خورشید الاسلام اردو ادب میں
اپنے منفرد اسلوب کی بنا پر معروف ہیں۔ وہ بنیادی طور پر تخلیق کار ہیں۔ انھوں نے
شاعری سے اپنی تخلیقی ہنر مندی کا آغاز کیا بعد میں تنقید کی جانب پیش قدمی کی
اور خصوصی توجہ کی بنا پر تنقید ان کی شناخت کا اولین وسیلہ بن گئی۔ خورشید
الاسلام کے تخلیقی مزاج نے نثری تحریروں کو بھی متاثر کیا، لہٰذا ان کی تنقید اردو
ادب میں تخلیقی تنقید کا معیار قائم کرتی ہے۔ انشاپردازانہ نثر اور تخلیقی جلوہ
افروزی کے باعث مولانا ابوالکلام آزاد، نیاز فتح پوری، قاضی عبدالودود اور اعجاز
حسین جیسے ممتاز ادیب ان کے گرویدہ تھے اور انھیں محمد حسین آزاد، نیاز فتح پوری
و عبدالرحمن بجنوری کی صف میں جگہ دی جانے لگی۔
ناول اور غزل تنقید میں خورشید
الاسلام کا خاص میدان ہے۔ انھوں نے ناول میں مرزاہادی رسوا اور غزل میں غالب کو
اپنی تنقید کا مزکز بنایا۔ ان دونوں موضوع پر ان کی الگ الگ کتابیں ہیں۔ رسوا کے تین
ناولوں کو انھوں نے اپنی تنقیدی کسوٹی کا موضوع بنایا۔ یہ ناول امرائو جان ادا،
ذات شریف اور شریف زادہ ہیں۔ یہاں امرائو جان کے تجزیے پر توجہ مرکوز ہے۔
خورشیدالاسلام نے معروف زمانہ
ناول ’امرائو جان ادا‘ کو خصوصی طور پر اپنی تنقید کا موضوع بنایا۔ اس پر خاطر
خواہ، دلچسپ اور بامعنی گفتگو کی۔ انھوں نے موضوع، کردار، مکالمہ، اسلوب، کہانی
اور ماحول و مناظر کی روشنی میں اس ناول کا تجزیہ کیا۔ اس ناول کو تنقیدی نقطۂ
نظر یا تجزیاتی عمل سے گزارنے کے پس پردہ خورشید الاسلام کا اصل مقصد موضوع کی بازیافت
ہے، جسے عموماً ایک طوائف کی کہانی بتا کر نظر انداز کرنے کی کوشش کی گئی اور اس
باعث یہ ناول بے توجہی کا شکار بھی ہوا۔ بقول خورشید الاسلام:
’’ہماری زبان میں ایک ناول ایسا بھی ہے جسے خاصے کی چیز
سمجھا جاتا ہے لیکن جس کی طرف ابھی تک کوئی توجہ نہیں کی گئی ہے۔ غالباً اس کا ایک
سبب یہ ہے کہ اسے محض ایک طوائف کی دلچسپ کہانی سمجھ کر پڑھا جاتا ہے جس کا نتیجہ یہ
ہے کہ اس کے بنیادی اور قابل قدر پہلو نظر سے اوجھل ہوگئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں
کہ ’امرائو جان ‘ ناول میں ایک اہم کردار کی حیثیت رکھتی ہے۔ لیکن اس سے یہ لازم
نہیں آتا کہ وہی اس ناول کا موضوع بھی ہو۔ ناول کی قدر و قیمت کا اندازہ کرنے کے
لیے یہ قطعاً ضروری ہے کہ پہلے اس کے موضوع کو دریافت کیا جائے۔‘‘ (
مرزا رسوا کی ناولیں، خورشید الاسلام، ص49)
اس تعلق سے ایک دوسری جگہ
لکھتے ہیں:
’’اس مسئلے پر اس قدر تفصیل کی ضرورت نہ ہوتی اگر بعض
ناقدوں نے اس ناول کو امرائو جان کی کہانی سے تعبیر کیا ہوتا۔ مثال کے طور پر علی
عباس حسینی نے اپنی کتاب ناول کی تنقید و تاریخ میں سمجھتے ہیں کہ یہ ایک رنڈی کی
کہانی اسی کی زبانی ہے۔‘‘ (ایضاً، ص 56)
نیز یہ کہ:
’’موضوع سے واقفیت حاصل کرنے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ ہم فن
کے مطالبوں کو پاگئے ہیں اور ان کی کسوٹی پر تفصیل، تصادم اور ترجمانی کو پرکھ
سکتے ہیں۔‘‘ (ایضاً، ص 49)
ان تینوں اقتباسات کے پیش نظر
خورشید الاسلام کا ناولوں کے حوالے سے تجزیاتی عمل کا مزاج و معیار سامنے آتا ہے
اور یہ کہ موصوف اس معاملے میں موضوع کی دریافت اور اس کے متعلقات کی شناخت کو اولین
درجہ عطا کرتے ہیں۔ اس کے بعد دیگر اجزائے ترکیبی کو قابل توجہ سمجھتے ہیں۔ 90
صفحات پر مشتمل امرائو جان ادا کے اس تجزیے میں خورشیدالاسلام نے بیش تر اوقات یا
اوراق موضوع پر مکالمے میں صرف کیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تجزیاتی طریقۂ کار
کے درمیان بعض دفعہ موضوع ان کی نگاہ سے اوجھل ہوجاتا ہے اور وہ متن کی گہرائیوں میں
خاک چھانتے رہتے ہیں۔ یہاں اس تجزیہ و تنقید کے پس پشت دو نکتوں کی نشاندہی ملتی
ہے۔ اول ناول پر بے توجہی کی فضا کو کمزور کرنا اور دوم یہ کہ اس کے زوال کے فنی
رموز کا اندازہ لگانا۔
خورشیدالاسلام ’امراؤ جان
ادا‘ کو محض ایک طوائف کی کہانی کے بطور دیکھنے کے مخالف ہیں۔ جیسا کہ عمومی طور
پر اردو ناقدین نے کیا اور یہ اس ناول کے تعلق سے مشہور بھی ہوا۔ اس شہرت نے
’امراؤ جان ادا‘ کو محدود کردیا۔ خورشیدالاسلام نے اس ناول کو ایک تہذیب کے زوال
کے طورپر پیش کیا۔ انھوں نے امراؤ جان ادا کو اس ناول کا مرکزی کردار قرار دیا۔
خورشید الاسلام کے نظریے نے امراؤ جان ادا کو ایک منفرد زاویے سے شہرت بخشی۔
انھوں نے فکری و فنی نقطۂ نظر سے اس کی انفرادیت کا بھی احساس دلایا پھر ناول
امراؤ جان ادا پر سنجیدگی کی ایک فضا قائم ہوگئی۔
ناول ’امراؤجان ادا‘ کو
محدود کیے جانے پر معترض خورشید الاسلام رقم طراز ہیں:
’’یہ کہنا غلط نہیں کہ طوائفوں کی زندگی اس ناول کا موضوع
نہیں ہے۔‘‘(ایضاً، ص 56)
خورشید الاسلام ’امراؤ جان
ادا‘ پر مباحثے میں اس ناول کے موضوع و کردار کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ علاوہ ازیں
ماحول سازی و منظر کشی، کہانی پن، پلاٹ، اسلوب اور مکالمے کو اخیر میں اس کا حصہ
بناتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ ناول لکھنؤ کی تہذیب و معاشرت کی نقش و نگارش ہے۔
لکھنؤ کے اس زوال پذیر معاشرے کے پس منظر میں طوائفوں کی اندرون بیرون خانہ زندگی،
نوابوں، ڈاکوؤں، لکھنوی شہر کے میلے، فیض آباد کے حجرے، غدر 1857 کے بعد کا
ہندوستان اور اس کی تباہ کاریاں یہ پورا منظر ناول ’امراؤ جان ادا‘ میں یکجا
ہوگئے ہیں۔
غدر 1857 اور آزادیِ ہند کے
درمیان کی تاریخ ہندوستانی معاشرت اور تہذیب و ثقافت کے نشیب و فراز اور کشمکش و
انہدام کی تاریخ ہے۔ اس عہد میں ملک کے بہت سارے تاریخی، روایتی اور تہذیبی رویے
روبہ زوال ہوئے۔ لکھنؤ کا تہذیب و تمدن اسی وسیع تناظر کا حصہ ہے۔ ایک روشن تہذیب
اور یادگار تاریخ کی روایت ہے۔ لکھنوی تہذیب کی زندہ جاوید روایت کو تاریخ اور
زبان و ادب میں مختلف طریقے سے پیش کیا گیا ہے، بلکہ اردو ادب میں شعری و نثری
اصناف میں اس کا ایک سرمایہ ہے۔ ناول کی دنیا میں فسانۂ عجائب، فسانۂ آزاد اور
آگ کا دریا اس کی مثال ہے۔ اس زمرے میں امرائو جان ادا اس اعتبار سے شہرہ آفاق و
لافانی ہے کہ اس ناول میں فکر و فلسفے کی ممتاز شخصیت مرزا ہادی رسوا نے اپنی ہمہ
جہتی، علمی بصیرت اور ہنر مندی کا ثبوت پیش کیا ہے۔ انھوں نے لکھنوی تہذیب کو
طوائفوں کی ایک زندہ روایت کے ساتھ پیش کر کے اپنی فن کاری کا جلوہ بکھیرا ہے۔
موضوع کا عمدہ انتخاب اور اس کا خوبصورت فکری و فنی برتاؤ اس ناول کا امتیاز ہے۔
موضوع، کردار، اسلوب، مکالمہ اور منظر نگاری کے تاریخی و تہذیبی سیاق و سباق اس
ناول کے مثالی اجزا ہیں۔ خورشید الاسلام ناول امراؤ جان ادا کے خالق مرزاہادی
روسوا کے تبحر علمی اور فکری ریاضت کے قائل ہیں۔ ان کے تعلق سے لکھتے ہیں:
’’ہر اچھے ناول نگار کی طرح رسوا (اپنی آستین میں روشنی
کا ایک سیلاب رکھتے ہیں۔) مگر وہ اسے بہت سلیقے سے استعمال کرتے ہیں۔ وہ ہر شخص کی
قدر اور ہر شے کی قیمت جانتے ہیں اور ان کے نمود پر محض اتنا وقت اور اتنی شعاعیں
صرف کرتے ہیں جو ان کے مقصد کے لیے ضروری ہیں۔
وہ جزئیات پر بہت کم روشنی
ڈالتے ہیں اور ان کے انتخاب میں بڑے اختصار سے کام لیتے ہیں۔ عام طور پر وہ اشیا کی
تفصیل اس وقت پیش کرتے ہیں جب انھیں کردار یا زمانے کی داخلی زندگی کے ایسے گوشوں
کو بے نقاب کرنا ہوتا ہے جنھیں کامیابی کے ساتھ اور سہولت سے دوسری صورت میں سامنے
لانا ممکن یا مناسب نہ ہو۔‘‘
(ایضاً، ص 72-73)
اب اس فکر کی تعبیر خورشید
الاسلام کے زاویۂ نظر کے زیر اثر دیکھتے ہیں۔ خورشیدالاسلام اس ناول کے موضوع پر
اپنا تاثر کچھ یوں بیان کرتے ہیں:
’’آخر اس ناول کا موضوع کیا ہے؟ امرائو جان۔ نہیں ہرگز نہیں۔
ممکن ہے اس کا موضوع طوائفوں کی زندگی ہو۔‘‘
(ایضاً، ص 56)
موضوع کی بازیافت خورشید
الاسلام کی تنقید کا مقصد ہے جو فن پارے کی بازیافت کے تناظر میں آتا ہے جسے
انھوں نے اپنا تنقیدی موقف بتایا ہے اور اس کا اطلاق ’امراؤ جان ادا‘ پر کیا ہے۔
اس ضمن میں درج بالا مختلف اقتباس ان کے اختلافی، اتفاقی اور انحرافی رویے کو ظاہر
کرتا ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے موضوع کی بازیافت کی فنی باریکیوں کی بھی نشاندہی کی
ہے۔ خورشیدالاسلام نے امراؤ جان کو ناول کے موضوع سے خارج کرتے ہوئے اسے ناول کا
مرکزی کردار تصور کیا ہے۔ اس کے بعد طوائف کی زندگی کو بھی موضوع سے درکنار کیا ہے
اور کلی طور پر شہر لکھنؤ کی تہذیب کو علامتی زوال کے طور پر ناول کا موضوع قرار
دیا ہے۔ اس کا جواز فراہم کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’امراؤ جان کا نفس اس کا حال ہے جو گھائل ہے بھی اور نہیں
بھی ہے۔ جس میں سرشاریاں بھی ہیں اور نہیں بھی ہیں۔ جس میں جیت بھی ہوتی ہے اور
ہار بھی ہوتی ہے۔ جس میں عمل کا میدان بہت وسیع ہے مگر سانس میں گناہ کا احساس
ہوتا ہے۔ اس تبائن یا تصادم میں امراؤ اپنے نفس کی بھینٹ چڑھانے پر آمادہ نظر
آتی ہے۔ اس کے گلے پر چھری رکھ دی جاتی ہے اور وہ اس کی گرمی سے پگھلتی ہوئی
معلوم ہوتی ہے۔ لیکن یہ کیفیت وقتی ہے۔ عارضی ہے۔ اس میں قلب ماہیت کی قوت نہیں۔
امراؤ جان کی زندگی پھر ایک نرم سیر دریا کی طرح بہتی چلی جاتی ہے۔ اس میں نہ کوئی
انقلاب آتا ہے نہ اسے کوئی نئی منزل دکھائی دیتی ہے۔ نہ وہ اپنے سے فرار کرتی ہے،
نہ اس کے دماغ کا آہن پگھل کر آئینہ بنتا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ یہ واقعہ نہ
کسی راز کا انکشاف کرتا ہے نہ ان واقعات کو ان حدوں تک پہنچاتا ہے جہاں وہ خود
بخود حل ہوتے ہوئے نظر آئیں۔ نہ وہ کہانی میں یا امراؤ جان ادا کی زندگی میں کوئی
زبردست یا معمولی تبدیلی پیدا کرتا ہے۔ نہ اس کے بعد کہانی ختم ہوجاتی ہے نہ اس کا
ختم ہونا یا ختم کرناناگزیر معلوم ہوتا ہے۔ اس لیے یہ واقعہ کہانی کا یا امراؤ جان ادا کی زندگی کا نقطۂ عروج ہوتا تو یہ کہانی امراؤجان کی کہانی ہوتی اور
اگر یہ امراؤ جان کی محدود واقعاتی زندگی کا نقطۂ عروج ہوتا تو اس کی زندگی کچھ
اور ہوجاتی۔‘‘
(ایضاً، ص 55-56)
طوائف کو اس ناول کے موضوع سے
خارج کرتے ہوئے خورشید الاسلام اس کی وجہ بتاتے ہیں:
’’بیش تر کردار ایک وسیلہ ہیں جن کی مدد سے ہم چند طبقوں
کو دیکھتے ہیں، مگر ان طبقوں کی زندگی تو درکنار ان کے کرداروں کی زندگی بھی طوائف
پر موقوف نہیں اور بڑی حد تک ان کی معاون ہے۔ ان میں سے ہر ایک طوائف کی کہانی چند
جملوں میں سنائی جاسکتی ہے ا ور یہ کہانی دوسری طوائف کی کہانی سے بالکل آزاد ہوگی۔
ان سب کی مجموعی داستان بھی اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ یہ سب طوائفیں تھیں۔ ناول
نگار کی تمام صلاحتیں بھی ان کی مصوری پر صرف نہیں ہوئیں اور ناول کا سارا مواد بھی
ان کی نواؤں اور فضاؤں میں حل نہیں ہوتا۔ میلے، مشاعرے اور حجرے ہم یقینا ایک
طوئف کی آنکھ سے دیکھتے ہیں لیکن یہ آنکھ ہمیں دور تک لے جاتی ہے۔ ان جلسوں میں
ہم منچلے عاشق اور پیشہ ور عیاش ہی نہیں ان کے علاوہ کچھ اور بھی دکھائی دیتا ہے
اور اس کی تہہ میں کوئی ایسی چیز نظر آتی ہے جس سے مختلف آوازوں میں زیر و بم
اور مختلف اجزا میں معنوی ربط و تسلسل اور آہنگ پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے یہ کہنا غلط
نہیں کہ طوائف کی زندگی اس ناول کا موضوع نہیں ہے۔ اب ہم منطقی نتیجے پر پہنچ گئے
ہیں لیکن آپ کی اجازت سے خلط مبحث ہی کی خاطر سہی میں ایک اور گریز کرنا چاہتا
ہوں۔ کہیں اس ناول کا موضوع یہ تو نہیں کہ چند آدمی اپنی زندگی کس طرح بسر کرتے ہیں۔‘‘ (ایضاً، ص 61)
خورشید الاسلام نے غیر امتیازی
رویے، استحکام و ثابت قدمی کی کمی، غیر متحرک، تحیر و تبدل سے خالی، انقلابی و
احتجاجی جذبات کے برخلاف اور غیر نتیجہ خیزی کے باعث امراؤجان ادا کو موضوعی
کردار سے خارج کیا ہے۔ امراؤجان کا کردار کہانی پر مرکزیت کے ساتھ اثر انداز نہیں
ہے۔ اس میں فعالیت و زندہ روی کی کیفیت کمزور ہے۔ نہ کہانی میں اس کردار نے کشمکش
پیدا کی اور نہ کہانی اس کے ارد گرد گردش کرتی ہے کہ اسے کہانی کی موضوعیت حاصل
ہوجائے۔ ہاں اس کی صورت مرکزی کردار کی ضرور ہے۔ نقطۂ عروج کے لوازمات کی خامی نے
بھی اسے کہانی کی مرکزیت سے قاصر رکھا ہے۔
خورشید الاسلام نے طوائف کو
موضوع سے بعید بتاتے ہوئے اسے ایک طبقاتی زندگی کو موثر اور متحرک بنانے کا وسیلہ
قرار دیا ہے۔ امرائو جان میں طوائفوں کی زندگی کو وہ معاون اور غیر مستحکم کردار
تصور کرتے ہیں۔ انھوں نے اس کردار کی مرکزی حیثیت کو کمزور بتاتے ہوئے اس کے لیے
کہانی کے تخلیق کار کو مورد الزام ٹھہرایا ہے اور مصوری کی خامی اور عدم پیوستگی
کو کہانی اور مصنف کا عیب بتایا ہے۔ اس کی وضاحت کے لیے مزید ایک اقتباس ملاحظہ
فرمائیں۔ خورشید الاسلام فرماتے ہیں:
’’رجب کی نوچندی اور درگاہ کی زیارت غرض یہ نواب، مولوی،
ڈاکو اور کٹنیاں، مختار اور بیگمیں، مشاعرے اور میلیں، مکھیاں بھنکتے ہوئے۔ گھر
اور مرغیوں سے آباد تکیے، دوکانیں، سرائے اور محلات، شاعر اور ان کے شاگرد، فقیر
فقرا اور ضعیف الاعتقادی کے کرشمے یہ سب چند طوائفوں کی سیرت بنانے اور بگاڑنے،
ابھارنے اور مٹانے کے لیے وجود میں نہیں آئے۔ ان کا اپنا مقصد، اپنا مصرف اور اپنی
میزان ہے۔ انھیں ہم طوائفوں کی قدر و قیمت کے پیمانے سے نہیں جانچتے۔ وہ خود اپنی
قدرو قیمت رکھتے ہیں۔ امرائو جان ادا یا کوئی اور طوائف ان کرداروں اور ان نظاروں
پر غالب نہیں آتی۔ البتہ ان سب کو ہم ایک تجربہ کار طوائف کی آنکھ سے دیکھتے ہیں
اور کبھی کبھی خود وہ طوائف پس منظر میں غائب ہوجاتی ہے اور ہمارے سامنے ایک
ڈرامائی ٹکڑا آتا ہے جہاں کسی کردار کا ذہن بے نقاب ہوتا ہے۔ دو یا دو سے زیادہ
ذہن متصادم ہوتے ہیں یا پلاٹ میں کسی غیر متوقع واقعہ سے سنسنی پیداکی جاتی ہے۔
ناول ایک بار پڑھنے کے بعد ہمیں خورشید، بسم اللہ جان، خانم اور بواحسینی یاد رہتی
ہیں۔ لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ رسوا نے ان خاکوں میں زندگی کا رنگ بھر دیا ہے۔ ان
کا دائرہ عمل بہت محدود ہے۔ یہ ایک حد تک اپنے لیے مگر بڑی حد تک دوسروں کے لیے
زندہ ہیں۔ ان کی افادیت اور زندگی اس پر موقوف ہے کہ یہ ایک وسیع منظر کا تعارف ہیں
اور اسے ہمارے سامنے لاکر یا اس کے نقش و نگار دکھا کر غائب ہوجاتے ہیں اور ان میں
سے ہر ایک وقت پر اپنا اثر چھوڑ جاتا ہے مگر ان کے شعور کی لہریں سعی و عمل میں اپنا
بھرپور اظہار نہیں کرتیں۔‘‘
(ایضاً، ص 58-59)
یہاں خورشید الاسلام نے خورشید،
بسم اللہ جان، خانم اور بوا حسینی کو ایک زندہ کردار کے طور پر تسلیم کیا ہے مگر
کہانی کے ایک وسیع پس منظر کا تعارف بتاکر اس کی حیثیت کو محدود بھی کیا ہے۔ ’’یہ
ایک حد تک اپنے لیے مگر بڑی حد تک دوسروں کے لیے زندہ ہیں۔‘‘ اس جملے سے کہانی میں
ان کرداروں یا طوائفوں کی مرکزی حیثیت کے بجائے ذیلی حیثیت کا احساس ہوتا ہے۔
مشاعرے، مجرے، درگاہ، نواب، مولوی، کٹنیاں، مختار، بیگمیں، دوکانیں، سراے اور
محلات وغیرہ یہ سب اس کہانی کے اصل ہیں۔ ان سب کا اپنا وجود ہے۔ یہ پُرمعیار اور
با مقصد ہیں۔ خورشید الاسلام اپنے مضمون میں متعدد مرتبہ یہ باور کرانے کی کوشش
کرتے ہیں کہ یہ طبقے ہی اس کہانی کی بنیاد یا مرکز ہیں یا انھیں متفرقات سے ناول
امراؤ جان ادا کے پلاٹ کی تشکیل ہوتی ہے اور ایک وسیع پس منظر کے ساتھ یہ طوائف کی
زندگی یا اعمال پر غالب آجاتے ہیں۔ انھوں نے اس ضمن میں طوائفوں کی مختلف خامیوں
اور کوتاہیوں کا اعتراف کیا۔ بالخصوص ذہنی کشمکش و جذباتی ہیجان کی کمی، موثر و
متحرک کردار و کیفیت کا فقدان اور منظم و مربوط طریقۂ کار کا عدم اطلاق اس کے اہم
وجوہات ہیں۔
خورشید الاسلام موضوع پر نتیجہ
خیزی کے اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
’’امراؤ جان ادا کا موضوع زوال ہے۔ یہ زوال ایک خاص
معاشرت کا ہے جو اودھ کے چند شہروں میں محدود تھی۔ رسوا اس معاشرت کی تصویر دکھانا
چاہتے تھے۔ ان کے ذہن میں اس کا ایک تصور بھی تھا۔ ان کے چاروں طرف اس کا مواد
بکھرا ہوا تھا اور یہ مواد آسانی سے گرفت میں لانا محال تھا۔ ان میں اتنی قوت بھی
نہ تھی کہ اسے براہ راست استعمال کرسکیں اور جہاں سے چاہیں بنتے چلے جائیں۔ منزل
تک پہنچنے میں کئی دشواریاں تھیں۔ تصویر مختصر پلاس بنائی جائے ادھوری نہ ہو۔ فن
کار کی شخصیت نظروں سے اوجھل رہے۔ ہر پہلو اپنی قدرو قیمت کے اعتبار سے جگہ پائے
کوئی ایسا منظر ہو جہاں سے زندگی کا ہر گوشہ نظر آئے اور اس منظر کی بدولت ان سب
کا مفہوم واضح ہوجائے۔ ان شرائط کے ساتھ زوال پذیر معاشرت کا مطالعہ کرنے کے لیے
خانم کے نگار خانے سے بہترکوئی منظر نہ تھا اور نہ ہوسکتا تھا۔‘‘(ایضاً، ص 62-63)
اودھ کی زوال پذیر معاشرت کو
خور شید الاسلام نے اس ناول کا موضوع قرار دیا ہے۔ ’طوائف‘ اور ’امراؤ جان ادا‘
کو موضوع کے درجے سے خارج کرنے اور اس کی اس انتہا کی جمالیات سے انکار و انحراف
کس حد تک درست ہے یہ تو اردو کے ناقدین فیصلہ کریں گے۔ مگر خورشید الاسلام کے اس
موضوع پر انحراف کے رویے اپنی جگہ پر قائم ہیں۔ بہرحال انھوں نے لکھنوی تہذیب و
معاشرت کے زوال کا جو موضوع منتخب کیا ہے اسی باعث مختلف طبقوں کو اہمیت دی اور
طوائف کو جزوی کردار کے بطور دیکھا۔ نہایت غور و فکر اور گہری بصیرت کے بعد ناول
امراؤ جان ادا کے تعلق سے انھوں نے ایک منفرد نقطۂ نظر پیش کیا۔ ایک مختلف زاویے
سے اس ناول کی تجدید و بازیافت کی۔90 صفحات پر مشتمل اس بسیط مضمون میں خورشید
الاسلام نے بنیادی طور پر موضوع سے بحث و تمحیص کی۔ سامنے کے موضوع کو بے دخل کیا۔
زوال آمادہ معاشرے کے تناظرات تلاشے۔ اس کے جواز پیش کیے۔ اس ضمن میں مرزا ہادی
رسوا کی فکری و فنی ہنر مندی و ان کے محاسن کی نشاندہی کی اور ان کی چند خامیوں کا
بھی برملا اظہار کیا۔ علاوہ ازیں انھوں نے کردار نگاری، اسلوب، مکالمہ اور منظر کشی
کے حوالے سے اس ناول کا معقول جائزہ پیش کیا۔
خورشید الاسلام کی فکشن تنقید یا
نثری تحریروں کے تعلق سے عموماً یہ رائے قائم کی گئی یا دنیائے ادب میں یہ تصور دیا
گیا کہ وہ ایک تاثراتی، جمالیاتی اور تخلیقی ناقد ہیں۔ یہ ایک سنجیدہ پہلو ہے۔
تاثراتی تنقید کا مطلب متن پر تاثر کا اکہرا نظریہ، محض خوبصورت اور تحسین آفریں
کلمات کی یکجائیت ہے یعنی دلیل و توازن، جواز، مقصدیت اور معقولیت سے خالی تحریر
ہے مگر خورشید الاسلام کی تحریر ان خوبیوں سے متصف ہے۔ ان کی تنقید سنجیدگی کا
مطالبہ کرتی ہے۔ غور و فکر کا مظاہرہ کرتی ہے۔ نتیجہ لیے ہوئے ہے۔ اس میں کچھ
جذبات پن، بے جا اور سرسری باتیں بعض دفعہ ضرور گھر کر جاتی ہیں مگر ان کی تحریر
کا غالب رجحان قطعی ایسا نہیں ہے۔ ان کے یہاں توازن و تناسب کی فضا قائم رہتی ہے۔
بے جا طوالت کے باوجود بے مقصدیت نہیں ہے۔ ان کی تنقید متن سیاق ہے جس میں سائنٹفک
تنقید کا احساس بھی ملتا ہے اور تاثراتی تنقید کے نقوش بھی۔ قدیم فکر کے مطابق تخلیق
کے لیے تنقید و تحقیق کو معیوب تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے روکھے پن اور سپاٹ رویے کی
بھی لعن طعن ہوتی رہی ہے۔ تنقید میں تخلیقی ہم آہنگی کی افادیت پر راشد انور راشد
خورشید الاسلام کی تنقیدی روش کے متعلق رقم طراز ہیں:
’’اس حقیقت کا اعتراف کرنے میں کوئی جھجھک نہیں ہونی چاہیے
کہ تنقید کی خشک، کھردری اور بے رس زبان ادب کے سنجیدہ قارئین کی بھی توجہ پوری
طرح مبذول کرنے میں کامیاب نہیں ہوپاتی۔ تنقیدی مضامین کی سنجیدہ قرأت کے بجائے
وہ مطالعے کے نام پر بے دلی کے ساتھ سرسری ورق گردانی کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔ خورشید
الاسلام بھی ایک بالغ نظر فن کار اور ادب کے سنجیدہ قاری ہونے کی بنا پرا بتدا میں
ہی اس راز سے اچھی طرح واقف ہوگئے تھے کہ تنقید کے نام پر زبان کی خشکی روا رکھی
جائے تو اچھی خاصی کام کی باتیں بھی بے اثر ثابت ہوں گی۔ لہٰذا اس بات کی انھوں نے
شعوری کوشش کی کہ ادبی محاسبے کے حوالے سے تنقید اور تخلیق کی جداگانہ سرحدوں کی
تفریق مٹ جائے اور ایسی تحریر سامنے آئے جو قارئین کی زبان کو انوکھی لذت سے
آشنا کراسکے۔‘‘
( آثار لفظ، راشد انور راشد، ص 39)
خورشید الاسلام اپنے اسلوب
نگارش، تنقیدی بصیرت، تخلیقی جلوہ آمیزی اور گہرے تجزیاتی و معنویاتی رویے کے
باعث اردو ادب میں ایک سنجیدہ فن کار کے طور پر اپنا اعتبار رکھتے ہیں۔ قدیم و جدید
نقادوں و ادیبوں نے ان کی تنقیدی دانشوری کا اعتراف کیا ہے اور اس میدان میں ان کی
انفرادیت کے قائل ہیں۔ ممتاز ترقی پسند ناقد قمر رئیس بھی خورشید الاسلام سے متاثر
ہیں اور ان کی گہری بصیرت کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’خورشیدالاسلام کا سب سے معرکۃالارا مضمون امراؤ جان ادا
کے تجزیے پر مشتمل ہے جو کتاب کے ایک سو پندرہ صفحات کو محیط ہے۔ اس مقالے میں
اردو کے نظر انداز کیے ہوئے کلاسیکی ناول امراؤ جان ادا کا جو بے مثل علمی تجزیہ
اور محاکمہ سامنے آتا ہے وہ مارکسی تنقید کے اعلیٰ کارناموں میں شمار ہوتا ہے۔
ناقد نے اردو کے تہذیب اور نوابی دور کے زوال کے پورے تناظر میں اس ناول کے موضوع،
فنی ساخت اور لازوال کرداروں کی تفہیم و تعبیر کا حق ادا کیا ہے۔
( ترقی پسند ادب کے معمار، ترتیب و مقدمہ: پروفیسر قمر رئیس،
ص225)
مجموعی طور پر خورشیدالاسلام کی
فکشن تنقید متن کو بنیاد بناتی ہے۔ متن کے جامع تناظرات اور ان کے متعلقات کو حدود
میں لاتی ہے۔ غور و فکر کا تقاضا کرتی ہے۔ فن پارے کے تعین قدر اور معیار شناسی کے
لیے فن کار اور اس کے عہد سے سروکار رکھتی ہے۔ خورشیدالاسلام کا فن جذباتیت سے سنجیدہ
روی کا سفر ہے۔ قدامت میں جدت پسندی کا عمل ہے۔ وہ دو مرزائیوں مرزا ہادی رسوا اور
مرزا غالب سے زیادہ متاثر ہیں اور کلاسیکی ادب سے مخصوص انسیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے
ان کے اثرات قبول کیے ہیں اور اسی طرز کو اختیار کیا ہے اور نئے ابعاد میں ان کے فکر
و عمل کی مداخلت کو تسلیم کیا ہے۔ خورشید الاسلام کے افکار و نظریات اور ان کے
مشاہدات کو ’امراؤ جان ادا‘ کے تجزیے میں بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔ نظریاتی اور
اطلاقی دونوں سطح پر ان کی تنقید ایک مثال قائم کرتی ہے۔
Shahnawaz
Haider
Research
Scholar, Dept of Urdu
Jamia
Millia Islamia
New Delhi -
110025
Mob.:
8800905056
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں