شام مکمل طور پر رات میں تبدیل ہوچکی تھی یا ہوا چاہتی تھی،پتہ نہیں! ایسے ہی کسی لمحے میں موبائل کی گھنٹی بجی... میں نے لپک کے موبائل اُٹھایا۔رشید بشر کا نام فلیش ہورہا تھا۔فوراً فون ریسیو کیا۔میرے ہیلو کہتے ہی رشید بشر کی بے ہنگم آواز گونجی اور وہ لگاتار بولتے چلے گئے۔
’’اشتیاق بھائی کمال صاحب کی سانسیں الٹی چلنے لگی
ہیں۔انھیں یہاں لودھا روڈ پر سیتا پارک کے قریب غازی نرسنگ ہوم میں داخل کیا گیا
ہے،میری سمجھ سے معاملہ اب تب کا ہے،اگر گھر پہ ہو ں تو آجائیے۔آفاق الماس،جبار
استاد اور ظفر گڈو موجود ہیں‘‘۔
’’ٹھیک ہے،میں بھی پہنچتا ہوں‘‘۔ کہہ کر میں نے گفتگو کا
سلسلہ منقطع کیا اور واش روم میں جاکے جلدی جلدی چہرے پر پانی کے چھینٹے مارے،لباس
تبدیل کیا اور لودھا روڈ کے لیے نکل پڑا۔
کمال
صاحب گزشتہ پندرہ سولہ برسوں سے گُردے کے عارضے میں مبتلا ہیں۔اوائل میں مہینے میں
دو بار ڈائلیسس سے گزرتے رہے۔ادھر دو تین برسوں سے ہفتے میں دو مرتبہ ڈائلیسس ہونے
لگا تھا۔معاشی حالات دیگر گوں ہونے کے باوجود وہ اپنے علاج معالجے یا ڈائلیسس کے
لیے میونسپل کارپوریشن یا خیراتی ہسپتالوں کو نہیں بلکہ میرا روڈ کے شاندار اور
عالیشان ہسپتال ’اُمراؤ‘ ہی کو اوّلیت دیتے تھے۔سبب مظفر حسین تھے۔اِن کے علاج
معالجے کے تمام اخراجات مظفر حسین کا ٹرسٹ برداشت کرتا رہا تھا۔ادھر لاک ڈاؤن سے
ان کی طرزِ زندگی یکسر تبدیل ہوگئی تھی۔لوگ باگ جو ملنے جلنے والے تھے اُن کا آنا
جانا تقریباً بند سا ہوگیا تھا۔معاملہ نقل و حمل کا تھا۔ بسیں اور ٹرینیں تو بند
تھیں۔لہٰذا اخراجات کے لالے پڑ گئے۔سیّد نسیم احمد رائے بریلوی نے تو آنا ہی بند
کردیا،ممکن ہے بہ توسط موبائل مزاج پرسی کرتے رہے ہوں۔ رشید بشر،غیاث الدین،
ظفرگڈّو، ثانی اسلم، عبدالجبار استاد، مکرّم علی،عظیم بھائی اور خاکسار حسبِ
دستور اپنے اپنے وقت کی مناسبت سے کمال
صاحب کی بارگاہ میں حاضر ہوتے رہے۔کمال صاحب ان دنوں کچھ زیادہ ہی پریشان پریشان سے
رہنے لگے تھے۔ وجہ صاف تھی کہ جس کسی سے وہ فون پر رابطہ کرنا چاہتے تھے،اوّل تو
وہ فون اُٹھاتا نہ تھا،خدا خداکرکے اُٹھا بھی لیتا تو دو چار جملے اداکرنے کے بعد
رابطہ منقطع کردیتا۔اس پر کمال صاحب جھنجھلا کر وہ وہ مغلظات بکتے کہ اللہ کی پناہ ! ؎
اب کیا کہوں میں جھوٹے سہاروں
کی شان میں
شمعیں جلا
رہا ہوں ہوا
کے مکان میں
انھیں دنوں ان کے داہنے پیر کی
اُنگلیوں کے پاس ایک چھوٹا سا زخم ہوگیا تھا۔اگست کا مہینہ تھا،برسات اپنے پورے
شباب پر تھی۔تمام عالم اپنے اپنے گھروں میں دُبکا ہوتا تھا مگر آپ سارا دِن کرسی
لگائے اپنے اسٹال کے پاس چھپّر تلے بیٹھے رہتے اور ہر کس و ناکس سے اپنی بے بسی
اور مجبوری کا رونا روتے،یا پھر اپنے پیر کے اُس چھوٹے سے زخم کو کُریدنے کی کوشش
کرتے۔نتیجتاً آٹھ دس روز بعد پیرکا پنجہ سوج گیا۔ ایسا سوجا کہ چلنے پھرنے کے بھی
لائق نہ رہے۔بیگم جائسی نے بجائے گھر میں پناہ دینے کے فرمان جاری کردیا کہ ہسپتال
میں بھرتی ہوجاؤ۔بیگم کا فرمان کمال صاحب کے نزدیک کسی صحیفے کی اطاعت سے کم نہ
تھا۔ چنانچہ ہسپتال جانے کی تگ و دَو جاری ہوگئی۔ خیر ! کمال صاحب کے لیے گھر میں
کوئی گوشہ تو تھا نہیں، لہٰذا اُن کا مقدّر ہسپتال کے بستروں میں اُلجھا ہوا تھا۔
کمال صاحب اُمراؤ ہسپتال میں بستر نشین ہوئے۔ ڈاکٹروں نے خون پیشاب کی طرح طرح کی
جانچ کروائی، پھرآپریشن ہوا۔ دو لاکھ اسی ہزار کا صرفہ آیا، جسے مظفر حسین کے
ٹرسٹ نے حسبِ معمول ادا کیے۔ پھرہفتے بھر بعدجب باری ہسپتال سے چھٹی کی آئی تو
بیگم صاحبہ نے لڑکے سے کہلا بھیجا کہ ’’ابھی نہیں، ہفتہ دس دِن اور رہنے دیں، تاکہ
پیر میں کچھ جان پڑ جائے،اور چلنے پھرنے کے قابل ہوجائیں‘‘۔ہسپتال نے اس کارِ خیر
کے لیے لاکھ روپئے کا صرفہ بتایا تو چولیں ہِل گئیں۔ خیر ! ؎پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا۔
بے ساختہ مجھے اُن کا درج ذیل
شعر یادآیا جسے وہ ایّامِ جوانی میں مشاعروں میں خوب لہک لہک اور جھوم جھوم کے
پڑھا کرتے تھے ؎
کبھی حیات کے تیور
بدل نہیں سکتے
مِلی ہے داد بہت حادثوں کے گھر
سے مجھے
واقعی مجھے کمال جائسی کی حیات
کے تیور میں تبدیلی کبھی دِکھائی نہیں دی،وہ جیسے تھے تاعمر ویسے ہی رہے۔یہ الگ
بات کہ داد کی صورت حادثوں نے انھیں متزلزل کرنے کی بارہا کوششیں کیں۔ لیکن مجال
ہے جو بندہ کبھی ٹس سے مس بھی ہوا ہو۔خیر !واقعہ یہ ہے کہ کمال صاحب فقیری میں بھی
اپنی شہنشاہی کو ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے۔جب مشاعروں کے عروج کا زمانہ تھا تو اِن
پر ہُن برستا تھا۔ پیسے کی ریل پیل تھی۔
کمال جائسی کی ولادت
15اپریل1937 کو محلہ خواجگان، قصبہ جائس،ضلع رائے بریلی میں ہوئی۔والدِ محترم حضرت
کوثر جائسی کا غالباً چھ دہائی قبل مُلک بھر میں خاصا شہرہ تھا۔آپ کا شمار شعرو
سخن کے پیرو مرشد میں ہوتا تھا۔آپ گھر میں نئے مہمان کی آمد پر ایسے عش عش کر
اُٹھے گویا رب العزت نے آپ کو شعر و سخن کی سلطنت کے لیے جانشین عطا کردیا ہو۔پھر
کیا تھا،آپ نے اپنی تمام تر توجہ اس نو نہال پر مرکوز کردی اور نام کمال احمد
تجویز فرمایا۔ کہتے ہیں انسانی زندگی پر اچھے ناموں کے اثرات مرتب ہوتے ہیںاور نام
ہی کی مناسبت سے خصلت و کردار کی پرداخت ہوتی ہے۔اس نونہال پر بھی نام کا کمال
ظاہر ہونے لگا اور کمال کا کمال اوجِ کمال پر پہنچنے کے لیے بیتاب ہوگیا۔ابھی وہ
عمر کی بارہویں منزل ہی پر تھا کہ شعر فہمی کے ساتھ ساتھ شعر گوئی کی جانب بھی قدم
بڑھانے لگا۔والدِ محترم حضرت کوثر جائسی نے کمال احمد کے باطن میں موجزن جوہر کو محسوس
کیااور حوصلہ افزائی کرنے لگے۔نتیجتاً سترہ برس کی قلیل عمر میں یعنی 1954 میں
پہلی غزل کہی اور اپنا نامِ نامی کمال احمد سے کمال جائسی کرکے باقاعدہ شاعری کا
آغاز کردیا۔پھر رفتہ رفتہ قصبہ، ضلع، ریاست ہی نہیں مُلک بھر میں آپ کے اشعار کی
بازگشت سُنائی پڑنے لگی ؎
پہنچی ہے جو ترتیبِ ادا تک تری
تصویر
پندارِ مصور نے قلم
چھوڑ دیا ہے
1958
میں پہلا کل ہند مشاعرہ کانپور
میں پڑھا۔آپ کے ترنم کے لیے اور لب و لہجے کی برجستگی نے وہ غضب ڈھایا کہ کانپور
اور اطراف کے اضلاع میں آپ کے نام کی دھوم مچ گئی۔پھر تو جہاں کہیں مشاعروں کا
انعقاد ہوتا آپ کو ضرور بُلایا جاتا۔رفتہ رفتہ دوسری ریاستوں میں بھی ان کے نام
کی گونج سُنائی پڑنے لگی۔پھر تین چار برسوں میں یہ نام مُلک کے چاروں کھونٹ میں
گونجنے لگا۔
1970
میں کمال جائسی کا اوّلین شعری
مجموعہ ’نامہ و پیام‘ شائع ہوکر مقبولِ عام ہوا۔دوسرا مجموعہ ’سادہ ورق‘ 1984میں
شائع ہوا نیز تیسرا اور آخری شعری مجموعہ
’کہو کیا جواب دوں‘ 2006 میں شائع ہوکر داد و تحسین بٹورنے میں کامیاب ہوا۔
کہنے کو تو کمال صاحب کی تین کتابیں منظر عام پر آئیں، لیکن مواد ڈھنگ سے دو
کتابوں کا بھی نہیں ہے۔پہلی کتاب ’نامہ وپیام کا بیشتر موادبالخصوص نظمیں دوسری
کتاب ’سادہ ورق ‘میںشامل کیا گیاہے۔ یہی کیفیت تیسری کتاب پر بھی صادق آتی ہے۔ اب
ایسا بھی نہیں کہ کمال صاحب سُست یا کم گو ہیں۔بلکہ انھوں نے اپنی شاعری کا زیادہ
تر حصّہ روپئوں کی خاطر مالدار متشاعروں کے حوالے کردیا۔وہ خود کہتے ہیں ؎
شہرتوں کے طالب تُو اُداس کیوں
ہے
آ، کمال سے
پھر کچھ کلام لے جا
یہی سبب ہے جو وہ اپنے تازہ
کلام رسائل و جرائد میں شائع کرانے سے ساری عمر احتراز کرتے رہے۔اگر کبھی بھجوایا
بھی تو وہی غزلیں یا نظمیں جو مجموعوں میں شامِل ہیں۔ یہ ان کا منفی رویہ رہا ہے
جس نے انھیں اُردو اکادمیوں نیزسرکاری اداروںکی مراعات سے دور رکھا۔
کمال
جائسی محض میدانِ شعر و سخن کے ہی مجاہد نہیں بلکہ ادبی صحافت کے بھی سپاہی رہے
ہیں۔ 1970 میں آپ کی ادارت میں ماہنامہ ’چمن زار‘ کا اِجرا ہواجس کے محض9؍ شمارے
شائع ہوئے اس کے بعد بند ہوگیابعد ازاں پندرہ روزہ ’کلامِ ہند‘جاری کیا۔یہ بھی
بارہ تیرہ شماروں سے آگے نہیں بڑھ سکا۔
1958
میں والدِ محترم کے وسیلے سے
کانپور کی ’الگن مِل‘نمبر1؎ میں کلرک ایگزامنر کے عہدے پر کپڑوں کی کوالیٹی جانچنے
کے کام پر لگ گئے اور پوری ایمانداری اور دیانت داری کے ساتھ اپنا کام انجام دینے
لگے۔ سال دو سال کام کرنے کے بعد انھیں احساس ہونے لگا کہ ساتھی مزدوروں کے ساتھ
مالکان نیز اعلیٰ عہدیداران کی جانب سے کچھ حق تلفی ہورہی ہے تو اِن کا دِل رہ رہ
کے تڑپنے لگتا،کیونکہ خدائے برتر و بالا نے انھیں ایک حسّاس دِل عطا کیا تھا۔اب
اکیلا چنا تو بھاڑ پھوڑنے سے رہا۔چنانچہ کافی تگ و دو اور حکمت عملی کے بعد مِل کی
یونین میں شامل ہوئے اورمزدور ساتھیوں کے لیے آوازیں اُٹھانے لگے۔ان کی آواز اس
قدر بلند اور پُرزور ہوتی کہ اربابِ مِل اس پر کان دھرنے پر مجبور ہوجاتے اور
مسئلہ حل کرنے ہی میں عافیت سمجھتے۔ ان کی اسی خصوصیت کی بنا پرانھیں بعد کو
باقاعدہ طور پر یونین کا لیڈر منتخب کیاگیا۔ ان کی اسی لیڈر شِپ نے انھیں 1962 میں
نگر پالیکا کا الیکشن لڑنے پر مجبور کیا۔یہ الگ بات کہ وہ ہار گئے۔
کہتے ہیں ناکہ کمالِ را زوال
است۔اس کمال کو بھی ایک روز زوال کا مُنہ دیکھنا ہی تھا۔چنانچہ 90 کی دہائی نے
انھیں زوال کے غار میں دھکیل دیا۔حالانکہ 1990
میں ممبئی نے صابو صدیق گراؤنڈ میںجشنِ کمال کا شانداراہتمام کرکے انھیں
خراجِ تحسین پیش کیا۔اس مشاعرے میں ملک بھر کے نامی گرامی شعراء کرام نے شرکت کی
اور جشنِ کمال کی کامیابی کے ضامن بنے۔اس جشن کا نشہ دو تین سال تک کمال صاحب کو
سرور و انبساط کی چہار دیواری سے باہر نکلنے نہ دیا۔لیکن روزی کا کیا ؟ روزی تو
مقدور بھر ہر ذی روح کو درکار ہے۔یوں بھی بیٹھے بیٹھے کھانے سے قارون کا خزانہ بھی
ایک نہ ایک دن ختم ہوہی جاتاہے۔جب مشاعروں کا چاند مکمل گہنا گیااور اس کی مست
چاندنی کمہلانے لگی تو کمال صاحب کو آمدنی کی فکر لاحق ہوئی اور آپ اسی فکر کی
اُنگلی تھامے 1995 میں کانپور سے سیدھے میرا روڈ(ممبئی)آن پہنچے۔ حالانکہ یہاں
علم وادب نیز شعر وسخن کی زمین انتہائی ناہموار
اور بنجر تھی۔لہٰذا زمین کو ہموار اور زرخیزبنانے کے لیے اسے اپنے تجربات
کی نہر سے سینچا، وجدان کے ہل چلائے،جہالت کی خار دار جھاڑیوں کو اُکھاڑنے میں
اَنا کی ہتھیلیوںکولہو لہان کیا۔اسی دوران عبدالجبار اجمیری، اقبال سولنکی اور
مصطفی راٹھور سے یارانہ ہوا۔ان تینوں میں صرف عبدالجبار اجمیری کو کچھ شعر و شاعری
کا شغف تھا۔ اِن تین ساتھیوں نے انھیں نہ صرف حوصلہ دیا بلکہ مالی مدد بھی کی اور
’میراایکتا کمیٹی ‘کے بنیاد گزاروں میں رہے۔ میرا ایکتا کمیٹی کے زیر اہتمام
2016تک غالباً اٹھارہ کل ہند پیمانے کے مشاعرے ہوچکے ہیں۔
کمال جائسی سے میری پہلی
ملاقات معروف افسانہ نگار مظہر سلیم کے توسط سے 1998کے اواخر میں ہوئی تھی۔ واقعہ
یوں ہے کہ میں نے انورمرزا اور مبین راجو کے ساتھ مِل کے میرا روڈ پہ ایک ’ایکٹنگ
انسٹی ٹیوٹ‘ کا اجرا کیا تھا۔فلیٹ مظہر سلیم نے دلوایا تھا۔اُن دنوں میرا روڈ پر
اس قدر گہما گہمی نہیں تھی۔ فلموں کے اسٹرگلرز کی یہاں بہتات تھی۔ہمارا انسٹی ٹیوٹ
سات آٹھ مہینے سے زائد نہیں چل سکا،آپسی چپقلش کے نتیجے میں بند کرنا پڑا
تھا۔بہر کیف ! اِن سات آٹھ مہینوں میں بمشکل تین یا چار ملاقاتیں کمال جائسی سے
رہیں۔ اُن دنوں کمال جائسی ایس ٹی ڈی،پی سی اوبوتھ چلاتے تھے۔ میرا روڈ اسٹیشن کے
قریب ریلوے ٹریک سے مُلحق اِن کا اِسٹال ہے۔
اس دوران ’میرا ایکتا کمیٹی ‘
کی بنیاد پڑ چُکی تھی، مشاعرے کی منصوبہ بندی جاری و ساری تھی چندے کا اہتمام و
انصرام چل پڑا تھا۔اس کارگزاری میں عبدالجبار اجمیری پیش پیش تھے۔اس لیے عبدالجبار
اجمیری کانامِ نامی زیادہ اُچھلتا تھا۔خیر دو مشاعروں کے بعد اِن کے نام کی دھوم
کچھ زیادہ ہوئی تو مظفر حسین کے بھی کان بجنے لگے اور انھوں نے عبدالجبار اینڈ
کمپنی کو بُلوا بھیجا۔ انھوں نے اپنا پیر ومرشد بنا کر کمال جائسی کو پیش کیا۔
مظفر حسین کمال جائسی کی سخن طراز شباہت،چشم غزل، رُباعی پیشانی، دوہا خصلت اور
قصیدہ لبی سے اس قدر متاثر ہوئے کہ آپ ہی کا شعر آپ پر چسپاں کردیا ؎
یہ رازِ عبادت اے زاہد، برسوں
میں کھلا دیوانوں پر
جو عشق سے نسبت رکھتا ہے،وہ
کُفر بھی ایماں ہوتاہے
بہرحال،میرا جب بھی میرا روڈ
جاناہوتا، کمال صاحب سے ملاقات ضرورکرتا۔ پھرنئی صدی یعنی 2006میں ازخود فلیٹ خرید
لیا اورمع بال بچّوں کے یہیں بود و باش اختیار کرلی۔ پھرکیاتھا،آتے جاتے ملاقاتیں
ہونے لگیں،راہ و رسم مزید مستحکم ہوئی۔یہیں میری پہلی ملاقات اشہر نجمی سے بھی
ہوئی۔ان دنوں کمال صاحب کا تیسرا شعری مجموعہ ’کہو کیا جواب دوں‘کی اشاعتی تیاریاں
جاری تھیں۔ اس کی تمام تر ذمے داری حاجی رعب علی خان (واپی، گجرات) نے اپنے سر لے
رکھی تھی۔کلام ترتیب دینے کا کام اشہر نجمی کے ذمے کا، جسے وہ پوری آب و تاب کے
ساتھ انجام دینے میں لگے ہوئے تھے۔ بہر حال! کتاب شائع ہوئی،پھر ان کے شایانِ شان
ایک کل ہند پیمانے کے مشاعرے میں کتاب کا اجرا بھی ہوا۔
کمال صاحب کے رفقا بتاتے ہیں
کہ کتاب کی اشاعت نیز مشاعرہ اور اجرا کے تمام اخراجات تنِ تنہا حاجی رعب علی خان
نے برداشت کیے تھے۔حاجی رعب علی خان کا شمار بڑے کاروباریوں میں ہوتا ہے نیز آپ
کمال صاحب کے مداح و پرستار وں میں سے ہیں،ماشاء اللہ آج بھی بقیدِ حیات ہیں۔ آپ
ایّامِ نوجوانی سے کمال جائسی کی مترنم آواز کی سحر انگیزی اور لفظوں کی فُسوں
کاری میں یوں اُلجھے کہ بس !
کسی کی یاد کا نشہ فضا میں
گھولتا رہا
اُداس رات تھی خموش چاند بولتا
رہا
پھر کتنی اداس راتیں خموشی کی
زنبیل میں غرق ہوئیں اور جانے کتنے چاند گُفتار کے فلک پر روپوش ہوئے۔لیکن یاد کا
نشہ پوری آب و تاب کے ساتھ فضا میں سُرور آفرینی میں مست اپنی نوجوانی کے قصّے
لُٹاتارہا۔
میں جب غازی نرسنگ ہوم پہنچا
تو دیکھا رشید بشر دوڑ دھوپ میں لگے ہوئے ہیںاور کمال صاحب کے عزیزان نیز احباب کو
فون کے توسط سے اطلاع رسانی کاکام کر رہے ہیں۔کمال صاحب کی بہن اور بھائی کو بھی
مطلع کردیا تھا۔ابھی ہم باتیں کر ہی رہے تھے کہ سیّد نسیم احمد،اکمل احمد اور عارف
بھی آگئے۔انھیں کے پیچھے محشر فیض آبادی اور ثانی اسلم بھی تشریف لے آئے۔
اسی دوران ہسپتال کا عملہ آکر
رشید صاحب کو بُلا لے گیا۔رشید صاحب پانچ منٹ بعد باہر آئے۔ انھوں نے اعلان
کیا’’کمال صاحب نہیں رہے۔ اس روز تاریخ 27دسمبر 2020 تھی اور وقت رات کے 9؍بجنے
میں کوئی تین چار منٹ کم رہے ہوں گے۔اگلے روز یعنی 28؍دسمبر 2020 کی صبح ۱۱؍بجے
میرا روڈ کے قبرستان میں آپ کو سپردِ خاک کیا گیا۔جب ہم کمال صاحب کو منوں مٹّی
تلے دبا کر چلے تو میری آنکھیں جانے کیوں اشکبار ہوگئیں اور ذہن کے کسی گوشے سے
اُن کا شعر گونجا ؎
تم جلا ؤ کمال آنسوؤں کے
دیے
زندگی رات ہے،رات ڈھل جائیگی
واقعی کمال صاحب کے لیے زندگی
گزشتہ دو دہائیوں سے رات ہی رہی جو آج ڈھل گئی۔اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ
مرحوم کی صبح کو ملگجی نہیں بلکہ صاف وشفاف اور روشن کرے نیزکروٹ کروٹ جنت نصیب
فرمائے۔آمین
Ishtiyaque
Saeed
B-01-
New Mira Paradise, Geeta Nagar,
Phase-II,
Mira Road
Thane-401107 (Maharashtra)
Cell
: 9930211461
E-mail
: ishtiyaquesaeed@rediffmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں