14/1/22

اکبر اور کمال اکبر - مضمون نگار: محمد فیصل خان

 



 

اکبرالہ آبادی (16 نومبر 1846- 15 فروری 1921) کی شاعری ان کے عہد وماحول کی آئینہ دار ہے، اکبر نے اس عہد میں آنکھ کھولی جو زمانہ سیاسی سماجی، اقتصادی، تہذیبی اور ثقافتی لحاظ سے بڑے انتشار کا تھا۔یہ وہی دور ہے جب انگریزوں نے ہندوستان پر پوری طرح قبضہ جمالیا تھا اور آہستہ آہستہ اپنے اقتدار کو مزید مضبوط بنانے کے لیے کوشاں تھے، ایسی کرب ناک صورتِ حال میں ہندوستانی عوام خود کو بے کس اور لاچار محسوس کررہے تھے، جس کی وجہ سے انھیں مختلف قسم سے تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑا۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مغربی تہذیب ہندوستانیوں کے اوپر تھوپی جانے لگی اور مشرقی تہذیب سے لوگوں کو بیزار کیا جانے لگا،اس سے ہندوستانیوں کے عادات و اطوار میں تبدیلی رونما ہونے لگی۔گویا یہ نئی اور پرانی دونوں تہذیبوں کے آپس میں ٹکراجانے کا دور تھا، لوگ تیزی کے ساتھ مغربیت کو اپنا رہے تھے اور مشرقیت سے ان کی بے اعتنائی بڑھتی جارہی تھی۔

بقول کلیم الدین احمد:

’’یہ وہ زمانہ تھا جب دو مختلف تمدنوں میں زبردست تصادم ہوا تھا اور اس تصادم کا نتیجہ یہ تھا کہ اسلامی تمدن کے شیرازے بکھرنے لگے تھے اور انگریزی تمدن اپنی دل فریبی کا سکّہ لوگوں پر جما رہا تھا۔اپنے محاسن فراموش ہو چلے تھے اور حسنِ غیر ہی بھلا معلوم ہوتا تھا۔‘‘

(اردو شاعری پر ایک نظر،حصہ دوم ص75)

ایسے نازک اور پر خطر دور میں سر سید احمد خاں اور راجا رام موہن رائے نے عوام کی اصلاح کے لیے جو کوششیں کیں انھیں ہر گز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔اسی زمانے میں ہمارے شاعروں نے بھی مختلف انداز کو اپناتے ہوئے قوم کی اصلاح کا ذمہ اٹھایا۔ان میں خصوصی طور پر الطاف حسین حالی، علامہ اقبال اور اکبرالہ آبادی قابل ذکر ہیں جنھوں نے معاشرتی اور سماجی خامیوں کی نہ صرف نشان دہی کی بلکہ ان کی اصلاح کی بھر پور کوششیں بھی کیں۔مذکورہ تینوں شاعروں کا مقصد تو ایک ہی تھا لیکن طریقۂ کار ایک دوسرے سے جدا گانہ اور مختلف تھا، حالی نے اپنی نظموں کے ذریعے پندونصائح کے انبار لگائے اور واعظانہ لہجہ اختیار کرتے ہوئے قوم کی اصلاح کرنی چاہی، اس سے ہٹ کر اقبال نے اپنی نظموں اور غزلوں کے ذریعے خودی کا درس دیتے ہوئے زمانے کی آنکھ سے آنکھ ملانے کی ہمت،طاقت اور قوت لوگوں میں پیدا کرنے کی کوشش کی،ان دونوں شاعروں کے برعکس اکبرالہ آبادی نے قوم کی درستگی کے لیے بالکل نئی راہ چن لی، اور طنزومزاح کا لحاف اپنی شاعری پر ڈالتے ہوئے، معاشرے کی برائیوں کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی،اورمغرب کی اندھی تقلید کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے قوم کی اصلاح کا بیڑا اٹھا لیا اور نئی تہذیب کے بجائے پرانی تہذیب کے پارکھ بنے       ؎

مسلمانو بتاؤ تو تمھیں اپنی خبر کچھ ہے

تمہارے کیا مدارج رہ گئے ان پر نظر کچھ ہے

اگر کچھ ہے تو سوچو دل میں بھی اس کا اثر کچھ ہے

حریفوں کی تعّلی باعثِ سوزِ جگر کچھ ہے

تمھیں معلوم ہے کچھ رہ گئے ہو کیا سے کیا ہو کر

کدھر آنکلے ہو راہِ ترقی سے جدا ہو کر

اکبر الہ آبادی کے ذہن ودل میں یہ چیز پیوست ہو چکی تھی کہ ہم اپنی روایتی چیزوں کو مضبوطی سے پکڑے رہیں،اور اس کے برخلاف ہر چیز کو جوانھیں نئی فکر اور نئی قدروں کی طرف ابھارے اسے قبول نہ کریں۔وہ بھی شبلی کی طرح اپنی روایتی چیزوں کے قائل ہیں اور کسی بھی جدید چیزوں کو اپنانے کے لیے تیار نہیں،اکبر چھوٹی سے چھوٹی اور معمولی سے معمولی باتوں کو نظر انداز نہیں کرتے اسی لیے ان کی شاعری اپنے زمانے کی جیتی جاگتی تصویر ہے،اور اپنے عہد کی کش مکش کو پوری طرح اجاگرکرتی ہے۔

اکبر الہ آبادی کی پیدائش 16نومبر1846 کو الہ آباد کی تحصیل بارہ میں ہوئی۔اکبر کے والد کا نام’تفضل حسین‘ تھا۔اکبر کی پیدائش کے بعد ان کا خاندان بِہار چلا گیا اور یہیںسے اکبر کی تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا۔دینی تعلیم  کے علاوہ عربی،فارسی اور اردو زبان بہت جلد سیکھ لی، ریاضی اپنے والد سے  پڑھی گویا ریاضی کی مہارت وراثت میں ملی۔

اکبر کے دادا ’سید فضل الدین‘ 1855 میں بہار سے واپس الہ آباد آئے تو ان کے ساتھ خاندان کے باقی افراد بھی آگئے اور یہیں ان کا مستقل قیام رہا۔اکبر دس سال کے تھے کہ ان کا داخلہ جمنامشن اسکول میں کرادیا گیا جہاں انھوں نے دلچسپی سے پڑھائی شروع ہی کی تھی کہ غدر کے المناک سانحے نے قدغن لگادیا، اس کے بعد اکبر کے والد نے ان کواپنے ایک دوست کے ذریعے سے عدالتی اور قانونی تعلیم دلائی۔اکبر کی پہلی شادی سترہ سال کی عمر میں ہوئی لیکن بعض وجوہات کی بنا پر1876 میں دوسری شادی ’فاطمہ صغریٰ‘ سے کرلی جو ان کی زندگی میں نمایاں تبدیلی کا باعث بنی۔

اکبر نے 1866 میں وکالت کا امتحان پاس کرکے باقاعدہ وکالت شروع کی،اس کے بعد دن رات محنت کرکے اکبر نے اپنی انگریزی لیاقت میں اضافہ کیا اور قانونی نقطوں کو سمجھنے اور بیان کرنے کے قابل ہوگئے۔ 1873 میں ہائی کورٹ میں ملازمت شروع کردی اب ان کی شہرت دوردراز علاقوں تک پھیل گئی۔1880 میں منصف کی حیثیت سے مرزا پور رہے پھر سر سید کے توسط سے ان کا تبادلہ علی گڑھ ہو گیا۔1892 میں ترقی کرکے سیشن جج ہوگئے یہ پہلے ہندوستانی تھے جو اس عہدے پر پہنچے جس کی بنا پر اسی سال انھیں’خان بہادر‘کے خطاب سے سرفراز کیا گیا۔اکبرکو ہائی کورٹ کا جج بنانے کی بھی بات کی گئی تھی مگرصحت کی خرابی اور کمزور بینائی کے سبب انھوں نے یہ عہدہ قبول کرنے سے انکار کردیا اور1903 میںہی قبل از وقت پنشن لے کر ملازمت تر ک کردی اور 9ستمبر1921 کو بروز جمعہ چند روزعلالت کے بعد اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔

اکبر الہ آبادی کو بچپن سے ہی شاعری کا شوق تھا، گیارہ برس کی عمر میں واقعۂ غدر سے اپنی شاعری کی شروعات کی اور کلام پر اصلاح استاد ’غلام حسین وحید‘ سے لی جو ’آتش‘کے شاگرد تھے۔ اکبر نے اپنی 76سالہ زندگی میںمختلف نشیب وفراز کا سامنا کرتے ہوئے طنز ومزاح کے ذریعے قوم کو صحیح راہ پر لانے کی کوشش کی اور عمر کے آخری لمحے تک یہی جذبہ باقی رہا۔جس کی نظیر چار جلدوں میں موجوداکبر کے کلیات میں بخوبی دیکھی جا سکتی ہے۔ اس کلیات میں موجود کلام نے آج ایک صدی گزر جانے کے باوجود اکبر کو اسی آب وتاب کے ساتھ ہمارے درمیان  زندہ رکھا ہے اور آگے بھی اسی آن بان وشان کے ساتھ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے وہ بیان کرنے کی کوشش کی جو ان کے دل پر گزری،ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ جگ بیتی نہیں بلکہ آپ بیتی ہے         ؎

شعر اکبر میں کوئی کشف وکرامات نہیں

دل پہ گزری نہ ہو جو ایسی کوئی بات نہیں

اکبر نے شاعری شروع کرتے ہی اپنی آنکھوں سے ہندوستان کی شکست وریخت دیکھی تھی،یہی سبب ہے کہ انگریزوں اور ان کی تہذیب دونوں کے تئیں ان کی شاعری میں نفرت دیکھنے کو ملتی ہے لیکن اس نفرت کو انھوں نے طنزومزاح کے پیرائے میں اشاروں اور کنایوں میں بیان کیا۔

اکبر کی شاعری میں اپنی قوم سے،اپنی تہذیب سے،اپنے وطن سے،محبت کا اثرپوری طرح کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا نظر آتا ہے۔یہی جذبہ اکبرکوقوم پرست بھی بناتا ہے،آج سے ایک صدی قبل ہی اکبر نے اس طرف اشارہ کردیا تھا کہ اگر مغربی تہذیب اور کلچر کو اپنایا گیا تو ہمیں بہت سی نئی مشکلوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔جیسے آج نئی نئی بیماریوں کا چلن اور کثرتِ اموات وغیرہ،جس کی سب سے بڑی وجہ ہوٹلوں کا کھانا ہے۔آج ہم نے اپنے کھانے پینے،چلنے پھرنے،اٹھنے بیٹھے،پہننے اوڑھنے یعنی اپنی تہذیب اور ثقافت میں جو تبدیلیاں پیدا کر لی ہیں یہ اسی کا نتیجہ ہے،اس کی مثال اکبر کے اس شعر سے بخوبی سمجھی جا سکتی ہے       ؎

ہوئے اس قدر مہذب کبھی گھر کا منہ نہ دیکھا

کٹی عمر ہوٹلوں میں مرے اسپتال جاکر

طنز ومزاح میں ایک احتجاجی عنصر ہوتا ہے، اس میں اشاروں اور کنایوں میں گہری مار ہوتی ہے،جسے کاری ضرب کہتے ہیں، اکبرکی شاعری میں جو طنز ومزاح کے پہلو ہیں ان سے صرف لطف اندوزی یا پھر حظ حاصل کرنا نہیں ہوتا بلکہ اس کے ذریعے انھوں نے قوم وملت کی اصلاح کی ہے۔ اور انگریزی تہذیب، نئی تعلیم کے ذریعے رونما ہونے والی تبدیلیوں اور فرنگیوں کے ذریعے کیے جانے والے ظلم وستم وبربریت کے خلاف آواز بلند کی ہے۔ نئی نسل کی ترقی اور آزادی کا جب چرچا شروع ہوا تو انگریزوں کی دیکھا دیکھی ہندوستانی عورتوں نے بھی بے پردگی اختیار کرنی شروع کی اور یہ بات اکبرکو بہت ناگوار گزری اور انھوں نے طنز وظرافت کاسہارا لیتے ہوئے لطیف پیرائے میں قوم کی عورتوںکو سیدھے راستے پر لانے کی کوشش کی،اس لیے کہ اکبر کواپنے اخلاق وتمدن سے گہری دلچسپی تھی،ایسا بالکل بھی نہیں کہ وہ سنجیدہ نہیں تھے پھر بھی وہ طنز ومزاح کا لحاف ڈالے ہنستے ہیں تاکہ رو نہ پڑیں            ؎

بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں

اکبر زمیں میں غیرتِ قومی سے گڑگیا

پوچھا جو میں نے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا

کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کے پڑگیا

اکبرتعلیم نسواں کے خلاف نہیں تھے بلکہ وہ مغربی تہذیب اور اس کی عریانیت کے مخالف تھے۔ اکبر عورتوں کی تعلیم اور آزادی دونوں کے قائل تھے مگر وہ اپنی تہذیب کے دائرے میں رہ کر ہو،اکبرکا ماننا ہے کہ اگر مکمل آزادی مل جائے گی تو اس کے ساتھ مختلف قسم کی برائیاں بھی جنم لیں گی          ؎

تعلیم لڑکیوں کی ضروری تو ہے مگر

خاتونِ خانہ ہوں وہ سبھا کی پری نہ ہوں

اکبر نئی نسل کی اپنی تہذیب سے بے راہ روی،نوجوانوں کی بے پرواہی اور عدالتوں کی بے جا آزادی کو بالخصوص اپنے طنز کا نشانہ بناتے رہے، یہی اصول اکبر نے اپنے گھر والوں کے لیے بھی روارکھا۔ مغربی تہذیب سے اس قدر بے اعتنائی کے باوجود اکبرنے جب اپنے بیٹے ’عشرت حسین‘ کو تعلیم کے لیے یورپ بھیجا تو لوگوں نے اس کی مخالفت کی، اس لیے لوگوں کا ماننا تھا کہ اکبر کے اصول صرف قوم کے لیے ہیں اپنے گھروالوں کے لیے نہیں۔مگر ایسا بالکل نہیں تھا بلکہ’عشرت حسین‘کو روانہ کرتے ہوئے اکبر نے ان سے بہت سے عہدوپیمان لیے کیونکہ اس وقت انگلستان جانے والے ہندوستانی نوجوانوں کے بارے میں یہ خیال عام تھا کہ وہ کوئی نہ کوئی یوروپین لیڈی ضرورلاتا ہے۔اکبرکو بھی اپنے بیٹے سے اس کے متعلق کھٹکا تھا۔چنانچہ ایک مرتبہ عشرت حسین کا خط آنے میں کچھ تاخیر ہوگئی تو اکبر نے یہ قطعہ لکھ کر کے بھیج دیا جس کے مصرعے پیشِ خدمت ہیں          ؎

عشرتی گھر کی محبت کا مزا بھول گئے

کھاکے لندن کی ہوا عہد وفا بھول گئے

پہنچے ہوٹل میں تو پھر عید کی پرواہ نہ رہی

کیک کو چکھ کے سوئیوں کا مزا بھول گئے

بھُولے ماں باپ کو اغیار کے چرنوں میں وہاں

سایۂ کفر پڑا نورِ خدا بھول گئے

اکبر کی شاعرانہ صلاحیت کے تو سبھی قائل ہیں،ان کی ایک خصوصیت یہ بھی تھی کہ یہ معمولی اور ہلکے پھلکے الفاظ کو بھی بڑے معنیٰ خیز انداز میں استعمال کرتے ہیں اور ایسے الفاظ کو جو اکبرسے پہلے شاعری میں استعمال نہیں ہوتے تھے، اکبر نے انھیں زندگی بخشی اور نئے نئے معنیٰ ومفاہیم کے لیے استعمال کیا۔ جیسے جمّن،کلّو،ٹٹّو وغیرہ۔اس کے علاوہ انگریزی الفاظ کا استعمال کرنا اکبر کو بہت پسند تھا،انگریزی حکومت سے نفرت کے باوجود انھیں کی زبان استعمال کرتے اور طنز ومزاح میں اس سے سہارا لیتے اور عوام کے دلوں میں مغربیت سے نفرت کا جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے۔اکبر کا کہنا تھا کہ ہمارے سماج میں پیدا ہونے والی خرابیوں کی اصل جڑ مغربی تہذیب ہے جس کی چمک نے ہماری تہذیب کی روشنی کو ماند کردیاہے      ؎

حرف پڑھنا پڑا ہے ٹائپ کا

پانی پینا پڑا ہے پائپ کا

اکبر نے اپنی پوری زندگی سر سید کے کاموں کی مخالفت کی، اور اپنی شاعری کے ذریعے طنز کے تیر چلاتے رہے،اس کی وجہ یہ تھی کہ سر سید مسلمانوں کی ترقی کو مغربی تہذیب اور کلچر میں دیکھتے تھے جبکہ اکبرکا خیال تھا کہ اس نئی ثقافت نے ہمارے اندر برائیاں پیدا کی ہیں۔لیکن سر سید کے انتقال پر اکبر نے ان کے تخلیقی اورتعمیری دونوں طرح کے کاموں کو سراہا اور یہ بتانے کی کوشش کی کہ جو اختلافات سر سید کے ساتھ تھے وہ بس نظریاتی تھے۔دل سے وہ ان کا بہت احترام کرتے تھے اس کا بیّن ثبوت اکبرکی وہ شاعری ہے جو انھوں نے سر سید کی رحلت فرمانے کے بعد خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہی ہے۔

ہماری باتیں ہی باتیں ہیںسید کام کرتا ہے

نہ بھولو فرق جو ہے کہنے والے کرنے والے میں

کہا جو چاہے کوئی میں تو کہتا ہوں کہ اے اکبر

خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں

ایک دوسری جگہ اکبرکہتے ہیں       ؎

بعد سید کے میں کالج کا کروں کیا درشن

اب محبت نہ رہی اس بتِ بے پیر کے ساتھ

اکبر الہ آبادی کی شاعری میں آزادی کا جذبہ بھی ہے اور وہ تحریک آزادی میں بھی حصہ لینے کے خواہاں تھے لیکن ضعیفی کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہو سکا،پھر بھی گاندھی جی کے آتے ہی آزادی کی تحریک میں جو ولولہ پیدا ہوا تھا اس کا احساس اکبر کو ہو گیا تھا اور وہ ان سے بہت متاثر بھی تھے،گاندھی جی سے متعلق وہ انقلاب زمانہ کی بات کرتے ہیں۔اس بنا پر ہم اکبرکو مجاہدِ آزادی کے طور پر بھی دیکھ سکتے ہیں انہوں نے گاندھی جی کے مشن کو آگے بڑھایا اور گاندھی جی سے متعلق ایک معرکۃ الآرانظم ’گاندھی نامہ‘ لکھی جو قابل ذکر ہے۔

بقول صغریٰ مہدی:

’’گاندھی جی نے عدم تعاون اور سودیشی کی تحریکیں چلائیں۔یہ زمانہ اکبر کی زندگی کا آخری زمانہ تھا۔وہ بہت بوڑھے اور کمزور ہو چکے تھے۔اکثر بیمار بھی رہتے تھے،مگر انگریزوں کے خلاف ہندوستانی اب اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ان کا مقابلہ کر رہے ہیں۔اس بات سے اکبر بہت خوش تھے۔ انھوں نے اس زمانے کی سیاست کے بارے میں، گاندھی جی کے بارے میں بہت سے اشعار کہے ہیں۔‘‘(حوالہ’ اکبر الہ آبادی‘، ص49)

اکبر کی شاعری میں ہمیں ان چیزوں پر طنز ملتا ہے جو آج ہماری زندگی کے لیے بے حد ضروری اور انتہائی کار آمد ثابت ہو رہی ہیں،اس بات کے سبب بعض نقادوں اور ادیبوں کا ماننا ہے کہ اکبر کی اہمیت اب وہ نہیں رہی جو پہلے تھی،جس طرح وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت سی چیزیں فضول اور بے معنیٰ ہو جاتی ہیں اسی طرح آج اکبر کا طنز بھی اپنی جاذبیت کھو چکا ہے کیونکہ اب وقت کا تقاضا وہ نہیں رہا،ان کی شاعری محض لطف اندوزی کے سوا اور کچھ نہیں،کیونکہ انھوں نے ترقی یافتہ چیزوں پر نکتہ چینی کی ہے اور ان کو ہماری تہذیب،تمدن اور ثقافت کے لیے مضر بتایا ہے،لیکن میرا ماننا ایسا بالکل بھی نہیں ہے بلکہ اکبر نے مغربیت کی مخالفت کے باوجود ہنستے ہنساتے بہت سی ایسی باریک باتوں کی طرف اشارے کردیے ہیں جس کی طرف ہماری نگاہیں بڑی مشکل سے پہنچتی ہیں۔ مثال کے طور پر آج ہم سب اپنی قوم کی تعلیم کے مسئلے کو بڑی سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ہم سبھی کی یہ کوشش ہے کہ ہر بچہ اور قوم کا ہر فرد تعلیم یافتہ ہو اور ترقی کی سیڑھیوں پر چڑھے۔اس بات کی طرف اکبر نے تقریباً ڈیڑھ صدی قبل ہی ایک لطیفے کے ذریعے ہماری توجہ مبذول کرنے کی کوشش کی اور’فرضی لطیفہ‘کے نام سے ایک شاہ کار نظم تخلیق کی جس کے چند مصرعے پیش خدمت ہیں         ؎                 

خدا حافظ مسلمانوں کا اکبر

مجھے تو ان کی خوشحالی سے ہے یاس

یہ عشق شاہد مقصود کے ہیں

نہ جائیں گے ولیکن سعی کے پاس

سناؤں تم کو اک فرضی لطیفہ

کیا ہے جس کو میں نے زیب قرطاس

کہا مجنوں سے یہ لیلیٰ کی ماں نے

کہ بیٹا تو اگر کرلے ایم۔اے پاس

تو فوراً بیاہ دوں لیلیٰ کو تجھ سے

بلا دقت میں بن جاؤں تری ساس

کہا مجنوں نے یہ اچھی سنائی

کُجا عاشق کُجا کالج کی بکواس

اس نظم کے ذریعے سے اکبر نے ہمیں تعلیم کی طرف راغب کرنے کی کوشش کی ہے۔اس سے ہم ان کی وسعتِ نظری کا اندازہ بخوبی لگا سکتے ہیں پھر بھی یہ بات قابل ذکر ہے کہ اکبر مغرب کے مخالف ہونے کے باوجود ان کی ملازمت کرتے رہے جو ایک تضاد کے طور پر سمجھا جاسکتا ہے۔یہ پہلو قابل ذکر بھی ہے،اور قابل غور بھی،مگر ان سب باتوں کے باوجود اکبرایک اہم شاعر کی حیثیت سے ہمارے درمیان ہمیشہ یاد کیے جائیں گے۔اکبر کی شاعری ایک مختصر سی بات نہیں بلکہ یہ ایک تنگ رستہ ہے جس سے گزر کر ہم وسیع میدانوں میں پہنچ جاتے ہیں اور یہی ان کی انفرادیت کا سبب بھی ہے۔

کتابیات

1      آل احمد سرور:تنقید کیا ہے، مکتبہ جامعہ نئی دہلی لمیٹڈ، 2011

2      اسیم کاویانی: اکبرالہ آبادی اپنی شکست کی آواز، دار پبلی کیشنز 2021

3      ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا: اکبر الہ آبادی تحقیقی وتنقیدی مطالعہ، سنگ میل پبلی کیشنز لاہور2003

4      صغریٰ مہدی:   اکبر الہ آبادی    ترقی اردو بیورو نئی دہلی    1983

5      صغریٰ مہدی: اکبر کی شاعری کا تنقیدی مطالعہ، مکتبہ جامعہ نئی دہلی1981

6      عشرت حسین سید: حیاتِ اکبر الہ آبادی، کلیم پریس کراچی 1951

7      کلیم الدین احمد: اردو شاعری پر ایک نظر(دو جلدیں)، دی آزاد پریس سبزی باغ پٹنہ، 1966(تیسرا ایڈیشن)

 

Mo Faisal Khan

Flat No. 404 fourth floor

Ho. No. 448/237, Nagariya Radha gram

Scheme Mallahi Tola Thakurganj

Lucknow  - 226003 (MS)

Mobile No: 9918998144

Email ID: fk.nadwa123@gmail.com




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں