9/8/21

نازش پرتاپ گڑھی کا شعری اختصاص : مضمون نگار :جاوید احسن




 ادب کی دنیا میں نازش پرتاپ گڑھی کی شخصیت کسی رسمی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ وہ ایک شہرت یافتہ شاعر تھے۔ وہ قصبہ سٹی(بیگم وارڈ) پرتاپ گڑھ کے ایک معزز زمیندار گھرانے میں12جولائی 1924 کو پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام محمد احمد تھا لیکن ادبی دنیا انھیں نازش پرتاپ گڑھی کے نام سے جانتی ہے۔ /10اپریل 1984 کو انھوں نے اس دار فانی کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہا

 وطن کے ذی حشم لوگوں سے تو کچھ بھی نہ ہو پایا

اُجالا کم سے کم پرتاپ گڑھ کا نام ہی میں نے 

نازش پرتاپ گڑھی ایک فطری شاعر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی شاعری کا آغاز محض تیرہ برس کی عمرمیں کیالیکن اپنے فن میں نکھار پیدا کرنے کے لیے انھوں نے علامہ سیماب اکبر آبادی سے مشورۂ سخن کیا جس کا ذکر انھوں نے اس انداز میں کیا ہے:

’’ شعر گوئی کی ابتدا 1937 سے ہوئی جب میں پرتاپ گڑھ سے گورنمٹ ہائی اسکول کے ساتویں درجے میں زیرِ تعلیم تھا۔ جنوری 1943 میں ایک عریضے کے ذریعے میں نے حضرت مولانا علّامہ سیماب اکبر آبادی کی خدمت میں درخواست پیش کی کہ مجھے بھی اپنے حلقہ ٔ تلامذہ میں شامل کر لیا جائے۔ حضرت مولانا ؒ نے میری درخواست قبول فرمائی اور میں سلسلۂ سیمابیہ میں شامل ہوگیا۔ 1945 کے وسط میں حضرت مولانا ؒ نے اپنے تلامذہ کی ایک مختصر سی فہرست ماہنامہ شاعر آگرہ میں شائع فرمائی اور حکم دیا کہ ان کے بقیہ تلامذہ ایسی فہرست میں سے کسی بھی ایک شاعر کو اپنے لیے پسند کر لیں اور آئندہ اسی سے مشورۂ سخن کریں۔ ضعف اور کثرت کار کی وجہ سے اب وہ اپنے بے شمار تلامذہ کے کلام پر اصلاح دینے سے معذور ہیں۔ اس فہرست میں میرا نام بھی شامل ہے۔‘‘

(دستاویز (مصنّفین کے قلم سے )اتر پردیش اردو اکادمی لکھنؤ،1983 ص 347)

 نازش پرتاپ گڑھی نے پورے انہماک و ارتکاز کے ساتھ حسینۂ شاعری کے گیسوئے خمیدہ کی مشاطگی کی جس کے سبب بعض ناقدین نے ان پر بسیار نویسی کا الزام بھی عائد کیا، لیکن چونکہ ان کے اندر تخلیقیت کا ایک بحر زخار ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔اس لیے وہ متواتر لکھتے رہے اور ان میں جمود و تعطل کی کیفیت پیدا نہ ہو سکی۔ ان کے گیارہ مجموعے شائع ہوئے جو اس طرح ہیں: قدم قدم 1971، لکیریں 1972، متاع قلم 1973، زندگی سے زندگی کی طرف 1976، جہاں اور بھی ہیں 1978، نیا ساز نیا انداز 1980، دُرد تہہ جام 1981، نغمۂ سرمدی 1983، اپنی دھرتی اپنی بات 1985، چرخِ وطن کے مہروماہ 1987، گلاب کی بات۔یہ تمام مجموعے ان کی گراں قدر تخلیقی صلاحیتوں پر دلالت کرتے ہیں۔

نازش پرتاپ گڑھی ایک محبِ وطن شاعر تھے۔ ان کی حُب الوطنی کا جذبہ مثالی ہے اور ان کی شاعری اس جذبے سے پوری طرح سرشارہے۔ ان کی حب الوطنی کا اندازہ اس واقعے سے بھی بحسن و خوبی لگایا جا سکتا ہے کہ جب ملک کی تقسیم ہوئی تو انھوں نے ہندوستان کو ترجیح دی اور اپنے اہل خانہ کے ساتھ پاکستان جانا قبول نہیں کیا۔ اگر چہ ان کی زندگی مالی دشواریوں سے دو چار رہی اس کے باوجود انھوں نے اپنی خودداری کا پاس رکھتے ہوئے کسی کے سامنے دستِ سوال دراز نہیں کیا اور قناعت کے ساتھ اپنی زندگی بسر کرتے رہے۔ انھوں نے نہایت ہی خلوص و اہتمام کے ساتھ ادب کی خدمت انجام دی اور شہرت ونام آوری کا روگ کبھی بھی نہیں پالا جس کے سبب ان کے فن کا وقار کبھی مجروح نہیں ہوا اور وہ ایک حقیقی فنکار کی حیثیت سے ادب کی دنیا میں ممتاز مقام پر فائز رہے۔

نازش پرتاپ گڑھی کے اندر حُب الوطنی کا عنصر فطری طور سے موجود تھا۔ یہی سبب ہے کہ وہ طالب علمی کے زمانے میں ہی بابائے قوم مہاتما گاندھی کی تحریک کا اثر قبول کرتے ہوئے جدو جہد آزادی کے کارکن بن گئے اور وطن کی آزادی کی تحریک میں پیش پیش رہے جس کا سب سے بڑا اثر ان کی تعلیم پر پڑا اور وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے قاصر رہے، لیکن انھوںنے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا برملا اظہار کرتے ہوئے اپنی شاعری کے ذریعے اپنا پیغام ملک کے گوشے گوشے تک پہنچایا۔ وہ اپنی حب الوطنی سے مملو جذبات کا اظہار جب شاعری کے پیرائے میں کرتے ہیں تو ایک عجیب قسم کا سماں بندھ جاتا ہے اور ان کی شاعری کا اثر عوام پر بہت گہرا پڑتا ہے۔ اس ضمن میں ان کی مشہور نظم ’  شعلۂ آزادی ‘کے چند بند ملاحظہ ہوں           ؎

ہاں یوں ہی بھڑکتاجا،اے شعلۂ آزادی!

رگ رگ میں مہکتا جا،اے شعلۂ آزادی!

 پھیلا حدِ آخر تک دورِ ستم ایجادی

 بپھری تو بہ ہر عنواں افرنگ کی جلادی

 چلتا ہی رہا لیکن دورِ مے آزادی 

تقدیر وطن آخر دیوانوں نے چمکادی

اے شعلۂ آزادی...

سُرخی ہے ترے رُخ پر اس خونِ شہیداں کی

حل ہوتی رہی جس میں جرات دلِ انساں کی

صحرا میں رکھی تونے بنیاد گلستاں کی

 منسوب تجھی سے ہے احساس کی آبادی

 اے شعلۂ آزادی...

 نازش پرتاپ گڑھی کی ایک مشہور نظم’ہم بھارت دیش کے باسی ہیں‘کے عنوان سے ہے، جس میں انھوں نے ہندوستان کے لوگوں کی خصوصیات کا اظہار کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ اس ملک کے لوگ کن خوبیوں کے باعث ساری دنیا میں ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔اس نظم کے چند بند ملاحظہ ہوں         ؎

ہم اہنسا کے پرستار کہے جاتے ہیں

پریت کے،پریم کے شہکار کہے جاتے ہیں

امنِ عالم کے نگہ دار کہے جاتے ہیں

زیست کے قافلہ سالار کہے جاتے ہیں

فطرتاً شور سے، غل سے ہمیں بیزاری ہے

ہم تو وہ ہیں جنھیں بنسی کی صدا پیاری ہے

زیست کو فرض کا احساس دیا کرتے ہیں

باپ کے حُکم پہ بَن باس لیا کرتے ہیں

سچ کو ہر دَور میں ہم زندہ کیا کرتے ہیں

پر ہلاد آگ میں جل جل کے جِیا کرتے ہیں

غلبۂ حق ہے یہاں فطرت ِ انسانی پر

راجہ مجبور ہے مرگھٹ کی نگہبَانی پر

 یہ حقیقت ہے کہ ہندوستان ابتدا ہی سے امن پسند ملک رہا ہے اور یہاں کے لوگوں نے منافرت پر اخوت کو ترجیح دی ہے، لیکن کچھ شر پسند سماج دشمن عناصر اس ملک کی خوشگوار فضا میں نفرت کا زہر گھول کر یہاں کی ہواؤں کو مسموم بنانے کی کوشش بھی کرتے رہے ہیں جس کے باعث کبھی کبھی یہاں کشیدگی کی کیفیت بھی پیدا ہوتی رہی ہے۔ نازش پرتاپ گڑھی فرقہ پرستی کے سخت خلاف تھے۔ انھوں نے اپنے پرائے کے تصَّور سے اوپر اٹھ کر ملک کی فلاح و بہبود کو اولیت دینے کی ہمیشہ تلقین کی اور اپنی شاعری کے ذریعے فرقہ پرستی کے عفریت سے اپنے ملک کو بچانے کی کوشش میں ہمہ تن مصروف رہے۔ اس تعلق سے کئی نظمیں ان کے مجموعوں میں موجود ہیں۔ نمونتاً ان کی ایک نظم ’جواب آں عزیزم ‘ کے چند اشعار ملاحظہ ہوں            ؎

مرے عزیز! تمھارے کئی خطوط ملے

مگر ہیں سب کے مضامین ایک ہی جیسے

لکھا ہے تم نے، میں بے یار و بے سہارا ہوں

تمھیں یہ غم ہے میں اپنے وطن میں تنہا ہوں

تمھیں ہے فکر یہاں کون ہو سکے گا مرا

خدا نہ کردہ اگر مجھ پہ کوئی وقت پڑا

ہر ایک موڑ پہ ظلمت یہاں برستی ہے

لکھا ہے تم نے کہ یہ ’ ظالموں کی بستی‘ ہے

تمہارے پاس پہنچ جاؤں میں تواچھا ہے

لکھا ہے تم نے کہ ’ہندوستان میں خطرہ ہے

یہ... اور ایسے ہی دو چار اور بھی فقرے

بڑے خلوص و محبت کے ساتھ تم نے لکھے

مگر عزیز برادر! تمھیں یہ کیا معلوم

کہ میں نہ بے کس و بے بس ہوں اور نہ ہوں مغموم

یہ ’ ظالموں کا وطن ‘ہے لکھا ہے تم نے مگر

مجھے تو صرف دعائیں ملی ہیں ہونٹوں پر

یہاں سبھی مرے دشمن ہیں مان لوں کیسے

کہ مجھ کو جتنے ملے، دوست اور بھائی ملے

ہر ایک ہونٹ نے جینے ہی کی دعا دی ہے

ہر ایک ماں نے مجھے اپنی ممتا دی ہے

ہر ایک شخص مجھے اپنے ساتھ رکھتا ہے

ہر اک بزرگ مرے سر پہ ہاتھ رکھتا ہے

جو مجھ سے چھوٹے ہیں وہ احترام کرتے ہیں

مجھے بھی اپنا سمجھ کر سلام کرتے ہیں

درست ہے کہ میں چھوٹا ہوں کچھ عزیزوں سے

درست ہے کہ میں بچھڑا ہوں تین بہنوں سے

مگر... عزیز برادر ! یہ واقعہ بھی سنو

ہزاروں بہنوں نے باندھی ہیں راکھیاں مجھ کو

نہ جانے کتنے محب و عزیز دار ملے

مجھے دو تین کے بدلے میں بے شمار ملے

میں اس دیار کو کیوں کر کہوں پرایا ہے

یہیں کی خاک پہ میں نے شعور پایا ہے

رفیق و مونس و غم خوارہر بشر ہے مرا

مرے وطن کا اک اک فرد ہم سفر ہے مرا

 اس ضمن میں نازش پرتاپ گڑھی کی وطنی شاعری سے متعلق علی جواد زیدی نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ بالکل درست ہے۔ ان کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو:

 ’’ نازش کو وطن کے ذرّے ذرّے سے پیار ہے۔ عظیم وطنی کردار وں سے ان کی نظموں کا دامن بھرا ہوا ہے۔ کرشن، رام، بدھ،گرونانک،لکشمن، پرہلاد، سیتا، وششٹ، وکرمادیتیہ سے نہرو، گاندھی تک بلکہ حسرت مو ہانی تک ہر ایک کا ذکر محبت اور احترام سے کرتے ہیں اور خاص عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔ شاعروں کی صف میں ان کی نظمیں تلسی داس، کیشو اور نرالا کو تلاش کرتی ہیں ۔ وطن کے ماحول اور فضا کووہ بڑی خوبصورتی سے اپنی نظموں میں جذب کر لیتے ہیں ‘‘

(نیا ساز نیا انداز،اتر پردیش اردو اکادمی لکھنؤ،2009،ص9-10)

 نازش پرتاپ گڑھی نے جہاں حب الوطنی کے جذبے سے معمور معیاری نظمیں لکھیں وہیں انھوں نے صنف غزل کو بھی اپنی فکر کا محور بنایا،لیکن چونکہ کمیت کے اعتبار سے ان کی نظمیں اس قدر مایہ دار ہیں اور ان کی نظموں نے ایسی بے پناہ شہرت حاصل کی کہ ان کے آگے ان کی غزل گوئی ماند پڑگئیں اور اس پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی، حالانکہ ان کی غزلیں بھی اپنی فکری و فنّی خصوصیات کے لحاظ سے قابل اعتناہیں۔ان کی غزل گوئی پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالنے کے بعد ہی یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ انھوں نے اپنی غزلوں میں بھی اپنے تخلیقی جوہر کا بھر پور اظہار کیا ہے جس کے باعث ان کی غزلیں فکری اور فنّی دونوں اعتبار سے قاری کے ذہن کو اپنی طرف منعطف کرنے کے قابل ہوگئی ہیں۔انھوں نے اپنی غزلوں میں روایتی انداز اپنانے کے بجائے جدت طرازی سے کام لیا جس کے باعث ان کی غزلیں معنوی اعتبار سے نئے رنگ کی حامل نظر آتی ہیں۔ ان کی غزلیں محض عشق کے روایتی تصورات و خیالات سے مملونہیںبلکہ ان میں عصری حسّیت بدرجۂ اتم بھی موجود ہے جس کی وجہ سے وہ عصری معنویت سے ہم کنار ہیں۔ محی الدین قادری زور نے ان کی غزل گوئی پر تبصرہ کرتے ہوئے جو باتیں کہی ہیں وہ حقیقت سے تعلق رکھتی ہیں۔ملاحظہ ہو:

 ’’ جو لوگ غزل کو محض عاشقی کی داستان پارینہ سمجھتے ہیں اور عہد حاضر کے لیے ناموزوں قرار دیتے ہیں وہ اگر نازش کی غزلیں پڑھیں تو محسوس کریں گے کہ اِس زمیں میں زندگی اور زرخیزی کی کتنی لا محدود وسعتیں پنہاں ہیں ضرورت اس کی ہے کہ کوئی اِن سے کام لے۔نازش اِس گُر سے واقف ہیں اور اِن کی غزل قدیم اور ازکارِ رفتہ خصوصیات ِ تغزل سے ہٹ کر ایک ایسی فضائی تخلیق کا باعث ثابت ہوئی جو ایک صحت مند اور ترقی پزیر قوم کی شاعری کے لیے از بس ضروری ہے... انتخاب الفاظ اور بندشوں کا لطف برابر موجود ہے جس کی وجہ سے غزل کو انفرادیت حاصل ہے۔‘‘

(لکیریں ’مجموعہ ٔکلام‘نازش پرتاپ گڑھی،ص6)

محی الدین قادری زور کے علاوہ جگن ناتھ آزاد اور اعجاز صدیقی نے بھی ان کی غزل گوئی سے متعلق اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔جگن ناتھ آزاد لکھتے ہیں :

 ’’جہاں تک نازش کی غزلوں کا تعلق ہے،ان کا لب و لہجہ،انداز بیان اور تخئیل کی ندرتیں مل جل کر ایک ایسی فضا کی تخلیق کرتی ہیں جہاں حقیقی غزل گوئی سانس لیتی ہے‘‘(لکیریں،ص 9)

اور اعجاز صدیقی لکھتے ہیں :

 ’’اِن کی غزلیں روایتی غزل گوئی کی نہج سے ہٹ کر اپنے لیے چونکا دینے والی طرز ِ ادا پیدا کر رہی ہیں۔‘‘

(لکیریں،ص 9-10)

 نازش پرتاپ گڑھی کی غزلوں میں موضوعات کا تنوع پایا جاتا ہے۔وہ محض بندھے ٹکے مضامین کو اپنی غزلوں میں نہیں باندھتے،بلکہ اپنے گراں قدر تخئیل سے کام لیتے ہوئے اس کو ہر ممکن متمول بنانے کی کو شش کرتے ہیں۔وہ ہنگامی صورتِ حال کو بھی کبھی کبھی شعری جامہ پہناتے ہوئے نظر آتے ہیں،لیکن اس قبیل کے اشعار میں وہ اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ایک ادبی اور شعری چاشنی پیدا کر دیتے ہیں جس کے باعث وہStatementنہیں بنتے بلکہ وہ پختہ شعری اظہارکی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔مثال کے طور پر یہ شعر ملاحظہ ہو        ؎

 تاریخ کے صفحوں پر جو انسان بڑے ہیں

ان میں بہت ایسے ہیں جو لاشوں پہ کھڑے ہیں

روح عصر‘ یعنی عصری حسّیت شاعری کی جان رہی ہے۔ نازش نے اس پر بھی خصوصی توجہ دی ہے جس کے باعث ان کے بہت سے اشعار اپنے عہد کے تر جمان بن گئے ہیں        ؎

 سوچ اے نازش نہ ہو یہ بھی فراری ذہنیت

کر رہا ہے عہد ِ حاضر میں جو مستقبل کی بات

 قافلے والو  اب آؤ اور آگے بڑھ چلیں

کھا چکے رہبر کا دھوکا جان لی منزل کی بات

 تنہا تنہا رو لینے سے کچھ نہ بنا ہے کچھ نہ بنا

مل جل کر آواز اٹھا و پر بت بھی ہل جائے گا

نازش پرتاپ گڑھی زندگی کے مثبت اقدارکے شاعر ہیں اور ان اقدار کی جلوہ سامانی ان کی غزلوں میںنہایت ہی خوبصورت اندازمیں موجود ہے،لیکن زندگی سے حاصل شدہ تلخ تجربات بھی ان کی شاعری کا حصہ بنے ہیں جو ان کے کلام میں حزنیہ رنگ سے بھر دیتے ہیں اور جس کے باعث ان کی غزلوں میں سوز و گداز کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس سلسلے کے چند اشعار ملاحظہ ہوں          ؎

 کچھ دور ساتھ گردشِ شام و سحر گئی

پھر اس کے بعد زندگی جانے کدھر گئی

 نغمہ زن ہوں یوں کہ یاروں کا بھرم قائم رہے  

ورنہ محفل کی فضا ناساز گار نغمہ ہے

فرصت کہاں نصیب قیام و قرار کی

ہم لوگ وقتِ شام درختوں کے سائے ہیں

ویرانۂ خیال کی وحشت نہ کم ہوئی

حالانکہ بات بات یہ ہم مسکرائے ہیں

دل خلوص گزیدہ کو کوئی کیا جانے

میں چاہتا ہوں کہ دنیا مجھے نہ پہچانے

نازش پرتاپ گڑھی کی غزلوں کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ تاثیر میں ڈوبی ہو ئی ہیں۔یہ بات غزل میں بڑی ریاضت کے بعد پیدا ہوتی ہے،اسی کے ساتھ طبیعت میں بھی گدا ختگی ہونی چاہیے۔ان کی غزلوں میں از دل خیزد بر دل ریزد،والی کیفیت موجود ہے اوریہ خصوصیت ان کی غزلوں کو انفرادی شان عطا کرتی ہے۔ان کی غزلوں کی ایک بڑی خوبی اس میں پائی جانے والی سلاست اور روانی بھی ہے۔وہ پیچیدہ اور گنجلک تشبیہوں اور استعاروں سے پر ہیز کرتے ہیں جس باعث بھی ان کے اشعار قاری کو براہ راست متاثرکرتے ہیں۔الغرض ان کی غزل گوئی بھی قابل مطالعہ ہے اور اس کی طرف بھی توجہ دی جانی چاہیے۔

 بقول شمس الرحمن فاروقی:

’’نازش نے جس وقت شاعری شروع کی تھی ترقی پسند وںمیںسماجی،اصلاحی،انقلابی،وغیرہ عنوانات لگا کر شاعری کو مصنوعی طور پر تقسیم کرنے کی رسم مستحکم ہو چکی تھی لیکن انھوں نے اس کی پروا کیے بغیر کہ ان کی شاعری پر کیا لیبل فٹ ہو چکا ہے اور کیا ہو سکتا ہے اسی قسم کے شعر کہے جیسے ان کی طبیعت ان سے کہلواتی رہی۔‘‘

کلیات نازش پرتاپ گڑھی (جلد اول)ترتیب و تدوین عبد اللہ سلمان، ص 4(غیر مطبوعہ )

المختصر نازش کی شاعری کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنی نظموں اور غزلوں میں محض حسن و عشق اور گل و بلبل کے روایتی ترانے گانے کے بجائے وطن کے گیت گائے ہیں اور ادب برائے سماج کے نظریے کو عملی جامہ پہنا کر اپنی شاعری کو افادی رنگ دینے کی کوشش کی ہے، لیکن انھوں نے مقصد کی قربان گاہ پر فن کو بھینٹ چڑھنے نہیں دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی نظموں میں فکر و فن کا حسین اور معتدل امتزاج پایا جاتا ہے۔ وہ اپنے خیالات و نظریات کو بطریق احسن شعری پیکرمیں ڈھال دیتے ہیں جس کے باعث ان کی شاعری قابل تحسین بھی بن جاتی ہے اور لائق مطالعہ بھی۔ بلا شبہ نازش ایک اہم شاعر ہیں لیکن ان پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔ ان کے فکر و فن پر از سرِ نو تنقیدی نگاہ ڈالنے کی اشد ضرورت ہے۔


Javed Ahsan

Research Scholar

Allahabad University

Prayagraj - 211002

Mob: 7388137680

javedahasan7@gmail.com

 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں