خط لکھنا، خیریت کا لین دین
ہے۔ اس کی ضرورت اُس وقت پڑی ہوگئی، جب انسان لکھنے پڑھنے لائق ہوا ہوگا اور اپنوں
سے دور بغرضِ ملازمت، تجارت یا رہائش کہیں اور گیا ہوگا۔یہ کہنا تو ممکن نہیں کہ
دنیا کا وہ پہلا شخص کون ہے جس نے پہلی بار خط لکھا ہوگا۔ اُردو میں مکتوب نگاری کی
روایت تو خاصی قدیم ہے لیکن غالب نے مکتوب نگاری کو ایک نیا مقام عطا کیا بلکہ یوں
کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ غالب نے مکتوب نگاری کو بطورِ صنف Establish کرنے
اور اعتبار بخشنے میں اساسی کردار ادا کیا۔ غالب سے قبل کی خطوط نگاری کے بہت واضح
نقوش نہیں ملتے۔ ایسا نہیں ہے کہ غالب سے قبل خط لکھے نہیں جاتے تھے، بلکہ خط بہت
زیادہ ثقیل زبان اور طول طویل القابات کے ساتھ لکھے جاتے تھے۔ خط میں کام کی بات
تو صرف دو ایک جملے ہی میں ہوا کرتی تھی، مگر پورا خط احترام و آداب، القابات،
دعائیہ جملوں سے بھرا ہوتا تھا۔ فارسی کے جملے، مصرعے اور ضرب الامثال کا استعمال
زیادہ ہوتاتھا۔ یہ تو خیر سمجھیں کہ حضرتِ غالب نے شاعری کے ساتھ ساتھ اپنے دوستوں
اور عزیزوں کو باضابطہ خط لکھے اور اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ غالب کے وہ خط محفوظ رہے جو بعد میں ترتیب و تدوین
کے ساتھ کتابی شکل میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگئے ورنہ اردو ادب ایک صنف سے محروم
ہو جاتا۔
غالب نے جس طرح خطوط تحریر کیے،
اس سے جہاں ایک طرف خطوط میں در آئی ثقالت کم ہوئی تو دوسری طرف خط میں گفتگو کا
انداز بھی آیا۔ غالب کی زبان کی بے ساختگی، برجستگی اور ظرافت نے خط کو انتہائی
مؤثر اور دلچسپ بنادیا۔ خطوطِ غالب پڑھتے ہوئے یہ محسوس ہوتا ہے گویا دو لوگ آپس
میں گفتگو کر رہے ہیں۔ سنجیدہ سے سنجیدہ مسائل بھی خط میں کچھ اس طرح بیان ہوتے ہیں
کہ گویا کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔
اردو میں خطوط نگاری کی ابتدا
یہ بات آج تک تحقیق طلب ہے کہ
اردو میں پہلا خط کس نے کس کو تحریر کیا۔ اس سلسلے میں ہمارے محققین اور ناقدین
کرام کسی ایک بات پر متفق نہیں ہیں۔ 1981ئ میں شائع پروفیسر ثریا حسین کی کتاب
گارساں د تاسی: اردو خدمات، علمی کارنامے‘ محمد طفیل کے نقوش کے خطوط نمبر 1968،
داستانِ تاریخِ اردو، حامد حسن قادری 1966 اور غالب اور شاہانِ تیموریہ (ڈاکٹر خلیق
انجم) میں اردو کے پہلے خط اور پہلے مکتوب نگار پر کچھ اشارے ملتے ہیں۔ جن کے
مطالعے سے ایک دھندلی سی تصویر سامنے آتی ہے، جس کے مطابق افتخار الدین علی خاں
شہرت (1810)، رجب علی بیگ سرور، خواجہ غلام غوث خاں بے خبر (1846)، جان طپش، راسخ
عظیم آبادی (1914 سے قبل) کے خطو ط ملتے ہیں۔ ان میں ڈاکٹر ثریا حسین کی تحقیق کے
مطابق شہرت کا خط تاریخی اعتبار سے اردو کا پہلا خط قرار پاتا ہے لیکن یہاں ایک
مسئلہ پھر بھی قائم ہے۔ شہرت نے یہ خط کس کو لکھا، یہ واضح نہیں ہے۔ اس سلسلے میں
گارساں د تاسی کے ذریعہ اس عہد کے خطوط کا مجموعہ ’ضمیمہ ہندوستانی کی مبادیات‘ جو
1833 میں شائع ہوا۔ ہماری تحقیق کا واحد Resource ہے۔ اس مجموعے میں اردو کے بیشتر خطوط ملتے ہیں۔ جن میں سے زیادہ تر انگریزی ایسٹ
انڈیا کمپنی اور فرانسیسی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازمین اور ملازمت کے خواہش مند
حضرات کے خطوط ہیں۔ انھیں خطوط میں ایک خط راجہ رام موہن رائے کا بھی ہے۔ جو انھوں
نے 1831 میں لندن سے دتاسی کو پیرس بھیجا تھا۔ خط ملاحظہ فرمائیں:
جناب فضیلت مآب زاد مجدہم و
شرفہیم
رقعہ مبارک پہنچا و بندہ کو
مسرور و معزز کیا۔ قادر علی الاطلاق آپ کو اس یاد آوری کے ساتھ سلامت رکھے۔ تین
مہینے سے زیادہ انگلینڈ میں مقیم ہے۔ انشا اللہ تعالیٰ عنقریب پارس میں مشرف خدمت
ہوگا اور وہ آپ کی توجہ سے جناب شیزی صاحب کی ملاقات حاصل کرے گا۔ آپ کے وعدۂ
مراعات سے بندۂ کمتر ممنون ہوا و ادائے شکر تہہ دل سے کرتا ہے۔
زیادہ حدِّ ادب
خادمکم ممنونکم
رام موہنو ہن
حرّر فی التاریخ یکم اگست 1831
(بحوالہ اردومیں ادبی خط نگاری کی روایت اور غالب، ڈاکٹر
بیگم نیلوفر احمد، ص70، ماڈرن پبلشنگ ہائوس، دہلی2007)
راجہ رام موہن رائے کا یہ خط
اس لیے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ یہ گارساں د تاسی کے نام ہے اور اردو خطوط کے اوّلین
نمونوں میں سے ایک ہے۔ غالب سے قبل رجب علی بیگ سروراور ایک آدھ خط خواجہ غلام
غوث خاں بے خبر کا ملتاہے۔ ویسے یہ بات بھی ثابت ہے کہ بے خبر، غالب کے معاصر ہیں
اور خطوطِ غالب کے مجموعے ’عودِ ہندی‘ کو پہلے انھوں نے ترتیب دیا تھا۔ ہوسکتا ہے
ایک آدھ خط، غالب کے خطوط سے پہلے کا ہو، یہاں ان کے ایک خط کا اقتباس نقل کر رہا
ہوں۔
’’۔۔۔خدا
کا شکر کرو کہ اُس نے تمہیں محبوب صورت، مرغوب سیرت، حسنِ شمائل، پسندیدہ خصائل،
فہم و رسائ، ذہن و ذکا، عقل سلیم، طبیعت مستقیم، علمِ مفید، بختِ سعید، تقریر کی
فصاحت، تحریر کی بلاغت۔۔۔‘‘
(انشائے بے خبر، مرتبہ سیّد مرتضیٰ حسین بلگرامی، علی
گڑھ، ص10)
بے خبر کا یہ خط، مدح سرائی
دوسرے لفظوں میں نثر میں تعریف کا نمونہ ہے۔ بے خبر ہوں یا رجب علی بیگ سرور، سرسیّد
ہوںیا الطاف حسین حالی، سب غالب کے معاصر ہیں۔ لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ غالب سے
قبل اردو میں مکتوب نگاری کی روایت نہ بہت قدیم ہے اورنہ صحت مند وتوانا۔ معاصرین
غالب میں بھی بے خبر پر غالب کے اثرات نظر آتے ہیں۔ خط کو عام فہم اور نثر کورواں
دواں بنانے میں جو کردار خطوطِ غالب نے ادا کیا وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آیا۔
ہاں یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کام کو آگے بڑھاتے ہوئے غالب کے ساتھ ساتھ سرسیّد اور
الطاف حسین حالی کے خطوط نے بھی ا ہم کردار ادا کیا۔ یہاں غالب کا ایک خط ضرور پیش
کرنا چاہوں گا۔ مرزا ہرگوپال تفتہ کو ایک خط میں لکھتے ہیں:
از عمر و دولت برخوردار باشند۔
بدھ کا دن، تیسری تاریخ فروری
کی، ڈیڑھ پہر دن باقی رہے۔ ڈاک کا ہرکارہ آیا اور خط مع رجسٹری لایا۔ خط کھولا۔
سو روپیے کی ہنڈوی، بِل، جو کچھ کہیے وہ ملا۔ ایک آدمی رسید مہری لے کر نیل کے
کٹرے چلاگیا۔ سو روپیہ چہرہ شاہی لے آیا۔ آنے جانے کی دیر ہوئی اور بس۔ چوبیس
روپیے داروغہ کی معرفت اُٹھے تھے۔ وہ دیے گئے۔ پچاس روپے محل میں بھیج دیے۔ چھبیس
روپے باقی رہے، وہ بکس میں رکھ لیے۔ روپے کے رکھنے کے واسطے بکس کھولا تھا، سو یہ
رقعہ بھی لکھ لیا۔ کلیان سودالینے بازار گیا ہوا ہے۔ اگر جلد آگیا تو آج، ورنہ
کل یہ خط ڈاک میں بھیج دوں گا۔ خدا تم کو جیتا رکھے اور اجر دے۔ بھائی! بری آبنی
ہے۔ انجام اچھا نظر نہیں آتا، قصہ مختصر یہ کہ قصہ تمام ہوا۔
غالب
چار شنبہ، 3 فروری 1858، وقت
دوپہر
غالب کے مذکورہ خط میں جو
اوصاف ہیں، وہ سب پر عیا ں ہیں۔ لفظوں کی سادگی، جذبات نگاری، چھوٹے چھوٹے جملے، بے
ساختگی، حالات کا تذکرہ وغیرہ سب کچھ ایک چھوٹے سے خط میں موجود ہے۔ خطوطِ غالب میں
نہ صرف غالب کی ذاتی زندگی کے عکس ملتے ہیں بلکہ عہدِ غالب، معاصرینِ غالب، دوست
احباب، شاگرد اور اُن کے عہد کے علاوہ 1857 کے حالات، انگریزوں کے بدلتے تیور،
پنشن کے معاملات، اصلاح و تصحیح کے معاملے وغیرہ کا بھی احوال ہمارے سامنے آجاتا
ہے۔ خطوطِ غالب سے عہدِ غالب کے سیاسی، سماجی اور ادبی حالات کو بھی سمجھنے میں
مدد ملتی ہے۔ یہی باعث ہے کہ مکتوب نگاری میں ڈیڑھ صدی کا طویل عرصہ گزرنے کے بعد
بھی آج تک کوئی غالب کا ہمسر پیدا نہیں ہوا۔ جبکہ مکتوب نگاری کے ضمن میں تقریباً
ایک درجن بڑے ادیبوں کے نام بہ آسانی لیے جاسکتے ہیں۔ بے خبر، سرور، الطاف حسین
حالی، سرسیّد، شبلی، مہدی افادی، اقبال، منٹو، ابوالکلام آزاد، مالک رام، سجاد ظہیر،
عبدالحق کے خطوط کی اہمیت سے کسے انکار ہوسکتاہے۔ مگر غالب ان سب پر غالب ہیں۔
اردو میںجب مکتوب نگاری کی
ابتدا کی بات کی جاتی ہے تو ہمارے محقق اس کا سہرا بھی غالب کے ہی سر باندھتے ہیں۔لیکن
ما ہر غالب مالک رام کی رائے دوسروں سے کچھ مختلف ہے۔وہ غالب سے پہلے رجب علی بیگ
سرور اور دیگر اصحاب کا ذکر بھی کرتے ہیں:
’’بیش تر لوگوں کا خیال ہے کہ اردو میں خط نویسی کی ابتدا
غالب سے ہوئی۔یہ درست نہیں۔غالب سے پہلے فسانۂ عجائب والے رجب علی بیگ سرور نے خطوط
لکھے اور شائع کیے اور یوں اِکا ّ دُکا ّ خط کئی اور اصحاب کے بھی ملتے ہیں۔ہاں یہ
درست ہے کہ غالب نے خطوں میں ایسا بدیہہ انداز اختیار کیا کہ انہیں سحرِ حلال بنادیا۔اس
سے پہلے اور خودان کے زمانے میں بھی فارسی خطوں میں لمبے لمبے القاب و آداب اور
عبارت آرائی کی یہ بھر مارتھی کہ سطریں پڑھ جائیے لیکن مدعاعنقا ہے اپنے عالمِ
تحریر کا۔یہ تو ممکن نہیں کہ کسی کو بھی اس اسلوب تحریر کی لغویت کا خیال نہ آیاہو
لیکن اس میں شک نہیں کہ اسے ترک کر دینے یا اس میں اصلاح کی جرأت نہیں ہوئی۔اس کا
سہرا بھی غالب کے سر رہا۔‘‘
(’نقوش‘ خطوط نمبر، جلد اوّل،مدیر: محمد طفیل، اپریل 1968،
ص39)
مالک رام نے اردو خطوط نویسی کی
ابتدا کے تعلق سے رجب علی بیگ سرور اور دیگر کا ذکر ضرور کیا ہے لیکن یہ بھی
ماناہے کہ وہ غالب ہی ہیں جنھوں نے فارسی خطوط کے لمبے لمبے القاب و آداب اور
عبارت آرائی کو اپنی تحریر سے ترک کرنے کی جرأت کی اور بالآخر وہ غالب کی اولیت
کو مان لیتے ہیں۔
مکتوب نگاری کا ارتقا
مکتوب نگاری کی روایت کو غالب
کے عہد اور بعد میں سمجھنے کے لیے میںیہاں چار معروف مکتوب نگاروں سرسیّد، شبلی،اقبال،
منٹو اور ابوالکلام کے خطوط کے حوالے سے گفتگو کر رہاہوں۔ سرسیّد کا شمار معاصرینِ
غالب میں بھی ہوتا ہے اور بعد کے لوگوں میں بھی۔ ویسے ایماندارانہ بات تو یہی ہے
کہ سرسیّد کی فکرو نظر اور تحریر میںایک موڑ 1870
سفر لندن سے واپسی کے بعدآیا۔ جس میں ’تہذیب الاخلاق‘ کی اشاعت کا بڑا
ہاتھ ہے۔ جس کے بعد سرسیّد کے مضامین، مقالات اور خطوط میں بھی اردو نثر کے وہ
نمونے ملتے ہیں جن سے اردو نثر کو عام بنانے کی تحریک کو تقویت ملی اور یہ سب غالب
کے بعد ہوا۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ سرسیّد کی نثر پر بھی غالب کے خطوط کے اثرات
دکھائی دیتے ہیں۔ اور سرسیّد کو نثر کو عام فہم بنانے کی تحریک بھی غالب سے ہی ملی
ہے۔ 1870 کو سرسیّد کی ادبی اور سماجی زندگی کا خط فاصل کہا جاسکتا ہے۔ ان کی تحریر
میں امتیازات کو بخوبی دیکھا جاسکتاہے۔ یہاں سرسیّد کا ایک خط ملاحظہ فرمائیں۔ منشی
شیام بہاری لال کو لکھا گیا سرسیّد کا یہ خط:
مشفقی منشی شیام بہاری لال
صاحب
نجم الدین عرف ٹٹو کو یکم جنوری
سے بارہ روپیہ ماہواری کے حساب سے محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس سے تنخواہ ملا کرے گی۔
آپ لالہ سری لال کے ہاں سے منجملہ مبلغان کانفرنس 20 روپیہ منگا لیجیے۔ بارہ روپیہ
تو نجم الدین کو بابت ماہ جنوری دے دیجیے اور کانفرنس کے اخراجات میں لکھیے اوریہ روپیہ بابت کرایہ ریل آمدورفت نجم الدین
کانفرنس کے حساب میںلکھیے اور وہ آٹھوں روپیہ میری امانت روزنامچۂ مدرسہ میں جمع
کر دیجیے۔ والسلام
خاکسار
2؍ فروری 1893
سیّد احمد
(مکاتیب سرسیّد، مرتبہ مشتاق حسین، ص383، فرینڈ بک ہائوس،
مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، 1995)
سرسیّد کا مذکورہ بالا خط کئی
اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے۔ اس خط سے ایک تو سرسیّد کے قومی یکجہتی کے نظریے کو
تقویت ملتی ہے کہ سرسیّد نے محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس میں غیر مسلم ملازمین کو بھی
ملازمت پر رکھا۔ دوسرے سرسیّد کے ذاتی معاملات کی ایک جھلک بھی دکھائی دیتی ہے کہ
سرسیّد کس طرح محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس کا حساب کتاب شفافیت سے رکھتے تھے۔ جہاں تک
خط کی زبان کا تعلق ہے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ زبان بہت سہل اور عام فہم
ہے۔ خط کا سن 1893ہے یعنی عہدِ غالب کے بعد کا زمانہ خطوطِ غالب کے اثرات بھی مکاتیب
سرسیّد پر صاف نظر آتے ہیں۔ سرسیّد کی تخلیقی کائنات کا یہ دوسرا دَور ہے جس میں
تہذیب الاخلاق کے مضامین کے موضوعات اور زبان سے اُردو کے فروغ کا نیا دَر وا ہوا
تھا۔
اردو خطوط نگاری کے ارتقا میں
معاصرین سر سید میں علامہ شبلی کا نام خاصا نمایاں ہے۔انہوں نے قسطنطنیہ سے سرسید احمد خاں کے نام متعدد خطوط
لکھے،جن میںسے ایک طویل خط کا اقتباس یہاں پیش کیا جارہا ہے۔
سیدی!
تسلیم،
22مئی کو یہاں پہنچا،لیکن ترددات کی وجہ سے خط لکھنے کی مہلت نہ مل سکی،یہ خط بھی
مختصر اور پرائیویٹ ہے، کچھ میںکچھ باتیں آپ انتخاب فرما کر چھاپ دیں تو ممکن ہے،
میں نے سردست ایک مختصر ساحجرہ ۱۱؍روپیے مہینہ کرایہ کا لے لیا ہے،لیکن کھانے کا صرف بہت زیادہ
ہے۔
سب سے ضروری بات یہ ہے کہ آپ
دو تین سویا اس سے زیادہ روپئے بھیج دیں کہ جو کتاب جس وقت ہاتھ آئے لے لی جائے،یانقل
و کتابت کا انتظام کیا جا سکے، کتابیں بہاں بہت ہیں اور نادر ہیں، لیکن کہاں تک
لکھوائی جاسکتی ہیں،امام غزالی کی تصنیفیں یہاں موجود ہیں اور بوعلی سینا کی توشاید
کل تصنیفات مل سکتی ہیں،امام غزالی کے خطوط بھی موجود ہیں،خیر جو ممکن ہوگا کیاجائے
گا،یہاں اکثرلوگوں سے ملاقات ہوسکتی ہے،لیکن مشکل زبان کی ہے،بعض بڑے کالج دیکھے
مگر زبان کی اجنبیت کی وجہ سے حالات معلوم کرنے میں نہایت دقت ہوتی ہے،میں نے ترکی
پڑھنی شروع کی ہے اور ان شائ اللہ کچھ نہ کچھ بقدرضرورت واپسی کے وقت تک سیکھ لوں
گا،اس وقت تمام کا لجوں وغیرہ کی رپورٹ تیار کر سکوں گا۔
حالات دلچسپ ہیں اور سفر نامہ
کے لیے بہت سامان مل جائے گا،لیکن اس وقت بلکہ زمانۂ قیام تک مطلق فرصت نہیں مل
سکتی،ہرروز تین چار میل کا چکر کرنا پڑتا ہے،بہت بڑا شہر ہے اور تمام کتب خانے وغیرہ
دوردور واقع ہیں...
شبلی نعمانی
25؍مئی 1882
قسطنطنیہ مقام تختہ خان قریب محمود پاشا
(خطوط شبلی، مرتب مولوی محمد امین زبیری،تاج کمپنی لاہور،
1926 ص،41)
بیسویں صدی میں مکتوب نگاری کا
جہاں تک سوال ہے تو اقبال منٹو
اورابوالکلام آزاد کے مکاتیب کو صدی کے نمائندہ خطوط کے طور پر پیش کیا جاسکتا
ہے۔ اقبال ہماری شاعری کی آبرو ہیں توان کی نثر کا بھی ایک اہم مقام ہے۔ مکاتیبِ
اقبال خاصی تعداد میں موجود ہیں۔ جنھیں سیّد مظفر حسین برنی نے ’کلیاتِ مکاتیبِ
اقبال‘ کی شکل میں پانچ ضخیم جلدوں میں مرتب کیا ہے۔ جنھیں اُردو اکادمی، دہلی نے
1993 میں شائع کیا۔ اقبال کا ایک خط دیکھیں۔ یہ انھوں نے مولانا سیّد سلیمان ندوی
کے نام لکھا تھا۔
15؍ جنوری 34
مخدومی،
السلام علیکم
دنیا اس وقت عجیب کشمکش میں
ہے، جمہوریت فنا ہوری ہے اور اس کی جگہ ڈکٹیٹرشپ قائم ہورہی ہے۔ جرمنی میں مادّی
قوت کی پرستش کی تعلیم دی جارہی ہے۔ سرمایہ داری کے خلاف بھی ایک جہاد عظیم ہورہا
ہے۔ تہذیب و تمدن (بالخصوص یورپ میں) حالتِ نزاع میں ہے۔ غرض کہ نظامِ عالم ایک نئی
تشکیل کا محتاج ہے۔ ان حالات میں آپ کے خیال میں اسلام اس جدید تشکیل کا کہاں تک
ممد ہوسکتا ہے۔ اس مبحث پر اپنے خیالات سے مستفیض فرمائیں۔ اور اگر کچھ کتابیں ایسی
ہوں جن کا مطالعہ اس ضمن میں مفید ہو تو ان کے ناموں سے آگاہ فرمائیے۔ والسلام
محمد اقبال
(کلیات مکاتیبِ اقبال، مرتبہ سیّد مظفر حسن برنی، ص449،
جلدسوم، اردو اکادمی دہلی، 1993)
مولانا سیّد سلیمان ندوی،
اقبال کے معاصرین میں تھے۔ مذہبی فکر و فلسفہ اور اسلامی وژن کے معاملے میں مولانا
سیّد سلیمان ندوی یدطولیٰ رکھتے تھے۔ اقبال ان کا بہت احترام کرتے تھے اور وقتاً فوقتاً
بعض اسلامی معاملات میں مولانا سے صلاح و مشورہ بھی کر لیا کرتے تھے۔ اقبال خود
اسلامی فکر و فلسفے کے تعلق سے اپنا ایک مخصوص نظریہ رکھتے تھے۔ اور اپنی شاعری میں
خودی کا فلسفہ ہو یا کامل مومن کی بات، اقبال نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ
مبارکہ اور تعلیمات کو بنیاد بناکر اپنی شاعری میں استعمال کیا ہے۔ اقبال کے متعدد
اشعار اسلامی نظریۂ تبلیغ و اشاعت کا بہترین ذریعہ ہیں۔
مذکورہ خط میں اقبال پورے عالم
میں سیاسی ابتری اور تہذیب و تمدن کی شکست و ریخت سے فکرمند ہیں۔ جمہوریت اور سرمایہ
داری کا خاتمہ ہورہا ہے۔ آمریت بڑھ رہی ہے۔
ایسے میں اقبال مولانا سے سوال کر رہے ہیں کہ کیا اسلام عالم میں جدید تشکیل
میں معاون ہوسکتا ہے؟ یہ خط دراصل ہندوستان کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کے سیاسی نظام
کے لیے ہونے والی فکرمندی کا اظہاریہ ہے۔ یعنی اس خط سے عصری حسیت کے طورپر سیاسی
صورتِ حال کا بخوبی علم ہوتاہے۔ ساتھ ہی مولانا سیّد سلیمان ندوی کی سیاسی، سماجی
اور مذہبی مدبر کی حیثیت کو مزید مستحکم کرتا ہے۔ اسی کے ساتھ سیاسی نظامِ حیات کے
تعلق سے اقبال کے فکر و نظر اور عملی اقدام سے بھی آگاہ کرتا ہے۔ یہ ایک اچھے خط
کا وصف ہے کہ اچھے خطوط، ذاتی زندگی، عوامی رابطے، اپنے عہد کی سیاسی و سماجی
صورتِ حال کی تفصیل نہیں بتاتے تو اشارے ضرور کرتے ہیں۔ غالب کے خطوط میں یہ عناصر
بخوبی تلاش کیے جاسکتے ہیں۔
سعادت حسن منٹو
اردو
خطوط نگاری میں جب منٹو کا نام لیا جاتا ہے تو بعض لوگوں کو حیرانی ہوتی ہے۔منٹو جیسا
بڑا افسانہ نگار جس نے اپنے عہد اور بعد میں بھی اپنی افسانہ نگاری کا لوہا تسلیم
کروایا تھا۔جب کسی کو خط لکھتا ہے تو اس میں بھی بہت سے نئے پہلو وا ہوتے ہیں۔منٹو
کے احمد ندیم قاسمی کے نام بہت سے خطوط ملتے ہیں۔جو دلچسپی سے خالی نہیں ہیں یہاں
ان کا ایک خط نقل کیا جا رہا ہے:
71اڈلفی چیمبرز، کلیئر روڈ۔بمبئی 8
(جنوری 1939 )
برادرِمکرّم
وعلیکم السلام۔آپ کا محبت
نامہ ملا۔ شکریہ!…میں آگے کچھ اور لکھنا چاہتا تھا معاًمیرے دماغ میں یہ خیال آیا
کہ آپ اور میں، یعنی قاسمی اور منٹو،مٹی کے دو ڈھیلے ہیں جو لڑھک لڑھک کر قریب
آنا چاہتے ہیں…مٹی کے دوڈھیلے…!ٹھیک ہے… انسان مٹی کا ڈھیلا ہی تو ہے۔
یہ سن کر بہت خوشی حاصل ہوئی
کہ آپ کو انعام میں ایک طلائی تمغہ ملا…مجھے تمغے پسند ہیں، مگر ان پر کھدے ہوئے
حروف اور شکلیںبالکل ناپسند ہیں، جو گونگی ہوتی ہیں۔آپ کاخط ڈاکیے نے اس وقت میرے
ہاتھ میں دیا، جبکہ میں اپنی اسٹوریMUD کو
مکمل کر رہا تھا۔ آپ کی رائے پر میں نے غور کیا،مگر جو کچھ آپ نے لکھا ہے غیر
فلمی ہے۔ اس لیے مجھے اۡس سے کوئی فائدہ نہ پہنچ سکا۔ بہر حال آپ یہ سن کر خوش
ہوں گے کہ میں نے’کیچڑ‘ مکمل کر لیا ہے۔ جو کچھ میں چاہتا تھا اس کا 3/4 حصہ اس میں
آچکا ہے۔ بقایا آ جائے گا اس لیے کہ میں دن رات اسی کے متعلق غور و فکر کرتا
رہتا ہوں۔ MUDمیں
آپ کو بہت سی نئی چیزیں نظر آئیں گی۔’’ نیا قانون‘‘ کے استاد منگو کی جھلک آپ
کو نتھو کے کیریکٹر میں ملے گی۔ پھر میں نے اپنے ہر کیریکٹر کو اۡس
کی برائیوں اور اچھائیوں سمیت پیش کیا ہے۔ اگر یہ اسٹوری فلمائی گئی اور ڈائریکشن
اۡس چیز کو بر قرار رکھ سکی جو میرے سینے میںہے تومیرا خیال
ہے کہ آپ میرےMUD میں سارا ہندوستان دیکھ لیں گے۔
’خود کشی‘ میں بچپن ہے، یہ اۡس
زمانے کی تحریر ہے، جب میں خود کشی کا خیال کیا کرتا تھا۔ آپ نے ضرور محسوس کیا
ہوگا کہ افسانے کی عبارت ایک ایسے سینے سے نکلی ہوئی ہے، جو بہت چھوٹا ہے۔
آپ’اوپیرا‘ لکھ کر ضرور روانہ
فرمائیے۔ یہاں سے آپ کو اس کا حق الخدمت روانہ کر دیا جائے گا۔ رفیق صاحب اسے
کمپوز کریں گے۔
آپ کی نظمیں مل گئیں۔ بے حد
شکریہ۔ مصوّر میں چھپتی رہیں گی۔ رفیق صاحب سب کی سب لے گئے ہیں۔
خلش صاحب اور نذیر صاحب آداب
عرض کرتے ہیں۔
اگر ہو سکے تو ’ ساقی ‘ کے
سالنامے میں ’ پھا ہا‘ اور ’ادبِ لطیف‘ کے سالنامے میں ’ٹیڑھی لکیر‘ضرور پڑھیے گا۔
کیا آپ نے مصوّر میں ’’ نیا
سال‘‘ پڑھا ؟…کیا رائے ہے؟
امید ہے کہ آپ بخیریت ہوں گے۔
آپ کا بھائی
سعادت حسن منٹو
(آپ کا سعادت حسن منٹو(منٹو کے خطوط ,مرتب اسلم پرویز،
دوسرا ایڈیشن،عرشیہ پبلی کیشنز، دہلی، 2019، ص،69)
احمدندیم قاسمی کے نام منٹو کے
ہر خط میں کوئی نہ کوئی نئی بات ضرور سامنے آتی ہے۔اس خط میں بھی منٹو نے انسان کی
بے ثباتی کو ثابت کیا ہے۔ساتھ ہی ساتھ اپنی Mud (کیچڑ) کے تعلق سے بہت ساری باتیں لکھی ہیں یہ بھی لکھا
ہے کہ نیاقانون کے استاد منگو کی جھلک مڈ کے نتھو کے کردار میں نظر آئے گی اور یہ
فلم ہندوستان کا منظر نامہ پیش کرے گی۔افسانہ خودکشی کے بارے میں بھی احمد ندیم
قاسمی سے ذکر کرتے ہیں۔اس طرح کی باتوں سے منٹو کا یہ خط بھرا پڑا ہے،آپ کو یہاں
بھی منٹو دوسروں سے مختلف نظر آئے گا۔جس میں ساقی اور ادب لطیف کا ذکر ملے گا تو
مصور کا بھی۔ممبئی کے فلمی شب وروز ملیں گے تو افسانوی دنیا بھی نظر آئے گی۔
بیسویں صدی میں مکتوب نگاری کا
کوئی ذکر مولانا ابوالکلام آزاد کے مکتوب کے بغیر ادھورا ہی تسلیم کیا جائے گا۔ بیسویں
صدی ہی کیا اردو میں مکتوب نگاری کا ارتقا اور روایت، مولانا آزاد کے خطوط کے بغیر
مکمل نہیں ہوسکتی۔ ’غبارِ خاطر‘ مولانا ابوالکلام آزاد کے ایسے خطوط کا مجموعہ ہے
جو انھوں نے احمد نگر قلعہ میں نظربندی کے تقریباً تین سال کے دوران اپنے رفیق
نواب صدر یار جنگ (حیدرآباد) کے نام تحریر کئے تھے۔ یہ سارے خطوط، اردو میں مکتوب
نگاری کے ذیل میں عام ڈگر سے ایک انحراف کی صورت سامنے آئے۔ بظاہر یہ خطوط ایک رفیقِ
خاص کے لیے تحریر ہوئے ہیں لیکن ان خطوط میں ایک عالم، مفکر، دانشور، سیاست داں کی
زندگی کے ذاتی اوراق موجود ہیں۔ قیدوبند کے معاملات وحالات، ہندوستان کاسیاسی منظر
نامہ، تحریکِ آزادی کی سرگرمیاں، کانگریس کا حال، انگریزوں کی منصوبہ بندی اور
مقاماتِ نظربندی کے تذکرے شامل ہیں۔ یہ سارے خطوط یک طرفہ ہیں اور ایک عالم، ادیب
اور دانشور کے زورِ قلم کا نتیجہ ہیں۔ بعض خط خاصے طویل ہیں اور بڑی بڑی کہانیاں
اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں۔ ان خطوط کا سب سے بڑا وصف ان کی زبان اور طرزِ تحریر
ہے۔ یہاں میں قلعۂ احمد نگر سے 29؍ اگست 1942 کو لکھا گیا ایک خط پیش کرنا چاہوں گا۔ پورا
خط تو طویل ہے، ایک اقتباس ملاحظہ کریں۔
قلعہ احمد نگر
29؍ اگست 1942
۔۔۔۔ لوگ لڑکپن کا زمانہ کھیل کود میں بسر کرتے ہیں، مگر بارہ تیرہ
برس کی عمر میں میرا یہ حال تھا کہ کتاب لے کر کسی گوشہ میں جا بیٹھتا اور کوشش
کرتا کہ لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہوں۔ کلکتہ میں آپ نے ڈلہوزی اسکوائر ضرور دیکھا
ہوگا۔ جنرل پوسٹ آفس کے سامنے واقع ہے، اسے عام طو رپر ’لال ڈگی‘ کہا کرتے تھے۔
اس میں درختوں کا ایک جھنڈ تھا کہ باہر سے دیکھیے تو درخت ہی درخت ہیں، اندر جائیے
تو اچھی خاصی جگہ ہے اور ایک بینچ بھی بچھی ہوئی ہے۔ معلوم نہیں، اب بھی یہ جھنڈ
ہے کہ نہیں۔ میں جب سیر کے لیے نکلتا، تو کتاب ساتھ لے جاتا اور اس جھنڈ کے اندر بیٹھ
کر مطالعہ میں غرق ہو جاتا۔ والد مرحوم کے خادمِ خاص حافظ ولی اللہ مرحوم ساتھ ہوا
کرتے تھے۔ وہ باہر ٹہلتے رہتے اور جھنجھلا جھنجھلا کر کہتے، ’’اگر تجھے کتاب ہی
پڑھنی تھی، تو گھر سے نکلاکیوں؟‘‘ یہ سطریں لکھ رہاہوں اوراُن کی آواز کانوںمیں
گونج رہی ہے۔ دریا کے کنارے ایڈن گارڈن میں بھی اس طرح کے کئی جھنڈ تھے۔ ایک جھنڈ
جو برمی پگوڈا کے پاس مصنوعی نہر کے کنارے تھا اور شاید اب بھی ہو، میں نے چن لیا
تھا کیوں کہ اس طرف لوگوں کا گذر بہت کم ہوتا تھا۔ اکثر سہ پہر کے وقت کتاب لے کر
نکل جاتا اور شام تک اس کے اندر گم رہتا۔ اب وہ زمانہ یاد آتا ہے تو دل کا عجب
حال ہوتا ہے ؎
عالمِ بے خبری، طرفہ بہشتے
بوداست
ابوالکلام
محولہ
بالا اقتباس مولانا آزاد کے ایک طویل خط جو تقریباً 11 صفحات (کتابی سائز) پر پھیلا
ہوا ہے، کا ہے۔ اس چھوٹے سے اقتباس کے
مطالعے کے بعدبھی یہ احساس ہو جاتا ہے کہ مولانا کا طرزِ تحریر نہ صرف اپنے معاصرین
بلکہ اردو مکتوب نگاری کی روایت میں مختلف و منفرد ہے۔ اقتباس کا مطالعہ کرتے ہوئے
ایسا محسوس ہوتا ہے گویا ہم کسی افسانے یا ناول کے کسی اقتباس کا مطالعہ کر رہے
ہوں۔ اقتباس کا کمال یہ ہے کہ اس میں مولانا کے بچپن کے یادگار واقعات کا ذکر ہے۔ یہ
بات بھی واضح ہوتی ہے کہ مولانا بچپن سے ہی تعلیم کے دیوانگی کی حد تک شوقین تھے۔
ورنہ کھیل کود اور سیر و تفریح کی عمر میں جھنڈ کے اندر کتاب لے کر پڑھائی کرنا،
کہاں سمجھ میں آتا ہے۔ آج کل ایسے جھنڈ کا طالب علموں کے ذریعہ جو استعمال ہوتا
ہے، وہ بھی ہم پر عیا ںہے۔ آج کی نسل تو پارکوں میں ایسے تنہا گوشوں کی تلاش میں
سرگرداں رہتی ہے اور عاشقانہ راز ونیاز بلکہ اس کے آگے کے سفر سے بھی محظوظ ہوتے
رہتے ہیں۔ خط میں کلکتہ کے بعض معروف مقامات ڈلہوزی اسکوائر اور ایڈن گارڈن کا ذکر
موجود ہے۔ ویسے خط کی زبان میں ایک طرح کی سادگی ہے۔ عموماً یہ تصور کیا جاتا ہے
کہ مولانا کی زبان بہت زیادہ فصیح و بلیغ ہوا کرتی ہے۔ جس کے سمجھنے کے لیے زیادہ
محنت کرنی پڑتی ہے، ایسا نہیں ہے۔ خط میں جس طرح کی عام فہم زبان کی بنیاد غالب نے
ڈالی اور پھر بعد کے لوگوں نے جس طرح سے اسے عروج بخشا، مولانا آزاد نے اپنے خطوط
میں اس کو آگے بڑھایا ہے۔
اردو مکتوب نگاری کا سفر راجہ
رام موہن رائے سے غالب، پھر اقبال، منٹو اور ابوالکلام آزاد تک آتے آتے عروج تک
آپہنچا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اردو مکتوب نگاری کے ارتقامیں متعدد مکتوب نگار
نے اپنے کارہائے نمایاں سے اسے ہر طر ح مضبوط و مستحکم کیاہے۔ لیکن جو کام غالب نے
کیا وہ بے مثل ہے۔ آج بھی مکتوب نگاری کے تعلق سے جتنا کام، ترتیب و تدوین، سمینار
وغیرہ کا انعقاد عمل میں آتا ہے اس میں کثرت غالب پر ہونے والے کاموں کی ہی ہے۔
مکتوب نگاری کا زوال
اکیسویں صدی
میں انفارمیشن ٹکنالوجی نے جس برق رفتاری سے ترقی کی ہے اور پوری دنیا کو اپنی مٹھی
میں قید کیا ہے، اس کی مثال نہیں ملتی۔ نئی صدی، نئی تکنالوجی اور نئے موضوعات نے
ہماری زندگی کے ساتھ ساتھ ادب کو بھی متاثر کیا ہے۔ ادب کی صورت تبدیل ہوئی ہے۔
نئے اور انوکھے موضوعات بعض ایسے موضوعات بھی جن کے بارے میں کبھی سوچا نہیں تھا،
آج ہمارے سامنے ہیں۔ اکیسویں صدی سے قبل سائبر اسپیس، سائبر کرائم، سوشل میڈیا وغیرہ
کے بارے میں ہم کچھ بھی نہیں جانتے تھے۔ آج بڑے بڑے کارنامے، کرائم اورنت نئی چیزیں
سوشل میڈیا اور سائبر میڈیا سے سامنے آرہی ہیں۔ رابطے کے نہ صرف ذرائع بدل گئے ہیں بلکہ
انتظار کے لمحات ختم سے ہوگئے ہیں۔ اب طویل محبت ناموں اوراُن کے جوابات کا انتظار
نہیں ہوتا۔اب چھوٹی بڑی باتیں، انتہائی راز دارانہ طریقے سے ایک دوسرے تک پہنچ جاتی
ہیں۔ آج کے زمانے میں ای میل، وہاٹس ایپ، فیس بک وغیرہ کے ذریعہ نہ صرف خط بلکہ
تصاویر اور آواز سب سکنڈوں میں ایک دوسرے تک پہنچ جاتے ہیں۔ ایسے میں جہاں ہم نے
بہت ترقی کی ہے وہیں ہماری کچھ خوبصورت عادتوں، روایتوں اور محبت کے طور طریقوں کو
زبردست نقصان پہنچا ہے۔ اب خطوط لکھنے کا سلسلہ کم ہوتے ہوتے آفس کے کام کاج تک
سمٹ کر رہ گیا۔ شارٹ ہینڈ کا زمانہ تو کب کا جاچکا لیکن اختصار نویسی، مخفف اور
ابتدائی حروف، اختتامی حروف، نشانات، اعداد، اشیا کی تصاویر وغیرہ ایسے اشارے کنایے
بن گئے ہیں کہ اب لمبی لمبی باتیں، طویل گفتگو، لمبے جملے وغیرہ یہ سب گئے وقتوں کی
باتیں ہوگئی ہیں۔ جب آج ہر آدمی گھوڑے کی پیٹھ پر سوار، اُلٹے سیدھے، قواعد کی
درستگی جیسی صفات سے خالی جملے فخریہ استعمال کر رہا ہے۔ ایسے میں جہاں ہماری بہت
سی اصناف میں تبدیلیاں آئی ہیں، وہیں کچھ نے بالکل دم توڑ دیا ہے۔ کچھ تغیر و
تبدل کے شانوں پر سوار خود کو نئے ماحول میں ڈھالنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ کچھ
خاتمے کے قریب ہیں۔ اکیسویں صدی میں تغیر و تبدل اور تکنیک کے طوفان سے خود کو
محفوظ نہ کرپانے والی اصناف میں سب سے زیادہ خطرناک عہد سے گزرنے والی صنف مکتوب
نگاری ہے۔ بیچارے غالب کو کیا پتہ تھا کہ وہ جس صنف کو ثقیل عبارت، فارسی زدگی،
طول طویل القابات سے نکال کر بے تکلّفی، برجستگی اور مکالمے کی فصا تک لے آئے ہیں،
وہ ایک-ڈیڑھ صدی کے اندر، قریب المرگ ہو جائے گی۔ اب خط لکھنے کی زحمت کون کرتا ہے
اور ایسا کرے بھی کیوں؟ خط سے خیریت کا ہی تو تبادلہ ہوتا تھا۔ اب یہ سارے کام ای-میل
اور فیس بُک، وہاٹس ایپ اور دوسرے میڈیا انجام دیتے ہیں۔ ہم سب نے کبھی خواب میں
بھی نہیں سوچا تھا کہ مکتوب نگاری کا پورا نظام ہی مفت (Free) ہو جائے گا۔ لفافے، پوسٹ کارڈ، ان لینڈ لیٹر، ایئرمیل،
ٹکٹ، تار وغیرہ کی ضرورت ہی ختم ہو جائے گی۔ ایسے میں خطوط کے تعلق سے کوئی بات
کرنا کیسا عجیب لگتا ہے۔ غالب، سرسیّد، شبلی،مہدی افادی، اقبال، ابوالکلام کے بعد
بھی مکتوب نگاری سجاد ظہیر، منٹو، علی سردار جعفری، قمر رئیس، مجروح رشید احمد صدیقی،
آل احمد سرور، رالف رسل، محمد حسن، شارب ردولوی اور عارف نقوی کے یہاں بھی ایک مستحکم روایت کے طور
پر نظر آتی ہے۔ بعد میں بیسویں صدی کے اواخر اور کچھ اکیسویں صدی کے اوائل تک
خطوط کے باقیات ملتے ہیں۔ لیکن اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں اب بہت ضروری کام
سے ہی خط تحریر ہوتے ہیں۔ باقی زیادہ تر کام اب موبائل سے ہونے لگے ہیں اور سوشل میڈیا آدھے ادھورے جملوں کے ساتھ پوری
تصویر ہمارے سامنے کردیتا ہے۔ زمانہ تصویر اور آواز کا ہے اوراب تحریر قصّۂ پارینہ
ہوئی جاتی ہے۔
Prof. Aslam
Jamshedpuri
Chaudhary
Charan Singh University
Ramgarhi
Meerut- 250001 (UP)
Mob.:
8279907070
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں