9/12/21

شہزادی کلثوم:راجستھان کی ایک شاعرہ - مضمون نگار : مسرت پروین

 




راجستھان کے شعر و ادب میں خواتین نے بھی وقتاً فوقتاً اپنی موجودگی درج کرائی ہے۔ صالحہ بیگم پروین (جے پور، 1866۔ 1944)راجستھان کی پہلی صاحب دیوان شاعرہ ہیں۔ان کا دیوان 1915 میں جے پور کے مطبع سراج الفیض سے شائع ہوا تھا۔پروین کی ہی ہم عصر ایک اور شاعر تھیں’’شہزادی کلثوم‘‘۔جو 1928 میں جے پور میں پیدا ہوئیں اور1949 میں صرف بیس سال کی عمر میں شری نگر ،کشمیر میں انتقال کیا۔اس شاعرہ کا کلام اس کی زندگی میں شائع نہ ہو سکاتھا۔

کلثوم کے انتقال کے بعد ان کے بھائی اکبر جے پوری نے 1963 میں ان کا مجموعۂ کلام ’’یادگار کلثوم‘‘کے نام سے 1963 میں نذیر جان پبلی کیشنز، بابا پورہ، سری نگرسے شائع کیا۔پروین کے بعد شہزادی کلثوم دوسری صاحبِ دیوان شاعرہ ہیں۔راجستھان کے لوگ اس مجموعہ سے واقف نہیں تھے۔اس مجموعہ سے سب سے پہلے شاہد احمد جمالی نے 1914 میں اپنی کتاب’’چند شاعراتِ راجستھان‘‘کے ذریعہ متعارف کرایا۔نہ صرف متعارف کرایا بلکہ کلثوم کے کلام کا نمو نہ اور اس کے حالات زندگی بھی درج کیے۔تب راجستھان کے اہل قلم حضرات کو پتہ چلا کہ جے پور میں ایک کمسن شاعرہ ایسی بھی ہوئی ہے جس نے،آزادی کے گیت گنگنائے،سلام،نوحہ،غزل،اور نظم پر بھی طبع آزمائی کی ہے۔

کلثوم جے پور میں ایک تعلیم یافتہ گھرانے میں 1928 میں پیدا ہوئیں۔ آپ کے والد سید علی کشمیری اہل سادات کے دیندار بزرگ تھے۔دستور کے مطابق آپ کی تعلیم و تربیت ہوئی۔

اس زمانے میں ہندوستان کے حالات ہنگامی تھے۔ ہر جگہ ایک تحریک تھی اور انگریزی حکمرانوں کے خلاف عوام میں غم و غصہ تھا۔ 1938 میں کل ہند خاکساروں کااجتماع جے پور میں منعقد ہواتھا۔ اس وقت کلثوم صرف10 سال کی تھیں لیکن اس اجتماع کو انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھااورتقاریر سنی تھیں۔ یہیں سے ان کے ذہن میں قومی جذبہ نے سر ابھارا اور قوم کے تعمیری مستقبل کاخواب دیکھنے لگیں۔ جلد ہی ان کے اندر چھپی ہوئی شاعرہ باہر آگئی۔ نہایت موزوں شعرکہنے لگیں۔ 18 سال کی عمر تک آتے آتے بہت سی غزلیں ۔سلام ،منقبت ،مرثیے ،نظمیں لکھ ڈالیں۔ ان کی شاعری میںجابجا قوم کی ترقی کاجذبہ نظرآتاہے۔

1947 میں آپ بیمار ہوئیں ۔ جب طبیعت سنبھل نہ سکی تو کشمیر کے شہر شری نگر اپنے بھائی کے ہمراہ چلی گئیں ۔ یہ شہر آپ کے بزرگوں کا قدیم شہر ہے ۔ یہاں کی آب و ہوا میں معمولی راحت ملی ۔ دوسال کے اندر بیماری کی ہی حالت میں عین عالم شباب میں 20؍سال کی عمر پاکر 1949 میں وادیٔ کشمیر میں انتقال کیا ۔

(چند شاعرات راجستھان اور کچھ بھولے بسرے شعرا۔شاہد احمد جمالی۔ناشر،فاگز احمد،جے پور۔2014۔ص۔33۔34)

شہزادی کلثوم کوپریشانی کی حالت میں جے پور چھوڑنا پڑا تھا،جس کا ذکر انھوں نے اپنی نظم،’’اپنا ماضی و حال‘‘میں کیا ہے،ملاحظہ کیجئے،

آہ اب تک بھی مجھے اپنی کہانی یاد ہے

 جب خدا کی ہر طرح تھی مہربانی یاد ہے

 آہ جے پورکی زمین  بھی شہرہ آفاق تھی

یادآتا ہے کہ جب بستی گل و گلزار تھی

ہم جہاں جاتے تھے عزت آئینہ بردار تھی

اس سرے سے اس سرے تک تھی مکانوں کی قطار

اللہ اللہ وہ مکیں تھے جن کے چہرے نوربار

گوشہ گوشہ غیرتِ صد خطّہ کشمیر تھا

ہم کو تو جے پور ہی جنت کی اک تصویر تھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب نہ کوئی کوٹھی ہے نہ بنگلہ نہ پائیں باغ ہے

دامنِ گلشن پہ مرجھایا ہوا گلِ داغ ہے

تنگ ہم پر یہ زمیں ہے آسماں ہے تاک میں

ہو گیا جینا اجیرن، آگیا دم ناک میں

(یادگار کلثوم۔ص۔144۔145)

          شہزادی کلثوم نے نظم اور غزل کے علاوہ سلام گوئی میں کافی طبع آزمائی کی ہے۔غزل میں ان کے یہاں مضامین کی کمی نہیں ہے،خیالات کی فراوانی،نشستِ الفاظ اور سلاست  اس کے کلام کی خوبی ہے۔اسی طرح نغمگی اور موسیقیت عام طور پر نظر آتی ہے،غزل کے اشعار ملاحظہ فرمائیں،

آرہی ہے میری آنکھوں میں سمٹ کر کائنات

خواب پورا ہو چکا اب وقت ہے تعبیر کا

نکلا نہ بعدِ مرگ بھی سینے سے تیرِ ناز

دل میں ِادھر چبھا اُدھر ارمان ہوگیا

ذرا ان معصوم اور پاکیزہ خیالات کو بھی ملاحظہ کریں،

سر اٹھا تھا ابھی نہ سجدے سے

سامنے ان کا آستانہ تھا

برق بھی باغ میں وہیں پہ گری

جس جگہ میرا آشیانہ تھا

شہزادی کلثوم کے اشعار میںتغزل کی کمی نہیں ہے۔ اس قدر چھوٹی سی عمر اور کم وقت میں اپنے اشعار میں تغزل پیدا کرنا واقعی خداداد صلاحیت پر منحصر ہے۔ غزل کے یہ شعر ملاحظہ فرمائیں:

جب اہل دل کو عشق کا عرفاں ہوگیا

حسنِ فریب کار پشیماں ہوگیا

(شہزادی کلثوم اور اس کی شاعری۔ڈاکٹر شاہد احمد۔راجپوتانہ اردو ریسرچ اکیڈمی،جے پور۔2019۔ص،12۔13)

شہزادی کلثوم اپنے اندر ایک درد مند دل رکھتی تھیں،انھوں نے انگریزی حکومت کے دور میں آنکھیں کھولی تھیں،انگریزوں کا ظلم و ستم بھی دیکھا تھا،وطن کی آزادی کے گیت بھی سنے تھے،پھر بھلا وہ ان سب سے متاثر کیوں نہیں ہوتیں،’’برادرانِ وطن‘‘سے خطاب میں شہزادی کلثوم کہتی ہیں:

ملک کی حالت پہ سینوں سے دُھواں اٹھتانہیں

سازِ دل خاموش میں شُور فغاں اٹھتانہیں

کس لیے آنکھوں میںطوفان نہاں اٹھتانہیں

پھول روندے جا رہے ہیں باغباں اٹھتا نہیں

مطمٔن بیٹھے ہو دل سینے میںگھبراتانہیں

قوم کے دم توڑنے پر بھی ترس آتانہیں

مسلم قوم کا شاندار ماضی اور موجودہ زوال پر کلثوم نے اپنے دلی جذبات کا اظہار کیا ہے،’’صدائے دل‘‘نظم سے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں،

خدایا دور کر ارباب ملت کی پریشانی

الٰہی کارِ مشکل میں دکھادے مشکل آسانی

اسی طرح ’’خونِ مسلم‘‘،’’احساسِ زوال‘‘،’’انقلابِ فلسطین‘‘بھی اسی قبیل کی نظمیں ہیں،’’انقلابِ فلسطین‘‘سے یہ اشعار ملاحظہ کیجیے،

نام کو باقی نہیں اسلام کا عزّو وقار

تیری آنکھوں سے مگر جاتا نہیں اب تک خمار

ہوک اٹھتی ہے یہ سن کر مرے دلِ ناکام میں

پلٹنیں کفّار کی ہوں خانۂ اسلام میں

  شہزادی کلثوم نے منقبت اور سلام میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ ان کے اس مجموعہ کلام میں پہلا سلام شیر خدا حضرت علیؓ کی شان میںہے۔ اس میں حضرت علیؓ کی پیدائش(مولود کعبہ) کا ذکر کیا ہے۔

سلام:

راکب دوشِ محمد، زینت بیت الحرام

حیدر وصفدر علی شاہنشاہ عالی مقام

ہے تصور دل میںاب مولیٰ علی کا صبح وشام

کھینچ لی میں نے اس آئینہ پہ تصویر دوام

آرہا ہے کون ایسا خاصہ رب الانام

اے مہ نورہورہے ہیں کس کو جھک جھک کر سلام

مژدہ باداے مومنوقبلہ نما پیدا ہوا

ہو مبارک زچخانہ بن گیا بیت الحرام

کعبہ میں نازل ہو اقرآنِ ناطق عرش سے

کعبہ میں پیدا ہوا وہ خاصہ رب الانام

بو الحسن، زوج بتول، اور خاص داماد رسول

یعنی سلطانِ عرب، شاہ نجف، کل کا امام

دل میں ہے کلثومؔ روشن نام مولای علی

ہے میرا سارا اثاثہ ایک یہ نقش دوام

مخدومۂ عالم(حضرت فاطمہ)

خاتون خلد بنت پیمبر ہیں فاطمہ

نور خدا ہیں زوجہ حیدر ہیں فاطمہ

رتبہ میں فخر مریم وحوا ، بتول ہیں

ارض وسما کانور یہ دخترِ رسول ہیں

پیارے نبی کی آنکھ کا تارا تھیں نور تھیں

ایمان وآگہی کا مقصد ظہور تھیں

حوروملک ہیں تابع فرمان فاطمہ

پیغمبر زماں ہیں ثنا خواںفاطمہ

آتی تھیں جب حضورؐ کی تسلیم کے لیے

اٹھتے تھے خودرسول بھی تعظیم کے لیے

اس میں کوئی شک نہیں کہ شہزادی کلثوم ایک بہترین شاعرہ تھی، بہت کم عمری میں ان کا انتقال ہوگیا،ورنہ آج ان کی شاعری ملکی سطح پر اپنا لوہا منوا رہی ہوتی۔آخر میں ’’محبت‘‘نامی نظم سے تین اشعار پیش کر رہی ہوں۔

کبھی ہم نے دشمن کو دشمن نہ جانا

خدا پر ہے روشن ہماری محبت

لگائو ذرا بھی ہو اگر اس میں

تو پھر جامِ سم ہے یہ پیاری محبت

وہی خون ہم میں وہی خون تم میں

ہے جس کے سبب پیاری پیاری محبت

٭٭٭

ماخذ:

1۔یادگار کلثوم۔مرتبہ۔اکبر جے پوری۔شری نگر کشمیر۔1963

2۔چند شاعرات راجستھان اور کچھ بھولے بسرے شعرا۔شاہد احمد جمالی۔2014۔جے پور

3۔شہزادی کلثوم اور اس کی شاعری۔ڈاکٹر شاہد احمد۔راجپوتانہ اردو ریسرچ اکیدمی،جے پور۔2019 rrr

 

Ms. Masarrat Parween

Research scholar

Dept. of Urdu & Persian

University of Rajasthan

Jaipur-302004 (Rajasthan)




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں