4/8/21

فلسفۂ مو ت کی شعری تشریحات - مضمون نگار: صابر علی سیوانی


 


زندگی اور موت کے فلسفے کو شعرائے اردو نے نہایت مؤثر اور بہترین انداز میں پیش کیا ہے۔ یوں تو اس موضوع پر شعرا کے کلیات و دواوین میں ہزاروں اشعار ملتے ہیں لیکن یہاں ’مشتے نمونۂ از خروارے‘ کے مصداق موت کے موضوع پر موزوں کیے گئے چند اشعار پیش کرتے ہوئے موت کی حقیقت کے حوالے سے گفتگو مقصود ہے۔ موت کیا ہے؟ زندگی کسے کہتے ہیں؟ موت کے بعد انسان کی دنیا میں کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟ موت کے بعد دنیا کن افراد کو یاد کرتی ہے اور کون کون سے لوگ ماتم کرتے ہوئے مرنے والے کی خوبیاں بیان کرتے ہیں۔ درج ذیل اشعار موت کی متعدد انداز سے تفسیر بیان کرتے ہیں اور فلسفۂ موت کی مختلف تعبیریں پیش کرتے ہیں۔ زندگی اور موت کی بڑی عمدہ تشریح ہمیں برج نرائن چکبست کے ایک مشہورِ زمانہ شعر میں ملتی ہے، جس میں وہ زندگی کو عناصر میں ظہور ترتیب قرار دیتے ہیںاور موت کو انہی اجزا کے  انتشار سے تعبیر کرتے ہیں۔ چکست کا درج ذیل شعر ضرب المثل کے طو رپر عوام و خواص کے حافظے میں محفوظ ہے      ؎

زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب

موت کیا ہے انہی اجزا کا پریشاں ہونا

مو ت کے وقت انسان کو کس بات کا احساس ہوتا ہے، اس کی وضاحت درج ذیل شعرمیں ہوئی ہے       ؎

وائے نادانی کہ وقتِ مرگ یہ ثابت ہوا

خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا

 (خواجہ میر درد)

زندگی نہایت قیمتی او رانمول تحفہ ہے۔ اس سے بڑی دولت کچھ ہو ہی نہیں سکتی۔ لیکن ایک نہ ایک دن انسان کو اس دولت سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔ جب انسان کے سامنے موت کھڑی ہو، اس وقت اس کی کیا کیفیت ہوتی ہوگی ،اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ اس شخص پر اس دم کیسی ہیبت، بے بسی، مجبوری اور بے کسی کی حالت ہوتی ہوگی، اس کا بھی اندازہ لگایا نہیں جاسکتا۔ لیکن اس حالت میں کسی انسان کا یہ کہنا کہ میرے سامنے آئینہ  لاؤ، میں اپنی زندگی کی آخری تصویر دیکھنا چاہتا ہوں، بڑی ہمت اور جرأت مندی کی بات ہے۔ ایسی ہی کیفیت کا اظہار یہاں ایک شعر میں ہوا ہے     ؎

موت کا ماتھے پہ آیا پسینہ آئینہ لاؤ

ہم اپنی زندگی کی آخری تصویر دیکھیں گے

 

(حیات امروہوی)

موت کو موضوع بنا کر اردو شعرا نے زندگی کی حقیقت نہایت معنی خیز انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ موت کی حقیقت اور زندگی کا اصلیت کی ترجمانی کرنے والے متعدد شعرا نے اس ضمن میں بہت سی چشم کشا سچائیوں سے ہمیں روبرو کرایا ہے۔ کبھی کوئی شاعر یہ کہتا ہے کہ ہم نے سوبرس کا سامان جمع کرلیا ہے، لیکن ایک پل کی زندگی کا بھی اختیار ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے۔ کسی کو بھی اپنی موت کا علم نہیں ہے۔ موت کے حوالے سے یہ مشہور زمانہ شعر بھلا کس شخص کے حافظے میں محفوظ نہ ہوگا کہ      ؎

آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں

سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں

 

(حیرت الہ آبادی)

مرزا شوق لکھنوی نے بھی اس حقیقت کا اظہار کیا  ہے کہ جسے ہم نے زندگی سمجھ رکھا ہے، دراصل اس زندگی کو ثبات نہیں ہے۔ ثبات صرف تغیر کو ہے۔ زندگی کی میعاد ختم ہوتے ہی مو ت کی منزل آجاتی ہے اور یہ وہ منزل ہے جہاں سب کو پہنچنا ہے۔ یکے بعد دیگرے تمام ذی حیات کو اپنی حیات سے ہاتھ دھونا ہے۔ بس فر ق یہ ہے کہ آج کوئی اور جائے گا اور کل ہماری باری آجائے گی۔ یہی زندگی نے سب سے کڑوا سچ ہے      ؎

موت سے کس کو رستگاری ہے

آج وہ، کل ہماری باری ہے

 

(مرزا شوق لکھنوی)

اردو شاعری کی تاریخ میں متعدد شعرا نے انسان کی بے مقصد زندگی سے موت کو بہتر قرار دیا ہے یعنی جس شخص نے زندگی کے مقصد کو ہی نہیں سمجھا، اور وجہ آفرینش سے ہی وہ بے خبر رہا تو ایسے شخص کی زندگی اشرف المخلوقات کی زندگی نہیں ہوسکتی بلکہ محض ایک مخلوق خدا کی زندگی قرار دی جاسکتی ہے۔ جس زندگی کی بات یہاں شعرا نے کی ہے وہ زندگی کچھ کر گزرنے اور کچھ ایسے نقش چھوڑ جانے سے عبارت ہے جسے لوگ مشعلِ راہ بنا سکیں۔ ورنہ یہاں توہر شخص مرنے کے لیے ہی آتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے اس موضوع کے حوالے سے یہ چند اشعار       ؎

اس زندگی سے موت بھلی ہے ہزار بار

جیتے ہیں اور جینے کا کچھ مدعا نہیں

 

(اثر لکھنوی)

اس زندگی پہ موت کو ترجیح دیجیے

جس زندگی میں عزم نہ ہو، حوصلہ نہ ہو

 

(ابوالمجاہد زاہد)

اے طائرِ لاہوتی اس رزق سے موت اچھی

جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

 

(علامہ اقبال)

جس نے بھلا دیے ہیں تقاضے حیات کے

وہ شخص اپنی موت سے پہلے ہی مرگیا

 

(عابد علی شعلہ لکھنوی)

اہلِ ذوق کے مرنے کی بات کرتے ہوئے ایک شاعر نے کیا خوب لکھا ہے      ؎

اٹھ گئے دنیا سے فانی اہلِ ذوق

ایک ہم مرنے کو زندہ رہ گئے

 (فانی بدایونی)

محمود خاں رامپوری نے بہت صاف لفظوں میں  یہ نکتہ بیان کردیا ہے کہ اس دنیا میں تمام لوگ مرنے کے لیے آتے ہیں، لیکن دنیا انہی لوگوں کو ان کی موت کے بعد یاد رکھتی ہے ،جو دنیا کو کچھ دے کر جاتے ہیں اور جو عوام و خواص کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے۔ لوگ اس شخص کی موت پر ماتم کرتے ہیں، جو لوگوں کے دلوں میں گھر کرچکا ہوتا ہے۔ جس کی مقبولیت عوام و خواص میں ہوتی ہے اور وہ نیک نامی چھوڑ جاتا ہے      ؎

موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس

یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے

 

(محمود خاںرامپوری)

یاسیت کے امام فانی بدایونی نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ زندگی نام ہے مر مر کے جیے جانے کا۔ یعنی اس زندگی کے جو ایام ہیں، ان ایام کا ایک ایک لمحہ عمر گذشتہ کی میت کے مانند ہے، جہاں انسان صرف آزمائشوں، امتحانات اور مشکلات سے دوچار رہتا ہے اور جو شخص اس طرح کی غم انگیز زندگی کو گزارنے پر مجبور ہو، اس کے دل سے تو بس یہی صدا نکلے گی جو یہاں ایک شاعر کی زبان سے نکلی ہے    ؎

ہر نفس عمرِ گذشتہ کی ہے میت فانی

زندگی نام ہے، مر مر کے جیے جانے کا

 

(فانی بدایونی)

موت کے مترادفات کے طو رپر قضا، مرگ، وفات، اجل، جیسے الفاظ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ کسی کی موت پر کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص کا انتقال ہوگیا۔ انتقال کے لغوی معنی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا/ جانا کے ہوتے ہیں۔ انسان مرنے کے بعد اس دنیا سے دوسری دنیا جو آخر ت کی دنیا ہے، میں منتقل ہوجاتا ہے۔ اس لیے کسی کے مرنے کے بعد یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص کا انتقال ہوگیا۔ بعض مقامات پر کسی کی موت کی خبر سن کر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فلاں بزرگ پردہ فرما گئے۔ یعنی آنکھوں سے اوجھل ہوگئے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص اللہ کو پیارا ہوگیا۔ یعنی اللہ کو وہ شخص پسند تھا، اس لیے اس نے اسے اپنے پاس بلا لیا۔ کبھی کبھی کسی کی موت کی خبر اس انداز سے بھی دی جاتی ہے کہ فلاں انسان معبودِ حقیقی سے جاملایا کبھی اس خبر کو دوسروں تک یہ کہہ کر پہنچائی جاتی ہے کہ فلاں بزرگ اب اس دنیا میں نہیں رہے یا یہ کہا جاتا ہے کہ ملک کی ایک بڑی شخصیت کا وصال ہوگیا۔ غرض مختلف انداز سے کسی بھی انسان کے مرنے کی اطلاع دی جاتی ہے اور اس کی مغفرت کی دعا کی جاتی ہے۔ اس کی خوبیاں بیان کی جاتی ہیں اور اس کی خامیوں پر پردہ پوشی کی جاتی ہے کیونکہ حکم یہی ہے کہ مرنے والے کی برائی نہیں کرنی چاہیے۔ شعرا نے مرنے والے کی خوبیوں کو ہی بیان کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بڑی شخصیت یا کسی فن کار کی مو ت پر جب تعزیتی پیغامات یا تاثرات قلم بند کیے جاتے ہیں تو درج ذیل اشعار کے کسی ایک مصرع کو عنوان بنایا جاتا ہے او راس کے ذیل میں مرنے والے شخص کو خراجِ عقیدت پیش کیا جاتا ہے     ؎

خبر سن کر مرے مرنے کی وہ بولے رقیبوں سے

خدا بخشے، بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں

 

(داغ دہلوی)

پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ

افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی

 

(میر تقی میر)

یہ لاش بے کفن اسد خستہ جاں کی ہے

حق مغفرت کرے، عجب آزاد مرد تھا

 

(مرزا غالب)

اٹھ گئی ہیں سامنے سے، کیسی کیسی صورتیں

روئیے کس کے لیے، کس کس کا ماتم کیجیے

 

(خواجہ حیدر علی آتش)

مرگِ مجنوں سے عقل گم ہے میر

کیا دیوانے نے موت پائی ہے؟

 

(میر تقی میر)

آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے

ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سے کہیں جسے

 

(مرزا غالب)

آئے عشاق، گئے وعدۂ فردا لے کر

اب انھیں ڈھونڈ، چراغِ رخ زیبا لے کر

 

(علامہ اقبال)

جان کر منجملہ خاصانِ مے خانہ مجھے

مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے

 

(جگر مرادآبادی)

کہانی ہے تو اتنی ہے فریب خوابِ ہستی کی

کہ آنکھیں بند ہوں اور آدمی افسانہ بن جائے

 

(سیماب اکبرآباد)

وہی چراغ بجھا جس کی تو قیامت تھی

اسی پہ ضرب لگی، جو شجر پرانا

 

(افتخار عارف)

رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی

تم جیسے گئے ایسے تو جاتا نہیں کوئی

 

(کیفی اعظمی)

ایک سورج تھا کہ تاروں کے گھرانے سے اٹھا

آنکھ حیران ہے کیا شخص زمانے سے اٹھا

 

(پروین شاکر)

جنھیں اب گردشِ افلاک پیدا کر نہیں سکتی

کچھ  ہستیاں بھی دفن ہیں گورِ غریباں میں

 

(مخمور دہلوی)

بچھڑا کچھ اس اداس کہ رُت ہی بدل گئی

اک شخص سارے شہر کو، ویران کرگیا

 

(خالد شریف)

تنہائیوں کی رُت میں بھی رہتا تھا مطمئن!

وہ شخص اپنی ذات میں اک انجمن سا تھا

 

(نامعلوم)

کتنے اچھے لوگ تھے، کیا رونقیں تھیں اُن کے ساتھ

جن کی رخصت نے ہمارا شہر سونا کردیا

 

(فاطمہ حسن)

اب دن کہاں رہے وہ ہمارے ثبات کے

اِک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے

 

(افتخار احمد فخر)

شعرائے اردو نے فلسفۂ موت کی وضاحت اپنے منفرد انداز میں کی ہے۔ ان کے ہر شعر میں ہمارے لیے درسِ عبرت موجود ہے۔ اگر ان اشعار پر غور کریں تو ہمیں یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ ان فن کاروں نے موت کی کس کس طریقے سے تفسیر پیش کی ہے۔ ہر شاعر موت کے فلسفے کی گتھی سلجھانے کی کوشش انپے منفرد انداز میں کرتا ہے۔ کوئی موت سے زندگی کے نازک رشتوں کو تشبیہ دیتا ہے۔ کوئی مفلسی میں موت نہ آنے کی دعا کرتا ہے۔ کوئی موت کے بعد قبر پر دو مٹھی خاک ڈالنے والے دوستوں کو ہدف تنقید بناتا ہے اور کوئی سانس رک جانے کے بعد جسم کے خیمے تھامنے والوں کو نشانہ بناتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے یہ اشعار        ؎

اس مرحلے کو موت بھی کہتے ہیں دوستو!

اک پل میں چھوٹ جائیں جہاں عمر بھر کے ساتھ

 

(شکیب جلالی)

نہ آئے موت خدا یا تباہ حالی

یہ نام ہوگا غمِ روزگار سہ نہ سکا

 

(معین احسن جذبی)

مٹھیوں میں خاک لے کر دوست آئے وقتِ دفن

زندگی بھر کی محبت کا صلہ دینے لگے

 

(ثاقب لکھنوی)

اک سانس کی طناب جو ٹوٹی تو اے شکیب!

دوڑے ہیں لوگ جسم کے خیمے کو تھامے

 

(شکیب جلالی)

یہاں پہلے شعرمیں شکیب جلالی نے تعلقِ خاطر کی بات کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جس لمحہ عمر بھر کی دوستی اچانک دشمنی میں بدل جاتی ہے یا جب عمر کے طویل حصے پر مشتمل رفاقت یک لخت ختم ہوجاتی ہے تو انسان پر ایسی کیفیت طاری ہوجاتی جو نزع کے وقت کسی انسان پر طاری ہوتی ہے۔ شکیب نے صاف طور پر کہہ دیا ہے کہ موت صرف دنیا سے چلے جانے والے شخص کی ہی واقع نہیں ہوتی ہے بلکہ جب اچانک کسی کا عمر بھر کا ساتھ چھوٹ جاتا ہے تواس حادثے کو بھی موت ہی قرار دیں گے۔ دوسرے شعر میں  جذبی نے اس مفلوک الحال شخص کی موت کا ذکرکیا ہے جو طبعی موت سے ضرور مرتا ہے لیکن لوگ اسے فاقہ کشی کے نتیجے میں ہونے والی موت قرار دیتے ہیں یایہ بھی کہتے ہیں کہ وہ شخص تباہ حالی کے باعث چل بسا اور غم روزگار سہہ نہ سکا۔ یہاں شاعر اللہ سے دعا مانگ رہا ہے کہ اے اللہ! تو میری موت ایسے وقت میں مت دے، جب میں مفلوک الحال ہوں۔ تیسرے شعر میں ثاقب لکھنوی نے دوستوں کی ستم شعاری پر طنز کرتے ہوئے کہا ہے کہ زندگی بھر یہ سارے دوست میرے برے وقت پر کام نہیں آئے لیکن میری موت کے بعد دو مٹھی خاک ڈالنے کے لیے میری قبر پر چلے آئے ہیں۔ کچھ اس طرح کا مفہوم چوتھے شعر میں پوشیدہ ہے۔ شکیب جلالی کہتے ہیں کہ سانس کی طناب ٹوٹنے کے بعد لوگوں کو جسم کے ڈھانچے کو سنبھالنے کی فکر دامن گیر ہوتی ہے۔ یہ اشعار صرف موت کی حقیقت ہی نہیںبلکہ انسانی رشتوں کی شکست و ریخت اور اس کی نزاکتوں کو بھی بخوبی آشکار کرتے ہیں۔ دنیا کی خودغرضی کی ترجمانی بھی ہمیں ان اشعار میں محسوس ہوتی ہے۔

موت کب، کہاں اور کس حال میں آجائے اس کا علم کسی کو نہیں ہے۔ اس کا علم اسی ذات کو ہے جس نے زندگی دی ہے۔ اردو شاعری کی تاریخ میں ایسے بہت سے شعرا کا ذکر ملتا ہے جنھیں شہرت تو حاصل نہ ہوسکی لیکن ان کے چند یا ایک دو ہی اشعار انھیں زندہ رکھنے کے لیے کافی ہیں۔ موت کو موضوع بنا کر بہت سے شعرا نے ایسے اشعار موزوں کیے ہیں جو بہت مشہور ہوئے لیکن تخلیق کار کو شہرت نہ مل سکی۔ ایسے ہی ایک شاعر کا نام مولوی عبدالرضا رضا ہے، جن سے اردو دنیا بڑی حد تک ناواقف ہے لیکن ان کا یہ ضرب المثل شعر ہر کس و ناکس کی زبان پر رہتا ہے او راسے بار بار دہرایا جاتا ہے۔ نہایت مشہور اور سہلِ ممتنع کا حامل یہ شعر ملاحظہ کیجیے۔ یہاں موت کو جس شے سے تشبیہ دی گئی ہے، اس خوبصورت تشبیہ پر شاعر کو داد دیجیے       ؎

کیا بھروسہ ہے زندگانی کا

آدمی بلبلہ ہے پانی

 

(عبدالرضا رضا)

خواجہ میر درد، میرتقی میر، برج نرائن چکبست، شاد عظیم آبادی، ذوق دہلوی، خواجہ الطاف حسین حالی، نظیر اکبرآبادی اور حفیظ جالندھری کے وہ اشعار ملاحظہ کیجیے  جو انھوں نے موت کی ناقابل انکار حقیقت کو پیش نظر رکھ کے موزوں کیے ہیں۔ یہ اشعار مختلف زاویوں سے ہمیں موت کے فلسفے کو سمجھنے کی دعوت دیتے ہیں۔ جس خواب و خیال میں ہم جی رہے ہیں وہ خواب و خیال وقتِ مرگ بے معنی ہوکر رہ جاتے ہیں۔ فرشتۂ موت ایک لمحے کی بھی فرصت نہیں دیتا اور نظیر اکبرآبادی کے مطابق ’’سب ٹھاٹھ پڑا رہ جائے گا جب لاد چلے گابنجارہ۔‘‘ والی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ ساری دولت، ٹھاٹھ باٹ، شان و شوکت، اور جاہ و جلال دھرا کا دھرا رہ جاتا ہے اور انسان موت کے آغوش میں سما جاتا ہے۔ ملاحظہ کیجیے موت کے حوالے سے مذکورہ شعرا کی تخلیقات       ؎

وائے نادانی کہ وقتِ مرگ یہ ثابت ہوا

خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سنا افسانہ تھا

 

(خواجہ میر درد)

مرگ اک ماندگی کا وقفہ ہے

یعنی آگے چلیں گے، دم لے کر

 

(میر تقی میر)

موت کہتی ہے کہ لبریز ہے پیمانۂ عمر

دوست کہتے ہیں کہ امید ابھی باقی ہے

 

(برج نرائن چکبست)

لے دے کے صرف ایک سہارا تھا موت کا

وہ بھی شبِ فراق سے کمبخت ڈر گئی

 

(شاد عظیم آبادی)

لائی حیات آئے، قضا لے چلی، چلے

اپنی خوشی نہ آئے، نہ اپنی خوشی چلے

 

(ذوق دہلوی)

رنج کیا کیا ہیں ایک جان کے سفر

زندگی موت ہے، حیات نہیں

 

(خواجہ الطاف حسین حالی)

دُکھ پا کے مرگیا، کوئی سکھ پا کے مرگیا

جیتا رہا نہ کوئی ہر اک آکے مرگیا

 

(نظیر اکبرآبادی)

قید حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں

موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں

 

(مرزا غالب)

ہزاروں اشعار موت کے حوالے سے پیش کیے جاسکتے ہیں۔ زندگی اور موت، یہ دو موضوع تمام شعرا کے پسندیدہ موضوعات میں سے ہیں۔ اس لیے ہر شاعر کے یہاں ان دونوں موضوعات پر اشعار ملتے ہیں۔ ان ہزاروں اشعار میں کچھ شعر جو بہت مشہور ہیں، ان کے حوالے سے یہاں گفتگو مقصود ہے۔ موت ایک نہایت وسیع موضوع ہے، جس پر مختلف زاویے سے سیکڑوں شعرا نے ہزاروں اشعار موزوں کیے ہیں۔ ہم اپنی آنکھوں سے ہر روز کسی نہ کسی بات پر موت کا ذکر کرتے ہیں، لوگوں کی موت کا ماتم کرتے ہیں۔ اہم اور نامور شخصیات کی وفات پر نوحہ خواں ہوتے ہیں۔ اپنے رشتے داروں، عزیزوں اور دوستوں کی نعشوں کو اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتارتے ہیں اور جوں ہی قبرستان سے واپس آتے ہیں، موت کو بھول کر دنیاداری میں لگ جاتے ہیں۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ قبر کے جس چوکھٹے میں جس عزیز کو اتار کر آئے ہیں، وہاں ہمارے لیے چوکھٹے خالی پڑے ہیں،جن میں ہمیں ایک نہ ایک دن اتارا جائے گا۔ کاش ہم زندگی کی جتنی فکر کرتے ہیں، موت کی بھی اتنی ہی تیاری کرتے توزندگی آسان ہوجاتی۔ شاعر کے لفظوں میں          ؎

چوکھٹے قبر کے خالی ہیں انھیں مت بھولو

جانے کب، کون سی تصویر لگا دی جائے

 

(حفیظ جالندھری)

کسی دانا کا قول کہ ’محبت اور موت دونوں بن بلائے مہمان ہوتے ہیں۔ کب آجائیں کوئی نہیں جانتا۔ لیکن دونوں کو کچھ چاہیے۔ ایک کو دل چاہیے اور دوسرے کو دھڑکن‘‘ موت آتے ہی سانس کی ڈور ٹوٹ جاتی ہے۔ دھڑکن رک جاتی ہے اور پورا جسم ٹھنڈا پڑجاتا ہے۔ ایسے عالم میں ساری دولت، مال و ثروت چھوڑ کے دنیا کو الوداع کہنا پڑتا ہے۔ اس کے بعد یہ خاکی جسم محض مٹی کا ایک پتلا بن کر رہ جاتا ہے      ؎

چھوڑ کے مال و دولت ساری دنیا میں اپنی

خالی ہاتھ گزر جاتے ہیں کیسے کیسے لوگ

 

(اکبرحیدرآبادی)

دنیا مرنے والوں کو بہت جلد بھلا دیتی ہے۔ چاہے مرنے والا شخص کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو۔ چاہے اس نے دولت کے انبار ہی کیو ںنہ لگائے ہوں، اس کے باوجود، دنیا والے تو دور اس کے اپنے اور نہایت قریبی لوگ بھی اسے بہت جلد بھول جاتے ہیں، صرف ان ہی لوگوں کو دنیا یاد کرتی ہے جو دنیا کو کچھ دے کر جاتے ہیں۔ جو رفاہ عام کے لیے کچھ کر گزرتے ہیں یا جو علمی خزینہ چھوڑ جاتے ہیں           ؎

بھلا دے گی ہمیں دو دن میں دنیا

ہماری شاعری کیا، اور ہم کیا

 

(جگت موہن لال رواں)

مرزا سلامت علی دبیر مرثیہ کے امام تصور کیے جاتے ہیں۔ انھو ںنے رباعیاں بھی لکھی ہیں، جو ان کے مرثیوں کی طرح مقبول ہوئیں۔ زندگی اور موت کے فلسفے کو انھوں نے اپنی ایک رباعی میں بڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔ دنیا ایک سرائے خانہ ہے، یہ بات ہر شخص تسلیم کرتا ہے، جہاں کوئی آتا ہے تو دوسرا اس سرائے سے رخصت ہوجاتا ہے۔ آمد و رفت کا یہ سلسلہ تاقیامت جاری رہنے والا ہے۔ شاعر اس حوالے سے  کہتا ہے      ؎

کسی کا کندہ نگینے پہ، نام ہوتا ہے

کسی کی عمر کا لبریز، جام ہوتا ہے

عجب ترا ہے یہ دنیا، کہ جس میں شام و سحر

کسی کا کوچ، کسی کا مقام ہوتا ہے

 

(مرزا سلامت علی دبیر)

موت کہاں رہتی ہے؟ کہاں رقص کرتی ہے؟ زمینوں اور ہواؤں کے درمیان کس طرح بھٹکتی رہتی ہے؟ کبھی یہ جسم  میں داخل ہوکر منہ سے لہو نکلواتی ہے۔ کبھی زہریلے پنجے گاڑ دیتی ہے جسے چھڑانا ممکن نہیںہوتا ہے۔ انسان کہیں بھی رہے، کہ غار میں بھی چلا جائے تو موت وہاں بھی اس کا پیچھا کرتی ہوئی چلی جاتی ہے۔ ہزاروں، لاکھوں  لوگوں میں سے کسی ایک شخص کو پہچان کر کھینچ لاتی ہے اور بالآخر زندگی ہار ماننے پر مجبور ہوجاتی ہے کیونکہ موت زندگی سے طاقت ور ہوتی ہے۔ پاکستان کے ایک نامور نوجوان شاعر نے ایک نظم ’موت‘ کے عنوان سے لکھی ہے، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ’موت‘ نظم پر اس مضمون کا اختتام کروں۔ نظم نہایت موثر، دلچسپ اور دل نشیں ہے، جس کے ایک ایک لفظ پر داد دینے کو جی چاہتا ہے۔ آپ بھی ملاحظہ کیجیے اور شاعر کی تخیلاتی پرواز کی داد دیجیے    ؎

کہیں دشتِ قیامت میں، کہیں غاروں میں رہتی ہے

دھوئیں کی کروٹوں کے زائچوں پہ رقص کرتی ہے

ہواؤں میں لٹکتی ہے، زمینوں پر بھٹکتی ہے

کبھی گولی پہن کر گھر کے آنگن میں اترتی ہے

کبھی یہ سانس بن کر جسم میں گھس کر

لہو تھُکوانے لگتی ہے

کبھی سورج نگلتی ہے، کبھی چندا چباتی ہے

کبھی یہ آگ کی لو، اپنے ہاتھوں پر اٹھاتی ہے

کبھی پلکوں پہ چڑھ کر آسماں سے کود جاتی ہے

کبھی یہ واقعہ ہے اور کبھی یہ سانحہ بھی ہے

کبھی یہ حادثہ ہے اور کبھی یہ راستہ بھی ہے

یہ ایسا سانپ ہے جو عکس اپنی آنکھ میں رکھ لے

توپھر مکتی نہیں دیتا

یہ ایسی رات ہے جو اپنے کالے بازوؤں سے

روشنی کا قتل کرتی ہے

اگر یہ ٹھان لیتی ہے، تو سب کچھ جان لیتی ہے

ہزاروں، لاکھوں لوگوں میں بھی یہ پہچان لیتی ہے

اور اس سے لڑکے زندگی بھی ہار اپنی مان لیتی ہے

کسی پاتال میں چھپ کر بھی کوئی بچ نہیں سکتا

کسی مجمعے، کسی پنٹال میں چھپ کر بھی کوئی بچ نہیں سکتا

فقط نتھنے پھلا کر یہ لہو کو سونگھ لیتی ہے

بدن کو ڈھونڈ لیتی ہے

ازل سے موت اندھی ہے

ازل سے موت اندھی ہے

(عاطف توقیر، پاکستان)

الغرض ’موت‘ کے موضوع پر ہزاروں اشعار ملتے ہیں، جو ہمیں اس کی حقیقت اور زندگی کی ناپائیداری سے آگاہ کرتے ہیں۔ انسان اگر موت کو زندگی سے زیادہ عزیز سمجھنے کی کوشش کرے تو ا س کی زندگی آسان اور بے ضرر بن جائے گی۔ پس اس کی نظر موت پر رہے اور اس کی تیاری کے لیے وہ ہر دم کوشاں رہے تو بہت سے دنیاوی غموں سے اسے نجات مل سکتی ہے اور اس کے اخلاق و اطوار سے کبھی کسی کو کوئی شکایت نہیں ہوگی اور نہ اسے کسی سے کوئی شکایت رہے گی۔

 

Dr. Sabir Ali Seewani

H.No. 9-4-87/C/12, First Floor

Behind Moghal Residency

Toli Chowki

Hyderabad - 500009

Mob.: 9989796088

Email.: mdsabirali70@gmail.com

 

 

 

 


 

 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں