)

            اس کا اعتراف انھوں نے(انشا ) کہانی کی ابتدا میں کیا ہے :

’’ایک دن بیٹھے بیٹھے یہ بات اپنے دھیان میں چڑھ آئی کہ کوئی کہانی ایسی کہیے جس میں ہندوی چھٹ اور کسی بولی سے پٹ نہ ملے،تب جاکے میراجی پھول کی کلی کے روپ سے کھلے۔باہر کی بولی اور گنواری کچھ اس کے بیچ نہ ہو۔‘‘(داستان،ص  11-12)

انشاء  اللہ خاں انشا کے اس بیان پر اظہار خیال کرتے ہوئے انتظار حسین لکھتے ہیں:

ـ’’اگر چہ اس بیان کا عنوان ہے ’ڈول ڈال ایک انوکھی بات کا ‘مگر یہ بیان یہ ظاہر کرتا ہے کہ مسئلہ صرف انوکھی بات کے ڈول ڈالنے کا نہیں ہے  بلکہ کچھ تجربے ہیں جو انھیں پریشان کر رہے ہیںاور اظہار کے متقاضی ہیں۔وہ غزل کی صنف میں اظہار نہیں ہو پا رہے ہیں۔ان تجربوں کے تقاضے کے تحت سید انشابا لآخر یہ محسوص کرتے ہیں کہ کہانی ایک ایسی صنف ہے جس میں اظہار کر کے وہ ان تجربوں سے عہدہ بر آہو سکتے ہیں۔ غزل میں اظہار ہوا تھا مگر ادھورا، اس لیے جی پھول کی کلی کے روپ نہیں کھلا۔ بس یہ احساس رہا کہ کوئی بات ہے جو پوری طرح معرض اظہار میں نہیں آ رہی۔یک وجدان کے تحت انھوں نے یہ جانا ہے کہ بھرپور اظہار،ایسا اظہار جس کے نتیجے میں جی پھول کی کلی کے روپ سے کھل اوٹھے.....کہانی میں ہو سکے گا۔‘‘(انشا کی دو کہانیاں ص، 27)

انشا کے اس دعوے پر بڑے بزرگوں نے ناک بھوں چڑھائی اور کہا کہ یہ اتنا آسان نہیں ہے کہ ’’ہندوی پن بھی نہ نکلے اور بھا کھا پن نہ ٹھوس جا ئے۔‘‘بقول سید قدرت نقوی :

’’ایسی زبان میں کہانی لکھنے کا سبب یہ ہوا ہوگا کہ جب دریا ئے لطافت کے اس قسم کے اقتباسات کسی بزرگ نے سنے ہوں گے تو انھوں نے کہاہوگا کہ مختصر عبارت لکھ دیناکوئی بڑی بات نہیں،ہم تو جب جانیں کہ ایسی زبان میں کوئی کہانی لکھو کہ جس میں عربی فارسی کا کوئی لفظ نہ آئے،یا یہ خیال خود انشا کے ذہن میں ابھرا ہواور انھوں نے کسی دوست بزرگ سے اس کا اظہار کیا ہو تو بزرگ نے فرمایا ہو کہ ایسی زبان میں کوئی کہانی لکھنا مشکل ہے کہ جس میں عربی وفارسی کا ایک لفظ بھی نہ آئے۔‘‘

(داستان رانی کیتکی مولوی عبدالحق،مولانا امتیاز علی عرشی،سید قدرت نقوی،انجمن ترقی اردو پاکستان،کراچی 1986،مقدمہ ص  18)

یہ کہانی ہندی اور اردو دونوں زبانوں میں یکساں اہمیت کی حامل ہے۔دونوں زبانوں کے محققین اور ناقدین اسے اپنی اپنی زبان کی اولین تصنیف قرار دیتے ہیں۔جب کہ معروف اردو محقق عابد پیشاوری نے خالص اردو تصنیف قرار دیتے ہوئے لکھا ہے :

’’اصلا ًیہ کہانی اردو میں لکھی گئی۔اگر چہ یہ اپنی زبان کے اعتبار سے ہندی،بلکہ ہندوستانی سے زیادہ قریب ہے اور اسی سبب سے ہندی والوں نے اسے اپنایا بھی ہے،لیکن اسلوب کے اعتبار سے یہ خالص اردو ہے۔ہندی بناد ینا بعد کی تحریف ہے۔‘‘(رانی کیتکی۔۔۔۔۔مرتبہ صاحب علی ص 12)

گیان چند جین نے بھی بعض داخلی شواہد کی بنیاد پر اسے اردو کی تصنیف قراردیا ہے اور لکھا ہے کہ ’’رانی کیتکی کی کہانی کو اردو والے بھی اپنا تے ہیں اور ہندی والے بھی۔ذیل کے دلائل پر اسے اردو کی تصنیف قراردینا زیادہ صحیح ہے:

’’.1                  اردو میں ایسی نثر لکھنا جس میں عربی وفارسی کا کوئی لفظ نہ آئے ایک اجتہاد تھا۔ ہندی میں ایسی عبارت لکھنا کسی طرح کمال کی دلیل نہیں۔

.2         قصے کی ابتداء میں اردو کے ڈھنگ پر حمد ونعت ہے۔

.3         قصے میں جتنے اشعار ہیں ایک مقام کے علاوہ وہ سب اردو اوزان میں ہیں۔

.4         انشا اردو کے ادیب تھے۔ہندی میں انھوں نے کوئی دوسری تصنیف نہیں کی۔‘‘

(اردو کی نثری داستانیں، ڈاکٹر گیان چند جین، انجمن ترقی اردو پاکستان،کراچی 1969، ص 241-242)

رانی کیتکی کی کہانی کو تاریخی اور لسانی اہمیت کی حامل کتاب قرار دیتے ہوئے پر وفیسر صاحب علی نے اپنی مرتبہ کتاب رانی کیتکی کی کہانی میں لکھا ہے :

’’انشا نے اس کتاب کے ذریعے کھڑی بولی کو ترقی دی ہے اور کھڑی بولی ہی اردو اور ہندی ان دونوں زبانوں کی بنیاد ہے لہذا رانی کیتکی کی کہانی کی زبان کو ہندوستانی یا ہندوی ہی کہنا زیادہ صحیح ہے جس میں بیرونی زبان کا کوئی لفظ نہیں آیا۔‘‘

     (رانی کیتکی کی کہانی ۔۔۔پروفیسر صاحب علی،مقدمہ)

رانی کیتکی کی کہانی کو لکھنے کے لیے انشا نے یہ اہتمام کیا تھا کہ اس میں عربی، فارسی وترکی الفاظ بالکل استعمال نہ ہوں اس میں وہ کامیاب بھی ہوئے،یعنی اس عہد میں بہت سارے عربی، فارسی وترکی الفاظ اردو میں شامل نہیں تھے، جبکہ آج وہ ہماری زبان میں رائج ہیں،اس لیے انشانے اس عہد کے ہندوستانی الفاظ کو اس کہانی میں شامل کیا ہے۔تلفظ اور املا کی سطح پر بہت سارے ایسے الفاظ مذکورہ کہانی میں شامل ہیں جو آج متروک ہو چکے ہیں یاان کا املا اورتلفظ بدل گیا ہے۔ذیل میں ایسے بعض الفاظ کی فہرست نقل کی جارہی ہے جوانشا نے استعمال کیے ہیں اور آج وہ متروک ہیں یا ان کااملابدل گیاہے:

بن

بغیر

اوس

اس

آبیٹھیاں

مل بیٹھنا

کھلاویں

کھلائیں

روپوں

روپے

سنمکھ

سامنے

ہلاویں

ہلائیں

ملیاں جلیاں

ملنا جلنا

چت چاہی

من چاہی

آنندیں کرنا

چین کرنا

ڈانگ

پہاڑ

 

 ڈاکٹر گیان چند جین کے مطابق :

’’اس کہانی میں ہندی کی سادگی اور انشا کی فطری شوخی کا بڑا کامیاب میل ہے۔یہ عام طور سے تسلیم کر لیا گیا ہے کہ انھوں نے ہندی الفاظ کو بڑے حسن اور سلیقے سے استعمال کیا ہے۔بول چال کے سہل اور سادہ الفاظ میں اس قدر معنویت اور صداقت پیدا کر دیتے ہیں،جو طول طویل بیانات پر بھاری ہیں۔‘‘

     (اردو کی نثری داستانیں،ڈاکٹر گیان چند جین، ص 244)

مندرجہ بالا اقتبا س کی روشنی میں بعض مثالیں ملاحظہ ہوں :

’’.1                 سچ مچ اس کے جو بن کی جو ت میں سورج کی ایک سوت آملی ہے۔

.2                     اب تم اپنی کہانی کہوکہ تم کس دیس کے کون ہو۔

.3                     اے میرے جی کے گاہک۔

.4                     جس کے ماتھے ہم بائیں پانوں کے انگوٹھے سے ٹیکا لگادیں وہ مہار اجوں کا راجا ہوجا ئے۔‘‘

رانی کیتکی کی کہانی میں ایک طرف توسادہ وسلیس اور سہل الفاظ شامل کرکے انشا نے معنویت اور صداقت پیدا کی ہے تو دوسری جانب سنجیدہ عبارت سے گریز کرتے ہوئے بعض ایسے جملے استعمال کیے ہیں، جسے پڑھنے کے بعد بقول گیان چند جین ’متلی ہونے لگتی ہے ‘ اس تعلق سے بعض جملے ملاحظہ ہوں :

’’.1      جو میرے داتا نے چاہاتو وہ تاؤ بھاؤاور کود پھانداورلپٹ جھپٹ دکھاؤں۔(ص 12-13)

’’.2       جتنی ڈھب کی ناویں تھیں،ستھرے روپ سے سجی سجائی، کسی کسائی، سوسو لچکیں کھاتیاں آتیاں جاتیاں لہراتیاں پڑی پھرتیاں تھیں۔(ص 52)

’’.3                   اپنے ملنے والوں میں سے ایک کوئی بڑے پڑھے لکھے پرانے دھرانے بوڑھے گھاگ یہ کھڑاگ لائے۔سر ہلا کر مونہ بنا کر ناک بھوں چڑھا کر آنکھیں پھرا کر۔‘‘  (ص12 )

رانی کیتکی کی کہانی کے تعلق سے زبان پربھی ضمناً گفتگو ہوئی۔یہاں اس بات کا ذکربھی ضروری ہے کہ بعض تحریروں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ انشا نے اس کہانی کانام خود کہیں نہیں لکھا ہے۔اور کہانی کا موجودہ جونام ہے ’’داستان رانی کیتکی اور کنور اودے بھان کی‘‘ مولوی عبدالحق کا تجویز کیا ہوا ہے۔اس تعلق سے ایم حبیب خاں لکھتے ہیں:

’’پہلی بار کتابی صورت میں ’داستان رانی کیتلی اور کنور اودے بھان کی ‘ کے عنوان سے انجمن ترقی اردو اورنگ آباد دکن سے 1933میں مولوی عبد الحق کے دیباچے کے ساتھ شائع ہوئی،لیکن یہ امر تعجب خیز ضرور ہے کہ انشاکی ساری کہانی ہندوستانی میں ہیں،مگر مولوی صاحب نے جب اس کو کتابی صورت میں شائع کیا تو کہانی کا عنوان تجویز کرنے سے پہلے اس پرغور نہیں فرمایا۔داستان فارسی زبان کا لفظ ہے اورکہانی ہندی کا۔‘‘

(اردو کی قدیم داستانیں،حبیب خاں (ایم)،انڈین بک ہاؤس،علی گڑھ 1976، ص62)

            جیسا کہ ذکر کیا جاچکا ہے کہ سید انشاء اللہ خاں انشا صرف اردو ہی نہیں، ہندوستان کی کئی زبانوں پر مہارت رکھتے تھے۔رانی کیتکی کی کہانی میں وہ اپنے دعوے پر بالکل کھرے اترے ہیں، یعنی جوالتزام انھوں نے کیاتھا، اس میں وہ کامیاب بھی ہوئے ہیں۔فارسی،عربی وترکی کا ایک بھی لفظ نہیں استعمال کیا۔اس کہانی کو ایسی ہندوستانی زبان میں لکھا ہے کہ اردو والا بھی سمجھتا ہے اور ہندی والا بھی۔ زبان وبیان بالکل صاف ہے۔بقول مولوی عبدالحق :

’’یہ بھی ہوشیاری کی ہے کہ قصہ ہندوانی رکھا ہے جس میں بہت سے ہندی لفظ بے تکلف کھپ گئے ہیں اور ناگوار نہیں معلوم ہوتے۔قصے کہانی میں تو ایسی زبان نبھ جاتی ہے (اگرچہ وہ بھی آسان نہیں )لیکن ادبی اور علمی مضامین ادا کر نے کی اس میں سکت نہیں۔ ہند و ستانی اگر کوئی زبان ہے یا اگر بنی تو اس کی دوڑ یہیں تک رہے گی۔علم وادب کے میدان میں اس کا ٹکنا دشوار ہے۔‘‘

(داستان رانی کیتکی،مولوی عبدالحق،ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، سنہ ندارد، دیباچہ، ص4)

اس ضمن میں انتظار حسین اپنی رائے پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’انھوں نے ایک ایسی کہانی لکھنے کی ٹھانی جس میں عربی اور فارسی لغت مطلق نہ آئے، مگر شاید اس تجربے کا مفہوم اس پہ وسیع تربھی ہے۔یہ تجربہ اردو زبان کی خود مختاری کا اعلان ہے.....سید انشا ایک ایسے زمانے میں جی رہے تھے جب اردو کو عربی اور فارسی زبانوں کا ضمیمہ سمجھا جاتا تھا۔سید انشا کو  اصرار تھا کہ اردو ان دو زبانوں سے الگ ایک زبان ہے جس کااپنا مزاج اور اپنا قانون ہے۔اس اصرار کے نتیجے میں ایک تو دریائے لطافت لکھی گئی،جہاں اردو زبان کی ساخت اور قوانین کا تعیّن کیا گیا،پھر زیر بحث کہانی (رانی کیتکی...)لکھ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اردو میں،عربی اور فارسی الفاظ کا شرمندۂ احساں ہوئے بغیر بھی،اظہار ممکن ہے۔جس کا مطلب یہ ہوا کہ اردو ان دو زبانوں سے استفادہ کیے بغیر بھی زندہ رہ سکتی ہے۔‘‘(انشا کی دو کہانیاں،ص 23)

اس تفصیلی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ انشاء اللہ خاں انشا بھلے ہی اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے ہوں اور اپنے دعوے پر کھرے اترے ہوں، لیکن زبان کے فطری ارتقا کی جہاں تک بات ہے تو وہ اس کہانی میں مفقودہے، جس کا اشارہ مولوی عبدا لحق نے بھی مندرجہ بالااقتباس میں کیا ہے۔ زبان مصنوعی طورپر تیار نہیں کی جاتی، اگر زبان میں مصنوعی پن آگیا تو اس کا حسن،اس کی بے ساختگی اور جاذبیت ختم ہوجاتی ہے۔دعوی کرکے جب کوئی کام کیا جاتا ہے تو کام تو ہوجاتا ہے، لیکن فنی نقطہ ٔنظر سے وہ کامیاب نہیں مانا جا سکتا۔زبان کے فطری ارتقاء میں ساری زبانیں شامل ہیں۔مصنوعی زبان جو اردو کے مقابلے میں پیدا کی گئی ہے،اس میں فطری حسن نہیں پیدا ہو سکا ہے۔البتہ انشاء اللہ خاں کی زبان کی قدرت کا اندازہ ضرور ہو جاتا ہے،اس لیے اس کی مقبولیت دیگر داستانوں ؍کہانیوں کے مقابلے میں بہرحال کم ہے۔ فطری حسن،زور اور بلاغت اسی شہ پارے ؍فن پارے میں ہوگا،جس میں زبان کا خاص خیال رکھا گیا ہو۔دوسری جانب اس داستان کا مطالعہ ہمارے لیے نہ صرف دلچسپی کا سامان فراہم کرتا ہے بلکہ قدیم اردو ادب،طرز تہذیب ومعاشرت اور رواج ورسومات وغیرہ سے بھی آگاہی ہوتی ہے۔

مراجع ؍ ماخذ

.1        آب حیات،محمد حسین آزاد،اترپر دیش اردو اکادمی،لکھنؤ 1998       

.2         اردو کی قدیم داستانیں،حبیب خاں (ایم)،انڈین بک ہاؤس،علی گڑھ 1976

.3         اردو کی نثری داستانیں،ڈاکٹر گیان چند جین،انجمن ترقی اردو پاکستان،کراچی 1969

.4         اردو کی نثری داستانیں،ڈاکٹر گیان چند جین،اتر پردیش اردو اکادمی،لکھنؤ1987

.5         انشا کی دو کہانیاں (رانی کیتکی اور سلک گوہر)،مرتبہ انتظار حسین،مجلس ترقی ادب،لاہور،اشاعت دوم 2008

.6         داستان کی داستان،آرزو چو دھری،عظیم اکادمی اردو بازار،لاہور1988

.7         داستان رانی کیتکی اور کنور اودے بھان کی،افغان اللہ خاں،ادبی مرکز جامع مسجد،گو رکھپور2003

.8         داستان رانی کیتکی۔۔۔۔۔، مولوی عبدالحق،ایجوکیشنل بک ہاؤس،علی گڑھ سنہ ندارد

.9         داستان رانی کیتکی۔۔۔۔مولوی عبدالحق؍مولانا امتیاز علی عرشی؍سید قدرت نقوی انجمن ترقی اردو پاکستان،کراچی 1986

.10      ایضاً، پروفیسر صاحب علی،شعبۂ اردو،ممبئی یونیورسٹی،ممبئی2011

.11      ایضاً،مولوی عبدالحق،انجمن ترقی اردو،پاکستان،کراچی 1955

.12      رانی کیتکی کی کہانی کی فرہنگ،ڈاکٹر شریف احمد قریشی،ایس ایچ آفسیٹ پریس،نئی دہلی 2008

.13      فن داستان گوئی،کلیم الدین احمد،ادارۂ فروغ اردو،امین آباد،لکھنؤ1972

.14      ہماری داستانیں،پروفیسر وقار عظیم،ایجوکیشنل پبلشنگ ہا ؤس،نئی دہلی 2015

 

Dr. Musheer Ahmad

Asst Prof. Depf. of Urdu

Jamia Millia Islamia

New Delhi - 110025

 

 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

زبان کی تدریس میں تخلیق کا دائرۂ عمل، مضمون نگار: محمد نوراسلام

  اردو دنیا، نومبر 2024 بنی   نوع انسان کو جتنی صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں ان میں تخلیق بہت اہمیت کی حامل ہے، زندگی کے ہر پہلو پر تخلیقی عم...