18/1/22

امیر خسرو دہلوی کی نقد نگاری (دیباچہ غرۃ الکلام کے حوالے سے) - مضمون نگار: نیلوفر حفیظ

 



ابوالحسن یمین الدین بن سیف الدین محمود معروف بہ امیرخسرودہلوی کشورہند کی ان عظیم اورعبقری شخصیات میں سے ایک ہیں جن کی علمی وادبی خدمات کی شہرت، آفاقیت اور ہمہ گیریت نے ازروزاول تاعصرحاضر ہزاروں اذہان وقلوب کو اپنے سحروسرورمیں گرفتار کرکے انھیں اپنا شیفتہ و دیوانہ بنا رکھا ہے۔ خالق کائنات نے اس بزرگ شخصیت کی ذات گرامی میں بیک وقت متعدد اعلیٰ خصوصیات کو ودیعت کر دیاتھا انھوں نے اپنے پر افادی اور آفاقی، ادبی وعلمی کارناموں  سے نہ صرف یہ کہ اپنے عہد کی فکرکوبے پناہ متاثر کیا تھا بلکہ آئندہ ادوارکے دانشوروں کے لیے بھی بیش قیمت سرمایہ فکر چھوڑ گئے تاکہ آنے والی نسلیں ہمیشہ ان کے افکار وخیالات سے مستفیض ہوتی رہیں اوراپنے لیے آگے کی راہیں استوار کرتی رہیں، ان کا استدلالی طرزبیان، محققانہ چابک دستی،فلسفیانہ انداز فکر، انتقادی گہرائی، انشا پردازانہ سلیس بیانی اور شاعرانہ طرزکلامی میں حددرجہ جاذبیت، دلکشی اور سحر انگیزی کی کیفیت پائی جاتی ہے ان کی متنوع اور رنگا رنگ شخصیت کی جامعیت، معنویت اور عظمت کا اعتراف صرف ہندو ایران کے دانشوروں ہی نے نہیں کیاہے بلکہ دنیا بھر کے بڑے بڑے مورخین، منتقدین، مفکرین اورمحققین کی جانب سے بھی ان کوان کے آفاقی کارناموں کے سبب ہمیشہ خراج تحسین پیش کیاجاتارہاہے۔

امیر خسرودہلوی ہندوستان کی تاریخ میں فارسی ادب کے ایک عظیم اور قدآور شاعرکی حیثیت سے زیادہ مشہوراورمقبول رہے ہیں اور انھیں فارسی زبان وادب سے تعلق رکھنے والے محققین، مورخین اور تذکرہ نویسندگان نے خصوصی طور پر فارسی ادب کے ایک برجستہ اور عالی مرتبہ شاعر ہی کے حوالے سے متعارف وروشناس کرانے پر زیادہ توجہ صرف کی ہے اس کے علاوہ انھیں ہندی یا ہندوی زبان کے الفاظ،محاورے اور کہاوتوں کو اجاگر کرکے انھیں اردو زبان وادب کا اولین معمار اور ہندوی زبان کا نقاش اول ثابت کرنے کے سلسلے میں بھی دانشوروں نے کماحقہ توجہ صرف کی ہے اور اس صداقت کا اعتراف کرنے میں بھی کسی شک و شبہے کی گنجائش نہیں ہے کہ ان کے کلام میں ہندوستانی رنگ وآہنگ کا بڑا حسین اور دلکش امتزاج دیکھنے کوملتا ہے اوران کے فارسی کلام کے مجموعوں میں مخلوط ہندوی کلام بھی بڑی وافر تعداد میں تاریخ کی کتابوں کی زینت بنا ہوا ہے، اس حقیقت کوبھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ امیر خسرو کے شعری کارنامے ان کے منثور کارناموں کے مقابلے میں زیادہ آب وتاب اور وقعت وقیمت رکھتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے منظوم آثار کی بازیافت کی طرف اکثر مصنفین اور محققین کی توجہ زیادہ مبذول رہی ہے،مگریہاں اس حقیقت سے بھی چشم پوشی اختیار نہیں کی جانی چاہیے کہ امیر خسرو نے ایک نثر نویس کی حیثیت سے بھی کچھ کم وقیع اور گراں قدر کارنامے انجام نہیں دیے ہیں۔ ان کی شاعری ہی کی طرح ان کی منثور تصانیف بھی ان کے انفرادی رنگ اور جداگانہ آہنگ کاجیتا جاگتا ثبوت ہیں۔ نثر میں ان کی تین کتابیں بیدون کسی اختلاف کے امیر خسرو کی بہترین اور معرکۃ الآرا تصانیف قرار دی جاتی ہیں۔ ان منثور کتابوں میں ان کی سب سے اہم اور پہلی کتاب کا نام ’خزائن الفتوح‘ ہے ان کی بقیہ دو کتابیں ’اعجاز خسروی‘ یا ’رسائل الاعجاز‘اور ’افضل الفوائد‘ ہیں ۔ان نثری کتابوں کے علاوہ انھوں نے اپنے شعری مجموعوں کے منثور دیباچے بھی تحریر کیے ہیں جو ان کے ایک بہترین نثر نویس ہونے کی دلیل ہیں۔

اس بات سے بھی شاید کم ہی لوگ واقف ہیں کہ خسرو ایک بہترین شاعر، موسیقی دان، تاریخ نویس، سیاست داں اور انشاپرداز ہونے کے ساتھ ساتھ فارسی زبان وادب کے ایک بہترین ناقد بھی رہے ہیں۔ گو کہ ان کی شخصیت کی ہمہ گیری کے سبب ان کو فارسی ادب کے ناقد کی حیثیت سے بہت زیادہ شہرت اور قبول عام حاصل نہیں ہو سکا۔ان کی ذات عالی کے لازوال ہنر وکمالات کے سحر میں گرفتار ہونے کے سبب دانشوران ادب ان کے ناقدانہ رنگ اور انتقادی رحجانات کی طرف اپنی بہت زیادہ توجہ مبذول نہیں کر سکے ہیں اوراس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے بے پناہ افادی انتقادی نکات جو فارسی شعرو ادب سے خس وخاشاک کو دور کرنے میں نہایت اہم اور ضروری تصور کیے جاتے ہیں، ان کو وہ قدرو منزلت حاصل نہیں ہو سکی جس کے وہ مستحق تھے جب کہ سچ تو یہ ہے کہ خسرو سے قبل کسی بھی مفکر یا دانشور نے اپنی تحریروں میں فن شعر سے متعلق اتنے جالب اور عمدہ نکات دنیا کے سامنے پیش نہیں کیے تھے۔ ان کے بے پناہ افادی اور پرارزش انتقادی نکات وجہات اوراصول وضوابط کوان کی منثور تحریروں بالخصوص ان کی شاعری کے مجموعوں کے منثور دیباچوں میں بآسانی دیکھا جا سکتا ہے خاص طور پران کی شاعری کا دیباچہ ’غرۃ الکمال‘ میں ان کی ناقدانہ بصیرت وادراک تو اپنی پوری آب وتاب اور حدت وشدت کے ساتھ جلوہ گر ہیں۔ اس دیباچے میں انھوں نے شعر وشاعری اور شاعر کے متعلق جو معیار ومیزان لازم قرار دیے ہیں وہ نہ صرف ان کے دور میں اہم اور لائق تقلید رہے ہیں بلکہ عصر حاضر کے جدید ناقدین ادب کے لیے بھی کچھ کم اہمیت وارزش کے حامل قرارنہیں دیے جا سکتے ہیں امیر خسرو کی بے پناہ انتقادی صلاحیتوں کا اعتراف بھلے ہی عہد وسطیٰ کے مفکرین کی طرف نہ کیا جا سکا ہو لیکن جدید محققین اور ناقدین نے امیرخسرو کے اس پہلو پر کماحقہ توجہ صرف کرنے کی اپنی پوری کوشش کی ہے اور یہ  ثابت کرنے میں بھی کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا ہے کہ بحیثیت ادبی ناقد کے بھی خسرو کا مقام ومرتبہ بہت بلندوارفع ہے۔

غرۃ الکمال‘امیر خسرو دہلوی کے اشعارکا تیسرا سب سے بڑااورپرارزش شعری مجموعہ ہے اس سے قبل وہ ’تحفۃ الصغر‘ اور’وسط الحیات‘ کے نام سے اپنے اشعار کے دو بہترین دیوان ترتیب دے چکے تھے۔ اپنے اس تیسرے شعری مجموعے یعنی ’غرۃ الکمال‘ میں انھوں نے اپنی عمر کے چونتیسویں سال سے لے کر تینتالیسویں سال تک کے کلام کو مدون ومنظم کر کے پیش کیاہے۔ اس شعری مجموعے میں کم وبیش ان کے نوے سے زائد قصائد اور ترجیعات ہیں اورتقریباً نوچھوٹی بڑی مثنویاں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ اس دیوان میں متعدد رباعیات اور قطعات وغیرہ کو بھی یکجا کیا گیا ہے لیکن اس مضمون مختصرمیں ان کی شاعری سے متعلق گفتگو کرنامیرامقصد نہیں ہے بلکہ اس دیوان کا منثور دیباچہ مورد بحث ہے جو انھوں نے اپنے اس دیوان کو ترتیب دینے کے بعد تحریر کیا تھا ’غرۃ الکمال‘ کے دیباچے میں خسرو نے عربی اور فارسی شاعری کے اضافی محاسن ومعائب، خوب وبد اورحسن وقبح کلام کے متعلق بڑی دلچسپ اور جالب بحث شامل کی ہے جو ادبی نقد کے نقطہ نظر سے خصوصی اہمیت وافادیت کی حامل قراردی جاتی ہے۔ خسرو ہندوایران کے پہلے ایسے دانشوراعظم ہیں جس نے پہلی بارادبی نقد کے متعلق باقاعدہ اور باضابطہ طور پر اپنی آرا کو واضح انداز میں قارئین کے سامنے پیش کرنے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے اورادبی نقد سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی ہے۔ یہ بات بھی حتمی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ خسرو سے قبل نہ صرف ہندوستان بلکہ ایران میں بھی کوئی اور کتاب، رسالہ یا باضابطہ تحریرنظر نہیں آتی ہے جس میں خالص فن شعر کے متعلق آزادانہ اور بے باکانہ طور پر اپنی رائے کااظہار کیا گیا ہو یہ افتخاراور انفرادیت صرف اور صرف امیر خسروکو ہی حاصل ہے کہ انھوں نے سب سے پہلے فارسی زبان کے اولین ادبی ناقد کی حیثیت سے فارسی شعروشاعری میں پائے جانے والے بہت ہی قیمتی اور پر افادی ادبی نکات اور فکر کن جہات کو اہل نظر کے سامنے باقاعدہ اور باضابطہ طور پر پیش کیا اور دیگر ادبی اصناف کی طرح اس صنف میں بھی نمایاں کامیابی حاصل کی ان کے بیان کردہ یہ انتقادی نکات ان کے زمانے سے لے کر عصر حاضر تک یکساں اہمیت وافادیت کے حامل قرار دیے جاتے رہے ہیں۔

امیر خسرو کو نہ صرف کشورہندوستان میں بلکہ خود ایران میں بھی فارسی زبان کے فن نقد کے پہلے اورسب سے بڑے فارسی زبان کے ادبی ناقد ہونے کا شرف حاصل رہاہے انھوں نے اپنے اس معروف دیوان یعنی ’غرۃ الکمال‘ کے دیباچے میں شعروشاعری کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے اس کو شعرو ادب کاایک بیش قیمت اور گرانقدر خزانہ قرار دیا ہے مصنف نے اس دیباچے میں شعر کی مختلف اقسام کے بارے میں بھی تفصیلی طور پر بتایا ہے اور بہت سے علمی نکات سے متعلق بڑی سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے اس دیباچے کی بے پناہ افادیت اور اہمیت کے سبب یہ ابتدائی دور ہی سے دانشوروں کی توجہ اوردلچسپی کا مرکز رہا ہے اور خسرو کے پیش کردہ تنقیدی نکات بھلے ہی ابتدائی دور میں لوگوں کے لیے بہت زیادہ دلچسپی اورکشش کا باعث نہ رہے ہوں لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ان کے اس تنقیدی سرمایے کی اہمیت اور ضرورت کو بڑی شدت کے ساتھ محسوس کیا گیا اور باریک بینی کے ساتھ ان نکات کا نہ صرف مطالعہ ومحاسبہ کیا گیا بلکہ ان کو تراجم کی مدد سے زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کی بھی کو شش کی گئی ہے تاکہ نہ صرف فارسی بلکہ دیگر زبانوں کے ادب کی نوک پلک کو مزید سنوار کر اس کو رعنائی وتابندگی عطا کی جا سکے اور دانشوروں کی جانب سے ان تنقیدی نکات کی افادیت وارزش کا جس جوش وخروش کے ساتھ استقبال کیا گیاہے اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ خسرو نے ایک ایسا عظیم کارنامہ انجام دیاہے جو ہمیشہ ادب کے لیے نافع اوربیش قیمت ثابت ہوگا۔ مولوی حافظ سید نظامی اس کلیات کے دیباچے کی گوناگوں صفات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

’’دیباچہ خود حضرت سلطان الشعرا امیرخسرو طوطی ہند علیہ الرحمتہ نے اپنے دیوان غرۃ الکمال کانثر فارسی تحریر کیا ہے فارسی علم وادب کا عجیب وغریب گنجینہ اور علمی رموز ونکات کا نادر ونایاب خزینہ ہے۔‘‘

( دیباچہ غرۃ الکمال، امیر خسرو مرتب مولوی حافظ سیدسین علی نظامی، مطبع قیصریہ دہلی،ص 1)

غرۃ الکمال‘کا دیباچہ حمد باری تعالیٰ سے شروع ہوتا ہے اوراس کے بعد نعت رسول سے صفحات کو زیب زینت دی گئی ہے اس کے بعد انھوں نے شعر وشاعری سے متعلق اپنے بیش قیمت اور پرارزش نظریات وافکار کو بیان کیا ہے۔ دیوان کے اس دیباچے کے مطالعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ امیر خسرو نظم اور نثر دونوں ہی کی افادیت اور اہمیت کے قائل ہیں اور منظوم ومنثور دونوں ہی میں ادبی آثار کے پیش کرنے کو سماج و معاشرے کی فلاح کا وسیلہ تصور کرتے ہیں البتہ اتنا ضرور ہے کہ وہ اثر آفرینی، زیبائی اور دلپذیری کے اعتبار سے نثر کے مقابلے نظم کو زیادہ فوقیت اور ترجیح دیتے ہیں اور نظم کی موزونیت اور سحر انگیزی پر وہ ہزارووں منثور جملے قربان کر دینے کو تیار نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ نثر کتنی ہی بہترین اور اعلیٰ درجے کی کیوں نہ ہو لیکن نظم کے ہم مرتبہ قرار نہیں دی جا سکتی ہے۔ اب میں یہاں ’غرۃ الکمال‘ سے ایک اقتباس نقل کر رہی ہوں جس میں اس دانشور اعظم نے بتایا ہے کہ نظم حکمت کے میزان کے لیے خالص سونے کی مانند ہوتی ہے اگر نظم کو توڑا جائے تو وہ نثر ہو جاتی ہے لیکن اگر نثر کو توڑا جائے تو وہ بے معنی، بے ہنگم اور بے وقعت ہو جاتی ہے۔ خوانندہ کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت وارزش باقی نہیں رہتی ہے اور وہ سامع کے ذوق پر سخت گراں گزرتی ہے البتہ نظم کو اگر ٹکڑے ٹکڑے بھی کر دیا جائے تو اس کی اہمیت اپنی جگہ مسلم رہتی ہے یعنی وہ قابل فہم ہوتی ہے۔

اس دیوان کے دیباچے کے مطالعے سے ایک اور اہم بات جو نگاہ وفکر کو بے ساختہ اپنی طرف متوجہ کرتی ہے وہ یہ ہے کہ خسرو کے مطابق عربی زبان، فارسی زبان کی بہ نسبت زیادہ وسعت اور کشادگی رکھتی ہے اس میں اپنے خیالات واحساسات کے اظہار کے لیے الفاظ کا ایک وافر ذخیرہ موجودہے جبکہ فارسی زبان الفاظ کے اس خزانے کا براہ راست مقابلہ کرنے سے قاصر ہے کیونکہ عربی کے مقابلے اس زبان میں ذخیرۂ الفاظ بہت کم نظرآتاہے لیکن اگر فارسی شاعری کے حوالے سے بات کی جائے توخسرو عربی کے مقابلے فارسی زبان کی شاعری کو زیادہ ترجیح وتوفق دیتے نظر آتے ہیں اور اس کا سبب وہ یہ بتاتے ہیں کہ اس زبان کے اہل زبان نے اپنے کلام میں وزن اوربحورکا خصوصی طور پر اہتمام والتزام کیا ہے جبکہ اس کے برعکس اہل عرب کے یہاں زحافات کی اجازت کے سبب شعرکا وزن درست نہیں رہ پاتا ہے اوریہی وجہ ہے کہ بعض اوقات عربی زبان کا اعلیٰ سے اعلیٰ اور عمدہ ترین شعر بھی پست اور ناموزوں محسوس ہونے لگتا ہے وہ مزید یہ بھی کہتے ہیں کہ ایرانیوں نے شعروشاعری میں محض قافیے پر اکتفا نہ کرتے ہوئے قافیہ کے ساتھ ساتھ ردیف کوبھی ایجاد کیا ہے جس کے سبب فارسی شعرکی اثر آفرینی، دلکشی اوردلپذیری میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے اور اتنا طول وطویل وقت گزر جانے کے بعد عربی زبان کو یہ بات ابھی تک میسرنہیں ہو سکی ہے کہ وہ اپنی شاعری میں فارسی اشعار کی سی حلاوت وعذوبت پیدا کر سکے، یہاں یہ بات بھی نظر میں رکھنا ضروری ہے کہ امیر خسرو مذہبی اعتبار سے عربی زبان کو بڑا اعلیٰ، معتبر اورپاکیزہ تصورکرتے ہیں اوراس کو اس دنیا کی بہترین زبان قرار دیتے  ہیںلیکن اگر شعری نقطہ نظرسے بات کی جائے تو وہ فارسی زبان کا مرتبہ عربی زبان سے کہیں زیادہ بلنداور اعلیٰ تصورکرتے ہیں اور اس کی حمایت میں مختلف تاویلات بھی پیش کرتے ہیں۔

امیر خسرو نے اپنے اس دیوان کے دیباچے میں اس اہم اور بے حد ضروری نکتے پر بھی سیر حاصل گفتگو کی ہے کہ شعرگوئی معمولی اورعام سا فن نہیں ہے شعر گوئی میں ملکہ حاصل کرنے کے لیے شاعر کوبہت سے سخت اصول وضوابط اورقواعد وبندشوں کے التزام کی ضرورت ہوتی ہے، شعری آئین وضوابط کی پاسداری کے عوض ہی کسی شاعر کے کلام کو ہمہ گیری، شہرت اور آفاقیت حاصل ہوسکتی ہے، ان کے نزدیک ہر کس وناکس شعر کہنے پر قادر نہیں ہوسکتا ہے اس فن کی تنگیوں، گہرائیوں اورمشکلوں سے وہی لوگ عہدہ بر آ ہو سکتے ہیں جو غیر معمولی فہم وفراست اور ذہانت ولیاقت کے مالک ہوں اور جن کا ذہن ارد گرد کی اشیا کی حقیقت تک رسائی پانے میں ذرا بھی دیرنہ لگائے وہ دور رس نگاہ کے مالک ہوںاوران کی فکرونظر دیگر لوگوں کے مقابلے میں زیادہ واضح اور دقیق ہواوریہ خصوصیات ہرفن کارکو حاصل نہیں ہو سکتی ہیں۔

امیر خسرو نے اپنے اس دیباچے میں شاعروں کے متعلق درجات بھی قائم کیے ہیں انھوں نے تین درجوں کا ذکر کیا ہے جن کی مدد سے شاعر کے درست مرتبے اور مقام کا تعین کرنے میں مدد ملتی ہے ان کے مطابق عام طور پر ہمارے اطراف وجوانب میں تین قسم کے شاعروں کو دیکھا جا سکتاہے یا ان کے تین درجے کیے جا سکتے ہیں اس میں سب سے پہلا درجہ ’استاد تمام‘ دوسرا ’استاد نیم تمام‘ تیسرااورآخری درجہ ’سارق‘ کا ہوتا ہے۔                                                                                        

1 استاد تمام:   یعنی وہ شاعر جو کسی خاص طرزیا صنف کا بنیاد گزار ہو یعنی جس نے شاعری کی دنیا میں اپناکوئی مخصوص طرز یا روش ایجاد کی ہو اس پہلے درجے میں حکیم سنائی، انوری، ظہیرفاریابی اور نظامی گنجوی وغیرہ جیسے بزرگ فارسی شاعروں کا نام لیا جا سکتا ہے جن کا اپنا جداگانہ رنگ اور انفرادی آہنگ ہے۔

2  استاد نیم تمام :    یہ شاعر کا دوسرا درجہ ہوتا ہے اس میں شاعر خود تو کسی طرز تازہ کا موجد نہیں ہوتا ہے لیکن وہ کسی مخصوص طرز اور روش کی تقلید وپیروی کرتا ہے اور اسی تقلید میں اپناایک خصوصی مقام اور انفرادی مرتبہ حاصل کر لیتا ہے اور مقلد ہوتے ہوئے بھی فن شعر میںشہرت وناموری حاصل کرلیتاہے۔

3 سارق:    اس درجے میں خسروان شعرا کو رکھتے ہیں جو نہ تو براہ راست کسی طرزتازہ کے موجد ہوتے ہیں اور نہ ہی کسی شاعرکی تقلید اختیار کرتے ہوئے کمال حاصل کر نے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ اس تیسرے درجے میں نااہل شاعر دوسرے شاعروں کے مضامین کو چراکر اپنا بنا لیتے ہیں سرقہ وتوارد پر ان کی شاعری کی تمام تر بنیاد ہوتی ہے، امیر خسرو سارق شعرا کو سخت ناپسندیدہ تصور کرتے ہیں اوران کو لائق مذمت قرار دیتے ہیں اس کے علاوہ انھوں نے اپنے اس منثوردیباچے میں ایک عالی اور استاد شاعر بننے کے سلسلے میں بھی کئی ضروری بلکہ لازمی شرائط کو بیان کیا ہے اور شاعر کے لیے ان کا التزام بے حد ضروری قرار دیا ہے ان کے مطابق کوئی بھی شاعر اس وقت تک ایک بہترین اور برجستہ شاعرنہیں بن سکتا ہے جب تک کہ اس میں مندرجہ ذیل چار خصوصیات نہ پائی جاتی ہوں:

1        ایک عالی مرتبہ اور آفاقی شاعر ہونے کے لیے پہلی سب سے ضروری شرط یہ ہے کہ شاعر اپنی شاعری کا پرچم ایسے طرز پر نصب کرے جو اس کی اپنی ایجاد کردہ ہو یعنی وہ صرف اندھی تقلید وپیروی پر اکتفا نہ کرے بلکہ اپنا ایک انفرادی رنگ اختیار کرے اورطرز تازہ کے ذریعے عوام وخواص کو اپنا گرویدہ بنا لے اورجہان شاعری میں اپنی مخصوص روش قائم کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کرے تاکہ لوگوں پر اس کی کہی ہوئی باتوں کا خاطر خواہ اثر ہواورقاری شاعر کی عنایت کردہ عینک کی مدد سے گردوپیش کا معائنہ ومحاسبہ کرنے پر مجبور ہو جائے۔

2        ایک استاد اور بزرگ شاعر ہونے کے سلسلے میں انھوں نے دوسری لازمی شرط یہ بتائی ہے کہ شاعر کا ہمہ کلام شیریں، سہل اور سلیس ہو شاعر نے شعر کو واعظوں اور ناصحوںکی طرز پر نہ کہا ہو یعنی شاعر کا کلام شاعروں کی نہج وروش ہی کے مطابق ہونا چاہیے ایسا نہ ہو کہ خالق شعر پند ونصائح کے دفتر قارئین کے سامنے کھول کر رکھ دے جو اذہان کو لطف وانبساط سے ہمکنار کرنے کے بجائے انتشاراور بیزاری کی کیفیت پیدا کر دے اور ان کے قلوب کو مشوش اور ملول بنا دے اس قسم کے شاعر بہت زیادہ شہرت اور مقبولیت حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پاتے ہیں اور نہ ہی ایک شاعرکی حیثیت سے ان کو معاشرے میں کوئی شناخت حاصل ہو پاتی ہے۔

3        امیر خسرو کے مطابق ایک بہترین شاعرہونے کے لیے تیسری اہم اور بنیادی شرط یہ ہے کہ اس کی شاعری زبان وبیان کی لغزشوں اور اغلاط سے پاک ہو یعنی شاعر اس بات کی شعوری کوشش کرے کہ زبان وبیان کی اغلاط اس کے سخن کی رنگینی اور رعنائی کو ضائع نہ کردیں اور نہ ہی وہ سخن کے لفظی ومعنوی حسن کو نظرانداز کرتے ہوئے شعر کہے کیونکہ اگر وہ محتاط نہیں رہے گا تو اس کی کہی ہوئی بات کو عوام وخواص کے درمیان میں کوئی خاص اعتبار واہمیت حاصل نہیں کر سکے گی۔

4        آفاقی شاعر کے لیے چوتھی اورآخری شرط جوامیر خسرو کی طرف سے ضروری قراردی گئی ہے وہ یہ ہے کہ شاعر ادبی خیانت کرنے والا ہرگز بھی نہ ہو یعنی ایک عظیم المرتبت اور قد آور شاعر کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ ایک ایسے درزی کی طرح ہرگز بھی کام کرنے کی کوشش نہ کرے جو دیگر لوگوں کا کپڑا چوری کر کے اپنے لیے ایک قبا تیار کر لیتا ہے یعنی اگر شاعر دیگر شعرا کے مضمون چرا کر اپنے کلام کی پیوند کاری کرنے کی کوشش کرتاہے تو وہ کبھی بھی ایک اچھا شاعر قرار نہیں دیا جاسکتا ہے شاعری میں دوسرے شاعر کے مضامین کی چوری کرنا انتہائی ناپسندیدہ اور غیراخلاقی فعل ہے جس سے بچنے کی خصوصی کوشش کرنا چاہیے۔

خسرو دہلوی نے صرف ایک استاد شاعر ہی کی خصوصیات پر روشنی نہیں ڈالی ہے بلکہ ایک شاگرد دیانت دارکے لیے بھی کچھ ضروری شرائط اورحد بندیاں قائم کی ہیں ان کے مطابق جس طرح ایک شاعر میں کچھ خصوصیات کا ہونا لازم ہے اسی طرح ایک شاگرد میں بھی کچھ صفات کا ہوناضروری ہے جن کے بغیر ایک اچھا شاگرد نہیں بنا جا سکتا اورجب کوئی اچھا شاگرد ہی نہ بن سکے تو پھر اس کے اچھا شاعر ہونے کی امید بھی نہیں کی جا سکتی ہے وہ خصوصی طور پر اس بات کی ہدایت کرتے ہیں کہ وہ شخص جو اپنے شعری سفر کا آغاز کررہا ہے وہ مندرجہ بالا نکات پر اپنی پوری سنجیدگی اور متانت کے ساتھ غور وفکر کرے اوران پر عمل پیرابھی ہو، تاکہ شاعر اور اس کے کلام کو مقبولیت اور ہر دل عزیزی حاصل ہو سکے، خسرو نے شاگرد کے بھی تین درجے بیان کیے ہیں جن کی تفصیل ذیل میں دی جارہی ہے۔

1 شاگرد اشارت: خسرو کے مطابق ایک شاگرد کے لیے سب سے پہلی اور اہم چیز یہ ہے کہ وہ اپنے استاد کی اصلاح کوبغورسنے اوراس کے بتائے ہوئے نکات کی روشنی میں اپنے کلام کواغلاط، لغزشوں اورخامیوں سے پاک کرنے کی طرف پوری ادبی سنجیدگی کے ساتھ متوجہ اور راغب ہواس کے علاوہ شاگرد کلام کی دشواریوں اور مشکلوں سے پوری طرح واقفیت رکھتا ہو یعنی وہ یہ نہ سمجھے کہ شعر گوئی کوئی سہل یا آسان کام ہے اور اس کو جیسے مرضی چاہے انجام دیا جا سکتا ہے۔

2 شاگرد عبارت: خسرو کا کہنا ہے کہ ایک شاگرد کو اپنی کامیابی اورکامرانی کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کسی صاحب ہنر وکمال کی پیروی اورتقلید اختیار کرنے کی کوشش توکرے لیکن اپنی انفرادیت کو بھی نظر انداز نہ کرے کیونکہ بغیر کسی استاد شاعر کی روش کی پیروی اورتقلید کے اس میں عمدہ شاعرانہ خصوصیات پیدا نہیں ہوسکتی ہیں ایک ہوش مند شاعرہمیشہ کسی ماہرفن سے اصلاح لینا ضروری سمجھتا ہے اور ایسا ہونا بھی چاہیے کیونکہ ایسا کیے بغیر کوئی شاگرد کامیابی حاصل نہیں کر سکتا۔

3 شاگرد غارت گر: خسرو کا مانناہے کہ ایک اچھے اور ذی فہم شاگرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے استاد کے اشعار کی نقب زنی کرے یعنی شاگرد کو چاہیے کہ وہ سیندھ لگا کر بیٹھا رہے اور جیسے ہی کوئی مناسب موقع پائے اپنے استاد کے سرمایے کو، مراد اس کے کلام کو چرا کر اپنا بنا لینے کا کوئی موقع ضائع نہ کرے کیونکہ یہ اس کا حق ہے اور وہ اس طرف سے غفلت اختیار نہ کرے تاکہ اس کو شعر گوئی میں نمایاں اور انفرادی مقام حاصل ہو سکے۔                           

امیرخسرو صرف دوسرے شاعروں کے کلام کے متعلق ہی شعروشاعری کے اصول وضوابط متعین نہیں کرتے ہیں بلکہ وہ ایک ہوش مند، دیانتداراور ذی فہم ادبی ناقد کی حیثیت سے اپنے کلام کے متعلق بھی اپنی بیش قیمت آرا  رقم کرتے ہیں ان کو اپنی فارسی دانی اور شعرگوئی میں اپنے اعلیٰ درجے اور بلند مرتبے کا بخوبی احساس تھا وہ اس حقیقت سے بھی با خبر تھے کہ معاصرین میں کوئی ان کا مد مقابل نہیں ہے اور یہی وہ احساس ہے جو کہ ایران کے بزرگ ترین شاعرنظامی گنجوی سے براہ راست نبرد آزما ہونے کا حوصلہ پیدا کرتا ہے حالانکہ خسرو نے اکثر وبیشتر مقامات پرخود کو نظامی کے مقلدین میںشمار کیا ہے با این ہمہ وہ اپنے کلام کی عظمت واہمیت کو نظامی کے کلام پر ترجیح وتفوق دیتے ہوئے کہتے ہیں       ؎

کوکبہ خسرویم شد بلند

زلزلہ در گور نظامی فکند

نظامی سے ہم سری کرنے والا ہمارا یہ شاعراپنی تمام تر شعری عظمت کے باوجود بھی خود کو مرتبہ استادی کے اہل نہیں پاتا اور اپنے کلام میں موجود اغلاط ولغزشوں کا اعتراف کرتا ہے اور اپنے آپ کو شاگرد یا طالب علم کے مرتبے پر رکھنا زیادہ پسند کرتا ہے اور خود کو غزل گوئی میں سعدی شیرازی، مثنوی نگاری میں نظامی گنجوی، قصائد میں کمال اسماعیل اصفہانی، پندوموعظت میں حکیم سنائی اور خاقانی شیروانی وغیرہ جیسے عظیم ایرانی شاعروں کا مقلد تصور کرتا ہے یہ ان کی ادبی دیانت داری اور حقیقت پسندی ہی ہے جس کی وجہ سے وہ ببانگ دہل اپنی شاعری میں موجود لغزشوں اور کوتاہیوںکا اعتراف کرتے ہیں اور خود کو اس زبان وادب کا ایک بہت ہی معمولی اورادنیٰ سا طالب علم سمجھتے ہیںاوربارہا اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ سخن وری کے میدان میں ان کو کبھی بھی دعوی یکتائی نہیں رہا ہے بلکہ وہ تو اس مرحلے میں خود کو ہر مقام پر ناتمام اور نامکمل پاتے ہیں ملاحظہ کیجیے ان کا ایک شعر جس میں وہ اپنی ناتمامی کا اقرار بڑے ہی پرشکوہ انداز میں کرتے ہوئے کہتے ہیں         ؎

نہ دھم از انصاف خود اینجا تمام

نا تمامم  ناتمامم نا تمام

یہ امیر خسروکی بے پناہ ادبی دیانت اور صداقت ہی توہے کہ جس کے سبب وہ اپنے کلام کے متعلق بھی بے لاگ رائے دیتے ہیں حالانکہ خود اپنے کلام کے متعلق غیرجانبدارانہ رائے پیش کرنا ایک دشوار ترین امر ہے لیکن خسرو ایک ناقد صادق کی طرح اپنے کلام پر اظہار نظر کر تے ہیں اور اپنے مخالفین یا معترضین کو اس بات کا موقع نہیں دیتے کہ وہ ان کے کلام پر ایراد وگرفت کرکے انھیں بدنام کرنے کی کوشش کریں اس سلسلے میں علامہ شبلی نعمانی جیسے بڑے ناقد ان کی اس ناقدانہ صداقت ودیانت داری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:                                                                                

’’امیر کے حالات شاعری میں یہ سب سے عجیب تر واقعہ ہے کہ وہ اپنے کلام پر آپ ریویو کرتے ہیں اور ایسی بے لاگ رائے دیتے ہیں کہ ان کا دشمن سے دشمن بھی ایسی آزادانہ رائے نہیں دے سکتا۔‘‘

(شعرالعجم حصہ دوم، علامہ شبلی نعمانی، معارف پریس، شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ،  2010، ص119)

امیر خسرو نے اپنے اس دیباچے میں نقد شعر کے ساتھ ساتھ فہم شعر کے متعلق بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے اور فہم شعر کے لیے بھی کئی اہم اور ضروری اصول وقواعد مقرر کیے ہیں جن کے بغیر سامع ایک اچھے شعر کی نہ توداد وتحسین دے سکتا ہے اور نہ ہی کسی عمدہ شعر سے لطف وانبساط حاصل کر سکتا ہے کیونکہ شعر وشاعری کے تقاضوں کو پورا کرنا ہر شخص کے بس کی بات نہیں ہے انھوں نے دیباچے میں’صاحب طبع‘ اور ’طبع وقاد‘ کی صفت شاعر اور قاری دونوں ہی کے لیے استعمال کی ہے یعنی خسرو کی نظر میں شعر گوئی اور شعر فہمی دونوں کے لیے طبع موزوں اور مناسبت مزاج کوضروری قرار دیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ شاعراور قاری دونوں ہی کا اعلیٰ صلاحیتوں اور نیک صفات کا حامل ہونا ضروری ہے کیونکہ ان کے بغیرشعروشاعری کا اصل مقصد حاصل نہیں ہوسکتا ہے، انھوں نے نا اہلوں کی شدید مذمت کی ہے اور ان کو شعر وادب کی خوبصورت سلطنت کے لیے رہزن کی مانند قرار دیا ہے۔

مختصراً یہ کہا جا سکتاہے کہ امیر خسرو کا فن نقد سے متعلق جوگہرا شعور اور ادراک ہمیں ان کی اس کلیات کے اس منثور دیباچے میں نظر آتاہے وہ عصر حاضر میں اس فن کے اتنا زیادہ ترقی کر لینے کے باجود بھی ناقدین ادب کے لیے مورد استفادہ اور قابل تقلید ہے ان کی تحریروں کے مطالعے سے اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا نظریہ نقد فن اپنے ابتدائی مراحل میں بھی بہت زیادہ روشن، واضح اور پختہ تھا، ان کے ذہن میں شعرو شاعری کی نقد و تنقید سے متعلق جو بھی نکات وجہات تھے وہ بہت مستحکم اور بالیدہ تھے جن کا ان کی طرف سے برملا اظہار بھی کیا گیا ہے ان کا نظریہ نقد فنی تقاضوں اور مطالبات کو بھی نظر انداز نہیں کرتا اور اعلیٰ حکمت و حقائق سے لے کر اپنے گر دوپیش کے سیاسی و تہذیبی وقائع تک کو بھی کائناتی اور تقدیری معاملات کے پس منظر میں اپنے نازک اور باریک خیالات و عمدہ احساسات کا جزو بنا لیتاہے ان کی یہ ناقدانہ قابلیت اور انتقادی بصیرت بلا شبہ ان کی شخصیت کا ایک ایسا پہلو ہے جس کی نمووپرداخت اس شخصیت عالی نے محاورتاً نہیں بلکہ حقیقتاً اپنے خون جگر سے کی ہے اور یہی سبب ہے کہ آج صدیاں گزر جانے کے بعد بھی ان کے افکار ونکات میں کسی قسم کی کوئی کہنگی وفرسودگی کا معمولی سا شائبہ بھی نہیں گزرتا ہے اور دورِ حاضر کے فارسی ادب کے ناقدین کے لیے بھی ان کے یہ انتقادی نکات اتنے ہی مورد تفکر اور سزاوار تقلید ہیں جتنے کہ خود ان کے اپنے عہد میں رہے تھے۔    


 

Dr. Neelofar Hafeez

Asst Professor, Depf of Persian

and Arabi, Allahabad University

Allahabad - 211002 (UP)

Mob.: 7500984444

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں