24/1/22

دیارِ دکن کا پروقار قلم کار: پروفیسر بیگ احساس - مضمون نگار: شبیر احمد لون


 


پروفیسر بیگ احساس کا اصل نام محمد بیگ اور قلمی نام بیگ احساس ہے۔ ان کی پیدائش 10اگست 1948 کو حیدر آباد میں ہوئی۔ان کے والد کا نام خواجہ حسن بیگ ہے۔ بیگ احساس انتہائی شریف النفس اور دھیمے لہجے کے آدمی تھے۔ ان کے سینے میں ایک درد مند دل دھڑکتا تھا اورہمیشہ امن و آشتی کے خواہاں تھے۔گفتار دھیمی، پر نہایت خوش کرنے والی،ان کی ادا میں خوشی جیسے سمائی تھی۔

بیگ احساس نے اعلیٰ تعلیم عثمانیہ یونیورسٹی سے حاصل کی۔ بی اے سال 1975 میں اور ایم اے سال 1979 میں مکمل کیا۔ اس کے بعد 1985 میں یونیورسٹی آف حیدر آباد سے ’کرشن چندر فن اور شخصیت‘ کے موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ سال 1984 میں بیگ احساس نے عثمانیہ یونیورسٹی میں بحیثیت لیکچرر کام کرنا شروع کیا اور سال 2000 میں پروفیسر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اس کے بعد 2000 سے لیے کر 2006 تک صدرِ شعبہ اردو کی حیثیت سے کام کیا۔ 2007 میں حیدر آبادسینٹرل یونیورسٹی سے جُڑ گئے اور 2013تک یہاں پہلے پروفیسر اورپھر صدرِ شعبہ اردو کے فرائض انجام دیتے رہے۔ اس کے علاوہ بیگ احساس حیدر آباد لٹریری فورم کے مشترکہ امور کے جنرل سیکریٹری اور صدررہے اور 1988 میں ساوتھ انڈیااردو اکیڈمی کے جنرل سیکریٹری  بھی رہے۔ بیگ احساس  مختلف اداروں اور انجمنوں کے رکن بھی رہے، جن میں ساہتیہ اکادمی، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، اردو راسٹرز اینڈ جرنلسٹس ویلفیئر فنڈ،آندھرا پردیش اردو اکیڈمی وغیرہ شامل ہیں۔

پروفیسر بیگ احساس مشہور ادبی رسالہ’سب رس ‘ کے مدیر کی حیثیت سے بھی کام کرتے تھے۔ 2013 سے  اب تک رسالہ ’سب رس ‘ کے ساتھ جڑے رہے۔ اس کے علاوہ بطورِ صحافی اقبال اکیڈمی،حیدر آباد کی جانب سے نکلنے والا رسالہ’اقبال ریویو‘ کے چند خصوصی شمارہ جات کی ادارت بھی کی۔

پروفیسر بیگ احساس کی ادبی خدمات کے تئیں ہندوستان میں انھیںمختلف انعامات سے نوازا گیا۔ سال 2016  میں تلنگانہ اردو اکیڈمی کی جانب سے پروفیسر بیگ احساس کو مخدوم ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اسی سال افسانوی مجموعہ’ دَخمہ‘ پر ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا جو انھیں سال 2017 میں ملا۔ عصرِ حاضر کے یہ بہترین قلم کار تقریباً پندرہ روز تک ہسپتال میںزیرِ علاج رہنے کے بعد 8ستمبر 2021 کو 11 بجے دماغ پر فالج کی وجہ سے اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ان کی تدفین نمازِ عشا کے بعد پیرا مائونٹ ہلس قبرستان،ٹولی چوکی میں ہوئی۔

پروفیسر بیگ احساس بیک وقت افسانہ نگار، صحافی، محقق، نقاد، ادیب، استاد اور مقرر تھے۔ آپ کی ادبی زندگی لگ بھگ پچاس سالوں پر محیط ہے۔ان پچاس سالوں میں بیگ احساس نے تین افسانوی مجموعے خوشہ گندم (1979)، حنظل (1993)، دخمہ (2015)،  ایک تحقیقی و تنقیدی کتاب ’کرشن چندر شخصیت اور فن‘ (1999)، تنقیدی مضامین کا مجموعہ ’شور جہاں‘ (2005)، شاذ تمکنت پر ایک مونوگراف(2010) اور ڈاکٹر ایم کے کول کے ساتھ مل کر (دکنی فرہنگ، 2012)بھی تدوین کی۔ اس کے علاوہ ’ہزار مشعل بکف ستارے‘(انتخاب کلام علی ظہیر، 2005)، تعلیم بالغان سے متعلق(مرزا غالب اور بوجھ کیوں بنوں، 2004)  ترتیب دیے ہیں۔ بیگ احساس ایک بہترین صحافی بھی تھے۔مشہوررسالہ ’سب رس ‘ کے مدیر اعلیٰ کی حیثیت سے مختلف شماروں کے اداریے لکھ کر اردو زبان و ادب کی آبیاری کی لیکن بنیادی طور پر بیگ احساس افسانہ نگار ہیںاور اپنی ادبی زندگی کا آغاز بھی افسانہ نگاری سے 1971 میں افسانہ ’سراب ‘ سے کیا جو ماہنامہ ’ بانو‘،دہلی میں شائع ہوا۔ افسانوی مجموعہ ’حنظل ‘ کے آغاز میں لکھتے ہیں:

’’میں نے اپنی پہلی کہانی 1971 میں لکھی اور کہانی کا بیج کہاں سے اُڑ کر میرے وجود میں آپڑا کب اس نے آنکھیں کھولیں، کب اس نے نمو حاصل کی میں نہیں جانتا۔ سوتے جاگتے ہر پل یہ کہانی میرے ساتھ رہنے لگی۔ ایک تشنج ایک اضطراب کی کیفیت طاری رہی۔پھر میرے قلم سے کہانی نکلی۔یہ کہانی ’ افسانے‘ کی شکل میں تھی۔‘‘

(حنظل: بیگ احساس، مکتبہ شعر و حکمت،حیدر آباد، 1993،ص9)

ان کے افسانوں میں عصر ِ حاضر کے درد و کرب اور پیچیدہ مسائل کانہایت حقیقت پسندانہ اظہار ملتا ہے۔ جدیدیت سے مابعد جدیدیت تک کا سفر کرنے والا یہ عظیم فکشن نگار عصری تقاضوں سے نہ صرف اچھی طرح واقف ہے بلکہ انسانی نفسیات کا نبض شناس بھی ہے۔ییگ احساس کے افسانوں کا موضوع کچھ بھی ہو لیکن جملے بہت مختصر اور سلیس پیش کرتے ہیں۔ان کے پیرایہ اظہار میں برجستگی، سادگی اور تازگی ہے۔بیگ احساس نے خارجی اور داخلی زندگی کی ہم آہنگی کو اپنے افسانوں کا وصفِ خاص بنایا۔بقول اقبال متین :

’’ بیگ احساس ایک سچے فن کار کی طرح اردو فکشن کے ایوان میں خاموشی سے داخل ہوئے۔ نہ سہارا دینے کے لیے کسی گروپ کی ادبی لاٹھی ساتھ تھی نہ کسی پیشہ ور نقاد نما خطوط نویس کا دوشِ دست گیر۔نہ کبھی انھوں نے اس کی ضرورت محسوس کی اس لیے کہ انھیں اپنی تحریروں پر اعتماد تھا اور ہے۔اوپر سے کہانیوں پر کسی فیشن کا نقاب اُڑھانے کی بجائے انھوں نے خارجی زندگی اور داخلی محسوسات کے آہنگ کو اہمیت دی۔‘‘

(خوشہ گندم: بیگ احساس، انجمن معمار ادب، حیدرآباد 1979، ص 11)

بیگ احساس کا پہلا افسانوی مجموعہ ’خوشہ گندم‘ نومبر 1979 میں پہلی بار انجمن معمار ادب، حیدر آباد سے شائع ہوا۔اس مجموعے میں کل بارہ افسانے ہیں،جو اس طرح ہیں: خوشہ گندم، خوابوں کا صحرا، تنکا اور طوفان، سنگ اُٹھایا تھا کہ ٹوٹتے لمحوں کا کرب، آگہی کے اندھیرے، اندھیری دھوپ، ریت کا سمندر، گندی،  سوئی ہوئی آگ، تیرگی کا سفر، سلگتی برف۔بیگ احساس کے یہ سارے افسانے نہایت خوبصورت ہیںاوران میں حیدر آبادی تہذیب کی بھرپور ترجمانی کرتے ہیں۔ اس مجموعے میں شامل افسانے اگرچہ ’حنظل‘ اور ’ دَخمہ ‘ کے معیار کے برابر نہیں ہیں کیونکہ یہ ستر کی دہائی میں لکھے گئے افسانے ہیں اور اس وقت کے سماجی، سیاسی اور ثقافتی مسائل کچھ مختلف تھے اورفنی اعتبار سے اتنی پختگی بھی بیگ احساس کے ہاں موجود نہ تھی۔ دوسری جانب جدیدیت اپنی انتہا پرپہنچ چکی تھی اور مابعد جدید اثرات نے اپنا جلوہ دکھانا شروع کر دیا تھا۔اس گہماگہمی میں مجموعہ ’خوشہ گندم‘ میں کچھ تکنیکی خرابیاں نظر آتی ہیں۔ پھر بھی بیگ احساس کے افسانے ایک نیا چہرہ پیش کرتے ہیں۔ دراصل بیگ احساس کو افسانہ لکھنے کا سلیقہ بھی آتا ہے اور افسانہ بننے کا گُر بھی جانتے ہیں۔

 بیگ احساس کے افسانوں کا دوسرا مجموعہ ’ ’حنظل‘ ہے۔یہ مجموعہ دسمبر1993 میں مکتبہ شعر و حکمت،حیدرآباد سے شائع ہوا۔اس میں کل بارہ افسانے شامل ہیں اور ابتدائیہ کے طور پر ’کہانی اور میں‘ کے عنوان سے ایک مضمون شامل ہے۔ ’ حنظل‘  میں شامل افسانوں کی ترتیب اس طرح ہے ۔پناہ گاہ کی تلاش، میوزیکل چیئر، کرفیو، اجنبی اجنبی، ملبہ، سوا نیزے پہ سورج، بے سورج آسمان، نیا شہسوار، خس آتش سوار، حنظل، برزخ، آسماں بھی تماشائی۔

مجموعہ ’حنظل‘ کا عنوان ہی اتنا پرکشش ہے کہ اس کو پڑھنے کی چاہ پیدا ہوجاتی ہے۔’حنظل‘ اور ’دَخمہ‘ کے عنوانات  ایسے ہیںجو اس قدر مبہم ہیں کہ قاری کو لغت کا سہارا لینا پڑتا ہے۔معروف ادیب مجتبیٰ حسین اس کے متعلق لکھتے ہیں:

’’جتنی محنت وہ خود افسانہ لکھنے میں کرتے ہیں اتنی ہی محنت وہ اپنا افسانہ پڑھنے والے قاری سے بھی کراتے ہیں کم از کم مجھ جیسے کم علم سے تو وہ محنت ضرور کراتے ہیں۔ جب سے میری عمر اسی برس کے قریب تک پہنچنے کے آثار دکھائی دینے لگے ہیں، میں نے اپنی ساری ڈکشنریوں کو اُٹھا کرالماری کے سب سے اوپر والے شیلف میںرکھوادیا ہے،بھلا اب اس عمر میں کسی لفظ کے معنی جان کر میں کیا کروں گا،اور معنی سمجھ میں آبھی گئے تو ان پر عمل پیرا کیونکرہو سکوں گا۔تاہم بیگ احساس نے کم از کم دو مرتبہ مجھ جیسے ضعیف آدمی کو مجبور کیا کہ میں سیڑھی لگا کر جیسے تیسے ان   ڈکشنریوں کو نیچے اتاروں اصل قصہ یہ ہے کہ ان کے افسانہ کا عنوان تھا ’ حنظل‘۔اب میں پریشان کہ یہ حنظل کیا   بلا ہے۔تلاش بسیار کے بعد پتہ چلا کہ حنظل کڑوے پھل کو کہتے ہے،بتائیے میں تو صبر کے پھل کے انتظار میں ہوں اور بیگ احساس نے تو میری خدمت میں کڑوا پھل پیش کردیا۔ ایک اور افسانہ کا عنوان تھا ’دَخمہ‘ اس بار پھر وہی  سیڑھی کی کشاکش اور محنت سے گزر کر معنی دیکھا تو معلوم ہوا کہ ’پارسیوں کے قبرستان‘ کو کہتے ہیں۔ اب بھلا بتائیے عمر کی اس منزل میں قبرستان کو لے کر کیا کروں گا۔ مگر جب افسانہ پڑھا تو اس کے انوکھے بیانیہ اور طرز ادا کو پڑھ کر جی خوش ہوگیا۔چلو ڈکشنریوں والی کڑی محنت  اکارت تو نہیں گئی۔‘‘

(مضمون’بیگ احساس تم ہی ہو‘، رسالہ ’چہار سو‘، لاہور، جلد27، شمارہ مئی- جون 2018، ص 20)

 حنظل میں شامل ساری کہانیاں 1979 سے لے کر 1993 تک مختلف رسالوں میں چھپتی رہیں اور 1993 میں پھریہ مجموعہ کتابی صورت میں شائع ہوا۔اس میں پہلی کہانی ’پناہ گاہ کی تلاش ‘ ذکی محمد انور کے نام لکھی ہے۔ اس میں ایک کینوس میں سارے مصنفوں کو جمع کرتے ہیں اور خود بھی اس میں موجود ہیں۔ پھر مصنف اور کردار میں وہ مکالمہ ہوتا ہے جس میں مصنف کی ساری ہیرا پھیری کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ مکالمہ نگاری کے اعتبار سے یہ ایک خوبصورت افسانہ  ہے۔اس کہانی میں فن میں سچائی کو پیش کرنے کے مسئلے کو موضوع بنایا گیا ہے۔ایک کینوس جو چاہتا ہے کہ اس منظر پر خوبصورت رنگوں کا برش پھیر دے لیکن کچھ مدّت گزرنے کے بعدہی نئے رنگ دھل جاتے ہیں اور پرانی حالت پھر لوٹ آتی ہے۔اس افسانے میں کردار وں کا کام’ منظر‘اور ’تلاش‘نے نبھایا ہے ۔یہ افسانہ دراصل فکشن نگاروں پر طنز کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

میوزیکل چیئر‘ میں بھی سماج کے نچلے طبقے کی ایک عورت کی گود میں دم توڑتی بیٹی کو دکھایا گیا ہے جسے گاڑی میں سیٹ تک نصیب نہیں ہوتی اور کوئی میوزیکل چیئر پر آرام سے بیٹھا میگزین پڑھ رہا ہوتا ہے۔دوا دارو کے لیے نزدیک کوئی ہسپتال بھی نہیں ہے۔غربت کی وجہ سے عورت کی جسمانی حالت اتنی کمزور ہوگئی ہے کہ چھاتی سے بیٹی کے لیے دودھ تک نہیں نکلتا۔اس طرح سے ’میوزیکل چیئر ‘ میںایک طرف آج کی مصروف زندگی اور وسائل کی عدم دستیابی سے پیدا شدہ مسائل دکھائے گئے ہیں وہیں عورت کو محض جنسی لذت دینے والی شئے کے طور پر بھی پیش کیا گیا ہے۔

افسانہ ’حنظل‘ ایک علامتی نوعیت کا افسانہ ہے جس میں ایک درخت کو موضوع بحث بنایا گیا ہے جس میں پھل آنا خوشحالی کی طرف اشارہ ہے۔ اس افسانے میں ہندوستان کی 200 سالہ تاریخ کو پیش کیا گیا ہے کہ کس طرح انگریزوں نے ہماری جڑوں کو نقصان پہنچایااور ملک غلام ہو گیا۔ ’حنظل‘ایک ایسا پھل ہے  جو نہایت کڑوا ہوتا ہے۔ آدم کو جس پھل کی وجہ سے جنت سے نکالا گیا تھا وہ تو لذیز تھا پر آج وہی پھل حنظل کے پھل میں تبدیل ہوگیا ہے۔یعنی زندگی کڑوی حقیقتوں سے بھر چکی ہے۔اس افسانے میں درحقیقت جڑوں سے بچھڑنے کا شدید احساس ہے۔

 آسماں بھی تماشائی ‘  ایک ایسی کہانی ہے جو سماج کے ان لوگوں کی بے حسی کی طرف اشارہ کرتا ہے جن کے پاس طاقت ہے اور جو بہت کچھ کر سکتے ہیں مگر نہیں کرتے کیوں کہ ان کو تماشائی بن کر دیکھنے میں ہی مزہ آتا ہے۔

 افسانہ ’برزخ ‘  کا بنیادی موضوع ’وقت‘ ہے۔ اس میں دو متضاد حقیقتوں، زندگی اور موت کے تصادم میں تخلیقی عمل کو استعارہ بنا کر پیش کیا گیا ہے۔اس کہانی کو ایک اپاہج کے احساس کمتری نے قلمبند کیاہے جو زندگی اور موت کے بیچ لٹک رہا ہے۔ اس افسانے میں وقت کواس لیے موضوعِ بحث بنایا گیا ہے کیوں کہ اس اپاہج کے نزدیک وقت ایک عذاب ہے۔

افسانہ’کرفیو‘ میں ایک عورت کے اندر پیدا ہونے والی داخلی کشمکش کو تمثیلی انداز میں بیان کیا گیا ہے جو شہر میں لگے کرفیومیں پھنس جاتی ہے اور ایک مرد کے گھر رات گزارنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔

اسی طرح مجموعے میں شامل ایک اور افسانہ’ خس آتش سوار ‘ جس میں قدیم ہندوستان کے مٹھوں کا نقشہ کھینچا گیا ہے جہاں مرد اور عورت ساتھ ساتھ گرودیو سے نظری علوم کی جگہ عملی علوم سیکھتے ہیں۔

بہر حال ’حنظل‘ میں بیگ احساس نے بیانیہ تمثیل کی تکنیک کا اکثر سہارا لیا ہے۔ اس کے افسانوں میں کرداروں کا کوئی حتمی نام نہیں ہے بلکہ وہ اپنے سیاق و سباق سے پہچانے جاتے ہیں۔اس مجموعے میں تشبیہی ساخت کے استعارے زیادہ استعمال ہوئے ہیں۔

پروفیسر بیگ احساس کے افسانوں کا تیسرا اور سب سے اہم مجموعہ ’دَ خمہ‘ ہے جو سال 2015 میں عرشیہ پبلی کیشنز، دہلی سے شائع ہوا۔یہ افسانوی مجموعہ گیارہ افسانوں پر مشتمل ہے۔اس کا ابتدائیہ مرزا حامد بیگ نے لکھا ہے۔ ’ دخمہ‘ میں شامل افسانوں کی ترتیب اس طرح ہے: سنگ گراں، کھائی، چکرویو، درد کے خیمے، سانسوں کے درمیان، نجات، دھار، شکستہ پر، دخمہ، نمی دانم کہ، رنگ کا سایہ۔

اس مجموعے کے سبھی افسانے فنی پختگی کے غماز ہیں۔ جن میں برجستگی بھی ہے اور تہہ داری بھی۔اس افسانوی مجموعے میں ستر کی دہائی میں مخصوص جدیدیت کی تحریک کی رد میں اُٹھنے والی آوازوں کا ردِ عمل دیکھنے کو ملتا ہے۔ مرزا حامد بیگ’ دخمہ ‘ کے ابتدائیہ میں لکھتے ہیں:

’’ بیگ احساس کا تعلق بھی ستر ہی کے دہے سے ہے، لیکن وہ جدیدیت کی تحریک سے الگ تھلگ رہے۔ نہ ’ شب خون‘ الٰہ آباد میں دکھائی دیے،نہ اوراق،لاہور میں لیکن انھیں صرف و محض سادہ بیانیہ کبھی نہیں بھایا۔یہی سبب کہ انھوں نے سیدھے سجائو تشکیل دیے گئے بیانیہ کے اندر پرت در پرت کئی ایک تہیں جما کر کامل علامتی، استعاراتی، کیوبسٹک اور تجریدی افسانہ لکھنے کی بجائے ایک ایسا تہہ دار بیانیہ تشکیل دیا،جس میں معنویت کی کئی ایک پرتیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔‘‘

(دخمہ: بیگ احساس، عرشیہ پبلی کیشنز، دہلی، 2015، ص 9)

’’د خمہ‘ کے سارے افسانے موضوع اور تکنیک کے اعتبار سے  ندرت رکھتے ہیں۔خود مجموعے کا عنوان ہی اپنے آپ میں ندرت رکھتا ہے جو قاری کو اپنی طرف متوجہ کرتا ہے۔ ’دخمہ ‘ میں شامل پہلا افسانہ ’سنگِ گراں‘ ہے۔ اس افسانے میں عورت کی نفسیات کا بڑی باریکی سے تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔صارفیت کے اس دور میں کیسے ایک مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والا انسان زندگی کے فطری عوامل سے خود کو دور رکھتے ہوئے تنہائی کی زندگی بسر کرتا ہے۔ اس افسانے میں دو کردار ہیں جو آپس میںایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور شادی کر لیتے ہیں۔لڑکے کے پاس خود کا مکان نہ ہونے کے سبب وہ لڑکی کو چھوڑ دیتا ہے۔ کچھ مدّت بعد اسے پتہ چلتا ہے کہ اس کی بیوی کے پیٹ میں بچہ پل رہا ہے تو خوش ہونے کے بجائے وہ اسے اپنا حمل گرا دینے کے لیے کہتا ہے۔ ماں بننا جو عورت کا فطری تقاضا ہوتا ہے وہ بھی شوہر کی مجبوریوں اور حالات کو مدِ نظر رکھ کر فطرت کے عمل میں رکاوٹ ڈال کر اپنے وجود سے آنے والے بچے کو گرا دیتی ہے۔

مجموعے کا دوسرا افسانہ’ کھائی‘ـ ہے۔جس میں تین نسلوں کی کہانی کو پیش کیا گیا ہے۔اصلاََ یہ کہانی تین نسلوں کے مابین نسلی اور ذہنی اختلافات کو پیش کرتی ہے۔اس میںامیری اور غریبی کے درمیان بنی کھائی کو خوبصورتی سے دکھایا گیا ہے۔ افسانے کے تین اہم کردار شوکت علی جاگیردارانہ ذہنیت کا حامل ہے اور کفایت جو اس کا بیٹا ہے کفایت شعار ہے اور ہر وقت کفایت شعاری سے کام لیتا ہے۔ کفایت کا بیٹا شہزادہ شاہانہ رکھ رکھاو اور تصنع کا دلدادہ ہے۔اس افسانے میں جو تفریق دکھائی گئی ہے وہ اصل میں نئی نسل کی اس سوچ کو پیش کرتی ہے کہ دوسروں کے لیے وہ جھوٹی شان وشوکت کا لبادہ اوڑھتے ہیں لیکن اپنوں سے خلوص نہیں رکھتے۔

مجموعے میں شامل چوتھا افسانہ ’ درد کے خیمے‘ ہے۔ یہ افسانہ1947 کے بعد بٹوارے سے متعلق ہے۔اس میں تین اہم کردار بہن،بہنوئی اور ننھی بھانجی کے ذریعے سے ہجرت کے واقعہ کو خوبصورتی اور ڈرامائی طریقے سے دکھایا گیا ہے۔ اس افسانے میں حیدر آباد (دکن)سے کھوکھرا پار کے راستے سے کراچی تک کی ہجرت کو  بیانیہ انداز میں دکھایا گیا ہے۔اس افسانے میں بیگ احساس نے ناسٹلجیا کی ایک نئی جہت کو یوں شامل کیا ہے کہ ہجرت کرے یا کوئی مر جائے دونوں ایک ہی تجربہ ہے۔

موضوع بحث افسانوی مجموعے میں شامل پانچواں افسانہ ’ سانسوں کے درمیاں‘ ہے۔یہ افسانہ انسانی رشتوں کی پامالی اور جھوٹی شان وشوکت سے متعلق ہے۔ انسان کے پاس جب دولت ہوتی ہے یا پیسہ ہوتا ہے تب سارے رشتے دار انتہائی قریب معلوم ہوتے ہیں اور جوں ہی ہاتھ سے پیسہ چلا جاتا ہے سب رشتے پرایے ہو جاتے ہیں۔ اس افسانے میں انسانی جذبات کو ابھرتے اور ڈوبتے دکھایا گیا ہے۔

دخمہ‘ میں شامل چھٹا افسانہ ’ نجات‘ ہے۔یہ ایک نفسیاتی افسانہ ہے جس کا مرکزی کردار فرحان ہے۔اس افسانے میں 9/11کے بعد گلف ممالک سے ان وطن واپس لوٹنے والوں کو موضوع بحث بنایا گیا ہے،جن کو اپنے ملک میں دوبارہ سیٹ ہونے میںمختلف دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔نتیجے کے طور پر وہ خود کی اور دوسروں کی زندگی اجیرن بنا دیتے ہیں۔

مجموعہ’دخمہ‘ میں شامل ساتواں افسانہ ’دھار‘ ہے۔یہ بھی ایک نفسیاتی مگر سیاسی نوعیت کا افسانہ ہے۔ اس افسانے  میںقومی اور بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں کی جو ستم خوردہ حالت ہے اس کو تمثیلی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

مجموعے میں شامل آٹھواں افسانہ ’ شکستہ پر‘ ہے۔یہ افسانہ عورت کی نفسیات اور رشتوں کی نزاکت پر مبنی ہے۔ اس کہانی کے مرکزی کردار،سشما،سمیر اور سمن ہے۔ سشما جو ایک طلاق یافتہ عورت ہے اس کی ایک بیٹی (سمن) بھی ہے۔سمیر سشما کے ساتھ شادی کر لیتا ہے پھر بیٹی کو اپنانے کا مسئلہ،بیٹی کو اپنانے کے بعداس کا اپنی ماں کے ساتھ موازنہ کرنا اور اپنے سوتیلے باپ کی جانب راغب ہونا وغیرہ یہ وہ واقعات ہیں جن کو اس افسانے میں دکھایا گیا ہے۔

زیر ِگفتگو افسانوی مجموعے کا نواں افسانہ خود مجموعے کا عنوان ’دخمہ‘ ہے۔دخمہ جس کو پارسی قبرستان یا نعش کے رکھنے کی خاص جگہ کہا جاتا ہے۔چوں کہ اس افسانے  میں پارسی برادری جس میں کسی مرنے والے کودفن یا جلانے کے بجائے دخمہ کی چھت پر رکھ دیا جاتا ہے جہاں اس کی نعش کو گدھ نوچ لیتے ہیں۔پارسیوں کے یہاں یہ ایک مذہبی عقیدہ ہے اور اسے نیک شگن مانا جاتا ہے۔یہ افسانہ گاتھی(Gothic)طرز کا افسانہ ہے جس میں عقائد، رسومات،روایات،تاریخ،سیاست اور انسانی میلانات کو ایک دوسرے کے ساتھ ضم ہوتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

افسانوی مجموعہ ’دخمہ‘ میں شامل دسواں افسانہ ’ نمی دانم ‘ ہے۔ اس افسانے میں خانقاہ کی زندگی اور وہاں ہورہے واقعات کو پیش کیا گیا ہے۔یہ افسانہ درحقیقت اندھی عقیدت اور توہم پرستی سے متعلق ہے  اور’دخمہ‘ کا آخری افسانہ ’رنگ کا سایہ ‘ ہے۔اس افسانے میں ریاست حیدر آباد میں مسلمانوں کے اقتدار کے خاتمے کے بعدکی صورت حال کا خوبصورت نقشہ کھینچا گیا ہے۔

یہ تھا بیگ احساس کے مختصر مگر فنی و تکنیکی اعتبار سے پختہ افسانوں کا خاکہ۔ مجموعی طور پر بیگ احساس کے افسانے فن کی بلندیوں کو چھوتے نظر آتے ہیں۔ ان کی زبان اگرچہ دکنی تھی لیکن اپنے افسانوں پر اس کو حاوی نہیں ہونے دیا۔زبان سادہ اور برجستہ ہے۔جملے بھی مختصر استعمال کیے ہیں۔پلاٹ سیدھے سادے ہیں۔واقعات کی ترتیب میں تسلسل قائم ہے اور مکالمے نہایت چست اور برمحل ہیں۔ حیدر آبادی فضا کو اکثر افسانوں کی زینت بنایا ہے۔کرداروں کی تخلیق میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ بیگ احساس کے افسانے جدید حسیت کی فنکارانہ مثال ہیں اور ان کے افسانوں کی سب سے نمایاں خوبی جو ذہن پر دیرپا اثر چھوڑتی ہیں،ان کا حزنیہ اختتام ہے۔انھوں نے جو بھی لکھا تنقید کی کسوٹی پر پرکھ کر لکھا۔یہی وجہ ہے کہ موضوعاتی اعتبار سے اور تکنیکی اعتبار سے بیگ احساس کے افسانے جدید دور میں نمائندہ حیثیت حاصل کر چکے ہیں۔

کرشن چندر شخصیت اور فن ‘ بیگ احساس کی پی ایچ ڈی کا موضوع تھا۔اس کام میں بیگ احساس نے انتہائی باریک بینی سے کام لے کر کرشن چندر کے ان تمام پنوں کو کھنگالنے کی کوشش کی جو تاریخ کے اوراق میں گُم تھے۔یہ کام بیگ احساس نے پروفیسر گیان چندکی فرمائش پر 1979 میں شروع کیا اور 1985 میں مکمل کیا۔اس کا پہلا باب کرشن چندر کی حالات زندگی پر مشتمل ہے جس میں بیگ احساس نے پیدائش سے متعلق اور ان کی بڑی بہن چندر مکھی کے ساتھ ساتھ سلمیٰ صدیقی سے شادی وغیرہ کی اصل سے قارئین کو آشنا کرانے کی کوشش کی ہے۔ دوسرے باب میں کرشن چندر کے بچپن، لڑکپن، جوانی، عملی زندگی، کھان پان،ملازمتیں،گھریلو زندگی،سیاسی نظریات وغیرہ سے متعلق جانکاری دی گئی ہے۔تیسرے باب میں بیگ احساس نے کرشن چندر کے فن پر بات کرکے ان کے افسانوں کو دو ادوار میں تقسیم کیا ہے۔پہلا دور 1936 تا 1945 اور دوسرا دور 1945 تا 1977۔ چوتھے باب میں بیگ احساس نے300سے زائد افسانوں،44 ناولوں، ڈراموں، تنقیدی مضامین، مزاحیہ مضامین، رپورتاژ، بچوں کا ادب، خاکوں، خطوط، دیباچوںوغیرہ کی فہرست تیار کی ہے اور ساتھ ساتھ چند تخلیقات کا تنقیدی جائزہ بھی لیا ہے۔

شور جہاں‘ یہ کتاب 2005 میں مکتبہ شعر و حکمت سے شائع ہوئی۔ اس کتاب میں 21 مضامین ہیں جنھیں بیگ احساس نے چار ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ (1) زمیں کھا گئی آسمان کیسے کیسے۔(2)پھول کی پتی سے۔(3) ولولہ روح میں افسانہ در افسانہ اٹھا۔(4)  ناخن کا قرض

یہ مضامین مختلف موقعوں پر لکھے گئے ہیں جن میں فکر انگیزی بھی ہے اور باریک بینی بھی۔اس کتاب کا پہلا مضمون ’ امیر مینائی حیدر آباد میں‘ ہے۔ ’شور ِ جہاں ‘ میں شامل دیگر مضامین اس طرح ہیں:

امجد حیدر آبادی کی نثر،اقبال اور حیدر آباد، مولانا حسرت موہانی ایک بے باک و حق گو مجاہد ِ آزادی،جوش اور فراق کی شخصیتیں،پریم چند کی فکر، آگ کا دریا،جو رہی سو بے خبری، اردو شاعرات کی لسانی حسیت، نیا اردو افسانہ تشکیک سے تشکیل تک، معاصر اردو افسانہ وغیرہ اور ناخن کا قرض میں 6 مضامین جو مختلف تقاریب اور جلسوںمیں پڑھے گئے ہیں۔

ہزار مشعل بکف ستارے(مرتب):یہ کتاب 2005 میں استعارہ پبلی کیشنز،نئی دہلی سے شائع ہوئی۔ انتخاب کلام ِ علی ظہیرکو مرتب کر کے بیگ احساس نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔یہ کتاب بیگ احساس نے شمس الرحمن فاروقی کے نام کی ہے۔اس کتاب میںبیگ احساس نے علی ظہیرکی سینتیس سالہ شاعری کی 183 نظموں اور چند غزلوں کا انتخاب کیا ہے۔ اس کتاب کو مرتب کرنے کے پیچھے بیگ احساس کاجومقصد تھا وہ بقول ان کے یہ تھا:

’’علی ظہیر مجھے جدید شاعروں میں ویسے ہی منفرد لگتے ہیں جیسے ترقی پسند شاعروں میں فیض  تھے۔فیض کے یہاں  عربی اور انگریزی کا پس منظر تھا تو علی ظہیر کے یہاں فارسی اور انگریزی کا پس منظر ہے۔ فیض نے غم جاناں سے    لے کر بین الاقوامی مسائل تک کو اپنی نظموں میں جگہ دی۔ علی ظہیر نے بھی بین الاقوامی مسائل اور مظلوموں سے ہمدردی کے ساتھ عشق،وصل اور ہجر کی کیفیات کا خوب صورت اظہار کیا ہے۔علی ظہیر کے یہاں بھی فیض کے موضوع سخن کی طرح کشمکش ہے۔‘‘

(ہزار مشعل بکف ستارے: بیگ احساس (مرتب)، استعارہ پبلی کیشنز،نئی دہلی2005، ص 11)

پروفیسر بیگ احساس کی صحافتی خدمات:

بیگ احساس کا صحافت سے گہرا تعلق تھا۔ان کی صحافتی زندگی کا آغاز ’ فلمی ستارے‘سے ہوا۔ابتدا میں حیدر آباد کے مختلف روزناموں (فلم رہبر، منصف، سیاست وغیرہ )میں فلمی صفحوں کے لیے ہفتہ وار کالم لکھتے تھے۔ پروفیسر مغنی تبسم کے انتقال کے بعد اردو کے مشہور رسالہ ’سب رس‘ کے مدیر بنے۔ سب رس ملک کا قدیم ماہنامہ ہے جو ادارہ ادبیات اردو،حیدر آباد سے نکلتا ہے۔ بیگ احساس کافی عرصے سے تا حال اس رسالے کے مدیر رہے۔ اس کے علاوہ اقبال اکیڈمی حیدر آباد سے نکلنے والا رسالہ ’اقبال ریویو‘ کے بھی مدیر رہے۔اس کے تحت ایک خصوصی شمارہ’ مطالعہ اقبال آہنگِ غالب کے پسِ منظر میں‘ نکالا جوکافی مشہور ہوا۔ اس کے علاوہ آن لائن ادبی فورم ’بازگشت‘ کے سرپرست کے طور پر بھی صحافتی خدمات انجام دیں۔ ’ بازگشت‘ کی جانب سے مختلف موضوعات کے تحت نشستوں کا اہتمام کیا۔

متذکرہ بالا خدمات کے علاوہ پروفیسر بیگ احساس نے دکن کے نامی گرامی شاعر شاذ تمکنت کا مونوگراف بھی لکھا ہے اورساتھ ہی ساتھ تعلیم بالغان کے حوالے سے دو کتابیں (مرزا غالب، بوجھ کیوں بنوں) اور ڈاکٹر ایم کے کول کے ساتھ مل کر دکنی فرہنگ بھی ترتیب دی ہے۔ مجموعی طور پر بیگ احساس دیارِ دکن کے مقبول ترین ادیبوں اور صحافیوں میںسے ایک ہیں جس نے اپنی قابلیت، ذہانت اور متانت سے نہ صرف اپنی تخلیقات کوسجایا سنوارا بلکہ دکنی تہذیب اوردکنی حسّیت سے تہہ دار بیانیہ کی صورت ایجاد کرکے انھیں تہذیبی ورثہ بنا دیا ہے۔اتنا ہی نہیں اپنی محنت لگن اور علمی صلاحیت سے عثمانیہ یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف حیدر آباد میں اردو طلبا کی ایک بڑی کھیپ تیارکی۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر سمیناروں کا انعقاد کرکے نہ صرف حیدر آباد بلکہ پورے اردو ادب کی شان بلند کی۔ پچھلی تین چار دہائیوںمیں جدید ڈکشن میں ایسی کہانیاں ترتیب دیں کہ جدید اردو افسانہ کے موضوع پرگفتگوان کے حوالے کے بغیر ادھوری ہے۔فن افسانہ نگاری میں اپنا لوہا منوانے کے ساتھ ساتھ تنقید کے میدان میں بھی اپنی انفرادیت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔مختصراََ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ گلشن ادب میں بیگ احساس کی ذات بہار کی مانند تھی۔

 

Shabbir Ahmad Lone

Frisal

Kolgam - 192232 (J&K)

Mob.: 7006942976

Email.: shabberlone2018@gmail.com

 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

خواجہ حسن ثانی نظامی کا اسلوب، مضمون نگار: عزیز احمد خان

  اردو دنیا، نومبر 2024 خواجہ حسن ثانی نظامی درگاہ حضرت نظام الدین اولیا کے سجادہ نشینوں میں سے تھے۔ ان کی پیدائش 15 مئی 1931 کو ہوئی تھی۔...