1/7/21

اردو صحافت اور کالم نگاری - مضمون نگار: مہتاب امروہوی

 



جہاں اردو صحافت نے جنگ آزادی میں ناقابل فراموش اہم کردار ادا کیا وہاں دوسری جانب اردو ادب کی مختلف اصناف کے فروغ میں بھی اپنی سرگرمی کو تاہنوز جاری رکھا ہے۔ لیکن مقامِ حیرت ہے کہ صحافت کی مشہور اصناف کو آج بھی ادب کے اس حصے میں شامل نہیں کیا گیا جس کا اسے استحقاق ہے۔

اردو ادب کی ہر صنف کی تعمیم میں صحافت نے مرکزی رول نبھایا، خاص طور پر افسانہ، داستان، غزل، ڈراما، سفر نامہ وغیرہ کو بذریعہ اخبارات و رسائل عام قاری تک پہنچایا گیا اور ان کی مقبولیت میں اضافہ کیا گیا۔ لیکن اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوگا کہ جتنا تحقیقی کام افسانہ، غزل، ڈرامااور سفر نامہ پر ہوا اس کا دسواں حصہ بھی فنِ صحافت کی کسی بھی صنف کو نہیں ملا۔ اسے اردو ادب سے باہر کی چیز تصور کیا۔

یوں تو پوری اردو صحافت پر تحقیقی اور معلوماتی کام آج بھی تشنہ ہے بالخصوص اخبار کے داخلی مواد سے متعلق بنیادی کام کوصنفی اعتبار سے اگر تقسیم کیا جائے تواس میں  خبر، اداریہ، شذرہ، انٹر ویو،آرٹیکل، انشائیہ، خاکہ، رپورتاژ اور کالم نگاری وغیرہ جیسی تمام صحافتی اصناف آتی ہیں جن کے بارے میں صحافتی لحاظ سے ابھی تک کچھ نہیں لکھا گیا ہے۔ یوں کہنے کو انشائیہ اور خاکے پر اردو میں کچھ حد تک لکھا گیا ہے لیکن وہ ادبی اعتبار سے تحریر کیا گیا ہے، یعنی جن لوگوں نے بھی انشائیہ یا خاکے پر لکھا ہے انھوں نے ان دونوں چیزوں کو ادبی نثر کی نیم ادبی صنف تسلیم کرتے ہوئے اس کو سب سے کمتر قرار دیا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ صحافتی تناظر میں لکھنے کی کوشش کسی نے بھی نہیں کی۔ ان اخبار نویسوں اور صحافیوں نے بھی نہیں جن کو حقیقت میں یہ کام کرنا چاہیے تھا اور شاید وہی زیادہ بہتر طور پر اخباری اصناف پر لکھ بھی سکتے تھے۔

ادب اور صحافت میں اتنا قریبی رشتہ ہونے کے باوجود جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اخباری انشائیہ نگاری، اخباری خاکہ نگاری، اخباری انٹر ویو اور کالم نگاری وغیرہ پر اگر کچھ پڑھنا چاہیں تو کچھ ہاتھ نہیں آتا جبکہ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اردو اخباروں کے وقار اور شان کو بڑھانے میں کالم نگاری اور کالم نگاروں کا بہت بڑا ہاتھ رہا ہے۔ یہ کالم نگارہی ہیں جن کے دم سے آج بھی اردو اخباروں کا بھر م قائم ہے۔ورنہ وسائل کی کمی کے سبب اردو اخبار خالص اخباری شعبوں میں دوسری زبانوں کے اخباروں سے بہت پیچھے ہیں۔ وہ تو کہیے کہ اردو کے ادبی صحافیوں نے اپنے انٹر ویوز، انشائیوں اور کالم نگاری سے اردو اخباروں کی لاج بچا رکھی ہے، ورنہ صرف خبروں کے لیے اردو اخباروں کو کوئی خرید نا بھی پسند نہیں کرتا۔

ہمارا موضوع چونکہ کالم نگاری ہے اس لیے ہماری کوشش یہی ہوگی کہ ہم کالم نگاری کی صنفی نوعیت، کالم نگاری کے مقصد، کالم نگاری کی خصوصیات،کالم نگاری کے آداب و اصول پر روشنی ڈال سکیں۔ لیکن قبل اس کے کہ کالم نگاری پر اظہار خیال کیا جائے یہ مناسب ہو گا کہ انشائیہ، خاکہ نگاری اور رپورتاژ کے بارے میں بھی مختصراً کچھ اظہار خیال کر دیا جائے تاکہ کالم نگاری ان دیگر اصناف صحافت سے متمیز نظر آئے۔

خاکہ نگاری : اردو میں خاکہ نگاری کی روایت کچھ زیادہ پرانی نہیںہے اور صحافتی خاکہ نگاری تو بہت ہی نو خیز ہے۔ انگریزی میں خاکہ نگاری کے بہت اچھے نمونے ملتے ہیں، اردو میں خاکہ نگاری کا آغاز غیر صحافتی انداز یعنی ادب میں ہوا۔ جن ادیبوں نے خاکے لکھے وہ اخباروں سے متعلق نہ تھے۔ محمد حسین آزاد کو اردو کا پہلا خاکہ نگار کہا جاتا ہے کیونکہ انھوں نے آبِ حیات میںکچھ شاعروں کے بہت ہی حسین اور دلکش خاکے لکھے ہیں مگر باضابطہ طور پر اگر کسی خاکہ نگار کا نام لیا جاسکتا ہے تو شاید وہ مرزا فرحت اللہ بیگ ہیں۔ مرزا فرحت اللہ بیگ نے  ڈپٹی نذیر احمد اور مولوی وحیدالدین سلیم کے جو خاکے لکھے ہیں وہ اردو خاکہ نگاری کا آغاز ہی نہیں بلکہ خاکہ نگاری کے اعلیٰ ترین نمونے کہلائے جانے کے مستحق ہیں۔

خاکہ نگاری کو کچھ لوگ شخصیت نگاری سے بھی تعبیر کرتے ہیں کہ خاکہ کسی فرد واحد کی شخصیت کی قلمی تصویرہوتی ہے۔

آزادی سے پہلے جن خاکہ نگاروں نے اس میدان میں اپنی شناخت بنائی تھی ان میں فرحت اللہ بیگ کے علاوہ خواجہ حسن ثانی نظامی، شاہد احمد دہلوی، مولوی عبدالحق، رشید احمد صدیقی، سردار دیوان سنگھ مفتون وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیں۔جنگ آزادی کے دور میں یابعد میں جن خاکہ نگاروں نے شہرت حاصل کی ان میں سعادت حسن منٹو، مالک رام، عصمت چغتائی، شورش کاشمیری، انتظار حسین، کنہیا لال کپور، فکر تونسوی کا نام آتا ہے۔ مندرجہ بالا خاکہ نگاروں میں خواجہ حسن ثانی نظامی دیوان سنگھ مفتون، شاہد احمد دہلوی،عصمت چغتائی اور فکر تونسوی تو باقاعدہ اخبارات سے وابستہ رہے ہیں اور باقی لوگوں نے اپنا خاکہ نگاری سے اردو رسائل کو رونق بخشی۔ صحافتی خاکہ نگاری عام خاکہ نگاری سے تھوڑی سی مختلف ہوتی ہے۔ایک صحافی جب خاکہ لکھتا ہے تو اپنے خاکے کے لیے بالعموم کسی سیاسی یا سماجی شخصیت کا انتخاب کرتا ہے کیونکہ سیاست اور سماج ہی اس کا مخصوص میدان ہوتا ہے۔ کوئی سیاسی لیڈر یا کوئی ایسا رہنما جس کی شخصیت میں خاکہ نگار کو ایسے عناصر نظر آئیں جو سیاست اور سماج کے لیے نقصان رساں یا سودمند ہوں تو وہ اس لیڈر یا اس رہنما کے ان ہی پہلوؤں کی ایک دلچسپ انداز میں قلمی تصویر کھینچتا ہے۔

کبھی کبھی خاکہ نگاری کی حدیں کالم نویسی سے بھی مل جاتی ہیں یا یوں کہیے کہ کالم نگار ی میں خاکہ نگاری کی جھلک نمایاں ہوجاتی ہے۔یعنی کالم نگار اپنے کالم کے لیے سیاسی، سماجی، ادبی، مذہبی یا علمی شخصیت پر جب لکھتا ہے تو اس کے کالم میں وہ شخصیت اتفاق سے اس طرح ابھرتی چلی جاتی ہے کہ کالم نگار ی میں خاکہ نگاری کے پہلو نمایاں ہو جاتے ہیں۔

ایسی کالم نگاری کی مثال دیتے ہوئے پروفیسر شمیم حنفی نے لکھا ہے:

’’اردو خاکہ نگاری یا شخصیت نگاری کی ایک اور شکل جس نے ہمارے زمانے میںخاصا رواج پایا ہے، کالم نویسی کی روایت میں دکھائی دیتی ہے۔ اس سلسلے میں کچھ نہایت پر کشش مثالیں انتظار حسین اور خامہ بگوش کے ادبی کالموں میں ملتی ہیں۔‘‘

(از پروفیسر شمیم حنفی: آزادی کے بعد دہلی میں اردو خاکہ،  اردو اکادمی دہلی، اشاعت دوم 1992، ص 17-18)

انشائیہ نگاری: بیسویں صدی نے اردو صحافت کو جہاں اور چیزیں دیں ان میں سے ایک چیز انشائیہ بھی ہے۔انشائیہ کو اب سے پہلے صنف نثر کی حیثیت حاصل نہیںتھی۔صنف نثر تو تقاد اب بھی نہیں مانتے لیکن یہ اس طرز تحریر کی خوش قسمتی ہے کہ بیسویں صدی میں نقادوں نے اسے کم از کم ایک عدد نام تو عطا کردیا یعنی نثر کے خاص پیرایہ بیان کو انشائیہ کہاجانے لگا۔ انشائیہ کو یہ نام عطا کرنے میں صحافت کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اردو نقادوں نے اس نثری تحریر کو یہ نام شاید اس لیے عطا کیا کہ اردو کے انشائیہ نگاروں (اگر نقاد انھیں انشائیہ نگار مان لیں)میں زیادہ تر صحافی ہیں۔ مولانا ابو الکلام آزاد سے لے کر ڈاکٹر وزیر آغا تک جو نام ہمیں نظر آتے ہیں ان میں بہت سے لوگ کسی نہ کسی حیثیت میں اخبارورسائل سے منسوب رہے ہیں۔ لہٰذا اردو نقادوں نے ان صحافی ادیبوں کی تحریروں سے ادب کو ممتاز کرنے کے لیے انھیں انشائیہ کا نام دے دیا۔ نقادوں کا یہ رویہ ایک طرح سے ادب کی پاکیزگی اور خالصیت کو برقرار رکھنے کی خواہش ہے۔اردو کے نامور نقاد کلیم الدین احمد کا خیال ہے کہ انشائیہ وہی صنف ہے جو انگریزی میں(Essay) کہلاتی ہے اور جس کے بارے میں ڈاکٹر جانسن نے کہا تھا:

''The Essay is a loose sally of mind''

رپورتاژ نگاری : رپورتاژ نگاری بھی صحافت اور ادب کے بین بین ایک چیز( صنف) ہے۔یہ نیم صحافتی اور نیم ادبی قسم کی اصناف میں شمار ہوتی ہے۔اس صنف کی ماضی میںجڑیں زیادہ دور تک نہیں ملتی ہیں۔ بیسویں صدی کی تیسری یا چوتھی دہائی میں اس صنف کا آغاز ہوا، البتہ یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ رپورتاژ نگاری یوروپ سے ہماری زبان اردو میں آئی اور یوروپ کے لیے یہ فرانس کے ادیب صحافیوں کی دین ہے۔رپورتاژ فرینچ لفظ ہے۔ انگریزی میں اس کے لیے Reportingیا Reportآتا ہے لیکن جب یہی چیز رفتہ رفتہ صحافت اور ادب کے امتزاج سے مستقل طور پر اخباروں کے کالموں کی زینت بننے لگی تو اس صنف کا نام صحافتی زبان میں بطور اصطلاح رپورتاژ ہی پڑ گیا۔ رپورتاژ کیا ہوتی ہے ؟ اور اس کا دائرۂ کار (موضوع) کیا ہے ؟ اس کے بارے میں ڈاکٹر سید اعجاز حسین نے اپنے ایک مضمون میں کچھ اس طرح لکھا ہے:

’’ رپورتاژ عموماً ایسے واقعات پر مبنی ہوتا ہے جس سے ایک خاص طبقے کے بجائے انفرادی شعور کا ایسا کارنامہ ہو جو پھیلی ہوئی شکل میں عمومیت کا درجہ رکھتا ہو۔‘‘

(از ڈاکٹر سید اعجاز حسین۔ نئے ادبی رجحانات، کتابستان الہ آباد، اشاعت پنچم مئی 1957 ،ص 39)

انٹر ویو نگاری : انٹر ویو اردو صحافت کے لیے کوئی نئی چیز نہیں ہر چند کہ انٹر ویو نگاری کا جو باضابطہ مفہوم اب ہے وہ پہلے نہیں تھا اور نہ انٹر ویو اتنے سائنٹفک انداز سے لیے جاتے تھے۔ انٹر ویو دراصل اس بالمشافہ گفتگو یا مکالمے کو کہتے ہیں جو انٹر ویو لینے والے اور دینے والے کے درمیان سوال و جواب کی صورت میں ہوتا ہے۔ اردو زبان کے بہت سے اخبارات و رسائل نے سیاست، ادب، مذہب، سماج، علم تعلیم اور کھیل کے میدانوں میں ایسے اشخاص کو منتخب کیا جنھوں نے مذکورہ شعبۂ ہائے زندگی میں کسی ایک میں ناموری اور شہرت حاصل کی۔

انٹر ویو نگاری بھی ان ہی اصناف میں شامل ہے جس کو نہ ادب میں جگہ ملی اور نہ صحافت میں کوئی معزز مقام مل سکا۔ حالانکہ اگر دیکھا جائے تو انٹر ویو کے لیے سلیقے کے ساتھ ساتھ بہت ذہانت، دیانت اور سوجھ بوجھ کی ضرورت ہوتی ہے۔ انٹر ویو چونکہ حالات و مسائل حاضرہ سے متعلق ہی لیے جاتے ہیں اس لیے انٹر ویو لینے والے اور دینے والے کا مطالعہ وسیع، مشاہدہ تیز اور معلومات Currentہونی چاہیے۔ انٹر ویو لینے والا اگر ذہین اور تیز ہے تو سامنے موجود شخصیت سے ہر وہ بات اگلوا سکتا ہے جس کی اسے ضرورت ہے ورنہ بصورت دیگر عموماً دیکھنے میںآتا ہے کہ انٹر ویو لینے والا کسی تیز چرب زبان اور تجربہ کار شخصیت کے سامنے خود کو بے بس اور مجبور محسوس کرنے لگتا ہے۔

کالم نگاری : اردو صحافت کی تاریخ میںکالم نگاری کی روایت کا سراغ ہمیں بہت دور تک ملتا ہے۔یہ ضرور ہے کہ ماضی میں کالم نگاری اپنے رنگ ڈھنگ اور ماضی کے اعتبار سے اپنی کوئی مستقل شناخت قائم نہیں کر پائی تھی جیسی موجودہ کالم نگاری نے قائم کی ہے۔در اصل یہ شئے ابتدا میں اپنے نا تراشیدہ خد و خال کے ساتھ جنم لیتی ہے یعنی اپنے انگھڑروپ میں سامنے آتی ہے۔ اس کا نام اس کے  معنی و مفہوم کا تعین بعد کو ہوتا ہے۔ جیسے جیسے وہ چیزیں Developہوتی رہتی ہیں، سنورتی رہتی ہیں اور اپنے ابتدائی روپ کو چھوڑ کر مکمل نقش و نگار کے ساتھ سامنے آتی ہیں تب ہی ہم اس کے معنی و مفہوم کا تعین کرتے ہیں اس کا مقصد بیان کرتے ہیں اور اس کے لیے اصول و قواعد مرتب کرتے ہیں پھر اس کی تعریف متعین کرکے اس کا ایک نام بھی رکھ لیتے ہیں،اس طرح وہ نام ایک اصطلاح کا درجہ اختیار کر کے رائج ہوجاتا ہے۔ سماجی زندگی کے ہر شعبے میںیہ عمل ہوتا رہا ہے۔علم و ادب کی دنیا میں بس یہی ہوتا رہا ہے۔مختلف علوم کی جن اصطلاحوں کو آج ہم بے دریغ استعمال کرتے ہیں اور سنتے ہیں ان کے معنی و مفہوم سے بھی آشنا ہوجاتے ہیں یہ اصطلاحیں اپنے آغاز یا ابتدائی دور میں بے نام اور بنا معنی و مفہوم کے تھیں۔

آج ہم قومیت، سیکولرزم، جمہوریت اور مساوات وغیرہ کی اصطلاحیں بے تکلفی سے تحریر و تقریر میں استعمال کرتے ہیں، ان کے معنی و مفہوم سے بھی آگاہ ہیں۔ آج جب جمہوریت بولتے ہیں تو جمہوریت کا لفظ اپنے موجودہ مفہوم و خصائص کے ساتھ ہمارے سامنے آجاتا ہے اور پھر ہم جمہوریت کی تلاش میں روم و یونان تک پہنچ کر موجودہ جمہوریت کے ڈانڈے قدیم رومن اور یونانی جمہوریتوں سے ملا دیتے ہیں حالانکہ قدیم یونانی جمہوریتوں اور موجودہ جمہوریتوں کے تصور میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔

اس تمام گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ کالم نگاری نے ایک طویل مدت کی تراش خراش کے بعد اپنی موجودہ شکل و صورت اور رنگ روپ حاصل کیا ہے اور اب کہیں بیسویں صدی میںجا کر اپنی الگ شناخت قائم کرپائی ہے وہ بھی اس وجہ سے کہ بیسویں صدی کے آغاز سے ہی پریس کی دنیا میںنہایت تیز رفتاری سے تبدیلیاں آرہی تھیں۔ وہ تبدیلیاں صرف Technological fieldاور خبروں کے حصول و ترسیل تک ہی محدود نہیں تھیں بلکہ اخبار میں چھپنے والے مواد سے بھی متعلق تھیں۔بیسویں صدی میں اخباروں بالخصوص اردو اخباروں اور رسائل کے اندرونی مواد کی نئے سرے سے ترتیب و تزئین سے متعلق تھیں۔وجہ اس کی یہ ہے کہ بیسویں صدی میںپریس اپنےCommercial ageمیں داخل ہو چکا تھا اور صحافت professionمیں تبدیل ہو چکی تھی۔تجارتی مقابلے نے اخباروں کو مجبور کیا کہ مانگ اور کھپت میں اضافہ ہو۔ یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ اخبار اب صرف ملکی اور عالمی واقعات و حادثات سے باخبر ہونے کے لیے نہیں خریدا جاتا تھا ان چیزوں کی آگاہی کے لیے میڈیا کا ایک اور الیکٹرانک شعبہ یعنی ریڈیو میدان میں آگیا تھا۔ اخبار میں قاری اب اپنی دلچسپی کے دوسرے سامان تلاش کرتاتھا۔ اس سلسلہ میں ہمارے بات کی تائید اوصاف احمد کے اس مضمون سے بھی ہوتی ہے جو انھوں نے آواز کے مشہور صحافی جمیل مہدی کے بارے میں لکھا ہے۔ اردو اخباری دنیا کا جائزہ لیتے ہوئے انھوں نے لکھا:

’’اردو صحافت اور ہندوستانی مسلم تہذیب میں اخبار اور اس کے متعلقات کو ایک رومانی حیثیت حاصل رہی ہے۔ صحافت کو ایک طرح سے عبادت سمجھا جاتا رہا ہے۔ صحافت کا یہ تصور عام کرنے میں ’الہلال‘، ’البلاغ‘ اور ’ہمدرد ‘جیسے اخبارات اس طرح پیش پیش رہے ہیں کہ اخبارات کا تجارتی او ر معاشی پہلو پس پشت پڑ گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ دوسری صنعتوں کی طرح اخبار بھی ایک صنعت ہے۔ جس طرح دوسرے کاروباروں کو نفع بخش بنانے کے لیے کاروباری ذہنیت کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح اخبار کو منفعت بخش بنانے اور اسے اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے بھی کاروباری ہنر مندی درکار ہے۔‘‘

(از اوصاف احمد’جمیل مہدی کچھ باتیں کچھ یادیں‘ مطبوعہ ماہنامہ کتاب نما مکتبہ جامعہ نئی دہلی فروری 1996، ص 63)

لہٰذا اردو اخبار بھی اس تجارتی دوڑ میں شامل ہو گئے تو انھوں نے اخباروں کو زیادہ سے زیادہ دلچسپ اور قاری کی حسب منشا بنانے کے لیے اخبار ی مواد میں بہت سے نئے گوشے اورشوشے پید اکر دیے یہ نئے گوشے صحافت کی ان اصناف پر مشتمل تھے جن کو ہم انٹر ویو نگاری، خاکہ، انشائیہ،رپورتاژ، جدید،  فیچر نویسی، مزاحیہ شاعری کے کالم، کارٹون، طنزیہ مزاحیہ نثری کالم کے نام سے جانتے ہیں۔ اردو اخباری دنیا میں ہونے والی اس تبدیلی کی طرف ڈاکٹر قیصر شمیم نے بھی اپنے ایک مضمون میں اشارہ کیا ہے:

’’جب اردو اخبارات و جرائد نے صحافت کے جدید اصولوں کو اپنا کر ایک نئے دورمیں قدم رکھا تو انیسویں صدی کے اواخر تک فیچر نویسی، اداریہ اور مختلف قسم کے سنجیدہ علمی اور مزاحیہ کالم نویسی نے جنم لیا۔‘‘

(از ڈاکٹر قیصر شمیم ’اردو ادب کے فروغ میںصحافت کا حصہ‘ مطبوعہ ماہنامہ کتاب نمامکتبہ جامعہ نئی دہلی، مارچ 1998، ص22)

بیسویں صدی کی صحافت میں مندرجہ بالا جو اصناف داخل ہوئیں ان میں سے کچھ کے دھندلے سے نقوش ہمیں ماضی کی اردو صحافت میںملتے ہیں۔ان تمام اصناف میں مزاحیہ کالم نگاری کو جو اہمیت، امتیاز اور مقبولیت حاصل ہوئی وہ کسی دوسری اخباری صنف کو حاصل نہ ہو سکی۔ اصلیت تو یہ ہے کہ کالم نگاری اردو صحافت کی دنیا میں انقلابی تبدیلی کا باعث بنی اور اس نے اخبارات کو نہ صرف ادبی وقار عطا کیا بلکہ ان کو نئی دلکشی اور دلچسپی سے بھی روشناس کرایا۔

مندرجہ بالا بحث کے تناظر میں ہم بہ بانگ دہل یہ کہہ سکتے ہیں کہ اردو ادب کے فروغ میںصحافت کا بہت بڑا ہاتھ رہا ہے لیکن صحافت کی اصناف کو وہ مقبولیت میسر نہ آسکی جس کی وہ مستحق ہیں۔اب یہ ذمہ داری ان ادبی صحافیوں کی ہے جو اخبارات کے ذریعہ ہی مقبول اور مشہور ہو ئے کہ وہ اس اصناف کے فروغ کے لیے کوششیں کریں اور صحافت کو اردو ادب کا ہی ایک اہم حصہ باور کرائیں۔

اس امر کی تکمیل کے لیے ضروری ہے کہ تمام ادبی حلقوں کی جانب سے مؤثر مشترکہ تحریک چلائی جائے اور آنے والی نسل کے لیے ایک ایسا میدان  ہموار کیا جائے جہاں شعبۂ نثر میں اردو صحافت کو بھی ایک اہم اور ضروری حصہ تصور کیا جائے۔ 

 

Dr. Mehtab Amrohvi

Head, Dept of Journalism

Nayab Abbasi Degree (PG)College

Kailsa Road, Amroha-224221 (UP)

Mob.: 9412512750

 

 

 

 


 

  


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں