8/12/21

ہندوستانی معاشرے میں ‘عورت ’سے منسوب محاورات اور کہاوتیں - مضمون نگار: فردوس انجم شیخ آصف

 



 

ہندوستانی معاشرے کا نا م آتے ہی ہماری آنکھوں کے سامنے ممتاز ملی جلی تہذیب و ثقافت کا ایک رنگین چمن کھلتا اور خندۂ گل کی طرح مہکتا نظر آتا ہے۔ اس چمن کو کھلتا اور مہکتا بنانے میں یہاں کے بھانت بھانت کے لوگ برابر شریک ہیں اور ان کے اظہارِ خیال کا ذریعہ زبان جو انسان کے سماجی عمل کا ایک نتیجہ ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد سے یہاں کی سماجی زندگی جو ایک طویل عرصے سے کسی نمایاں تبدیلی سے دوچار نہیں ہوئی تھی ایک نئی راہ پر چل پڑی، موسیقی، مصّوری اور تصّوف کی طرح زبانوں نے بھی اسلامی تمدّن کے اثرات قبول کیے، اور مشترکہ تہذیبی اقدار کی طرح زبانوں میں بھی نمایاں خصوصیات پیدا ہوگئیں۔ نتیجتاً اس مشترکہ تہذیب کی امین اردو زبان وجود میں آئی۔

اردو زبان کی خوبی اس کی سلاست، عام فہمی، نرمی، موزونی، چھوٹے چھوٹے الفاظ اور بڑے بڑے مطالب پر موقوف ہے۔ اس میں محاورات اور کہاوتیں وہ ننھے مرقع ہیں جو کسی سماج کے تجربات ، تصورات اور تاثرات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ہندوستانی سماج میں آج اردو زبان کی اصلاح کے بعد جو قدیم لب و لہجے کی گونج ہمیں سنائی دیتی ہے ، اس کا سہرا مردوں سے زیادہ عورتوں کے سرَ ہے۔ کیونکہ عورتیں زبان کے معاملے میں قدامت پسند ہوتی ہیں۔ عورتوں کی نمایاں خصوصیات انتخاب ِ الفاظ کے سلسلے میں یہ ہے کہ وہ کریہہ الفاظ کی جگہ لطیف الفاظ استعمال کرتی ہیں۔ دوسری نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ عورتیں جنسیات سے متعلق باتیں واضح الفاظ میں کہنے کے بجائے اشارے کنائے میں بیان کرتی ہیں۔ مثلاً  میلے سر سے ہونا، گود میں پھول چھڑنا، دوجیاں ہونا،  جیسے متعدد محاورے عورتوں نے مختلف کیفیات کو ظاہر کر نے کے لیے ہیں جن کا چلن آج بھی ہے۔

زبان سے ملک کا سکّہ ہے عورت

 انوکھا ہے چلن سارے جہاں سے

زبان کا فیصلہ ہے عورتوں پر

یہ باتیں مردوئے لائیں کہاں سے

 (  اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ،  ڈاکٹر عشرت جہاں ہاشمی، ص 40)

عورتیں نئی نئی اصطلاحیں ، محاورے وضع کر لیتی ہیں جن میں اکثر خوش آواز ، مترنم اور پر لطف، ہوتے ہیں۔ اس لیے ہر زبان کی لغت میں ایک ایسی فرہنگ موجود ہوتی ہے جو عورتوں کی بول چال کے لیے مخصوص ہے۔ مردوں کی گفتگوں میں اس طرح کے الفاظ شاید ہی ملیں گے۔ اردو نثر میں عورتوں کی بول چال کم و بیش طلسم ہوش ربا، باغ و بہار اور دیگر نثری داستانوں میں گو یا سمٹ آئی ہے۔ عورتوں سے ماخوذ محاورات اور کہاوتوں پر نظر ڈالے تو آنکھوں کے سامنے رمز و کنائے کا ایک رنگین گلستاں نظر آئے گا۔ خواتین سے متعلق محاوروں کو انھیں مضمون میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

٭ ابلا سُبلا، اُبالا سُبالا۔۔۔یعنی بے ذائقہ چیز۔  ابلا سبلا ایسے موقع پر بولا جا تا ہے جب کسی عورت کو اچھا سالن بنا نا نہیں آتا، اس سے ہم اس گھریلوں ماحول کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جہاں ایک عورت کی کھانا پکانے کی صلاحیت میں گھر کے حالات کا عکس موجود ہوتا ہے۔

٭ابلا پری ، ابلا رانی ہونا۔۔۔بہت خوبصورت ہونا۔ قدیم ہندوستان میں ’ پریوں ‘ کا تصور نہیں تھا۔ اسی لیے ’ ابلا رانی ‘ کہا جا تا تھا۔ لیکن جب فارسی کے ذریعے ’ پری ‘ کا تصّور آیا تو ’ ابلا پری ‘ کہا جانے لگا۔ اسی طرح ہندی میں ’ ابلا ناری ‘ رائج ہے۔ ان سب سے مراد حسین عورت ہے جسے ’ پری چہرہ ‘ بھی کہتے ہیں۔ اس ضمن میں حضرت امیر خسرؔـو کا مشہور فارسی شعر ہے ۔

  پری پیکر، نگار سروقدے، لالہ رخسارے

  سراپہ آفتِ دل بود، شبِ جائے من بودم

(  اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ، ڈاکٹر عشرت جہاں ہاشمی، ص ؍ 53 )

 ٭اپنی ایڑی دیکھو۔۔۔ایڑی پائوں کا پچھلا اور نچلہ حصّہ ہوتا ہے۔ جسے ہماری نظر کم دیکھ پاتی ہے، اس معنی میں ایڑی ایسی چیزوں کی طرف اشارہ ہے جن کو انسان نہیں دیکھتا۔ اسی لیے عورتیں اپنی مخالف عورت سے کہتی ہیں کہ مجھے کیا کہہ رہی ،  ٌ  اپنی ایڑی دیکھ ۔

٭ اپنی گڑیاں آپ سنوارنا۔۔۔ قدیم معاشرے میں لڑکیوں کو پڑھانے لکھانے کا رواج نہیں تھا۔ اس لیے گڑیوں کے کھیل کے ذریعے بچّیوں کو گھر گرہستی کے بہت سے کام سیکھائے جاتے تھے۔ اس طرح اس سے منسوب باتیںمعلوم ہو جاتی تھیں ۔ جیسے، اپنی گڑیاں سنوار نا، اپنی گھر گرہستی کو بہتر بنانا، اپنی بچّیوں کی دیکھ بھال کرنا، ان کو سلیقہ سکھلانا وغیرہ ۔ گڑیوں کا بیاہ، گڑیوں کا کھیل ، اسی نہج کے محاورے ہیں۔

٭ اجلی سمجھ، اجلی طبیعت۔۔۔ اجلی طبیعت عورتوں کی خاص طرح کی سوجھ بوجھ اور عقل و دانش کو کہتے ہیں۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ اندھیرا یا اجالے کا تعلق صرف صبح و شام یا دن رات کی تبدیلی سے نہیں بلکہ انسانی ذہن، فطرت، سوجھ بوجھ اور ناسمجھی سے بھی ہے۔

٭ اللہ ماری یا خدا ماری۔۔۔ یہ خالص عورتوں سے متعلق محاورہ ہے اس محاورے کو عورتیں اس وقت بولتی ہیں جب وہ نگوڑا اور مُوا وغیرہ الفاظ بولتی ہیں۔

٭ آبخورے بھرنا۔۔۔عورتوں میں اکثر یہ خاصیت ہوتی ہیں کہ وہ منتیں مانتی ہیں ، اپنے بچوں کے لیے، رشتہ داروں کے لیے، میاں کی کمائی کے لیے ، اور ایسی ہی دوسری باتوں کے لیے، ۔۔ کہتی ہیں کہ اے اللہ اگر میری یہ دعا قبول ہو گئی تو میں دودھ یا شربت سے آبخورے بھردوں گی۔

٭ آکھ کی بڑھیا۔۔۔ ہمارے معاشرے میں بوڑھی عورت اپنے سفید بالوں کے ساتھ بچوں اور بڑوں کو کسی نہ کسی خاص معنی میں متاثر کرتی ہے۔ خاص کر تلخ مزاج بڑھیا کو آکھ کی بڑھیا کہتے ہیں۔

٭پائوں میں مہندی لگا  ہونا یا لگنا۔۔۔عورتوں کا محاورہ ہے۔ عورتیں جب مہندی لگاتی ہیںتو مہندی لگے پیروں سے کہی آنا جا نا ممکن نہیں ہوتا اسی لیے طعنہ یا طنز کے طور پر کہا جا تا ہے کہ ایسا بھی کیا ہے کہ آپ نہیں آسکتے ، کیا پیروں میں مہندی لگی ہے۔ ایک طرح کا شکوہ کیا جا تا ہے۔

٭ چمک چاندنی۔۔۔ایسی عورت کو کہا جا تا ہے جو بہت چمک دمک سے رہتی ہے اور غیر ضروری طور پر سنگار کر تی ہے۔

٭ چولی دامن کا ساتھ۔۔۔ گھر کی بزرگ عورتیں بہو، بیٹیوں کو  دعا ( آشرواد) کے طور پر استعمال کرتی ہیں کہ تمھارا چولی دامن کا ساتھ رہے۔مطلب بیوی اور شوہر کا ساتھ چولی اور دامن کی طرح ہمیشہ رہے۔

٭ چھوئی موئی۔۔۔ایسی لڑکیوں یا عورتوں پر طنز ہیں جو بہت نازک مزاج ہوتی ہیں ۔ جو ذرا ذرا سی بات پر برا مان جاتی ہیں۔

٭ سیج چڑھنا۔۔۔ ہماری تہذیب میں لڑکی پیدا ہوتے ہی اس کی شادی کی فکر کرنا شروع ہو جاتی ہے۔ اس میں بوڑھی عورتیں اوّل رہتی ہیں ۔ان کی زبان پر ہمیشہ یہ کلمات رہتے ہی ہیں  فلاں کی بچّی جلدی سیج چڑھ جائے ، مطلب یہ کے شادی جلدی ہو جائیں۔

٭ کنگھی چوٹی۔۔۔بنائو سنگھار ، زیبائش آرائش جو عورتوں کا شوق اور ان کی ضرورت ہوتی ہے، اسی کو ’کنگھی چوٹی ‘ کہتے ہیں۔ اس کا تعلق خاص ہندوستانی معاشرے سے ہے۔

٭ گھونگھٹ کھولنا ، گھونگھٹ اٹھانا۔۔۔ہندوستانی تہذیب میں جب عورتیں شادی کے بعد اپنی سسرال جاتی تھیں تو دلھن کے چہرے پر ایک لمبا سا خوبصورت دوپٹّہ پڑا رہتا تھا۔ یہ دوپٹّہ منھ دکھائی کی رسم کے موقع پر اٹھایا جا تا تھا( یہ رسم آج بھی رائج ہے) ۔ دولھا جب اپنی دلھن کو پہلی مرتبہ دیکھتا ہے تو۔ اسے ’گھونگھٹ اٹھا نا ‘ کہتے ہیں۔

٭لٹوریوں والی۔۔۔ ایسی عورت یا لڑکی جس کے بال کھلے رہیں اور لٹوں کی شکل میں بکھرے رہیں۔ اسے لٹوریوں والی کہا جا تا ہے۔ اس سے لڑکی کا لا ابالی پن مقصود ہے نا کہ طنز یا نا پسندیدگی۔

٭  مرد کی صورت نہ دیکھنا۔۔۔جو عورت یا لڑکی انتہائی پاکیزہ کردار ہوتی ہے اس عورت کے لیے کہا جا تا ہے کہ فلاں نے ’ مرد کی صورت بھی نہیں  دیکھی ۔‘  (  یہاں مرد سے مراد شوہر ہے )  ورنہ مرد باپ اور بھائی بھی ہوسکتے ہیں۔

   کہاوتیں:

٭  دام کرے کام ، بی بی کرے سلام۔۔۔ ہندوستانی سماج میں عورت مرد کی تابعدار ہو کر رہ گئی اور معاشی اعتبار سے بھی اسے مردوں کی دست نگر ہونا پڑا۔ لیکن سماج نے اس کی مجبوری اور بے بسی کو سمجھنے کے بجائے اس کی معاشی حالت کا مذاق اڑایا اور  ’ دام کرے کام، بی بی کرے سلام ‘ کہہ کر اس پر طنز کیا۔

٭ کمائے ایک سو دس، ساس نند کو چھوڑدو ہمیں تمہیں بس ۔۔ جو عورتیں اپنے میاں کو لے کر گھر سے الگ ہو جاتی ہیں اسے اس کہاوت کے ذریعے بتایا گیا ہے۔

٭ ماں ٹٹولے پیٹ، بیوی ٹٹولے پھینٹ۔۔۔ مرد جب دن بھر کا تھکا ہارا گھر لوٹتا ہے تو ماں کو یہ فکر ہو تی ہے کہ بیٹے نے کچھ کھا یا کہ نہیں، اور بیوی کو یہ فکر ہوتی ہے کہ مرد نے کچھ کمایا کہ نہیں۔

٭ اونٹ کی پکڑ اور عورت کی مکر سے خدا بچائے۔۔ سماج میں ایسے بہت سے مرد ہیں جن کو اپنی بیوی میں کھوٹ نظر آتی ہے۔ کیوں کہ وہ اس کے معیار پر پوری نہیں اترتیں۔ اسی طرح بیوی بھی اپنے منصب اور ماحول کے مطابق کبھی حکمتِ عملی ، کبھی چالاکی، اور کبھی نر می گرمی سے کام لیتی ہے۔ اس کے اس طرزِ عمل کو مکر سے تعبیر کیا گیا ہے۔

 ٭ تم کاٹو ناک یا کان، میں نہ چھوڑوں اپنی بان۔۔۔عورت جتنی سمجھ بوجھ رکھتی ہے اتنی ہی اس کی ضد اور ہٹ دھرمی بھی مشہور ہے۔ اس کہاوت میں عورت کے مزاج کی ترجمانی خود اس کی زبانی کی گئی ہے۔

٭ ’  جسے پیا چاہیں وہ سہاگن ۔‘ ہندوستانی معاشرے میں عورت کا وجود مرد کے بغیر ادھورا ہے۔ عورت معاشرے میں اسی وقت عزّت پاتی ہے جب وہ اپنے مرد کی توجہ اور محبت سے سرخ رَو ہو۔

٭  ’ تریا روئے پرکھ بنا، کھیتی روئے ہرک بنا ۔۔۔ٌ  مرد اور عورت کے رشتے کی ترجمانی اس کہاوت میں ملتی ہے جس طرح ساون بنا کھیتی سوکھی ہے، اسی طرح مرد بنا عورت۔پھر چاہے وہ مرد کام چور ، نکھٹّو، تیز مزاج ہی کیوں نہ ہو۔ اس کے بنا عورت کی زندگی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے کہا گیا ہے کہ ’  سونی سیج سے مرکھنا بیل اچھا۔

 ٭ تین دن قبر میں بھی بھاری ہوتے ہیں۔۔۔عورت کو اپنے بے آبرو ہونے کا خطرہ قبر میں بھی ہوتا ہے۔

٭ بانجھ اچھی اکو انجھ بری۔۔ اکلوتی اولاد اگر نالائق ، نکمّی، نکل جائے تو وہ مستقل عذاب بن جا تی ہے۔ اس لیے کہا جا تا ہے کہ عورت بانجھ رہے تو اچھا ہے۔

٭    بیوی کو باندی کہو، ہنس دے

       باندی کو باندی کہو، جل مرے

    ہماری تہذیب میں عورت کو بہت صابر و شاکر بتا یا گیا ہے۔ مرد عورت کو جو چاہے کہہ لے وہ برا نہیں مانتی ، اگر گالی بھی دے دے تو بیوی ہنس کر ٹا ل دیتی ہے۔ وہی اگر باندی کو باندی کہا جائے تو وہ برا مان جاتی ہے۔

٭پھوہڑ چلے سو گھر ہلے۔۔۔ٌ جو عورتیں پیر پٹک کر چلتی ہیں ان کی چال ڈھال سے پھوہڑ پن نظر آتا ہے۔

    ہندوستانی معاشرے میںعورت بیٹی، بیوی، ماں ان منزلوں سے گذرتی ہے۔ ان منزلوں سے گزرتے ہوئے ا سے کئی طرح کے طعنے دیے جا تے ہیں۔ جیسے جب تک بہو گھر میں بیاہ کر کے نہیں آجاتی اس کی ہر بات ساس کو اچھی لگتی ہے۔ کیونکہ وہ اس کا چنائو ہوتی ہے، لیکن جب وہ گھر میں اور اس کے معاملات میں دخیل ہو جاتی ہے تو ساس کو اس میں سوَ برائیاں نظر آتی ہے۔

٭ بہو رہی کنواری ،ساس گئی واری

     بہو آئی بیاہی ،  پڑگئی خواری

٭ بیاہی لڑکی پڑوسن داخل۔۔۔ ہماری تہذیب میں جب لڑکی بیاہی جاتی ہے تو وہ ماں باپ کے لیے پرائی بن جاتی ہے۔ یہ ہندوستانی سماج کا ایک پہلو ہے۔

٭ دھی سے کہے، بہو نے کان کئے۔۔  ساس اور بہو کے رشتے کو زمانئہ قدیم سے ہی بڑی اہمیت حاصل ہے۔ دونوں کے درمیان رسا کشی رہتی ہے ۔ جب ساس بہو کی بجائے بیٹی کو شاکر مان کر بہو پر تنقید کرتی ہے ، تو بہو بہت محتاط ہو جاتی ہے۔ اس کی اس حالت کو بیان کیا گیا ہے۔ اسی طرح بہو کے گھر والے جب جہیز نہیں دیتے تو یہ طنز کیا جا تا ہے، 

 پھلّی لگی نہ پاپڑی، ٹپاک بہو آ پڑی  ’ بہو بیچاری کو ساس کے ساتھ سات نند کے بھی طعنے سننا پڑتے ہیں ، لیکن جب پانی سر سے اوپر ہوجاتا ہے تب بھابھی  نند کو روکتے ہوئے کہتی ہے،  مت کر نند برائی، تو بھی کسی کی بھوجائی۔

٭ چار دن ساس کے تو چار دن بہو کے۔۔  ساس کی عمر جب ڈھل جاتی ہے اور وہ ہر بات کے لیے بہو پر منحصر ہو تی ہے ، تب   ٌ چار دن ساس کے اور چار دن بہو کے کہا جا تا ہے۔ اتنا ہی نہیں ، ’ ساس کا اوڑھنا ، بہو کا بچھو نا ‘ بن جاتا ہے۔

  اس کے علاوہ’ مائی جی کی تھان کھیلے چوگان‘ ، ’ بڑی بہو نے نکالے کار، وہی اترے پارم پار‘ ، لڑی فوج ، نام سردار کا ، گھی کرے کام بڑی بہو کا نام ، ساس نہ نندی آپ ہی آنندی ، آنکھ میں تھی شرم ، دل کی تھی نرم ، آنکھ نہ ناک  بنّو چاند کی سی ، آئیں بیوی عاقلہ ، سب کاموں میں داخلہ ، اب ستونتی ہو کر بیٹھی لوٹ کھایا سنسار ، ’ البیلی نے پکائے کھیر، دودھ کی جگہ ڈالا نیر ‘ ، ’بڈّھی گھوڑی لال لگام ‘ ، ’ بیوی خیلا، ایک اجلا ایک میلا ‘ ، ’ بھیڑ کی لات کیا، عورت کی بات کیا ‘ ، ’ اٹھوچندہ تجھے وہی دھندا ‘ ، ’ تو بھی رانی میں بھی رانی، کون بھرے پنگھٹ پر پانی ‘ وغیرہ عورت سے منسوب محاورات اور کہاوتیں اردو زبان میں ہی نہیں بلکہ دنیا کی ہر زبان میں یہ موجود ہیں جن سے ادب معطر ہو رہا ہے۔


 

Mr. Firdaus Anjum Shaikh Aasif

K.G.N Dairy,  Ward No. 6

Iqbal Nagar

Buldhana-443001  (Maharashtra)

Mobile: 9960922510




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں