3/8/21

حیدرآباد میں اردو ناول 1900 تا 2014 - مضمون نگار- عبدالمغنی صدیقی

 



اردو ناول نگاری کی ابتدا نذیر احمد کے ناول سے ہو تی ہے۔ کسی نئی صنف کی شروعات یا پھر اس میں ایک بڑی تبدیلی کا تعلق زمانہ ماضی کے ادب سے ضرور ہو تا ہے۔ داستان گوئی ایک ایسا فن تھا جو آگے چل کر عہد تغیر یعنی کہ صنعتی دور کے ابتدائی زمانے میں ناول کی تخلیق میں معاون ہوا۔ یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ داستان کی کو کھ سے ’ناول ‘ نے جنم لیا۔ ناول کی تعریف کر تے ہو ئے علی عباس حسینی لکھتے ہیں:

ناول نثری قصے کے ذریعے انسانی زندگی کی ترجمانی کر تا ہے وہ بجائے ایک شاعرانہ و جذباتی نظریۂ حیات کے ایک فلسفیانہ، سا ئنٹفک یا کم سے کم ایک ذہنی تنقید حیات پیش کر تا ہے، قصے کی کوئی کتاب اس وقت تک ناول نہ کہلائے گی جب تک وہ نثر میں نہ ہو حقیقی زندگی کی ہو بہو تصو یر یا اس کے مانند کو ئی چیز نہ ہو، اور ایک خاص ذہنی رجحان ( نقطہ ٔ نظر ) کے زیر اثر اس میں ایک طرح کی یک رنگی و ربط نہ موجود ہو ۔‘‘

(علی عباس حسینی  اردو ناول کی تاریخ اور تنقید، ایجوکیشنل بک ہاوس حیدرآباد، 1989 ،ص40 )

ناول میں انسانی زندگی اور اس سے جڑے واقعات و حالات کو بیان کیا جاتا ہے۔ غور و فکر کے بعد ہی ناول نگار انسانی زندگی کو ناول میںپیش کر تا ہے۔

نور الحسن نقوی ناول کے لغوی معنی پر رقمطراز ہیں :

’’ناول اطا لوی زبان کے لفظ ’ناویلا ‘سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں نیا۔ یہ نام اس لیے رکھا گیا کہ ناول ایک نئی چیز تھی۔‘‘

( تاریخ ادب اُردوایجو کیشنل پبلشر، دہلی 2001، ص301)

مندر جہ بالا اقتباس سے دو باتیں واضح  ہو جاتی ہیں کہ ناول اُردو ادب میں انگریزی کے اثر سے داخل ہوا اور دوسرا‘  لفظ ’ناویلا‘ کے معنی ’نیا‘ کے آتے ہیں۔ اُردو ناول بہت حد تک اُردو ادب اور سماجی حالات کے بدلتے رُجحانات کا مر کز بنا رہا اور انھیں حالات نے ناول کو اُردو ادب اور ہندوستانی سماج دونوں میں اپنی بنیاد گہرائی اور گیرائی سے ڈالنے میں کامیاب مساعی کی۔دنیا میں ناول کے وجود میں آنے کی وجو ہات بتا تے ہو ئے ڈاکٹر احسن فا روقی لکھتے ہیں :

’’ناول اس وقت وجو د میں آیا جب ادبیات میں ایک نما یاں پختگی او رگہرائی آچکی تھی اور سو سا ئٹی تہذیب کا ایک اچھا خاصا معیار حاصل کر چکی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ناول کا مطا لعہ ایک تفریحی چیز ہی نہیں، تہذیبی او رذہنی مطالعہ بھی ہے ‘‘(ناول کیا ہے ؟ نسیم بک ڈپو،لکھنؤ، 1983، ص5)

مندر جہ با لا اقتباس ناول کے وجود میں آنے کی طرف اشا رہ کر تا ہے جس کا تعلق سماجی، سیا سی، اور مذہبی حالات سے گہرا ہوتا ہے۔

ناول کی ترقی و ترویج میں حیدر آباد ہر دور میں پیش پیش رہا۔انیسویں صدی کے آخری دہے میں مہاراجہ کشن پر شاد شاد  نے حیدر آباد میں ناول نگاری کی بنیاد رکھی۔ مہاراجہ، پنڈت رتن ناتھ سر شار، عبدالحلیم شرر اور ڈپٹی نذیر احمد کے ناولوں سے بہت متاثر تھے اور انھیں کے رنگ کو انھوں نے اپنے ناولوں میں اپنا یا ہے، ناول نگاری کی صنف میں جو ہر آزمائے اور نثر کی چا شنی میں بے پناہ اضافہ کیا۔ مہاراجہ کے لیے ناولیں تخلیق کر نے کا ذریعہ اس وقت آسان ہو گیا جب 1895 میں ناول نگار رتن ناتھ سرشار حید رآباد چلے آئے۔ 1897 میں سرشار نے دبدبہ آصفی کے نام سے رسالہ نکالا۔اسی رسالے میں مہاراجہ کشن پرشاد شاد  کے مضامین اور ناول قسط وار شائع ہوتے رہے۔

 مہاراجہ کشن پر شاد کے تین ناول ملتے ہیں۔ (1)  مطلع خورشید  1900 میں شائع ہوا۔ (2) چنچل نار  1903  جو سرشار کے ماہنامہ رسالہ ’دبدبہ آصفی‘ میں قسط وار شائع ہو ا کر تا تھا۔ 1909 میں چنچل نار ناول کی شکل میں شائع کیا گیا۔ (3) تیسرا ناول بزم خیال جو 1912 میں شائع ہوا۔ انیسویں صدی کے آخری دہے یعنی1895 میں عبدالحلیم شرر نے بھی حیدر آباد کا رخ کیا۔ 1884 میں مولانا عبدالحلیم شرر پہلی بار وقار الملک کی خواہش پر حیدر آباد آئے تھے۔ پھر کئی دفعہ مختلف وجوہات کی بنا پر حیدرآباد سے لکھنؤ کا دورہ کرتے رہے۔  اپنے زورِ قلم سے عبدالحلیم شرر نے کُل 42 ناولیں تحریر کیں جن میں معاشرتی، اصلا حی،تاریخی ناولیں شامل ہیں۔ 1908تا 1910کے درمیان عبدالحلیم شرر نے قیس و لبنی،  آغا صادق کی شادی، ماہ ملک جیسی تاریخی اور اصلاحی ناولیں حیدر آباد میں لکھیں۔ 1895 میں سر شار حیدر آباد چلے آئے۔ انیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں صدی کی شروعات میں مہاراجہ کشن پر شاد شاد، عبدالحلیم شرر، عزیز احمد ناول نگاروں کی صف میں پیش پیش تھے۔

الغرض حیدر آباد میں ناول نگاری کی مستحکم بنیاد پڑچکی تھی، جسے حیدر آباد ی خاتون ناول نگاروں نے بھی مزید وسعت دی۔ صغرا ہمایوں مر زا، طیبہ بیگم بلگرامی حیدر آباد کی صف اول کی ناول نگاروں میں شمار ہو تی ہیں۔

طیبہ بیگم بلگرامی کے تین ناول ملتے ہیں۔(1) انوری بیگم (2) حشمت النسا  (3) احمدی بیگم۔ناول احمدی بیگم غیر مطبوعہ ناول ہے۔ صغرا ہمایوں مرزا نے اصلاحی ناولیں لکھی ہیں۔ جن میں  (1) مشیر نسواں  (2) مو ہنی  (3) سرگزشت ہاجرہ  قابل ذکر ہیں۔ طیبہ بیگم اور صغراہمایوں مر زا نے جس عہد میں لکھنا شروع کیا اُس عہد میں خواتین کا پڑ ھنا لکھنا تو دور مسلم معا شرے کی روایت کے مطابق شریف زادیوں کا گھر سے باہرنکلنا بھی معیو ب سمجھا جاتا تھا۔ ان ناولوں میں حیدر آباد کے معاشرتی حالات کی عکاسی کی گئی ہے جو انیسویں صدی کے اختتام اور بیسویں صدی کی ابتدا پر محیط ہے۔

ممتا ز نثر نگار قاضی عبدالغفار نے1932 اور 1934 میں ناول ’لیلیٰ کے خطوط‘ اور ’مجنوں کی ڈائری ‘تخلیق کیا۔ ’لیلیٰ کے خطوط مجنوں کی ڈائری‘قاضی عبدالغفار کا خطوطی ٹکنیک پر لکھا جانے والا پہلا شا ہکار تانیثی ناول ہے۔ ناول ’لیلیٰ کے خطوط‘ میں عورت کی مظلو میت، مذہبی ریا کاری کو اور سماج کے دوہرے معیار کوموضوع بنا یا گیا ہے۔

دراصل لیلیٰ کو طوائف کے دہلیز پر پہنچانے والا اُس کا شو ہر تھا جسے وہ دل و جان سے چاہتی تھی۔ اپنے شو ہر کی غداری اور بے وفائی نے اُسے لفظ شو ہر اور ازدواجی رشتے سے بے بہرا کر دیا۔ قاضی عبدالغفار نے لیلیٰ کے خطوط کے ذریعہ مذہبی ٹھیکے دار وں کے خلاف آواز اُٹھا ئی ہے۔

لیلیٰ کے تمام خطوط میں طنز جھلکتا ہے سماج اور مذہب کے خلاف جو اپنے فوائد کے لیے بنائے گئے ہیں۔ الغرض قاضی عبدالغفار نے اپنے تصورات و خیالات کو اُس عہد کی عکاسی میں اِ س ناول کے ذریعے پیش کیے ہیں۔

1930 کے بعد حید رآباد میں شائع ہو نے والے ناولوں کے فن میں ایک بڑی تبدیلی نظر آتی ہے۔اس کی بڑی وجہ مغربی و مشرقی تہذیب کا ٹکرا ؤ، انسان کی داخلی و خارجی زندگی میں بے چینی و بے قراری، قدامت پر ستی سے بیزاری اہم ہے۔ عزیز احمد کے زورِ قلم سے پہلا ناول ’ہوس‘1932 میں شائع ہوا۔حیدر آباد میں شائع ہونے والا یہ پہلا ناول تھا جس میں عزیز احمد نے کھل کر جنسی مسئلے پر لکھا۔ اس کے ایک سال بعد 1933 میں ’ مرمر اور خون ‘ شائع ہوا جس کے مو ضوع میں رومانی کہانی کے علاوہ نوجوان نسل کی ذہنی کیفیات  اورنفسیات کو بے باک انداز میں پیش کیا گیا۔ زندگی کے بدلتے اقدار کو عزیز احمد نے اپنے شا ہکا ر ناول ’گریز ‘ میں پیش کیا ہے۔ یہ ناول حیدر آباد کی تنگ گلیوں سے شر وع ہو کر کشمیر کی سرسبز وادیوں پر ختم ہو تا ہے۔ناول کا مرکزی کر دار  ’ نعیم حسن‘ اپنی زندگی کے ہر اہم معاملات سے گریز کر تا دکھائی دیتا ہے۔ وہ ایک یتیم ہے جو ابتدا میں خاندانی رشتے داروں سے قربت بڑھانے میں ناکام ہو تا ہے۔  آئی اے ایس میں کامیابی کے بعد ٹریننگ کے لیے وہ یو رپ جاتا ہے اور وہا ں کی آزاد زندگی بلکہ ہر قسم کی آزادی کا بھر پور لطف اُٹھا تا ہے۔ نعیم ایک تنگ ذہن ہندوستانی معاشرے سے نکل کر مغربی تہذیب کے روح رواں ملک یورپ جاتا ہے جہاں پر شراب پینا، اور کسی غیر لڑ کی کے ساتھ ربط رکھنا کوئی معیوب بات نہیں تھی۔عزیز احمد نے اس ناول میں ہندوستان اور یو رپ کی اس زندگی کو پیش کیا ہے جو دوسری جنگ عظیم کے دوران عدم استحکام کا شکار تھی۔ اس ناول میںہندوستان کے مسلم معاشرے کی فرسودہ ذہنیت، دوسری جنگ عظیم سے نبرد آزما یورپ اور ان سب کے درمیان تیزی سے بدلتی زندگی کے اقدار اورمشرقی تہذیب کی یلغار کو بے مثال کر دار اور انوکھے مو ضوعات کے ذریعے پیش کیا ہے۔

1936 میںانجمن ترقی پسند مصنّفین کا قیام عمل میں آیا۔جس کا اثر اُردو کی تمام اصناف پر پڑا۔ ناول نگار نے بھی ترقی پسند تحریک سے متاثر ہو کر اپنے ناولوں میں مو ضوعات میں تبدیلی اور حقیقت نگاری کی طرف توجہ کی۔ حیدر آباد میں ترقی پسند تحریک کے دور کے لکھنے والوں میں ابراہیم جلیس، عزیز احمد،جیلانی بانو، رفیعہ منظور الامین آتے ہیں کچھ ناول نگار ترقی پسند تحریک سے جدیدیت اور ما بعد جدیدیت تک بھی لکھتے رہے جن میں رفیعہ منظور الامین، عفت موہانی شامل ہیں۔

 فکشن نگار ابراہیم جلیس نے حیدر آباد میں پہلا ترقی پسند ناول چور بازار 1946میںتخلیق کیا جس میں 1920میںآئے قحط بنگال کو موضوع بنا یا گیا ہے۔ ناول میں ہندوستان کے دم توڑ تے اقتصادی حالات، دو وقت کی روٹی کو ترستے کسان، او رایک آنے کے لیے اپنی عزت کا سودا کرنے والے کسان کا کر دار ملتا ہے۔ یہ کردار ہندوستان کے حقیقی چہرے تھے جنھیں ابراہیم جلیس نے بے نقاب کیا۔  4دوستوں پر مشتمل اس ناول میں حیدر آباد کے معاشی اور سماجی مسائل کو پیش کیا گیا ہے۔ایک اقتباس  ملاحظہ ہو :

’’ماں ایک مہینے سے بیمار تھی۔ بغیر کسی دوا اور دارو کے کھانس کھانس کر خو ن تھوک رہی تھی۔ چار پائی کے نیچے اس کے جہیز کا اگلدان خون سے بھرا تھا کیا جہیز میں پیک دان اسی لیے دیے جاتے ہیں کہ عورتیں اپنے رخساروں کا سا را خون ان میں تھوک دیں ؟

ماں کو دوا کیوں نہیں دی گئی ؟

روپیہ نہیں تھا

فاطمہ کے رخسار پیلے کیوں ہیں ؟

وہ عرصے سے کنواری بیٹھی ہے ؟

یہ بچے اتنے سو کھے مر یل کیوں ہیں ؟

انھیں بھوک لگی ہے۔

گاندھی نے برت کیوں رکھا ؟

ہندوستان مانگتا ہے۔

جناح کیوں چیختا ہے ؟

پاکستان مانگتا ہے

سب ہاتھ پھیلا ئے کچھ نہ کچھ مانگ رہے ہیں۔ بھکاری اور میں جیسے خواب دیکھ رہا ہوں۔ ہندوستان راجاؤں مہاراجوں کا ملک ہے۔ عالیشان محلوں کی سر زمین ہے۔ سو نے او رچاندی کا معدن ہے۔ ہیروں اور مو تیوں کی کان ہے۔ میں خواب دیکھ رہا ہوں میں جرم کر رہاہوں۔ نہ بہادر شاہ ظفر بزدل تھے اور نہ میر جعفر غدار تھا۔ بلکہ سارا قصور انہی خوابوں کا ہے جو ایک دوسرے سے منسلک ہو کر پورے سو سال سے نیند کی زنجیر لمبی ہی لمبی، کھینچتے جار ہے ہیں ‘‘ 

(ابراہیم جلیس، چور بازار ص 2، اردو محل حیدر آباد دکن،حیدرآباد، 1946)

ابراہیم جلیس نے ایک ایسے ہندوستان کا نقشہ کھینچا ہے جو شمال سے لے کر جنوب تک، مشرق سے مغرب تک افلاس، بھو ک مری، بے روزگاری کی چادر تلے لپٹا ہوا تھااور پڑھا لکھا نوجوان بھی اس افلاس اور بھوک سے خود نکل سکتا تھا اور نہ ہی اپنے خاندان کو نجات دلا سکتا تھا۔ کیونکہ بے روز گاری اس نوجوان کا نصیب بن گئی تھی۔ موج مستی، پیٹ بھر کھانا صرف زمینداروں، امرا، سیٹھ ساہو کاروں کا مشغلہ تھا۔

دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر ہندوستان میں بے روزگا ر ی ‘ قحط اس حد تک پھیلی ہو ئی تھی کہ بیشتر نوجوان ‘ بوڑھے اپنی بھوک وپیاس کومٹانے کے لیے دلال بن رہے تھے۔ ہر مصیبت زدہ لڑکی حالات سے دورچار ان دلالوں کے ہاتھوں لُٹ رہی تھی۔ دلالوں کو اس پیشے سے ہرگز پشیمانی نہیں تھی۔  ابراہیم جلیس نے 1942کے سماجی حالات کو پیش کیا ہے:

’’دلال ‘‘:  ہمارا پیشہ بڑا تا ریخی ہے۔ جانے کس کتاب میں پڑھا تھا کہ ہندوستان ایک بیسوا ہے جس کو دراوڑیوں نے آریاؤں کو، پٹھانوں نے مغلوں کو اور مغلوں نے انگریز وں کو بیچ دیا۔ یہ سب دلال۔ نوح نے مسکراتے ہو ئے اس سے کہا ’میاں‘ تم بڑے قابل ہو دلالی کے بجائے کو ئی اچھا پیشہ کرو۔ اپنی مٹی کیوں خراب کررہے ہو یہاں ‘‘ بو ڑھافو راً بولا ’’اچھے سے اچھے پیسے میں بھی تو دلالی ہو تی ہے جی مگر عورتوں کی دلالی اچھی ہوتی ہے اس میں ہاتھ کالے نہیں ہو تے ‘‘  ظفر نے مذاق کیا ’’منہ تو کا لا ہو جاتا ہے ‘‘  بوڑھا بولا ’’وہ تو دراوڑیوں سے لے کر مجھ کمترین تک سب ہندوستانیوں کا کا لا ہے۔‘‘

( ابراہیم جلیس،  چور بازار ص27، اردو محل حیدر آباد دکن،حیدرآباد، 1946)

ابراہیم جلیس نے ناول کے بیشتر حصوں میں طنز یہ انداز روا رکھا ہے۔ مندر جہ بالا اقتباس میں بڈھے کی سماج اور تہذیب سے بیزارگی ظاہر ہو تی ہے۔ دلال بڈھا ایسے سماج میں زندگی بسر کر رہا تھا جہاں اُسے ہر شخص مطلب پرست، شہوت پر ست دکھائی دے رہا تھا۔ وہ قدیم اقوام و باشندوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنا تا ہے اس کے نزدیک تمام باشندے،اور نسلیں مطلب پرستی کی معمار ہیں۔ابراہیم جلیس نے بڈھے دلال کے کر دار کے ذریعے بیسویں صدی کے اُن ضعیف کر دار کو روشنا س کر وایا ہے جوایک طرف ہندوستان میں پھیلی بھوک مری، بے روزگاری  سے بیزار تھے تودوسری جانب سیاسی گہما گہمی نے انھیں یکسر بد حال کر رکھا تھا۔

 ترقی پسندتحریک کے اس دور میں عزیز احمد کے ناول ’ ایسی بلندی ایسی پستی ‘  اور ’آگ ‘ 1948 سے قبل شائع ہوچکے تھے۔ جس میں انسان کی بدلتی معاشرتی زندگی سے بحث کی گئی ہے۔ ناول ’ایسی بلندی ایسی پستی ‘ میں ریاست حیدر آباد کے امرا کی عیش پرستی، ان کے تحت بسنے والے مسلم خاندانوں کی بے حسی کو مو ضوع بنا یا گیا ہے۔ عزیز احمد نے اس ناول میں مغربی تہذیب کی یلغار میں بہنے والے مسلم سماج کو مختلف واقعات میں پیش کیا ہے۔ناول ’’آگ‘‘ میں انسانی زندگی کا ہر عمل واضح نظر آتا ہے۔ اس ناول میں کچھ ایسے مسائل بھی اُٹھائے گئے ہیں جو آ ج بھی ہمارے سماج کے لیے ناسور ہیں۔ خواتین کے ساتھ جرائم ہمارے سماج کا ایک اہم مسئلہ ہے جسے عزیز احمد نے اپنے ناول میں پیش کیا ہے۔ 1948 میں شائع ہو ئے اس ناول میں ہمیں لڑکیوں پر تیزاب پھینکنے کا واقعہ ملتا ہے جو آج بھی سماج میں جوں کا توں برقرار ہے۔ کچھ مسائل ایسے ہیں جو صدیوں گزر جانے کے باوجود بھی نہ صرف برقرار ہیں بلکہ ان میں اضافہ درج کیا جا رہا ہے۔ تیزاب پھینکنے کا واقعہ، جہیز کے مسائل، عصمت ریزی کچھ ایسے مسائل ہیں جن میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہی ہوا ہے۔

ترقی پسند تحریک کی وجہ سے حقیقت نگاری کا رجحان عام ہوا۔ زندگی کے مختلف مسائل کو دیکھنے اور دکھانے کی کوشش کی گئی۔ بھوک، افلاس، سماجی پستی اور غلامی اس تحریک کے اہم مو ضوعات رہے۔سائنسی فکر نے انسان کی زندگی کو نئی سمت دی، مغر بی یلغار نے ہندوستانی سماجی زندگی کو متاثر کیا۔ حقیقت سے آگاہی نے انسان کے تعلیمی رجحان میں تبدیلی پیدا کی۔ ناول اصلاحی، اخلاقی، تاریخی اور رومانی دائرے سے نکل کر حقیقت نگاری کی طرف بڑھتا رہا جس میں تہذیبی بحران کی عکاسی کی گئی، انسانی زندگی کے داخلی اور خارجی مسائل سے بحث کی گئی۔

ہندوستان کی تیزی سے بدلتی سیاسی و سماجی زندگی سے متاثر ہو کر جیلانی بانو نے 1958 میںناول ’ایوانِ غزل‘ تحریر کیا۔ یہ ناول آصفیہ دور سے شروع ہو کر سقوطِ حیدر آباد کے حادثے سے گزر تا ہوا آزاد ہندوستان پر ختم ہو تا ہے۔ اس ناول میں جیلانی بانو نے ہندوستان کے چھو ٹے قصبے سے لے کر بڑے شہروں تک پھیلے ہو ئے جرائم کو پیش کیا ہے۔ گا ؤں میں جہاں زمیندار، کسانوں اور مزدوروں پر ظلم کیا کر تے تھے وہیں آزاد ہندوستان میں یہ زمیندار، سا ہوکار، سیاسی لیڈر کے روپ میں عوام کا خون چوس رہے تھے۔ اب ان کی دسترس میں صرف ایک گا ؤں چند مٹھی بھر لو گ نہیں بلکہ بڑے بڑے شہرآچکے تھے۔ جیلانی بانو کا یہ ناول ایک عہد کی عکاسی کر تا ہے جس میں بدلتے ہندوستان کو بہترین کر دار اور واقعات کے ذریعے پیش کیا گیا ہے۔

1960 سے اُردو ادب میں جدیدیت کا دور شروع ہو تا ہے۔ جدید یت کے اس دور میں فرد کی اجنبیت، تنہائی،انسان کی انسان کے تئیں بے رخی، ما دیت پر ستی اورجہیز کے مسائل کو پیش کیا گیا ہے۔

بیسویں صدی کے دوسرے عہد میں اُردو فکشن کے اُفق پر کئی ستارے دمک رہے تھے جن میںرفیعہ منظور الامین، اکرام جاوید، واجدہ تبسم، عفت موہانی، آمنہ ابوالحسن، جیلانی بانوجیسے نام شامل ہیں۔ 1960میں رفیعہ منظور الامین کا ناول ’سارے جہاں کا درد‘ شائع ہوا جس میں مرکزی کر دار ’دلبر‘ کی نفسیات اور تنہائی کو پیش کیاجو اپنے ہونے والے منگیتر کی موت کے بعد اکیلے زندگی گزار نا چاہتی ہے۔دلبر کا کر دار ایک بہادر، وفا دار اور وفا شعار لڑ کی کا ہے جو حالات سے سمجھوتا نہیں کر تی بلکہ پو ری ہمت اور استقامت سے زندگی کے مسائل کا سامنا کرتی ہے۔ دلبر کے والدین نہیں تھے مگر اس نے کبھی بھی مجبوریوں کو اپنی زندگی اور اپنی ترقی پر قابض نہیں ہو نے دیا۔ دلبر کے کردارکے ذریعے رفیعہ منظور الامین نے خواتین کو ایک پیغام دینے کی کوشش کی ہے، جو معمولی مسائل پر یا تو گھبراہٹ کا شکار ہو تی ہیں یا پھر قسمت کا حوالہ دے کر خاموشی اختیار کر جاتی ہیں۔ ’سارے جہاں کا درد‘ حیدر آباد میں شائع ہونے والا جدیدیت کے دور کا پہلا ناول ہے جس میں ایک ایسی لڑ کی کو مرکزی کر دار عطا کیا گیا ہے جو ہمیشہ ثابت قدمی اور مستقل مزاجی کا ثبوت دیتی ہے۔

فرسو دہ سماج کی بوسیدہ ذہنیت کے خلاف اکرام جاوید نے بھی آواز اٹھا ئی ان کا ناول ’رات کا رومان ‘ 1961 میں شائع ہوا جس میں جہیز، طوائف، روزگار جیسے سماجی مسائل کو اُجاگر کیا گیا۔ اکرام جاوید نے دلچسپ واقعات اور انوکھے کر داروں کے ذریعے اس بات کو واضح کیا کہ انسان خو د اپنی زندگی کی تباہی کا ذمے دار ہے۔ ان کا ناول حقیقی زندگی پر آج بھی کھرا اُتر تا ہے۔ اکرام جاوید نے سماج کے جن سلگتے ہو ئے مسائل کو پیش کیا ہے وہ آج بھی جوں کے توں موجود ہیں۔ اکرام جاوید نے 1960 کی اُس دہائی کو پیش کیا ہے جہاں پر انسان روزگار کے لیے مسلسل کوشاں تھا، دو وقت کی روٹی کے لیے محنت مشقت کر تا مگر اس کے خیالات کسی امرا و جاگیر دار سے کم نہیں تھے۔ خواب دیکھنا کو ئی جرم نہیں مگر ان خوابوں کی تعبیر کے لیے کسی دوسرے انسان کی مجبوری کا فائدہ اُٹھانا ضرور جرم ہے۔ مسیح انہی خوابوں کی تعبیر کو مکمل کر نے کے لیے اپنے ہی گھر کو تباہ کرتا ہے۔ ناول کا مو ضوع انسانی زندگی کی حقیقت کو پیش کر تا ہے۔ اکرام جاوید سروج ‘ساگر اور مسیح جیسے کرداروں کے ذریعے سماجی تبدیلیوں کو واضح کر نا چاہتے ہیں۔

ہندوستان کی اجتماعی زندگی کو ناول نگاروں نے محسوس کیا، ان کی تڑپ اور بے چینی کو پر کھا اور نئے رجحانات اور تیزی سے بدلتی زندگی کو ادب میں پیش کیا جانے لگا۔ اس عہد میں تلخ حقائق اور حقیقی مو ضوع کو ناول کا محور بنا یا گیا، جس میں سیاست، تعلیم و تہذیب غرض زندگی کے ہر شعبے کو پیش کیا جانے لگا۔ انسان کی خارجی اور داخلی زندگی کو اس عہد میں نمایاں اہمیت دی گئی۔ اب ناول ایک اصلاحی تحریک کے بعد ترقی پسند تحریک سے گزر تا ہوا جدیدیت کے ایک وسیع میدان میں پہنچ چکا تھا جہاں پر نت نئے مو ضوعات، انوکھی تکنیک، حقیقی کر دار نے قاری کو ادب کی ایک نئی دنیا سے واقف کر وایا۔

جدیدیت کے اس عہد میں رفیعہ منظور الامین، اکرام جاوید، جیلانی بانو، آمنہ ابوالحسن، غلام جیلانی کے ناولوں میں برطانوی اقتدار کے خلاف بڑھتی ہو ئی صف آرائی، جزوی صنعت کاری سے شہری زندگی کی طرف بڑھتی ہو ئی رغبت،محنت کش طبقے کی بیداری، مشر قی و مغربی تہذیب کی آویزش سے بدلتے ہو ئے ہندوستانی معاشرے کے خدو خال کو پیش کیا گیاہے۔

1980 سے اُردو ادب میں ما بعد جدیدیت کا دور شروع ہو تا ہے۔نظریات میں تبدیلی، نئے ذہنی رویے نے اُردو ادب میں ایک بار پھر تبدیلی پیدا کی جسے ما بعد جدیدیت کا دور کہا جاتا ہے۔  اس عہد میں آمنہ ابوالحسن، واجدہ تبسم، رفیعہ منظور الامین، عفت موہانی،    غلام جیلانی کے علاوہ پرویز ید اللہ مہدی، قمر جمالی آتے ہیں۔

ما بعد جدیدیت کے اس دور میں آمنہ ابوالحسن کے تین ناول  واپسی 1981 ،  آواز  1985،  پلس مائنس،  اور  1995 میں یادش بخیر شائع ہوئے۔ ناول واپسی 1981 ایک رومانی ناول ہے جس میں Extra marital affair   کو پیش کیا گیا ہے۔ آمنہ ابوالحسن حیدر آباد کی وہ پہلی خاتون ناول نگار ہیں جنہوں نے لڑکیوں کی نفسیاتی کشمکش کو پیش کیا ہے۔ ’واپسی‘میں ایک ایسی لڑ کی کا کر دار ملتا ہے جو نہ صرف اپنے شوہر سے ہر بات شیئر کر تی ہے بلکہ اپنے سا بقہ بوائے فرینڈ کو اپنے ہی گھر رکھنے کی ضد کر تی ہے۔  یاسمین اور شہر یار ازدواجی رشتے میں منسلک ہو نے کے باوجود ان میں دوستی اور بھروسے کا رشتہ اتنا مضبوط اور پختہ ہے کہ یہاں شک اور غلط فہمی کی دیوار کھڑی نہیں ہو سکی۔ یہ کہانی مابعد جدیدیت کے بدلتے معاشرے اور نئی نسل کی ذہنی کیفیت کو پیش کرتی ہے۔ آمنہ ابوالحسن نے ایک اچھوتی کہانی بدلتے نظریات میں پیش کی ہے۔     

آمنہ ابوالحسن نے جہاں ناول واپسی میں یاسمین کی نفسیاتی کشمکش کو پیش کیا وہیں واجدہ تبسم نے ناول ’نتھ کا زخم‘ (1982) کی کہانی ایک مشہور حیدر آباد ی نواب کی بیٹی رفیقہ بانو کی قربانیوں کو پیشِ نظر رکھتے ہو ئے لکھی ہے۔

نتھ کا زخم ‘میں ایک ایسی لڑ کی کے کر دار کوپیش کیا گیا جو اپنے ملک ہندوستان اور اپنے عزیز شہر حیدر آباد سے دور امریکہ جاتی ہے اور اپنے شوہر کو راہِ راست پر لانے کی بھر پور کوشش کر تی ہے، ایک ایسی لڑکی جو حیدر آباد کے تہذیبی ماحول میںپر ورش پاتی ہے یہاں کے طور طریقوں اور رسم و رواج میں پلی بڑھی امریکہ جاکر نہ صرف اپنی عصمت کو بچا ئے رکھتی ہے بلکہ اپنے شوہر کو عیاشی کی لعنت سے بچا نے کی کو شش کر تی ہے، حالات سے تباہ حال رفیقہ بانو اپنے شوہر کا قتل تک کر بیٹھتی ہے اور 14 سال کی سزا کاٹتی ہے۔  واجدہ تبسم نے ان پو رے حالات کو عمدہ منظر نگاری، بے مثال کر دار نگاری کے ذریعے پیش کیا ہے ناولوں کے مختلف حصوں میں حیدر آبادی تہذیب کی عکاسی کی گئی ہے۔

1987 میں واجدہ تبسم کا ناول ’کیسے کاٹو رین اندھیری ‘شائع ہوا جس میں حیدر آبادی ماحول، طوائف کی وجہہ سے ہو نے والی معاشرتی تباہی کو واضح کیا ہے۔ 1987 میں رفیعہ منظو رالامین کا ناول ’عالم پناہ‘ منظر عام پر آیا جس میں ایمن کا مرکزی کر دار پیش کیا گیا ہے۔ ایمن بنگلور سے حیدر آباد نوکری کی غرض سے آتی ہے اور بیگم زمرد محل کے یہاں سکریٹری کی ملازمت اختیار کر تی ہے۔ اُسی طرز پر رفیعہ منظور الامین نے 1995 میں ناول ’یہ راستے ‘ شائع کیا جس میں مرکزی کر دار ’کاکل‘ اپنی زبردستی شادی کی مخالفت کر تی ہے اور حیدر آباد سے اوٹی بغرضِ روز گار منتقل ہو جاتی ہے۔ رفیعہ منظور الامین نے اپنے دونوں ناولوں میں نوجوان لڑ کیوں کے کر دا رکو پیش کر تے ہو ئے ان کی ہمت افزائی کی ہے۔

1999  میں ہی عفت مو ہانی کا ایک ناول ’ مر یم ‘ شائع ہوا۔ ناول میں عصرِحاضر میں نوجوانوں کی بے راہ روی کو پیش کیا گیا ہے۔ مر یم کا کر دار مرکزی کر دار ہے جو ایک آوارہ لڑ کے کے دامِ محبت میں گرفتار ہو کر گھر سے راہ فرار اختیار کر تی ہے۔ عفت موہانی نے نو جوان لڑ کیوں کے اس غیر ذمے دارنہ اقدام سے ان کے افرادِ خاندان پر آنے والی مصیبتوں کا احاطہ کیا ہے۔

اکیسویں صدی کی ابتدا میں پر ویز ید اللہ مہدی اور قمر جمالی کے ناول منظر عام پر آئے ہیں۔ پر ویز ید اللہ مہدی کا ناول   ’سگِ لیلی‘ ایک مزاحیہ ناول ہے جو ابھی تک شائع نہیں ہوا ہے۔ ناول کا کر دار اپنی محبوبہ سے ملاقات کا خواہش مند ہو تا ہے مگر اُسے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس کے محبوب کے گھر میں کتا موجود ہے۔ ناول کا مرکزی کر دار یعنی ناول کا ہیروکتے سے ڈر تا ہے اسی لیے کتوں کی معلو مات حاصل کرنے کے لیے وہ کتے کے ڈاکٹر ڈی ڈی کتا والا، پسٹن جی پالان جی دارووالا جیسے کر دار وں سے ملتا ہے۔ تمام کردار مزاحیہ ہیں، اور انہی کرداروں کے ذریعے پرویز ید اللہ مہدی نے سماج اور ہندوستانی نظم و نسق پر طنز کیے ہیں۔

 قمر جمالی نے اپنے ناول ’آتش دان‘(2014) میں اکیسویں صدی کے ہندوستانی دیہاتی نظا م کو پیش کیا ہے۔ قمر جمالی نے اپنے ناول کے ذریعے ہندوستانی دیہاتی نظام کے اس تلخ چہرے کو پیش کیا ہے جس پر سیاسی حضرات کی ہوس اور ان کے پنجوں کے نشان موجود ہیں۔ قمرجمالی نے اپنے ناول کے ذریعے اس بات کو واضح کیا ہے کہ دیہاتی نظام میں کس طرح لینڈ ما فیا اور پانی کے ما فیا اپنی اجارہ داری قائم کیے ہو ئے ہیں۔ جدید ہندوستان میں جاگیر دار، سرمایہ دار کی جگہ سیاسی لیڈروں نے لے لی ہے جو غبن کرتے ہیں، عصمت ریزی میں پیش پیش رہتے ہیں، فرقہ وارانہ فسادات میں ملز م بھی بنتے ہیں۔ قمر جمالی نے اپنے ناول میں ووٹ کی طاقت، اہمیت ا ورافادیت کی جھلک دکھائی ہے۔قمر جمالی ناول کے کر داروں اور واقعات کے ذریعے را ئے دہند گان کو جھنجھوڑ تی ہیں، انھیں ووٹ کی طاقت  کا احساس دلاتی ہیں۔ خود کو اور ملک کو محفوظ رکھنے کی تلقین کر تی ہیں۔

مابعد جدیدیت کے اس دور میںایک عام فہم انسان کے مسائل کو جگہ دی گئی۔ناول نگاروں نے غریب، مزدور، کسان کے علاوہ ایک عام فہم انسان کے ہر ایک مسئلے کو اُجاگر کیا ہے۔ ان ناولوں میں انسانی زندگی کو اتنی ہی اہمیت دی گئی ہے جتنی کہ سابق میں بادشاہ، امرا، سلاطین اور امیر ترین افراد کو دی جاتی تھی۔ اس عہد میں پردے کے پیچھے اور انسان کے جذبات و احساسات ہر چھوٹے بڑے مسئلے کو اہمیت دیتے ہو ئے سماجی، معاشی، سیاسی اور طبقاتی تصادم کو بطورِ خاص مو ضوع بنا یا۔ اس دور میں سماجی انتشار، اخلاقی گراوٹ، تہذیبی استحصال اور طبقاتی کشمکش سے پیدا ہو نے والے مسائل کو مختلف کر داروں اور انوکھے واقعات کے ذریعے پیش کیاگیا ہے۔

غرض حیدر آباد میں شائع ہو نے والے ناولوں میں ایک عہد کی عکاسی ملتی ہے۔ ناول نگاروں نے ہر عہد میں ہو رہی ناانصافی کے خلاف احتجا ج درج کیا اور ان مسائل کے حل کی طرف ہماری توجہ مبذول کر وائی ہے۔


 

Dr. Abdul Mogni Siddiqui

Head, Dept of Urdu

Anwarul Uloom, Degree College

Mallepally- 500001 (Hyderabada)

Email.: indianpearls.mogni@gmail.com

 

 

 

 ماہنامہ اردو دنیا۔ جولائی 2021

 

 

 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں