3/8/21

پیغام آفاقی کا ’دوست‘ - مضمون نگار : ابرار رحمانی

 



 کبھی کبھی کسی کام میں بے جا تاخیر کے سبب کچھ غلط فہمیاں پیدا ہوجاتی ہیں اور اس کے ذمہ دار ہم خود ہوتے ہیں، جس کا خمیازہ بھی ہمیں بھگتنا پڑتا ہے۔پیغام آفاقی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ درپیش آیا۔ان کے انتقال کے کچھ عرصہ بعدان کے کمپیوٹر سے دو ناول برآمد ہوئے۔ اس طویل وقفہ کے سبب اردو کا ایک بڑا حلقہ  اسے حیرت و تعجب سے دیکھ رہا ہے اور ایک دوسرا حلقہ مشکوک نگاہوں سے۔ آخر ایسا کیوں اور کیسے ہوا؟اس سے پہلے کہ میں پیغام آفاقی کے ناول ’دوست‘ پر گفتگو کروں اردو فکشن کی تنقید پر ایک نظر ڈال لینا ضروری محسوس ہوتا ہے۔

فی زمانہ اردو میں فکشن کی تنقید مفقود نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔ بلاشبہ آج ناول کی تنقیدمیں معشوق کی موہوم کمر بھی موجود ہے اورریاضی اقلیدس کا خیالی نقطہ بھی۔ لیکن اگر کلیم الدین احمد ہوتے تو شاید اتنی رعایت بھی نہیں دیتے۔اس کا سبب یہ ہے کہ اردو میں فکشن کی تنقید کی وہ روایت نہیں جس کی وہ طلبگار یا متقاضی رہی ہے۔

سچی بات تو یہ ہے کہ آج اردو میں کہانی/ افسانہ بہ الفاظ دیگر فکشن کی تنقید برائے نام ہے۔ چونکہ ہمارے یہاںاعلیٰ فکشن کی تخلیق ہی نہیں ہورہی ہے تو پھرہم اس فکشن کی تنقید کی بات ہی کیوں کریں جس کا وجود ہی مشتبہ ہو۔پھر بھی ایک موہوم امید کے سہارے فن پارے پیش کیے جارہے ہیں۔شاہکار شاید ہمارے مقدر میں نہیں۔ ہم آج جو کچھ بھی پیش کررہے ہیںوہ اصل فن پارہ ہی نہیں۔ پھر بھی اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ سبھی اپنی اپنی جگہ خوش ہیں کہ ہم نے ادب کالال قلعہ فتح کرلیا۔ اب جب کہ اردو فکشن میں کوئی معرکۃ الآرا فن پارہ تخلیق نہیں ہوپارہا ہے تو پھر اس کی تنقید کا تاج محل کیوں کر تلاش کیا جاسکتا ہے۔

جب اردوناول کا یہ حال ہے تواردو ناول کی تنقیدکا فطری طور پر برا حال ہوگا ہی۔ نام توگنائے جاتے ہیں لیکن وہ صرف نام ہی نام ہیں جو کسی کام کے نہیں۔ ایسے میں پروفیسر علی احمد فاطمی کا ایک مضمون ستمبر2020کے آجکل میں ’کچھ نئے ناولوں کے حوالے سے ‘پر نظر پڑی تو بڑی خوشی ہوئی کہ بہت دنوں بعد اس موضوع پر کچھ تفصیل سے کسی نے روشنی توڈالی ہے۔ ابھی اس مضمون کو پڑھنا ہی شروع کیا تھا کہ عبدالصمد صاحب نے مجھے روکا اور بتایا:

’’پچھلے بیس برسوں میں اتنے ناول ضرور لکھے گئے کہ پچھلے پچاس برسوں میں ناول لکھے جانے کی جو دھیمی رفتار رہی ہے اس کمی کو پورا کرتے ہیں۔ اب بنیادی سوال یہ ہے کہ ان میں کوئی ناول بھی ایسا کیوںنہیں جو آنگن، خدا کی بستی، اداس نسلیں، ایک چادر میلی سی، آگ کا دریا، گئودان وغیرہ کے ہم پلہ ثابت ہوسکے۔‘‘ (اردو ناول کے ساتھ دوچارقدم)

عبدالصمد کوپچھلے بیس برسوں میں ناولوں کی تعداد پرتو اطمینان ہوا لیکن یہ سارے ناول ماقبل کے ناولوں کے ہم پلہ نہیں۔ علی احمد فاطمی بھی اس پرحامی بھرتے ہیں اور خاکسار کا بھی یہی خیال ہے۔ایسے میںاگر میںلب کھولوں کچھ بولوں تو مشرف عالم ذوقی اور ان کے ہم خیال حضرات کو فطری طور پرتکلیف ہوتی ہے۔لیکن نہیں، ذوقی بھی پچھلے دنوںاردو ناول کی گم ہوتی ہوئی دنیا پرگہری تشویش میں مبتلا نظرآئے۔ہاں تو بات ہورہی تھی علی احمد فاطمی اور ان کے مضمون کی تو میں ان کی اکثر باتوں سے اتفاق کرتا ہوں کہ اردو میں فی زمانہ بڑا یا عظیم ناول تو کیا اوسط ناول بھی میسر نہیں۔میں کوئی بہت زیادہ فلسفیانہ گفتگو نہیں کروں گاکہ فی الوقت ہمارا یہ موضوع اس کا متقاضی بھی نہیںالبتہ اتنا ضرور کہوں گا کہ اکیسویں صدی کے دو دہے بیت گئے اور ہم اب تک کچھ بھی نہیں کرسکے۔کیا ہم اتنے تنگ دست اور خالی الذہن ہوچکے ہیں؟اب آئیے اصل موضوع کی طرف۔ہمارا اصل موضوع ہے پیغام آفاقی کا ’دوست‘۔میری مراد پیغام آفاقی کے تیسرے ناول ’دوست‘ سے ہے جو2018میں ہی منظر عام پرآچکا ہے۔اب یہ میری کوتاہ نظری ہی ہے کہ ہماری نظر سے پورے دوسال یہ ناول اوجھل رہا۔ حالانکہ ایک سال پہلے ہی پیغام کے بارے میں اختصار کے ساتھ ایک سمینار میں اپنے صدارتی کلمات میںاظہار خیال کرچکا ہوں۔ اس وقت ناول ’دوست‘ شائع ہوچکا تھا،لیکن میں بے خبر تھا۔

پیغام کا نام آتے ہی مکان کی ’نیرا‘ نظروں کے سامنے آجاتی ہے جو ایک آہنی کردار بن کر ہمارے اردگرد پھیلے ہوئے تمام سماجی نظام سے ٹکراتی ہے۔ اسی طرح مکان کا ذکر آتے ہی پیغام آفاقی کی یاد ستانے لگتی ہے۔ گویا دونوں ایک دوسرے کے لازم وملزوم تھے۔سچی بات تو یہ ہے کہ مکان پیغام کا شناخت نامہ بن چکا ہے۔ 1989 میں مکان شائع ہوکر اردو ادب میں موضوع بحث بنا رہا۔مکان پر گفتگو کا یہ سلسلہ خاصا دراز رہا، مجھے یاد ہے کہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کا جہلم ہاسٹل چھوڑ کر جب میں کرایہ کا مکان ڈھونڈ رہا تھا تو مذاقاً ہی سہی میرے یار دوست چھوٹتے ہی کہتے کہ پیغام آفاقی سے کیوں نہیں مل لیتے۔مذاق میں کہا گیا یہ جملہ حقیقت پر دال ہے۔آج بھی پیغام پر یا اردو فکشن پر کوئی گفتگومکان کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔

اختر علی فاروقی نے اپنا قلمی نام پیغام آفاقی بہت سوچ سمجھ کررکھاتھا۔شاید پیغام کا خیال تھا کہ وہ جو کچھ بھی اپنی تحریر میں پیش کررہے ہیں اس پیغام کی حیثیت آفاقی ہے اور سچی بات تو یہ ہے کہ انھوں نے مکان پیش کرکے اپنے نام کی لاج رکھ لی۔ میرا خیال تھا کہ انھوں نے اردو کے ذخیرے میں دوناول ’مکان‘ اور’پلیتہ‘ جیسی تخلیقات کا اضافہ کیا۔اس کے علاوہ افسانوی مجموعہ ’مافیا‘ اورشعری مجموعہ ’درندے ‘ کے نام سے شائع ہوئے۔ لیکن میری یہ بات پیغام کی حیات تک تو صحیح تھی مگر ان کے انتقال کے کچھ عرصہ بعدیہ بات غلط ثابت ہوئی جب ان کے کمپیوٹر سے دو ناول اور برآمدہوئے۔

پیغام آفاقی ان خوش نصیب فکشن نگاروںمیں سے ہیں جواپنے پہلے ہی ناول سے مشہورہوئے اور جو شہرت انھیں مکان سے ملی وہ بعد کے ناولوں سے نہیں مل سکی، جو انھوں نے اپنی زندگی کے اہم کارنامے کے طور پر ’پلیتہ‘ کے نام سے تخلیق کی ہو یا اب ’دوست‘ کے نام سے بطور ناول سامنے آیا ہے۔

پیغام آفاقی کے تیسرے ناول ’دوست‘ کے بارے میں جب مجھے معلوم ہوا کہ عزیزم سلمان عبدالصمد اور محترمہ رضیہ سلطانہ کی کوششوں سے ان کا تیسرا ناول شائع ہوچکا ہے تومجھے حیرت انگیز خوشی ہوئی بلکہ یہ معلوم کرکے مجھے یک گونہ مزید مسرت ہوئی کہ ان کا ایک اور ناول ’راگنی‘ کے نام سے منتظر اشاعت ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ پیغام آفاقی صرف دو ناول ’مکان‘ اور ’پلیتہ‘ تک ہی محدود نہیں بلکہ ان کے نام دواور ناول  ہیں جو ان کے کمپیوٹر سے ان کے انتقال کے بعدبرآمد ہوئے۔ ہم آج پیغام کے ناول ’دوست‘ پرایک نظر ڈالنا مناسب اور ضروری سمجھتے ہیں کیونکہ ان کا چوتھاناول ’راگنی‘ بھی نقاب کشائی کو تیار ہے۔

جہاں تک اردو میں ناول نگاری کی سمت ورفتار کا سوال ہے تو جیسا کہ میں نے تمہیدی سطور میں کہا ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ نہایت سست اور دھیمی ہے۔ جدید اردو ناول اب بھی انگلیوں پر گنے جانے تک محدود ہیں۔ اس کے باوجودہم اسے معشوق کی موہوم کمر ہرگز نہیں کہیںگے۔جسے ڈھونڈنے میں شائقین کوکوئی پریشانی لاحق ہو۔ ان ناولوں میں پیغام کا ناول ’دوست‘ بھی شامل ہے۔

کسی بھی ناول پر نگاہ ڈالتے ہوئے دو تین باتوں کا خیال رکھنا ضروری معلوم ہوتا ہے۔ ماجرا سازی، پلاٹ نگاری اور مکالمے۔کم از کم جب تک ان باتوں کا خیال نہیں رکھا جائے گا ایک کامیاب ناول نہیں لکھا جاسکتا۔ ان شرائط پر ان کا پہلا ناول ’مکان‘ بیشک بڑی حد تک کھرا اترتا ہے۔دوسرا ناول ’پلیتہ‘ بھی اپنے موضوع کے اعتبار سے کسی حد تک ٹھیک ٹھاک ہے مگران کے تیسرے ناول ’دوست‘ کوہرگزایک کامیاب ناول قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس کے کئی اسباب ہیں۔ان کے پہلے ناول ’مکان‘ میں کہانی کا راوی جو اپنا قلم تو ضرور چلاتا ہے لیکن خود کو یعنی اپنی ذات کو اس کہانی سے دور ہی رکھتا ہے۔لیکن ناول ’دوست ‘ میں پیغام نے خود کوہی ناول کا ہیرو بنا کر پیش کیا ہے۔  ہیرو بھی ایسا ویسا نہیں بلکہ یہ ہیرو کسی رومیو،مجنوں اور فرہاد سے کم نہیں۔ قارئین معاف کریں گے کہ شاید میںبھٹک رہا ہوں۔ ٹھیک اس ناول نگار کی طرح جو اپنے ناول میں ہیرو کے طور پرپیش کرنے کی اپنی تمام جدوجہد آخر تک جاری رکھتا ہے۔لیکن اس کی یہ کوشش رائیگاں جاتی ہے۔اس کے باوجود اس راقم کوجذبات میں آکر بھٹکنے یا بہکنے کی کوئی ضرورت نہیں۔آئیے ناول پر ایک نظرپھر ڈالتے ہیں۔ اس ناول کی ضخامت 160صفحات پر مشتمل ہے اور بظاہر اس کا پلاٹ یا کینوس بہت وسیع ہے لیکن کھودا پہاڑ، نکلی چوہیا۔ اس ناول کے شروع کے بیس پچیس صفحات اور اسی طرح آخری حصے کے بیس پچیس صفحات ہی اس ناول کی کہانی مکمل کرسکتے ہیں۔ ہم اس ناول کو پچاس پچپن صفحات میں بہ آسانی سمیٹ سکتے ہیں کیونکہ اس کہانی میں جو کچھ پیش کیا گیا ہے اس کا تقاضا یا ڈیمانڈ ہی یہی ہے۔باقی کے کم وبیش سو صفحات محض بھرتی کے ہیں۔جو شاید اس ناول کے حجم اورضخامت کوقابل لحاظ بنائے رکھنے کے لیے ضروری معلوم ہوتے ہیں اور تقریباً سوصفحات کا پیٹ بھرنے کے لیے ناول نگار نے فلسفہ، منطق اور جنسیات وغیرہ پر کچھ اسی قسم کے مواد پیش کیے ہیں،جن کا کوئی بہت زیادہ تعلق اس ناول سے نہیں معلوم ہوتا ہے۔ بعض ناول اپنی بے جا طوالت کے سبب اکثر لوگوں کے ذوق مطالعہ کو راس نہیں آتے اور بسا اوقات تو ایسا بھی ہوا ہے کہ کسی فلسفیانہ اور سنجیدہ ناول کوپڑھ پانا اوردو قدم بھی آگے بڑھ پانا مشکل ہوجاتا ہے تو یہ خاکسارابن صفی کے کسی پرانے ناول کو پڑھنا شروع کردیتا ہے تاکہ ذوق مطالعہ کی تشنگی کچھ توکم ہو۔ عام قاری تو اس مقام پراس فلسفے، منطق اور جنسیات پر کچھ سمجھنے سمجھانے کے لائق نہیں رہ جاتا، وہ ہلکان ہوتاہوا نظرآتا ہے۔ اس ناول سے ایک طویل اقتباس کا ایک ٹکڑا ملاحظہ ہو:

’’اس لیے جب وہ اپنے حقوق کی بات کرنا چاہتا ہے تو اسے کہیں سے بھی سند نہیں ملتی حتی کہ وہ اپنے کو گناہگار محسوس کرنے لگتا ہے۔ اس کا ایسا محسوس کرنا اس کی بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ اسے سمجھنا چاہئے کہ حقوق کی حفاظت اور طرفداری کرنے والے سارے معاشرتی اور مذہبی قوانین انھیں مقامات پرآئے ہیں جہاں انسان کی فطرت کے مد نظر حق تلفی کا خطرہ تھا، جیسے ماں باپ، شوہر، بیوی، پڑوسی  یا یتیموں کے حقوق، لیکن جہاں ایسا خطرہ نہیں تھا، وہاں اس ضمن میں کوئی قانون دکھائی نہیں دے گا جیسے اولاد کے حقوق کے بارے میں خال خال ہی دکھائی دے گا اور جہاں دکھائی بھی دے گا وہ ان کی پرورش سے متعلق نہیں بلکہ ان کی تربیت سے متعلق ہوگا۔کیونکہ یہ ذی روح کی خصلت ہے کہ وہ اپنی اولاد کا دھیان رکھتا ہے۔ اس سے آگے اپنے اوپر اپنے حقوق کا کہیں کوئی ذکر اس لیے نہیں ہے کہ انسان اپنے حقوق کا خود ہی خیال رکھے گا لیکن جیسا کہ میں نے ذکر کیا کہ معاشرے نے انسان کے ذاتی حقوق تلف کرکے اسے معاشرے کے سپرد کرنے کی کوشش کی۔‘‘

ناول میں اس طویل بیان کی بہت کم ہی گنجائش ہوتی ہے اسے چھوٹے چھوٹے ڈائیلاگ یا مکالمے کے ذریعے دور کرنا چاہیے۔میں اس پر صرف ایک شعر کا اور اضافہ کرنے کی جسارت کروں گا:

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح

کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا

اس کے مقابلے جب پیغام چھوٹے چھوٹے مکالمے، جملے یا ڈائیلاگز لکھتے ہیں تو تخلیقیت کا وفور نظر آتا ہے۔مثال کے لیے چند ایک مکالمے دیکھیں:

’’میں آپ کو حاصل کرنا چاہتی ہوں لیکن دنیا اور معاشرہ کے پیدا کردہ ان تمام ثانوی احساسات کو مسمار کرنے کے بعد جن کو عورت اور مرد کے اوپر معاشرہ نے اپنی طرف سے تھوپا ہے۔‘‘

’’…لیکن میرا اور آپ کا رشتہ معاشرہ سے باہر ہے اور یہ صرف میرے اور آپ کے بیچ کا رشتہ ہے۔مرد بحیثیت انسان اور عورت بحیثیت انسان اور اس حیثیت سے مجھے آپ کے کسی حد تک قریب آنے اور اس سے آگے جنسی رشتہ قائم کرنے میں کسی طرح کا احساسِ گناہ حائل نہیں۔‘‘

’’دنیا میں غلامی جبر کی اذیت سے نہیں بلکہ جبر کی قبولیت سے قائم ہوتی ہے۔ غلام روحوں کی غلامی کے نظام سے اور اس کے زخموں سے پھولوں کی مہک آتی محسوس ہوتی ہے اور ان کی روح کی یہی کیفیت انھیں غلام بنائے رکھتی ہے۔ اس زمانے کی خصوصیت یہ ہے کہ اس زمانے میں کسی کو بھی غلامی پسند نہیں۔‘‘

اس طرح کے چھوٹے چھوٹے اور چست درست جملے کسی آبدار موتی کی طرح اس ناول کے بعض حصوں میں بکھرے ہوئے ہیں۔خیر!اس ناول کی کہانی کچھ اس طرح ہے۔ لکھنؤ کے کسی گائوں سے ایک مطلقہ لڑکی اپنے شوہر سے جان بچا کردہلی آجاتی ہے اور جے این یو میں ایم فل اردو میں داخلہ لے لیتی ہے۔جہاں کا آزاد ماحول اسے خوب راس آتا ہے۔یہاں اسے ایک ڈھونڈو ہزار تونہیں لیکن تین چاردل پھینک عاشق مل ہی جاتے ہیں، ان میں سے دو پروہ باضابطہ چھان پھٹک کا کام شروع کردیتی ہے اور جب ان پراسے خاطر خواہ کامیابی نہیں ملتی تووہ ایک تیسرے شخص سے جومذہباً ہندو ہے اس سے کورٹ میرج کرکے اس کے ساتھ امریکہ چلی جاتی ہے لیکن وہاں بھی اس کے دماغ میں ایک پھانس سی لگی رہتی ہے جو اسے اکثر وبیشتر چبھتی رہتی ہے، لیکن امریکہ سے جب وہ ایک سال بعد ہندوستان لوٹتی ہے تو وہ چیزے دیگر نظر آتی ہے۔وہ ایک مہذب مشرقی خاتون نظر آتی ہے۔ حقیقی زندگی میںاصل نیناایسی ہی تھی اور شاید ایسی ہی رہے۔لیکن اپنی کہانی کی چمک برقرار رکھنے کے لیے ناول نگار جو اپنے اس ناول کا ہیرو بھی ہے اسے اپنی ہیروئن کی آزاد خیالی میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی ہے جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ نینا بہرحال ایک مکمل خاتون مشرق ہوچکی ہے۔

ناول ’دوست‘ کے کردار میں نینا،ہاشم، کمال رحمانی اورسرین شامل ہیں۔ باقی چھوٹے موٹے کردار محض بھرتی کے ہیں۔ وہ بس ’جھلک دکھلاجا ‘تک موجودہیں۔ یہ پیغام کی خوبی بھی ہے اور خامی بھی۔خوبی یوں کہ کبھی کبھی کسی کہانی /ناول میں کم کردار ہونے کے سبب قلمکاراپنی بات کہہ پانے میں دقت محسوس کرتا ہے ٹھیک اس کے برعکس کسی فن پارے میں کرداروں کے زیادہ ہونے کے سبب سب کو ایڈجسٹ کرپانا مشکل ہوتا ہے۔ ایک ناول نگار کو ہمیشہ چوکس رہنے کی ضرورت ہے ورنہ اسے کسی بازار خاص طور پر مچھلی بازارکی بھیڑاوربدبو سے اپنی نگارشات کو بچانا مشکل ہوتا ہے۔ پیغام آفاقی اس عیب سے پاک صاف نظر آتے ہیں۔



Dr. Abrar Rahmani

Tazyeen Apts. 179/22, Zakir Nagar

Jamia Nagar, Okhla

New Delhi - 110025

Mob.: 9911455508

 

ماہناہہ اردو دنیا، جولائی 2021 

 

 

 

 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں