ایک زمانہ تھا جب مشرقی تہذیب کی پروردہ خواتین بعض رسوم و قیود کے سبب گھر کی چہاردیواری ہی میں محسور ہو کر رہ گئی تھیں۔ صلاحیت کے باوجود شعری اور نثری اصناف کی طرف ان کا متوجہ ہونا تو دور کی بات تھی، اُن کی شناخت کو بھی معیوب خیال کیا جاتا تھا۔ بعض خواتین تو اپنے اصلی نام کے بجائے فرضی نام سے اخبارات و رسائل میں نہایت رازداری کے ساتھ اپنی نگارشات شائع کرانے کے لیے مجبور تھیں۔رام پور رضا لائبریری میں محفوظ اخبارات و رسائل میں بعض خواتین قلم کاروں کی نگارشات میں کچھ اس طرح سے نام تحریر ہیں :مسز صولت خاں، مسز عاصف علی، والدہ شبّن میاں، بیگم مجاہد خاں وغیرہ۔
سماجی تبدیلیوں ، اصلاحی تحریکوں اور جدید تعلیم کے سبب
بعض خواتین میں رفتہ رفتہ جرأت و ہمّت کے عناصر نمودار ہونے لگے۔ انھوں نے جرأتِ
نسواں کا مظاہرہ کرتے ہوئے زندگی کے مختلف شعبوں میں نہ صرف اپنے قدم جمانے شروع
کر دیے بلکہ وہ ادب کی مختلف اصناف کی طرف بھی متوجہ ہونے لگیں۔ شعر و شاعری ہویا
افسانوی ادب ،غیر افسانوی ادب ہو یا علوم و فنون کے دیگر شعبۂ جات ، عہدِ حاضر میں
خواتین کی نمائندگی تقریباً ہر جگہ نظر آرہی ہے۔ شعر و شاعری اور افسانوی ادب کی
بہ نسبت اگر چہ لغت نگاری اور فرہنگ نویسی جیسے دیدہ ریز اور دقّت طلب کام کی طرف
خواتین کا رجحان کم نظر آتا ہے لیکن اپنے ذاتی ذوق اور یونیورسٹیوں سے پی ایچ ڈی
کی ڈگری حاصل کرنے کے مقصد سے جن خواتین نے ادبائ و شعرائ اور دیگر موضوعات کے
تعلّق سے چند فرہنگیں مرتّب کی ہیں ان میں فہمیدہ بیگم، وحیدہ نسیم ، شاہینہ تبسّم
، نعیمہ پاشا، ساجدہ قریشی، اسمائ عزیز، زیبا ناز ، ملکہ بیگم اور رخسانہ بیگم کے
نام ہی نظر آتے ہیں۔
خواتین کی زبان سے متعلق وحیدہ نسیم کی مرتب کردہ فرہنگ
کا نام ’’نسوانی محاورے‘‘ ہے جو 1982 میں شائع ہوئی تھی۔ اس فرہنگ کے آغاز میں ایک
صفحہ پر جلی حروف میں درج ذیل عبارت تحریر ہے
:
’’اُن
تمام کہاوتوں اور محاوروں کی لغت جو روزمرّہ بول چال میں ہندوستانی خواتین استعمال
کرتی ہیں۔‘‘
اس لغت یا فرہنگ کے نام اور مندرج تحریر میں واضح تضاد
ہے۔ کتاب کے نام سے ظاہر ہے کہ یہ ’’نسوانی محاورات‘‘ کی فرہنگ ہے اور درج بالا
تحریر کے ذریعہ واضح کیا گیا ہے کہ یہ ’’نسوانی کہاوتوں اور محاوروں‘‘کی فرہنگ ہے۔
دراصل اس فرہنگ میں خواتین کی زبان کے تعلق سے محاوروں کی بھی شمولیت ہے اور دیگر
الفاظ کی بھی مثلاً آپے سے باہر ہونا، خون پانی ایک کرنا، منہ چڑھ جانا، میدان
داری کرنا، مَیل کا بَیل بنانا محاورات ہیں۔ آپادھاپی ، پنجیری، پنڈا، خدا سمجھے،
خصماں پٹی ، خیلا، ڈولی، رخصتی، مَوت پڑے، موری کا کیڑا، موم کی مریم، میٹھا برس
اور ناشدنی جیسے سینکڑوں الفاظ نہ کہاوتیں ہیں اور نہ محاورے بلکہ وہ مخصوص الفاظ
ہیں جنھیں اکثر عورتیں ہی استعمال کرتی ہیں۔
وحیدہ نسیم کی دوسری فرہنگ کا نام ’’لغات النسائ‘‘ ہے جو
1987 میں شائع ہوئی تھی۔ ’’لغات النسائ‘‘ اور ’’نسوانی محاورے‘‘ میں نام کے علاوہ
کوئی فرق نہیں ہے۔ شروع سے آخر تک ’’لغات النسائ‘‘میں اُن ہی تمام الفاظ کے وہی
معانی تحریر کیے گئے ہیں جن کا اندراج ’’نسوانی محاورے‘‘ میں ہے۔ میرا خیال ہے کہ
’’نسوانی محاورے‘‘ میں درج تمام الفاظ محاورے کی تعریف میں نہیں آتے ہیں اس لیے
اس کتاب کا نام ’’نسوانی محاورے‘‘ کے بجائے ’’لغات النسائ‘‘ کر دیا گیا۔
میر تقی میر کے دیوانِ اوّل پر مبنی شاہینہ تبسّم کی
مرتّب کردہ فرہنگ کا نام ’’فرہنگِ کلامِ میر مع تنقیدی مقدّمہ‘‘ ہے۔ یہ فرہنگ 1993
میں شائع ہوئی تھی۔ فرہنگ سے قبل مقدّمہ کے ذریعہ مختصر طور پر لغت اور فرہنگ کے
باہمی فرق کی وضاحت کے علاوہ میر کی شاعرانہ عظمت ، میر کے لسانی رویّے ، کلامِ میر
میں تَت سَم اور تَد بھَو الفاظ ، فارسی کے مرکّب الفاظ و تراکیب، کلامِ میر کے
متروک الفاظ ، فجائیوں کے فنکارانہ استعمال وغیرہ کی مع مثال نشان دہی کی گئی ہے۔
اس فرہنگ کی فہرست نہایت ناقص ہے۔ فہرست کو ’’مندرجات‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے مگر
شروع کے چار اور آخر کے دو عنوانات کے سامنے تو صفحات نمبر کا اندراج ہے، باقی
تمام عنوانات صفحات نمبر کے بغیر تحریر کیے گئے ہیں۔ اندرونی صفحات میں وہ عنوانات
بھی قائم نہیں کئے گئے ہیں جن کااندراج فہرست میں ہے۔
مذکورہ فرہنگ حروفِ تہجّی کے اعتبار سے ترتیب دی گئی ہے۔
الفاظ کے معانی تحریر کرنے کے بعد بطورِ سند دیوانِ میر حصّہ اوّل سے اخذ کیے گئے
اُس شعر کو درج کیا گیا ہے جس میں معنی طلب لفظ کی شمولیت ہے۔ تمام الفاظ کے معانی
کس لغت یا فرہنگ سے اخذ کیے گئے ہیں یا شعر کے مفہوم کے اعتبار سے تحریر کیے گئے ہیں،
اس کی نشان دہی نہیں کی گئی ہے اور یہ بھی واضح نہیں کیا گیا ہے کہ بطورِ سند تحریر
کیا گیا شعر دیوانِ میر حصّہ اوّل کے کس صفحہ سے اخذ کیا گیا ہے۔ اس فرہنگ میں اُن
الفاظ کے معانی بھی کثیر تعداد میں تحریر کیے گئے ہیں جو عام کتبِ لغت میں بہ
آسانی مل جاتے ہیں یا جنھیں میر تقی میر نے لغوی معنی ہی میں استعمال کیے ہیں جیسے
زاہد ، ذرّہ ، ذقن ، تجاہل، تحمّل، مستعار ، بار ، استغنا، کیوں کہ، گور، دید ،
نزع، منقار، شیطان، شیفتہ، سپہر وغیرہ۔ایک ہی لفظ کو سابقوں یا لاحقوں کے ساتھ لکھ
کر معانی کی تکرار بھی اصولِ فرہنگ نویسی کے خلاف ہے مثلاً تجھ حُسن، تجھ رو، تجھ
ہجر میںکے معانی تیرے حُسن ، تیرے چہرے کو ،تیرے فراق میں اور لبِ دریا ، لبِ گور
کے معانی دریا کا کنارہ، قبر کے کنارے تحریر کیے گئے ہیں۔
نعیمہ پاشا کی مرتّب کردہ فرہنگ کا نام ’’فرہنگِ کلّیاتِ
نظیر اکبرآبادی مع تنقیدی مقدّمہ‘‘ ہے جس کا سنہ اشاعت 2000 ہے ۔ اس فرہنگ کو
مرتّب کرنے کے لیے عبدالغفور شہباز کی مرتّب کردہ کلّیاتِ نظیر اکبرآبادی، مطبع
نول کشور پریس 1900ئ کو بنیاد بنایا گیا ہے۔
مذکورہ فرہنگ میں لغت نویسی کے فن ،لفظ کے ماخذ ، لغت
اور فرہنگ کے فرق کو واضح کرنے کے علاوہ فرہنگِ نظیر کی ضرورت اور اہمیت پر بھی
روشنی ڈالی گئی ہے۔ اسی مقدّمہ کے ضمنی عنوانات کے تحت نظیر کے دور کے سیاسی و
سماجی حالات ، نظیر کے حالاتِ زندگی ،مشاغل اور شاعری کی اہم خصوصیات کا ذکر بھی
مختصر طور پر کیا گیا ہے۔ فرہنگ کے اندرونی صفحات پر جو عنوانات تحریر کیے گئے ہیں
ان میں اور فہرست کے عنوانات میں نمایاں فرق ہے اور بعض عنوانات کا فہرست میں
اندراج بھی نہیں ہے جیسے حروفِ تہجّی کے اعتبار سے الفاظ کی ترتیب، لفظ کا ماخذ ،
تلفّظ ، گرامر ، فرہنگ میں شامل الفاظ کے معنی اور مطالب کا ماخذ ۔
فہرست نہ صرف صفحات نمبر سے مبرّا ہے بلکہ اندونی صفحات
اور فہرست کے عنوانات میں بھی نمایاں فرق نظر آتا ہے جیسے فہرست میں ’’زبان کی
قسم‘‘ اور اندونی صفحہ پر ’’زبان اور بولی‘‘ ۔ فہرست میں ’’نظیر کے دَور کے سیاسی
اور معاشی حالات اور نظیرپر ان کا اثر‘‘ ۔ اندرونی صفحہ پر ’’نظیر :حالاتِ زندگی
اور میلانِ طبع ، ان کی شخصیت، مشاغل اور شاعری پر اس کے اثرات‘‘کا اندراج ہے۔ اسی
طرح دیگر عنوانات بھی تحریر کیے گئے ہیں۔ تمام الفاظ، محاورات، اصطلاحات وغیرہ کے
معانی یا مفاہیم لکھنے کے بعد کلّیاتِ نظیر اکبرآبادی سے اخذ کیے گئے اس شعر یا
مصرع کو مع صفحہ نمبر بھی درج کیا گیا ہے جس میں معنی طلب لفظ کی شمولیت ہے۔ فرہنگ
میں ایسے الفاظ کو بھی کثیر تعداد میں شامل کیا گیا ہے جن کے معانی یا مفاہیم
لکھنے کے بجائے قدیم کتبِ لغت کی تقلید کرتے ہوئے ایک پرند کا نام، ایک جانور کا
نام وغیرہ لکھ کر اکتفا کر لیا گیا ہے جیسے دہیڑ :ایک قسم کی چڑیا، جُگت: شاعری کی
ایک قسم، ساڑو :ایک سیاہ رنگ کی چڑیا۔ اس فرہنگ میں اُن عام الفاظ کی بھی شمولیت
ہے جنھیں نظیر نے لغوی معانی ہی میں استعمال کیا ہے مثلاً آندھی، داور، دشنام،
راستی، ساجد ، ساعت، سود، طبیب، طراوت ، طبابت فربہ ، مکر ۔ فرہنگ میں اس قسم کے
الفاظ کی شمولیت فنِ فرہنگ نویسی کے منافی ہے۔
فرہنگِ کلّیاتِ اقبال (اُردو) رخسانہ بیگم کا تحقیقی
مقالہ ہے جو 2010 میں منظرِ عام پر آیا۔ اس فرہنگ کے مقدّمہ میں فرہنگ کی اہمیت ،
تعریف، ہیئت ، فرہنگ اور لغت میں فرق اور اقسامِ فرہنگ کی وضاحت بھی کی گئی ہے اور
فرہنگ نویسی کے ارتقائ اور فرہنگِ کلّیاتِ اقبال کی اہمیت و ضرورت پر بھی روشنی
ڈالی گئی ہے۔
یہ فرہنگ بھی دیگر فرہنگوں کی طرح بہ اعتبارِ حروفِ تہجّی
مرتّب کی گئی ہے۔ ہر لفظ کے معنی لکھنے کے بعد قوسین میں اس لغت یا فرہنگ کے مخفّف
کا اندراج کیا گیا ہے جہاں سے معنی اخذ کیے گئے ہیں۔ اس کے بعد اقبال کے اس شعر کو
نقل کیا گیا ہے جس میں متعلقہ لفظ کو نظم کیا گیا ہے۔ اس کے بعد قوسین میں نظم کے
عنوان کے ساتھ اقبال کے مجموعۂ کلام کا مخفّف اور صفحہ نمبر کا اندراج ہے ۔
اقبال فہمی اور اقبال شناسی کے اعتبار سے یہ فرہنگ اہمیت
کی حامل ہے مگر آب ، جدا، ساعت، ساقی، حباب ، حجاب، حجر، قطار، لاغر، یگانہ جیسے
عام فہم اور لغوی معانی میں استعمال کیے گئے الفاظ کا فرہنگ میں شامل کیا جانا کسی
بھی اعتبار سے مناسب نہیں۔
فرہنگِ کُلّیاتِ انشائ ساجدہ قریشی کا تحقیقی مقالہ ہے
جو اُنھوں نے ڈاکٹر آف فلاسفی کی ڈگری کے لیے قلم بند کیاہے۔ اس فرہنگ کو مرتّب
کرنے کے لیے کُلّیاتِ اِنشائ اﷲخاں ، مطبوعہ مُنشی نوَل کشور پریس ، لکھنؤ 1876
کو بنیاد بنایا ہے اور بطورِ حوالہ اسی کُلّیات کے صفحات نمبر وغیرہ کا اندراج کیا
ہے۔ اس کے علاوہ مرزا محمد عسکری ومحمّد رفیع کے مرتّب کردہ ’’کلامِ اِنشائ ‘‘
مطبوعہ 1952 سے بھی استفادہ کیا ہے۔ کُلّیاتِ اِنشائ (مطبوعہ مُنشی نول کشور پریس)
میں اِنشائ کا جو کلام شامل نہیں ہے اور وہ کسی دوسرے نسخوں، لغات اور فرہنگوں میں
نظر آیا ہے اُسے بھی حوالہ کے ساتھ شاملِ فرہنگ کر لیا ہے یعنی کُلّیاتِ اِنشائ
(مطبوعہ مُنشی نول کشور پریس) کے علاوہ اِنشائ کے کلام کے دیگر مجموعوں اور مختلف
کتابوں میں بکھرے کلام سے بھی استفادہ کیا ہے۔ انھوں نے اخذ کیے گئے تمام معانی،
مطالب اور مفاہیم کو اسناد وشواہد کے ساتھ درجِ فرہنگ کیا ہے۔عربی اور فارسی
زبانوں کے مشکل اور دقیق اور مفرّدات ومرکّبات کو طلبائ وغیرہ کی آسانی اور ضرورت
کے پیشِ نظر شامل کیا ہے مگر ان زبانوں کے آسان اور عام فہم مفرّدات ومرکّبات کو
اس لیے نظر انداز کر دیا ہے کہ وہ اُردو، عربی اور فارسی زبانوں کی عام لغات اور
فرہنگوں میں آسانی سے دستیاب ہو جاتے ہیں۔
اس فرہنگ کا اندازِ ترتیب یہ ہے کہ حروفِ تہجّی کے
اعتبار سے الفاظ لکھنے کے بعد نشان دہی کی گئی ہے کہ یہ الفاظ کس زبان کے ہیں۔ اس
کے بعد اُن کے معنی یا مفاہیم لکھے گئے ہیں اور اُس کتابِ لغات یا فرہنگ کا مخفف
نام تحریر کیا گیا ہے جہاں سے اُس کے معنی یا مفاہیم اخذ کئے گئے ہیں۔ اس کے بعد
کُلّیاتِ انشائ سے اُس شعر کو مع صفحہ نمبر درج کیا گیا ہے جس کے معانی ومفاہیم
لکھے گئے ہیں۔ اس طرح کوئی بھی قاری کُلّیاتِ انشائ میں اُس شعر کو بہ آسانی تلاش
کرسکتا ہے جس کے معانی درج کئے گئے ہیں۔
فرہنگ کو تین ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ بابِ اوّل میں
لغت اور فرہنگ کا فرق و امتیاز، اُردو میں فرہنگ نویسی۔ بابِ دوم میں شعری زبان کے
مطالعہ کی اہمیت اور انشائ کے کلام کی خصوصیت کا جائزہ لیا گیا ہے۔ بابِ سوم میں
فرہنگِ کُلّیاتِ انشائ کی ضرورت واہمیت اور فرہنگ کے طریقۂ کار پر روشنی ڈالی گئی
ہے۔ اس فرہنگ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ کلامِ انشائ سے بعض ادبی اور معلوماتی الفاظ و اشیائ کی
درجہ بندی بھی کی گئی ہے اور آخر میں قدیم یا وضاحت طلب اشیائ کی تصاویر بھی دے دی
گئی ہیں تاکہ قاری بہ آسانی وضاحت طلب اشیائ کو سمجھ سکے۔ یہ فرہنگ نہ صرف کلامِ
انشائ اور اُن کے عہد کے دیگر شعرائ کے کلام کو سمجھنے میں معاون ہوگی بلکہ عہدِ
انشائ کی معاشرت کو بھی سمجھنے میں مددگار
ہوگی۔
فرہنگِ کُلّیاتِ سَودا اسمائ عزیزکا تحقیقی مقالہ ہے جو
2012 میں زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا۔ سَودا کے کلام کو سمجھنے اور عہدِ سَودا کی
معاشرت و ثقافت سے واقفیت حاصل کرنے کے لیے کلامِ سَودا کی فرہنگ کی ضرورت و اہمیت
سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔
کسی بھی شاعر یا ادیب کی نگارش میں پائے جانے والے تمام
الفاظ کا اندراج فرہنگ میں نہیں کیا جاتا ہے۔ اُس کی تحریر سے وہی الفاظ اخذ کئے
جاتے ہیں جو لغوی معانی سے جدا ہوں یا کسی نہ کسی طرح معنوی توسیع کے حامل ہوں۔
فرہنگ میں شامل اندراجات کے تمام متوقع قدیم وجدید معانی کے بجائے وہی معنی یا
مفہوم تحریر کیے جاتے ہیں جس کے لیے اُنھیں مخصوص طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ جیساکہ
خود مرتّبہ نے زیرِ نظر فرہنگ کے مقدّمہ میں تحریر کیا ہے
:
’’۔۔۔۔۔۔ فرہنگ اور لغت کے دائرۂ
کار میں نمایاں فرق ہے۔ عام طور پر لغت میں تمام الفاظ قدیم وجدید ، مستعمل ومتروک
سب کو شامل کر لیا جاتا ہے اور الفاظ کے معنی لکھ دئے جاتے ہیں اور کبھی کبھی
تلفّظ کی نشان دہی بھی کر دی جاتی ہے جب کہ فرہنگ میں شامل ہونے والے الفاظ میں
اتنی عمومیت اور وسعت نہیں ہوتی ہے۔ اس میں کسی مخصوص نقطۂ نظر سے الفاظ کو منتخب
کرکے شامل کیا جاتا ہے اور اُسی زاویے سے اُن کی تشریح و توضیح کی جاتی ہے۔
‘‘(صفحہ 4)
فرہنگِ کُلّیاتِ سَودا کی مرتّبہ اسمائ عزیزنے ایساایک
بھی لفظ اپنی فرہنگ میں شامل نہیںکیا ہے جو لغوی معنی سے جدا مخصوص معنی یا مفہوم
کے لیے سَودا نے استعمال کیا ہے۔ اس کے برعکس مرتّبہ نے زیادہ تر عام فہم الفاظ کا
انتخاب کیا ہے اور اُن کے وہی لغوی معنی لکھے ہیں جو بیشتر کتبِ لغات میں درج ہیں
جیسے اُبال، ابد، ابر، با، باب، بابا، باپ، پات، پاک، پاکیزہ، تاب، تابش، تابندہ،
تابوت، ثابت، ثنا، جا، جادو، جاوداں، چادر، خار، دادا، ذات، ذخائر، زاغ،ساخت، سادگی،
سازش، شاخ، شادماں، شاعری، صابن، صاحب، طالب، ظالم، ظاہر، عابد، عاجز، غارت، غازہ،
فارسی، فارغ، کاتب، کاسہ، کبوتر، مادر، ناپاک، وارث، یتیم ۔مندرج الفاظ کی طرح
فرہنگ میں درج تمام الفاظ بھی اسی طرح کے ہیں جن کا استعمال سَودا نے لغوی معانی ہی
میں کیا ہے۔
فرہنگ میں شامل بیشتر الفاظ کے معانی سیاق وسباق کے مدِ
نظر تحریر نہیں کئے گئے ہیںبلکہ وہ تمام معنی تحریر کر دئے گئے ہیں جو استفادہ کی
گئی فرہنگ میں درج ہیں جیسے شمر کے معانی یزید کے ایک سپاہ سالاریا فوج دار کا نام
جس ملعون نے حضرتِ امام حُسین علیہ السلام کو میدانِ کربلا میں بُلا کر شہید کیا
تھا۔ بس اسی وجہ سے یہ لفظ مردود و ملعون نابکار، بدذات ، مقہور، ظالم کے معنی میں
مستعمل ہو گیا۔ ملائی ۔ تالاب۔ حوض۔
آدم کے معانی بھورا، مٹیالہ، گندمی، گندم گوں، گیہوںنما،
پہلا آدمی ابوالبشر، سب آدمیوں کا باپ، مہادیوجی، پہلا آدمی جس سے انسان کی نسل
چلی، وہ شخص جو اوّل ہی اوّل پیدا ہوا مبادا آدم درج کیے گئے ہیں۔
گیرائی کے معانی محکمۂ ٹھگی ، وہ محکمہ جس میں ٹھگوں کے
پکڑے جانے کا کام ہوتا ہے، پولس کا محکمہ، گرفتگی۔ پکڑ۔ خفیہ۔ پولس کا محکمہ تحریر
کیے گئے ہیں۔
اس فرہنگ میں بعض ایسے الفاظ کی بھی شمولیت ہے جو کچھ سے
کچھ ہو گئے ہیں جیسے محمود کے معانی ایک بادشاہ کے بجائے تعریف کیا گیا تحریر ہے ۔
سَودا نے ایک شعر میں لفظ ’لے پالک‘ بمعنی متنبی، گود لیا ہوا، وہ بچّہ جسے لے کر
پال لیا گیا ہو استعمال کیا ہے۔مرتّبہ نے ’لے پالک‘ کے بجائے پالک کے معنی پلنگ،
چارپائی، پالنے والا، سرپرست، پالا ہوا، پروردہ۔ ایک قسم کا ساگ درج کیے گئے ہیں۔
مذکورہ فرہنگ میں ہر لفظ کو حروفِ تہجّی کے اعتبار سے
لکھنے کے بعد یہ بھی نشان دہی کی گئی ہے کہ یہ لفظ کس زبان کا ہے اور مذکّر ہے یا
مونث ۔ اس کے بعد اس کے معانی و مفاہیم لکھے گئے ہیں اور اس کتاب کا مخفّف تحریر کیا
گیا ہے جہاں سے اس کے معانی اخذ کیے گئے ہیں۔ بعد ازاں کلّیاتِ سَودا سے اس شعر کو
مع شعر نمبر اور صفحہ نمبر درج کیا گیا ہے جس میں اس لفظ کو استعمال کیا گیا ہے۔
اس طرح کہا جا سکتا ہے کہ اس فرہنگ کا اندازِ تریب سائنٹفک اور ایک ضابطہ کے مطابق
ہے۔
پی ایچ ڈی ڈگری کے حصول کے لیے قلم بند کی گئی زیبا ناز
کی فرہنگ کا نام ’’فرہنگِ کلّیاتِ ذوق‘‘ ہے جس کا سنہ طباعت 2013 ہے۔ اس فرہنگ کو
مرتّب کرنے کے لیے تنویر احمد علوی کی مرتّبہ کلّیاتِ شیخ محمد ابراہیم ذوق،ترقّی
اُردو بیورو، نئی دہلی 2000 کو بنیاد بنایا گیا ہے اور اسی کلّیات سے اخذ کیے گئے
ضروری الفاظ، محاورات، ضرب الامثال، اصطلاحات اور فقروں کو مختلف کتبِ لغات و
فرہنگ کی مدد سے واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
مذکورہ فرہنگ میں شامل مقدّمہ کے تحت ذوق کی شاعرانہ
عظمت کے علاوہ فرہنگ کی تعریف، لغت اور فرہنگ میں فرق، فرہنگ کی اقسام، فرہنگ کی
ضرورت و اہمیت پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے اور اُردو فرہنگ نویسی پر عربی ، فارسی
اور انگریزی زبان کی فرہنگوں کے اثرات کا مختصراً ذکر بھی کیا گیا ہے ۔
دیگر فرہنگوں کی طرح یہ فرہنگ بھی حروفِ تہجّی کے اعتبار
سے ترتیب دی گئی ہے۔ سب سے پہلے معنی یا مفہوم طلب لفظ کو لکھ کر قوسین میں اس کے
ہجّے بھی تحریر کیے گئے ہیں۔ اس کے بعد یہ بھی نشان دہی کی گئی ہے کہ یہ لفظ کس
زبان کا ہے۔ بعد ازاں معانی یا مفاہیم کے بعد قوسین میں اُس کتابِ لغت کا مخفّف
تحریر کیا گیا ہے جہاں سے اس کے معنی اخذ کیے گئے ہیں۔ اس کے بعد کلّیاتِ ذوق سے
اُس شعر کو مع صفحہ نمبر نقل کیا گیا ہے جس میں معنی یا مفہوم طلب لفظ کی شمولیت
ہے ۔
بخیل، بخت، جادو، جود، درکار ، دوست ، دوستی، زکام،
شہنشاہ، غش، قفس ، قلیل ، گرداب، لہجہ،
محاسب، مداح ، ناصح اور وادی جیسے الفاظ کو ذوق نے لغوی معنی ہی میں استعمال کیا
ہے۔ اگر اس طرح کے عام الفاظ کو فرہنگ میں نہ شامل کیا جاتا تو اس فرہنگ کی اہمیت
اور بڑھ جاتی۔ ذوق فہمی اور ذوق شناسی کے اعتبار سے یہ فرہنگ نہایت سودمند اور مفید
ہے۔
ساجدہ قریشی کی دوسری فرہنگ کا نام ’’فرہنگِ باغ وبہار
‘‘ہے۔ یہ فرہنگ میرامّن کی شہرہ آفاق داستان ’باغ وبہار‘ کی لفظیات پر مبنی ہے۔
اس فرہنگ کو چار ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ بابِ اوّل میں لغت اور فرہنگ میں فرق
وامتیازکو بھی واضح کیا گیا ہے اور اُردو میں فرہنگ نویسی کی روایت پر بھی روشنی
ڈالی گئی ہے۔ بابِ دوم میں نثری ادب کی فرہنگوں کی اہمیت اور ضرورت اور طریقۂ کار
اور اندازِ ترتیب کو واضح کیا گیا ہے ۔ بابِ سوم میں ’باغ وبہار ‘کے لسانی رویّے،
زبان بہ اعتبارِکردار، محاورات، کہاوتیں اور ضرب الامثال، مقفیٰ ومسجع عبارت آرائی،
تابع مہمل، لفظی تکرار، قریب المفہوم اورہم معنی الفاظ، متضادالفاظ، مرکبات، خالص
ہندی الفاظ، اشعار، کبت اور دوہرے کا جائزہ لیا گیا ہے۔ بابِ چہارم میں’باغ وبہار‘
سے اخذ کئے گئے بعض ادبی اور معلوماتی الفاظ واشیا کی درجہ بندی بھی کی گئی ہے ۔
اس کے بعد حروفِ تہجی کے اعتبار سے کتاب کا اصل حصّہ فرہنگ ہے۔ اس فرہنگ میں ہکاری
حروف بھ، پھ، دھ، ٹھ، جھ، چھ، دھ، ڈھ، کھ، گھ کو الف، ب، ج ۔۔۔۔۔ کی طرح حروف تصور
کرکے اُن سے شروع ہونے والے الفاظ کو اُنھیں کے تحت درج کیا گیا ہے۔
تمام الفاظ کی ترتیب حروفِ تہجّی کے اعتبارسے کی گئی ہے۔
اس کے بعد قوسین میں مخففات کے ذریعہ وضاحت کی گئی ہے کہ متعلّقہ الفاظ کس زبان کے
ہیں۔ اس کے بعد اُن الفاظ کے معانی یا مفاہیم تحریر کئے گئے ہیں۔ پھر قوسین میں
بطورِ سنداس کتابِ لغت یا فرہنگ وغیرہ کے مخفف نام تحریر کئے گئے ہیں جہاں سے اُس
کے معانی یا مفاہیم اخذ کیے گئے ہیں۔ سند یا شواہد کے لیے ’باغ وبہار‘ سے وہ جملے یا
فقرے مع صفحہ نمبر درج کئے گئے ہیں جن میں وہ الفاظ مستعمل ہوئے ہیں۔
ساجدہ قریشی نے اس فرہنگ کو مرتّب کرکے ایک اہم کارنامہ
انجام دیا ہے۔ مرتّبہ نے ’باغ وبہار‘ میں شامل تمام معانی ومفاہیم طلب الفاظ کے
اندراجات کے ساتھ اُن کہاوتوں، مصطلحات ، رسومات اور اُن اشیائ کی بھی نشان دہی کی
ہے جو عہدِ حاضر میں متروک ہو گئی ہیں یا جن کا چلن ختم ہو گیا ہے یا برائے نام رہ
گیا ہے یا جن کے معانی مطالب بھی بدل گئے ہیں جیسے منگل کوٹی، تورہ پوش ، اُردا بیگنی
وغیرہ ۔
مشفق خواجہ کے مرتّبہ ’’کلّیاتِ یگانہ‘‘ 2003 کی لفظیات
پر مبنی ملکہ بیگم کی فرہنگ کا نام ’’فرہنگِ کلّیاتِ یگانہ‘‘ ہے جو 2015 میں شائع
ہوئی تھی۔ الفبائی ترتیب سے مرتّب کی گئی اس فرہنگ میں معانی طلب الفاظ لکھنے کے
بعد مخفّفات کے ذریعہ وضاحت کی گئی ہے کہ تحریر کردہ الفاظ کا تعلّق کس زبان سے
ہے۔ اس کے بعد معانی یا مطالب لکھ کر سند کے طور پر اُس لغت یا فرہنگ کا نام تحریر
کیا گیا ہے جہاں سے معانی اخذ کئے گئے ہیں۔ پھر اُن اشعار کا اندراج ہے جن میں وہ
الفاظ مستعمل ہوئے ہیں۔ اس فرہنگ کی ترتیب میں بطورِ خاص فرہنگِ آصفیہ ، لغاتِ
کشوری، فرہنگِ شفق، جامع فیروزاللغات ، رہبرِ فارسی، فرہنگِ عامرہ اور مصباح
اللغات سے استفادہ کیا گیا ہے۔
دو ابواب میں منقسم اس فرہنگ کے بابِ اوّل میں ضمنی
عنوانات کے تحت فرہنگ کے معنی و مفہوم اور ارتقائ پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔
اسی باب میں یگانہ کے سوانحی کوائف کے ساتھ ان کے فنّی و فکری امتیازات کو مع مثال
آسان زبان میں واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور ان کے فن کی کسی اہم خصوصیت کو
تشنہ نہیں چھوڑا گیا ہے۔
اس فرہنگ کا بابِ دوم ’’فرہنگ‘‘ کے لیے مختص ہے۔ فرہنگ
کو بھی دو حصوں میں منقسم کیا گیا ہے۔ پہلے حصّہ میں معنی طلب الفاظ و تراکیب کا
مع معانی اندراج ہے اور دوسرے حصّہ میں محاورات اور اُن کے مفاہیم تحریر کیے گئے ہیں
جیسا کہ مرتبۂ فرہنگ کے ذریعہ تحریر کیے گئے عنوان ’’محاورات‘‘ سے ظاہر ہے۔ اس
حصہ پر سرسری نظر ڈالنے ہی سے واضح ہے کہ محاورات کے علاوہ کہاوتوں اور عام الفاظ
کو بھی شامل کرنے سے گریز نہیں کیا گیا ہے جیسے آج مرے کل دوسرا دن، آگ بگولا،
اندھیرے اجالے، اندھیرے گھر کا اجالا، چِت بھی اپنی پَٹ بھی اپنی، خدا کی مار، دال
میں نمک، گُڑ کھائیں گُلگُلوں سے پرہیز، میدان کا چور وغیرہ۔
اس فرہنگ میں ایسے الفاظ کی بھی کثرت نظر آتی ہے جنہیں یگانہ
نے لغوی معانی ہی میں استعمال کیا ہے اور وہ اُردو کی تمام کتبِ لغات میں مل جائیں
گے جیسے الف ممدودہ ہی سے شروع ہونے والے مندرج چند الفاظ :آبلہ، آتش، آشکار،
آشیانہ، آغاز، آغوش، آفت، آئینہ، آہنگ۔
ساجدہ قریشی کی ایک موضوعاتی فرہنگ کا نام ’’تلمیحاتِ
انشائ مع شخصیات‘‘ ہے جو کلامِ انشائ میں مستعمل تمام تلمیحات و اشارات اور شخصیات
کا احاطہ کرتی ہے۔ اس فرہنگ کا سنہ اشاعت 2017 ہے۔ ادب کی دیگر اصناف کی بہ نسبت
شعرائ و ادبائ کی نگارشات میں مستعمل تلمیحات کی کتب کی تعداد بہت کم ہے۔ ساجدہ قریشی
کی یہ تلمیحی فرہنگ اس اعتبار سے قابلِ قدر ہے کہ وہ تمام تلمیحات مع شخصیات یکجا
ہو گئی ہیں جنہیں انشائ جیسے قادرالکلام شاعر نے موقع و محل کی مناسبت سے اپنے
کلام میں نظم کی ہیں۔ انشائ کے یہاں مذہبی قصص و عقائد ، تاریخی و فرضی واقعات،
رسوم و رواج، ضرب الامثال ، دیومالا اور صنمیات سے متعلّق تلمیحات کثیر تعداد میں
پائی جاتی ہیں۔ مذکورہ فرہنگ میں تمام تلمیحات و شخصیات کا بہ اعتبارِ حروفِ تہجّی
اندراج کیا گیا ہے۔ ہر تلمیح کی تشریح و وضاحت اور ہر تلمیحی شخصیت کے تعارف کے
بعد اس شعر کو بھی بطورِ سند تحریر کیا گیا جس میں متعلّقہ تلمیح یا شخصی تلمیح کو
انشائ نے استعمال کیا ہے مثلاً بیمارِ کربلا:
حضرتِ امام زین العابدین کو بیمارِ کربلا کہا جاتا ہے ۔
آپ حضرتِ امام حُسین کے فرزند اور بارہ اماموں میں سے چوتھے امام ہیں۔ آپ کا نام
علی اور کنّیتیں ابو محمّد، ابوالقاسم اور ابوالحسن ہیں۔ زین العابدین، زین العبا
، سیّد الساجدین، ذکی اور امین القاب ہیں۔ آپ کو سجّاد اور عابد بھی کہا جاتا ہے
۔15؍ جمادی الثانی 38ھ کو پیدا ہوئے ۔ آپ کی والدہ کا نام
شہر بانو تھا۔ آپ سفرِ کربلا میں حضرتِ امام حُسین کے ساتھ تھے لیکن علالت کی وجہ
سے جنگ میں شریک نہ ہو سکے تھے۔ یہی سبب ہے کہ آپ کو بیمارِ کربلا کے لقب سے یاد
کیا جاتا ہے ۔ جب آپ کو اہلِ بیت کے ساتھ اسیری کی حالت میں شام لے جایا گیا تو
وہاں آپ نے یزید کے سامنے بے خوفی کے ساتھ آوازِ حق بُلند کی۔ اس کے بعد آپ
اہلِ بیت کے ساتھ مدینہ لوٹے ۔ 25؍ محرم 95ھ کو آپ نے وفات پائی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ
آپ کو ولید بن عبدالملک کی سازش سے زہر دیا گیا تھا۔
شفا تصدّقِ بیمارِ کربلاہو
مجھے
سحابِ لطف کو کرحکم، تاکرے ترشیح
(44)
اس فرہنگ میں کلامِ انشائسے اخذ کی گئیں آتشِ طور، تیشہ
و بے ستوں ، چاہِ نخشب ، راجہ اِندر کا اکھاڑا، سحرِ سامری، سوزنِ عیسیٰ، عصائے
موسیٰ ، قُم باذن اللہ، کنہیّا، گاؤ زمیں ، ماہِ کنعاں، نل و دَمن، ہیر رانجھا، یدِ
بیضا جیسی تقریباً 215 تلمیحات و شخصیات کی شمولیت مع تفصیل و تشریح ہے جن کی مثال
بہ وجۂ طوالت مناسب نہیں۔ یہ تلمیحی فرہنگ انشائ شناسی کے اعتبار سے بھی اہم ہے
اور دیگر شعرائ و ادبائ کی نگارشات میں مستعمل تلمیحات کو سمجھنے میں بھی ممد و
معاون ہوگی۔
ساجدہ قریشی کی مرتّب کردہ چوتھی فرہنگ کا نام ’’فرہنگِ
توبتہ النصوح ‘‘ ہے جو 2018 میں طبع ہو کر منظرِ عام پر آئی۔ یہ فرہنگ مولوی نذیر
احمد کے شہرہ آفاق ناول ’’توبتہ النصوح ‘‘ کی لفظیات پر مبنی ہے۔ تین ابواب پر
مشتمل اس فرہنگ کے بابِ اوّل کے پہلے حصّہ میں لغت اور فرہنگ میں فرق و امتیاز کو
واضح کیا گیا ہے۔ اسی باب کے دوسرے حصے میں اُردو میں فرہنگ نویسی کی روایت کا تفصیل
سے جائزہ بھی لیا گیا ہے۔ دوسرے باب کے پہلے حصے میں نثری ادب کی فرہنگوں کی ضرورت
و اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اسی باب کے دوسرے حصے میں ’’طریقۂ کار اور اندازِ
تریتب‘‘ کے ضمنی عنوان کے تحت فرہنگ مرتب کرنے کے طریقۂ کار سے واقف کرایا گیا
ہے۔ بابِ سوم میں فرہنگ سے پہلے ’’توبتہ النصوح ‘‘ میں مستعمل اہم ادبی اور
معلوماتی الفاظ و اشیائ مثلاً آتش بازی، مضامیر ، جانور، پوشاکیں، پیشے و پیشہ
وران، پھل، تلمیحات ، جواہرات، رشتے ، شخصیات ، غذائیں ، مقامات وغیرہ کی اس لیے
درجہ بندی کی گئی ہے کہ قارئین کو ایک ہی نظر میں مولوی نذیر احمد کی وسیع معلومات
کا اندازہ بھی ہو سکے گا اور اس قسم کے الفاظ ادبی ، لسانی ، سماجی اور معاشرتی
موضوعات کے مطالعے کے تعلّق سے بھی معاون ثابت ہوں گے۔
توبتہ النصوح سے اخذ کیے گئے معانی یا مفاہیم طلب تمام
الفاظ کو بہ اعتبارِ حروفِ تہجّی درج کرنے کے بعد مخفّفات کے ذریعہ واضح کیا گیا
ہے کہ تحریر شدہ لفظ کس زبان کا ہے۔ بعد ازاں معانی یا مفاہیم کا اندراج ہے اور
قوسین میں بطورِ سند اس کتابِ لغت یا فرہنگ کا مخفّف نام بھی تحریر کیا گیا ہے
جہاں سے اس کے معانی و مفاہیم اخذ کیے گئے ہیں۔ اس کے بعد ’’توبتہ النصوح ‘‘ کے
متن سے اُن جملوں یا فقروں کو مع صفحات نمبر اور سطر نمبر درج کیا گیا ہے جن میں
متعلّقہ الفاظ کی شمولیت ہے مثلاً
زبردست کا ٹھینگا سر پر (1) غالب سے زور نہیں چلتا، اس کی
ماننا پڑتی ہے ۔ (م ل)
ہرچند کلیم نے مرزاظاہردار بیگ کے ساتھ اپنے حقوق معرفت
ثابت کیے مگر زبردست کا ٹھینگا سر پر ، اُس نے ایک نہ مانی اور پکڑ کر کوتوالی لے
گیا ۔ (10-181)
فرہنگِ توبتہ النصوح نہ صرف توبتہ النصوح فہمی کے اعتبار
سے ایک کارآمد اور سودمند فرہنگ ثابت ہوگی بلکہ نذیر احمد کے دیگر ناولوں کا
مطالعہ کرنے میں بھی کسی حد تک معاون ہوگی۔
ساجدہ قریشی کے علاوہ بیشتر خواتین نے پہلی بار اور پی ایچ
ڈی ڈگری کے حصول کے لیے فرہنگیں مرتّب کی ہیں۔ وقت کی پابندی اور کچھ اصولِ فرہنگ
نویسی سے ناواقفیت کے سبب بعض فرہنگوں میں معمولی اور بعض میں واضح خامیاں در آئی
ہیں پھر بھی اس تحقیقی و تنقیدی جائزہ کے پیشِ نظر کہا جا سکتا ہے کہ فرہنگ نویسی
کے میدان میں خواتین نے قابلِ ستائش اور حوصلہ بخش خدمات انجام دی ہیں۔
Mrs. Shazya Zarrin
Jain Mandir Street
Phoota Mahal
Rampur-244901 (U.P)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں