5/7/21

بلند پایہ ہستی: اختر بستوی - مضمون نگار: غلام حسین


 

آزادی کے بعد جب اردو زبان پر افتاد آن پڑی تو ایسی نا گفتہ بہ صورت حال میں بر گزیدہ اساتذۂ کرام نے ہی اس شکستہ کشتی کی نا خدائی کی۔اِس کے تحفظ و ترویج اور معیار و وقار کو بر قرار رکھنے میںانھیں حضرات نے اپنا خون جگر صرف کیا۔ جسے محبان اردو کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔اس کار عظیم میں گورکھپوریونیورسٹی کا شعبۂ اردو بھی شریک و سہیم ہے۔یہ شعبہ اپنی ابتدا سے ہی اہل علم اور اہل قلم سے معمور رہا ہے۔ڈاکٹر اختربستوی کا شمار انھیں اساتذہ میں ہو تا ہے۔ان کی ولادت 10 اگست  1940 کوضلع بستی میں مردم خیز علاقہ کے ایک معتبر اور مودب خانوادے میں جناب اصغر علی صدیقی کے یہاں ہوئی۔ جہاں اردو تہذیب و تمدن کا بول بالا تھا۔ان کا اصل نام محمد اختر علی صدیقی ہے جو ادبی دنیا میں اختربستوی کے نام سے مشہور ہوئے۔آزادی سے قبل اردو تعلیم کی زبان عام تھی۔ چنانچہ ان کی ابتدائی تعلیم اردو میں ہوئی ان کے والد کا انتقال کم سنی میں طالب علمی ہی کے زمانے میں ہو گیا تھا۔انھوں نے نا مساعد حالات کی پروا کیے بغیر تعلیم وتعلّم کا سلسلہ جاری رکھا۔ تعلیم کی منزل اول ہی میں ماحول نے انھیں ''با ادب با نصیب،بے ادب بے نصیب ''کا سبق سکھا دیا تھا۔انھوں نے ضلع بستی(یو پی )کے خیر انٹر کالج میں تعلیم حاصل کی اور وہیں اپنے حسن اخلاق اور ذہانت سے معلّم مقرر ہوگئے اور علامہ اقبال کے اس شعر کو نصب العین بنا کر ترقی کے منازل طے کرتے رہے          ؎  

 خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے 

   خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے  

اختربستوی صاحب کے یارغارابن صاحب نے جن کی دوستی بچپن سے دم واپسیں تک قائم رہی ان کے سانحۂ ارتحال پر اپنی یادوں کو اس طرح تازہ کیا ہے :

ـ’’مرحوم اختربستوی اوائل عمری سے ہی ایک پر عزم انسان تھے۔ان کے اندر کچھ کرنے،کچھ بننے کی لگن بچپن سے ہی تھی۔انھوں نے اپنے عزائم کو عملی شکل دینے کے لیے اردو ادب کا میدان چنا۔تقریباً 12 سال کی عمر میں ماہنامہ ’کھلونا‘دہلی کے کہانی کے مقابلے میں ان کی انعام یافتہ کہانی چھپنے سے ان کا جو ادبی سفر شروع ہوا تھا وہ وقت کے ساتھ ہند و پاک کے تما م ادبی رسائل کی ضرورت بن گیا۔‘‘ (ماہنامہ،گلابی کرن، اختربستوی نمبر،ص 58، جولائی1999 )

مشق سخن کے ابتدائی دور میں ہی آپ کا یہ شعر مقبول و معروف ہوا          ؎

آساں نہیں انصاف کی زنجیر ہلانا

دنیا کوجہانگیر کا انصاف نہ سمجھو

 اس وقت خیر انٹر کالج کی بڑی شہرت تھی۔اس کالج میں طلبا کوداخلہ ملنا ہی باعث افتخار ہو تا تھا۔ اساتذہ کی توقیر کا کیا کہنا مقبول صاحب(پرنسپل)کا رعب و رتبہ بستی شہر تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ اطراف و جوانب میں ان کی شہرت کا ڈنکا بجتا تھا۔وہ مسلم اور غیر مسلم میں یکساں مقبول و محترم تھے۔ ایسا ہی پروقار ادارہ اختر صاحب کا میدان عمل تھا۔ پڑھتے پڑھاتے و ہ شہرت کی بلندیوں پر چڑھتے گئے اور ایک دن اردو ادب کے درخشاں ستارے بن گئے۔ دوران ملازمت پرائیویٹ طور پر اعلیٰ تعلیم کی ڈگریاں حاصل کیں۔انھوں نے تاہّل کی زندگی اختیار نہیں کی مگر ان ذمے داریوں کو نبھانا اپنا فرض ا ولیں سمجھا جو والد کے انتقال پر قدرت نے بڑے ہونے کے ناتے ان کے کاندھوں پر ڈال دی تھی۔وہ ذمے داریوں کے ساتھ ساتھ ادبی اورسماجی خدمات میں پیش پیش رہے۔گھر کے بندوبست کو بڑے سلیقے سے نبھایا۔والدہ کی خدمت اور چھوٹے بھائی بہنوں کی کفالت میں کو ئی کسر نہیں چھوڑی۔ انھوں نے اپنی شادی تو نہیں کی مگر بے شمار جوڑوں کو رشتۂ ازدواج میں باندھنے کے لیے ثالث کا بخوبی نبھایا۔بستی میں وہ فعال و با اقبال تھے۔ان کی رئیسانہ ٹھاٹھ باٹ تھی۔خیر کالج چند قدم ہی کی دوری پر تھا جہاں وہ پیدل سردیوں میں چھتری لگا کر جاتے تھے۔عموماًوہ شام میں چھڑی لے کر ٹہلنے نکلتے تھے۔دوست احباب سے ملتے ہنومان پر ساد جگر کے دواخانے میں ان کی نشست ہوتی۔ کبھی کبھار دریاخاں محلہ میں واقع قاضی عدیل عباسی صاحب کے دولت خانے پر حاضری دیتے۔اپنے ذاتی مطالعہ، محنت پیہم اور ذہانت سے ایک دن خیر انٹر کالج میں انگلش کے لکچرر مقرر ہو گئے مگر وہ ستاروں سے آگے بھی اور جہاں دیکھنے کے متمنی تھے۔لہٰذا اردو ادب میں بھی ایم اے کیا اور پروفیسر محمود الٰہی صاحب کی نگرانی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔موصوف اردو شعرو ادب کے جو ہری تھے چنانچہ انھوں نے اس ہیرے کو پہچاننے میں دیر نہیں کی اور گورکھپور یو نیورسٹی کے شعبۂ اردو میں انھیں شامل کر لیا۔یونیورسٹی میں تقرر ہو نے سے ان کے وقار میں اضافہ ہو تا گیا۔

اختر صاحب دوست احباب اور عزیز و اقارب کے معاملے میں بڑے خوش نصیب تھے۔ان کے دوستوں کی طویل فہرست تھی جو پورے ملک میں پھیلے ہو ئے تھے۔ اردو کے شعرا و ادبا اور اساتذہ سے ان کے مخلصانہ روابط تھے۔ ان کی خوشی اور غمی میں برابر کے شریک ہو تے۔ان کی دوستی بے لوث تھی اور دشمنی بے ضرر۔اگر مقامی شعرا سے معاصرانہ چشمک ہو بھی جاتی تواس میں کدورت کا شائبہ نہیں ہو تا۔اردو تحریک اور تحریر سے جو بھی حضرات وابستہ ہوتے وہ ان کے شیدائی ہو تے۔گورکھپور سے سیکڑوں کلو میٹرکی دوری پر واقع چنئی میں براجمان علیم صبا ؔنویدی جو اردوزبان وا دب کے مربی ومحافظ ہیں۔ہر سال وہ اپنی نو ع بہ نوع تخلیقات سے تشنگان اردو ادب کی پیاس بجھاتے ہیں۔ان سے ان کی بڑی قربت تھی۔وہ فقط دوستی کر نا ہی نہیں جانتے تھے بلکہ اسے نبھانا بھی جانتے تھے۔ان کے بچپن کی دوستی تاحیات قائم رہی۔ان کے دوستوں میں جناب ارشد عباسی صاحب (پسرقاضی عدیل عباسی صاحب )کی انسیت آج بھی قائم ہے جب بھی اخترصاحب کا ذکر آتا ہے تو وہ آبدیدہ ہو جاتے ہیں۔  منظور احمد ادیب نے دیگر دوستوں کی دوستی کو اپنے ایک شعر میں اس طرح پرویا ہے      ؎

 ارشد،تحفظ،ابّن و معروف دم بخود

ایسا رفیق جملہ رفیقاں چلا گیا

وہ ایک اچھے استاد کے ساتھ ساتھ ایک سعادت مند شاگرد بھی تھے بقول دیگر استاد تو بہت ملتے ہیں لیکن شاگرد بہت مشکل سے ملتے ہیں۔وہ ایسے شاگرد تھے جو اپنے استاد کے احترام میں بے مثال تھے وہ اکثر اپنے اساتذہ کا ذکر خیر کر تے۔خصوصاً مقبول صاحب (پرنسپل) خیرانٹر کالج اور پروفیسر محمودالٰہی صاحب سے انھیں از حد عقیدت تھی۔ وہ اپنے بزرگوں کے کارناموں کومحفوظ کرنا اور اسے منظر عا م پر لانا اپنا فرض عین سمجھتے تھے۔اس سیاق میں انھوں نے مجاہد آزادی اورمربیِ اردوقاضی محمد عدیل عباسی کے سیاسی اور صحافتی کارناموں کو اجاگر کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔سب سے پہلے انھوں نے بستی سے شائع ہو نے والے ہفتہ وار اخبار'بستی کی آواز 'کا قاضی عدیل عباسی نمبر بڑے اہتمام سے نکالا جس میں مشاہیرِ ادب کے مضامین شامل کیے اس کے بعد ’’کردار کے غازی قاضی عدیل عباسی‘‘ بھی مرتب کی پھر اسی موضوع پر انھوں نے ایک مو نو گراف بھی سپرد قلم کیا جسے سا ہتیہ اکادمی نے شائع کیا اور اس مونو گراف پر یوپی اردو اکادمی نے انھیں انعام سے نوازا۔

ڈاکٹر اختر بستوی نے گورکھپور یو نیورسٹی میں آنے سے پہلے ہی اردو ادب میں نمایاں مقام بنا لیاتھا۔بحیثیت شاعر وہ معروف ہو چکے تھے۔دو طویل نظموں کے مجموعے 'نغمہ ٔ  شب' اور' بحر بے کراں 'نیز قطعات کا مجموعہ 'پیکر ِخیال 'منظر عام پر آچکے تھے۔اس کے علاوہ بر صغیر کے معیاری رسائل اور جرائد میں ان کے کلام بکثر ت شائع ہو تے تھے۔جب وہ اپنا مجموعہ کلام شائع کراتے تو اس پر کسی معروف ہستی سے ہی پیش لفظ لکھواتے۔ اپنے پہلے مجموعہ کلام کا پیش لفظ انھوں نے فلم اداکار دلیپ کمار سے لکھوایا تھا۔اور جب 1989میں نظموں کا مجموعہ’اپنے سائے کے سوا‘ شائع کروایا تھا تو نامور شاعر کیفی  اعظمی سے پیش لفظ لکھوایا۔انھوں نے ان کی سحر آفریں ادبی شخصیت کا احاطہ اس انداز میں کیا :

’’میں حیران ہوں کہ ڈاکٹر اختر بستوی کی ہشت پہلو شخصیت کا مطالعہ کس رخ سے شروع کروں۔وہ ایک فصیح و بلیغ خطیب ہیں۔وہ شگفتہ اور شاداب نثر لکھتے ہیں۔وہ بہت ہی کامیاب مترجم ہیں۔طویل نظمیں لکھنے میں انھیں استادانہ مہارت حاصل ہے۔اختر انصاری اور نریش کمار شاد کے بعد سب سے اچھے قطعات ’پیکر خیال ‘ اختر بستوی نے لکھے ہیں وہ تالیف و تدوین کا ایک خاص سلیقہ رکھتے ہیں۔ان کی تنقیدی اور تحقیقی نظر بھی معتبر ہے۔‘‘

آگے کیفی صاحب نے ’اپنے سائے کے سوا‘ کے محاسن اس طرح بیان کیے ہیں :

’’یہ سب نظمیں،نظم کے فن پر پوری اترتی ہیں۔ آج کل ہماری زبان میں جو چیزیں لکھی جا رہی ہیں وہ یا تو مختصر مثنویاں ہوتی ہیں یا غزل مسلسل وہ نظمیں نہیں ہو تی ہیں۔ اخترصاحب کی یہ نظمیں خیال کی اکائیاں ہیں۔ آپ کو کسی بھی نظم میں نہ خیال کی تکرار ملے گی نہ لفظوں اور ترکیبوں کی غیر ضروری کثرت۔‘‘

(پیش لفظ:اپنے سائے کے سِوا،ص نمبر5-6)

اختر صاحب کی نظمیں فن کی کسوٹی پرکھری اترتی ہیں۔ ان کی نظمیں جمالیاتی حس اور روحانی مسرت کی آئینہ دار ہیں۔ان کی نظموں میں غزل کی جلوۂ صدرنگی، قطعات اور رباعیات کی فلسفیانہ گیرائی مو جود ہے۔علامہ اقبال کی طرح و ہ فلسفۂ خودی کے شاعر ہیں۔ان کے مشاہدے اور مطالعے میں عمل کے جذب و انجذاب کی کیفیت بھرپور ملتی ہے۔نظم ’آشوب ِدورِ آہن‘ میںعصری آگہی کو چند مصرعوں میں کس ہنر مندی سے سمیٹ لیا ہے        ؎

رقص ہر جانب مشینی بھوت کا

حکمرانی ہر طرف فولادکی

اجتماعی زندگی کا شور و شر

روح ہر سو مضطرب افراد کی

آرزوئیں زیر دام روز گار

خواہشوں پرغلبہ فکر ِ معاش

دور آہن میں سکوں کی جستجو

دوپہر میں اپنے سائے کی تلاش

انھوں نے زندگی کا عمیق مطالعہ کیا ہے۔حاصل زندگی کو انھوں نے نظم ’تگ و دو‘کے چند مصرعو ں میں بڑی خوبی سے پیش کیا ہے        ؎

عمر بھر میں دہر کے صحرا میں سر گرداں رہا

جلوہ ہائے کائنات و زیست کا خواہاں رہا

روز و شب پھرتا رہا لے کر میں قلب ِناصبور

 پاسکا اب تک نہ لیکن ایک بھی جلوے کا نو ر

 وائے ناکامی نہ میرا غنچہ دل کھل سکا

اپنے سائے کے سوا کچھ بھی نہ مجھ کو مل سکا

  اختر صاحب کو فلسفہ و حکمت سے فطری مناسبت تھی احساس برتری اور احساس کمتری پر اکثر مباحثے ہوتے رہتے ہیں۔ انھوں نے بھی اس حکیمانہ و فلسفیانہ موضوع کو اپنے کلام میں جگہ دی ہے۔وہ ’احساس برتری ‘کو موضوع بناتے ہوئے فرماتے ہیں          ؎

جب بھی ہوا یہ خوف مرے دل میں جا گزیں

چھوٹا نہ میرے دوست سمجھ لیں مجھے کہیں

فوراً میں نے ایسی نکالی کوئی سبیل

احباب کو ملے مری عظمت کی اک دلیل

اکثر سخنوری کو سہارا بنا لیا

شاعر کی حیثیت سے فضیلت جتا دیا

کہتے ہیں سچ ہی فطرت ِانسا ں کے جوہری

احساس برتری بھی ہے احساس کمتری

 ڈاکٹر اختر بستوی کے محب مکرم ابّن صاحب نے ان کے پس از مرگ ایک مجموعہ کلام’غزالاں تم تو واقف ہو‘ مرتب کر کے بستی سے شائع کروایاہے۔

اختربستوی صاحب شگفتہ نثار تھے۔ طنزیہ و مزاحیہ مضامین لکھا کرتے تھے۔ان کے مزاحیہ مضامین کا مجموعہ ’ٹیڑھے نشانے‘ شائع ہو چکا ہے۔انگریزی ڈرامہ سے اردومیں ’شہر سے دور‘ ان کی ترجمہ نگاری کا بین ثبوت ہے اور جب وہ یونیورسٹی کی ملازمت میں آئے تو انھوں نے نثر میں اپنے قلم کا لوہا منوایا۔تالیف و تدوین اور تنقید و تحقیق کے میدان میں خامہ فرسائی کی ’سخن ِجو ہر‘ بڑی عرق ریزی سے پر مغز مقدمہ کے ساتھ مرتب کیا۔قاضی عدیل عباسی صاحب پر مونو گراف لکھا۔مختلف مو ضوعات پر متعدد مضامین لکھے طنزیہ اور مزاحیہ ادب سے انھیں خاصا شغف تھا۔وہ اس ادب کے نشیب و فراز،فن و تکنیک سے بخوبی واقف تھے۔ عالمی ادب پر ان کی گہری نظر تھی۔وہ اپنی عمیق بصیرت کے پیش نظر طنز و مزاح کی فنی باریکیوں کی تفہیم و تعریف اس طرح کرتے ہیں  :

’’مزاح کا ایک قریبی ساتھی بھی ہے جسے طنز کہتے ہیں۔ طنز و مزاح میں کچھ اس قسم کا تعلق ہے جیسا کہ طالب علم اور کلاس روم میں ہو تا ہے۔یہ سچ ہے کہ کلاس روم کے بغیر بھی طالب علم ہو سکتے ہیں اور یہ بھی درست ہے کہ طنز کے بغیر بھی مزاح ممکن ہے لیکن جس طرح تعلیم کے ماہرین کلاس روم کی افادیت سے انکار نہیں کر سکتے اسی طرح اچھے مزاح نگار طنزکے قائل ہو تے ہیں۔احمد جمال پاشا بنیادی طور پر مزاح نگار ہیں لیکن و ہ طنز کے استعمال سے بخوبی واقف ہیں۔‘‘

(نیا دور،یاد رفتگاں نمبر،1988،ص نمبر (197 

اختر صاحب،احمد جمال پاشا کی شگفتہ تحریروں کے شیدائی تھے اور انھیں ان سے بے پناہ انسیت تھی۔ ان کے فکر اسلوب اور کمالات کا اعتراف انھوں نے بڑے دل نشیں انداز میں کیا ہے:

’’جس طرح بعض بادل یکایک افق کے کسی گوشے سے سر ابھارتے ہیں اور پلک جھپکتے میں سارے آسمان پر چھا جاتے ہیں اسی طرح اہل قلم بھی اچانک دنیائے ادب میں نمودارہوتے ہیں لیکن دیکھتے ہی دیکھتے معروف ہو جاتے ہیں۔ اردو کے ناقابل فراموش مزاح نگار احمد جمال پاشا کا شمار ایسے ہی قلم کاروں میں کیا جا سکتا ہے۔ وہ انتہائی چونکانے والے انداز میں رسائل کے صفحات پر ابھرے اور پھر کچھ ایسی جادو کی چھڑی گھمائی کہ چند ہی سال میں ان کی شہرت کے ڈنکے بجنے لگے۔اس اعتبار سے پا شا کو طنز و مزاح کی مملکت کا جولیس سیزر کہا جا سکتا ہے۔جس نے دعویٰ کیاتھا۔میں آیا،میں نے دیکھا،میں نے فتح کر لیا۔ (نیا دور،یاد رفتگاں نمبر،1988،ص نمبر 194) 

اختر صاحب کا تحقیقی مقالہ سیکولرزم اور اردو شاعری بھی منظر عام پر آچکاہے۔اس کے علاوہ رسائل اور جرائد میں تحقیقی و تنقیدی مضامین اتنے شائع ہو چکے ہیں کہ ان کا ایک ضخیم مجموعہ شائع کیا جا سکتا ہے۔اہل  علم کا خیال ہے کہ ان کی اصل دولت ان کے شاگرد ہوتے ہیں۔یہ بھی سچ ہے کہ استاد اپنے شاگرد سے پہچانے جاتے ہیں اس ضمن میں اختر صاحب کا اقبال بلند تھا۔وہ ہر دل عزیز استاذ تھے ان کے کامیاب شاگردوں کی ایک لمبی فہرست ہے جن میں ڈاکٹر،انجینئر،آئی اے ایس،پی سی ایس افسران، سیاستداں، شاعر، ادیب، معلم، تاجر، کلکر ک وغیرہ سبھی تو ہیں۔انھوں نے درس و تدریس کو ایک مقد س پیشہ سمجھا اور تعلیم کے میدان میں ایک دیانت دار استاد کا کردار ادا کیا۔اپنی قابلیت،محنت،ذہانت اور علمیت کی بنا پر وہ جس زمین پر رہے آسماں بن کر رہے۔اختر صاحب کا کلاس با رونق اور با حیات ہو ا کر تا تھا۔وہ تفہیم و تشریح بڑے مدلل انداز میں کرتے اور ہمیشہ طلبا کی کردار سازی اور ذہنی بیداری پر زور دیتے تھے۔وہ علامہ اقبال کے اس شعر کا درس اکثر دیتے        ؎

بے محنت پیہم کو ئی جوہر نہیں کھلتا

روشن شررِتیشہ سے ہے خانہ فرہاد

وہ اپنے شاگردوں سے بے پناہ شفقت کرتے تھے اور شاگرد بھی ان کا ازحد احترام کرتے۔وہ کلاس میں کسی بھی موضوع پر برجستہ بولنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔تحریر و تقریر میں انھیں یکساں قدرت حاصل تھی۔ان کی گل افشانی گفتار اتنی پر کشش ہوتی کہ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی۔بے شک قدرت نے انھیں لسانی طلا قت و حلاوت بخشی تھی۔ ان کی خرد ا فروز اور فکر انگیز گفتار سے وسیع المطالعہ کا انداز ہو تا تھا۔ یونیورسٹیوں میں اسا تذہ کا تحقیقی کام ایک اہم فریضہ ہے اس میدان میں طلبا کی ترغیب و تشویق بھی اہم ہے۔اس امر میں وہی اساتذہ عہدہ بر آ ہو سکتے ہیں جنھوں نے بحر علم کی شناوری اور دشت علم کی سیاحی میں عمر گزاری ہو۔ بے شک ان کے تبحر علمی سے ریسرچ اسکالروں نے استفادہ کیا ہے۔ان کی نگرانی میں متعددکا میاب مقالے لکھے گئے جن میں زیادہ تر شائع ہوئے اور انھیں پسندیدہ نظروں سے دیکھا گیا ہے۔ان کی نگرانی میں تحقیقی مقالہ لکھنے والوں میں ڈاکٹر شفیق اعظمی، ڈاکٹر درخشاں تاجور، ڈاکٹر خورشید عالم،ڈاکٹر محمد اشرف، ڈاکٹر سیما فاروقی، ڈاکٹر بشریٰ بانو، ڈاکٹر فوزیہ بانو، ڈاکٹر زیبا محموداور ڈاکٹر ذاکرحسین کے نام قابل ذکر ہیں۔ وہ ریسرچ اسکالروں سے خوب محنت کرواتے اور خود بھی محنت کرتے۔ریسرچ اسکالر کواپنے سامنے بٹھا کر ان کے مقالے لفظ با لفظ اور جملہ با جملہ دیکھتے۔تحریر کے رموز و نکات سمجھاتے۔اس سے اسکالر کی صلاحیت میں اضافہ ہو تا۔ان کی خدمت کا شرف جنہیں حاصل ہوا وہ باکمال ہو گئے اور لکھنے پڑھنے کا ذوق و شوق بیدار ہوا۔آج بھی ان کے شاگردوں کی تحریرو ں میں روانی ہے۔ڈاکٹر شفیق اعظمی کا شمار دور حاضر کے معتبر شاعروں اور نقادوں میں ہو تا ہے۔ان کا شعری مجموعہ اور تنقیدی مضامین کا مجموعہ منظرعام پر آچکا ہے۔ اس وقت بھی ان کا قلم رواںاور دواںہے۔انھوں نے اپنے ریسرچ اسکالرو ں کو از حد متاثر کیا ہے۔تشویق و تحریر کا حوصلہ بخشا۔ آج بھی وہ حوصلہ مندی ان طالب علموں میں برقرار ہے۔ڈاکٹر درخشا ں تاجوراردو ادب کی بیش بہا خدمات انجام دے رہی ہیں اور آزادی میں اردو شاعری کی خدمات کو منظر عام پر لا رہی ہیں۔یہ آپ کی تربیت کا ثمرہ ہے کہ ڈاکٹر اشرف گورکھپوری،ڈاکٹر ذاکر حسین اورڈاکٹر زیبا محمود جیسے قلم کاران اپنے قلم کا جوہر دکھا رہے اور ناموس اردو کی پاسداری کر رہے ہیں۔

 پڑھنا لکھنا اختر صاحب کا اوڑھنا بچھونا اور مقصد حیات تھا۔انھوں نے اپنے ارد گرد پڑھنے لکھنے کا خوش گوار ما حول بنا رکھا تھا۔گورکھپور آنے کے بعد انھیں اردو کی خدمت کا سنہرا موقع ملا اس سے ان کی تخلیقی صلاحیت کو مزید تقویت ملی۔گورکھپور شہر کی ادبی فضا نے انھیں اور نکھارا... جوہر صاحب کا تحت،بندوق کی دکان، اشتراک کا دفتر،قاضی پور خورد کی گلفشاں بلڈنگ،حکیم ابو الکلام کا مطب اور نامور پروفیسر حضرات کی رہائش گاہیں تھیں جہاں ادبی گفتگو اور محاربہ آرائی بھی ہو تی تھی۔یہ ادبی فضا چشمک کی سہی مگر ان ادبی سر گرمیوں سے مثبت افعال بھی وقوع پذیر ہو ئے۔مشاعروں،مباحثوں،تحریروں اور تقریروں میں سر گرمی آئی۔روز نامہ اور ہفتہ وار اخبار کا اجرا عمل میں آیا گویا اس شہر کے شعرا و ادبا کو مشق و مہارت کا موقع میسر آیا۔ اختر صاحب گورکھپور کی ادبی ہنگامہ آرائیوں سے بظاہر بیگانہ تھے مگر بہ باطن اس سے متاثر تھے اور متاثر بھی کرتے تھے۔ اس سے اختر صاحب کی تحریروں اور تقریروں میں مزید روانی اور جولانی آئی۔بین الاقوامی سطح پر شعرا اساتذہ سے ان کے گہرے مراسم تھے۔جہاں سے بھی اردو کے رسائل و جرائد نکلتے ان کے مدیرو ں سے براہ راست تعلق رکھتے۔اردو کا کوئی رسالہ اور جرید ہ خواہ وہ سرکاری یا غیر سرکاری،معیاری یا غیر معیاری ہو۔ان کی دست رس سے باہر نہیں تھے۔وہ ان رسالوں کے خریدار ہوتے۔ان کے لیے اپنے کلام و مضامین بھیجتے۔انھوں نے اپنی تنخواہ کا کچھ حصہ کتب و رسائل اور خط و کتابت کے لیے مختص کر رکھا تھا۔وہ بے شمار خط لکھتے دراصل خط کا جواب لکھنا و ہ اپنا اخلاقی فریضہ سمجھتے تھے۔اس معاملے میں وہ خورد و کلاں میں امتیاز نہیں برتتے تھے۔روز انہ کثیر تعداد میں ان کے پاس خطوط و رسائل آتے تھے۔جس دن ڈاک کم ہو تی تو اس دن وہ ملول ِخاطر نظر آتے۔ ایسے رسائل جن میں ان کے کلام یا مضمون شائع ہو تے اسے دیکھ کر وہ باغ باغ ہوجاتے۔مشاعروں ریڈیواور ٹیلی ویژن کے پروگراموں کی مبالغہ آمیز روداد سے سامعین کو متحیرکر تے اوروہ اختر صاحب کی خوبیِ قسمت پر ناز کرتے۔انھیں اخبار کی سرخیوں میں رہنے کی تہہ دار خواہشیں رہتیں۔حیرت تو اس وقت ہوئی جب ان پر دل کا دورہ پڑا اور و ہ ہاسپٹلائیزڈہوئے،صبح کے وقت انھیں کچھ افاقہ ہوا تو تیمارداروں سے دریافت کیا کہ کتنے اخباروں میں میری بیماری کی خبر شائع ہو ئی ہے؟قرب و جوار کے مشاعروں سے لے کر خلیجی مشاعروں میں شرکت کرتے۔وہ نظامت کرتے اور اپنا کلام بھی بڑے مؤ ثر انداز میں پڑھتے۔ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے بھی ان کی وابستگی تھی۔غرضیکہ اردو زبان و ادب کی ترقی و ترویج میں اہم کردار ادا کر رہے تھے۔اختر صاحب کی شخصیت اردو تہذیب و تمدن کی آئینہ دارتھی۔اودھ کی تہذیب کا ان پر گہرا اثر تھا۔نفاست اور سلیقہ ان کی فطرت میں شامل تھا۔جمالیات ان کی شخصیت کا خاصہ تھی۔ان میں نسائی جمالیات کی حسرتی کیفیت بدرجۂ اتم تھی۔وہ اپنے ڈرائنگ روم میں کسی نہ کسی فلمی دنیا کی خوبصورت تصویر آویزاں کرتے۔وہ بے شمار اردو اور انگریزی کی میگزین منگواتے جس کے ٹائٹل کور پرنسائی توبہ شکن تصویر ہو تی۔

ان کا وضع قطع، بودو باش، نشست و برخاست، گفت و شنید سب شاعرانہ تھا۔بظاہر ان کی زندگی قلندرانہ تھی مگر وہ بھی انسان تھے۔خواہشوں کا خواب ان کے یہاں بھی تھا۔ان کی تعبیر کے لیے وہ لاٹری کا ٹکٹ تک خریدتے۔ وضع داری اور روا داری ان کی زندگی کا خاصہ تھی۔ ان کی زندگی شاعرانہ مبالغہ آرائی سے آراستہ تھی۔ اس کی عکاسی ان کی روز مرہ کی زندگی اور دیگر جہات کے ہر زاویے سے ہوتی تھی۔وہ واقعات اور کیفیات پر مبالغے کی ملمع کاری کے عادی تھے۔ان کی مبالغہ آرائی مضرت رسا ں نہیں ہو تی تھی۔ وہ فقط زیب داستاں کے لیے ہو تی تھی مگر بذات خود اختر صاحب کو اس رویے سے بہت نقصان پہنچا۔ اس سے ان کی زندگی معتدل نہیں رہ گئی تھی۔ انھوں نے یہی رویہ اپنی صحت اور زندگی کے ساتھ برتا۔چھینک آنے پر وہ سرجن سے تفتیش کرتے مگر بڑی سے بڑی بیماری کو وہ یوں ہی نظر انداز کر دیتے تھے۔دل کا دورہ پڑا ان کا کچھ نہیں بگڑا دل کے آپریشن کے بعد وہ خوش و خرم تھے لیکن ایک معمولی سی پھنسی ان کی موت کا سبب بن گئی اور 58برس کی عمر میں 10جون 1998کو جبکہ و ہ اپنی سبکدوشی کی منزل سے چند قدم کی دوری پر کھڑے تھے،رحلت فرما گئے۔کچھ سال قبل ہی موت پر انھوں نے عمدہ نظم تخلیق کی تھی جس میں حیات سراب اور مو ت حقیقت بن کر ابھری ہے جس سے بشر کو مفر نہیں          ؎

زندگی کو ایک جوئے کی طرح کھیلا عمر بھر

 اور کوئی بازی کسی منزل پہ بھی ہارا نہیں

دائوں جتنے بھی لگائے سب میں کچھ پاتا گیا

کیا ہوا کرتا ہے کھونا،یہ کبھی جا نا نہیں

مل گیا آخر میں لیکن ایک ایسا بھی حریف

حیف جس سے ہار بیٹھا خود میں نے اپنا وجود

 چال کچھ ایسی چلی اس نے کہ سب کچھ لٹ گیا

ہو گیا سارا اثاثہ ہست ’سے پل بھر میں بود

جب بھی کوئی اہل علم وادب اختر صاحب کے حسن سلوک،پر وقار تخلیقی و تنقیدی تحاریر، دانشورانہ تقاریر، تدریسی کا ر گزاریوں جیسے زریں کا رناموں کا محاکمہ کرے گا تو ان کی دل آویز ادبی شخصیت کامعترف ہو جائے گا۔بے شک اردو ادب ان کی تخلیق سے معمور ہے۔معتبر ناقد نسیم اعظمی نے اردو ادب میں ان کے مقام کا محاکمہ اس طرح کیا ہے :

’’اس میں کو ئی شک نہیں کہ وہ ہشت پہلو شخصیت کے مالک تھے۔وہ ایک اچھے خطیب،عمدہ نثر نگاراور کامیاب مترجم کی حیثیت سے پورے ہندستان میں جانے پہچانے جاتے ہیں لیکن ان کی فکری و فنی صلاحتیں زیادہ تر شعری تخلیقات ہی کی طرف مائل تھیں اور اس سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا۔کیونکہ موصوف کے چار شعری مجموعہ کلام ہیں۔‘‘

(ماہنامہ،گلابی کرن، اختربستوی نمبر، ص 63، جولائی1999 )

اخترصاحب کے سانحۂ ارتحال پر نا مور ناظم مشاعرہ عمر قریشی صاحب نے مرحوم کی ذات،صفات اور کمالات کو یاد کرکے یوں گریہ کنا ں ہیں         ؎

 

دانشوری وعلم کا دفتر کہیں جسے

ایک روشن کو ماہ منور کہیں جسے

    سینے میں علم وفن کے گہر ہا ئے تابدار

افکار نوبہ نو کا سمندر کہیں جسے

 شعرو سخن کی دنیا میں ایک نام سر بلند

اہل قلم،ادیب و سخنور کہیں جسے

خوشیوں کی اک حیات جسے لے گئی قضا

اخترکی مو ت،مرگ گل تر کہیں جسے

n

Dr. Ghulam Husain

Head, Dept. of Urdu

Govt. Madho College

Ujjain -  456001 (MP)

Mob.: 09893853183

 

 


 

 

 

 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں