6/1/22

سائنس اور ادب کے امتیازات - مضمون نگار : معیدالرحمن


 


ایک ایسے دور میں جب کہ سائنس اور ٹیکنالوجی نے تمام مظاہر حیات کے ساتھ ساتھ انسان کے داخلی شعور پر بھی غلبہ حاصل کرلیا ہے، ادب کے وجود اور اس کی اہمیت پر غور و خوض کرنا وقت کا تقاضا بن گیا ہے۔ کریلا اور نیم چڑھا صارفیت نے بھی ادب کے وجود کے تئیں شکوک پیدا کردیے ہیں۔ صارفی حربوں نے لوگوں کو یہ باور کرانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے کہ وہی مضمون معیاری ہے جو مادی منفعت کا حامل ہو۔ نتیجے میں شعر و ادب سے خطرناک حد تک بے توجہی کا منظرنامہ اہل نظر سے مخفی نہیں۔

سائنسی غلبے کے سبب ادب کے طرز وجود پر یہ سوالیہ نشان قائم ہونے لگا ہے کہ شعر و ادب کا کام محض وادیِ تخیل میں ٹامک ٹوئیاں مارنا ہے۔ ارضی حقائق سے فرار اس کا وطیرہ ہے۔ زندگی کے تلخ حقائق سے گھبراکر حسن و عشق کے سائے میں پناہ لینا ہے۔

ان نکتوں سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مسائل سائنس اور ادب کے طرز عمل اور طرز فکر سے ناواقفیت کا نوزائیدہ ہے۔ اسی فکر کا شاخسانہ یہ بھی ہے کہ حقیقت تک رسائی کے لیے شعر و ادب کی بہ نسبت سائنس مؤثر طریقہ ہے۔

اس موضوع کی تہہ میں اترنے کے لیے ان سوالات پر غور کرنا لازمی ہے کہ سائنس کا موضوع کیا ہے، سائنس کا طریقۂ کار کیا ہے، سائنس میں کس طرح نتائج کا استخراج کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ادب کے موضوع، مزاج اور طریقۂ کار کے تجزیے سے مسائل کی تفہیم ممکن ہے۔

یہ امر بدیہی ہے کہ سائنس کا موضوع اشیا ہے۔ اس کی ساخت، خصوصیات اور دیگر عناصر کی شمولیت کے سبب اس میں رونما ہونے والی تبدیلیاں سائنس کے دائرۂ کار میں آتی ہیں۔ اس میں مفروضے کو بنیاد بناکر تجزیہ اور مشاہدہ کے ذریعے کوئی نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے۔ سائنس کے مطابق علم اسے کہتے ہیں جسے تجربہ گاہ میں ثابت کیا جاسکے۔ جس چیز کو ثابت نہ کیا جاسکے وہ احاطہ علم سے خارج ہے۔ جہاں تک ادب کا معاملہ ہے تو ادب کا مرکزی موضوع انسان ہے۔ انسان کے جذبات، اس کے داخلی، خارجی کوائف، اس سے متعلق مظاہر جیسے سماج، معاشرہ، سیاست، مذہب۔ ان اداروں کی رسومیات اور ان کے تقاضوں کی تعمیل یا انحراف کے سبب جو پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں ادب ان سب کو اپنی گرفت میں لینے کی سعی کرتا ہے۔ ادب کا طریقۂ کار سائنس کے برعکس وجدانی ہوتا ہے۔ غالب کا ایک شعر دیکھیے         ؎

قطرہ میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کل

کھیل لڑکوں کا ہوا دیدۂ بینا نہ ہوا

غالب کا یہ شعر ادب کے وجدانی طرز ادراک کی بہترین وضاحت کرتا ہے۔ شعر و ادب دیدۂ بینا سے کام لیتا ہے۔ قطرہ میں دجلہ دیکھ لینا اور جزو میں کل کا مشاہدہ کرلینا ادبی طرز تفہیم ہے۔

علم حاصل کرنے کے دو ذرائع ہیں، ایک مشاہدہ دوسرا وجدان۔ سائنس کی بنیاد مشاہدہ اور تجربہ پر ہے اور ادب کا ذریعہ ادراک وجدان ہے۔ یہ بات محتاج دلیل نہیں کہ ہر علم صداقت اور حقیقت تک رسائی حاصل کرنے کا مدعی ہوتا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ صرف سائنس کے علمیاتی حربوں سے حقیقت کا حصول ممکن ہے نہ ہی وجدانی طرز سے، بلکہ ادراک حقیقت و صداقت کے لیے وجدان اور تجربہ دونوں وسائل کا متناسب امتزاج لازمی ہے۔ اسی سے یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ سائنسی مطالعات کے نتیجے میں جو علم حاصل ہوتا ہے وہ کیسا ہوتا ہے اور ادبی مطالعات سے اخذ شدہ علم کی نوعیت اور فطرت کیسی ہوتی ہے۔ محمد ہادی حسین نے سولہویں صدی کے مصنف ڈوگلس بش کی کتاب سائنس اور انگریزی شاعری کی تلخیص پیش کی ہے۔ ان کا درج ذیل اقتباس اس ضمن میں معاون ہوسکتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

شاعر کو فطرت سے جو خاص ملکہ ودیعت ہوتا ہے اس کو ملحوظ رکھتے ہوئے وہ ایک ایسا شخص ہوتا ہے جس نے اپنے آپ کو انسانی تجربہ کے متعلق ایک زاویہ نگاہ وضع کرنے اور پھر اس زاویہ نگاہ کا اظہار کرنے کے لیے وقف کردیا ہو۔ یہ ایک عمومی اور سیدھی سادی سی تعریف ہے، لیکن اس میں بھی یہ پہلو نکلتا  ہے کہ شاعر زندگی اور انسان کی قدر و قیمت کا کسی نہ کسی حد تک معتقد ہوتا ہے۔ شاعر کو جو بصیرت نصیب ہوتی ہے اس کا سرچشمہ صرف اس کا تخیلی وجدان نہیں ہوتا بلکہ اس کا ذاتی تجربہ بھی اور وہ علم بھی جو اس کو اپنے تجربے کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات ملاحظہ طلب ہے کہ موجودہ زمانے میں علم بیش از بیش سائنس کی صورت اختیار کرتا چلا جاتا رہا ہے، لیکن سائنس جس کا کام فطرت کے متعلق تحقیق پذیر صداقتوں اور فطرت پر غلبہ پانے کے وسائل کا دریافت کرنا ہے، زندگی اور انسان کی قدر و قیمت اور وقار سے کوئی سروکار نہیں رکھتی۔ ارباب سائنس انسانوں کی حیثیت سے ان چیزوں کا شعور رکھتے ہوں تو یہ ایک علیحدہ بات ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ انسان کو بہ زعم خود ایک ربانی نظام میں جو مرکزی حیثیت حاصل تھی سائنس نے اسے اس حیثیت سے معزول کردیا ہے۔‘‘ (بحوالہ مغربی شعریات، ص 269-70)

ہربرٹ ریڈ نے انجانی چیزوں کی ہیئت کے عنوان سے ایک کتاب تصنیف کی ہے۔ محمد ہادی حسین نے اس کی تلخیص پیش کی ہے۔ اس کا ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ادب سے حاصل ہونے والے علم کی نوعیت کیا ہوتی ہے۔ وہ تحریر کرتے ہیں:

’’حقیقت کا جو علم فنونِ لطیفہ کے ذریعے حاصل ہوتا ہے وہ آپ اپنی قسم کا علم ہوتا ہے اور حقیقت کے اس علم کا ہم رتبہ نہیں ہوتا جو سائنس یا فلسفیانہ تفکر سے حاصل ہوتا ہے۔‘‘ (بحوالہ مغربی شعریات، ص 256)

غالب کا ایک شعر دیکھیے:

بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے

ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے

شعر میں کاروبار دنیا کی بے بضاعتی کا بیان ہے۔ شعر کا متکلم کہتا ہے کہ اس دنیا میں جتنے واقعات رونما ہوتے ہیں ان کی اہمیت بچوں کے کھیل سے زیادہ نہیں ہے۔ یہ نتیجہ مشاہدے کی بنیاد پر اخذ کیا گیا ہے۔ یہ عمل سائنسی طریقۂ کار سے مماثل ہے، لیکن شاعر نے اس نتیجے تک رسائی کے عمل میں اپنے موقف پر اصرار کیا۔ شاعر نے ایک عام تجربے یا واقعے کو اپنے انفرادی نقطہ نظر کے ساتھ پیش کیا۔ سائنس دنیا کے ختم ہونے پر یقین رکھتی ہے، لیکن اس کے بارے میں اقداری فیصلے کے اظہار سے گریز کرتی ہے۔ اس کا موقف بھی انفرادی نہیں ہوتا ہے، بلکہ ایسے تعمیمی نتیجے پر مبنی ہوتا ہے جو سب کے لیے ازروئے عقل قابل قبول ہو۔

سائنس اپنے نتائج کے ضمن میں حتمیت اور قطعیت کی مدعی ہوتی ہے۔ ادب حتمیت اور قطعیت کے برعکس امکان کی بات کرتا ہے۔ غالب کا ایک شعر ملاحظہ کیجیے:

ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یارب

ہم نے دشت امکاں کو ایک نقش پا پایا

یہ شعر انسانی فکر اور انسانی حوصلے کی وسعت پر مشتمل ہے۔ زیر نظر شعر میں اس دنیا کے تمام ایجادات، تمام ترقیات اور نت نئے انقلابات کو انسانی تمنا کا محض ایک قدم قرار دیا گیا ہے۔ اس میں ایک ایسے انسان کا ذکر ہے جس کی تمنا کا وفور محدود نہیں ہے، جو اس کائنات کی امکانی ترقیوں کو بھی اپنے ایک نقش پا کے برابر ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور خدا سے نہایت دلیری سے کہتا ہے کہ اے میرے خدا! اپنی تمنا کا دوسرا قدم کہاں رکھوں۔ شعر کا پہلا مصرعہ متعدد معنوی جہات کا حامل ہے۔ یہ کائنات جو ثری سے ثریا تک کو محیط ہے، اس کے علاوہ کوئی اور دنیا ہو تو بتائیے تاکہ میں وہاں اپنی فتح کا علم بلند کروں یا یہ کہ اے میرے خدا! ہماری خواہشات کے پیش نظر یہ دنیا محدود ہے، ہماری جولاں گاہی کے لیے یہ عرصہ کائنات تنگ ہے۔

ادب اور سائنس دونوں کا مقصد زندگی کی سچائیوں کی تلاش ہے، زندگی کی تفہیم ہے، لیکن دونوں کے طریقۂ کار اور طرز ادراک مختلف ہیں۔

کسی کمپنی کا ایک ملازم جس کی تنخواہ مختصر اور خاندان بڑا ہے۔ اقتصادی زبوں حالی کے سبب اس شخص نے خودکشی کرلی۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں یہ وجہ سامنے آئی کہ اس کی موت زہر کھانے سے ہوئی۔ اگر غور کیا جائے تو اس کی موت کی اصل وجہ وہ غربت ہے جس نے اسے اپنی زندگی کو خود ختم کرنے کے لیے مجبور کیا۔ اب اگر ڈاکٹر غربت کو اس کی موت کا سبب قرار دے تو یہ غیر سائنسی عمل ہوگا۔ اور اگر ادیب اس کی ہلاکت کی وجہ زہر خوری کو قرار دے تو یہ غیر حقیقی رویہ ہوگا۔ خودکشی کی اصل وجہ صرف زہر یا صرف معاشی تنگ دستی کو قرار دیا جائے تو درست نتیجے تک رسائی کے لیے صرف ایک ہی پہلو کو مدنظر رکھنے کا عمل تصور کیا جائے گا۔

شعر و ادب کی تشکیل و تعمیر میں وجدان کے علاوہ ذاتی تجربہ، مشاہدہ اور دیگر علوم سے واقفیت کا اہم رول ہوتا ہے۔ ان سب کو جذبہ اساس فراہم کرتا ہے جب کہ سائنس جذبات کی نفی کرتی ہے۔ جذبات کا سرچشمہ دل ہے۔ تمام جذبات میں عشق و محبت کو سب سے اعلیٰ و ارفع تسلیم کیا جاتا ہے۔ اسے کائنات کے وجود میں آنے کا محرک اور راز حیات تسلیم کیا جاتا ہے۔ عالمی ادب کے ساتھ ساتھ اردو شاعری میں عشق و محبت اور دل کے موضوع پر بکثرت اشعار ملتے ہیں۔

اس ضمن میں میر کے اشعار ملاحظہ کیجیے:

لوگ بہت پوچھا کرتے ہیں کیا کہیے میاں کیا ہے عشق

کچھ کہتے ہیں سر الٰہی کچھ کہتے ہیں خدا ہے عشق

میر کو کائنات کے ہر ذرّے میں عشق ہی عشق نظر آتا ہے      ؎

عشق ہی عشق ہے جہاں دیکھو

سارے عالم میں بھررہا ہے عشق

عشق ہے طرز و طور عشق کے تئیں

کہیں بندہ کہیں خدا ہے عشق

عشق معشوق عشق عاشق ہے

یعنی اپنا ہی مبتلا ہے عشق

اسی طرح دل کے موضوع پر بکثرت اشعار موجود ہیں          ؎

ٹوٹا جو کعبہ کون سی یہ جائے غم ہے شیخ

کچھ قصر دل نہیں کہ بنایا نہ جائے گا

قائم چاندپوری

ہر دھڑکتے پتھر کو لوگ دل سمجھتے ہیں

عمریں بیت جاتی ہیں دل کو دل بنانے میں

بشیر بدر

سائنس کی وکالت کرنے والے احباب کو ادب کی اظہاری تدابیر بھی برگشتہ کرتی ہیں۔ ادب میں عام طور پر اظہاری وسائل کے لیے تشبیہ، استعارہ کنایہ اور مبالغہ جیسی صنعتوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ان سب اظہاری تدابیر کی بنیاد تخیل پر ہے۔ فن کار دو اشیا کے مابین نقطہ اشتراک و اختلاف کی تلاش کے ذریعے اپنا تخلیقی و فنی نظام مرتب کرتا ہے۔ ادبی و فنی جمالیات کی اساس بھی انہی جدلیاتی الفاظ پر استوار ہوتی ہے۔

بودلیر شاعری کی اس خصوصیت کو عالمگیر مماثلت (Universal analogy) سے تعبیر کرتا ہے۔ بودلیر کے خیالات کو محمد ہادی حسین ان الفاظ میں ادا کرتے ہیں:

’’شاعری کا منبع وہ عالمگیر مماثلت (Universal analogy) ہے جو فلکی و ارضی، حقیقی و مجازی، باطن و ظاہر کو مربوط کرتی ہے۔ شاعر علامات کے ذریعے ان کے ربط باہمی کو بے نقاب کرتا ہے۔‘‘ (مغربی شعریات، ص 387)

عالمگیر مماثلت کو سمجھنے کے لیے کچھ اشعار ملاحظہ کیجیے۔ اردو شاعری میں حسن محبوب کو چاند کے حوالے سے بیان کرنے کا رویہ عام ہے۔ میر کا مشہور شعر دیکھیے:

 

پھول گل شمس و قمر سارے ہی تھے

پر ہمیں ان میں تمھیں بھائے بہت

ایک معروف جدید شاعر فرحت احساس کا شعر اس ضمن میں دیکھیے        ؎

چاند بھی حیران دریا بھی پریشانی میں ہے

عکس کس کا ہے کہ اتنی روشنی پانی میں ہے

مذکورہ اشعار میں حسن محبوب کا اظہار چاند کے حوالے سے کیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ چاند اور محبوب میں مشترک اوصاف کیا ہیں۔ دیکھیے چاند سے کیا کیا تصورات ہمارے معاشرے سے وابستہ ہیں۔ چاند سے چمک کا تصور وابستہ ہے، ٹھنڈک کا تصور وابستہ ہے۔ رخ محبوب کو بھی درخشاں و تاباں کہا جاتا ہے۔ محبوب کو دیکھنے سے قلب کو  راحت ملنے کا تصور رائج ہے۔ چاند میں قوت کشش ہوتی ہے، اس لیے سمندر میں سب سے زیادہ مدوجزر چودہویں رات میں ہوتا ہے۔ رخ محبوب میں بھی کشش ہوتی ہے۔ عاشق بے اختیار ہوجاتا ہے۔ چاند سے متعلق ایک نظریہ اور ہے وہ ہے پاگل پن کا۔ انگریزی میں چاند کو Lunar کہتے ہیں۔

Lunar eclipse، Solar eclipse جیسے الفاظ انگریزی لغات میں درج ہیں۔ انگریزی لغات میں پاگل کے لیے Lunatic کا لفظ بھی مذکور ہے۔ محبوب کے لیے پاگل ہوجانے کا مضمون اردو شاعری میں اس قدر عام ہے کہ وہ محتاج دلیل نہیں۔

اب دیکھیے چاند اور محبوب کے درمیان کتنی مماثلتیں ہیں جو عام لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہیں۔

ارباب سائنس ادبی متن کے متعدد معنوی ابعاد کے حامل ہونے کے سبب اسے حقیقت سے بعید بیان قرار دیتے ہیں۔ ادبی اظہار کا وہ حربہ جسے حاملین سائنس قدرے زیادہ مشکوک سمجھتے ہیں، وہ مبالغہ ہے۔ کسی صفت کی زیادتی کو مبالغہ کہتے ہیں۔ یہ ایک ایسی شاعرانہ تدبیر ہے جسے ادب میں بھی بعض مکاتب فکر نے مبنی بر دروغ خیال کیا ہے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ مبالغہ حقیقت کے اظہار کا ایک مؤثر ترین ذریعہ ہے۔ غالب کا ایک شعر دیکھیے        ؎

عرض کیجے جوہر اندیشہ کی گرمی کہاں

کچھ خیال آیا تھا وحشت کا کہ صحرا جل گیا

اس شعر میں وحشت کے محض اندیشے کی وجہ سے صحرا کے جل جانے کا بیان ہے۔ وحشت کے اندیشے کی گرمی اتنی شدید ہے کہ اس سے صحرا کے جل جانے کا مضمون نظم کیا گیا ہے۔ مقصود وحشت کی زیادتی کو دکھانا ہے۔ شاعر نے یہ اسلوب اس لیے اختیار کیا کہ وحشت کی شدت کو قاری بھی محسوس کرسکے۔ شاعر کا کمال یہ ہے کہ اس نے خیال اور جذبے جیسی لطیف اور مجرد شے کی بیکرانی کو ایک حسی تجربے میں منقلب کردیا۔ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ سائنس ابھی تک جذبات کی پیمائش کے لیے کوئی پیمانہ ایجاد کرنے سے قاصر ہے۔

سائنس کی اہمیت تسلیم کرنے کے باوجود یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ سائنسی تسلط کے سبب انسانی تخیل کی پرواز محدود ہوتی جارہی ہے۔ تعقل پسندی اور علت و معلول پر مبنی طرز فکر کی بنا پر انسان کا وجدان سے رشتہ کمزور پڑتا جارہا ہے۔ نتیجے کے طور پر شعرا و ادبا عظمت کی اس منزل پر فائز ہونے میں ناکام ہورہے ہیں، جو ہمارے قدما کا امتیاز تھا۔

منطقی طرز فکر سے اپنے شعر و ادب کو پرکھنے کے سبب داستان جیسی اہم صنف کو بھی ہم شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اردو شعر و ادب میں داستان ہی وہ صنف ہے جو ہمارے تخیل کی لامحدودیت اور اس کی فعالیت پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہے۔ اپنے ثقافتی سرمایے سے واقفیت اور لسانی ذخیرے میں اضافہ کرنے کے علاوہ یہ صنف ہمارے تخیل کو بھی جلا بخشتی ہے۔ کلیم الدین احمد نے اپنی کتاب فن داستان گوئی میں کیا پتے کی بات کہی ہے:

’’اگر ہم کولرج کے الفاظ پر عمل کریں تو داستانوں سے کافی لطف حاصل کرسکتے ہیں۔ اگر ہم اپنی بے اعتقادی کو بہ رضا و رغبت معرض التوا میں ڈال دیں۔ اگر ہم تخیل کی اس موہوم پیداوار کا عارضی طور پر اعتبار کرلیں تو ہمارے لیے ایک دلچسپ دنیا کا دروازہ کھل جائے گا اور اس دنیا کی سیر محض تضییع اوقات نہ ہوگی، بلکہ ہمارے تخیل ہمارے دماغ ہماری روح کو تازگی اور فرحت بخشے گی۔‘‘

(فن داستان گوئی، ص 32)

انسانی زندگی کو پرکشش بنانے میں جمالیات کا کلیدی کردار ہوتا ہے۔ تناسب و توازن کے علاوہ انسان کی انفرادیت بھی خوشگوار زندگی کا لازمہ ہے۔ سائنس کا معاملہ یہ ہے کہ وہ ماورائے مادہ مظاہر کو گرفت میں لینے سے قاصر ہے۔ سائنس انسان کی انفرادیت کو معرض بحث میں لانے سے عاجز ہے۔ ادب ہی وہ شے ہے جو جمالیات کو جوہر حیات قرار دیتی ہے۔ وجود کے امتیازات کو ادب ہی قابل احترام اور مرکز اظہار گردانتا ہے۔

شمیم حنفی نے انسان کو سائنس کی جانب سے لاحق خطروں اور اس کے مضمرات کا ذکر کرتے ہوئے، جن نکات کی نشان دہی کی ہے وہ اندیشے ادب کے سلسلے میں بھی صادق آتے ہیں۔

’’مختصر یہ کہ انسان کو سائنس کی طرف سے جو اندیشے لاحق ہیں ان میں دو کی حیثیت مرکزی ہے۔ ایک تو صنعتی معاشرے میں انفرادیت کے زوال کا خوف یعنی فرد کی حیثیت سے انسان کی بے توقیری۔ دوسرے جدید اسلحوں سے اجتماعی موت کا خوف۔ روح پر بھی یلغار ہے اور جسم پر بھی۔ انفرادی اظہار کے راستے اس لیے محدود ہیں کہ معاشرہ اجتماعی مقاصد کا غلام ہے۔ تکنالوجی اقتصادی فلاح کی جویا ہوتی ہے، چنانچہ اجتماعی جدوجہد کی طالب۔ نتیجتاً انسان کو معاشرے سے ناآسودگی کی صورت میں بھی اپنے جذباتی فیصلوں اور انفرادی رویوں پر اجتماعی فیصلوں اور ضرورتوں کو ترجیح دینا پڑتی ہے۔ اس ذہنی فضا میں تہذیب کے اسی تصور کو قبولیت مل سکتی ہے، جس کی بنیادیں مادی ہوں۔ مورخوں کی اکثریت نے اسی لیے انسانی فلاح و نجات کا راستہ صرف مادّی ترقی میں ڈھونڈا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ عہد جدید کے ذہنی اور نفسیاتی مسائل کا حل مزید صنعتی ترقی اور مادّی سہولتوں میں فروغ پر منحصر ہے یا کسی اور وسیلے سے کام لینا ہوگا۔‘‘

(جدیدیت کی فلسفیانہ اساس، ص 204)

شمیم حنفی نے عہد جدید کے انسانوں کو درپیش مسائل کے حل کے لیے جس تریاق کی جانب اشارہ کیا ہے وہ ادب ہی ہے۔ ادب انسان کو سائنسی طریقۂ کار سے استفادے کے ساتھ ساتھ وجدان سے اپنا رشتہ استوار کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ کائنات کے بظاہر غیرمربوط عناصر میں داخلی ہم آہنگی کی تلاش سے ایک نظام نو کی دریافت و تشکیل کرتا ہے۔ ادب زمان و مکان میں محصور واقعات کو فنا ہونے سے بچاکر زندہ جاوید بنادیتا ہے۔ صنعتی ترقی کی یبوست سے محفوظ رکھ کر جمالیاتی ارتفاع عطا کرتا ہے۔ انہی وجوہ کی بنا پر اکیسویں صدی میں ادب کا مطالعہ کرنا وقت کا اہم تقاضا بن گیا ہے۔



Dr. Moyeedur Rahman

Asst. Professor, Dept of Urdu

Aligarh Muslim University

Aligarh - 202001

Mob.: 8126410482




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں