15/12/21

اردو شاعری میں تلمیحات کا لفظی اور معنوی آہنگ - مضمون نگار: محمد عارف




شاعری، مرصع سازی، لفظوں کی متناسب ہم آہنگی، محسنات ِلفظیہ و معنویہ یعنی صنائع و بدائع کاصحیح و درست اور بر وقت استعمال ہے۔شاعری جذباتی کیفیات کی عکاس اوراظہار خیال کاوسیع میدان ہے۔شاعری میں چند الفاظ یا اشاروں کا استعمال ہوتا ہے جو کسی پس منظر کی شرح کرتے ہیں۔ انھیں الفاظ کو تلمیحات کہا جاتا ہے۔یہ تلمیحات چند حرفوں یا لفظوں کا مجموعہ ہیں جو کلام میں لفظ و معنی کا ایک آہنگ پیدا کرتے ہیںجس کی وجہ سے کلام میں غنائیت اور موسیقیت پیدا ہوجا تی ہے۔ ان تلمیحات میں ہر دور کے نقوش پیوست ہوتے ہیں۔ اسی لیے ہر دور میں تلمیحات کو خاصی اہمیت دی جاتی رہی ہے۔ کسی بھی شاعری میں جس طرح الفاظ کا با ہم متناسب ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح اس میں پیش کیے گئے قصے یا مضمون کا باہم مناسب ہونابھی لازمی ہے۔ تاکہ کلام کی ترسیل بلیغ انداز سے ہو سکے۔نظم ہو یا نثر دونوں کا آلۂ کارلفظ ہی ہوتا ہے لیکن یہی لفظ جب شاعری میں استعمال ہوتا ہے تواس کی اہمیت اور تاثیربہت بڑھ جاتی ہے۔ کلام میں بلاغت، شاعری کا ایک اہم عنصر ہے۔ کیوں کہ جو کلام مقتضائے حال کے مطابق ہوتا ہے وہی کلام فصاحت و بلاغت کی معراج ہوتاہے اور اردو شاعری میں تلمیح کا وجودبھی ایک ایسے ہی عنصر کی طرح ہے۔تلمیح کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی۔ کیوں کہ ہر عہد میں لوگوں کالمبے لمبے قصے سننے اور سنانے میں تضییع اوقات ہوتا تھا۔ اس سے چھٹکارہ پانے کے لیے چند الفاظ یا اشاروںکا مجموعہ وجود میں آیا تاکہ لوگ ان اشارات سے مکمل بات سمجھ سکیں اور اس طرح ان اشارات کوتلمیح کا نام دے دیا گیا۔یہ مختلف مختصر اشارات ہیں جو اپنے اندر قومی،تہذیبی اور تمدنی بازگشت لیے ہوئے ہیں۔تلمیح نثری قصوں میں بھی ہوتی ہے مگر ان تلمیحات کا اثر شاعری میں جس قدرمعانی و مفاہیم پیدا کرتا ہے۔ نثر میں اس کے مقابلے بہت کم ہے۔کیوں کہ یہ تلمیحی الفاظ ایک ہی شعر میں مختلف حیثیتوں سے لفظی،معنوی اور صوتی آہنگ پیدا کرتے ہیں۔ تلمیحات کی بنیاد ان چیزوں پر ہوتی ہے جو پہلے سے مشہور ہوں۔ کیونکہ یہ خود ساختہ نہیں ہوتیں بلکہ یہ مشہور و معروف واقعات، قصوں اور کہانیوں پر مبنی ہوتی ہیں اور شاعر بس ان سے استفادہ کرتا ہوا نظر آتا ہے۔’’افادات سلیم‘‘ میں وحید الدین سلیم نے تلمیح کے بارے میں آسبورن کی یہ بات نقل کی ہے :

’’تلمیحات کیا ہیں؟ہماری قوم کے قدموں کے نشانات ہیں جن پر پیچھے ہٹ کر ہم اپنے باپ دادا کے خیالات، مزعومات، اوہام رسم ورواج اور واقعات و حالات کے سراغ لگا سکتے ہیں۔‘‘

(وحید الدین سلیم،افادات سلیم،سید اشرف حیدرآبادی، ص 115)

شمس قیس رازی نے اپنی کتاب ’المعجم فی معائیر اشعار العجم‘ کے چھٹے باب’در محاسن شعر و طرفی از صناعات مستحسن کی در نظم و نثر بہ کار دارند‘ میں تلمیح کا ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ تلمیح یہ ہے کہ چند الفاظ بہت سارے معانی پر دلالت کریںجس کے ایک نظر میںکچھ معنی نظر آئیں اور دوسری نظر میں کچھ اورجب شاعر تھوڑے الفاظ جو بہت سے معانی و مفاہیم بیان کرتے ہوں ان کا استعمال کرے،تو اس کو تلمیح کہتے ہیںاور یہ صنعت بلغا کے نزدیک اطناب سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ قیس رازی کے اس خلاصے سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ تلمیح بلاغت کا اعلی درجہ ہے۔وہ کہتا ہے کہ کسی کلام میں بلاغت تین قسم کی چیزوںسے پیدا کی جاسکتی ہے۔ ’ایجاز‘، ’مسوات‘ اور ’بسط‘۔جب کلام کے تھوڑے الفاظ بہت سے معانی پر دلالت کریں،تو اس وقت کلام میں ایجاز ہوگا۔جب کلام کے لفظ و معنی میں ایک تناسب اور برابری ہو تو اس وقت کلام میں مسوات ہوگی اور جب کلام میں کسی معنی کی بہت سے الفاظ کے ذریعے وضاحت کی جائے،تو کلام میں ’بسط‘ہوگا۔یہ بلاغت کی قسمیں ہیں اور صنائع معنوی میںتلمیح ان سب کا نچوڑ ہے۔

تلمیحات کا غائر مطالعہ کرنے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ ان تلمیحات کی اپنی ایک نوعیت ہوتی ہے۔جیسے نشاطیہ،حزنیہ،قنوطیہ اورجنونیہ وغیرہ جوشاعراور اس کے کلام کی نفسیاتی کیفیت کی غمازی کرتی ہیں۔شاعر ہر طرح کی تلمیحات سے شعر میں ایک لطف یا دکھ درد والی کیفیت پیدا کرتا ہے۔جیسے لیلیٰ ومجنوںکی کہانی سے شاعر اپنے دکھ کابیان کرتا ہے۔میر کا یہ شعر دیکھیںجس میں اس نے لیلیٰ اورمجنوںکی تلمیحات سے کس طرح اپنے غم کا اظہار کیا ہے۔

عاشق و معشوق   یاں  آخر  فسانے  ہو گئے

جائے گریہ ہے جہاں،لیلیٰ کہاں،مجنوں کہاں

علم بدیع کی صنائع معنویہ کی ساری صنعتوں میں تلمیح وہ صنعت ہے جو سب سے زیادہ فصیح اور بلیغ ہے۔اس لیے اگر غزل میں تلمیح برتی جائے تویہ غزل، فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے اعلیٰ درجے کی ہوگی۔محمود نیازی لکھتے ہیں:

’’تلمیحی الفاظ کے رواج سے ادیب اور شعرائ کو آسانیاںفراہم ہو جاتی ہیں۔ وہ اپنے خیالات و افکار سے مناسب سانچوں میں ڈھالنے پر قادر ہو جاتے ہیں اور کم وقت میں زیادہ کام کر سکتے ہیں۔‘‘

(محمود نیازی، دیباچہ، تلمیحات غالب،غالب اکیڈمی، نظام الدین، نئی دہلی، 1972،ص 9)

کہا جاتا ہے کہ جس زبان میں تلمیحات کم ہیں یا بالکل ہی نہیں ہیں تو اِس زبان کی اُن زبانوں کے بالمقابل وہ معنویت نہیں رہ جاتی کہ جن زبانوںمیں تلمیحی الفاظ کی کثرت پائی جاتی ہے لیکن اردو شاعری میںتلمیحی الفاظ کی بہت کمی پائی جاتی ہے۔ لے دے کر چند تلمیحاتی الفاظ ملتے ہیں جن میں کثیر تعداد میں الفاظ غیرملکی زبانوں کے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی اس خطے میں جتنے واقعات اور قصص و کہانیاںملتی ہیں ان کے حساب سے ان کو ادا کرنے کے لیے مختصراشارات بھی نہیں ملتے جب کہ دوسری زبانوں میں ان کی کثرت پائی جاتی ہے۔محمود نیازی نے اپنی کتاب ’تلمیحات غالب‘میں لکھاہے:

’’ادبی حیثیت سے ان زبانوں کو مالدار سمجھا جاتا ہے جن میں تلمیحات کا استعمال کثرت سے ہوتا ہے۔ انگریزی زبان کی مثال موجود ہے۔اس میں ہر قوم،ہر مذہب اور ہر لٹریچر کی تلمیحات شامل ہیںاور ان میں برابر اضافہ ہو رہا ہے۔شاہنامہ فردوسی، گلستاں و بوستاں، الف لیلہ و لیلہ،لیلیٰ مجنوں،شیریں و فرہاد اور اسی قسم کی سیکڑوں مشرقی علوم کی کتابوں سے تلمیحات اخذ کرکے ادبیات یورپ میں داخل کی جا چکی ہیں۔ برخلاف اس کے ہماری ہندوستانی زبانیں اور خصوصاََاردو کا دامن تلمیحات سے خالی ہے۔اس کی یہ ظاہر وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ وقت کی بہتات اور مشاغل کی کمی سے ہم لوگ تفصیلی گفتگو کے عادی ہو چکے ہیں۔‘‘(ایضا،ص 9)

اردو شاعری میں بہت سی تلمیحات عربی سے اور بہت سی ایران سے اور کچھ خالص ہندوستانی تلمیحات اردو زبان و ادب میںشامل ہوئی ہیں۔اردو شاعری میںعربی تلمیحات کی بھرمار نظر آتی ہے اس لیے کہ اردو زبان و ادب پر عربی کے گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیںاور عربی الفاظ کا چلن بھی اردو زبان میں زور و شور سے ہونے لگا تھااسی وجہ سے اردو شاعری میں تلمیحات کے بیشتر الفاظ عربی زبان سے مستعار ہیں۔عربی زبان میں انبیا کی تلمیحات بہ کثرت پائی جاتی ہیں جن کو اسلامی تلمیحات بھی کہا جاتاہے اورپھر انھیں تلمیحات کو اردو شعرا نے اپنے کلام کا حصہ بنایا۔کچھ اسلامی یا قرآنی تلمیحی الفاظ ملاحظہ ہوں:

آدم،یعقوب،یونس،سلیمان،بلقیس،یوسف،ابراہیم،اسماعیل،موسیٰ،عیسیٰ ومریم،لیلیٰ و مجنوں اورقرآن کی آیات و الفاظ وغیرہ جو کسی واقعے کو بیان کرتے ہیں۔’آدم ‘کی تلمیح سے جنت کے لوازمات اورانسان کی پیدائش وغیرہ کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ ’یعقوب‘ کی تلمیح سے کلام میںگریہ و زاری اور آہ و بکا کی کیفیت پیش کی جاتی ہے اور ’یوسف ‘سے کمال حسن کی عکاسی اور پیرہن یوسفی میں شفا یابی سے تسلی بھی دی جاتی ہے۔’یونس‘ کی تلمیح سے دوسروں کے حق میں جلدبازی سے فیصلہ نہ لینے کی تلقین اور ’ابراہیم و اسماعیل‘ کی تلمیح سے صبر وعشق کے باہمی اختلاط سے عقل کی بے چارگی کو پیش کرنا مقصود ہوتا ہے۔’ سلیمان‘ کی تلمیح سے ایک لامحدود اور لا زوال طاقت و قوت کی طرف اشارہ کرناشاعر کا مقصد ہوتا ہے۔وہیں ’بلقیس‘ سے عجز کا پیغام دیا جاتا ہے۔’نوح‘ کی تلمیح سے لوگوں کو بدی و بدکاری کے کاموں سے روکنے اور کسی چیز کی کثرت بتانا اور’ موسیٰ‘ کی تلمیح سے خدا کے نور کو بے پردہ دیکھنے کی تمنااور اس سے ہم کلامی کا اظہاربھی کیا جاتا ہے۔’عیسیٰ و مریم ‘کی تلمیحات سے پاک دامنی و پاک بازی کے ساتھ نطق فصیح اور لا علاج بیماری سے شفایابی کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔تلمیحات کلام میںایک ہی وقت میں بہت سے معانی و مفاہیم پیدا کر سکتی ہیںاوراِنھیں تلمیحات کے ذریعے شاعر کے کلام کی تاثیر بھی بڑھ جاتی ہے اور ساتھ ہی کلام کے معنوی پہلوؤں پرروشنی بھی پڑ جاتی ہے۔مثال میں یہ اشعار پیش کیے جاتے ہیں:

نہ چھوڑی حضرت یوسف نے یاں بھی خانہ آرائی

سفیدی دیدۂ یعقوب  کی پھرتی ہے زنداں  پر

(غالب)

حسنِ  یوسف  پہ  کٹیں مصر  میں انگشت ِ زناں

سر  کٹاتے ہیں  ترے  نام  پہ  مردان  عرب

                                                   (احمد رضا خاں)

آگ  ہے  اولادِ  ابراہیم  ہے  نمرود  ہے

کیا کسی  کو  پھر  کسی  کا  امتحاں  مقصود  ہے

(اقبال)

ایران سے جو تلمیحات اردو زبان میں آئیں ان تلمیحی الفاظ کی ایک طویل فہرست بن سکتی ہے۔چند یہ ہیں، جیسے  ’جمشید‘کی تلمیح سے عیش و عشرت ’ضحاک‘ کی تلمیح سے کسی حکومت یا شخص کے ظلم و جبرکے عدمِ تحمل سے اس ظلم کی بیخ کنی اور ’فریدوں ‘کی تلمیح میں محنت کشی،امن پسندی اور مظلوم کی فریاد سنائی دیتی ہے۔’کیخسرو ‘ کی تلمیح سے مستقبل میںرونما ہونے والے واقعات کی معلومات کا حصول اور ’رستم ‘کی تلمیح سے بہادری،’افراسیاب ‘ کی تلمیح سے توران کا جنگجوبادشاہ، ’نوشیروان‘ سے عدل و سخا، ’جوئے شیر ‘ کی تلمیح سے شیریں کی یادمیں پہاڑ کاٹ کر بنائی گئی وہ نہر ہے جو محنت و مشقت اور پیارکی نشانی ہے اور ’فرہاد و شیریں‘ کی تلمیح سے سچے عشق کی داستان کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔اشعار ملاحظہ ہوں           ؎

اور بازار  سے  لے  آئے  اگر  ٹوٹ گیا

ساغر جم  سے  مر ا  جام  سفال  اچھا  ہے

(غالب)

لیلیٰ ہے نہ مجنوں ہے  نہ شیریں ہے  نہ فرہاد

اب رہ گئے ہیں عاشق و معشوق میں ہم آپ

                                              (نوح ناروی)

کاوِ  کاوِ  سخت جانی ہائے  تنہائی نہ پوچھ

صبح کرنا  شام  کا لانا ہے  جوئے شیر  کا

(غالب)

خالص ہندوستانی رنگ میں ملبوس تلمیحات بھی اردو شاعری میں دیکھی جا سکتی ہیں جن کو شعرا نے اپنے کلام کا حصہ بنایا ہے۔جیسے ’رام‘،’سیتا‘اور ’راون‘ کی تلمیحات اگرچہ ایک ہی پس منظر کو پیش کرتی ہیں مگر ان کے ذریعے شاعرالگ الگ احساسات و جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔ کبھی ’رام‘ اور ’سیتا‘ کے سچے پریم کی کہانی سناکر ’راون‘ کو اس پیار کا دشمن بنا کر پیش کیا جاتا ہے اورکبھی تلمیحاََ انھیں الفاظ سے انسانوں کی نفسیاتی کیفیت کی عکاسی بھی کی جاتی ہے۔ یعنی انسان کی ذات میں ایسی خوبی و خامی بیان کرنا مقصود ہوتا ہے۔ ’گوتم بدھ‘ کی تلمیح سے پران و گیان کی تلاش و جستجواور’گنگا‘و’جمنا‘ کی تلمیح سے ہندوستانی تہذیب و تمدن اور گہرے معنوی رشتوں کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی ہندوستانی تلمیحات اردو شاعری کا حصہ ہیں            ؎

رام و گوتم کی زمیں  حرمتِ انساں  کی امیں

بانجھ ہو جائے گی کیا خون کی برسات کے بعد

(علی سردار جعفری)

اے  آب رود گنگا  اف  ری  تری  صفائی

یہ  تیرا  حسن  دل کش  یہ  طر زِ  دلربائی

(سرور جہاں آبادی)

ڈاکٹرمصاحب علی صدیقی نے تلمیحات کے موضوع پر اپنی پی ایچ ڈی کے مقالے ’اردو ادب میں تلمیحات‘ میں گہرائی اور گیرائی کے ساتھ تلمیحات کی افادیت ومقصدیت پر روشنی ڈالی ہے۔انھوں نے تلمیح کو کلام کا ایسا جزو بتایا ہے جس کی وجہ سے کلام کا حسن اپنی مکمل رعنائی کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے۔یہ تلمیحات کلام کو حسن بخشتی ہیں،  کلام میں ایجاز پیدا کرتی ہیں اور کلام کو بلاغت کا مرقع بنا دیتی ہیں۔ساتھ ہی یہ تلمیحات ہمیں اپنے ماضی سے بھی ہمکنار کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔وہ لکھتے ہیں:

’’تلمیح در اصل ایک فطری تقاضا ہے، وہ سماج کی ضرورت کا ایک سرچشمہ ہے۔وہ تمدن کا سنگِ میل ہے،وہ ایجاز و اختصار کی ایک اہم کڑی ہے،وہ حسن ِ کلام کا مرقع ہے،عروج ِکمال کی کسوٹی ہے جو نہ صرف ایک قدیم صنعت ہے بلکہ دیگر صنائع کے مقابل میں یہ صنعت نہایت دلچسپ،لطیف اور جامع ہے۔‘‘

(مصاحب علی صدیقی، اردو ادب میں تلمیحات،فخر الدین علی احمد میموریل کمیٹی، یوپی،1990،ص10)

تلمیحات میں شاعر کی جدت طرازی کا سراغ تلمیح کو استعارہ بنا کرپیش کرنے میں ملتا ہے۔اس لیے کلام میںظاہری اور معنوی حسن کے لیے استعارہ سازی نہایت ضروری ہے۔تلمیح بھی چند حرفوں کا ایک استعارہ ہی ہوتی ہے جس میں زمانے اور تاریخ کے گہرے نقوش پیوست ہوتے ہیں۔علم بدیع محسنات ِلفظیہ و معنویہ سے بحث کرتا ہے اور صنائع معنویہ کی اعلی مثال میں تلمیح کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ اب رہی یہ بات کہ تلمیح کو اشعار میں کس طرح برتا جائے تو اس کا کوئی باضابطہ قاعدہ کلیہ نہیں ہے۔  پھر بھی اس کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں۔

پہلا طریقہ تو یہ ہے کہ تلمیحی الفاظ جس پس منظر میں لائے گئے ہیں وہ واضح ہوناضروری ہے ورنہ قاری پر اس کا اثر نہیں ہوگا اور اس کا ذہن اس واقعے تک بہ آسانی نہ پہنچنے کی وجہ سے کلام کی معنویت ختم ہو جائے گی جس کے لیے کلام کو پیش کیا گیا ہے۔اس کی مثال میں غالب کا وہ شعر ہے جس میں انھوں نے ایرانی تہذیب کی طرف اشارہ کیا ہے    ؎

نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا

کاغذی  ہے  پیرہن ہر پیکر تصویر کا

اگر اس شعر کی وضاحت خود غالب نہ کرتے تو اس شعر میں پیش کی گئی تلمیح بے سود رہ جاتی۔ اس سے بس اتنا سمجھ آتا کہ یہ دنیا اور اس کے اسباب و علل کو حقیقی ثبات نہیں ہے بلکہ سب فانی ہے۔جب کہ اس شعر کو اس طرح سمجھنا بھی تلمیحی کسر پوری کر دیتا ہے مگر پھراس کی معنویت کیا رہ جاتی۔اس طرح کا خیال تو میر تقی میرکے یہاں بھی ہے اور بہت واضح انداز میں ہے۔اس لیے کلام کی معنویت ان تلمیحی الفاظ سے بہتر ہوتی ہے جن کا پس منظر بہت واضح ہوتا ہے     ؎

کہا میں نے گل کا ہے کتناثبات

کلی نے  یہ  سن کر  تبسم  کیا

دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اگر ایک ہی شعر میں متعدد تلمیحات کا استعمال کیا گیاہے تواب پہلے مصرعے میں تلمیحی لفظ ہو یا دوسرے مصرعے میں یاپھر دونوں مصرعوں میں۔اس وقت رعایت الفاظ بہت ضروری ہوتی ہے ورنہ اس صورت میں بھی کلام کی معنویت باقی نہیں رہے گی۔مثال کے طور پر ولی کا یہ شعر ملاحظہ ہو       ؎

اے سکندر نہ ڈھونڈ آبِ حیات

چشمۂ خضر  خوش   بیانی   ہے

اس شعر میں سکندر،آب حیات،چشمۂ خضر تلمیحی الفاظ ہیں مگران میں ایک طرح کی رعایت برتی گئی ہے۔شاعر نے ذوالقرنین ’سکندر‘ کی تلمیح سے لوگوںکو یہ تلقین کی ہے کہ آب حیات کی تلاش بے سود ہے۔ کیونکہ خضر بھی اپنی طویل عمر سے عاجز آ چکا ہے۔اس لیے کم عمر میں نیک کام کرکے مر جانا ہی بہتر ہے۔اس طرح کے اشعار اس انسان کو بھی اپنی توجہ کا مرکز بناتے ہیں جوبے جا حرص و طمع کی خواہش رکھتا ہے۔ کیوں کہ آخر میں تو موت ہی مقدر بنتی ہے۔اس طرح شاعر نے تلمیح میںمراعات النظیرکی صنعت سے ایک معنوی اور لفظی ربط پیدا کیاہے۔

تیسرا طریقہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک ہی شعر میں مختلف تلمیحی الفاظ کا استعمال کیا جائے جو الگ الگ قصوں یا واقعات سے تعلق رکھتے ہوں اورساتھ ہی ان کا پس منظر بھی الگ الگ ہو۔ لیکن ان کے درمیان ایک مشترکہ خصوصیت ہو۔اس طرح کے اشعار بھی اردو شاعری میں دیکھنے کوملتے ہیں۔جیسے مومن کا یہ شعر اس کی واضح مثال بن سکتا ہے       ؎

وہی مذہب ہے  اپنا بھی جو قیس و کوہ کن کا تھا

نئی راہ افترا ہے کب بھلا مومن نے بدعت کی

قیس ‘و’کوہ کن ‘یہ الفاظ اپنے اندرعشق و عاشقی کی پوری تہذیب لیے ہوئے ہیں۔مومن نے اس شعر میں’ قیس‘ اور ’کوہ کن‘ کا ذکر کیا ہے۔جب کہ یہ تلمیحی کردار الگ الگ قصے سے تعلق رکھتے ہیں۔ مگر ان میں قدر مشترک ’عشق‘ ہے۔ کیونکہ’ قیس ‘و’کوہ کن‘ دونوں اپنے عشق میںثابت قدم رہے اور اس طرح دونوں سچے عشق کا مظہر بن گئے۔ مومن نے بھی ان الفاظ کو شعر میںجمع کرکے اپنے روایتی عشقی رویے کی داستان بیان کر دی ہے۔یہی توشاعر کا کمال ہوتا ہے کہ وہ کن الفاظ سے مضمون کی ادائیگی میں بہتر معانی پیدا کر سکتا ہے۔شرف الدین مضمون کا یہ شعر بھی کچھ اسی طرز پر ہے       ؎

ہم نے کیا کیا نہ ترے عشق میں محبوب کیا

 صبرایوب    کیا، گریہ ٔ یعقوب   کیا

اس شعر میں’صبر ایوب‘سے ایک الگ کہانی مراد ہے اور ’گریۂ یعقوب‘ سے فراق ِیوسف مراد ہے۔ مگر ان میں قدر مشترک ’عشق‘ ہے جس میں عاشق کا مقدر،قوت برداشت اور صبر و تحمل کی تلقین کی جاتی ہے کہ عشق میں جو صبر ہے۔اس میں تو مرتبہ ٔ ایوب تک پہنچ جا اور اس کے فراق میں مرتبہ ٔ یعقوب حاصل کرلے۔ کیوں کہ ایک سچا عاشق اپنے محبوب کے سچے عشق میں سب کچھ کرنے کو تیار ہو جاتا ہے۔شاعر اپنے کلام کے ایک ہی شعر میں مختلف تلمیحات سے مختلف معانی و مفاہیم اخذکر سکتا ہے۔ بقول الطاف حسین حالی : کہیں آہوئے مادہ سے آفتاب مراد لی ہے اور کہیں اشک زلیخا سے کواکب اور کہیں آب خشک سے پیالہ،کہیں پنج دریا سے پانچ انگلیاں۔ تلمیحی الفاظ بھی کچھ اسی نہج پر مبنی ہوتے ہیں کہ شاعر ایک ہی تلمیحی لفظ سے کبھی گل و گلشن مراد لیتا ہے تو کبھی اسی لفظ سے محبوب کے رخسار مراد لیتا ہے۔

تلمیح کا اصل کمال غزلیات میں رمزیاتی کیفیت، لفظی حسن اورکلام میں پہلو در پہلو معنویت پیدا کرناہوتا ہے اور شاعر ان تلمیحات کے ذریعے اپنے سامع یا قاری کو تخیل کی ایسی پر اثر وادی میں لے جاتا ہے کہ جس میں اس کی عقل حیرت زدہ رہ جاتی ہے۔ شاعر ہزاروں نت نئے اسالیب اختیار کرکے قاری کو مسحورکرتا ہوا نظر آتا ہے۔ شاعری ہی وہ میدان ہے جس میںصنائع و بدائع کا استعمال کرکے ایک لفظ کے متعدد متناسب اور متضادمعانی پیدا کیے جاسکتے ہیں اور یہ شاعر کا کمال ہوتا ہے کہ وہ ایک لفظ کو شاعری میں برتنے کے لیے کتنے جتن کرسکتا ہے۔ شاعری،شاعر کے موضوعات کے محور میں گھومتی ہے اور موضوعات الفاظ سے پیدا کیے جاتے ہیں۔موضوع کی مناسبت سے شاعر کے لیے جتنا ہو سکتا ہے۔ وہ انوکھے اور عمدہ مضامین تلاش کرکے ان میں اپنی تخلیقی قوت صرف کرکے قاری کے سامنے پیش کر دیتا ہے اور قاری کا ذوق جمال بھی شعر پڑھتے ہی اس میں پیش کیے گئے مضمون کی معنویت،انوکھاپن،حسن کی کرشمہ سازی اور الفاظ کی مرصع سازی کو جان لیتا ہے۔اس لیے شاعری کے لیے سنجیدگی اور شاعر کے لیے تخلیقی صلاحیت نہایت ضروری ہے۔

تلمیحات ادب کی جان ہیں اور اس ادب کی پہچان بھی ہیں جو بیک وقت قوم کے احوال و آثار،ان کی تہذیب و ثقافت،سماجی ضروریات،معاشی ہم آہنگی اور معاشرتی رہن سہن کو پیش کرتا ہے۔یہ انسانی زندگی کی عکاس ہیں کہ جب انسان کا رہن سہن اور آپسی ملن ہواتو یہی تلمیحات ان کو آپس میں کلام کرنے اور ایک دوسرے کی بات کا مفہوم سمجھنے میں مددگار ثابت ہوتی تھیں۔

 

 

Mohammad Arif

Room No.: 258, Tapti Hostel, JNU

New Delhi - 110067

Mob.: 9027564028




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں