2/12/21

عہد عباسی کی عربی شاعری اور چند اہم شعرا - مضمون نگار: نایاب حسن

 




عربی تاریخ میں حکومتِ بنو عباس کا دور (750-1258)  مختلف نیرنگیوں،ترقی و تنزل، اتھل پتھل، نشیب و فراز اور قیامت خیز تغیرات سے عبارت  رہا ہے۔ اس عہد میں جہاں سیاسی و سماجی سطح پر بے شمار انقلابات رونما ہوئے، وہیں علوم و ادب و ثقافت کے شعبے میں بھی عظیم الشان واقعات  ظہور میں آئے۔عباسی حکمرانوں نے اپنے زمانے کے علوم و فنون کی سرپرستی و پشتیبانی کی اور اس وقت دنیا میں موجود تمام ترقی یافتہ اور زوال آمادہ علوم کے تحفظ پر غیر معمولی توجہ دی،جس کے نتیجے میں پہلے سے موجود بے شمار علمی شعبے عروج آشنا ہوئے اور ان گنت نئے شعبے عالمِ وجود میں آئے۔ اس زمانے میں عربی نثر کی مختلف اصناف کے ساتھ عربی شاعری کو بھی پھلنے پھولنے کا خاصا موقع ملا۔ خاص طورپر اس کے نصف آخر میں عربی شاعری کو زیادہ عروج حاصل ہوا؛ کیوں کہ خلفا اور وزرابھی شعرا کی حوصلہ افزائی کرتے تھے اور انھیں بے پناہ نوازا کرتے تھے۔ عہدِ بنوامیہ اور عہدِ عباسی کے ابتدائی دور تک کی عربی شاعری روایتی انداز کی تھی یعنی اس میں قبائلی فخر و مباہات اور خاندانی عزوشرف کے بیان و اظہار پر زور دیا جاتا تھا۔ ہر شاعر اپنے قبیلے کی بہادری،بے خوفی اور مختلف جنگوں میں انجام دیے گئے کارناموں کا ذکر کرتا تھا۔غیرت و خود داری جیسے اوصاف عربوں میں قابلِ قدر تھے اور ان کے اظہار میں شعرا زیادہ دلچسپی لیتے تھے، مگر عہد عباسی جوں جوں آگے بڑھتا گیا،اس کا دائرہ بھی وسیع ہوتا گیا اوراس کے نتیجے میں بہت سی نئی قومیں اور نئے جغرافیائی خطے اسلامی و عربی قلمرو میں شامل ہوتے گئے۔ اس کے نتیجے میں دوسری قوموں کی بہت سی چیزوں، ثقافتوں اور تہذیبی مظاہر و معالم سے مسلمانوں کو واسطہ پڑا، ان کی زبانوں اور ادب سے آشنا ہوئے،ان کے طرز زندگی اور ان کے اخلاق و کردار سے آگاہی ہوئی، ان کے علوم و فنون سے واقفیت ہوئی اور ان کی نثر اور شاعری سے شناسائی حاصل ہوئی۔ اس طرح سماجی اثرات کے علاوہ ادبی سطح پر بھی ان تہذیبوں اور قوموں کے اثرات پڑے اور نثر و نظم دونوں میں ان نئے مظاہر کی جھلکیاں صاف طورپر محسوس ہونے لگیں۔ عربی شاعری دھیرے دھیرے روایت کے ساتھ جدت اور تازہ کاری  کی طرف بڑھنے لگی۔ اس کے اسالیب میں تنوع پیدا ہوا اور نئے شعرا نے اس کوموضوعات،تخیل اور افکار و تعبیرات کی سطح پر  نئی جہتیں دیں۔ اس کے عنوانات  میں وسعت پیدا ہوئی اور مشمولات کا دائرہ بڑھتا چلا گیا۔ پھر دھیرے دھیرے عہد عباسی کی شاعری میں کئی نئے رجحانات پیدا ہوگئے،جو ایک دوسرے سے مختلف بھی  تھے اور ممتاز و متنوع بھی۔

شعرا کا ایک طبقہ ایسا تھا جو قدیم اسلوب کو مضبوطی سے تھامے ہوئے تھا۔اس کا ماننا تھا کہ قدیم شعرا کے طرز پر شاعری کرنا ہی بہتر ہے۔اس کی کئی وجوہات تھیں :ایک تو یہ کہ لوگ قدیم زبان و الفاظ کو ہی معیاری سمجھتے تھے اور انھیں اپنی تخلیقات میں برتنے کو ترجیح دیتے تھے۔ ایک وجہ مذہبی بھی تھی، علما کو اندیشہ تھا کہ اگر قدیم عربی سے دستبرداری کا رجحان پیدا ہوا تو قرآن و حدیث اور مذہبی لٹریچر کو سمجھنے والے لوگ بتدریج کم ہوجائیں گے۔ اسی وجہ سے عباسی دور کے خلفا اور ان کے وزرا بھی کلاسیکل عربی زبان و ادب میں مہارت حاصل کرنے پر خاص توجہ دیتے تھے؛ بلکہ ان کے والدین اور سرپرستان اس کے لیے خاص طورپر اساتذہ رکھا کرتے تھے،جو انھیں زبان کے رموز و اسرار سے  آگاہ کریں۔ ابن الدمینہ،ابن میادہ اور ابو حیہ النمیری وغیرہ کا شمار ایسے ہی قدامت پسند شعرا میں ہوتا ہے۔انھوں نے اپنی شاعری میں عام طورپر لفظی اور موضوعاتی ؛ہر دو سطح پر قدیم روایت و اسلوب کو برتا اور اسی کی نمائندگی کرنے کی کوشش کی۔

عباسی خلافت جیسے جیسے آگے بڑھتی گئی، دیگر شعبوں کی طرح شعر و ادب کے شعبے میں بھی بدلاؤ آنے لگے۔ قدیم رجحانات پر اضافے ہونے لگے۔ مثلاً شعرا واہ واہی بٹورنے اور خلیفۂ وقت کو خوش کرکے ہدایا حاصل کرنے کے لیے ان کی تعریفوں کے پل باندھنے لگے اور مبالغہ آرائیوں پر مشتمل مدحیہ اشعار کہنے کا رواج عام ہونے لگا۔اسی طرح شاعری کا ایک نیا اسلوب پیدا ہوا جسے ’اسلوبِ مولّد‘(نومولود اسلوب) کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ غرابت و ابتذال کے بیچ کا   اسلوب تھا، جس میں زبان کی اصل اور اس کی صرفی و نحوی بنیادوں کی رعایت کرتے ہوئے نئے الفاظ اختراع کیے جاتے تھے اور لوگوں کی قوتِ فہم کی رعایت سے تراکیب و تعبیرات کا استعمال کیا جاتا تھا۔ اسی طرح اس دور میں ہجو گوئی میں جدت پیدا ہوئی،مگر بہ تدریج  یہ جدت انتہا پسندی اور مزاح کے نام پر تحقیر و تضحیک تک پہنچ گئی۔مرثیہ گوئی میں بھی نئے نئے تجربے کیے گئے۔ اشیا یا اشخاص کی اوصاف بیانی کے نئے نئے طریقے ایجاد ہوئے۔ زہد اور دین دارانہ رجحانات کی شاعری میں بھی حسبِ تقاضاے وقت کچھ نئے خصائص  و اوصاف پیدا ہوئے۔ قصیدہ گوئی میں بھی بہت سی تبدیلیاں پیدا ہوئیں۔ اس کے علاوہ صنعت و اسلوب،افکار و اظہار،اوزان و قوافی اور مختلف خیالات و تصورات کے بیان کے سلسلے میں شعرا نے مختلف قسم کے اسالیب  پیش کیے۔ذیل میں اس عہد کے چند منتخب شعرا کی تخلیقات کا جائزہ لیا جارہا ہے،جس سے اس دور کی شاعری کے امتیازات  واضح طورپر سامنے آجائیں گے۔

اس عہد کا ایک ممتاز شاعر بشار بن برد بن یرجوخ  (96-168ھ)ہے،یہ فارسی الاصل تھا۔ اس کی پرورش بنو عقیل میں خالص عربی ماحول میں ہوئی، جس کی وجہ سے اس کی زبان فصیح ہوگئی۔ دس سال کی عمر میں ہی اس کی شاعرانہ خوبیاں ظاہر ہونے لگی تھیں، البتہ اس کا ذہن زیادہ ہجویہ شاعری میں چلتا تھا؛ کیونکہ یہ جس ماحول میں رہتا تھا اس میں اسی کا رواج تھا۔ اس کا شمار مخضرمی شعرا میں ہوتا ہے۔ اس نے بنوامیہ و بنوعباس دونوں کادور پایا۔ فنی اعتبار سے اس کی شاعری کو قدر کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے ؛کیونکہ اس نے اپنی شاعری میں زبان و بیان کی بھرپور مہارت کا اظہار کیا۔اسے لفظوں سے کھیلنے کا ہنر آتا تھااور ایک خیال یا معنی کے اظہار کے لیے کئی تعبیرات و اسالیب  پر قدرت رکھتا تھا۔ اسے شاعری کی ہر صنف میں کمال حاصل تھا اور بے ساختہ شعرگوئی کی صلاحیت سے بہرہ ور تھا۔کہتے ہیں کہ وہ فطری شاعر تھا۔ اس کو حیرت ناک حد تک قدرتِ کلام حاصل تھی۔ایک قصیدے میں اپنے قبیلے کی جرأت و بہادری اور دشمنوں سے مقابلے کی بے مثال صلاحیت کو بڑے دلچسپ اور پرشکوہ انداز میں بیان کیا ہے،چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

کَأنَّ مُثارُ النقع فوقَ رؤوسِہم

وأسیافَنا لیلٌ تہاوت کواکبہٗ

بعثنا لہم موتَ الفجائ ۃ إننا

بَنُو المُلۡکِ خَفَّاقٌ عَلَینا سَبَائِبُہ

فراحُوا: فَرِیقا فِی الإسَارِ ومِثلُہٗ

قتِیلٌ ومِثلُ لَاذَ باِلبَحۡرِ ھارِبُہٗ

وأرۡعَنَ یَغۡشَی الشَّمۡسَ لَوۡن حَدیدِہٖ

وَتخَلَسُ أبصاَرَ الکُماۃِ کتائبُہٗ

تغصُّ بہ الارضُ الفضائَ إذا غدا

تزاحَم أرکانَ الجبالِ مَناکِبُہٗ

’’ترجمہ: ان کے سروں پر اڑنے والے غبار اور ہماری تلواریں ایسی تھیں گویا رات کے ستارے ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہے ہوں۔

ہم نے انھیں اچانک جا لیا اور موت کے گھاٹ اتار دیا،ہم ایسے اصحابِ سلطنت ہیں جن کے علم لہراتے رہتے ہیں۔

پس ان میں سے کچھ تو قید کیے گئے اور ایسے ہی کچھ لوگ مارے گئے اور کچھ لوگ بھاگتے ہوئے سمندر کی پناہ میں چلے گئے۔

ہماری فوج ایسی عظیم تھی کہ اس کے ہتھیاروں کی چمک نے سورج کو ڈھانپ لیا تھا اور اس کے جتھوں کو دیکھ کر بڑے بڑے بہادروں کی نگاہیں خیرہ ہوجاتی تھیں۔

جب وہ بڑھی تو اس کی کثرت کی وجہ سے روئے زمین کی کشادگی کم پڑنے لگی اور اس کا دائرہ پہاڑوں کے دامن تک پھیل گیا۔‘‘

قابل غور بات یہ ہے کہ بشار بن برد پیدائشی طورپر اندھا تھا ،مگر اس نے اپنے قبیلے کی فوج، اس کی ظاہری عظمت و شوکت اور پھر میدان جنگ کے احوال کی ایسی تصویر کشی کی ہے کہ لگتا ہے وہ سارا کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ یہ اس کی  شاعرانہ سربرآوردگی  اور غیر معمولی قوتِ بیان کی علامت ہے۔ اس نے جس قسم کے معانی اور خیالات کا اظہار کیا ہے ،اس میں حیرت انگیز تسلسل اور روانی ہے۔ قومی فخر کے اظہار کے لیے جو الفاظ و تعبیرات استعمال کیے ہیں وہ نہایت  خوبصورت ہیں۔ معانی کی وضاحت، منظر کشی کے جمال،الفاظ کی سلاست کے اعتبار سے اس قصیدے کا جواب نہیں اور یہ بلا شبہ عہدِ عباسی کا بہترین شعری نمونہ ہے۔ بشاربن برد  کے سوانح نگاروں کا اتفاق ہے کہ اسے خلیفہ مہدی کے حکم سے 168ھ میں قتل کردیا  گیا۔ اس پر الحاد و زندقہ کا الزام تھا۔

اسی دور کا ایک اہم اور مشہور شاعر ابوالعتاہیہ (130-211ھ)ہے، اس کا نام اسماعیل بن قاسم ابن سوَید ابن کیسان تھا اور کنیت ابو اسحاق تھی۔ ابوالعتاہیہ کے نام سے شہرت پائی جس کے معنی گمراہ کن ، بے عقل و نادان  یا مجنون کے ہیں۔ اس کی پیدائش 130ھ میں عین التمر (عراق ) میں  ہوئی۔  ظاہری شکل و صورت کے اعتبار سے قبیح تھا اور ابتدائی عمر میں عادات و خصائل بھی اچھے نہ تھے، مگر پھر اس کی زندگی زہد و تصوف کی طرف مائل ہوگئی۔اس کا اثر اس کی شاعری پر بھی ہوا؛چنانچہ زیادہ تر زاہدانہ  اور مدحیہ اشعار کہا کرتا تھا۔اس کا اسلوبِ شعری غرابت اور پیچیدگی سے محفوظ ہے۔اس کی شاعری میں مخصوص طرز کی نغمگی پائی جاتی ہے،اس نے عربی شاعری میں کچھ ایسے اوزان بھی متعارف کروائے، جن سے اس وقت تک عربی شاعری نابلد تھی۔ اس نے عربی شاعری کو فنی اعتبار سے ثروت مند بنانے میں اہم رول ادا کیا۔ اس کے ایک مشہور قصیدے کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں، جن میں دنیا کی بے ثباتی اور حیاتِ انسانی کی بے یقینی و ناپائیداری کو دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے،ساتھ ہی بڑے لطیف پیرایے میں اپنے اعمال و افعال پر نظر رکھنے کی تلقین کی  ہے؛کیوں کہ انسان ہر وقت اللہ کی نظروں میں ہوتا ہے اورایک دن  خلوت و جلوت کے تمام اعمال کا حساب دینا ہے:

إذا ما خلوۡتَ الدَّھۡر یَوماً فَلا تَقُل

خَلَوتَ وَلٰکِنۡ قُلۡ عَلَیَّ رَقِیۡبُ

وَلَا تَحۡسَبَنَّ اللّٰہَ یَغۡفُلُ سَاعۃً

وَلَا أنَّ مَا یخفٰی عَلَیۡہِ یغِیب

لَہَونا، لَعَمرُاللّٰہِ، حَتّٰی تَتَابَعَتۡ

ذُنوبٌ عَلٰی آثَارِہِنَّ ذُنُوبُ

فَیَا لَیتَ أَنَّ اللّٰہَ یَغۡفِرُ مَا مَضیٰ

وَیَأذَنُ فِيۡ تَوۡبَاتِنَا فنتُوبُ

اذَا ما مَضَی الۡقَرنُ الذِي کُنتَ فیہِم

وَخُلِّقتَ فِي قَرن فَأنتَ غَریبُ

’’ترجمہ:اگر کبھی تم تنہا ہو تو یہ مت سمجھو کہ تم اکیلے ہو،بلکہ یہ ذہن میں رکھو کہ کوئی تمھیں دیکھ رہا ہے۔

یہ مت سمجھنا کہ اللہ تعالیٰ تھوڑی دیر کے لیے بھی کسی چیز سے غافل ہوتا ہے اور نہ یہ کہ پوشیدہ چیز غائب ہوجاتی ہے۔

بخدا ہم غفلت میں پڑے رہے اور گناہ پر گناہ کرتے رہے۔

کاش کہ اللہ تعالیٰ گزشتہ گناہوں کو معاف کردیتا اور ہمیں توبہ کی توفیق دیتا تو ہم توبہ کرلیتے۔

جب وہ زمانہ گزرجائے جس میں تم تھے اور دوسرے زمانے میں جاؤ تو( ایسا لگے گا کہ) تم اجنبی ہو۔‘‘

اس کی یہ باتیں ہر دور کے انسان کے لیے مفید اور کارگر ہیں۔جن عادتوں کی اس نے تلقین کی ہے وہ آج بھی انسان کی بہتری اور کامیابی کی ضامن ہیں اور ہمیں انفرادی و اجتماعی زندگی میں ان کی ضرورت ہے۔ موضوع کے اعتبار سے اس نے استعارہ کنایہ یا شاعرانہ منظر کشی کے بجائے براہ راست خطاب  کرنے کی کوشش کی ہے اور قدیم حکیمانہ اسلوب میں اظہارِ مدعا کیا ہے۔ اس قسم کے موضوع کے لیے یہ اسلوب اس دور میں بھی مقبول تھا، آج بھی مقبول ہے اور مؤثر بھی ہے، اسی وجہ سے ابوالعتاہیہ زاہدانہ موضوعات کا سب سے بڑا شاعر کہاجاتا ہے۔

عباسی عہد کا ایک بڑا شاعر ابوتمام (192-231ھ) بھی ہے،اس کا پورا نام حبیب بن اوس طائی ہے۔ پیدایش دمشق کے قریب جاسم نامی گاؤں میں ہوئی۔ دمشق میں پرورش پائی اور بچپن سے تعلیم و تعلم کی سرگرمیوں سے وابستہ ہوگیا، جس کی وجہ سے بہت ابتدائی عمر میں اس کی ادبی و علمی صلاحیتیں نکھر کر سامنے آنے لگیں۔ ابتدا میں اس نے مدحیہ اشعار کہنا شروع کیا اور پھر زیادہ تر مدحیہ قصائد ہی کہے۔ نوجوانی کی عمر میں مصر کا سفر کیا،وہاں کے اہلِ علم و ادب کی صحبت اختیار کی اور ان سے سیکھا،کچھ دنوں بعد دمشق واپسی ہوئی ،خلیفہ مامون کے دربار سے وابستہ ہوگیا،روم پر فتح یابی کے بعد اس کی تعریف میں قصیدے کہے۔ پھر مختلف شہروں کے دورے کرتا اور وہاں کے حکمرانوں کے درباروں میں حاضری دیتا رہا۔ چوں کہ عباسی حکمران عموماً خود اہل علم ہوتے تھے اور صاحبان علم و ادب کی قدردانی میں کوئی کمی نہیں کرتے تھے؛ اس لیے ابو تمام جس حکمران کے یہاں جاتا وہاں سے شادکام ہوکر لوٹتا۔ وہ انھیں نوازتے اور اس کے فن کی قدر کرتے۔

اس کی شاعری میں جدت کے وہ نمونے ملتے ہیں، جنھیں بعد میں متنبی اور ابوالعلا معری نے آگے بڑھایا۔ ابوتمام کی شاعری کی خصوصیت معانی و افکار کی گہرائی اور محسناتِ بدیعیہ کابخوبی  استعمال ہے۔ گہرے معانی پیدا کرنے کی کوشش کی وجہ سے بعض دفعہ اس کے یہاں پیچیدگی بھی پیدا ہوجاتی ہے۔ دورِ آخر کی شاعری میں  اس پر فلسفیانہ رجحان بھی غالب نظر آتا ہے۔ اس کا ایک مشہور قصیدہ ہے ، جس میں ابوتمام نے معتصم کی بہادری کی تعریف کی ہے اور رومیوں پر اس کی فتح پر مبارکباد پیش کی ہے۔ جب معتصم جنگ پر جانے کی تیاری کر رہا تھا تو نجومیوں نے اسے بتایا کہ علم نجوم کے اعتبار سے ابھی یہ جنگ مناسب نہیں ہے اور آپ اس وقت رومیوں پر حملہ نہ کریں،مگرمعتصم نے اپنے دیگر مشیروں کے کہنے پر جنگ کا فیصلہ کیا اور اس جنگ میں اسے فتح بھی ملی۔ ابوتمام نے اسی واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان اشعار میں کہاہے کہ جنگ لڑنے کے لیے طاقت و قوت اور ہتھیار کی ضرورت ہوتی ہے،جھوٹے علم اور پیش گوئیوں کے چکر میں نہیں پڑنا چاہیے۔ اگر آپ طاقتور ہیں اور آپ کے پاس ہتھیارِجنگ موجود ہیں تو بس آپ کو اپنے اوپر اعتماد کرتے ہوئے میدان جنگ کی طرف نکل پڑنا چاہیے،وہم و گمان پر مبنی کسی علم پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔چند اشعار دیکھیں:

اَلسَّیفُ أَصدقُ أَنبائً مِنَ الکُتُبِ

فِي حَدِّہِ الحَدُّ بَیۡنَ الجِدِّ وَاللَّعِبِ

بِیضُ الصَّفَائِحِ لاسُودُ الصَّحائِفِ فِي

مُتُوۡنِہِنَّ جَلائُ الشَّکِّ وَالرِّیَبِ

وَالعِلۡمُ فِي شُہُبِ الأرۡمَاحِ لَامِعَۃً

بَینَ الۡخَمِیسَیۡنِ لَا فِي السَّبۡعَۃِ الشُہُبِ

لَوۡ بَیَّنَتۡ قَطُّ أَمراً قَبۡلَ مَوقِعِہِ

لَمُ تُخۡفِ مَا حَلَّ بِالأَوۡثَانِ وَالصُّلُبِ

فَتحُ الفُتُوحِ تَعالٰی أَن یُحِیۡطَ بِہِ

نَظمٌ مِنَ الشِّعرِ أو نَثرٌ مِنَ الۡخُطَبِ

’’ترجمہ: تلوار کتاب سے زیادہ سچی خبر دیتی ہے،اس کی دھار حقیقت اور مذاق کو ایک دوسرے سے ممتاز کردیتی ہے۔

کالے نہیں،سفید صفحات کے متون شک و ارتیاب کو دور کرتے ہیں۔

صحیح علم تو افواج کے درمیان چمکنے والے نیزوں سے حاصل ہوتا ہے نہ کہ سات ستاروں سے۔

اگر یہ ستارے ہونے سے پہلے کسی واقعے کی سچی خبر دے سکتے تو وہ صلیب اور بتوں کے ساتھ ہونے والے واقعے کے بارے میں بھی بتادیتے۔

یہ اتنی عظیم فتح ہے کہ اس کا نظم یا نثر میں احاطہ نہیں کیا جاسکتا۔‘‘

ابن الرومی بھی عہد عباسی کا بہترین شاعر ہے۔ اس کی پیدایش 221ھ میں ہوئی اور وفات 283ھ میں ہوئی۔ اس کا شمار عباسی دور کے تیسرے طبقے کے شعرا میں ہوتا ہے جس میں ابوتمام،بحتری اور ابن المعتز وغیرہ کا شمار ہوتا ہے۔ اس طبقے کی خصوصیت شعرکی فنی خوبیوں پر توجہ دینے کے ساتھ معنوی گیرائی اور خیال کی گہرائی کا اہتمام بھی ہے، جو ابن الرومی کے یہاں بھی پائی جاتی ہے۔ اسے ہجوگوئی،طنز،مرثیہ،وصف بیانی وغیرہ میں کمال حاصل تھا۔ اپنے بیٹے کی وفات پر اس نے جو مرثیہ کہا تھا وہ آج بھی بہترین مرثیہ مانا جاتا ہے۔چند اشعار ملاحظہ فرمائیں         ؎

بکاؤکُما یشۡفِي وإن کان لا یُجۡدي

فجُودا فقد أوۡدَی نظیر کُمُا عندي

بُنَيَّ الَّذي أھۡدَتۡہُ کفَّايَ للثَّرََی

فَیَا عِزَّۃَ المُہَدَی ویا حَسۡرۃ المُہدِي

ألا قَاتَلَ اللّٰہُ المَنایا وَرَمۡیہَا

منَ القَومِ حَبَّات القُلوب علی عَمۡدِ

تَوَخَّی حِمَامُ الموتِ أَوۡسَطَ صِبۡیَتي

فللّٰہ کیفَ اخۡتار وَاسطَۃَ العِقۡدِ

علی حین شمۡتُ الخیۡرَ من لَمَحاتِہِ

وآنَسۡتُ مِن أَفۡعالہ آیۃَ الرُّشدِ

’’ترجمہ:تم دونوں(آنکھوں)کا رونا شفا بخش ہے،گرچہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے،پس تم دونوں خوب روؤ ؛کیوں کہ میرے پاس سے تم دونوں سے زیادہ قیمتی چیز کھوگئی ہے۔

میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے عزیز بیٹے کو مٹی کے حوالے کیا ہے، کتنا عزیز تھا وہ جسے میں  نے مٹی کے سپرد کیا اور کتنا حسرت زدہ ہے انھیں مٹی کے سپرد کرنے والا(یعنی میں)۔

اللہ موت کو اور اس کے نشانے کو تباہ کرے،جو لوگوں سے ان کے دل کے ٹکڑوں کو جان بوجھ کر چھین لیتی ہے۔

موت میرے بیچ والے بیٹے کو لے گئی،حیرت ہے کہ اس نے میرے بیٹوں میں سے سب سے محبوب کا انتخاب کیا۔

وہ بھی ایسے وقت میں جب مجھے اس کی نظروں میں خیر اور اس کے اعمال و افعال میں راستی اور افادیت کی علامتیں نظر آنے لگی تھیں۔‘‘

ابوالطیب متنبی بھی عباسی دور کا مشہور و معروف شاعر ہے اور اس کی شہرت کا سورج آج تک پوری آب و تاب کے ساتھ روشن ہے۔ اس کا پورا نام احمد بن حسین ہے اور متنبی لقب ہے۔ پیدائش 303ھ میں کوفے میں ہوئی وہیں اس نے تعلیم و تربیت حاصل کی۔ بچپن سے طلب علم کا شوق تھا،اہل علم کی مجلسوں میں بیٹھا کرتا اور علما کے حلقوں میں شریک ہوتا ،جس سے اسے کافی فائدہ ہوا اور ابتدائی عمر میں ہی اس کی ادبی صلاحیتیں نمایاں ہونے لگیں۔اس کی طبیعت تجسس پسند تھی اور ایک جگہ ٹھہر کر رہنا نہ جانتا تھا،کبھی دیہات میں رہتا اور کبھی شہر کے سفر پر نکل پڑتا۔اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اسے شہر سے نئی تہذیبی و ثقافتی قدریں ملیں اور دیہات سے زبان و بیان کی صحت و صلابت حاصل ہوئی۔

متنبی نے شاعری مکتب کی طالب علمی کے دور میں ہی شروع کردی تھی جس کی وجہ سے سن بلوغ تک پہنچتے پہنچتے اس کے کلام میں پختگی کے آثار پیدا ہونے لگے تھے۔ اپنی شاعری میں وہ کوفے میں موجود اہل علم اور صاحبِ اثر لوگوں کی تعریفیں کیا کرتا تھا، جو بعد میں اس کی شاعری کی پہچان بن گئی۔ مختلف شہروں میں پھرتے پھراتے وہ سیف الدولہ کے دربار میں پہنچا اور وہاں اسے خاصی پذیرائی اور مقبولیت حاصل ہوئی۔بانیِ امارتِ حلب  سیف الدولہ نے اسے عزت و احترام کے ساتھ مال و منال سے بھی نوازا اور اسے اپنی محفلوں میں خاص اہمیت دینے لگا، جس کی وجہ سے پہلے سے موجود اس کے حاشیہ نشینوں میں متنبی کے تئیں حسد اور جلن بھی پیدا ہوگئی اور اس کے خلاف سازشیں کی جانے لگیں؛ چنانچہ عاجز آکر اس نے حلب کو خیر باد کہا اور مصر کی طرف نکل پڑا۔ وہاں کا والی کافور اخشیدی تھا،متنبی نے اس کی خوب تعریفیں کیں ،اسے توقع تھی کہ اخشیدی اسے کوئی بڑا عہدہ دے گا،مگر اخشیدی نے توقع کے مطابق اس کی آؤ بھگت نہ کی، جس کے نتیجے میں متنبی نے اس کے خلاف بڑے سخت ہجویہ اشعار کہے اور وہاں سے چل نکلا۔ 453 ھ میں اسے فاتک اسدی نے قتل کردیا۔ وہ فارس سے کوفہ لوٹ رہا تھا۔ اس سفر میں اس کے ساتھ اس کا بیٹا اور کچھ دوسرے لوگ بھی تھے۔

متنبی عربی زبان کے عظیم ترین شعرا میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کی شاعری کئی صدیاں گزرنے کے بعد آج بھی اہل ادب و نقد کے یہاں بے پناہ قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ اس نے بہت ہی خوب صورت مدحیہ اور فخریہ اشعار کہے ہیں۔ اس کی ہجویہ شاعری میں غیر معمولی سختی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وہ جس کی ہجو کررہا ہے اس کی جان ہی لے کر چھوڑے گا۔ اس کے وہ اشعار سب سے زیادہ قابل توجہ اور بہترین ہیں، جن میں اس نے اپنی زندگی کے تجربات، مشاہدات اور مطالعات کی روشنی میں حکمت و دانش سے بھری باتیں کی ہیں۔ اس کے ایسے اشعار میں غیر معمولی حسن و جمال ہے اور انھیں پڑھ کر قاری بہت زیادہ متاثر ہوتا ہے۔پڑھنے والے کو اکثر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا اس نے میرے دل کی بات کہہ دی ہے۔اس کا ایک مشہور قصیدہ ہے جس میں سیف الدولہ کی تعریفیں کی ہیں،مگر اس قصیدے کے بہت سے اشعار عام انسانی زندگی اور اس کے احوال و کیفیات کی بھی خوب صورت ترجمانی کرتے ہیں،چند اشعار دیکھیے          ؎

عَلی قَدرِ أہلِ العَزمِ تَاتِي العَزَائِمُ

وَتَأتي عَلی قَدرِ الۡکِرَامِ المکارِمُ

وَتَعۡظُمُ فِي عَیۡنِ الصَّغِیۡرِ صِغَارُہَا

وَتَصغُرُ فِي عَینِ العَظِیۡمِ العَظَائِمُ

یُکَلِّفُ سَیفُ الدَّوۡلَۃِ الجَیۡشَ ہَمَّہٗ

وَقَد عَجِزَتۡ عَنۡہُ الجُیُوشُ الخَضَارِمُ

وَیطلَبُ عِندَ النَّاسِ ما عِنۡدَ نَفۡسِہِ

وَذٰلِکَ مالا تَدَّعیہِ الضَّراغِمُ

یُفدِّي أَتَمُّ الطَیرِ عُمۡراً سِلاحَہٗ

نُسُور المَلاَ أَحداثُہا وَالقَشَاعِمُ

ترجمہ:انسان  کا عزم جتنا بڑا ہوتا ہے وہ اسی قدر بڑے اہداف حاصل کرتا ہے اور جو جتنا شریف النفس ہوتا،اس کے اندر اسی قدر اچھائیاں پائی جاتی ہیں۔

چھوٹے اور کم ہمت لوگوں کو معمولی چیزیں بھی بڑی معلوم ہوتی ہیں،جبکہ بڑے اور باہمت لوگوں کو بڑی مہمات بھی حقیر معلوم ہوتی ہیں۔

سیف الدولہ اپنی فوج میں وہ عزم و حوصلہ پیدا کرنا چاہتے ہیں جس سے وہ خود متصف ہیں اور ایسا عزم و حوصلہ تو بڑی بڑی افواج میں بھی نہیں پایاجاتا۔

وہ چاہتے ہیں کہ جیسی شجاعت و بہادری ان کے اندر پائی جاتی ہے،وہی اور لوگوں میں بھی پائی جائے،مگر یہ تو شیروں میں بھی ناپید ہے۔

عمردراز اور نوجوان گدھ ان کے ہتھیاروں پر اپنی عمریں نچھاور کرنے کو تیار رہتے ہیں۔

 ان اشعار میں الفاظ کی سلاست،تراکیب کی خوب صورتی اور سادگی اور معانی کی گہرائی و گیرائی یہ سارے اوصاف بہ تمام و کمال پائے جاتے ہیں اور یہی متنبی کا امتیاز ہے۔

 

Md. Nayab Hasan

A-22, Seema Apts.

Gali No.: 7, Batla House

New Delhi - 110025

Mob.: 70110797777

Email.: nh912823@gmail.com

 





1 تبصرہ:

  1. مضمون کے جستہ جستہ حصوں پر نظر پڑی، معلوم ہوا کہ صاحب مضمون نے عرق ریزی سے کام لیا ہے کئی ایک جگہ کچھ کھٹک پیدا ہوئی، شاید فاضل مضمون نگار اسے دور کریں، ان میں سے ایک ہے أسلوب مولد کی تفہیم : غرابت وابتذال کے بیچ کا أسلوب ہے، یہ مفہوم سمجھ سے بالاتر ہے

    جواب دیںحذف کریں