24/5/21

مولانا عبدالغنی عزیزی اور رسالہ ’کرن‘ (گیا) (ایک اجمالی جائزہ) - مضمون نگار: ساجد ذکی فہمی

 



صحافت ایک ایسا فن ہے جسے تجارت اور خدمت دونوں مقاصد کی حصولیابی کے لیے استعمال کیا گیا۔ کارزار صحافت میںقدم رکھنے والا ایک گروہ ان حضرات کا تھا جنھوں نے اسے بطور معاش اختیار کیا۔ ان کا مقصد دولت کمانا تھا، خواہ اس کا حصول ضمیر بیچ کر ہی کیوں نہ ہو۔ اسی فہرست میں چند اہل قلم اور محب قوم ایسے بھی تھے جنھوں نے قومی و ملی خدمات کے پیش نظر اس راہ میں اپنا سب کچھ قربان کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ مولانا عبدالغنی کا شمار ایسے ہی صحافیوں میں ہوتا ہے جن کے پیش نظر تجارت نہیں مقصد تھا، زراندوزی نہیں قومی خدمت کا جذبہ تھا۔ نامساعد حالات، پیسے کی قلت، اپنوں کی بے رخی اور عدم مصروفیت کے باوجود انھوں نے اپنے ناتواں کاندھے پر اس بوجھ یعنی قوم کی خدمت کا بیڑا اٹھانے کا فیصلہ کیا۔


مولانا عبدالغنی کی پیدائش 1930 میں ضلع مونگیر کے شہر شیخ پورہ میں ہوئی۔ ان کے والد عبدالوحید اپنے وقت کے ایک روشن خیال اور پڑھے لکھے شخص تھے۔ فارسی زبان پر اچھی دسترس رکھتے تھے۔ ان کے نعتیہ کلام ان کی فارسی دانی پر دال ہیں۔ مولانا عبدالغنی کے والد عبدالوحید کا انتقال 28؍جولائی 1950 کو شیخ پورہ میں ہوا اور وہیں سپرد خاک کیے گئے۔ والد کے انتقال کے تقریباً دو سال بعد یعنی 1952 میں والدہ کریم النسا نے بھی اس دار فانی کو خیر باد کہا اور اس طرح عنفوان شباب میں ہی والدین کا سایہ ان کے سر سے اٹھ گیا۔

مولانا عبدالغنی نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی شہر شیخ پورہ میں ہی حاصل کی۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے بہار شریف میں واقع مدرسہ عزیزیہ کا رخ کیا۔ یہاں سے انھوں نے وسطانیہ، فوقانیہ، مولوی، عا  لمیت اور فضیلت کے امتحانات امتیازی نمبروں سے پاس کیے۔ دوران تعلیم درسی کے علاوہ کثیر تعداد میں غیر درسی کتابوں کا مطالعہ بھی جاری رکھا۔ اساتذہ کا احترام، بزرگوں کی عزت، عزیزوں پر شفقت، مطالعے کا شوق، غور و فکر کی عادت اور دینی و اصلاحی کاموں میں ہمہ وقت مشغول رہنے کی وجہ سے ان کی شہرت شیخ پورہ سے نکل کر ملک کے دوسرے حصوں تک پہنچنے لگی۔ بعض واقعات تو ایسے پیش آئے جسے پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مولانا عبدالغنی کوئی صوفی یا ولی اللہ تھے۔

رسالہ ’کرن‘ کے اجرا سے قبل مولانا عبدالغنی کے کئی مضامین زمانۂ طالب علمی میں ہی مدرسہ سے نکلنے والے قلمی رسائل ’کمال‘ اور ’فروغ‘ میں شائع ہوچکے تھے۔ علاوہ ازیں ان کے اندر شعرگوئی کا مادہ بھی موجود تھا، جو شاید والد سے ورثے میں ملا تھا۔ اپنے استاذ سعید صاحب جن سے انھیں حد درجہ انسیت تھی، کی وفات پر ایک طویل مرثیہ پڑھا جو بعد میں مدرسے کے قلمی پرچے میں بھی شائع کیا گیا۔ مدرسے کے ان قلمی پرچوں میں مسلسل شائع ہونے کی وجہ سے ان کی تحریر رواں اور سلیس ہوتی گئی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کے دل میں ایک ماہنامہ نکالنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ مولانا عبدالغنی نے اپنے اس خواب کی تعبیر کے لیے دوستوں، رشتے داروں اور اعزا و اقارب سے ملاقاتیں کیں۔ گفت و شنید کے ذریعے انھیں رسالے کی معاونت کے لیے راضی کیا اور بالآخر رسالے کا اجرا عمل میں آیا۔ ان تمام مراحل سے گزرنے کے لیے انھیں کس قدر اذیت اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑا اس کی تفصیلات آئندہ صفحات میں بیان کی جائیں گی۔

ماہنامہ رسالہ ’کرن‘ کا پہلا شمارہ صوبہ بہار کے شہر گیا سے دسمبر 1949 مطابق صفرالمظفر 1369ھ میں منظرعام پر آیا۔ آزادی کے بعد کا یہ دور اس قدر پرفتن اور انتشار زدہ تھا کہ یکسوئی کے ساتھ کسی علمی و ادبی کام انجام دینا نہایت مشکل امر تھا۔

ایک اردو ماہنامے کی اشاعت کا خیال مولانا عبدالغنی کے ذہن میں اس وقت آیا جب وہ اپنے ایک قدیم کرم فرما فاروق الحسینی سے دوران ملاقات مختلف مسائل پر تبادلۂ خیال کر رہے تھے۔ بالآخر کچھ رد و کد کے بعد یہ طے پایا کہ رسالہ ضرور شائع کیا جائے۔ اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے مولانا عبدالغنی اداریے میں لکھتے ہیں:

’’۔۔۔ صوبے کے اہل علم اور صاحب ذوق طبقے میں ایک معیاری اردو ماہنامے کی سخت کمی محسوس کی جارہی ہے اور خصوصیت کے ساتھ زبان کے مسئلے میں حکومت کی موجودہ پالیسی نے اردو سے ہمدردی رکھنے والوں میں اپنی قومی و ملکی زبان کی بقا اور استحفاظ کا کافی احساس پیداکردیا ہے۔ رسالے کے اجرا سے دوسری غرض یہ مد نظر تھی کہ اس کے ذریعے قومی اصلاح کا کام بہ آسانی انجام پاتا رہے گا۔‘‘1

رسالے کا لائحۂ عمل تو تیار ہوچکا تھا۔ اب ضرورت اس بات کی تھی کہ کس طرح رسالے کے اخراجات کا بندوبست کیا جائے۔ اسی اثنا میں جمعیۃ علما ہند کی صوبائی کانفرنس ہزاری باغ میں منعقد ہونے کی خبرموصول ہوئی ساتھ ہی حضرت مولانا رحمت اللہ صاحب کا حکم نامہ پہنچا کہ کانفرنس میں ضرور شرکت کرو۔ مولانا عبدالغنی نے موقعے کو غنیمت جانا اور کانفرنس میںشرکت کے ساتھ مختلف اضلاع کے لوگوں سے رسالے کے متعلق تبادلۂ خیال کیااور معاونت کی درخواست کی۔ قصہ مختصر جلسے سے واپسی پر ان کا حوصلہ بھی بڑھا اور اخراجات کے تئیں کسی قدر قلبی سکون بھی میسر ہوا۔ شہر واپسی پر انھوں نے رسالے سے متعلق چند ضروری کارروائیاں انجام دیں۔ مضامین و مقالات کی حصولیابی کے لیے سیکڑوں خطوط مشاہیر اہل قلم کو روانہ کیے۔غرض کہ سارے کام نہایت تندہی سے انجام پا رہے تھے۔ مولانا عبدالغنی کو شاید اس بات کا گمان تھا کہ رسالہ جون تک شائع ہوجائے گا، لیکن سرکاری دفاتر کی سست روی اور اپنی بیماری کے سبب اشاعت میں تاخیر ہوتی چلی گئی۔ بہرحال ’’کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے‘‘ دسمبر 1949 میں ماہنامہ ’کرن‘ کا پہلا شمارہ منظر عام پر آیا۔ مولانا عبدالغنی کو رسالے کی اشاعت میں کن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا اس کا اندازہ پہلے شمارے کے اداریے کو پڑھ کر بخوبی لگایا جاسکتا ہے:

’’خدا کا شکر ہے کہ شدید انتظار اور اکتا دینے والی تاخیرکے بعد ’کرن‘ کا پہلا شمارہ مطلع صحافت سے طلوع ہو کر اپنی ضو ریز اور ضیا بار کرنوں سے دنیائے علم و ادب کو جگمگا رہا ہے۔ بلاشبہ آپ کوانتظار کی کٹھن گھڑیوں اور صبر آزما گھاٹیوں سے گزرنا پڑا اور ایسا ہونا ناگزیر تھا کیوں کہ اس سلسلے میں اپنی کوتاہیوں سے زیادہ قدرت کی مصلحتیں کارفرما تھیں۔ ہر چیز اپنے وقت پر ہوتی ہے اور یقینا کارکنان قضا و قدر نے نومبر ہی کا مہینہ کرن کی پہلی اشاعت کے لیے منتخب کرلیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ادارہ کی مسلسل تگ ودو، لگاتار دوڑ دھوپ اور اپنی انتہائی خواہش کے باوجود نومبر سے پہلے رسالہ شائع نہ ہوسکا۔ جب جب اشاعت کا ارادہ کیا گیا قدرتی اسباب نے قدم تھام لیے۔‘‘2

رسالے کی اشاعت پر بسمل سنسہاروی گیاوی جو گیا سے نکلنے والے رسالہ ’سہیل‘ کے سرپرست تھے، نے ایک نظم کہی۔ نظم کا ایک بند درج ذیل میں پیش کیا جارہا ہے ملاحظہ فرمائیں         ؎

زندگی پیدا ہوئی ہر شے میں اس آواز سے

ذرہ ذرہ ہوگیا بیدار خواب ناز سے

نیند کے ماتے ہوئوں میں تازگی سی آگئی

خنکیِ باد سحر پھر روح کو گرما گئی

محو لطف خواب شیریں تھے ادیب و نکتہ داں

بستروں سے اٹھ کے اب لینے لگے انگڑائیاں

لائق صد آفریں ہیں نوجوانان گیا

اک ’کرن‘ نامی رسالہ مل کے جاری کردیا

یا الٰہی یہ رسالہ ہو جہاں میں کامیاب

نور پھیلائے کرن دنیا میں بن کر آفتاب3

یہ رسالہ چالیس صفحات پر مشتمل ہوا کرتا تھا، لیکن بعض دفعہ مضامین کی کثرت اور وقت و حالات کے پیش نظر اس کے صفحات معینہ تعداد سے تجاوز کرجاتے تھے۔ رسالے کی سالانہ قیمت پانچ روپے ایک آنہ، ششماہی دو روپے بارہ آنہ اور فی پرچہ کی قیمت آٹھ آنہ تھی۔مولانا عبدالغنی ہی چوں کہ اس رسالے کے روح رواں تھے اس لیے ادارت کی ذمے داری انھوں نے خود ہی سنبھالی اور اس طرح سرورق پر مدیر کی حیثیت سے ان کا نام شائع ہونے لگا۔ مولانا عبدالغنی نے چوں کہ مدرسہ عزیزیہ سے فراغت حاصل کی تھی اس لیے نام کے ساتھ ہمیشہ ’عزیزی‘ کا لاحقہ لگایا کرتے تھے۔ معاونین میں فاروق الحسینی اور قمر رانچوی شامل رہے۔ سرپرست کی حیثیت سے رسالے کے سرورق پر حضرت مولانا رحمت اللہ مدظلہٗ کا نام شائع کیا جاتا تھا۔ جون 1950 کے شمارے سے انجم مانپوری کا نام بطور نگراں رسالے میں شائع ہونے لگا۔ سرورق پر رسالے کا نام اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں لکھا ہوتا تھا۔ زمانے کی عام روایت کے مطابق دوسرے شمارے میں رسالے کے نام کی مناسبت سے بسمل سنسہاروی گیاوی کا ایک شعر سرورق کے بجائے فہرست والے صفحے میں سب سے اوپر درج کیا گیا    ؎

مشتری اس کے ہوں یارب قدردان علم و فن

رونق بزم جہاں ہو یہ صحافت کی کرن

کرن‘ کے پہلے شمارے میں مندرجہ بالا شعر درج نہیں ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہوسکتی ہے کہ بسمل صاحب نے شعر کہا نہ ہو یا مولانا عبدالغنی عزیزی کو اس وقت یہ خیال ہی نہ رہا ہو کہ پرچے کی مناسبت سے کوئی شعر درج کیا جائے۔ بہرحال واقعہ جو بھی ہو دوسرے شمارے میںمندرجہ بالا شعر شامل کیا گیا۔  یہ شعر دراصل رسالے کا تاریخ مادہ ہے۔ پہلے مصرعے سے 1950 اور دوسرے سے 1369 برآمد ہوتے ہیں۔ لیکن تیسرے اور چوتھے شمارے میں پھر اس شعر کو حذف کردیا گیا۔ ماہنامہ رسالہ ’کرن‘ چوں کہ دسمبر 1949 سے شائع ہونا شروع ہوا تھا اور پہلے مصرعے سے تاریخ 1950 برآمد ہو رہی تھی۔ شاید اسی لیے مصرعے کی خامی کو دیکھتے ہوئے مدیر رسالہ کو شعر کے حذف کیے جانے میں عافیت محسوس ہوئی۔جب کہ دوسرے مصرعے کے نمبرات ہجری اعتبار سے بالکل درست تھے۔ بہرحال ماہنامہ ’کرن‘ کے پہلے شمارے میں بسمل سنسہاروی گیاوی ہی کی ایک نظم ’کرن کا خیر مقدم‘ کے عنوان سے شائع ہوئی تھی اس نظم میں مندرجہ ذیل شعر بھی شامل تھا         ؎

صبح صادق کا جہاں میں بول بالا ہوگیا

پو پھٹی، دیکھو کرن نکلی، اجالا ہوگیا

راقم الحروف کے مطابق مدیر رسالہ مولانا عبدالغنی یا رسالے کے دیگر معاونین نے متفقہ طور پر رسالے کی مناسبت سے اس شعر کو منتخب کیا اور اس طرح یہ شعر رسالے کے سرورق پر بدستور شائع ہونے لگا۔ بعض شمارے بعد میں ایسے بھی شائع ہوئے جس پر یہ شعر درج نہیں تھا، لیکن مندرجہ بالا شعر کے شائع ہونے کے بعد کوئی دوسرا شعرماہنامہ ’کرن‘ کے سرورق پر شائع نہیں ہوا۔

ماہنامہ ’کرن‘ کے پہلے ہی شمارے میں ادارے کی جانب سے اس کے اصول و ضوابط شائع کیے گئے۔ جو سرورق کے پشت پر’آئین کرن‘ کے عنوان سے درج تھے۔ملاحظہ فرمائیں:

1:         کرن میں ہر قسم کے علمی، ادبی، مذہبی، سیاسی، اخلاقی، اصلاحی، معاشی، معاشرتی، تاریخی اور تنقیدی مضامین شائع ہوسکتے ہیں۔

2:         اخلاق سوز، بازاری اور فلمی مضامین کی اشاعت نہ ہوگی۔

3:         موصولہ مضامین واپس نہیں کیے جائیں گے۔

4:         ماہنامہ ’کرن‘ ہر انگریزی ماہ کے پہلے ہفتے میں شائع ہوا کرے گا۔

5:         نمونہ کی فرمائش کے ساتھ آٹھ آنے کا ٹکٹ بھی روانہ کریں۔4

پہلے اور دوسرے نکات میں ادارے کی جانب سے یہ واضح کردیا گیا کہ سوائے مخرب الاخلاق مضامین کے علاوہ دیگر تمام مضامین شائع کیے جاسکتے ہیں۔چوں کہ رسالے کی اشاعت کا مقصد ہی قوم کی فلاح و بہبود اور اس کی بقا و آبیاری تھی، پھر یہ کیوں کر ممکن تھا کہ وہ اس سے روگردانی کرتے۔ مولانا عبدالغنی کو کماحقہ اس کا علم تھا کہ اگر رسالے میں بازاری اور فلمی مضامین شائع نہ کیے جائیں گے تو اشتہار کی کمی کی وجہ سے رسالے کا بقا دشوار ہوگا، لیکن اس مرد مجاہد نے مقصد کے پیش نظر رسالے کا سودا نہیں کیا۔ یہاں پہنچ کر ہماری سماعتوں میں مولانا محمد علی جوہر کے وہ الفاظ گونجنے لگتے ہیں جو انھوںنے اپنے اخبار ’ہمدرد‘ کے متعلق کہا تھا۔ محمد علی جوہر کے چند جملے ملاحظہ فرمائیں:

1:         ہمدر د غریب میں نہ کبھی ’سنسنی خیز‘ سرخیاں دی گئیں، نہ ایسی خبریںشائع ہونے پائیں جو نوجوانوں کے جذبات کے لیے ہیجان انگیز ہوتیں۔ 5

2:         اشتہارات سے بھی اس نے حتیٰ الوسع پرہیز کی۔ شراب اور فحش کتابوں، فحش دوائوں کے اشتہارات تو خیر الگ رہے، سنیما اور تھیٹرکے اشتہارات بھی اس نے کسی اجرت پر نہ چھاپے۔6

3:         ۔۔۔بازاریت و ابتذال،فحش و پھکڑکی نقالی وہ کبھی نہ کرسکا۔۔۔۔ بگڑے ہوئے ذائقے جس چٹپٹے پن کی تلاش میں رہتے ہیں، اس جنس سے اس کادامن ہمیشہ خالی رہا۔7

4:         معاصرین سے الجھنا ’ہمدرد‘ نے کبھی اپنا شیوہ نہ بنایا۔8

مالی دشواریوں کے باوجود محمد علی جوہر نے کبھی صحافت میں ان اصولوں سے روگردانی نہیں کی۔ اخبار کا بند ہوجانا انھیں منظور تھا لیکن اپنے بنائے ہوئے اصولوں کی خلاف ورزی انھیں گوارا نہ تھی۔ اس معاملے میں مولانا عبدالغنی کا مطمح نظر عین محمد علی جوہر کے مطابق دکھائی دیتا ہے۔ انھوں نے بھی ابتدا تا آخر اپنے بنائے ہوئے اصولوں کی خلاف ورزی نہ کی۔

ماہنامہ ’کرن‘ میں ذیلی ابواب کے قائم کرنے کا اہتمام نہیں کیا گیا تھا اس لیے تمام مضامین سلسلے وار شائع کیے جاتے تھے۔ البتہ جون و جولائی 1950 کا شمارہ چوں کہ مشترکہ تھا اس لیے شاید مضامین کی کثرت کی وجہ سے ابواب کے تحت مضامین شائع کیے گئے۔ مذکورہ شمارے میں جو ابواب قائم کیے گئے تھے ان میں لمعات، مقالات، منظومات، افسانے، تنقید و تبصرہ اور دینیات شامل تھے۔ اسی طرح نومبر و دسمبر 1950کا شمارہ بھی مشترکہ شائع کیا گیا تھا۔ اس شمارے میں بھی مختلف ابواب کے تحت تخلیقات پیش کی گئیں۔ اس کے علاوہ ماہنامہ ’کرن‘ کے تمام شمارے ابواب سے مبرا تھے۔

رسالے کا اداریہ ’لمعات‘ کے نام سے مولانا عبدالغنی ہی تحریر کیا کرتے تھے۔ بعض مواقع ایسے بھی آئے کہ مولانا کی غیر موجودگی میں اداریے کی ذمہ داری معاونین نے سنبھالی۔ اس رسالے کی ایک خوبی یہ تھی کہ اس کے آخر میں خبروں کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا، جس میں ملک اور بیرون ملک سے متعلق گذشتہ اور آئندہ ہونے والے پروگراموں یا دیگر خبروں کی تفصیلات مختصراً بیان کی جاتی تھیں۔

رسالے میں ادارے کو موصول کردہ خطوط بھی شائع کیے جاتے تھے، لیکن ان خطوط کے لیے  کوئی علیحدہ کالم نہیں تھا، بلکہ جب کبھی قارئین کی جانب سے ادارے کو کوئی خط موصول ہوتا تو اسے ’مکتوبات گرامی‘ کے عنوان کے تحت شائع کردیا جاتا۔ رسالے کی کامیابی کے لیے اس زمانے کے جید علما نے مولانا عبدالغنی کو خطوط لکھے اور ان کی اس محنت کو سراہا۔ خطوط لکھنے والوں میں شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی، مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی، علامہ سید سلیمان ندوی، مولانا حفظ الرحمن (ناظم اعلیٰ جمعیۃ العلما ہند)، علامہ سید مناظر احسن گیلانی وغیرہ شامل تھے۔ مثال کے طور پر سید سلیمان ندوی کا خط ملاحظہ فرمائیں جس میں انھوں نے مولانا عبدالغنی کو رسالے کے اجرا پر دلی مبارک باد دیتے ہوئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ لکھتے ہیں:

’’مکرم و محترم!

انالکم اللہ تعالیٰ مقاصدکم۔۔۔ والانامہ نے شرف کیا۔ مجھے آپ کے مقاصد بہت پسند آئے۔ یہ کام کرنے کا تھا۔ حقیقتاً ادھر سے بہت غفلت برتی گئی۔ آپ اور آپ کی جماعت کی کوشش کو اللہ تعالیٰ بارآور کریں۔ مجھے آپ کے ان کاموں سے پورا اتفاق ہے۔ بلکہ امید اجرا ہے۔ آپ رسالہ مذکور جاری کر کے اپنی برادری کو اس کے بجائے دوسرے مفید اسباب رزق اور تجارت کی طرف متوجہ کریں اللہ تعالیٰ وسائل رزق پیدا فرمائیں گے۔ ان شااللہ تعالیٰ میں دل سے دعا کرتا ہوں۔‘‘9

ماہنامہ ’کرن‘ کی فہرست کاجائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ اس کا دائرہ کار کتنا وسیع تھا۔ گرچہ یہ رسالہ طویل مدت تک جاری نہ رہ سکا، لیکن اپنی مختصر زندگی میں اس نے وہ کارہائے نمایاں انجام دیے جو صحافت کے باب میں زریں حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔ اس رسالے میں  ادبی و مذہبی مضامین، غزلیں، نظمیں، کہانیاں، افسانے، وفیات، تبصرے،خبریں، جماعت العراقین کی سرگرمیوں کی تفصیلات وغیرہ شائع کی جاتی تھیں۔

ایک بات جس کی طرف اشارہ کرناضروری ہے وہ یہ کہ مولانا عبدالغنی کا تعلق عراقی برادری سے تھا اور یہ برادری عرصہ دراز سے شراب کے کاروبار میں ملوث  تھی۔ خود ان کے والد بھاگلپور کے ایک مے خانے میں منشی کے کام پر مامور تھے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد مولانا عبدالغنی نے والد سے اس پیشے کو ترک کرنے کی درخواست کی، دور و نزدیک کے رشتے داروں سے باتیں کیں اور انھیں اس کے نقصانات اور عذاب الٰہی کا خوف دلایا، لیکن اس کاروبار کی جڑیں عراقی برادری میں اس قدر پیوست ہوچکی تھیں کہ لوگ صوم و صلوۃ کے پابند ہونے کے باوجود کاروبار بند کرنے کو تیار نہ تھے        ؎

چھٹتی نہیں ہے منھ سے یہ کافر لگی ہوئی

بہرحال اس معاملے میں مولانا عبدالغنی کو کس قدر مشکلات اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑا اس کی تفصیلات سے صرف نظر کرتے ہوئے فقط اتنا کہنا کافی ہوگا کہ انھوں نے انتھک کوشش و کاوش کے بعد برادری کے چند لوگوں کو اپنا ہم نوا بنا یا، اور ایک انجمن ’’جمعیۃ العراقین‘‘ کی بنیاد ڈالی۔ اس انجمن کا مقصد قوم بالخصوص عراقی برادری کی اصلاح کرنا اور انھیں قعرمذلت سے نکالنا تھا۔ رسالہ ’کرن‘ اس تحریک کے لیے ایک آرگن کی حیثیت سے سامنے آیا۔ رسالے میں عراقی برادری کی مے سازی اور مے فروشی کی کمزوری کو دور کرنے کے لیے اصلاحی مضامین شائع کیے گئے، ساتھ ہی مخالفین کی طعن و تشنیع کی وجہ سے عراقی برادری کے اندر احساس کمتری کا جو مادہ پنپ رہا تھا اسے بھی دور کرنے کی کوشش کی گئی۔ عراقی سلسلۂ نسب پر قسط وار مضامین کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ غرض کہ مولانا عبدالغنی نے ماہنامہ ’کرن‘ کے ذریعے جس مشکل کام کا بیڑا اٹھایا تھا اس میں انھیں کافی حد تک کامیابی نصیب ہوئی۔ اس رسالے میں اخبارات کی طرح مختلف مسائل پر طنزیہ و مزاحیہ انداز میں رباعیات، نظمیں اور غزلیں وغیرہ بھی شائع کی جاتی تھیں۔ مثلاً شہر میں شکر کی قلت کا ذکر کرتے ہوئے بسمل صاحب کی ایک رباعی شائع ہوئی۔ ملاحظہ فرمائیں   ؎

نعمت ہمیں دنیاوی و دینی مل جائے

مانگیں جو خدا سے وہ یقینی مل جائے

بازاروں میں کنڑول کی برکت سے

ممکن نہیں اک چھٹانک چینی مل جائے

——

چینی جو بیچنے کا معیار بنا

بنیوں کا گھر اب مصر کا بازار بنا

گاہک کی یہ کثرت کہ الٰہی توبہ

ہر شخص ہے یوسف کا خریدار بنا

ماہنامہ ’کرن‘ کے متعلق مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اپنے وقت کا یہ ایک اہم رسالہ تھا۔ جن مقاصد کے پیش نظر اس کا اجرا عمل میں آیا تھا اس میں رسالے کو کافی حد تک کامیابی نصیب ہوئی۔ اس نے مذہب کے ساتھ زبان و ادب کی بھی حتی المقدور آبیاری کی۔

حواشی:

1          ماہنامہ ’کرن‘ گیا، مدیر: محمد عبدالغنی عزیزی، اداریہ، جلدنمبر1، شمارہ 1، دسمبر 1949، ص 2

2          ایضاً

3          ایضاً، ص 5

4          ماہنامہ ’کرن‘ گیا، مدیر: محمد عبدالغنی عزیزی، جلدنمبر1، شمارہ 1، دسمبر 1949

5          محمد علی ذاتی ڈائری کے چند ورق(حصہ اوّل)، ص۔ 216

6          ایضاً، ص 217       7     ایضاً، ص، 217          8  ایضاً، ص  218

9          ماہنامہ ’کرن‘ گیا، مدیر: محمد عبدالغنی عزیزی، اداریہ، جلدنمبر1، شمارہ 1، دسمبر 1949، ص 8

n

Dr. Sajid Zaki Fahmi

G-74/B, Abul Fazal, Enclave-1

Jamia Nagar, Okhla

New Delhi - 110025

Mob.: 8527007231

 

 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں