18/5/21

دیویندر ستیارتھی: ہندوستانی لوک ادب کی دنیا کا کولمبس - مضمون نگار: حیات افتخار

 


دیویندر ستیارتھی اردو ادب کی تاریخ کا ایک ایسا نام ہے جس کی شہرت کے ڈنکے بر صغیر (ہند و پاک) میں آزادی سے قبل اور اس کے بعد بھی کچھ عرصے تک بجتے رہے۔ لوک ادب پر ان کے مضا مین اردو،ہندی،پنجابی اور انگریزی میں شا ئع ہو کر جہاں ایک طرف ان کی شہرت میں چار چاند لگا رہے تھے وہیں دوسری طرف اپنے انوکھے مشا ہدات اور تجربات پر مبنی کہا نیوں کی وجہ سے انھیں اردو افسانوی ادب میں بھی اپنا منفرد مقام عطا کرچکے تھے۔ اس زمانے کے اعلیٰ معیاری ادبی رسا ئل جیسے ماہنامہ ادب لطیف لا ہور ان کے افسا نوں کی اشا عت پر معا وضہ بھی پیش کرتے تھے۔

ایک ایسے ہمہ لسانی اردو ادیب تھے جنھیں کرشن چندر،سعادت حسن منٹو اور راجندر سنگھ بیدی جیسے شہرۂ آفاق ادیبوں کا ہمعصر  ہونے کا شرف حا صل تھا۔ معاصرانہ چشمک کی وجہ سے انھیں کوئی فراڈ کہتا تھا(منٹو) توکوئی مہا بور(کرشن چندر) البتہ بعضوں نے انھیں عوا می فنکار (راجندر سنگھ بیدی) ادبی رشی (پرکاش پنڈت) اور تخلیقی (Creative)آوا رہ( بلراج مین را) قرار دیا۔ گاندھی جی نے ان کے کام کو ’بھا رت ما تا کا کام‘ کہہ کر سراہا۔ رابندر ناتھ ٹیگور نے ان کے کام سے خوش ہو کر انھیں اپنے شانتی نکیتن میں جگہ دی۔ ان کے کارناموں کے اعتراف میں حکومت ہند نے انھیں پدم شری(1977) کے اعزاز سے نوازا۔

دیویندر ستیارتھی نے لوک ادب کو اردو میں روشناس کرا نے اور مختلف صو بوں میں بکھرے ہوئے نہ صرف اردو بلکہ دوسری زبانوں کے لوک گیتوں کے انمول خزانے سے اردو زبان کو متعارف کرانے میں نا قا بل فراموش خدمات انجام دی ہیں لیکن انھیں ہم نے یکسر فراموش کر دیا۔ یہ اردو وا لوں کی ناسپاسی نہیں تو کیا ہے کہ جس جو کھم بھرے کام کا اردو وا لے تصور بھی نہیں کر سکتے ہیں۔ ایسے کام کو سر انجام دینے وا لا کا ذکر نہ اردو کے کسی نصابی کتب میں ہے اور نہ ہی ان پر تحقیقی کام کرنے کا خاطر خواہ حق ادا کیا گیاجس کے وہ مستحق تھے۔

لوک ادب سے ہما ری یہ بے اعتنائی نہیں تو اور کیا ہے۔لوک ادب کے ساتھ اسی بے تو جہی کا ذکر کرتے ہوئے پرو فیسر قمر رئیس نے بجا طور پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔

’’جو بات حیرت کا باعث ہے وہ یہ ہے کہ آج جمہوری دور میں بھی اردو وا لے عوا می ادب کے اس سرمایے کو قابلِ اعتنا نہیں سمجھتے۔نتیجہ یہ ہے کہ اس سرما یہ کو ملک کی دوسری زبانیں اپنے تصر ف میں لا کر اپنے آپ کو ما لا مال کررہی ہیں اور اپنی ادبی تا ریخ کی حدوں کو وسیع تر بنا رہی ہیں۔‘‘ (اردو میں لوک ادب،مرتبہ ڈاکٹر قمر رئیس،پیش لفظ، ص4)  

دیویندر ستیارتھی کے ایک ہم عصر ادیب اور ان کے رفیق پرکاش پنڈت نے ماہنامہ’نقوش‘ لاہور کے شخصیات نمبر میں ان کی خدمات کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’اس نے اردو ادب کو ہندوستان کی مختلف زبانوں اور بو لیوں کے لوک گیتوں سے روشناس کرا یا۔ لوک گیتوں کو ادب کا ایک حصہ بنانے اور ان کے ذریعے مختلف قو موں کے کلچر کو ایک لڑی میں پر ونے کا جو نما یاں کام ستیارتھی نے سر انجام دیا ہے اور اس کے لیے جو صعوبتیں اٹھائی ہیں اردو ادب کی تاریخ اسے کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔‘‘ (ماہنامہ’نقوش‘لاہور، شخصیات نمبر1955،ص438)

لوک گیتوں کو جمع کرنے کا کام فیلڈ ورک (Field work) کا متقا ضی ہے۔اس کام سے وہی عہدہ بر آ ہو سکتا ہے جس کے اندر لگن ہو۔ جنون کی حد تک اپنے کام سے لگاؤ ہو اور سفر کو حضر بنا نے کا عزم مصمم رکھتا ہو۔ جس کا مزاج قلندرانہ ہو اور طرز فقیرانہ ہو۔ جو ایک سنیاسی کی طرح گاؤں گاؤں قریہ قریہ اپنا کشکول لے کرپھرنے میں عار نہ محسوس کر تا ہو۔ یہ تمام صفات دیویندر ستیارتھی میں بدرجۂ اتم مو جود تھیں۔ان کے اسی جذبۂ قلندری کو میرا جی نے اس طرح خراجِ عقیدت پیش کیا ہے        ؎

بستی بستی پھرا مسافر،گھر کا راستہ بھول گیا

کیا ہے تیرا کیا ہے میرا،اپنا پرایہ بھول گیا

وہ لوک گیتوں کی تلاش کرنے کی دھن میں اپنے گھر بار کو بھول گئے۔لوک گیتوں کے ساتھ اس عشق کی ابتداکالج کی تعلیم کے دوران ہی ہو گئی تھی۔ چنانچہ دیویندر ستیارتھی پر داد تحسین دیتے ہوئے ڈاکٹر عبدالسمیع نے ان کے اس عشق کی ابتدا کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’ڈی اے وی کا لج (لا ہور) کے دوستوں میں وزیر خان اور پریم نا تھ ایسے تھے جن سے ستیار تھی کی قربت تھی۔ وزیر خان افغانی تھا۔ وہ ستیارتھی کو افغانستان کے لوک گیت سنا تا اور اس کی خوبصورتی کچھ اس انداز میں بیان کرتا کہ ستیار تھی جھوم اٹھتے۔پریم ناتھ کا تعلق کشمیر سے تھا وہ کشمیری لوک گیت اور وہاں کی تہذیب و تمدن ستیار تھی کے سامنے بیان کرتا اور انھیں آنے کی دعوت بھی دیتا۔‘‘

(نیا ادب (3)،بنگلور مرتبہ خلیل مامون مشمولہ مضمون: دیویندر ستیارتھی،  سوانح و شخصیت از:  عبدالسمیع)

دیویندر ستیارتھی کی پیدائش 28، مئی 1908ھ کو پنجاب کے ایک ضلع سنگرور میں وا قع گاؤں بھروڑ میں ہوئی اور ان کا انتقال 12،فروری2003 کو تقریباً پچانوے سال کی عمر میں ہوا۔ انھوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ لوک گیتوں کو اکٹھا کرنے میں گزا را۔ اپنی عمر کے نصف اول میں انھوں نے اردو میں زیادہ لکھا۔کیونکہ آزادی سے پیشتر اردو میں لکھنا اور شا ئع ہو نا اس اعتبار سے افا دیت کا حا مل تھا کہ ان کی بات زیادہ  سے زیادہ قاریوں تک پہنچتی تھی اور اس کا معا وضہ بھی ملتا تھا اور ستیارتھی کا گزا را اسی معا وضے پر ہو تا تھا۔ چنانچہ انھوں نے آزا دی کے چند سال بعد اپنی زیادہ تر تو جہ دیگر زبانوں مثلًا ہندی، پنجابی اور انگریزی کی جانب دینی شروع کردی۔ شاید اسی وجہ سے اردو وا لوں نے بھی ان کی جانب اپنی توجہ کم کر دی۔ویسے سر کا ری رسا ئل مثلًا ماہنامہ ’آج کل‘ وغیرہ میں وقتًا فوقتًا وہ اپنے مضا مین اور افسا نے شا ئع کرتے رہے۔ لیکن کتا بیں زیادہ تر ہندی اور پنجابی میں شا ئع ہوئیں۔

ستیار تھی میں لوک گیتوں کو جمع کرنے کا شوق جنوں کی حدیں پار کر گیا۔ ان کے با رے میں کہا جا تا ہے کہ وہ گھر سے سبزی لینے کے بہانے نکلتے اور ان کے قدم لوک یاترا پر گامزن ہو جاتے۔ شا دی کے کچھ دنوں کے بعد اسی بہانے جب وہ نکلے تو دو سال بعد اپنے گھر لوٹے۔ بیوی نے پو چھا کہ چار آنے کی سبزی لینے کے لیے نکلے تھے تو انھوں نے جواب دیا کہ’’دیکھو !چار ہزار لوک گیت لے کر آیا ہوں۔ (ایضاً)

انھوں نے لوک گیتوں کی تلاش میں کیے جانے والے سفر کو ’خواب کا سفر‘ قرار دیا ہے۔لوک گیتوں کو اکٹھا کرنے کے اپنے دیرینہ خواب کو شر مندہ تعبیر کرنے کے لیے وہ گھریلو آسا ئشوں کو بالائے طاق رکھ کر اپنے کندھے پر تھیلا لٹکائے،کیمرہ ہاتھ میں لیے اور بڑھتی ہوئی داڑھی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے خواب کے سفر پر نکل پڑتے اسی لیے پرکاش پنڈت نے چند لفظوں میں بلکہ فارمو لے کی صو رت میں ان کی شخصیت کا خا کہ اس طرح بیان کر دیا ہے۔ 

(ماہنامہ’نقوش‘ لا ہور۔شخصیات نمبر مضمون از پر کاش پنڈت)

تھیلا +کیمرہ+داڑھی=دیویندر ستیارتھی

لوک گیتوں کو جمع کر نے کے لیے انھوں نے سنیاسی کا روپ دھار لیا۔کیونکہ اس کی وجہ سے گاؤں کے لوگ انھیں عزت اور عقیدت سے  دیکھتے اور ان کا ہر طرح سے تعا ون کر نے کے لیے آ مادہ ہو جاتے۔اسی لیے کسی نے ان کی دا ڑھی کو ’پاسپورٹ‘ سے بھی تعبیر کیا ہے۔جس کے ذریعے وہ ایسی جگہوںپر بھی پہنچ جا تے تھے جہاں کلین شیو(Clean shave) وا لا پہنچ نہیں پا تا۔

لوک گیتوں کی تلاش و جستجو میں انھوں نے کہاں کہاں کا سفر اختیار نہیں کیا۔ اس سلسلے میں انھوں نے اندرونِ ملک کشمیر سے لے کر کنیا کماری،بیرون ملک سری لنکا،بر ما،نیپال جیسے دور دراز علاقوں تک کا سفر کیا۔ اس کی مثال اردو ادب کی تاریخ ہی میں نہیں بلکہ دیگر زبانوں کی تاریخ میں بھی شاذ و نادر ہی ملے گی۔ انھوں نے لوک گیتوں کو اکٹھا کرنے کے کام کو اپنی زندگی کا مشن بنا لیا تھا اور اس کی تکمیل کی راہ میں حا ئل مشکلات اور صعو بتوں کو انھوں نے دل و جان سے بر داشت کیا۔ انھوں نے ایک جگہ لوک گیت کو قوم کا دفینہ قرار دیتے ہوئے ان الفاظ میں اس راہ کی مشکلات کا ذکر کیا ہے:

’’ان گیتوں کی کھوج میں قلندر کی طرح ایک صوبے سے دوسرے صوبے تک گھوما ہوں۔بِھک منگوں کی طرح اپنا کشکول لے کر ہر اس شخص کے پاس گیا ہوں جو اُس میں لوک گیت کی چٹکی ڈال سکتا تھا۔میں نے جوا ہرات کے معنی ان گیتوں کی قدر کی،قیمتی پتھروں کی طرح انھیں سینے سے لگایا... لوک گیت قوم کا دفینہ ہیں میرے دوست۔‘‘ (ایضاً، ص 438)

اردو کے ممتاز نقاد شمیم حنفی نے لوک گیتوں کے ساتھ جنون کی حدوں کو پار کر نے وا لے ان کے اس عشق کو ’مقدس کارجنوں‘سے تعبیر کیا ہے۔نقاد عبدا لسمیع کی رائے میں ان کا شمار اردو کی ان چند شخصیات میں ہو تا ہے جنھیں ہم تہذیبی استعا رے کا نام دے سکتے ہیں۔ 

(نیا ادب(3)  مرتبہ خلیل مامون)

ستیارتھی نے لوک گیتوں کا خزینہ ہی اردو ادب کو نہیں دیا بلکہ ایک اندازے کے مطا بق لوک گیت اور لوک ادب کی اصطلاح کو رائج کیا۔ لوک گیت کو اس سے قبل اردو میں دیہاتی گیت اور ہندی میں گرام گیت کہا جاتا تھا۔ اس سلسلے میں ما ہر لسا نیات سنیتی کمار چٹر جی نے بھی انھیں لوک گیت کی اصطلاح کے استعمال کا مشو رہ دیا تھا۔

’’1932 میں ان کی ملا قا ت سنیتی کمار چٹر جی (ماہر لسا نیات) سے ہوئی۔انھوں نے ستیار تھی کے کام میں اپنی دلچسپی کا اظہار کیا۔ سا تھ ہی وہ مختلف زبانوں میں اس کے مختلف نا موں سے مطمئن نہیں تھے۔ اس لیے انھوں نہ ستیارتھی سے کہا کہ اگر ان ناموں کے بجائے صرف لوک گیت کہا جائے تو زیادہ بہتر ہے... ستیار تھی کی کوششوں سے یہ اصطلاح نہ صرف ادبی حلقوں میں متعا رف ہوئی بلکہ آل انڈیا ریڈیو سے بھی اسی اصطلاح کا استعمال شروع ہوا۔ اور آج بھی انھیں لوک گیت ہی کہا جاتا ہے۔

(نگری نگری پھرا مسا فر،مرتبہ از۔عبدالسمیع۔پیش لفظ)

لوک گیتوں سے متعلق دیویندر ستیار تھی کی او لین تصنیف بعنوان ’میں ہوں خانہ بدوش‘ 1991 میں منظر عام پر آ ئی۔ یہ کتاب اب نا یاب ہے۔اس کتاب کی تلاش و جستجو کا احوال بیان کر تے ہوئے عبدا لسمیع کا کہنا ہے کہ کئی سال تک اس کا نسخہ تلاش کرنے کے بعد انھیں یہ اطلاع ملی کہ اس کا ایک نسخہ شکاگو یونیور سٹی(امریکہ) کی لائبریری میں مو جود ہے۔ اس کتاب کا انتساب انھوں نے اپنی بیوی شانتی دیوی کے نام کیا ہے۔ کتاب کا مقد مہ میاں بشیر احمد مدیر مانامہ ’ہمایوں‘ نے لکھا ہے۔اس میں پندرہ مضا مین ہیں اور مختلف اصناف ادب سے متعلق ہیں۔ ستیار تھی نے’اپنی بات‘ کے عنوان سے گیارہ صفحات کا جو مضمون لکھا ہے اس میں لوک گیتوں سے اپنی وا بستگی کا ذکر کیا ہے۔ جس کے مطا لعے سے وا ضح ہو تا ہے کہ ہندوستان کی روح گاؤں کے لو گوں میں ہی بستی ہے۔ اور لوک گیتوں کی تلاش میں در در بھٹکنے سے ان کا مقصد در اصل ہندوستان کی تہذیب کی جڑیں تلاش کر نا ہے۔

اس کتاب میں چند ایک مضا مین کے علاوہ بقیہ تمام مضا مین افسا نے کی صورت میں ہیں۔ستیارتھی نے لوک گیتوں کے تجزیے سے جو نتیجہ اخذ کیا ہے اس کا اظہار ان الفاظ میں ملتا ہے:

’’ہندوستان کے مختلف صو بوں کی دیہاتی زبانوں کا تقا بلی مطا لعہ بہت اہم ہے ان صو بوں میں بھی جہاں ہندو آبادی زیادہ ہے یا جہاں کی زبانوں میں سنسکرت کے الفاظ کثرت سے پائے جاتے ہیں۔کتنے ہی فار سی اور عربی الفاظ بھی مو جود ہیں۔مجھے یہ محسوس ہوا کہ زبان کے متعلق ہمارا تعصب سرے سے سطحی اور بناوٹی ہے۔لوگ یہ دیکھ کر کسی الفاظ کا استعمال نہیں کر تے کہ اس کا حسب و نسب جنم استھان یا مذہب کیا ہے بلکہ ہر لفظ ا ن کی زبان پر اس طرح آتا ہے جیسے دھر تی پر کوئی پو دا لگتا ہے۔‘‘ 

(نیا ادب(3)مرتبہ خلیل مامون،ص1054)

دیویندر ستیار تھی کی دوسری کتاب ’گائے جا ہندوستان‘ ہے جو لوک گیتوں پر مشتمل ہے۔ جس کی اشا عت 1946 میں عمل میں آ ئی۔ اس کتاب کا مقدمہ اردو کے ممتاز افسانہ نگارراجندر سنگھ بیدی نے تحریر کیا ہے۔

اس کتاب کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں نہ صرف اردو اور ہندی لوک گیتوں کو پیش کیا گیا ہے بلکہ ہندوستان کی چو دہ ریاستوں کے لوک گیتوں کو ان کی لوک روا یتوں کے پس منظر اور سیاق و سباق میں پیش کیا گیا ہے دیگر زبانوں کے لوک گیتوں کا انھوں نے اردو ترجمہ بھی پیش کر دیا ہے۔ اور ان کا یہ ترجمہ بجائے خود شا عری کا نمونہ بن گیا ہے۔انھوں نے ہر لوک گیت کے سا تھ یہ تفصیل بھی دی ہے کہ کون سا لوک گیت کس مو قع پر اور کس مو سم کے لیے گا یا جاتا ہے۔ اگر اس کا تعلق کسی مخصوص رقص سے ہے تو اس کی بھی تفصیل درج کر دی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ انہو ں نے ان لوک گیتوں کی تلاش میں ہندوستان کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک کا سفر اختیار کیا ہے۔  اس سلسلے میں وہ شہر مدراس بھی آ ئے تھے۔ ان کی آمد یہاں پر 1939 میں ہوئی تھی۔ انھوں نے یہاں پر وا قع YMCA کی جانب سے منعقدہ ایک جلسے میں لوک گیتوں پر لیکچر بھی دیا تھا۔ جس کی صدارت چکرورتی راجہ گو پال اچا ریہ نے کی تھی۔

یہاں سے انھوں نے کنیا کماری تک کا سفر کیا اور وہاں سے سری لنکا بھی گئے۔بہر حال ریاست تملناڈو (جو اس وقت مدراس پریسیڈنسی کہلاتی تھی) میں قیام کے دو ران انھوں نے تمل لوک گیت بھی جمع کیے۔چنانچہ ان کی دوسری کتاب ’گائے جا ہندوستان‘ میں شا مل پہلا مضمون تمل لوک گیت پر مشتمل ہے۔ اس گیت کا عنوان ہے ’مل کر پھنسو مچھلیو!‘ تمل خطہ کا ایک ماہی گیر بیچ سمندر میں گیت گا کر اپنا جال لہروں میں پھینکتا ہے اور مچھلیوں کو خود جال میں آکر پھنسنے کی دعوت دیتا ہے۔ ما ہی گیروں کی روا یت کے مطا بق یہ گیت وہی گا سکتا ہے۔ جس کی سگائی ہو جاتی ہے۔ اور جو پہلا شکار اپنی ہو نے وا لی بیوی کے روبرو لاکر رکھتا ہے۔ دلہن ان مچھلیوں کو دیکھ کر اپنے (منگیتر)کی گرویدہ ہو جاتی ہے۔سگائی کے بعد دلہن خود اپنے منگیتر کو شکار پر جانے کے لیے کہتی ہے۔اس شادی کی رسم کے لیے یہی سب سے ضروری شرط ہو تی ہے۔ اس تمل گیت کا اردو ترجمہ اس طرح ہے۔

مل کر آؤ،  مل کر آؤ مچھلیو!

اے میرے محا فظ! مچھلیوں کی ٹولی بنا کر (میرے روبرو) ڈھکیل دینی چاہیے۔

اور میرے محا فظ! مل کرمچھلیوں کو جمع ہونا چاہیے۔

میرے محا فظ! ان کی فوج بنا کر (میرے رو برو) ڈھکیل دینی چاہیے۔

ارے او بڑے مچھ! صاف پانی کے اور گرم پانی کے مچھ!آ تو

بھنور کی سفید مچھلی!او بھنور کی سفید مچھلی! آ تو

شنگم درخت کے پتے توڑ کر ہم ’جاتی لنگم‘ لے آئے ہیں۔

شنگم درخت کے پتے توڑ کر ہم تمہا رے نئے نئے جلوے دیکھنے آ ئے ہیں۔

اری مچھلیو! ہم بھات کی پوٹلی باندھ کر آ ئے ہیں۔

ہم اَن دیکھے دیس میں آئے ہیں اری مچھلیو!

ہم بیوی بچوں کی پر ورش کے لیے آ ئے ہیں اری مچھلیو!

ہم تمھارے جلوے دیکھنے کے لیے آ ئے ہیں اری مچھلیو!

دور دور کی لڑکیوں نے تمھیں گھیر کر لا نے کو کہا ہے۔

جوان کنواریوں نے تمھیں دیکھ کر لوٹنے کو کہا ہے(اری مچھلیو!)

اس طرح انھوں نے ملا بار،اڑیسہ،منی پور اور سنتھالی وغیرہ کے لوک گیتوں کو بھی پیش کیا ہے۔ جس طرح گاندھی جی نے کہا تھا کہ اصل ہندوستان یہاں کے دیہاتوں میں بستا ہے تو انھوں نے ان دیہاتوں کے عوامی گیتوں کو جمع کرنے کے بعد اس کو تحریری شکل میں پیش کر کے گو یا ہندوستان کی اصل روح کو مجسم کر دیا ہے اور ملک کے دھڑکتے ہوئے دل کو زبان عطا کر دی۔

دیویندر ستیارتھی نے اپنی تصنیف ’گائے جا ہندوستان‘ میں ہندوستان کے مختلف علاقوں کے لوک گیتوں کو یکجا کر کے ہندوستانی تہذیب و ثقا فت کا ایک مرقع ہمارے سامنے پیش کر دیا ہے۔ عبدالسمیع کے الفاظ میں ’’یہ کتاب ہندوستانی تہذیب و ثقا فت کی تا ریخ اور اس کی تفہیم کے لیے ایک اہم دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے... اگر کوئی شخص قدیم اور جدید ہندوستانی تہذیب کو پڑھنا اور سمجھنا چاہتا ہے تو اس کے لیے یہ کتاب گنج گراں مایہ ثا بت ہو گی۔‘‘

(بحوالہ’نگری نگری پھرا مسا فر‘مرتبہ عبدالسمیع، ص 408)

لوک گیتوں کے متعلق ان کی تیسری تصنیف ’دھرتی کے گیت‘ کے متعلق صرف اتنی معلو مات دستیاب ہیں کہ مہاتما گاندھی کی شہا دت (1948)سے قبل ستیارتھی نے ان سے اپنی ملا قات کے دوران گزارش کی تھی کہ وہ اس کتاب کا دیباچہ لکھیں اور گاندھی جی نے رضامندی بھی ظاہر کر دی تھی لیکن قدرت کو یہ منظور نہیں تھا اور یہ ستیارتھی کی بد قسمتی کہیے یا زبان و ادب کی بد بختی کہ اگلے ہی دن مہاتما کی شہا دت واقع ہوگئی۔غا لبًا یہ کتاب ہندی میں مہاتما کے دیباچے کے بنا ہی شا ئع ہوئی ہو لیکن اردو میں اس کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔

لوک گیتوں پر مشتمل مذکو رہ دو تصنیفات کے علا وہ اردو میں ان کے دو افسا نوی مجمو عے شائع ہوئے۔ ایک مجمو عے کا نام تھا ’نئے دیوتا‘ (مطبو عہ 1942) اور دوسرے مجمو عے کا عنوان تھا ’اور بانسری بجتی رہی‘ (مطبوعہ 1945) دوسرے مجمو عے کا مقدمہ کنہیا لال کپور نے تحریر کیا تھا۔ اس سے وا ضح ہو تا ہے کہ آزا دی کے بعد ان کی کوئی تصنیف کتابی صورت میں منظر عام پر نہیں آ ئی لیکن گاہے گاہے ان کے افسا نے کئی اردو رسا ئل کی زینت بنتے تھے۔ ان کی وفات (2003)کے کئی سالوں بعد دیویندر ستیارتھی کی شخصیت اور کارنا موں کو ڈاکٹر عبدالسمیع نے اپنی تحقیق کا مو ضوع بنایا۔ اسی سلسلے میں انھوں نے مختلف رسائل میں بکھرے ہوئے ان کے افسا نوں کو’شہر شہر آوا رگی‘ کے عنوان سے دو جلدوں میں شائع کیا ہے۔

جس طرح اردو شا عری میں نظیر اکبر آبادی نے اپنی طبع زاد نظموں کے ذریعے عوا می ادب کی نظیر قا ئم کی۔ اسی طرح خود عوام کے تخلیق کر دہ گیتوں کو تحریری شکل میں مبسوط طور پر یکجا کر کے ہندوستانی ادب کے اس خوش نوا فقیر نے جو بے نظیر کارنا مہ انجام دیا ان دونوں کی نظیری اور بے نظیری کا اردو تاریخ میں کوئی جواب نہیں۔ اسی لحاظ سے انھیں اگر ہندوستانی لوک ادب کا کو لمبس قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔جس طرح نگری نگری اور دیس بدیس کا سفر کر کے ہندوستانی لوک ادب کے گمشدہ خزینے کو دریافت کیا ہے۔

مضمون کے اختتام پر لوک گیتوں کے چند نمو نے ملاحظہ ہوں جو ان کی کتاب ’گائے جا ہندوستان‘ سے ماخوذ ہیں۔(بحوالہ ماہنامہ آجکل،مئی 1996)

ارے ہل! تیرے ہا تھوں کو نمسکار

ارے ہل! تیرے پیروں کا نمسکار

سالی کے پیڑ کو سراہتا ہوں

جس سے تم بنائے گئے ہو

تم سدا بلوان رہو

تم سدا کام کے لیے تیار رہو

چا ول ہے دال ہے

چولھا نہیں یہی دقت ہے

ہوا چل رہی ہے گرد اڑتی ہے کواڑ نہیں یہی دقّت ہے

بیوی آ کر سامنے کھڑی ہے

ساڑی نہیں یہی دقّت ہے

فقیر آ کر دروازے پر کھڑا ہے

دھیلا نہیں یہی دقّت ہے

لو ریاں

چندا ماموں دور کے

بڑے پکائیں بور کے

آپ کھائیں تھا لی میں

ہمیں دے پیا لی میں

پیالی گئی ٹوٹ

چندا ماموں گئے رو ٹھ

پیالی اور لائے

چندا ماموں دوڑ آ ئے

 

اے بوا ہمائی

کاہے کی دال پکائی

مسور کی دال پکائی

اس میں مرچ نہ کھٹائی

 

چوں چوں کرتی آئی میری چڑیا

میاں کا سنگنا لائی میری چڑیا

پروں میں شکر لائی میری چڑیا

چونچ میں چھوارے لائی میری چڑیا

چڑیا پھوڑوں تیرا پیٹ

کاہے کو کھائے بھیا کا کھیت

کھیت دکھائے بھیا جائے

روٹی لے کے میّا جائے


Dr Hayath Iftekhar

(Rtd)  HOD of Urdu

Quide Millath College (Men)

Medavakkam, Chennai.

Mobile: 9884733619

 ماہنامہ اردو دنیا، مئی 2021


1 تبصرہ: