24/5/21

مثنوی ’سحرالبیان‘ کا تجزیاتی مطالعہ - مضمون نگار: محمد سہیل انور


 

مثنوی ’سحرالبیان‘ کا سنہ تصنیف 1784-85 بمطابق 1199ھ ہے اور اس کا سنہ اشاعت1805/ 1230 ھ ہے۔اس کے مصنف میر غلام حسین ضاحک کے فرزندِارجمند میر غلام حسن ا لمعروف  میر حسن ہیں اور یہ مثنوی پہلی دفعہ 1805/1230ھ میں ہندستانی پریس کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج کے زیرِ اہتمام شائع ہوئی۔

نہیں مثنوی،ہے یہ اک پھلجڑی

مسلسل ہے موتی کی گویا لڑی

  نئی طرز ہے اور نئی ہے  زبان

نہیں مثنوی، ہے یہ سحرالبیاں

مذکورہ قطعہ سے یہ بات عیاں ہے کہ یہ صرف مثنوی نہیں بلکہ مختلف خصوصیات کی حامل ہے۔ زیر نظر مثنوی میں ایک نئی طرز ہے اور نئی زبان بھی ہے جس کے باعث اس کو ’سحر البیان‘ قرار دیا گیا ہے۔ظاہر ہے کہ جب یہ سحرالبیان ہے تو لازمی ہے کہ اس کو ’سھل البیان‘ کے زمرے میں نہیں رکھا جا سکتا ہے اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ تمام تر مثنوی کو مسلسل موتی کی ایک لڑی سے تشبیہ دی گئی ہے۔موتی کا ایک دانہ بھی اِدھر سے اُدھر ہوا گویا موتی کی یہ لڑی یا تسبیح کے دانے کا پورا شیرازہ ہی بکھر جائے گاجس میں الفاظ و معانی کا خزانہ ہے تو تشبیہات و استعارات کا فسانہ بھی۔

اب تصور کریں کہ مندرجہ بالا تمہید کی روشنی میںاس مثنوی کی قرات اور اس کی سحرالبیانی کی تفہیم کے مراحل کس قدر دشوار ہیں ؟لہٰذا اس کی نزاکت کو بجا طور پر اگر نہیں پرکھا گیا توکیا ہم اس مثنوی کے صحیح اغراض و مقاصد کی تکمیل اور اس کے سیاق و سباق تک رسائی پا سکتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ جواب نفی میں ہوگا !چناچہ مثنوی سحر البیان کو محض قدیم و پرانی داستانوں اور افسانوں پر مشتمل ایک منظوم و منفرد لب و لہجے کی عشقیہ کہانیوں تک ہی محدود کر دینا انصاف طلب بات نہیں ہو سکتی بلکہ اس کے پسِ پردہ مصنف کے سامنے پرانے زمانے کے اشرافیہ طبقوں مثلاً سلاطین وا مرا، وزرا یا اصحابِ مسندکی اولادوں کی نسل در نسل پرورش و پرداخت کے ساتھ ساتھ اصلاحی، اخلاقی، سماجی  و تہذیبی طور طریقوںو سلیقوں اور حکمتِ عملی کا ایک نادر و نایاب نمونۂ اسباق و کتابی نصاب تیارکیا جاتا تھا مزید جس کی روشنی میں صاحبزادے و صاحبزادیوںکی صحیح و مناسب سمت و رفتار میں تربیت و نشوو نما اور ذہنی افتادگی کی جانچ و پرکھ ہو سکے۔

وضاحت طلب بات یہ ہے کہ کس طرح مثنوی ’سحرالبیان ‘کے ذریعے متعلقہ دور کی معاشرتی زندگی کا خاکہ قارئین کے سامنے منعکس ہو جاتا ہے اور کس طرح باذوق قاری و طالب علم (خواہ وہ منظومات ہو یا منثورات) اس کتاب کے مطالعے کے بعد اُس دور کی تہذیبی، معاشرتی، اخلاقی و سماجی قدروں و دیگر مختلف امور سے نہ صرف بخوبی واقف ہو سکتا ہے بلکہ متعلقہ ادوار کی معاشرتی صورتِ حال سے روبرو بھی ہو سکتا ہے۔غالباً اسی لیے ایک معتبر ناقد جناب شارب ردولوی نے اپنی مبسوط کتاب ’جدید اردو تنقید: اصول و نظریات‘ میں ایک مقام پر ممتاز نقاد ممتاز حسین کے حوالے سے ایک مقام پر ممتاز صاحب کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ شاعر و ادیب کو،مورخ سے زیادہ اہمیت دیتے  ہیں:

ـ’’ ایک ادیب و شاعر، مورخ سے زیادہ حقیقت پسندہوتا ہے،مورخ تو اسی بات کو دہراتا ہے جوماضی میں رونما ہوئے ہیں،جبکہ شاعرو ادیب ماضی میں رونما ہونے والے واقعات وحادثات  سے آگاہ تو کرتا ہی ہے،لیکن اس کے علاوہ،مستقبل کے خدشات سے بھی متنبہ کرتا ہے۔اس لیے میرے نزدیک ایک شاعر و ادیب، مورخ سے بھی زیادہ حقیقت پسند ہوتا ہے اور معاشرے کے معاملات سے با خبر رہتا ہے۔‘‘

(جدید اردو تنقید: اصول و نظریات از شارب ردولوی ص  )

اوّل الذ کرزیر نظر کتاب کے مقدمہ سے خود مصنف؍ مرتب کی چند عبارتیں دیکھیں اور بعد ازاں چند منظوم بندیں ملاحظہ ہوں،جس سے اس دور کی تصاویر نظروں کے سامنے منعکس و منکشف ہو جاتی ہیں:

’’سحرالبیان میں معاشرت نگاری لباس اور زیورات تک محدود نہیں پورے جاگیردارانہ ماحول کو محیط ہے۔محل کی سجاوٹ خاصوں و کنیزوں کی چہل پہل،خواتین کا رہن سہن،امیروں کی ٹھاٹ اس کے درباری اور خدّام، پالکی اور نالکی کو اُٹھانے والے کمہار،شاہی جلوس میں شادیانے بجانے والے نقّارچی... ارباب نشاط وغیرہ کی موجودگی، شہزادے کی تربیت کے لیے معلّم،اتالیق،منشی  ادیب کی تقرری،نصابِ تعلیم معانی ومنطق،بیان و ادب،علمِ صرف ونحو،حکمت۔۔وغیرہ کے رواج  اور مختلف رسوم کا کم و بیش ذکر ملتا ہے۔‘‘

(مثنوی سحر البیان مرتبہ؍ ڈاکٹر قمر الہدیٰ فریدی مقدمہ ص40-41)

مذکورہ عبارت کی وضاحت کے لیے چند منظوم بندسے کریں تو اس دورکی تصویریں مزید واضح ہو جائیں گی       ؎

عمارت کی خوبی، دروں کی وہ شان

لگے جس میں زربَفت کے سائبان

چقیں اور پردے بندھے  زر نگار

دروں  پر کھڑی  دست بستہ  بہار

کوئی  ڈور سے  در  پہ  اٹکا  ہوا

کوئی  زہ  پہ  خوبی سے  لٹکا  ہوا

دیے  چار  سو  آئینے   جو  لگا

گیا  چوگنا   لطف  اس میں سما

 وہ مخمل کا  فرش  اس میں ستھرا کہ بس

بڑھے  جس کے آگے نہ  پائے  ہوس

چھپر کھٹ   مرصع  کا  دالان  میں

چمکتا   تھا  اس  طرح  ہر  آن  میں

مزید دیکھیں مصنف میرحسن نے کتنی خوبصورتی سے بناؤ سنگار، تزئین کاری،نازک خیالی، جزئیات نگاری کا سہارا لے کر بالخصوص،متعلقہ دور کے معاشرے و ماحول اور بزم آرائیوں کی خوشنما محفل کو الفاظ و مرصع نگاری کا جامہ پہنایا ہے         ؎

کوئی آرسی  اپنے  آگے  دھرے

ادا   سے کہیں بیٹھی کنگھی کرے

مقابا  کوئی  کھول  مسّی  لگائے

لبوں پہ  دھڑی  کوئی  میٹھی  لگائے

کھڑی ہو کے دو گھونٹ حقے کے لے

 چبا  پان اور  رنگ ہونٹوں  کو  دے

انگوٹھے  کی  لے  سامنے  آرسی

وہ صورت  کی دیکھ  اپنی  گلزار  سی

اُلٹ آرسی  اور مہرئی  کے  چاک

نئے سرے سے انگیا کو کر ٹھیک  ٹھاک

بنا کنگھی  اور کر کے  ابرو  درست

جھٹک دامن اور ہو کے چالاک و چست

دو پٹیّ کو  سر پہ اُلٹ  اور سنبھال

یکایک  وہ   صف  چیر   آنا    نکل

پکڑ  کان  اور گھنگھرؤں  کو اُ ٹھا 

پہن  پاؤں  میں  او ر  سر سے   چھوا

اِدھر اور اُدھر رکھ کے کاندھے پہ ہاتھ

چلے  ناچتے  آنا  سنگت   کے  ساتھ

فتح چند  کے ہاتھ کی مورت ہے اک

لجائی ہوئی  چاندسی صورت ہے  اک

کبھی   ناچنا   اور  گا نا  بھی

رجھانا کبھی   اور   بتانا کبھی

خوش  آواز یاں  اور  گانا  خیال 

 دِکھانا  ہر  اک  دم  میں  اپنا   خیال

   مذکورہ منظوم منظر نگاری و محاکات سے اُس دورکے متعلقہ امور، تہذیب و ثقافت، رسم ورواج، سولہ سنگار، رقص و سرود کے علاوہ کئی اور محرکات سے بھی ذی شعور قاری متعارف ہو سکتا ہے۔مثلاً فتح چند کے ہاتھ کی مورت کا ذکراس بات کا بیّن ثبوت ہے کہ جس طرح ماضی بعید میں قدیم طرز پر آزر(پدرِ ابراہیمؐ)کی مصوری و نقاشی بامَِ عروج و احتشام کے ساتھ شہرت پذیر تھی،غالباً اسی طرح میر حسن نے اپنے دور کے شہرت یافتہ مصور یا بُت تراش کا اپنی مثنوی میں اشارتاً ذکر کرکے اس دور کے تاریخی،سماجی و ثقافتی رموز سے پردہ اُٹھایا ہے  یوں کہا جائے کہ متعلقہ دور کی اہم معلومات سے بہرہ ور کیا ہے تو شاید بے محل نہ ہوگا۔

یہاں ایک نکتے کا ذکر کرنا ناگزیر ہے کہ بعد کے دور میں عربی،فارسی اور اردومیں فرداً فرداًہر صنف میں برملا اظہار تھا لیکن میر حسن کی مثنوی یا اس قبیل کی دوسری اصناف کا مطالعہ کریں تو ایسا گمان گزرتا ہے کہ اس دور کے مصنف ؍ تخلیق کار،مختلف اصناف پر بیک وقت عبور و مہارت رکھتے تھے لہٰذا مثنوی یا عشقیہ داستانوں پر طبع آزمائی سے قبل حمد، نعت، منقبت،مناجات یا دیگر اہم امور پر منظوم کلام پیش کرنے کو ترجیح دیتے تھے بعد ازاں مدّعا یا زیرِ بحث موضوع پر زور آزمائی ہوتی تھی۔زیر نظر اشعار بطور نمونۂ کلام ملاحظہ ہو۔


حمد و ثنا:


 نہ بھول اپنے خالق کو ائے دل نہ بھول

کہ یاد اس کی ہے دونوں جہاں کا حصول

اسی کو مددگار اپنا سمجھ

اسی کو فقط یار اپنا سمجھ

زباں تیری گویا رہے جب تلک

اور امکان سخن کار ہے جب تلک

کیا کر ثنائے جہاں آفریں

سخن کوئی بس اس سے بہتر نہیں


نعت  ومنقبت:

بھروسا کسی کا نہیں اک ذرا

ہے ان کا ہی ہم کو فقط آسرا

نبیؐ و علیؓ اپنے ہیں پیشوا

نبی و علی اپنے ہیں رہنما

انھیں سے ہے کونین میں ہم کو کام

وے مولا ہیں میرے، میں ان کا غلام

درود ان پر اور ان کی اولاد پر

بہ دل بھیجتا ہوں میں شام و سحر

صرف اتنا ہی نہیں کہ مصنف کو منظوم پیرائے میں  حمد، نعت،منقبت،مناجات پیش کرنے میں یدِ طولیٰ حاصل تھا بلکہ منظوم مثنوی کے متن کا مطالعہ کرنے کے دوران ایسا گمان گزرتا ہے کہ تخلیق کار نے کس مہارت سے محاورے، ضرب المثل،الفاظ و بیان کی چابکدستی وغیرہ سے مثنوی کو سچی حکایات و کہانیوں سے مزیّن و آراستہ کر دیا ہے۔متن کے مطالعے کے دوران ایسا سان و گمان میں بھی نہیں گزرتا کہ قاری، مافوق الفطری عناصر یا پری، شہزادہ، شہزادی یا پری زادیوں  کی عکسی و فرضی داستانوںکی سَیر کر رہا ہے بلکہ اگر ذی شعور قاری متون کے اصول و ضوابط سے، صرف و نحو،الفاظ و معانی اور مناظر و محاکات سے بخوبی واقف ہے تو اُس کو حقیقی داستانوں و کہانیوں کا لطف ملتا ہے بلکہ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ یہ مثنوی نہیں بلکہ اہلِ نظر وا ہلِ ذوق کے دلوں کو بہلانے و لُبھانے کے لیے ایک ’موہنی منتر‘ کے مترادف ہے، جس سے قاری نہ صرف محظوظ و مسرور ہوتا ہے بلکہ عبرت آموز و فکر انگیز کہانیوں کی سَیر کرتے کرتے مقامِ عبرت سے بھی دو چار ہوتا ہے۔جس طرح، شیکسپیئر کے ڈرامے ’میکبیتھ‘ میں مختلف ایکٹ  اور پلیز سے یکساں نہیں بلکہ منفرد طور پر محظوظ ہوتے ہیں۔من وعن مثنوی سحرالبیان کی ہر داستان میں سحر انگیزی کا وہ دفتر وا ہوتا ہے کہ مصنف کی طبع آزمائی اور ذہنی افتادگی پر کلمہ ٔ تحسین یا واہ!کہے بغیر نہیں رہ سکتے۔اُ سی طرح مثنوی سحرالبیاں،بظاہر عشقیہ داستان ہے لیکن اس میں بھی ڈرامے کے مناظر کا گماں دورانِ مطالعہ گذرتا ہے۔حالانکہ اس مثنوی میں بھی فصاحت و بلاغت کا دریا رواں دواں ہے اور آج کے تکنکی و ڈیجیٹل دور میں ہر کس و ناکس یا یوں کہیں کہ با ذوق قاریوں و کتب بینوں کا فقدان ہے نتیجتاً پرانے دور کی اس قدر مقبول و مرعوب صنف کو پڑھنے کی کس کو فرصت ہے؟لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ آج کے زرق و برق،تیز رو اور ڈیجیٹل دور میں اول اور امتیازی مقام حاصل کرنے کی للک میں ذہنی ورزش و ذہنی ادراک سے بھی ہم دور ہوتے چلے جارہے ہیں۔غالباً اسی لیے بے باک ناقد پروفیسر کلیم الدین احمد نے ایک موقع پر اردو کی داستانوں و اُن میں موجود مافوق الفطری عناصر و مقفیٰ و مسجّع عبارت کی گراں باری کے متعلق یہ رائے دی تھی کہ:

’’جوانسومنیا (Ensomnia) کا مریض ہو وہ فسانۂ عجائب پڑھے، اسے نیند آجائے گی۔‘‘

(اردو داستانوں پر ایک نظر از کلیم الدین احمد ص )

گو کہ عبارتوں و تحریروں میں مقفیٰ و مسجع عبارت یا فصاحت و بلاغت کی ترکیب بھی آج کے ڈیجیٹل دور میں ذہنی ٹانک کا کام کر سکتی ہے کیونکہ اس تیز رفتار دور میں سبقت و فوقیت حاصل کرنے کی ہوڑ مچی ہے جس کے باعث انسان  مختلف اقسام کے ذہنی امراض مثلاً انسومنیا، احساسِ کمتری،خود غرضی، شکست خوردگی،ناکامی و نامرادی اوربالآخر عدم توازن کے احساسات کے تلے دبا جا رہا ہے تو لازم ہے کہ ان امورسے بخوبی نجات پانے کے لیے ذی شعور و حسّاس قاری  و افراد کو فرحت و انبساط پہنچانے کی غرض سے اس قسم کی مثنویاں و داستانیں یقیناً ذہنی ٹانک کا کام کریں گی کیو نکہ آج کا بشر،برقی،تکنکی و ڈیجیٹل آلات کے کثرت الاستعمال کے سبب اُس کے مضر اثرات کا مرتکب بھی ہوتا جاریا ہے  اور جلد ہی تھکا دینے والے اس فعل و عمل سے نجات کے لیے کتب بینی کا ذوق ہی اِن اقسام کے مسائل کا سدِ ّباب ہو سکتا ہے کیونکہ بقول عربی مقولہ ’و خیرُجلیسً فی الزّمانِ کتابً‘ (ہر زمانہ میں کتاب یا شغلِ کتب بینی بہترین دوست ہے۔) ہی شاید اس قسم کے مسائل کا واحد و مؤثر حل ہو سکتا ہے۔

انسان کے ذریعے ایجادو اختراع کیے گئے آلات و برقی  و تکنیکی اشیا  فوری طور پر تفریح طبع کے سامان بہم پہنچا سکتے ہیں لیکن ایک وقت  ایسا بھی آتا ہے کہ انسان اِن آلات سے جز وقتی ہی سہی اُکتانے یا مضطرب ہونے لگتا ہے اِن حالات میں مافوق الفطری عناصر (Super natural elements) یا داستانوی قصے کہانیاں اِ س خلا کو پُر کرتی ہیں  اور سنجیدہ قاری اپنی زندگی کی نا کامیوں، اُکتاہٹ اور مایوسی سے نکلنے کے لیے مثنویوں،خیالی داستانوں سے خود کو مسرت و شادمانی بہم پہنچا سکتا ہے۔ چنانچہ مثنوی سحر البیان کا مطالعہ آج ڈیجیٹل دور میںبھی انسان و افراد کی جز وقتی پریشانیوں،تنہائیوں کو دور کرنے کا محرک ثابت ہو سکتا ہے۔

در اصل’ مثنوی سحر البیان‘ کی معرفت سے ہم میر حسن کی فنّی خوبیوں سے بھی واقف ہوتے ہیں۔اُن کی متعدد خوبیوں میں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ مثنوی میں منظر نگاری کے محرکات کو خوبصورتی سے برتنے یا تلاش کرنے میں اس حد تک کامیاب نظر آتے ہیں یامہارت رکھتے ہیں کہ سنجیدہ قاری الفاظ و معانی،تشبیہ و استعارے کی ترکیبوں  اور بر محل استعمال سے منظوم متون کے مطالعے میں اس قدر غرق ہو جاتا ہے  اور اس خیال سے بے نیاز ہو جاتا ہے کہ وہ خیالی عشقیہ داستانوں سے لطف اندوز ہو رہا ہے یا پھر ڈراموں کی مانند اسٹیج کی دنیا سے متعارف ہو رہا ہے۔در اصل اسی میں ایک عمدہ مثنوی کی دلکشی،دلفریبی کا راز بھی مضمر ہے۔ مصنف منظرنگاری کے ذریعے وہ سماں باندھتے ہیں کہ تخلیق کار کی فنّی خوبیوں کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے۔حالانکہ خوبیوں کے ساتھ ساتھ خامیاں بھی پوشیدہ ہوتی ہیں لیکن سرِ دست خوبیوں کی بہتات میں قلیل خامیاں بھی نظر انداز ہو جاتی ہیں۔ طوالت کے خوف کے باعث اب اس موضوع پر کسی اور موقع پر بحث ہوگی۔ خوبیوں کا عالم تو یہ ہے کہ منظر نگاری،زبان شستہ،طرزِ بیان کی دلکشی اور غزل کا لب ولہجہ،مثنوی کی انفرادیت میں چارچاند لگا دیتا ہے اور ہم طویل بندوں اور منظوم خیالوں سے مضطرب نہیں ہوتے ہیں۔بطور نمونہ ٔ کلام چند بندیں ملاحظہ ہو       ؎

گلوں کا لبِ نہر پر جھومنا

اسی اپنے عالم میں منھ چومنا

وہ جھک جھک کے گرنا خیابان پر

نشے کا سا عالم گلستان پر

چمن آتشِ گل سے دہکا ہوا

ہوا کے سبب باغ مہکا ہوا

اور یہاں دیکھیں منظر نگاری،نہ صرف قابلِ دید ہے بلکہ قابلِ ستائش بھی          ؎

گلابی  سا   ہو جانا  دیوار  و  در

درختوں سے  آنا  شفق  کا  نظر

وہ  چادر کا  چھٹنا  وہ  پانی کا زور

ہر اک  جانور کا  درختوں  پر  شور

وہ  سردِ سہی  اور وہ آبِ  رواں

وہ  مستی سے  پانی کا  پھِرنا  وہاں 

وہ اُڑتی سی نوبت کی دھیمی  صدا

کہیں دور سے گو ش  پڑتی  تھی  آ

وہ  رقصِ بتاں  وہ ستھری  الاپ

وہ گوری کی تانیں  وہ طبلوں کی تھاپ

حالانکہ آج کے ڈیجیٹل، زرق و برق  اور تکنیکی و سائنسی دور میں اس قسم کی تزئین کاری کوئی زیادہ اہمیت نہیںرکھتی ہے کیونکہ کمپیوٹر ایج میں اور برقی آلات کے وافر تعداد میں مہیا ہونے کے سبب شب و روز دن دُگنی اور رات چوگنی ترقی ہو رہی ہے لیکن زائد از دو صدی قبل میر حسن کی ذہنی افتادگی اور پھر الفاظ و تشبیہات کی کثرت میں بر محل استعمال اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ مصنف کو فطری وقدرتی عناصر سے کس قدر وابستگی تھی کہ انہوں نے الفاظ کی تراکیب کا سہارا لے کر کس قدر پُر اثر انداز میں فضا،سہانے مناظر و سماں،مختلف اقسام کی رنگا رنگی، شفق، آفتاب کی سرخی و تمازت،مہتاب کا نور، ستاروںکا جھرمٹ، بادِ صبا کا سرسرانا،ریت وریگستان کی خاموشی و سنّاٹے کو الفاظ و معانی کا جامہ پہنایا ہے  اور تشبیہات و استعارات کو موتیوں کی لڑی کی مانند پِرو کر رکھ دیا ہے۔ میر حسن نے اس منظر نگاری، محاکات و سماں کو گاہے بہ گاہے اپنی اس مثنوی میں پیش کرنے میں  اپنی مہارت کا اس  قدر خیال رکھا ہے کہ یہ مثنوی اسم با مسمّٰی یعنی ’سحر البیان‘ اور’ موتیوں کی ایک لڑی‘ سے تشبیہ دے ڈالی جو حق بہ جانب ہے۔

   غرض کہ یہ کہنے یا لکھنے میں تامل نہیں اور اس میں کوئی مبالغہ بھی نہیںہو سکتا کہ پرانے قصے کہانیوںو داستانوں کے مطالعے میں آئی کمی و  فقدان کے سبب ہی آج معاشرے  و سماج میں یکسانیت،رواداری،اخلاقی بلندیاں  و ذمے داریوں و حصے داریوں میںپستی،کج روی و تنگ نظری کے عناصر کا اضافہ ہوتا جارہا ہے۔اگر اِن خود غرضیوں و نفی و تنفّر والے معاشرے میں قدغن لگانا مقصود ہو تو اس قسم کی داستانوں و کہانیوں کو از سرِ نو ایّام طفلی  و کم سِنی میں بچوں کو لائق و فائق استادوں کے ذریعے یا اُن کی نگرانی میں درس دینا  نا گزیر ہو جانا چاہیے تاکہ سنِ بلوغت کی دہلیز پر قدم رکھنے سے پہلے اِن بچوں کو،جو اب بالغ النظر ہیں،اپنی ذمے د اریوں اور ساتھ ساتھ سماج و معاشرہ کی ذمے داریوں کا بر وقت احسا س ہو جائے تو یہ نہ صرف متعلقہ خاندان،سماج و معاشرہ بلکہ ملک و قوم کے لیے ایک صحت مند شہری کے فرائض انجام دینے والے افراد کے لیے ایک نعمت ہو گی۔جن اصولوں،تہذیبوں اوراخلاقی قدروں کی موجودگی صحت مند سماج و معاشرے کی تہذیب وثقافت کو مثبت شکل دینے اوربلندیوں تک پہنچانے میں اہم رول ادا کر سکتی ہیں اور اسے استحکام بہم پہنچانے میںاہم رکن ثابت ہو سکتی ہیں۔آج کے اس کمپیوٹر  دور میں اور ڈیجیٹل کی فراوانی میں ہمارے سماج و معاشرے میںجس قسم کی بے راہ روی،بداخلاقی،سماجی و تہذیبی زوال دیکھنے کومل رہے ہیں، شایداس قسم کی داستانوں، مثنویوں کے صحیح اغراض و مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے درس و تدریس کی پیش رفت کی جائے تو وہ دن دور نہیں کہ معاشرے سے بہت ساری چھوٹی چھوٹی برائیاں نہ صرف دور ہوں گی بلکہ ایک صحتمند معاشرہ بھی معرضِ وجود میں آ سکتا ہے بشرطیکہ ہم مندرجہ بالا امور پر صدق دل سے اور دیانت داری و ایمانداری کے اصول و تقاضوں پر عمل پیرا ہوکر کوئی حکمت ِ عملی اپنائیں۔غالباً ماضی میں اس مثنوی یا اس قبیل کی دوسری داستانوں و کہانیوں کے تخلیق پانے کے پسِ پردہ بھی یہی عوامل و محرکات کارفرما رہے ہوں گے۔


Dr. Sohail Anwer

Asst. Prof

Urdu Department

Magadh Mahila College

Patna - 800001 (Bihar)

 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں