14/1/22

علامہ شبلی نعمانی کے نظریہ تعلیم کی انفرادیت - مضمون نگار : آفتاب عالم اعظمی

 



غدر کی تباہی اور ہولناکی سے ہندوستانی مسلمانوں نے ماضی کی عظمت رفتہ کو نہ صرف یاد کیا بلکہ ان کو اپنے حال ومستقبل کے بارے میں ازسرِ نو سوچنے اور جائزہ لینے کا موقع فراہم کردیا۔ان ہی حالات میں چند تاریخ ساز شخصیات قوم میں پیدا ہوئیں جنھوں نے احسا س کمتری کے شکار مسلمانوں میں تعلیمی بیداری کی ایک نئی روح پھونکی اور قوم مسلم کو ذلت ورسوائی سے نکال کر ان کی زندگی کو وہ وقار بخشا جو کسی حکیم کے نسخہ کیمیا سے کم نہ تھا۔

ان میں سر سید احمد خان،مولانا محمد قاسم نانوتوی، اور علامہ شبلی نعمانی (4 جون 1857- 18 نومبر 1914)کی شخصیت بڑی نمایاں رہی ہے ان سبھی مفکرین تعلیم نے مسلمانوں کی ترقی وکامیابی کا راز تعلیم کو بتایا اور ہر ایک نے اپنے اپنے طریقے سے ان کے روشن مستقبل کا حل بھی پیش کیا۔سرسید نے مسلمانوں کے لیے جدید تعلیم کی وکالت کی اورہندستانی مسلمانوں میںجدید تعلیم کو عام کرنے کے لیے اپنی زندگی وقف کردی اور مشن کے طور پر کام کیا۔ اس کے بہتر نتائج آئے جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔مسلمانوں کا ایک طبقہ قدیم اور دینی تعلیم کا حامی تھا جس کی قیادت مولانا محمدقاسم نانوتوی اور دیگر علما کررہے تھے وہ دارالعلوم دیو بندکی شکل میں ملت کے سامنے ہے لیکن شبلی نعمانی ایک ایسے مفکر تعلیم تھے جنھوں نے مسلمانوں کی ترقی وکامیابی کے لیے قدیم وجدید تعلیم کو یکساں طور پر مفید اور کارآمد بتایا ہے۔ مولانا سید سلیمان ندوی ’حیات شبلی‘ کے دیباچے میں لکھتے ہیں :

’’ (مولانا شبلی) قدیم وجدید کے ایسے سنگم بنے جس میں دونوں دریاؤں کے دھارے آکر مل گئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ہمارے قدیم اورمذہبی علوم کے عالم بھی تھے اور جدید علوم کے بہت سے آرا وخیالات سے واقف بھی تھے۔۔۔۔۔۔۔ ساتھ ہی محقق فن بھی تھے،ادیب بھی تھے،شاعر بھی تھے،انشا پرداز بھی تھے،خطیب بھی تھے،مورخ بھی تھے، متکلم بھی تھے، مفکر بھی تھے،مصلح بھی تھے،سیاسی بھی تھے، ماہر تعلیم بھی تھے اور نئے زمانے کے اقتضا آت اور مطالبات کے مقابلہ میں بہت سی باتوں میں انقلابی بھی تھے۔1

شبلی نعمانی نے نہ توسرسید کی جدید تعلیم کی مخالفت کی اور نہ ہی دار العلوم دیوبند کی۔ صرف قدیم ودینی تعلیم کی موافقت کی بلکہ دونوں طرح کی تعلیم کے حمایتی تھے۔ اس مقصد کی تکمیل کے لیے شبلی نعمانی نے ندوۃ العلما لکھنؤ کا رخ کیا اور ارباب ندوۃ العلما کو نصاب میں اصلاح کا مشورہ دیا لیکن ان کا یہ مشورہ قابل اعتنا نہ سمجھا گیا لیکن جب وہ 1905 میں معتمد تعلیم کی حیثیت سے ندوۃ العلما میں تشریف لائے تو سب سے پہلا کا م جو انھوں نے شروع کیا وہ اصلاح نصاب کا تھا اور ایسا نصاب تعلیم مرتب کیا جو قدیم وجدید تعلیم کا سنگم ہے۔ شبلی نعمانی لکھتے ہیں :

’’ ہم نے بارہا کہا ہے اور اب پھر کہتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کے لیے نہ صرف انگریزی مدرسوں کی تعلیم کافی ہے نہ قدیم عربی مدرسوں کی،ہمارے درد کا علاج ایک معجون مرکب میں ہے جس کا ایک جز مشرقی اور دوسرا مغربی ہے۔‘‘2

شبلی نعمانی کوتعلیم وتربیت پرنصاب تعلیم تیار کرنے کا  بڑا تجربہ تھا۔قیام علی گڑھ میں سرسید کی فرمائش پر ’تاریخ بدئ الاسلام‘ مرتب کی جو وہاں کے نصاب میں شامل کی گئی۔ الہ آباد یونیورسٹی کی درخواست پر فارسی امتحانات کے لیے بی اے تک کا نصاب تیار کیا اور اس درمیان ریاست حیدر آباد کی مشرقی یونیورسٹی کے نصاب کا جائزہ بھی لیا اور اصلاح کے لیے چند نکات پر مشتمل اپنی سفارشات پیش کی۔ جدید تعلیم کے لیے خود انھوں نے ایک اسکول 2جون1883 کو’ نیشنل اسکول‘ کے نام سے قائم کیا۔

شبلی نعمانی کم وبیش 24 سال تک تعلیم وتربیت سے منسلک رہے۔ 1883 تا 1898 علی گڑھ کالج میں پروفیسر کے عہدہ پر تدریسی خدمت انجام دی اور 1905 تا 1913 ندوۃ العلما لکھنؤ میں معتمد تعلیم کی حیثیت سے فائز رہے۔ اس طویل مدت میں درس وتدریس کے ساتھ ساتھ انھوں نے تعلیم وتربیت کو بہتر کرنے کے لیے عملی جد و جہد کی اور تعلیم وتربیت اور نصاب تعلیم پر مختلف زاویے سے تحقیقی اور علمی بحث کا آغاز کیا۔اس کی اہمیت وافادیت پر متعدد مضامین لکھ کر اپنے نظریہ تعلیم وطریقہ تعلیم کی وضاحت کی۔ شبلی نعمانی کا پہلا تعلیمی و علمی مقالہ ’مسلمانوں کی گذشتہ تعلیم‘ ہے جس کو انھوں نے 27دسمبر 1887 کو لکھنؤ کی مسلم ایجوکیشنل کانفرنس میں پیش کیااور فن کی تعلیم پر زور دیا۔ اس مقالے کی اہمیت وافادیت عہد نو میں اتنی ہی مسلم ہے جتنی ایک صدی قبل تھی۔ تعلیم وتربیت کے نظام کا معائنہ کرنے کے لیے شبلی نعمانی نے بلاد اسلامیہ، روم، مصر،  شام اور قسطنطنیہ وغیرہ کے ممالک کا سفر کیا اوروہاں کے تعلیمی نظام کا مشاہدہ کیا۔خاص طور سے قسطنطنیہ کے تعلیمی نظام کا ذکرسرسید کو ایک خط میں کیا:

’’ افسوس ہے کہ عربی تعلیم کا پیمانہ یہاں بہت ہی چھوٹا ہے اور جو قدیم طریقہ تعلیم تھا،  اس میں یورپ کا ذرا بھی پر تو نہیں۔جدید تعلیم وسعت کے ساتھ ہے لیکن دونوں کے حدود جدا رکھے گئے ہیں اور جب تک یہ دونوں ڈانڈہ نہ ملیں گے اصلی ترقی نہ ہو سکے گی،یہی کمی تو ہمارے ملک میں ہے جس کا رونا ہے۔‘‘3

شبلی نعمانی اگرچہ جدید تعلیم کو پسند کرتے تھے لیکن وہ قدیم تعلیم کے سخت حامی بھی تھے ان کا خیال تھا کہ مسلمانوں کو اپنی قومیت ومذہبیت کی شناخت کو زندہ اور قائم رکھنے کے لیے قدیم تعلیم انتہائی ضروری ہے لیکن وہ اس کے نقائص سے بھی بخوبی واقف تھے اور کسی حال میں اسے قبول کرنے کے لیے راضی نہ تھے۔وہ علما کے جمود سے نالاں تھے وہ ایسے علما تیار کرنا چاہتے تھے جو دینی معلومات کے ساتھ ساتھ کسی نہ کسی فن میںماہر ہو اور تقاضائے زمانہ کے ساتھ ساتھ جدید علوم سے بھی باخبر اور واقف ہو بلکہ اس کو فن پر دسترس حاصل ہو ۔

شبلی نعمانی نے مرد و خواتین کو وہ تمام علوم حاصل کرنے کی وکالت کی ہے اور پردے کا اہتمام ضروری بتایا ہے لیکن مخلوط تعلیم کے سخت مخالفت بھی تھے بلکہ ان کا خیال تھا کہ ان کی تعلیم کا کیمپس بھی علاحدہ ہو۔تعلیم کے معاملے میں لڑکے اور لڑکیوں میں کسی طرح کی تفریق کے خلاف تھے اور یہاں تک کہ نصاب بھی دونوں کے لیے یکساں ہو۔ دونوں کے لیے الگ الگ نصاب اور کورس کے سخت مخالف تھے۔شبلی نعمانی نے ایک خطاب میں فرمایا:

’’عورتوں کو اس حد تک تعلیم دی جاسکتی ہے جس حد تک مردوں کو،اس لیے مجھے اس خیال سے اتفاق نہیں کہ لڑکیوں کے لیے الگ کورس ہو اور لڑکوں کے لیے الگ، میرے خیال میں دونوں کا نصاب تعلیم یکساں ہونا چاہیے۔ 5

شبلی نعمانی نے دونوں طرح کے ادارے اور وہاں کے نصاب تعلیم کا جائزہ لیا اور خامیوں کو دور کرنے کے لیے نہ صرف اصلاح کا مشورہ دیا بلکہ ہندوستانی مسلمانوں کے زوال کا اصل سبب بھی دریافت کیا اور بتایا کہ جدید تعلیم کا نقص یہ ہے کہ اس میں مذہبی اور قدیم تعلیم کا فقدان ہے اور قدیم تعلیم میں کمی یہ ہے کہ اس میں عصری علوم داخل نصاب نہیں جومعاشی ضرورت کو پورا کرسکے۔ ان اسکولوں  میں مذہبی علوم پڑھائے جانے کو ضروری خیال کرتے ہیں۔ شبلی نعمانی لکھتے ہیں:

’’انگریزی تعلیم یافتہ لوگوں سے ہم کو مذہبی خدمات یعنی امامت،وعظ، افتا کا کام لینا نہیں ہے بلکہ غرض یہ ہے کہ وہ خود بقدر ضرورت مسائل اسلام اور تاریخ اسلام سے واقف ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔کالجوں میں صرف کتابی تعلیم سے مذہبی اثر نہیں پیدا ہو سکتا بلکہ اس بات کی ضرورت ہے کہ طلبہ کے چاروں طرف مذہبی عظمت کی تصویر نظر آئے۔ دینیات کے نتائج امتحان کوانگریزی تعلیم کے نتائج کی طرح لازمی قرار دیا جائے۔‘‘6

 شبلی نعمانی نے قدیم وجدید تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر بھی بہت زور دیا ہے۔ان کا خیا ل ہے کہ اگر ہم ہر جگہ اسلامی مدارس قائم نہیں کر سکتے تو بورڈنگ ہاؤس ضرور قائم کریں۔طلبہ کو اپنی نگرانی اور تربیت میں رکھیں کیوں کہ ان کی تربیت سے بہت کچھ مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔تربیت سے طلبہ میں ایک طرح کی خود اعتمادی پیدا ہوگی جس کے اثرات سے ہم ایک بہتر معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔اس کا عملی تجربہ بذات خود ندوۃ العلما لکھنؤ کے معتمدی کے دوران کیا۔اس تربیت کے نتیجے میں سید سلیمان ندوی،عبد السلام ندوی اور عبد الباری ندوی جیسی شہرہ آفاق شخصیت کی پود تیارہوئی جو اپنے آپ میں بحر العلو م کی حیثیت رکھتے تھے۔شبلی نعمانی کے ان ہی شاگردوں نے ان کے باقی ماندہ تعلیمی وعلمی کام اور مشن کو آگے بڑھایا اوران ہی کی محنت اور لگن سے شبلی نعمانی کی شخصیت ہند وپاک اور بلاد اسلامیہ میں بلند مقام حاصل کر سکی۔

شبلی نعمانی ہر علاحدہ علاحدہ  مدرسہ اور کالج میں طلبہ کے لیے یکساں یونیفارم کے بھی قائل تھے اور ان کو خاص خاص موقعوں پر پہننا ضروری سمجھتے تھے ان کا خیال تھا کہ اس سے طلبہ میں سلیقہ مندی،نفاست، اور انفرادی شناخت قائم ہوتی ہے نیز اس سے طلبہ میں مساوات اور قومیت کی روح ابھر کے سامنے آتی ہے۔ مختلف مدارس کے معائنہ کے بعدشبلی نعمانی لکھتے ہیں:

’’ہمارے قومی کالج میں جو چیز سب سے زیادہ ضروری اور نہایت ضروری ہے وہ یہ کہ تمام طالب علموں کا لباس،وضع،خوراک،مکان،فرنیچر، کلیۃً ایک کردیا جائے اور جو مختلف سطحیں آج کالج میں قائم ہیں بالکل مٹادی جائیں، اگر یہ نہیں تو کالج میں قومیت کی روح نہیں۔‘‘7

شبلی نعمانی نے نصاب میں انگریزی،ہندی اور سنسکرت، زبان بھی شامل کرنے کی حمایت کی ہے۔

مسلمانوں میں بھی طبقاتی عدم مساوات کافی بڑھا ہوا تھا جس سے صرف خاص خاص لوگ ہی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو پاتے تھے۔مفکرین تعلیم میںشبلی نعمانی ہی ایک ایسے شخص تھے جنھوں نے بلاتفریق مذہب وملت، امیر وغریب سب کے لیے یکساں تعلیم کی آواز بلند کی اور تعلیم کو اس کا بنیادی حق قرار دیا۔اس کی حمایت میں شبلی نعمانی لکھتے ہیں:

’’ہمارے نزدیک دنیوی تعلیم (انگریزی تعلیم)کو اس قدر پھیلانا چاہئے کہ بچہ بچہ تعلیم یافتہ ہو جائے لیکن ساتھ ہی ہم کو مذہب کی حفاظت پر بھی اپنی تمام قوت صرف کردینی چاہیے۔‘‘8

ندوۃ العما لکھنؤ میں قیام کے دوران شبلی نعمانی نے قدیم وجدید تعلیم میں یکسانیت اور امتزاج پیدا کیا۔ نصاب تعلیم میں جو کتابیں یا مضامین قابل اصلاح تھیں اس کی اصلاح تقاضائے حال کے مطابق کی۔جدید عربی، انگریزی،سنسکرت، اور ہندی زبان پر عبور حاصل کرنے کے لیے نئے نئے شعبہ جات قائم کیے۔طلبہ کی اصلاح وتربیت کے لیے بورڈنگ ہاؤس کا نظام بنایا۔فن پر مکمل دسترس حاصل کرنے کے لیے لکچر کا اہتمام کیا۔ متعدد مضامین اور مقالات کے ذریعے مسلمانوں کو دونوں طرح کی تعلیم کے حصول کی طرف راغب کیا اور یہ بتایا کہ مسلمانوں کی ترقی وکامیابی کا راز ان ہی دونوں تعلیم میں ہے۔ان میں سے اگر کسی ایک کی طرف سے بھی عدم توجہی برتی جائے گی تو وہ تباہ کن ہوگی اوراس سے نہ صرف ان کے عقائد متزلزل ہو ں گے بلکہ وہ تقاضائے حال کا مقابلہ کرنے میں ناکام ثابت ہوں گے۔

’’میں نہایت مضبوطی سے اس پر قائم ہوں،مسلمان مغربی علوم میں گوترقی کے کسی رتبے تک پہنچ جائیں لیکن جب تک ان میں مشرقی تعلیم کا اثر نہ ہو ان کی ترقی مسلمانوں کی ترقی نہیں کہی جاسکتی‘‘9

ارباب ندوۃ العلما لکھنؤ کے درمیان اختلافات بڑھ جانے کے سبب شبلی نعمانی کو معتمد تعلیم کے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا۔اس کے بعدوہ اپنے آبائی وطن اعظم گڑھ آگئے اورخود کے قائم کردہ’نیشنل اسکول‘کی سرپرستی کی جو اس وقت تک ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر چکا تھا۔ مدرسۃ الاصلاح جس کی سرپرستی ان کو پہلے سے حاصل تھی۔

مختصر یہ کہ تعلیم وتربیت بشمول طریقہ تدریس اور نصاب تعلیم سے متعلق کوئی ایسا شعبہ نہیں جس میں شبلی نعمانی نے اپنی ذاتی رائے نہ دی ہو اور اصلاح کی جدو جہد نہ کی ہو،چاہے وہ علی گڑھ میں سر سید کے رفیق رہے ہوں یا وہ ندوۃ العلما لکھنؤ میں معتمد تعلیم کے عہدے پر فائز رہے ہوں۔وہ ایک طویل مدت تک درس وتدریس سے وابستہ رہے ہیں۔اس دوران انھوں نے تعلیم وتربیت کے مختلف مراحل کا مشاہدہ کیااور کالج و مدارس کے نصاب تعلیم کا مختلف زاویے سے جائزہ لیا ہے اور اس اہم موضوع پر علمی مباحث کا آغاز کیا۔ تحقیق وتجزیہ کے بعد تعلیم وتربیت اورطریقہ تعلیم کی افادیت ونقائص کی نشاندہی کی اور اپنے مضامین اور مقالات کے ذریعے اصلاح کی تجاویز پیش کی۔قوم کی بھلائی وترقی کے لیے نیشنل اسکول،مدرسۃ الاصلاح اور دارالمصنّفین کی شکل میں تعلیم وتربیت کی ایک ایسی عمارت تعمیر کردی جہاں شبلی نعمانی کے نظریہ تعلیم کی انفرادیت اس کی بقا تک قائم رہے گی۔

حوالہ جات

1      حیات شبلی؍سید سلیمان ندوی؍دار المصنّفین شبلی اکیڈمی،اعظم گڑھ، 2015، ص 39-40

2      مقالات شبلی جلد 3؍مرتب سید سلیمان ندوی؍مطبع معارف،اعظم گڑھ1955، ص 163

3      مکاتیب شبلی جلد ۱ول؍مرتب سید سلیمان ندوی، دارلمصنّفین شبلی اکیڈمی،اعظم گڑھ 2010، ص 16

4      خطبات شبلی مرتب سید سلیمان ندوی، دار المصنّفین شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ 2008، ص 87

5      ایضاً، ص 167

6      مقالات شبلی جلد 3 مرتب سید سلیمان ندوی، مطبع معارف،اعظم گڑھ 1955، ص 141

7      سفر نامہ روم ومصر وشام؍شبلی نعمانی ،دارلمصنّفین شبلی اکیڈمی،اعظم گڑھ2015، ص 62

8      مقالات شبلی جلد8، مرتب سید سلیمان ندوی،مطبع معارف،اعظم گڑھ 1972، ص 4

9      سفر نامہ روم ومصر وشام؍شبلی نعمانی، دارلمصنّفین شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ 2015، ص 165

 

Aftab Alam Azmi

M M K Degree College

Mangrawan

Azamgarh - 276205 (UP)

Mob.: 9452411642

 

ماہنامہ اردو دنیا،نومبر 2021

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں