21/5/21

موسیٰ مجروح کی افسانہ نگاری - مضمون نگار: ذاکر حسین ذاکر

 



 عہد حاضر کے ہم عصر افسانہ نگاروں میں موسیٰ مجروح کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔افسانوی ادب میں مجروح کی شناخت مقصد انگیز افسانہ نگار کے طور پر ہوتی ہے۔وہ بنیادی طور پر رومانی افسانہ نگار ہیں۔مگر ان کے افسانوں میں معاشرتی نظام کے مسائل اور تعمیری اقدار کی بازیافت کی جھلک صاف محسوس کی جا سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانے زندگی کی توانائی سے بھرپور ہیں۔موسیٰ ادب میں فن برائے فن اور ادب برائے ادب دونوں ہی نظریے کے یکسا ں طور پر قائل ہیں۔وہ ادب کو زندگی کی اعلیٰ قدروں کا ترجمان و آئینہ تصور کرتے ہیں۔ان کے افسانوں میں ان کے اس مسلک کی جھلک صاف دکھائی دیتی ہے۔انھوںنے اپنی ادبی زندگی کی شروعات شعر و شاعری سے کی۔وہ ایک اچھے استاد اور اچھے انسان تھے۔ اس لیے ان کی شاعری ان دونوں ہی خوبیوں کاپرتو نظر آتی ہے۔وہ جدید معنویت اور کلاسیکی ندرت سے معمور دلکش اشعار کہتے ہیں         ؎

لکھ لکھ کے چومنا ورق دل پہ تیرا نام

قائم ہیں آج بھی میرے وحشت کے سلسلے

سورج چھپا کے اپنی شعائیں بھی لے گیا

ذروں کی بے بساط ادائیں بھی لے گیا

مجروح اس لٹیرے کا کیا تذکرہ کروں

جو دل کے ساتھ میری دعائیں بھی لے گیا

جب موسیٰ مجروح ایسی غزلیں کہہ رہے تھے تو اسی زمانے میں ان کے قریبی عزیز اورمعروف ادیب علامہ خیر بہوروی جن سے موسیٰ مجروح کی اکثر خط و کتابت ہوتی رہتی تھی۔انھیں غزل گوئی کے شریف فن کو بدنام نہ کرنے کا مشورہ دے دیا۔انھوں نے کہا کہ شاعری میں سب سے مشکل کام غزل کہنا ہے اور اس صنف کو سب سے آسان سمجھا جاتا ہے۔غزل کا ایک مزاج ہوتا ہے جو آسانی سے نہیں سمجھا جا سکتا۔ دل بہلانے کے لیے شعر گوئی کو میں دوسرے مشاغل سے بہتر سمجھتا ہوں۔مگر سنجیدہ شاعری کے لیے  معیاری ہونا شرط ہے۔خیربہوروی یہیں نہیں رکے انھوں نے موسیٰ صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے  امیر مینائی کا شعر بھی پڑھا۔

(پل صراط از موسیٰ مجروح ص :6 نشاط پریس ٹانڈہ فیض آباد لکھنؤ 1983)

تم اس کو  امیر اور کوئی کام سکھا ؤ

تڑپانے تڑپنے کے لیے دل نہیں ہوتا

علامہ خیر بہوروی کی اس طنزیہ ترغیب پر جب موسیٰ مجروح نے نثر نگاری میں دشت نوردی کا فیصلہ کیا تو انھوںنے اس کے لیے افسانے کو اپنے مزاج سے زیادہ ہم آہنگ اور قریب تر پایا۔علاّمہ کا مشورہ نوجوان موسیٰ کے ذہن پر اسی طرح گراں گزرا جیسے غالب کا’ مردہ پروردن مبارک کار نیست‘والا مشورہ سرسید کو برا لگا تھا۔جس طرح سرسید اپنی ناراضگی کے باوجود اس مشورے کی تپش کو اپنے ذہن سے نہیں جھٹک سکے اسی طرح موسیٰ بھی علامہ کے دل بہلانے کے لیے شعر گوئی کا مشورہ بھی بھول نہیں پائے۔ موسیٰ نے غزل کہنی تو نہیں چھوڑی مگر جب انھوں نے افسانہ لکھنا شروع کیا تو اس میں انھوں نے خوب دل تڑپائے۔پور پور جب کسی شاعر کا ذہن انسانی مسائل سے زیادہ روبرو ہوتا ہے تو اسے غالب کی طرح غزل تنگ محسوس ہونے لگتی ہے۔موسیٰ مجروح  سماجی تقاضو ں کو گہرائی سے محسوس کرنے والے شاعر تھے۔ اس لیے ان کو افسانہ نگاری میں قدم رکھنا ہی چاہئے تھا۔ افسانوی ادب ہی ادیب کے ذہنی تقاضوں کی تکمیل کا اہل ہے۔اسی لیے شاید انتظار حسین نے مرزا غالب کو کلاسکی شاعری کا حرف آخر اور نئے فکشن کا نقطۂ آغاز کہا تھا۔وہ اس لیے بھی یہ بات کہنے کی جسارت کر سکے کہ غالب نے’’ اور چاہیے وسعت میرے بیاں کے لیے ‘‘جیسی بات کہہ کرشاعری میں اظہار کی تنگی کی طرف اشارہ کر دیا تھا۔ غالب صرف غزل کہتے تھے جس میں تنگی کا احساس ہونا فطری عمل تھا۔ ان کے زمانے میں شاعری کے علاوہ کسی دیگر اصناف میں اپنی بات کھل کر کہہ پانے کی سہولیت موجود نہ تھی۔انتظار حسین کے مطابق ’غالب کو اپنے بیان کے لیے جس وسعت کی تلاش تھی۔وہ انھیں ناول ہی میں میسر آسکتی تھی۔

(علامتوں کا زوال از انتظار حسین ص :182مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ نئی دہلی1983)

لیکن غالب نے اس خلا کو پر کرنے کے لیے خطوط نگاری میں اپنا راستہ بنایا۔ انھوں نے خطوط نگاری کو افسانوی فضامیں ڈھال کرجس سہل انگیز نثر نگاری سے متعارف کرایا،اس کی دھڑکن ہم آج بھی محسوس کرتے ہیں۔ مگر اب ڈیڑھ صدی بعدامتداد زمانہ کی وجہ سے شاعر وں نے غزل کے علاوہ بھی نظم،آزاد نظم اور نثری نظم کا راستہ نکال لیاہے۔اس کے برعکس اردو کے عظیم ناول نگار اور نقاد شمس الرحمن فاروقی کا الگ خیال ہے۔وہ کہتے ہیں کہ کم الفاظ میں اپنی بات کہنے کی جو صلاحیت شاعری میں موجود ہے۔وہ فکشن میں دستیاب نہیں ہے۔ ’افسانے اور ناول کا وجود اتنا پر قوت نہیں ہے جتنا شاعری کا ہے ۔

(افسانے کی حمایت میں از شمس الرحمن فاروقی ص :15شہر زاد کراچی 2004)

موسیٰ مجروح کے افسانوں میں اسی طرح کی گہرائی محسوس کی جاسکتی ہے۔ان کے افسانوں میں شاعری کے نقوش نظر آتے ہیں۔ جیسا کہ فاروقی نے کئی چاند تھے سر آسماں کی نثر کے ساتھ کیاہے۔

موسیٰ مجروح کی بیشتر کہانیوں کے پلاٹ ان کے ذاتی تجربات پر مبنی ہیں۔ان کے پلاٹ ان کے آنگن میں پنپتے  ہیں اور ان کے ذہن میں ایک درخت کی طرح نشو ونما حاصل کرتے ہیں۔ پھر وہ کاغذ پر روشنائی کے ذریعے بکھرے نظر آتے ہیں۔میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ واردات قلبی صرف موسیٰ کے ساتھ وقوع پذیر ہوتی ہوگی۔ موسیٰ ان سے الگ اس لیے ہیں کہ ان کی کہانیوں میں ان کے تجربات کاجس گہرائی سے اظہار ہوتاہے، اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ وہ کس کرب سے گزر کر ایک کہانی کی تخلیق کرتے رہے ہوں گے۔جب انھوںنے دیکھا کہ ان کا چھوٹا بھائی جسے انھوںنے تعلیم و تربیت دی، ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے بھی روز ان کی کھڑکی سے گزر جاتا ہے اور ان کی طرف متوجہ نہیں ہوتا ہے۔ان کی بیماری اور اقتصادی مشکلات سے بھی چشم پوشی کرتا ہے۔ان کے چھوٹے چھوٹے بچوں تک کو بھی وہ دیکھ کر نظر انداز کرتاتو ان کی حس پھڑک جاتی ہے۔ایسے میں وہ ناختم ہونے والے کرب میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ انھوں نے اس کرب کو ایک خوبصورت کہانی کی شکل میں ڈھال دیاجس کے بعد’کھڑکی‘کہانی وجود میں آئی۔ کھڑکی افسانہ نگار کی ذاتی کہانی  معلوم ہوتی ہے۔ اتفاق سے اس کہانی کا اہم کردار سلطانہ اور بچوں کے نام بھی افسانہ نگار کے اپنے بچوں کے نام  پر رکھے گئے ہیں۔’ وہ مجھ سے ملنے نہیں آتا مجھے دیکھنے بھی نہیں آتا لیکن میرے لیے یہ بہت طمانیت کا باعث ہے کہ چارپائی پر پڑے پڑے اپنی کھڑکی سے دوبار اسے اسکوٹر سے آتے جاتے دیکھ لیتا ہوں۔

(پل صراط ص181)

یہ کہانی کا کلائمکس ہے جس میں افسانہ نگار نے اپنے کرب کو انتہائی اطمینان کے ساتھ ظاہر کیا ہے۔اس کے اظہار میں بے بسی نہیں ہے۔

ریلوے اسٹیشن کے پل کے نیچے ٹرین سے کٹی ہوئی ایک لاش افسانہ نگار کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ لاش کے اعضا چاروں طرف بکھرے ہوئے ہیں۔ ایسا ظاہرہو رہا ہے کہ اس کی آنکھیں زندہ ہیں اور کسی کی متلاشی ہیں۔یہ مخدوش لاش اس حساس افسانہ نگار کے ذہن سے ایسے چپک کر رہ جاتی ہے جیسے وہ اسے سالوں سے جانتا ہو۔ واقعی وہ اس کے دوست صدیقی کی لاش تھی۔ صدیقی کی لاش کی وہ زند ہ آنکھیں افسانہ نگار کا اس وقت تک تعاقب کرتی ہیں جب تک وہ ایک کہانی کا پلاٹ تیار نہیں کر لیتا۔آنکھیں ان کے افسانوی مجموعہ ’پل صراط‘ میں شامل ہے۔’’اس کی بکھری ہوئی لاش میری نگاہوں کے سامنے تھی۔درجنوں گدھ اور کتے اس کی مزید صفائی میں منہمک تھے۔ویران اور اداس آنکھیں خلاف توقع محفوظ اور کھلی ہوئی تھیں۔ (پل صراط ص 59)

خودکشی کی اس دلخراش واردات کو ریلوے اسٹیشن پر سیکڑوںلوگوں نے دیکھا ہوگا مگر اس کا کرب محسوس کیا موسیٰ نے، جو ایک سچے افسانہ نگار ہیں۔ ایسا نہیںکہ خود کشی کی واردات اس کے بعد نہیں ہوئی۔آج بھی ہوتی ہو گی۔ ہو سکتا ہے کہ آنکھیں سے اچھی کہانی بھی لکھی گئی ہو، مگر آنکھیں نے اس واقعے کی ایک الگ مگر امٹ چھاپ چھوڑی ہے۔ اقتصادی بدحالی کا شکار اور بیماری سے ٹوٹ چکے صدیقی کے لیے اپنی بیوی کے سامنے منہ دکھانا مشکل ہو گیا تھا۔’خودکشی سے قبل صدیقی نے مصنف کے سامنے اعتراف کیا کہ میں ریل کی پٹری سے اٹھ کر آرہا ہوں۔ ڈیڑھ گھنٹے تک سٹی اسٹیشن کے پل پر سویا رہا کمبخت کوئی ٹرین ہی نہیں آئی۔صدیقی خود کشی کرنے کے اپنے ارادے کو بہت فطری انداز میں بیان کرتا ہے۔ ’اسے اپنی کم مائیگی اور کم نصیبی کا احساس تھا‘ ۔ (پل صراط ص69)

افسانہ نگار نے اس واقعے کو یوں قبول کیا جیسے کفن میں گھیسو اور مادھو کے آلو کھانے کے معمولی سے واقعہ کو پریم چند نے قبول کیا تھا۔اس خودکشی کے واقعے نے گرد و پیش کے کوائف پر مبنی ایک پر تاثیر اور درد ناک کہانی کو جنم دیا۔

اردو کے اس مشہور و معروف شاعر و افسانہ نگار محمد موسیٰ خان موسوم بہ موسیٰ مجروح کا جنم دیوریا کے سلیم پور علاقے کے گاؤں اورنگ آباد میں 1936 ہوا تھا۔ابتدائی تعلیم سلیم پور ہی میں ہوئی تھی۔انٹرنس کرنے اسلامیہ کالج گورکھپور چلے گئے۔پھر الہ آباد یونیورسٹی سے بی کام کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد بہ مشکل بیس سال کی عمر میں موسیٰ کو بلاک ڈیولپمنٹ آفس میں نوکری مل گئی۔اس کام کے ساتھ ان کا ذہن ہم آہنگ نہیں ہو پا رہا تھا۔اس لیے وہ ایک سال کے اندر گورکھپور ریلوے میں اکاونٹینٹ ہو کر چلے گئے۔گورکھپور کی وسیع فضا ان کے مزاج سے مطابقت رکھتی تھی۔ادب سے ان کا ذہنی لگاؤ پہلے سے ہی تھا۔ گورکھپور کی ادبی فضا میں بسی توانائی نے اس میں مزید جلا ء بخشی۔ان کا ادبی ذوق بیدار ہو گیا۔انھوں نے وہاں ایک بار پھر پڑھنا لکھنا شروع کر دیا۔ اردو سے ایم اے کرنے کے بعدان کی تقرری رتن سین بانسی ڈگری کالج میں بطور لکچرار ہو گئی۔زندگی کے اسی موڑ پر موسیٰ مجروح نے محمد موسیٰ خاں کا کینچل اتار پھینکا اور پھر اس ادبی سفر میں نکل کھڑے ہوئے جو انھیں بہت دور تک لے جانے والا تھا۔انھوں نے اس سفر میں چلتے ہوئے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ محمد موسیٰ خاں سے موسیٰ مجروح تک کا نصف صدی کا سفر دلچسپ بھی ہے اور صبرآزما بھی۔اس سفر میں کئی ایسے مقام آئے جہاں نامساعد حالات میں بھی حوصلہ مندی اور ثابت قدمی نے انھیں آگے بڑھتے رہنے کا موقع فراہم کیا۔ان کے تجربات او ر مشاہدات نے ان کے دماغ کو ہر موڑ پرنئی اور انوکھی کہانیوں سے روشناس کرایا۔ان کی دلچسپ شیریں بیانی نے انھیں نثر میں شاعری کرنے کا ہنر بخشا، جسے انھوں نے بہت حسن و خوبی سے ادا کیا۔حالانکہ موسیٰ کا دعوا ہے کہ وہ نثر میں شاعری نہیں کرتے ان کا کہنا ہے کہ میں موضوع کی اولیت اور اس کی خوبصورت پیش کش پر جان چھڑکتا ہوں۔یہ بات درست ہے کہ جب تک ادیب کی شخصیت میں رومانی پیچ و خم نہ ہوں خالص تخیلات کی پرواز کے سہارے دماغ میں ارتعاش پیدا کرنے والی کہانیاں وجود میں نہیں آتیں۔

مگر موسیٰ کی کہانی ’معاوضہ ‘ پڑھنے سے ظاہر ہوتا ہے کی ان کی شخصیت میں کتنا پیچ و خم ہے۔ معاوضہ متعصبانہ حالات حاضرہ کی زبردست عکاسی کرتی ہے۔ اس کہانی کے خالق کو خالص رومانی کہانی کار کہہ کر رد نہیں کیا جا سکتا ہے۔ان کے بیشتر افسانے اپنے اندر گہری معنویت پوشیدہ رکھنے کے علاوہ سماجی تانے بانے کے الجھاؤ سے تعلق رکھتے ہیں،اسی سروکار سے تعلق رکھنے کے لیے چار دہائی قبل جل گاؤں شہر میں ہوئے فساد ات کی شاندار عکاسی کے لیے افسانہ معاوضہ کو یاد رکھا جائے گا۔اس کی مرکزی کردار ہاجرہ بیگم کی دشواریاں فسادات میں تباہ ایک متوسط طبقے کے مظلوم خاندان کی کہانی بیان کرتی ہے۔ایک دن ایک عورت افسران کے سامنے گڑگڑا رہی تھی۔

میں بیوہ ہوں۔

بیکس ہوں۔میں لٹ گئی میں برباد ہو گئی

مگر اس کی بات کوئی سننے والا نہیں تھا

(پل صراط ص 152)

دنگے میں کیسے سب کچھ تباہ ہو جاتا ہے یہ افسانہ اس کی سچی عکاسی کرتا ہے۔ ‘ (پل صراط ص 157)

معاوضہ اس ماں کی درد ناک کہانی ہے جس کافساد میں سب کچھ لٹ جاتا ہے اور معاوضہ کے لیے وہ افسران کے آگے گڑگڑاتی پھر رہی ہے۔ یہ فسادات کے موضو ع پر ایک زندہ کہانی ہے۔ کہانی کا کلائمکس بہت درد ناک ہے۔جب وہ معاوضے کے دفتر میں اپنے کاغذات لے کر جاتی ہے۔کار میں بیٹھا ہوا ایک آدمی اسے بھکاری سمجھ کر سو روپئے دے کر آگے بڑھ جاتا ہے۔

پل صراط میں شامل افسانوں کا سماجی اور معاشیاتی مشاہدہ کرنے پر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سارے کردار کسی نہ کسی سنگین مسئلے سے دوچار ہیں۔ایسے  مسائل جس سے متوسط طبقہ نبرد آزما ہونا چاہتا ہے۔ مگر اس سے فرار ممکن نہیں ہے۔ان میں رومان پسندی اور حقیقت نگاری کا ایک سا ذائقہ محسوس ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ان کا افسانہ کانٹے جسے رومان پسندی کا نمائندہ کہا جا سکتا ہے۔یہ بالکل رومانی کہانی ہے۔دوستی اور محبت کی کہانی کانٹے کو علامت کے طورپر پیش کیا گیا ہے       ؎

انھیں سے پھول ملے تھے انھیں دعائیں دو

جو آج لائے ہیں کانٹے چھپا کے دامن میں

التجا اور پل صراط تک تمام افسانے رومانیت کے ساتھ نفسیاتی مسائل کے بھی عکاس ہیں۔ان افسانوں کو رومانی کہنے کے لیے ہمارے پاس ایک وجہ اور بھی ہے اور وہ ہے کہ موسیٰ کی زبان نہات شیریں ہے۔ان کی نثر جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے اتنی شیریں اور رومانی ہے کہ ظاہری طور پر تلخ افسانے بھی رومانی نظر آتے ہیں۔نثر میں شاعری کرنے کے تعلق سے کرشن چندر کے بارے میں جو بات کہی جاتی ہے وہ موسیٰ مجروح کے بارے میں صادق آتی ہے۔ ماہ نامہ’ بیسویں صدی ‘میں مسلسل شائع ہونے والے موسیٰ مجروح کے رومانی افسانے کانٹے، ادھورا مجسمہ،خوبصورت ہاتھ، سنگ میل اورمنزل اور التجا کو اس دعوے کی دلیل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ پل صراط خود ایک رومانی کہانی ہے۔حالانکہ موسیٰ کی ہر کہانی ایک پل صراط ہے۔مگر پل صراط کی بات ہی کچھ اور ہے۔’اس وقت واقعتا وہ پتھر کا ایک شاہکار معلوم ہو رہی تھی۔

(پل صراط ص 137)

یہ ایک نوجوان لڑکی سے لڑکے کی ملاقات شادی سے پہلے بھی ہوتی رہی ہے۔ اس نے کئی بار شادی سے قبل اس کا بوسہ لینا چاہا مگر لڑکی نے منع کر دیا۔شادی کے بعد وہ ضد کرنے لگتا ہے کہ کیا یہ ہونٹ واقعی کنوارے ہیں۔’میں اس پر دیوانہ وار جھکتا چلا گیا۔سرخ غرارہ جمپر اور مقیش لگی ہوئی اوڑھنی میں میرے دیرینہ خوابوں کی تعبیر چھپی ہوئی تھی۔ (پل صراط ص 139)

قسم کھاؤ کیا ان ہونٹوں کو پہلے کسی نے نہیں چھوا ہے۔جب اس کی ضد بڑھتی گئی تو لڑکی نے کہا کہ دونوں یہ قسم کھائیں تو وہ دھڑام سے زمین پر گر پڑا۔در اصل موسیٰ کی رومان پسندی مکمل طور پر انسانی مسائل کی رومانیت ہے۔ وہ رومانیت کو بھی مسائل میں ممیز کرتے نظر آتے ہیں۔ ان مسائل پر ان کی گرفت اس قدر مضبوط ہے کہ اس کی تاثیر ہی ان کے افسانوں کو دھاردار بنا کر پیش کرتی ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ جب قاری ان کے افسانے پڑھتا ہے تو اسے ہر افسانے میں ایک نئے پل صراط سے گزرنا پڑتا ہے۔

پل صراط میں کل 12کہانیاں شامل ہیں۔اس کی پہلی کہانی ’سنگ میل اور منزل ‘ بہت دلچسپ ہے۔ اس کہانی میں نئی نویلی دلہن سسرال میں اپنے شوہر کا البم دیکھتی ہے اور اس میں لگائی گئی ایک درجن لڑکیوں کی تصویریں اس کے سامنے گھوم جاتی ہیں۔وہ ان کے متعلق اپنے شوہر سے دریافت کرتی ہے۔ شیامالی، فریدہ، صبا، شمع نرگس وغیرہ۔الہ آباد کی شیامالی جوپہاڑ کی رہنے والی تھی۔ اس کے ساتھ یونیورسٹی میں پڑھتی تھی۔لکھنؤ کی رہنے والی فریدہ جو پاک دامن لڑکی تھی بالکل گنگا جل کی طرح پاکیزہ۔ افسانہ نگار البم میں لگے سبھی لڑکیوںکاحسین اور دلچسپ تعارف کراتا ہے۔ان کے حسین چہرے لباس اور خاندانی حالات تک۔ مگر وہ آخر میںبڑی صاف گوئی سے کہتا ہے کہ یہ سب سنگ منزل تھیں اور تم منزل ہو۔اپنے شوہر کا بے باک جواب سن کر نئی نویلی دلہن کے چہرے پر تبسم رقص کرنے لگتا ہے۔اس کہانی کو پڑھتے ہوئے مجھے جوش کی خود نوشت ’ یادوں کی بارات‘ کی یاد آگئی۔جس میں جوش صاحب نے بھی بہت بے باکی سے اپنے معاشقے کا ذکر کیا ہے۔

وہ بڈھا ‘  ہجر ت کے کرب کی کہانی ہے۔ایک بڈھا اپنے گاؤں اپنے باغ اور اپنی کوٹھی کو پکڑے بیٹھا رہتا ہے۔ ا ٓزادی کے بعد تعلیم یافتہ گھرانوں میں جو ہجرت کی وبا چلی تو پورا گھر تباہ ہو گیا۔اس بڈھے کی ساری اولادیں یہاں تک کہ اس کی بیوی بھی پاکستان چلی گئی۔ وہ اکیلے رہ جاتا ہے۔اپنے بچوں سے کہتا ہے کہ اپنی جائداد فروخت کرنے کے بعد ہی پاکستان جائے گا۔ مگر وہ اپنی جائداد فروخت کرنے کے بعد بھی اپنا گاؤں نہیں چھوڑ پاتا۔ جب اس کا گھر بک جاتا ہے تو وہ لایعنی طور پر گاؤں میں گھومتا رہتا ہے۔کئی درد ناک کہانیوں میں رینگتا ہوا آدمی جو 1980میں لکھی گئی تھی بہت اہم ہے۔ ریلوے اسٹیشن پر جوتے پر پالش کرنے والے ایک بوڑھے کی کہانی جس کے چار لڑکے اورچار لڑکیاں ہیں۔اس کے بعد بھی وہ تنہا ہے اور پیٹ پالنے کے لیے جوتے پر پالش کرتا پھرتا ہے۔ اس کے بچے اپنے اپنے گھونسلے میں نئے چوزوں کو پال رہے ہیںاور اس گدھ کو بھول چکے ہیں جس نے اپنا پیٹ کاٹ کران کی پرورش کی تھی۔ اب ان کے دنیا میں رہتے ہوئے بھی وہ لوگوں کے جوتے پر پالش کر کے اپنا پیٹ پال رہا ہے۔آج اس موضو ع پر کئی کہانیاں اور ناول لکھے جا چکے ہیں، مگر اس وقت موسیٰ کی کہانی میں نیاپن تھا۔پل صراط پڑھنے کے بعد ظاہر ہوتا ہے کہ موسیٰ نے علامہ خیر بہوروی کی’ دو لائن صحیح لکھنے والی بات‘ کو غلط ثابت کر دیا۔ جب ایک کامیاب غزل گو نثر کی طرف راغب ہوتا ہے تو شاعری کی ساری لطافت نزاکت اور دلکشی اس کے بیانیہ میں سمٹ آتی ہیں۔بیانیہ کی یہ خوبیاں موسیٰ مجروح کے افسانوں میں بدرجۂ اتم موجود ہیں۔


Zakir Hussain Zakir

Shanti Nagar NearSantPushpaSchoole

Distt& Post: Deoria- 274001 (UP)

Mob.: 9415276138




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں