بیسویں صدی کے ابتدائی عشروں میں جموں وکشمیر بطور
شاہی ریاست"
"Princely State ڈوگرہ حکومت
1846ٗٗٗٗٗٗٗٗٗ تا1947 کے تحت تھی۔ اس دور میں یہاں صحافت کو کوئی آزادی نہیں تھی،
اس وقت کسی اخبار کو منظرِ عام پر لانے کی اجازت کے لیے درخواست دینے کو بھی ریاست
کے خلاف ایک بغاوت سمجھا جاتا تھا۔ جموں وکشمیر بطور شاہی ریاست تین خطوں جموں،کشمیر
اور لداخ پر مشتمل ہے۔اس کی یہ منفرد خصوصیت ہے کہ ثقافتی اختلافات کے باوجود اس
نے ہمیشہ فر قہ وارانہ ہم آہنگی کو بر قرار رکھا۔ اگر چہ یہاںمختلف نسلوں کے
حکمراں آئے اور کشمیر کو طویل عرصے تک محکوم رکھا لیکن یہاں کے تمام خطّوںمیں
عوام الناس نے انسانی اخلاقیات کو مستقل طور پر بر قرار رکھا۔ باوجود اس کے مقامی
سیاسی حالات کی وجہ سے یہاں ہمیشہ ایک غیر یقینی صورت حال رہی ہے۔ ریاست جموںوکشمیر
کے لیے یہ خوش قسمتی کی بات رہی ہے کہ غیر یقینی صورتِ حال میں ایک بہادر اور ذہین
شخص کا ظہور ہوا۔ وہ تھے لالہ ملک راج صراف۔ جنھوں نے صحافت کی تاریخ میں ایک نیا
باب رقم کیا۔ انھوں نے اپنی لگن، محنت اور قلم سے ان حالات کا مقابلہ کیا۔جن حالات
سے یہاں کی مظلوم عوام روز بروز دوچار ہورہی تھی۔ لالہ ملک راج صراف (1895تا 1989)
نے جموں وکشمیر کی صحافت کے لیے ایک مسیحا کا کام کیا،اس لیے انھیں ’بابائے صحافت
جمو ں وکشمیر‘کہا جاتاہے۔ انھوں نے جموںوکشمیر میں صحافت کی داغ بیل ڈالی اور ایک
علمبردار ہونے کا حق اداکیا۔انھوں نے 1924 میں ’رنبیر‘ کے نام سے سب سے پہلے اخبار
کاآغازکیا، جس کے لیے انھیں بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑالیکن انھوں نے حوادثِ
زمانہ کا منہ توڑجواب دیا۔ لالہ ملک راج صراف کی جرأت مندانہ حق گوئی کے متعلق
رامانند ساگر لکھتے ہیں :
’’ لالہ ملک راج صراف کے قلم کو سچائی بیان
کر نے میں نہ ہی لرزہ طاری ہوا اور نہ ہی حق گوئی کی راہ سے انھوں نے انحراف کیا۔‘‘
(لالہ ملک راج صراف Fifty Years As
a journalist) ( راج محل پبلی کیشن، جموں1967، ص222)
صراف اپنے زمانے کی ایک لجنڈ شخصیت تھے، انھوںنے
صحافت کے میدان میں نمایا ں کر دار اداکیا ہے۔ وہ انسان دوست،دور اندیش اور
ہمدردصحافی تھے۔ صحافت کے آغاز کے لیے اور ریاست میں پہلا اخبار شائع کر نے کے لیے
انھوں نے مو جودہ حکومت کے راجہ ـــ ـمہاراجہ پر تاپ سنگھ کے پاس دو بار خط بھیجے اور ان سے اجازت طلب کی۔لیکن
ان کی حکو مت نے ان کے خط کا کو ئی جواب نہیں دیا۔پھر بھی انھوں نے اپنے ارادے
مضبوط رکھے اور حکومت کو تیسری بار خط لکھا اور بالآخر حکومت نے ان کے تیسرے خط
کو 1924 میں قبول کر لیا،اورانھیں پہلا اخبار شائع کر نے کی اجازت دی۔
اگر ہم ملک راج صراف کی زند گی کے بارے میں بات کریں
تو معلوم ہو تا ہے کہ ان کی زند گی میں کا فی اتا ر چڑھاؤ آئے، لیکن انھوں نے
مضبوطی سے ان حالات کا سامنا کیا اور پختہ عزم کے ساتھ اپنے مقاصد کی طرف بڑھتے
رہے۔ وہ اپنے اصولو ں سے سمجھوتہ کیے بغیر اپنے راستے پر گامزن رہے جس کا نتیجہ
آخر کار ان کو مل ہی گیا۔ وہ کشمیر میں مقامی صحافت کا آغاز کر نے میں کا میاب
ہوئے۔ ریاستی حکو مت کے مسلسل انکار کے بعد آخر کار ان کے سچے عزائم نے 24جون
1924 میں صحافت کی تاریخ کو رقم کرتے ہوئے رنگین کر دیا۔جب ریاستی حکومت نے جموں
وکشمیر میں ان کو پہلا آزاد اخبار ’رنبیر‘ شروع کر نے کی اجازت د ی، تو اس
اخبار کے ذریعے انھوں نے سماجی کاموں کے لیے لوگوں کے شعور کو بیدار کرنے کی کوشش
کی۔ اس وقت کشمیر کے سیاسی اور تعلیمی حالات بے حد خراب تھے۔ ایسی فضا میں کسی
اخبار کی بنیاد رکھنا ان کے لیے ایک چیلنج تھا لیکن ریاست کے امن و امان کے لیے
انھوں نے اپنا حوصلہ نہیں کھویااور اخبار کا سنگ بنیاد رکھ ڈالا۔ اس بات سے پتہ
چلتا ہے کہ صراف ایک عظیم قوم پرست انسان تھے۔
صراف بیسویں صد ی کے ایک مشہور صحافی تھے، تعلیم یافتہ خاندان سے ان کا
تعلق تھا۔8اپریل 1894 میںان کی پیدائش
’سامبا ‘ ضلع جموں میںہوئی،1919 میں پنجاب
یونیو ر سٹی سے وکالت کی ڈگری حاصل کرلی۔ اس کے بعد انھوں نے مزید تعلیم حاصل کرنے
کے بجائے خود کو آزادی کی جد و جہد میں لگا دیا اور مشہور رہنما لالہ لاجپت رائے
کے روز نامہ ’بندے ماترم‘ کے سب ایڈیٹر کی حیثیت سے شامل ہوئے۔
لالہ ملک راج صراف کی مختصر امتیازی معلومات کی وضاحت
سابق پولیس ڈائریکٹر جنرل ایم۔ایم کھجوریہ کے لکھے ایک مضمون سے ملتی ہے وہ لکھتے
ہیں
:
’’صراف، ان کا قریبی ہمسایہ تھا،جسے عام طور پر ’اخبار والا‘ کے نام سے جانا
جاتا تھا،اور بچے انھیں ’چاچاجی‘ کہتے تھے۔وہ ایک نرم مزاج شخص تھے، ہمیشہ مسکراہٹ
کے ساتھ سوالوں کا جواب دیتے تھے، ان کی آنکھوں میں ہمیشہ ایک چمک ہوتی تھی، جس
سے پیارومحبت جھلکتا نظر آتاتھا، لالہ جی
ہمیشہ کھادی
((khadi Clothes کا لباس پہنتے تھے،اس کی عظمت، حسنِ
خوبی، اچھے سلوک اور ایثارومحبت کی وجہ سے بہت سارے لوگ ان سے ملنے کے لیے بے چین
و بے قرار رہتے تھے،وہ ایک خاص قسم کے باوقار، فکرمند، انسانیت کا ایک نایا ب سر
چشمہ تھے۔لالہ جی ‘‘ سے ان کی تندرستی کے بارے میں پو چھا کہ اس کا کیا راز ہے ؟
وہ اس وقت 85 کے قریب تھے۔ ان کا جواب تھا ،مثبت سوچ، لمبی سیر، بہت پانی پینا،
اور سب سے بڑھ کر زندگی کا پیغام پھیلانا، جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ان کی سوچ کتنی
وسیع تھی۔‘‘
(ڈاکٹر کرن سنگھ Yet an other firts in Name of Father of Journalism
(Excelsior) جموں،23 اکتوبر 2017،ص7)
ملک راج صراف ساٹھ سال سے زیادہ عرصے تک صحافت کی
بقا کے لیے کا م کرتے رہے ہیں۔ علاوہ ازیں
وہ ’آل انڈیا ور کنگ جر نلسٹ فیڈریشن ‘ کے اسٹیٹ یونٹ کے صدربھی رہ چکے ہیں۔ کئی
دہائیو ں تک صحافت سے وابستہ رہنے کے بعد وہ ایک کہنہ مشق صحافی بن گئے تھے جن کے
دلائل مضبوط ہوتے تھے اور تحریریں جاندار۔
ان کی تعمیری وابستگی اسٹیٹ مین، دی ہندو ، ہندوستان
ٹائمس، ٹریبیون، اور بمبئی کرانیکل جیسے اخبارات کے ساتھ رہی ہے۔ قوم پرست اخبارات
کے ساتھ ان کے روابط نے صحافت کے دائرے کو بہت وسیع،نتیجہ خیز اور جامع بنا دیا۔ یہ
دلیل اس بات سے مستند ہو سکتی ہے کہ ہیلسنکی (Helsinki)، فن لینڈ (Finland) کے دار الحکومت میںمنعقد
عالمی صحافتی کانفرنس میں لالہ ملک راج صراف ہندوستانی وفد کے ممبر تھے جوکہ ایک
بڑے اعزاز کا مقام تھا۔خاص کر تاریخ کشمیر صحافت کے لیے ایک بہت بڑی مسرت کی بات
تھی۔کانفرنس کے اختتام کے بعد صراف نے فرانس،سویت یونین،چین،کوریا،ہانگ کانگ وغیرہ
مختلف ممالک کا دورہ کیا۔غورطلب ہے کہ اس سفر کے دوران انھوں نے وہاں کے صحافتی میدان کا جائزہ بھی لیا۔
بطور صحافی صراف کا صحافت سے وابستہ ہونا پیشہ یا
کارو بار نہیں تھا بلکہ ایک انقلابی مشن اور انسانیت کی فلاح کے لیے ایک جذبہ
تھا۔انھوں نے اپنی زند گی میں بہت ساری مشکلات کا سامنا کیا لیکن بڑی جسارت کا
مظاہر ہ کر تے ہوئے انھوں نے اپنی اخلاقی ذمے داری کو روشن خیالی کے ساتھ نبھایا۔اپنے
اخبار ’رنبیر ‘ کے ذریعے عام لوگوں کی معاشرتی اور معاشی ضروریات کے مسائل کو پیش
کیا۔اس کے علاوہ انھوں نے بد عنوانی کے خاتمے اور دیہاتی لوگوں کے قرضوں کے خاتمے
اور جبری مشقت کے خاتمے کی وکالت کی حالانکہ وہ ان سارے حقائق سے آگاہ تھے جو ان
مسائل کے ذمے دار تھے۔ لیکن انھوں نے انہی
حالات کو اپنے اخبار میں موضوعِ بحث بنایا جو کہ ایک جرأت مندانہ قدم تھا۔
لالہ ملک راج صراف کی خود نوشت Fifty years
as a Journalist سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے جموں و کشمیر
میں صحافت کی آزاد ی کے لیے مسلسل جد وجہد کی۔ انھوں نے نوجوان نسلوں کو مشکلات
اور رکا وٹوں کا سامنا کر نے کے لیے اپنی زندگی کو وقف کر نے کی ترغیب دی۔ قوم کو اپنا حق پانے کے لیے طویل جد و جہد کے لیے
تیار کرنے کی کوشش کی۔یہی موضوعات ان کے صحافتی میدان میں زیرِبحث رہے ہیں۔ ان کی
خود نوشت
"Fifty Years As A Journalist"کے گہرے مطالعے کے بعد یہ کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے اپنے ہفتہ وار ’رنبیر
‘ کے ذریعے تاریخ کشمیر کے ایک بہت بڑے حصے کی خدمت کی۔ بیسویں صدی کی تیسری دہائی تک جموں و کشمیر میں
کوئی مقامی اخبار شائع نہیں ہورہا تھا۔ حکومت صحافتی تنقیدسے خوف زدہ تھی۔ تاہم
ملک راج صراف نے مہاراجہ پرتاب سنگھ سے ہفتہ وار اخبار’’رنبیر‘‘ شائع کرنے کی
اجازت حاصل کرلی۔اس کی اشاعت پہلی بار
24جون 1924 کو ہوئی ہے۔ ملک راج صراف کو اس شرط پر اخبار ’رنبیر‘ جاری کرنے
کی اجازت ملی تھی کہ اس میں عام طور پر حالت زار کو اجاگر کرنے کے بجائے ڈوگرہ
حکمرانوں کی مدح سرائی کی جائے۔پبلسٹی آفیسر شری ناگر کاتی کے مطابق یہی وجہ تھی
کہ ملک راج صراف کو ریاست میں اخبار جاری کرنے کی اجازت مل گئی۔اس کی اشاعت سے قبل
حکام کی طرف سے یہ ہدایت دی گئی تھی کہ ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ ریاست کا مستقبل
ریاستی صحافت کی ذمے داریوں کو کس طرح نبھا سکتی ہے۔ ایسا محسوس ہورہا تھا کہ
حکومت کی بادشاہت کے تحت، اس طرح ایک اخبار کو آسانی سے چلانا بہت مشکل کام تھا۔
ملک راج صراف کا ماننا تھا کہ کوئی بھی ملک اپنی عوام میں مکمل اتحاد اور یکجہتی
کے بغیر ترقی یافتہ نہیں ہوسکتاہے۔ لہٰذا ہر شہری کے حقوق کی پرواہ کیے بغیرچاہے وہ
ہندو ہو یا پھر مسلمان، کشمیری یا ڈوگرہ کو یکساں طور پر حکومت کا احترام اور
حفاظت کرنی چاہیے۔ یہ واضح ہے کہ اس نے فرقہ واریت، علاحدگی پسندی، علاقائیت یا ذات پات، نسل پرستی کی حمایت نہیں
کی تھی۔ ہفتہ وار ’رنبیر‘ کا آغاز خاص طور پر سماجی کاموں کے مسئلے کو اجاگر کرنے
کے لیے کیا گیا تھا۔ مندرجہ ذیل امور خاص طور پر اس اخبار کے موضوع رہے ہیں :
1 جبری مشقت
(Forced Labour)کے نظام کا خاتمہ ہوجو وحشی دور کی یاد
دلاتا تھا۔
2 بدعنوانی کا خاتمہ ہو جو متعدد غریب اور عمدہ خاندانوں کو تباہ کررہا تھا۔
3 ریاست کے لوگوں بالخصوص پہاڑیوں میں دہشت گردی کے ارتکاب کے خاتمے۔
4 دیہاتی مفروضیت کو ختم کرنا۔
5 لوگوں کی مالی، تجارتی، زرعی اور صنعتی ترقی۔
6 لوگوں کی صحت وفلاح و بہبود کے لیے مناسب اقدامات اٹھائے جائیں۔
اخبار ’رنبیر‘ کی اصل حیثیت، مقاصد اور کارنامے کو دیکھنے
کے لیے ہمیں اس میں شائع ہونے والے مضامین کا تجزیہ کرنا ہوگا۔ اس میں بہت سحر انگیز
اور بے تحاشا کہانیاں ومضامین ہوتے تھے۔ نمونے کے طور پر چند مضامین کی مثالیں
ملاحظہ ہوں۔ 21مارچ 1932 کو شائع ہونے والے ہفتہ وار ’رنبیر‘ میں ایک مضمون ’ریاست
اور زمیندار حکومت‘ کے عنوان سے شائع ہوا تھا۔ مذکورہ مضمون میں مقالہ نگار کی
توجہ اس نقطے پر مرکوز تھی کہ برطانوی ہند کے باقی حصوں میں جلد ہی زمیندار حکومت
تشکیل دی جائے گی۔ لہٰذا یہاں ریاست جموں و کشمیر کو بھی ایسی حکومت کا ذائقہ لینا
چاہیے۔ تاکہ ریاست میں اکثریت رکھنے والے مسلمانوں کے ساتھ سرکاری ملازمت یا کسی
بھی دوسرے شعبے میں کام کرنے کے لیے جوناانصافی کی جارہی ہے، انھیں اس سے نجات مل
جائے گی اور اس سلسلے میں انھیں مزید کسی
بھی امتیاز کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ اس مضمون میں اس بات پر بھی پوری توجہ
مرکوز کی گئی تھی کہ زمیندار حکومت کے سائے میں ا کثریت کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کو
بھی کسی بھی تکلیف کا مسئلہ نہیں ہوگا۔ ایک اور مضمون کے ذریعے اخبار ’رنبیر‘ کی
پہچان کی جاسکتی ہے جس میں ’بالغوں کے لیے تعلیم‘ جیسے عنوان پر اظہار خیال کیا گیا
تھا۔ اس موضوع کے سلسلے میں 19فروری1940 کو ہفتہ وار ’رنبیر‘ کے ذریعے ایک خاص
روشنی پھیل گئی تھی کہ ناخواندگی پر قابو پانے کے لیے ریاستی انتظامیہ نے خواندگی
کی شر ح کو بڑھانے کے لیے اقدامات اٹھائے ہیں۔ اخبار ’رنبیر‘ نے حکومت کے اس تعمیری
اقدام کی تائید کی تھی اور اس معنی خیز کوشش کو حاصل کرنے کے لیے مختلف وسائل اور
طریقوں کی فراہمی کی گئی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ کچھ ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ تقابلی
مطالعہ کیا گیا ہے تاکہ وہ اس میدان میں دوسرے ممالک کی برابری کر سکیں۔
اس کے علاوہ انھوں نے جموںو کشمیرانسائیکلوپیڈیا، کشمیر ائیربک، انسانیت ابھی زندہ ہے :میری
پاکستان یاترا اور ’ہنس راج کی سوانح عمری‘
جیسی متعدد اہم کتابیں بھی لکھی ہیں۔ ریاست جموںوکشمیر حکومت نے ان کی ناقابل
فراموش ادبی خدمات کو سراہا ہے۔ اس لیے 1976
میں ہندوستان کے صدر کے ذریعے ان کو ’سول ایوارڈ پدم شری ‘سے نوازا گیا
تھا۔ حکومتِ ہند کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی ان کے خاندان کے ساتھ آج بھی محبت و
احترام سے پیش آتی ہے۔ صراف کی خود نوشت میں انھوں نے صحافت میں اپنے قیمتی تجر
بات قلم بند کیے ہیں۔وہ نہ صر ف صحافت کے علمبردار تھے،بلکہ ایک ممتاز عوامی آدمی
بھی تھے۔ انھوں نے ہمیشہ اپنے طرزِعمل کے اعلیٰ معیار کو برقرار رکھا۔ ان کی یادیں
اتنی خوشگوار ہیں کہ اس سے نہ صرف نوجوان نسل فیض یاب ہوتی رہی ہے بلکہ صحافیوں کو
بھی کافی فائدہ پہنچا۔اس کے علاوہ عام لوگ بھی ان کے کارنامو ں میں دلچسپی لینے
لگے ان کی خود نوشت سے متاثر ہوئے جو کہ ریاستِ جموںوکشمیر کی تاریخ کے لیے ایک
اہم ادبی خدمت ہے اور یہ کتاب تاریخ کے باشعور طلبا کے لیے بھی معلومات اور حوالے
کا ایک قابل ِقدر وسیلہ قرار پاتی ہے۔اس کتاب کو مکمل کر نے کے لیے ان کو سر کارکی
طرف سے کچھ مالی امداد بھی فراہم ہوئی۔بعد ازاں حکومتِ جموںوکشمیر انھیں خصوصی تقریب
میں یومِ جمہوریہ 1968 کے موقع پر
3000 ہزار روپے نقد انعام اور Robe of Hunourایوارڈ سے نوازاگیا۔در اصل حکومت ِہند نے بہترین News paper کو ایوارڈ دینے کا عمل شروع کیاتھا۔ریاست میں صحت مند اور ذمے دار صحافت کی
نشوونما کے لیے یہ مشق یہاں متعارف کروائی گئی تھی۔اس کا اصل مقصد یہی تھا کہ اچھی
اور ذمے دارانہ رپورٹنگ کرنے والے صحافی سامنے آئیں۔ الغرض یہ بات واضح ر ہے کہ
کشمیر میں بابائے صحافت ایک بہت بڑی مثال اور ریاست ِجموں وکشمیر میں موجودہ صحافیوں
کے لیے صحافت کے میدان میں وہ ایک رول ماڈل ہے۔
دیگر ماخذات
1 روز نامہ ’رنبیر ‘1932 جموں
2 لالہ ملک راج صراف ’ انسانیت ابھی
زندہ ہے۔ میری پاکستان یاترا‘،ڈیجیٹل پبلی کیشنز، جموں، 2004۔
3 فائل 1966-67 ’ محکمہ اطلاعات ونشریات‘، جموں وکشمیر اسٹیٹ آر کائیوز،
سرنگر
4 خالد بشیر احمد ( (Kashmir Exposing the myth behind the Narrativeسیج پبلی کیشنز نئی دلی 2017
5 پروفیسر شہاب عنایت ملک ’مضامین شہاب‘ میزان پبلشرز سرینگر2010
6 کشمیر میں میڈیا، چیلنجز اور مستقبل، ماس کمیونیکیشن پروفیشنلز گلڈ پرتاب
پارک2005
7 صوفی محی الدین ’جموں کشمیر میں اردو صحافت‘،گلشن بکس سرینگر 2013
Dr. Firdous Hameed Parey
Faculty Member MANUU
Lucknow Campus
Lucknow - 226020 (UP)
Mob.: 788985043
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں