26/3/21

مجروح سلطانپوری اور فلمی نغمے - مضمون نگار: سریتا چوہان

 



جب دل ہی ٹوٹ گیا ہم جی کے کیا کریں گے‘ جیسے نغمے سے اپنے فلمی گیتوں کے سفر کا آغاز کرنے والے اسرارالحسن خاں یعنی مجروح سلطانپوری اردو کے عظیم ترقی پسند شاعراور نغمہ ساز تھے۔مجروح اتر پردیش کے ضلع سلطانپور کے قصبہ کجڑی میں1919 یا 1920 میں پیدا ہوئے تھے۔وہ ذہین طالب علم تھے۔انھوں نے طب میں مہارت اور شہرت دونوں حاصل کر لی تھی اور1938 میں کالج سے سند حاصل کرنے کے بعدفیض آبادکے ایک قصبہ ٹانڈہ میں اپنا مطب قائم کیا۔شاعری سے دلچسپی کے باعث غالباً1935 یا 1936 میں غزل کا رخ کیایہ بات اور ہے کہ ان کی غزلوں کی تعداد مختصر ہے،پھر بھی ان کی شاعری لوگوں کے دلوں میں دھڑکتی ہے جس کی اہمیت و انفرادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ابتدائی دور میں ــــ ـ’اسرار ناصح‘ نام سے شاعری کرتے تھے لیکن بعد میں ’مجروح  ــ‘ ہو گئے۔

مجروح نے اس وقت غزل کا دامن تھاما جب نظم کے پیرایے میں اظہار کی راہیںزیادہ آسان تھیں۔غزل کے اس انحطاط کے وقت میں انھوں نے غزل کو حسن و وقار عطا کیا جو کسی لحاظ سے معمولی جسارت نہیں تھی۔ حالانکہ ان کے ساتھ ساتھ فیض،جذبی،نیاز حیدر، سردار جعفری، مجاز، جاں نثار اختر وغیرہ بھی غزلیں کہہ رہے تھے۔ہر ایک کااپنا الگ فکر اسلوب  تھا۔یہ سبھی ترقی پسند شاعری کے علمبردار بھی ہیں اور ایک دوسرے کے رفیق و رقیب بھی۔ایسے دور میں مجروح نے خود کی الگ شناخت بنائی۔

جیسا کہ مجروح صاحب نے خود بھی کہا ہے کہ:

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر

لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

 مجروح کی شاعری بھیڑ میں گم ہونے والی نہیں ہے۔  ان کی آواز بھیڑ میں بھی خود کو ظاہر کردیتی ہے۔ مجروح کی غزلوں کے متعلق وارث کرمانی لکھتے ہیں:

’’غالب کے بعد اگر اردو کی پوری غنائی شاعری کے صرف ایک ہزار شعروں کا انتخاب کیا جائے جس میں حالی، داغ، اقبال اور نہ جانے کتنے بلند اقبال شاعر نظر آئیں گے تو ا س انتخاب میں مجروح سلطان پوری کا کوئی شعر ضرور آئے گا اور اگر بیسویں صدی میں پیدا ہونے والے تمام شاعروں کے کلام سے سو بہترین غزلیں منتخب کی جائیں تو اس میں مجروح کی کئی غزلیں آجائیں گی اور پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ اگر ایسے اشعار کو یکجا کیا جائے جو اس وقت باذوق لوگوں کی زبان پر چڑھے ہوئے ہیں تو ان میں مجروح کے شعروں کی تعداد اپنے معاصرین میں سب سے زیادہ ہوگی۔‘‘(ایضاً،ص35)

اچھے غزل گو ہونے کے باوجود بھی مجروح کی مقبولیت کا باعث فلموں میں لکھے گئے ان کے نغمے ہیں۔ مجروح نے ساٹھ سال کے طویل عرصے تک ہندی فلموں کے لیے گیت لکھے جہاں ایک طرف ان کے غزلوں کی تعداد 50 کے آس پاس ہے وہیں فلمی نغموں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ حالانکہ جاں نثار اختر، ساحر لدھیانوی، کیفی اعظمی اور دیگر شعرا بھی فلموں سے وابستہ تھے اور ان کا تخلیقی سرمایہ بھی اچھا خاصا ہے لیکن مجروح نے فلمی دنیا میں اپنی تخلیقی کاوش کا پرچم لہرایا اور ایک سے ایک سپر ہٹ گانے دیے حالانکہ انھیں اس بات کا افسوس بھی تھا کہ اب اہلِ فن بھی بیچے اور خریدے جاتے ہیں۔اس المناکی کا نوحہ انھوں نے کچھ یوں لکھا ہے        ؎

ہم ہیں متاع کوچۂ و بازار کی طرح

اٹھتی ہے ہر نگاہ خریدار کی طرح

       مجروح کے گیتوں کے اس سفر کا آغاز کچھ یوں ہوا کہ آزادی سے دو سال قبل ایک مشاعرے میں حصہ لینے کے لیے مایا نگری ممبئی جانا ہوا جہاں ان کی ملاقات مشہور فلم پروڈیوسر اور ڈائریکٹر اے۔ آر۔ کاردار سے ہوئی،اور جیسا کہ سونے کی پرکھ ایک جوہری ہی کر سکتا ہے کاردار نے بھی اس نگینے کو پہچانا اور اپنی فلم ’شاہجہاں(1946)‘ کے گیت لکھنے کی درخواست کی۔پہلے تو مجروح نے منع کر دیالیکن بعد میں جگر مرادآبادی جومولانا آسی کے بعد ان کی شاعری کے استاد تھے، کے کہنے پر راضی ہوگئے۔ اتفاق یہ ہوا کہ اس فلم کے نغمے بہت مشہور ہوئے۔جن میں ’غم دیے مستقل کتنا نازک ہے دل‘ اور ’جب دل ہی ٹوٹ گیا،ہم جی کے کیا کریںگے‘خاصے اہم تھے۔’جب دل ہی ٹوٹ گیا‘کو کے۔ایل۔سہگل صاحب نے اپنے جنازہ پراس کے رکارڈ کو بجائے جانے کی درخواست کی تھی جو پوری بھی ہوئی۔ یہ گیت آج بھی اتنے ہی پسند کیے جاتے ہیں جتنے کہ ستّر،اسّی سال پہلے۔اور اس طرح پہلے طب،اس کے بعد ترقی پسند غزل گو اور اب مجروح کے گیتوںکی دنیا کا آغاز ہوا۔

مجروح سلطانپوری کے گیتوں میں اردو شاعری اور لفظیات کی گرفت نے ان کو امر کردیا۔ابتدائی دور میں ان کا انداز کلاسیکی تھا لیکن بدلتے وقت کے ساتھ اس میں بھی تبدیلی آئی۔ مجروح کے گیتوں میں گاؤں کی مٹی کی خوشبو کے ساتھ ساتھ ہندوستانی دیہات کی خوبصورتی اور تہذیب نظر آتی ہے اور یہ جذبہ جب پوری شدت کے ساتھ شعری آہنگ کاجزو بنتا ہے تونہ چاہتے ہوئے بھی سامع سے ایک رشتہ جوڑ لیتا ہے۔ مجروح کے گیتوں میں ایسے جذبے ان کے نغمے ’بوجھ مرا کیا ناؤں رے، ندی کنارے گاؤں رے(سی آئی ڈی1956)‘، ’جو میں ہوتی راجا تمھری دلھنیاں، مٹک رہتی راجا تورے بنگلے پر‘ (کالا پانی1958)،’ماں ری میں کاسے کہوںپیر اپنے جیا کی،پی کی ڈگر میں بیٹھی میلا ہوا ری مورا آنچرا‘ (دستک1970)، ’ٹھارے رہیو او بانکے یار رے‘ (پاکیزہ 1972)‘ میں خاصے اثر انداز نظر آتے ہیں جو انھیں عوام کے اور قریب لے آتے ہیں۔

مجروح کے گیتوں میں عورت کے جذبات و احساسات، کیفیات و ادائیں اور ناز و نخرے بھی خوب ملتے ہیں جن میں رومانیت کے ساتھ ساتھ پاکیزگی بھی دامن نہیں چھوڑتی۔ مثلاً: ’وادیاں مرا دامن راستے مری باہیں، جاؤ میرے سوا تم کہاں جاؤ گے(ابھیلاشا1968)‘ اور ’لے کے پہلا پہلا پیار، بھر کے آنکھوں میں خمار، جادو نگری سے آیا ہے کوئی جادو گر(سی آئی ڈی1965)‘۔اس کے بعد فلم ’دوستی ‘(1964)کا ’میری دوستی میرا پیار‘،’راہی منوا دکھ کی چنتا کیوں ستاتی ہے دکھ تو اپنا ساتھی ہے‘،’چاہوں گا میں تمہیں سانجھ سویرے،پھر بھی کبھی اب نام کو تیرے آواز میں نہ دوں گا‘بھی مجروح کے قلم سے نکلے جس نے لچھمی کانت پیارے لال کو لچھمی کانت پیارے لال بنادیااور ہندوستانی فلم انڈسٹری کومجروح کے قالب میں ایک نگینہ مل گیا۔ اس کے علاوہ راجیش روشن، آنند ملند، آر۔ ڈی۔ برمن،او۔پی نیروغیرہ کے لیے مجروح صاحب نے نغمے لکھے اور ان کو مشہور کردیا۔ مجروح نے ہندی سنیما کو کامیاب زبان کے ساتھ ساتھ نئے نئے الفاظ بھی دیے مثلاً۔ صنم، بندہ پرور،محترمہ، قبلہ وغیرہ۔ بقول وہاب اشرفی ’’وہ خود بھی کہتے ہیںکہ جو طرز انھوں نے ایجاد کی آج سارے گیت کار اسی پر چل رہے ہیں۔ موصوف یہ بھی کہتے ہیں کہ رومانٹک کامیڈی کی ایجاد انھوں نے ہی کی تھی۔‘‘(ایضاً،ص64)

زندگی کی رومانیت بیانی میں مجروح کو مہارت حاصل ہے یا یوں کہیں کہ ایک نئی روش کا نام ہے مجروح سلطانپوری۔ ان کی رومانیت میں ایک خاص وزن و وقار نظر آتا ہے۔ چند گیت دیکھیں:’چھپا لو دل میں یوں پیار مرا،کہ جیسے مندر میں لو دیے کی(ممتا1966)‘،’ہم بے خودی میں تم کو پکارے چلے گئے،ساغر میں زندگی کو اتارے چلے گئے(کالاپانی1958)‘، ’ہم انتظار کریں گے ترا قیامت تک،خدا کرے کہ قیامت ہو اور تو آئے (بہوبیگم1967)‘، ’تصویر تری دل میں جس دن سے اتاری ہے، پھروں تجھے سنگ لے کے نئے نئے رنگ لے کے سپنوں کی محفل میں (مایا1961)‘، ’محبت نے چھیڑا ہے پھر ساز دل کا،وہ ہر تار میں راگنی بن کے آیا (انداز1949)‘،’اب کیا مثال دوں میں تمھارے شباب کی،انسان بن گئی ہے کرن ماہتاب کی (آرتی 1962)‘، ’تجھے کیا سناؤں اے دلرباترے سامنے میرا حال ہے، تیری اک نگاہ کی بات ہے میری زندگی کا سوال ہے (آخری داؤ1975)‘، ’کہیں بے خیال ہوکر یوں ہی چھو لیا کسی نے،کئی خواب دیکھ ڈالے یہاں میری بے خودی نے(تین دیویاں1965)‘۔

اس کے علاوہ جیسا کہ ہم واقف ہیںغم ویاس کسی شخص کو نہیں چھوڑتے۔چونکہ غم اور دل کا معاملہ تو یوں ہے کہ یہ ہمسائے کی مانند ہیں۔ دل ہو اور درد نہ ہو تصور ہی خام ہے اور مجروح اس سے بخوبی واقف معلوم پڑتے ہیں۔ اداسی کے عالم میں، شام کی تنہائی میں، درد بھرے دل میں اور زندگی کی بے وفائی میں مجروح روح تک اتر جاتے ہیں۔کلیجے کو چھلنی کرنے والی تنہائی مجروح کے گیتوں سے پھوٹ پڑتی ہے۔مثلاً: ’ہم ہیں متاع کوچہ و بازار کی طرح، اٹھتی ہے ہر نگاہ خریدار کی طرح،مجروح لکھ رہے ہیں وہ اہل وفا کا نام، ہم بھی کھڑے ہوئے ہیں گنہگار کی طرح(دستک1970)‘، ’پتھر کے صنم تجھے ہم نے محبت کا خدا جانا،بڑی بھول ہوئی ارے ہم نے یہ کیا سمجھا یہ کیا جانا(پتھر کے صنم1967)‘، ’ہوئی شام ان کا خیال آگیا، وہی زندگی کا سوال آگیا (میرے ہمدم میرے دوست1968)‘ اور ’انھیں لوگوں نے لے لینا دوپٹہ میرا(پاکیزہ1972)‘،’ٹکڑے ہیں مرے دل کے اے یار ترے آنسو،دیکھے نہیں جاتے ہیں دلدار ترے آنسو (میرے صنم 1965)‘ وغیرہ۔

عشقیہ احساسات کے علاوہ مجروح زندگی کے اور مرحلے بھی طے کرواتے ہیں۔ رشتوں کی اہمیت کو بھی ان کے گیتوں میں محسوس کیا جاسکتا ہے۔ ان کے یہاں سماجی رشتوں کے مابین تعلق کی ترجمانی نہایت دلفریب انداز میں پیش کی گئی ہے جس سے انسان کو حوصلہ بھی ملتا ہے اور دلکشی کا احسا س بھی ہوتا ہے۔ مثلاً: ’اے ماں تری صورت سے الگ بھگوان کی صورت کیا ہوگی(دادی ماں 1966)‘،  ’بابل پچھتائے ہاتھوں کو مل کر، کاہے دیاپردیس ٹکڑے کو دل کے(بمبئی کا بابو1960)‘، ’ہم ہیں راہی پیار کے ہم سے کچھ نہ بولیے،ہم سے جو پیار سے ملا ہم اسی کے ہو لیے(نو دو گیارہ1957)‘،’راہی منواں دکھ کی چنتا کیوں ستاتی ہے،دکھ تو اپنا ساتھی ہے(دوستی1964)‘،’مری دنیا ہے ماں ترے آنچل میں،شیتل چھایا تو دکھ کے جنگل میں(تلاش1969)‘وغیرہ۔

اس کے علاوہ چند گیت بالکل الگ اندازکے ہیں۔ جیسے ’بابو سمجھو اشارے، ہارن پکارے، پم پم پم(چلتی کا نام گاڑی1958)‘، ’پانچ روپیہ بارہ آنا(چلتی کا نام گاڑی1958)‘،’ ہم تو محبت کرے گا(دلی کا ٹھگ 1958)‘، ’اچھا جی میں ہاری چلو مان جاؤ نا(کالا پانی 1985)‘، ’اک لڑکی بھیگی بھاگی سی،سوتی راتوں میں جاگی سی (چلتی کا نام گاڑی1958)‘وغیرہ۔

  مجروح کے گیتوں کی ہر نسل دیوانی ہے، کیا بوڑھے،کیا بچے اور کیا جواں دل نوجوان کیوں کہ مجروح نے  خود کو وقت کے ساتھ بدلاہے۔ یہ ہنر سب کو نصیب نہیں ہوتا۔ نئی نسل کو خطاب کرکے جو گیت انھوں نے لکھے ہیں ان میں ’ایسے نہ مجھے تم دیکھو،سینے سے لگالوں گا(ڈارلنگ ڈارلنگ1977)‘، ’بچنا اے حسینو لو میں آگیا (ہم کسی سے کم نہیں1977)‘، ’چلا جاتا ہوں کسی کی دھن میں، دھڑکتے دل کے ترانے لیے(میرے جیون ساتھی 1972)‘، ’باہوں میں چلے آؤ،ہو ہم سے صنم کیا پردا (انامیکا1973)‘، ’چرالیا ہے تم نے جو دل کو نظرنہیں چرانا صنم (یادوں کی برات1973)‘، ’یہ دل نہ ہوتا بے چارہ، قدم نہ ہوتے آوارہ(جویل تھیف1967)‘، ’پاپا کہتے ہیں بڑا نام کرے گا بیٹا ہمارا ایسا کام کرے گا،مگر یہ تو کوئی نہ جانے کہ میری منزل ہے کہاں(قیامت سے قیامت تک1988)‘،اور ’جانم سمجھا کرو (1999)‘وغیرہ قابل توجہ ہیں۔

نوجوان دلوں کو کھلکھلانے، ان کے غم میں شریک ہونے اور ان کی محبت میں جھومنے ا ور گزرتے وقت کے ساتھ بڑھتی تکلیفوں اور مایوسیوں سے پار پانے کا جو ہنر مجروح کو تھا وہ نایاب تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مجروح صاحب کا فن آج بھی نیا ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ آج بھی ہم ان کے نغموں کو گنگناتے جارہے ہیں۔ ان کے گیت نہ صرف عوام کے لیے ہیں بلکہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ انسان کو زندگی کا آئینہ دکھا رہے ہیں۔اور اس طرح مسکراتے اور زندگی کی راہیں دکھاتے مجروح سلطانپوری 24 مئی2000 میں اس دنیا کو الوداع کہہ گئے اور ہمارے لیے اپنی روح کو گیتوں کے قالب میں ڈھال گئے جو انھیں کبھی فنا نہیں ہونے دیں گے۔

  مجروح صاحب نے تین سو سے زائد فلموں میں ہزاروں گیت لکھے ہیں جو لافانی ہیں۔ شاہجہاں، انداز، ممتا، دوستی، ساتھی، دستک اور آرتی۔۔۔ سے لے کر خوددار، کالیا، قیامت سے قیامت تک، اندازاپنا اپنا، خاموشی اور غلام تک کا ان کا سفر انھیں ہمیشہ ہماری یادوں میں زندہ رکھے گا۔فلمی دنیا اور اردو ادب میں ان کی خدمات کے لیے انھیں غالب ایوارڈ(180)،امتیاز میرسمان،یو پی اردو اکادمی ایوارڈ،اقبال سمان(1992)، اور فلم کا سب سے بڑا انعام داداصاحب پھالکے ایوارڈ (1993)بھی ملا جو کسی بھی تخلیق کار اور اس ادب اور انڈسٹری سے وابستہ لوگوں کے لیے فخر کی بات ہے۔

غرض یہ کہ مجروح صاحب نے اردو ادب کے ساتھ ساتھ ہندوستانی سنیما کو بھی اعلیٰ مقام عطا کیا ہے۔ فلم ’ممتا‘ میں لکھے ایک گیت کے ساتھ میں اس امید سے اپنے بیان کا اختتام کر رہی ہوںکہ اس گیت کی طرح مجروح صاحب کی تخلیقات بھی اردو ادب اور جواں دلوں کو ہمیشہ معطر کرتی رہیں گی۔

رہیں نہ رہیں ہم، مہکا کریں گے

بن کے کلی بن کے صبا باغ وفا  میں 

 

Sarita Chauhan

117, Yamuna Hostel, JNU

New Delhi - 110067

Mob.: 9717199351

Email.: sarita152jnu@gmail.com

 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں