16/8/21

حکیم آغا جان عیش دہلوی کی غزل گوئی - مضمون نگار: نوشاد منظر

 


حکیم آغا جان عیش کا تعلق اس مغل خاندان سے تھا جو عہد شاہی میں نواح بخارہ سے ہجرت کرکے ہندوستان آیا۔ پہلے اس کا قیام کشمیر میں ہوا پھر روزگار کی تلاش وجستجو انھیں دہلی کی جانب کھینچ لائی۔ عیش دہلوی کے دادا حکیم خواجہ عبدالشکوراپنے زمانے کے مشہور طبیب تھے۔ یہی وجہ ہے کہ دہلی آمد پر ان کا پرتپاک خیرمقدم ہوا اور بہت جلد ان کا شمار اہل ثروت میں ہونے لگا۔

عیش کی پیدائش 1192ھ بمطابق 1779 میں دہلی کے قریب ہوئی۔ چونکہ ان کی ابتدائی زندگی کے تعلق سے کوئی ٹھوس شواہد موجود نہیں ہیں مگر ان کے ایک معاصر محمد ارتضیٰ خان شیدا دہلوی نے اپنی تالیف ’مراۃ الاشباہ‘ میںکچھ اشارے کیے ہیں اور یہی اشارے ان کی ابتدائی زندگی کے بارے میں معلومات فراہم کرسکتے ہیں۔ چونکہ عیش کے دادا اور والد نے مال و دولت اور بڑی جائیداد حاصل کی تھی،اس لیے اس بنیاد پر یہ قیاس لگایا جاسکتا ہے کہ عیش کی پرورش اس زمانے کے مسلم معاشرے کی رسم کے مطابق گھر پر ہوئی ہوگی۔ ’’آب حیات‘‘ میں مولانا محمد حسین آزاد نے عیش کو ’’زیور علم اور لباس کمال سے آراستہ‘‘ بتایا ہے۔ وہ فن طب میں بھی ماہر تھے۔ اس بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ عیش دہلوی نے نہ صرف مروجہ رواج کے مطابق عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی ہوگی بلکہ دیگر علوم بھی حاصل کیا ہوگا۔

عیش کی شاعری

عیش دہلوی نے یوں تو قصائد بھی لکھے ہیں مگر میں ان کی غزلیہ شاعری پر گفتگو کرنا چاہتا ہوں۔انھوںنے شاعری کی ابتدا کب کی اس سلسلے میںمکمل خاموشی ہے۔ ’کلیات عیش‘ کی مرتبہ ڈاکٹر حبیبہ بانو نے بھی اس حوالے سے کوئی ٹھوس بات نہیں کی ہے۔وہ لکھتی ہیں:

’’عیش نے شاعری کب شروع کی اور اس کے کیا محرکات تھے، اس کے بارے میں ہمیں کوئی معلومات حاصل نہیں لیکن اس کی ابتدا جب بھی ہوئی ہو، انھوںنے زمانے کے دستور کے مطابق رحمت اﷲ مجرم اکبر آبادی کا تلمذ اختیار کیا۔‘‘ 

(کلیات عیش دہلوی، مرتبہ حبیبہ بانو، ص63)

عیش دہلوی نے اپنی شاعری کے ابتدائی زمانے میں مشاعروں میں شرکت کی۔ محمد حسین آزاد نے دو مشاعروں کا ذکر کیاہے۔ محمدحسین آزاد نے لکھا ہے کہ ایک مشاعرے میں وہ اور عیش دونوں شریک تھے۔ مولوی باقر بھی وہیں موجود تھے، عیش دہلوی نے اپنا ایک شعر سنایا          ؎

اے شمع صبح ہوتی ہے روتی ہے کس لیے

تھوڑی سی رہ گئی ہے اسے بھی گزار دے

اب اسے اتفاق ہی سمجھا جائے گا کہ اسی مضمون پر ایک شعر محمد حسین آزاد کا بھی تھا۔ وہ ادب اور پاس ولحاظ کی وجہ سے اپنے اس شعر کو سنانا نہیں چاہتے تھے مگر ان کے والد مولوی محمد باقر نے کہا کہ چونکہ یہ مضمون نہ پہلے عیش نے باندھا تھا اور نہ ہی آزاد نے اس لیے طبیعت اور فکر کے میلان کے اندازے کی خاطر وہ شعر ضرور سنائیں۔ محمد حسین آزاد کا شعر تھا          ؎

اے شمع! تیری عمر طبیعی ہے ایک رات

رو کر گزار یا اسے ہنس کر گزار دے

محمد حسین آزاد نے ایک اور مشاعرے کا ذکر کیا ہے، جس میں عیش دہلوی اور غالب موجود تھے۔ اس مشاعرے کی روداد محمد حسین آزاد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’اہل ظرافت بھی اپنی نوک جھونک سے چوکتے نہ تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ مرزا (غالب) بھی مشاعرہ میں تشریف لے گئے۔ حکیم آغا جان عیش ایک خوش طبع، شگفتہ مزاج شخص تھے۔ انھوںنے غزل طرحی میں یہ قطعہ پڑھا          ؎

اگر اپنا کہا تم آپ ہی سمجھے تو کیا سمجھے

مزا کہنے کا جب ہے اک کہے  اور دوسرا سمجھے

کلام میر سمجھے اور زبان میرزا سمجھے

مگر ان کا کہا یہ آپ سمجھیں یا خدا سمجھے

(بحوالہ کلیات عیش، ص71)

عہدغالب اور ذوق میں کسی شاعر کا یہ انداز اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ عیش اپنے عہد کے اہم شعرا میں سے ایک تھے۔ ورنہ کسی معمولی شاعر کی غالب کے کلام پر اعتراض کرنے کی کیا مجال۔

عیش دہلوی نے اپنی پوری زندگی دہلی میں گزاری مگر ان کی شاعری پر لکھنوی اثرات واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ ان کی شاعری میں داخلیت کے ساتھ ساتھ خارجیت کے نمونے بھی موجود ہیں مگر ان کی شاعری کا بڑا حصہ خارجیت پر مبنی ہے۔ یہی نہیں محاورہ بندی، رعایت لفظی، جدت قافیہ اور دہلی کی ٹھیٹ زبان کو بھی ان کی شاعری میں نشان زد کیا جاسکتا ہے۔

کہے ہے عشق میں ناصح کہ ہے ضرر دل کا

جو واقعی ہے ضرر یہ ہے تو ضرر کیاہے

تو راہِ عشق کے صدموں سے مت ڈرا واعظ!

جو سرفروش ہیں اس رہ میں ان کو ڈر کیا ہے

ڈاکٹر حبیبہ بانو نے عیش دہلوی کی زبان اور شاعری پر گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’عیش کا یہ دعویٰ ہے کہ ان کے کلام میں ’طرز سخن میر کی بو‘ ہے، ٹھیک نہیں۔ نہ اسلوب بیان کے لحاظ سے، نہ کیفیت کے پہلو سے، وہ کسی طرح میر کے تتبع نہیں کہے جاسکتے۔ ہاں یہ ٹھیک ہے کہ ان کی زبان بہت صاف ہے۔ اس میں بالعموم وہ ثقالت بھی نہیں جو اس عہد کے بیشتر شعرا کا طرئہ امتیاز ہے اور تو اور زبان کے معاملے میں انھوںنے شاہ نصیر کی بھی پیروی نہیں کی، حالانکہ وہ نصیر کو سب سے بڑا شاعر تسلیم کرتے تھے۔ بیشتر عیش کی زبان ٹھیٹ اردو زبان ہے۔ فارسی، عربی کی بوجھل ترکیبوں سے پاک جیسی وہ بولی جاتی ہے۔‘‘(کلیات عیش دہلوی، حبیبہ بانو، ص76)

چند اشعار دیکھیے       ؎

میں نے کچھ اور کہا اس نے سنا اور سے اور

تھا سوال اور جواب اس نے دیا اور سے اور

کس منہ سے ہم کریں گے بھلا یار کا گلہ

ہم کو تو عیش! شکوۂ اغیار بھی نہیں

بدلتا ہے یہ ہر دم رنگ کیا کیا

دکھاتا ہے فلک نیرنگ کیا کیا

اس قسم کے بہت سے اشعارہیں جن میں عیش دہلوی کی زبان دانی واضح طور پر نظر آتی ہے۔ ان کی زبان سلیس اور سادہ ہے اور بقول حبیبہ بانو یہی رنگ ان کی پہچان بھی ہے اور ان کے معاصرین کے یہاں یہ سادگی نظر نہیں آتی ہے۔گرچہ عیش دہلوی کے یہاں لکھنوی رنگ حاوی ہے مگر ان کے بعض اشعار سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ دہلی کے مقابلے لکھنؤ کی زبان کو دوئم درجے کی زبان تسلیم کرتے تھے۔ بلکہ وہ تو ناسخ اور آتش کو بھی ذوق، ظفراور اپنی زبان دانی کے آگے ہیچ تصور کرتے تھے۔

ناسخ و آتش سے کہہ دو کوئی تم نے بھلا

طرز عیش و حضرت ذوق و ظفر پائی کہاں!

عیش دہلوی کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے ہمیں یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ محاورے پر قدرت رکھتے تھے۔ بلکہ کئی اشعار ایسے ہیں جنھیں پڑھتے ہوئے یہ احساس ہوتا ہے کہ انھوںنے محاوروں کو جوں کا توں استعمال کرلیا ہے۔ چند اشعار دیکھیے      ؎

مثل ہے جو کہ چھوٹا منہ بڑی بات اس جگہ سچ ہے

یہ منہ پایا ہے کس نے نام لے جو تیری عظمت کا

عیش! زلف اُس رخ پہ چھٹتی ہے تو ہو جاتی ہے شام

اور اٹھتی ہے تو ہو جاتا ہے تڑکا نور کا

کہا جو رحم مرے حال پر ذرا کھائو

تو ہنس کے بولے کہ چلتے بنو ہوا کھائو

عیش دہلوی کی شاعری میں خارجیت ضرور ملتی ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ ان کی شاعری کا ایک حصہ ایسے اشعار پر مبنی ہے جس میں اخلاقی تعلیمات کو عام کرنے پر توجہ صرف کی گئی ہے۔ چونکہ عیش دہلوی خود بھی مذہبی آدمی تھے لہٰذا ان کی شاعری میں مذہبی تعلیمات کا پایا جانا تعجب کی بات نہیں۔ ان کے کئی اشعار میں بزرگوں سے ان کی محبت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ عیش کے کلام میں مذہبی اور اخلاقی پہلوئوں کا ذکر جابجا نظر آتا ہے        ؎

عیش سب اپنی برائی ہے نہیں کوئی برا

سب بھلے ہیں یہ اگر آپ ہے انساں اچھا

مروت جس کو کہتے ہیں وہ شرط آدمیت ہے

جہاں میں چاہیے ہے پاس ہو انساں کو انساں کا

عیش دہلوی نے اپنے معاصر عہد پر بھی خامہ فرسائی کی ہے۔ دہلی کی تباہی کو انھوں نے بہت قریب سے دیکھا تھا۔ 1857 کی ناکام بغاوت پر اس عہد کے کئی شعرا وادبا نے اپنے خیالات ظاہر کیے ہیں۔ خطوط غالب میں بھی اس کی جھلک ملتی ہے۔ فتح کی امید اور شکست خوردہ معاشرے کا ذکر عیش دہلوی کی شاعری میں بھی موجود ہے         ؎    

کیا جانے اہل دہلی سے کیا بات ہوگئی

جو دہلی ایسی مورد آفات ہوگئی

ہر شب شب برأت تھی ہر روز روز عید

یا اب وہ جا محل مخافات ہوگئی

عیش دہلوی کا خیال ہے کہ 1857 کے بعد دہلی کی شان نہ صرف خاک میں مل گئی بلکہ اب اس کا نام ونشان بھی مٹ گیا، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہر مکان زمین دوز ہوگیا ہے۔ وہ دہلی جہاں کی ہر شب اپنی رونق کی وجہ سے شب برأت اور عید معلوم ہوتی تھی آج نہ صرف ویران ہے بلکہ یہاں ڈر اور خوف کا بسیرا ہے۔

عیش کی شاعری کے کئی پہلو ہیں۔ انھوںنے لکھنؤ اسکول کی پیروی کرتے ہوئے رعایت لفظی کا استعمال کیا حالانکہ اہل دہلی اس کو پسند نہیں کرتے تھے۔ وہ محاوروں کے استعمال کو تو پسند کرتے تھے مگر رعایت لفظی کی بدنما شکل کوانھوں نے پسند نہیں کیا۔ عیش دہلوی کے یہاں رعایت لفظی کی مثال دیکھیے      ؎

اس نے زخموں پہ کی نمک پاشی

ہم سے حق نمک ادا نہ ہوا

ہاتھ کو پہلے تو اپنے کھینچ لے

پھر جدھر چاہے تو لمبے پیر کر

عیش دہلوی کے کلام کو پڑھتے ہوئے دو تین باتیں بالخصوص متوجہ کرتی ہیں۔ اول ان کے اشعار میں جمع الجمع کے ایسے الفاظ ہیں جو شاید ہی کسی دوسرے شاعر نے استعمال کیے ہوں۔ عیش دہلوی جیسا شاعر جسے اپنی زبان دانی پر نہ صرف فخر ہو بلکہ وہ خود کو آتش اور ناسخ سے اہم بتاتا ہو وہ اس طرح جمع الجمع کا استعمال کرے گا۔ چند اشعار دیکھیے جن میں یہ الفاظ نہ صرف کھٹکتے ہیں بلکہ مناسب بھی معلوم نہیں ہوتے          ؎

ساتھ اغیاروں کو لے لے کر پھرا کون بھلا

یہ سرا پہلے کدھر سے کہو شر کا نکلا

وہ نگاہیں کہ جو دل چھنتے تھے زہادوں کے

اور پابند وہ دل کرتے تھے آزادوں کے

اور وہ کرلیتے تھے قابو میں دل عبادوں کے

بید کی طرح سے دل کانپے تھے جلادوں کے

ان اشعار میں اغیاروں، زہادوں اور عبادوں کی ترکیب غلط ہے اور جمع الجمع کا یہ طریقہ نامناسب معلوم ہوتا ہے۔ اسی طرح ان کے ایسے اشعار بھی ہیں جن میں تذکیر وتانیث کو مروجہ اصول کے برخلاف استعمال کیا گیا ہے        ؎

دیکھنا چاہیے لیلیٰ کو بچشم مجنوں

پوچھنا چاہیے بلبل سے چبھن غنچے کا

میں تو کہتا تھا وہ آویں گے وہ کہتا تھا نہیں

مجھ میں اور دل میں یہی رات کو تکرار رہا

ظاہر ہے چبھن اور تکرار مونث استعمال ہوتے ہیں مگر عیش دہلوی نے انھیں مذکر استعمال کیا ہے جو کہ مناسب نہیں۔

عیش دہلوی کے یہاں تعلّی کے اشعار بھی ملتے ہیں۔وہ ایک طرف جہاں خود کو ذوق اور ظفر کا ہم پلہ قرار دیتے ہیں وہیں اپنی زبان دانی پر فخر کرتے ہوئے آتش و ناسخ کو کمتر بھی ثابت کرتے ہیں۔ وہ یہیں نہیں رکتے بلکہ اپنی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں    ؎

عیش! سن یہ شعر روح میر بولی قبر میں

اے جزاک اﷲ زباں سحر آفریں اتنی تو ہے

عیش دہلوی کے یہاں عشق کی مختلف کیفیات کا ذکر بھی ملتا ہے۔ ان کے یہاں عشق کا روایتی تصور ضرور ہے مگر اس میں بھی ان کی انفرادیت نظر آتی ہے:

نہیں عاشق ہوئے گر تم تو رنگت زرد پھر کیوں ہے

نہیں گر دل لگی صاحب تو دل درد پھر کیوں ہے

نہ ہوش جان نہ پروائے تن نہ نیند نہ بھوک

جہاں میں عشق بتاں کا غرض مآل یہ ہے

جلتے جل جاویں مگر شمع کی مانند کبھی!

اُف بھی کرتے نہیں دم عشق کا بھرنے والے

عیش دہلوی اور ان کے معاصر شعرا نے عشقیہ موضوعات کو پیش کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی باوجود اس کے محبوب کے سراپے کو بیان کرنے میں ایک طرح کی دوری ہی بنائی اور شاید اس کی بڑی وجہ عشق میں وصال اور وصال کی کیفیت سے ناآشنائی تھی۔ مگر عیش دہلوی کی شاعری کو پڑھتے ہوئے ہمیں ایسے اشعار بآسانی مل جاتے ہیں جن میں محبوب کے حسن کے ساتھ ساتھ اس کے سراپے کو بیان کیا گیا ہے         ؎

دیکھ کر اس بہار خوبی کو

ہوگیا گل کا رنگ و بو کم ہے

مزہ ملے ہے جنھیں قتل بے گناہوں سے

خدا بچائے ان آفت بھری نگاہوں سے

محبوب کے ناز و ادا کو عیش نے یوں بیان کیا ہے     ؎

وعدہ آنے کا کیا تھا کل تو کچھ تسکین تھی

وہ نہ آئے آج درد دل میں پھر شدت سی ہے

عیش دہلوی کے یہاں ایسے اشعار بھی ہیں جن میں دنیا کی بے ثباتی کو پیش کیا گیا ہے، جو لوگ مال و دولت پر غرور کرتے ہیں ان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے عیش دہلوی کہتے ہیں کہ یہ مال و دولت فنا ہونے والی چیز ہے۔

سمجھ لے دولت دنیا کوئی دم ہی فنا ہوگی

نہ ہونا اس پر نازاں یہاں اﷲ ہی اﷲ ہے

حقیقت کچھ نہیں دنیا کی دنیا چند روزہ ہے

نہ ہو اس کے لیے حیراں یہاں اﷲ ہی اﷲ ہے

اردو کے بیشتر شعرا نے تلمیحات کا استعمال کیا ہے۔ غالب کی تلمیحات پر مبنی کتابیں بھی شائع ہوچکی ہیں۔ عیش دہلوی کے یہاں بھی تلمیحات کا ذکر ملتا ہے     ؎

کیوں زلیخا یوسف کنعاں کو زنداں چاہیے

چاہیے اس کے لیے یہ جس کو ناداں چاہیے

عیش دہلوی نے انسانیت، امن اور یکجہتی کو اپنی شاعری کے ذریعے فروغ دینے کی کوشش کی ہے۔ ان کے بعض اشعار میں اس کی جھلک صاف طور پر نظر آتی ہے۔ میردرد کا ایک شعر سنیے          ؎

درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو

ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں

اب عیش دہلوی کا شعر دیکھیے      ؎

چاہنے کے واسطے بھی کوئی انسان چاہیے

تم بھی ایسے ہو کہ جو تم کو مری جاں چاہیے

اتحاد کی اہمیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں          ؎

دیکھتے ہیں عیش جو کثرت میں وحدت کا ظہور

ان کے یکساں جلوئہ دیر و حرم آنکھوں میں ہے

عیش دہلوی کے یہاں ناسازگار حالات میں بھی جینے کا حوصلہ ملتا ہے      ؎

اس کجروی چرخ سے تو ہوکے تنگ دل

گھبرانہ عیش دیکھ خدا کار ساز ہے

بہرحال عیش دہلوی کے دو دیوان منظر عام پر آئے۔ حبیبہ بانو کی فراہم کردہ معلومات کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے پہلے دیوان کے دو قلمی نسخے بھی موجود ہیں جو انڈیا آفس لائبریری لندن اور بنارس ہندو یونیورسٹی کے کتب خانے میں موجود ہیں، اس کے علاوہ انتخاب بھی ہے۔ دوسرے دیوان کا ایک نسخہ ہے جو لاہور میوزیم میں موجود ہے۔ حالانکہ حبیبہ بانو نے یہ لکھا ہے کہ لاہور کے نسخے پر یہ جملہ درج ہے کہ ’’ اس دیوان کا اصلی نسخہ حکیم آغا جان عیش کے خاندان میں موجود ہے۔ اس کی یہ نقل ہے‘‘ مگر باوجود تلاش وجستجو کے عیش دہلوی کے خاندان والوں کا حال معلوم نہ ہوسکا۔ حبیبہ بانو نے نہایت تفصیل کے ساتھ ان دونوں دیوان کی تفصیلات درج کی ہیں۔ عیش دہلوی کا جائزہ لیتے ہوئے ڈاکٹر حبیبہ بانو نے نہایت اہم بات کہی ہے۔ وہ لکھتی ہیں۔

’’بے شک ہم انھیں تغزل اور معاملات حسن وعشق کے پہلو سے کوئی غیرمعمولی اہمیت نہیں دے سکتے لیکن زبان کے ارتقائی سفر میں اسے بیانیہ صلاحیت اور وسعت عطا کرنے میں ان کی خدمات بھولنے کی چیز نہیں۔ افسوس کہ ان کے متعدد دوسرے معاشروں کی طرح ان کا دیوان بھی آج تک شائع نہیں ہوا تھا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہوئی کہ غدر کے باعث ملک کی سیاسی حالت میں عظیم انقلاب آگیا اور اس کے فوراً بعد یہاں غیر ملکی تسلط مستقل طور پر قائم ہوگیا۔ انگریزی تعلیم کے زیر اثر رنگ سخن بھی بدل گیا اور ہم پرانے سخنوروں کی طرف سے کچھ غافل اور بیگانہ سے ہوگئے۔ شکر ہے کہ حالات نے پھر پلٹا کھایا ہے اور ہم اپنے مدفون خزانوں کو کھود نکالنے اور انھیں دنیا کے سامنے رکھنے کی قدروقیمت سے واقف ہی نہیں ہوئے بلکہ ان پر فخر بھی کرنے لگے ہیں۔‘‘

اب اسے اتفاق کہیے یا وقت کی ستم ظریفی کہ اپنے عہد کا ممتاز شاعر اور صاحب دیوان آغا جان عیش دہلوی کو نئی نسل نے بالکل بھلا دیا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں تامل نہیں کہ بہت سے اہل علم بھی عیش دہلوی کی شاعری تو دور نام اور عہد سے بھی واقف نہیں ہوں گے۔ بعض لوگ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان کی شاعری اس کمال کو نہیں پہنچتی کہ زمانہ انھیں یاد رکھے مگر ہمیں دو باتیں یاد رکھنی چاہیے اول عیش دہلوی کی شاعری کا دائرہ وسیع تر نہ سہی پھیلا ہوا ضرور ہے۔ دوسری بات غالب کے معاصر کے طور پر بھی ان کا ذکر نہ کرنا ان کے ساتھ ناانصافی ہے۔


Dr. Naushad Manzar

A-33/2, Johri Farm

Gali No.: 6, Jamia Nagar

New Delhi - 110025

Mob.: 9718951750

 

ماہنامہ  اردو دنیا، جولائی 2021

 

 

 

 

 

 

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں