18/5/21

نئی جہت اور صداقتوں کا شاعر: جلیس نجیب آبادی - مضمون نگار: ایم اے کنول جعفری




مغربی اتر پردیش کے کئی تاریخی مقامات میں شامل ضلع بجنور کا ایک شہر نجیب آباد ہے۔نجیب آباد کو افغانی پٹھان نجیب خان نے1740میں بسایا تھا۔تاریخ میں انھیں نجیب الدولہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔مالن ندی کے دائیں کنارے پر واقع نجیب آباد کواتراکھنڈ کے کوٹ دوار سے جوڑنے والے اتر ریلوے لائن کے واحد جنکشن، سلطانہ ڈاکو کا قلعہ، زرخیز اَدبی زمین اور تاریخ اسلام کے مصنف مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی کی وجہ سے انفرادی مقام حاصل ہے۔ نواب نجیب خان مغل حکومت کے سولہویں بادشاہ مرزا عبداﷲ علی گوہر المعروف شاہ عالم ثانی کے دور حکومت میںگورنر کے عہدے پر فائز رہے۔ نجیب الدولہ نے شہر سے کچھ فاصلہ پر ایک قلعہ تعمیر کرایا تھا۔اس قلعے کو نجیب الدولہ کے قلعے کے نام سے کم اور سلطانہ ڈاکو کے قلعے کے نام سے زیادہ شہرت ملی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انگریزوں نے اپنی حکومت کے لیے سردرد بن گئے سلطانہ ڈاکو کو گرفتار کراسی قلعے میں قید کیا تھا،تب سے لوگ اسے سلطانہ ڈاکو کا قلعہ کہنے لگے۔

علم و اَدب کی پرورش گاہ رہے نجیب آباد نے اسلامی مورخ مولانا اکبر شاہ نجیب آبادی، علامہ احسان اﷲ خاں تاجور نجیب آبادی،اختر الایمان،شفیق بانو شفیق، کفایت حسین ناز، عبدالسلام عاصی، اختر صابری، عرفی خان، عبدالحفیظ قیصر، شکیل رحمانی، مخفی کریمی، ارشاد نجیب آبادی، رشید احمد، عشرت زماں خاں افسر، اشرف شمیم وارثی،  سوز نجیب آبادی، اجمل خاں ایڈوکیٹ، مولانا شمس الدین چترویدی، رام اوتار مضطر، مفتی اسرار احمد دانش ، انور صدیقی، ثاقب صدیقی اور جرار حیدرجیسے کئی ادیب، شاعر، مورخ، استاد، صحافی، دانشور،مقرراور مجاہد آزادی پیدا کیے۔بعد کے شعرا میں اپنا منفرد مقام بنانے اور نئی نسل کے لیے راہ ہموار کرنے والے شعرا میں محمدظفر جمیل، جلیس نجیب آبادی، طاہر نجیب آبادی، مہندرکمار اشک، عبد العزیز،ظفر رحمانی، مرغوب احمد راہی، سرفرازاحمد، مختار احمد شاد،اختر ملتانی، ڈاکٹر آفتاب نعمانی،طیب جمال، شاکر رضوی، شیر حسن عرفی، شارق کفیل،موصوف احمد واصف، الیاس انصاری،سہیل شہاب  اور شعیب نفیس سمیت نام قابل ذکر ہیں۔

نجیب آباد کے ادبی آسمان پرجھل مل کرتے ان درخشندہ ستاروں کے درمیان نصف صدی تک نہایت آب و تاب سے چمکنے اور اپنی موجودگی کا احساس کرانے والا جلیس نجیب آبادی نام کا ستارہ بظاہربجھ گیا،لیکن اَدبی حلقوں کے فلک پر اس کی روشنی کی چمک کو برسوں تک محسوس کیا جائے گا۔ آٹھ نومبر2018 بروز جمعرات دَس بجے قبل ازدوپہراپنے عزیزواقربا اور ادب نواز دوستوں کو دائمی غم دے کر ابدی سفر پرروانہ ہونے والے جلیس نجیب آبادی کا اصلی نام اسلام الدین تھا، لیکن کم ہی لوگوں کو ان کے خاندانی نام سے واقفیت تھی۔شہر کے زیادہ تر لوگ بھی اُنھیں جلیس نجیب آبادی کے نام سے جانتے تھے۔ یکم جنوری1947 کواتر پردیش کے ضلع بجنور میں واقع نواب نجیب ا لدولہ کے اَدبی اور تاریخی شہر نجیب آباد کے محلہ پٹھانپورہ میں زراعت پیشہ سراج الدین کے یہاں جس بیٹے کی پیدائش ہوئی اُس کا نام اسلام الدین رکھا گیا۔ ابھی سات برس کے ہی تھے کہ باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا۔ چھوٹے بھائی اکرام الدین کا جنم والد کے انتقال کے چھ مہینے بعد ہوا۔حالانکہ اُن کی پرورش میں چچا اور چچی نے کوئی کور کسر نہیں چھوڑی، لیکن اس کے باوجود اُنھیں یتیمی، ذہنی الجھنوں اورکئی قسم کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ انھوں نے جولائی 1972 میں شائع ہونے والے اپنے پہلے شعری مجموعہ ’شہرِ خیال ‘ میں اس کڑوی سچائی اور حقیقت کا تذکرہ بڑی بے باکی کے ساتھ ان الفاظ میں کیا ہے۔

میں یکم جنوری 1947کو نجیب آباد کے ایک زراعت پیشہ خاندان میں پیدا ہوا۔ اصل نام اسلام الدین ہے۔ والد صاحب کا نام سراج الدین تھا۔ابھی میرا بچپن ہی تھا کہ باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیااور پرورش کا بار والدہ،چچا اور چچی نے اٹھایا۔ والد کی اچانک اور بے وقت موت نے میرے دِل پر گہرا اثرکیا۔چند اُلجھنوں اور پریشانیوں کے باعث میری تعلیم انٹر میڈیٹ اور ادیب کامل کے بعد جاری نہ رہ سکی۔ 

)شعری مجموعہ،’شہر خیال‘  : حرف آغازص 7)

ابتدا میں اسلام الدین عشرت زماں افسر کی قربت سے فیض یاب ہوئے۔عشرت زماں افسرنے انھیں اردو کی طرف راغب کیا اور تعلیمی لیاقت بڑھانے کے لیے اَدیب ماہر اور اَدیب کامل کے امتحانات پاس کرنے میں ہر ممکن تعاون دیا۔ دوسری جانب ان کا زیادہ تر وقت لائبریری میں موجود کتابیں پڑھنے،شہر میں منعقد ہونے والے مشاعروںمیں شعرا کا کلام سننے اور ریڈیو اسٹیشن سے گاہے بہ گاہے نشر ہونے والی غزلوں،شعری نشستوں اور کوی گوشٹھیوں کی سماعت میں گزرنے لگا۔ایسے میں یہ ممکن نہیں تھا کہ ادبی ماحول اپنا اثرنہ دکھائے۔اُردو کے اَدبی ماحول اورمقامی شاعروں سے متاثر ہوکر دِل کے ایک گوشے میں شعر کہنے کی خواہش انگڑائی لینے لگی۔ بچپن اور کھیل کود کو فوقیت دئے جانے والے زمانے میں شعر گوئی کی طرف تیزرفتاری سے بڑھتے رجحان کی بدولت آخرکار اسلام الدین نے صرف چودہ برس کی عمر میں جلیس تخلص کے ساتھ اپنی شاعری کا آغاز کر دیا۔ اسی کے ساتھ نشستوںاور منی مشاعروں میں شرکت بڑھ گئی۔ اخبارو رسائل میں غزلیں شائع ہونے کے سلسلے سے شعرگوئی کو مزید تقویت ملی۔خیالات میں تضاد ہونے کی بنا پر جلیس، عشرت زماں خاں افسر کے ساتھ زیادہ دنوں تک نہیں ٹک سکے اور علیحدگی اختیار کر لی۔اپنے وقت کے عظیم شاعر،کوی،اَدیب،مفکر اور صحافی محترم نشترخانقاہی کی قربت و رہنمائی سے جلیس نجیب آبادی میںکچھ ایسا نکھار آیا کہ جلدی ہی قلم کے اس جادوگر کی پہچان ایک پختہ شاعر کے طور پر ہونے لگی۔

نشتر خانقاہی کے شاگردوں میں اہم مقام رکھنے والے جلیس نجیب آبادی بہت سادگی پسند، منکسرالمزاج، مخلص،گوشہ نشیںاور زیادہ تر خاموش رہنے والے شخص ضرور تھے،لیکن اپنے چہرے پر مسکراہٹ لائے بغیر دوست واحباب کوہنسانے اور محظوظ کرنے کا ہنر اچھی طرح جانتے تھے۔ صوم و صلوٰۃ کے پابند جلیس مشاعروں کے مقابلے شعری نشستوں میں شرکت کو فوقیت دیتے تھے۔ اس بابت ان کا نظریہ دیگر اَدیب و شعرا سے مختلف تھا۔ ان کے مطابق مشاعروں میں شاعر کو ماحول اور حالات کے مد نظرسامعین کی مرضی اور مزاج کے مطابق کلام پڑھنا پڑتا ہے،جب کہ نشست میں شاعر اپنے دِل کی آواز کو لبیک کہتے ہوئے اشعار پیش کرتا ہے۔وہ لن ترانی کے قائل نہیں تھے۔اُنھیں بے سبب اور بے مقصد کی جانے والی گفتگو یا فضول گوئی کا حصہ بننا قطعی منظور نہیں تھا،لیکن نشست میں دِل کھول کرشعر سنتے سناتے تھے۔ اَدبی حلقوں اور شعری محفلوںمیں انھیں بڑی قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔

جلیس نجیب آبادی کے بیٹے شہیر پروازایڈوکیٹ جنھوں نے ادیب کامل کے بعد انگلش میں ایم اے بھی کیا ہے، نے بتایا کہ اُن کے والد نے ابتدائی تعلیم کے بعد مہاتما گانڈھی میو نسپل ہائی اسکول اور انٹر میڈیٹ کیا۔ اس کے بعد رضا ڈگری کالج رام پور سے اُردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔وہ تین بہنوں کے اکیلے بھائی ہیں۔ والد صاحب نے چاروںبھائی بہنوں کی بہتر پرورش کے ساتھ تعلیم کی جانب بھرپور توجہ دی۔سب سے بڑی بہن تنویر جہاں اُردواور سوشیولوجی سے ایم اے، بی ایڈہیں اور قصبہ جلال آباد کے مسلم انٹر کالج میں پرنسپل کے عہدے پر فائز ہیں۔اُن سے چھوٹی اور دوسرے نمبر کی بہن رفعت جہاں نے پی ایچ ڈی کرنے کے باوجود نوکری کو پسند نہیں کیا۔ سب سے چھوٹی بہن ریشما تبسم گریجویٹ ہیں۔یہ عجیب اتفاق ہے کہ اپنے وقت کے مشہور شاعروں میں شمار جلیس نجیب آبادی کا بیٹا اور بیٹیاں اُردو کے طلبہ و طالبات رہے،لیکن چاروں میں سے کسی نے بھی شعرگوئی میں طبع آزمائی کرکے پدری روایت کوزندہ نہیں رکھا۔ جلیس کے چھوٹے بھائی اکرام الدین نے ابتدا میں اشعار ضرور کہے،مگر وہ اس سلسلے کو آگے نہیں بڑھا سکے۔

اُردو اورہندی اَدب پر اپنی یکساں اور مضبوط گرفت رکھنے والے ہندوستان کے مشہورومعروف شاعر، ادیب، مفکر اور صحافی نشتر خانقاہی نے جلیس نجیب آبادی کی شعری کاوشوں کی دل سے تعریف کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار جن الفاظ میں کیا ہے،وہ جلیس نجیب آبادی کے شعری مجموعے’صبح کرنا شام کا‘ کے ’سابقہ مجموعوں پر چند تحریروں کے اقتباسات‘ میںشامل ہے۔

آج جب کہ اُن کا دوسرا مجموعۂ کلام’موسم موسم‘ میرے سامنے ہے تو میں اس کو پڑھ کر ایک گونہ اطمینان محسوس کرتا ہوں کہ میں نے برسوں پہلے جس پوشیدہ کیفیت کا اندازہ کیا تھا وہ اُبھر کر کافی توانا صورت میں سامنے آئی ہے۔جلیس اجتماعی نوعیت کے شاعر نہیں ہیں۔ وہ دو افراد کے مابین رشتے اور اس کے مختلف حوالے سے اپنے تجربوں کو فنی سطح پر سب کا یا ہم میں سے بہت کا تجربہ بنانے والے ایسے شاعر ہیں،جو قبائلی اور گروہی انداز کے دانشوروں میں علیحدہ وجود رکھتا ہے۔۔۔۔میں پوری ذمہ داری کے ساتھ یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ اُنھوں نے ہجومیت کے اس دَور میں پوری صداقت کے ساتھ اپنا تحفظ کیا ہے۔  

(شعری مجموعہ’صبح کرنا شام کا‘: اقتباس نشتر خانقاہی،ص 23)

جلیس نجیب آبادی آفاقی فکر کے مالک تھے۔ان کی سوچ انتہائی بلند تھی۔شعری نشستوںمیںان کی موجودگی سے لگتا تھا کہ اُنھیں شعر کہنے کاسلیقہ اور ملکہ ہی نہیں ہے، شعر فہمی میں بھی کمال حاصل ہے۔ جدید شاعری کی ترجمانی کے لیے اپنی راہ الگ ہموار کرنے والے جلیس نجیب آبادی نے جس سوزوکرب اور معاشرتی نامناسبت کو منظرِ عام پر لانے کے لیے غزل کا سہارا لیا،اُس سے اُنھیں غزل کا اُستاد تصور کیا گیا۔حالات حاضرہ پر نگاہ رکھنے والے جلیس نجیب آبادی نے غزل گوئی کو ہی میدانِ عمل نہیں بنایا،بلکہ مختلف اصناف سُخن میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ اُنھوں نے حمد،نعت،منقبت، قطعات، نظمیں،گیت اور آزاد نظموں میں بھی بہ آسانی اپنا لوہا منوایا۔اُن کا کوئی مجموعہ ایسا نہیں،جس میں نظموں کو شامل نہ کیا گیا ہو۔اُردو اَدب پر ان کی گرفت اور شعری مہارت کا اندازہ اِسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہندوستان کے مشہورومعروف اخبارات و معیاری اَدبی جرائد میں توان کا کلام شائع ہوتا ہی تھا، بیرون ملک بھی وہ خود کو ثابت کرنے میں کامیاب رہے۔جلیس نجیب آبادی کی شاعری میں سماج کا کرب اورزندگی کی تلخ سچائیاں پائی جاتی ہیں۔ اُنھوں نے شاعری کی دیرینہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے جدید روایات سے تعلق استوار کیااور نئے لب و لہجے کی شاعری کے ساتھ عصری آگہی کو اپنا موضوع خاص بنایا۔وہ ایک معتبر،مستنداور زبان و بیان پر قدرت رکھنے والے مقبول شاعررہے۔شاید اِسی لیے اُنھیں اردو ادب کا دانشور تک کہا گیا۔جلیس نجیب آبادی کو اُردواَدب کی خدمات کے لیے اُردو اکیڈمی اتر پردیش، اُردو اکیڈمی بہار اور اُردو اکیڈمی دہلی کی جانب سے اعزازواکرام سے نوازا گیا۔

جلیس نجیب آبادی کی شاعری میں منفی،مضر اور غیر موزوں عناصر سے اجتناب کیا گیاہے۔ ڈاکٹر پروفیسر عنوان چشتی نے جلیس نجیب آبادی کے گوشہ نشیں اور منکسر المزاج ہونے کا اعتراف کرتے ہوئے ان کی اچھی اورسچی شاعری کی تعریف کی اور انھیں سماج و بدلتے منظر کا سامنا کرنے والا شاعر بتایا۔ انھوں نے دسمبر 1980 میں شائع ہونے والے اُن کے دوسرے مجموعۂ کلام، ’موسم،موسم‘ کے مقدمہ ’صداقتوں کا شاعر‘میں کچھ ان الفاظ میں تذکرہ کیا ہے:

’’اگرچہ جلیس نجیب آبادی گوشہ نشیں اور منکسر المزاج نوجوان شاعر ہیں،لیکن انھوں نے زندگی، سماج اور فن کے بدلتے ہوئے منظر کی طرف سے آنکھیں بند نہیں کیں۔ہر اچھے رجحان یا عنصر یا اثر کو قبول کیا اور ہر گمراہ کن رویّہ یا تاثر کو مسترد کر دیا۔اُنھوں نے رَد و قبول کے جس پیمانے سے کام لیا ہے وہ قابلِ ستائش ہے،ورنہ تحریک کے زور کے وقت بڑے بڑوں کے قدم اُکھڑ جاتے ہیں۔جلیس نجیب آبادی کی شاعری میں کلاسیکی، شاعری کا نظم و ضبط،زبان کی صحت، بیان کی دلکشی ملتی ہے،مگر محض ’لفظ‘ کو سب کچھ سمجھنے کے رجحان سے انحراف ملتا ہے۔ انھوں نے زبان کے تخلیقی حسن کا راز بخوبی سمجھ لیا ہے۔ اس لیے انھوں نے اپنی شاعری میں لفظ، استعاروں اور پیکروں کی ایسی تخلیق کی ہے جو ایک طرف ان کا ذہنی رشتہ قدیم شعری زبان کے زندہ عناصر پر مشتمل ہے اور دوسری طرف جدیدیت کے طرز جدیدیت سے جوڑدیتی ہے۔خیال، فکر یا جذبے کی سطح پر اُن کی شاعری میں ایک نئے انسان سے ملاقات ہوتی ہے جو حساس اور باشعور ہے اور غمِ کائنات کو غمِ حیات کے آئینہ میں منعکس دیکھتا ہے۔‘‘ 

(’موسم موسم‘ کامقدمہ’صداقتوں کا شاعر‘: ڈاکٹر عنوان چشتی ص 10-11)

جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ جلیس نجیب آبادی نے حمد باری اور نعت مبارکہ کے علاوہ اصناف سخن کے قریب قریب ہررنگ کو قرطاس اَبیض پر اُتارا ہے۔ جلیس  نجیب آبادی کے شعری مجموعے،’قحط اور بارشیں‘ میں شامل ’حمد ‘قریب11برس بعد ماہنامہ ’جہاں نما‘گنگوہ کے اکتوبر 2018 کے شمارے میں  شائع ہوئی۔

حمد

نور سے بھر دے میرے لفظوں کی دُنیا اے خدا

لکھ رہا ہوں تیری  رحمت کا  قصیدہ  اے خدا

کون تیرے  در سے خالی  ہاتھ لوٹا  اے خدا

جتنا مانگا مل گیا  اُس سے بھی زیادہ  اے خدا

تو  زمین   و  آسماں  کی  روشنی،  تا بندگی

تو ہی بارش،  تو ہی خوشبو،تو ہی سایہ اے خدا

ہم تو کھو  جاتے کہیں گمراہیوں کے دشت میں

گر نہ  ہوتی تیری  رحمت  کار فرما  اے خدا 

دَرگزر   فرما    مِری  کوتاہی ٔ  گفتار  کو

شعر کہنے کا  نہیں مجھ کو  سلیقہ  اے  خدا  

دراصل، جلیس نجیب آبادی اُن شاعروں میں تھے،جو اپنا تعلق ہم قلم،ہم سفر،نقاد اور دانشور سمیت تمام قارئین کے ساتھ بنائے رکھنے کے خواہش مند رہتے ہیں۔ ان کے نزدیک تخلیق اور قاری کی حیثیت لازم و ملزوم کی سی ہے۔اچھا ادب تخلیق کرنے کے لیے جہاں ادب کاعمیق مطالعہ ضروری ہے،وہیں معاشرے پر بھی اس کی نگاہ اور مضبوط گرفت ہونا لازمی ہے۔اُنھوں نے کلاسیکی ادب  کے دعوے داروں پر سوال اُٹھاتے ہوئے کہا کہ کتنے ہی ترقی پسند اپنے نظریات پر قائم ہیں، تو کتنے ہی جدیدیت کے نظریات کے پابند ہیں۔ اچھا ادب، فن پارے اورتحریک کی بابت جلیس نجیب آبادی نے اپنے تجربات کا اظہار مندرجہ ذیل الفاظ میں کیا ہے:

’’تحریکیں دم توڑ دیتی ہیں لیکن ہر تحریک کچھ لازوال تخلیقات چھوڑ جاتی ہے اور کچھ ایسے فن کار جن کی شہرت دائمی ہوتی ہے،وقتی نہیں۔جن کی تخلیقات زبان و ادب کا بے بہا خزانہ اور آئندہ لکھنے والوں کے لیے سنگ میل بن جاتی ہیں۔‘‘

بہت عرصہ پہلے سے یہ آواز گونج رہی ہے کہ اچھا ادب تخلیق نہیں ہو رہا ہے۔کم سے کم اتنا ضرور سچ  ہے کہ اچھا ادب کم تخلیق ہو رہا ہے۔اس کے اسباب پر گفتگو کی یہاں گنجائش نہیں۔البتہ میراذاتی تجربہ یہ ہے کہ فنکار کا احساس عام لوگوں سے زیادہ شدید ہوتا ہے۔زندگی کے حسن سے اس کا تعلق زیادہ گہرا ہوتا ہے۔چھوٹے چھوٹے فطرت کے مناظر خدائے برتر کی تخلیق کردہ زندہ تصویریں، موسم، نغمگی، مسرتیں، غرض جو کچھ وہ دیکھتا ہے،سنتا ہے اور محسوس کرتا ہے،اسے اپنے تجربے کاایک حصہ بنا لیتا ہے،پھر وہ کسی اور دنیا میں کھو جاتا ہے۔یہی کیفیت اپنے اور دوسروں کے دکھ درد سے اس پر طاری ہوتی ہے اوریہ کرب آمیز لذتیں،خوشیاں اور غم اس کے اندرون میں کہیں گم ہوجاتی ہیں اورپھر اس کا قابل استعمال حصہ فنکار اپنے فن پاروں میں لوٹا دیتا ہے اوراس میں سے بھی وہ حصہ جس کی’ نمود خون جگر‘سے ہوتی ہے،’معجزۂ فن‘بن جاتا ہے۔ 

(شعری مجموعہ’قحط اور بارشیں‘  سخن ہائے گفتی،ص  11-12)

جلیس نجیب آبادی کے اشعار حقیقت پسند اور صداقت کی ترجمانی کرنے والے ہیں۔اُنھیں شعروں کے دھاگے میں الفاظ پرونے کا ہنر اچھی طرح آتا ہے۔ عام روش سے ہٹ کراپنی راہ الگ بنانے والے اس شاعر کے چند شعر اور ایک نظم ملا حظہ فرمائیں            ؎

آنسوؤں  سے ہی سہی بھر گیا  دامن میرا

ہاتھ تو میں نے اُٹھائے تھے دعا کس کی تھی

وہ چار دن یہاں ٹھہرے گا لوٹ جائے گا

جو مجھ میں شہر جلا  ہے وہ کیا دکھاؤں اُسے

چھتیں،دروازے،دیواریں،دریچے ٹوٹ جاتے ہیں

 سحر ہوتے ہی خوابوں کے گھروندے ٹوٹ جاتتے ہیں

ڈھونڈتا  رہتا  ہوں  اپنی  خامہ سوزی  کا  جواز

یعنی کیوں لکھتا ہوں اور کس کے لیے لکھتا ہوں میں        

ناز تھا جن کی رفاقت پر وہ چہرے کھو گئے

دوپہر سر پر کھڑی ہے  اور سائے کھو گئے

 پھر آج  دھوپ  کا سہرا  اُگے گا  کاغذ پر

پھر آج گرمِ سخن ہے سکوتِ شب مجھ سے

تمھاری یاد کے شعلوں میں جل رہی ہے حیات

 میں  خود کو  اس  سے  بڑی اور کیا  سزا  دیتا

 رات تیرا خط پڑھا،پھرپُرزہ  پُرزہ کر دیا

اور  اپنی  بے بسی  پر  دیر تک  روتا رہا

پھول سے بچے بھوکے سوتے دیکھے ہیں

آنگن آنگن دَرد کے سائے دیکھے  ہیں

 دراصل شاعری تہذیب و روایات کا آئینہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ایسا فن بھی ہے، جس میں اکتاہٹ اور بوریت کا احساس نہیں ہوتا۔یہ شاعراور سامعین کو لازم و ملزوم بنائے رکھتا ہے۔کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہر حساس اور ذی ہوش شخص کے قلب و جگر میں ایک شاعر چھپا ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ شاعر کا شعر پڑھ کر یا سن کر اُس کی تعریف کئے بغیررہ نہیں سکتا۔ اس کے برعکس اگر سامع شعر کے مفہوم و مضمون سے ناواقف ہے،تو اُسے شعر سے کوئی فیض نہیں ہوتا۔ ہاںالبتہ، شاعر کو اپنی محنت رائیگاں ہوتی ضرور نظر آتی ہے۔کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ اچھا شاعر اپنے کلام کو کتابی شکل میں شائع نہیں کرا پاتا۔اس صورت میں اس کا تمام تر علمی خزانہ کسی صندوق یا الماری میں قید یا پھر مکمل طور پر دفن ہو کر رہ جاتا ہے۔کم ہی خوش نصیب ہیں جن کے اِنتقال کے بعد اُن کی اولاد یاپھر شاگردوں میں سے کسی نے مرحوم کے کلام کو زندہ و جاوید بنانے کی کوشش کی ہے۔جہاں تک جلیس نجیب آبادی کاتعلق ہے،تو وہ اُن خوش نصیب شعرا میںشامل ہیں،جو اپنی حیات میںآٹھ کتابیںشائع کر اکر منظرِ عام پر لانے میں کامیاب رہے۔ان کے اشعار میں شاعری کی زندہ و تابندہ روایتیں تو موجود ہیں ہی، الفاظ کا انتخاب، تراکیب، پیکروں اور استعاروں کا استعمال بھی بڑی تجربہ کاری سے کیا گیا لگتا ہے۔ شعری مجموعے کی دوسری کاوش، ’موسم،موسم‘ میں ذہنی اور نفسانی کیفیتوں کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر پروفیسر عنوان چشتی نے کہا بھی ہے۔

ان اشعار کے مطالعے سے نئے تصور حسن و عشق، دردوداغ، کرب و کیف، خون آشام آرزو، حسرتوں، حوصلوں اورزندگی اور زمانوں کے تصادم سے پیدا ہونے والی شدید ذہنی اور نفسانی کیفیتوں کا عرفان بھی ہوتا ہے۔مجھے خوشی ہے کہ جلیس نجیب آبادی نے کلاسیکی دبستان سخن سے اپنا ذہنی رشتہ استواررکھتے ہوئے نئے دَور کا المیہ اور انسان کی ذات کی کشمکش کو پیش کیاہے اور اس پیش کش میں انھوں نے انسان بیزاری کا ثبوت نہیں دیا۔بلکہ اپنے دور سے ناآسودگی کے باوجود زندگی کو برتنے اور پیار کرنے کا حوصلہ دیا ہے۔ 

(’موسم موسم‘، صداقتوں کا شاعر: پروفیسر عنوان چشتی ص15-16)

جلیس نجیب آبادی کے اَدبی ذخیرے میں شامل شہر خیال (1972)، موسم موسم (1980)، برگ آفتاب (1988)، تذکرہ سیدنا یوسف (2001) ، قحط اور بارشیں (2007)، صبح کرنا شام کا (2013) شعری مجموعوں کے علاوہ نشتر خانقاہی،ڈاکٹرگری راج شرن اگروال اور سردار آصف کے ساتھ ’غزلوں کے شہر میں‘ غزل سنگرہ کو ترتیب دیا۔ہندی کی اس ضخیم کتاب میں حضرت امیر خسرو سے اب تک کے مشہورو معروف ادیب و شعرا کو شامل کیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ ’اوراق پریشان‘ کتاب کو بھی مرتب کیا۔’اوراق پریشاں‘ اپنے وقت کے مشہور شاعرمحمد اجمل خاں ایڈوکیٹ مرحوم کا شعری مجموعہ ہے۔شہیر پرواز بتاتے ہیں کہ یہ شعری بیاض کافی پرانی اور بوسیدہ ہو چکی تھی۔اس کے بہت سارے  اشعار کو دیمک چاٹ چکی تھی۔شکستہ خط میں لکھی اس شاعری کو ان کے بیٹے اورنگر پالیکا نجیب آباد کے سابق صدر معظم خاں ایڈوکیٹ ہر قیمت پر چھپوانے کے خواہش مند تھے۔ اس کتاب کو از سر نو لکھنے اور دیمک کی نذر ہو چکے شعروں کو ہر ممکن کوشش کر درست کرنے کے لیے سخت محنت کرنی پڑی۔اُنھوں نے اپنے اشعار میں نئی نئی جہتیں اور نئے نئے زاویے اس انداز میں پیش کیے ہیں کہ ان کی شاعری دورِ جدید کا منظر نامہ دکھائی دیتی ہے۔مشاہدات وتجربات کی منازل طے کرنے والے اس معتبر شاعر نے اپنی شاعری کاایسا کامیاب نمونہ چھوڑا ہے،جس کی بدولت اُنھیں مستقبل میں بھی یاد رکھا جائے گا۔


M. A. Kanwal Jafri

127/2, Jama Jasjid

NEENDRU, Tehsil Dhampur

Distt.: Bijnor - 246761 (UP)

Mob.: 9917767622

Email.: jafrikanwal785@gmail.com

 

 

ماہنامہ اردو دنیا، مئی 2021


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں