اردو
ہندوستان میں جنم لینے والی ایک ایسی زبان ہے جس نے زندگی کے ہرشعبے پر اپنا گہرا
اثر مرتب کیا ہے۔ یہ اس زبان کی شیرینی، سادگی اور سلاست کا ہی کرشمہ ہے کہ جو اس
زبان سے نا مانوس ہیں انھیں بھی اس زبان سے انسیت ہے۔اس کا ایک ثبوت بالی ووڈ کی
فلمیں ہیں جن میں زیادہ تر ڈائلاگ، نغمے اور مکالمے اردو میں ہوتے ہیں۔مگر وہ ناظرین
کو اتنے بھلے لگتے ہیں کہ زبان کی اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا اور نغمے تو کانوں میں
اس طرح رس گھولتے ہیں کہ فلم دیکھنے والا کسی اور ہی دنیا میں کھو سا جاتا ہے۔
جہاں زبان سے زیادہ جذبے کی تپش محسوس ہوتی ہے اور حقیقت یہی ہے کہ انسانی جذبات
اور احساسات کی بہت ہی خوب صورت عکاسی اسی زبان میں ہوتی ہے۔اسی لیے اردو زبان نہ
جانتے ہوئے بھی لوگوں کو اس زبان سے عشق سا ہو جاتا ہے اور شاید عشق کا یہی وہ
جادو ہے جو آج بھی بالی ووڈ میں سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ اگر یہ نہ ہوتا توغالب پر
لکھی ہوئی سعادت حسن منٹو کی مشہور زمانہ کلاسیکل فلم ’غالب‘ اور گلزار کا تحریر کیا
ہوا ٹی وی ڈراما’ مرزا غالب‘اور دوسری بہت سی فلموں کو اتنی مقبولیت اور شہرت نصیب
نہ ہوتی۔
میر و غالب
وغیرہ تو سب کی پسند ہیں اور ان کے نغمے پوری دنیا میں گونجتے ہیں۔ بالی ووڈ کی
فلموں میں بھی اردو کے کلاسیکی شاعروں کی بہت سی غزلیں ہیں جو بہت مقبول ہیں اور
جنھیں گلوکاروں کی آواز نے نئی زندگی سی بخش دی ہے۔یہ وہ نغمے ہیں جو صرف جذبے کو
مہمیز نہیں کرتے بلکہ انسانی وجود کو ایک ایسے آہنگ سے بھر دیتے ہیں جس کی وجہ سے
اس کے ذہن کا انتشار ختم ہو جاتا ہے اور اس کی زندگی میں ایک نیا احساس جنم لیتا
ہے۔ جب کہ ان نغموں میں اردو کی سہل اور سادہ لفظیات کے علاوہ تلاطم، عقوبت، سنگ
باری، غمازی جیسے مشکل الفاظ بھی استعمال میں آتے ہیں۔
خالص اردو
کے شہکاروں پر بنی فلمیں بھی اردو زبان کی مقبولیت اور قدر و قیمت کا ثبوت ہیں۔
مرزا ہادی رسوا کے ناول ’امرائو جان ادا‘ پر مظفر علی کی بنائی ہوئی فلم نے اپنا
جو اثر ناظرین پر نقش کیا ہے وہ اس بات کی دلیل ہے کہ واقعی اردو کے تخلیقی ادب میں
بڑی قوت اور توانائی ہے۔یہی وہ فلم ہے جس میں ریکھا نے اپنی اداکارانہ صلاحیت کا
لوہا ایک زمانے سے منوایا اور جس کے نغموں کی وجہ سے شہریار نے ہندوستان میں ہی نہیں
بلکہ پوری دنیا میں شہرت کے ہفت آسمانوں
کی سیر کی۔اس سے بھی پہلے آغا حشر کاشمیری کے ڈرامے ’یہودی کی لڑکی‘ پر بنائی
جانے والی فلم ’یہودی کی بیٹی‘ میں دلیپ کمار کے کردار نے اس کہانی کی ڈرامائیت میں
چار چاند لگادیا۔اسی طرح منشی پریم چند کی کہانیوں پر بھی ہندوستانی فلم نگری میں
کئی کہانیاں بنائی گئیں۔لیکن اس سلسلے میں سب سے زیادہ مشہور ہوا ان کے ناول’
گئودان‘ پر بنایا ہوا ٹیلی ویژن ڈراما۔جس کی جذباتیت نے ناظرین کو اس قدر متاثر کیا
کہ اسے آج بھی ہندوستانی فلم اور ٹیلی ویژن میں کسی شاہکار سے کم کا درجہ حاصل نہیں
ہے۔اردو معاشرے اور تہذیب پربنائی جانے والی فلموں اور ٹی وی ڈراموں نے بھی
ہندوستان میں خاصی شہرت حاصل کی۔ایسی فلموں میں شبانہ اعظمی، ارمیلا ماتونڈکر اور
دیا مرزا جیسے فنکاروں کو لے کر بنائی جانے والی فلم ’تہذیب‘ اور امیتابھ بچن اور
شری دیوی جیسے اداکاروں سے سجی ہوئی فلم ’ خدا گواہ‘۔اس کے علاوہ ٹی وی پر آنے
والا مشہور فیملی ڈراما’ حنا‘ بھی اردو تہذیب کی جلوہ گری کے باعث لوگوں کی نگاہو
ںمیں رچ بس گیا اور اس نے اپنی شہرت کی بنیاد پر دوسرے کئی ہم عصر ٹیلی ویژن
ڈراموں کو پیچھے چھوڑ دیا۔اردو نے ہندی فلم نگری پر ایسا جادو کیا کہ اس کی سحر
انگیز نگاہوں کی روشنی نے ایک عالم کو اپنا اسیر بنالیا۔اس حوالے سے یہ اقتباس کافی
اہم ہے:
’’ہندی فلموں نے اردو کی ان تمام مشہور داستانوں کو فلما
کران کی شہرت اور مقبولیت میں چار چاند لگادیے اور اردو کی بیش بہا خدمات انجام دیں۔اس
حقیقت سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے کہ ایک دیکھی جانے والی کہانی، پڑھی جانے والی
کہانی کی بہ نسبت زیادہ موثر ہوتی ہے کیونکہ ایک کہانی کو بیک وقت ایک ہی شخص پڑھ
کر متاثر ہوتا ہے جب کہ وہی کہانی جب فلم کے پردے پر دکھائی جاتی ہے تو بیک وقت
ہزاروں اشخاص مثبت یا منفی اثر قبول کرتے ہیں۔چنانچہ اردو ادب کی مشہور اور معرکتہ
الآراداستانوں مثلاً قصہ چہار درویش، قصہ حاتم طائی، شیرین فرہاد، لیلیٰ مجنوں،
گل و صنوبر، شہزادی، علی بابا چالیس چور، انارکلی (ڈرامہ)، امرائوجان ادا (ناول)
وغیرہ کو ہندی فلموں نے حیات جاودانی بخش دی۔آج یہ کہانیاں کتابوں کے صفحات سے اڑ
کر عوام کے دلوں میں جا بسی ہیں۔ان کتابوں کے مصنفین اس بات کا تصور بھی نہیں کرسکتے
تھے کہ ان کی کہانیاں اتنی مقبول ہوسکیں گی۔ان کہانیوں کے علاوہ اردو کے مشہور
ناولوں پر مبنی فلمیں بھی بنائی جاچکی ہیں۔مثلاً راجندر سنگھ بیدی کی ’ایک چادر میلی
سی‘ اور منشی پریم چند کے ناول ’ غبن ‘ اور ’کفن ‘ بھی فلم کے پردے کی زینت بن چکے
ہیں۔’شطرنج کے کھلاڑی‘ستیہ جیت رے کی مشہور فلم تھی جو پریم چند کی کہانی سے ماخوذ
تھی۔ان کے علاوہ جتنی بھی کہانیاں لکھی گئیں ان میں بیشتر کے خالق اردو کے ادیب ہی
تھے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔‘‘
(ہندی فلموں پر اردو کا جادو از پروفیسر محمد
منصورعالم، ص 41، ہندوستانی فلموں کا آغاز و ارتقا، مولف الف انصاری، مطبوعہ
اقبال پبلیکشنز، کلکتہ)
اردو کے
بہت سے ادیبوں نے ہندوستانی فلم انڈسٹری کے لیے خدمات انجام دیں۔ان ادیبوں کے
شاعرانہ اور فلمی کرئیر کے بارے میں گفتگو کی اسے ادب اور آرٹ کے اس اہم سنگم کا
بہت خوبصورت منظرنامہ سامنے آئے گا۔
سعادت حسن
منٹو:سعادت حسن منٹو کی شخصیت سے کون واقف نہیں ہے۔انھوں نے اردودنیا میں اپنے نام
اور کام دونوں کا سکہ جمایا۔گوکہ منٹو کو فلمی دنیا میں زیادہ بڑی جگہ نہ مل سکی۔
ان کی کہانیاں بہت سی فلمی پلاٹس کی زینت بنیں مگر ان کے جیتے جی وہ ہندوستانی فلم
انڈسٹری سے اتنا کچھ حاصل نہ کرپائے جتنا کہ ان کا حق تھا۔اس کی وجہ ہم منٹو کی اس
لاابالی فطرت کو بھی کہہ سکتے ہیں جو کہ ہر اصلی تخلیق کار کے یہاں پائی جاتی
ہے۔وہ کہیں بھی ٹک کر کوئی کام کرنے سے قاصر رہے۔تاہم انھوں نے اپنی دلچسپی کی بنیاد
پر مرزا غالب پر ایک فلم لکھی اور ہندی فلم جگت میں اسے اپنے افلاس زدہ دنو ںمیں
کسی ڈائرکٹر کے بہت زیادہ اصرار کرنے پر فروخت کردیا۔نتیجتاً فلمی پردے کی زینت بنی
اور اپنے زمانے میں بے حدکامیاب بھی رہی۔اس کے علاوہ منٹو کی مشہور زمانہ کہانی جو
کہ تقسیم ہند کے موضوع پر تھی اور جسے دنیا ٹو بہ ٹیک سنگھ کے نام سے جانتی ہے۔کئی
بار ہندوستانی فلم اور ڈراما کمپنیوں کی جانب سے فلمائی اور اسٹیج کی گئی۔
مجروح
سلطان پوری: مجروح سلطان پوری کا اصلی نام اسرار الحسن خان تھا۔آپ کا آبائی وطن
نظام آباد، اعظم گڑھ تھا۔انھوں نے اپنے فلمی کریئر کا آغاز 1945میں کیا اور دو
دہائیوں کے مقبول ترین نغمہ نگار رہے۔مجروح صاحب کو اس بات پر اپنی پوری زندگی میںفخر
رہا کہ انہیں اپنی اردو شاعری کی بنا پر ہی فلمی دنیا میں آنے کا اور ایسی سنہری
خدمات انجام دینے کا موقع ملا۔
مجروح صاحب
نے چھبیس سال کی عمر میں اپنے فلمی کریئر کا آغاز کیا اور اپنی اردو شاعری اور
زبان کی صلاحیت کی بنیاد پر ایک سے ایک فلمی گیت تخلیق کیے۔مجروح صاحب نے اپنی فلمی
زندگی میں نوشاد صاحب، مدن موہن، اوپی نیر، شنکر جے کشن، جتن للت اور اے آر رحمن
جیسے عظیم میوزک ڈائرکٹرز کے ساتھ کام کیا اور ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے
لوگوں کے دلوں کو اپنے اردو کے خوبصورت الفاظ کے رشتے میں پروتے چلے گئے۔انھوں نے
اپنی پہلی فلم’ شاہجہاں‘ کے ہی گانے اس قدر خوبصورت لکھے کہ ان میں سے بیشتر عوام
میں بہت مقبول ہوئے اور پروڈیوسر کے حسب خواہش ان نغموں میں مغلیہ عہد کے زبان و بیان
کی اس چاشنی کو بھی ملحوظ رکھا گیا۔ ان کی ایسی ہی شاہکار خدمات کی وجہ سے انھیں
1965میں اپنے مشہور نغمے ’چاہوں گا میں تجھے سانجھ سویرے‘ کے لیے فلم فیئر ایوارڈ
اور 1993میں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ بنام دادا صاحب پھالکے سے نوازا گیا۔مجروح
صاحب نے اپنے تمام فلمی گیتوں میں اردو زبان اور اس کی زود اثری سے لوگوں کے دلوں
کو مسخر کیا۔ آج بھی ان کے اشعار فلمی گیتوں اور مکالموں میں استعمال کیے جاتے ہیں
اور جس شعر نے انہیں دنیائے ادب اور فلم دونوں میں یکساں طور پر شناخت حاصل کرنے میں
مدد دی وہ ہے ؎
میں اکیلا
ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ
آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
مجروح
سلطان پوری کے مشہور نغمے اس طرح سے ہیں جس پر انھیں فلم فیئر ایوارڈ بھی ملا۔
چاند میرا
دل چاندنی ہو تم چاند سے ہے دور چاندنی کہاں (ہم کسی سے کم نہیں)، راجہ کو رانی سے پیار ہو گیا (اکیلے ہم اکیلے تم)، پہلا نشہ پہلا خمار(جو جیتا وہی سکندر)، او میرے دل کے
چین (میرے جیون ساتھی)،
یہ ہے ریشمی
زلفوں کا اندھیرا(میرے صنم)، آجا پیا توہے پیار دوں (بہاروں کے سپنے)، ائے دل ہے مشکل جینا یہاں (سی آئی ڈی)،چھپا لو
یوں دل میں پیار مرا(ممتا)
ساحر لدھیانوی: ساحر کی تخلیقی صلاحیت کو کون نہیں پہچانتا۔ ان
کے نغمے آج بھی ریڈیو، ٹی وی کے ذریعے لوگوں کے گوش گزار ہوتے رہتے ہیں اور وقت کی
کئی پرتیں پڑنے کے باوجود ان نغموں کی مہک تازہ ہی رہتی ہے۔وہ بیسویں صدی کے وسط میںلاہور
سے ہندوستان آئے اور یہاں آکر ممبئی میں انھوں نے فلم ’آزادی کی راہ پر‘ سے
اپنے فلمی کرئیر کا آغاز کیا۔یہ فلم اپنا کچھ خاص اثر ہندوستانی سنیما پر نہیں
ڈال پائی مگر ساحر کی تخلیقی صلاحیت کو ابھی اور چمکنا تھا اس لیے وہ اس راہ پر
آگے بڑھے اور انھوں نے 1950میں فلم ’نوجوان‘ کے گانے لکھے جو کہ اتنے مقبول ہوئے
کہ ساحر کا نام بطور نغمہ نگار ہندوستانی فلم انڈسٹری میں خاصی شہرت حاصل کرگیا۔ساحر
کی شخصیت چونکہ خود بھی بے حد رومانی تھی اس لیے انھوں نے جب اپنی رومانویت کو
نغموں میں اتارنا شروع کیا تو لوگ اس سحرزدہ لہجے کی تمکنت سے چونک اٹھے۔
ساحر کے
فلمی نغمے نہ صرف اپنی غنائیت کی وجہ سے بے مثال ہیں بلکہ ان نغموں کی معنی آفرینی
اور معاشرتی حسیت نے انھیں آفاقیت عطا کی ہے۔ساحر کا امتیاز ہے کہ جو باتیں نثر
کے پیرائے میں بیان کی جا سکتی ہیں انھیں ساحر نے شعر کے قالب میں ڈھال کر نہایت
غنائیت کے ساتھ پیش کیا ہے۔
کبھی کبھی میرے
د ل میں خیال
آتا ہے
کہ جیسے تجھ کو
بنا یا گیا ہے میرے لیے
تو اب
سے پہلے ستاروں
میں بس رہی تھی کہیں
تجھے ز میں
پہ اتارا گیا
ہے میرے لیے
ساحر لدھیانوی
اپنے عہد کے وہ نازک مزاج نغمہ نگار تھے جنہوں نے دھنوں پر گیت لکھنے سے انکار
کرتے ہوئے اپنے قلم کی عظمت کا اعتراف کروایا۔انھوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ وہ
پہلے گیت لکھیں گے اور اس کے بعد ہی ان کو دھنیں عطا کرنے کے لیے موسیقار کو محنت
کرنا پڑے گی۔اس طرح موسیقی اور شاعری کی اس پرانی جنگ میں انھوں نے فلم انڈسٹری کو
اپنے عہد تک تو یہ بات ماننے پر مجبور کردیا کہ گانوں میں بول کی اہمیت دھنوں سے زیادہ
ہوتی ہے۔اس کے علاوہ بھی اپنی تخلیقی صلاحیتوں پر ان کو کس حد تک ناز تھا اس بات
کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے ہمیشہ فلموں میں موسیقاروں کی بہ
نسبت پروڈیوسر سے ایک روپیہ زیادہ ہی قیمت وصول کی۔وہ اپنے کلام کی سحر بیانی کی
صحیح قیمت سے واقف تھے اور اسی وجہ سے انھوں نے زندگی بھر کسی بھی طرح کے معاوضے
کے لیے معاہدہ کرنا غیر ضروری سمجھا۔ساحر کے چند مشہور نغمے اس طرح ہیں ؎
جا نے وہ کیسے
لوگ تھے جن کے پیار کو پیار ملا
ہم نے جب
کلیاں مانگیں کانٹوں کاہار ملا
(فلم ’پیاسا‘)
عورت نے
جنم دیا مردوں کو مردوں نے اسے بازار دیا
جب جی چاہا
مسلا کچلا جب جی چاہا دھتکار دیا
ندا فاضلی:
اردو شاعری کے لحاظ سے فلمی دنیا میں ندا فاضلی کا نام ایک انفرادی حیثیت رکھتا
ہے۔ ان کی شاعری نے اپنے اسلوب اور افکار کی بدولت ایک ایسے لہجے کی بازیافت کی ہے
جو بیک وقت میر اور نظیرکی یاد دلاتا ہے۔ نداکے یہاں جو فکری بہائو ہے وہ دراصل
اودھت گیتا سے مستعار ہے۔
ایک دن اچانک وہ ایک مندر کے پاس سے گزرتے ہیں جہاں
انہیں سورداس کا ایک بھجن ’مدھوبن تم کیاں رہت ہرے؟برہ بیوگ سیام سندر کے ٹھارے، کیوں
نہ جرے؟‘ سنائی دیا۔ اس بھجن میں کرشن کے متھرا سے دوارکا چلے جانے پر رادھا اور
گوپیاں چمن سے استفسار کرتی ہیں کہ اے چمن! تم کرشن کے بغیر اتنے سرسبز کیوں ہو،
ان کی جدائی کے غم نے تمہیں جلا کیوں نہ دیا؟۔۔۔اس واقعے کو ندا کے لہجے کی تشکیل
اور فکر کی پرواز کی اساس کہا جاسکتا ہے اور یہاں سے ان کے دورِ مشق کے بعد ان کا
اصل شعری دور شروع ہوتا ہے اور دراصل یہی درمیانی دور ندا کی شناخت کے طور پر
مقبول ہوا۔ ندا کی شاعری کا تیسرا دور ان کی بمبئی (موجودہ ممبئی) آمد کے ساتھ
1964میں شروع ہوا۔یہاں آنے کے بعد ندا نے اس دورِ زندگی کا تجربہ حاصل کیا جہاں
لوگ ایک دوسرے کے غم آشنا ہوتے ہوئے بھی ان غموں سے بھی فائدہ اٹھانے کی تدابیر میں
جٹے رہتے تھے۔ندا اپنے فلمی کیریئر میں اس قدر کامیاب نہیں ہوئے جتنا انھیں ہونا
چاہیے تھا بلکہ ان کی زیادہ شہرت اسی فقیر منش شاعر کے طور پر ہے جس کے اقوال کے
آئینے میں لوگ دنیا کی سیدھی سچی تصویر دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔معاصر شاعری میں
ندا فاضلی نے جدیدیت کے جس رنگ کی جانب اپنے اسلوبِ شعر کی باگ موڑی تھی خود اس کا
وجود اتنا قوی ثابت نہیں ہوا کہ ندا جیسے شاعروں کے خیالات کی ترجمانی کا بوجھ
برداشت کرسکتا۔اس لہر سے جڑنے کی بھی ایک اپنی وجہ گوتم بدھ کے اسی بیان کی سی
معلوم ہوتی ہے جس میں وہ خود کو پانی کا مماثل قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ’’ ان کا
رنگ کچھ نہیں ہے بلکہ وہ اوروں کے رنگ میں رنگنے کی اہلیت ضرور رکھتے ہیں۔‘‘ایسا
نہیں ہے کہ اور شاعروںنے ندا کی طرح نظموں اور ددہوں میں دنیا کی تفہیم کی اس کوشش
کو شامل نہیں کیا بلکہ کئی ایک تو ایسے ہیں جنہوں نے ندا کے یہاں سے خوشہ چینی کو
بھی برا نہیں مانا مگر غزل کے قصر میں ندا کا اپنا ایک علیحدہ مقام ہے اور غزل کو
سادھو سنتوں کا چولا پہنانے والے ندا کی برابری کرنا کسی بھی شاعر کے بس کی بات نہیں
ہے یہ صرف ندا کا ہی حصہ ہے۔وہ اپنی دھرتی اور اس کی بوباس میں اس طرح رچے بسے ہیں
کہ یہاں کے اوتار، ندیاں، مزاریں، گنڈے، تعویذ، درخت اور پرندے ان کی شاعری کی دنیا
کا ایک اٹوٹ حصہ بن چکے ہیں جس کو بمبئی کی بھیڑ بھی پامال کرنے میں کامیاب نہیں
ہوسکی اور سچ پوچھا جائے تو ندا کی بہت بعد تک کی شاعری میں ان کے یہاں کا وہی
خالص اور صوفیانہ اسلوب کارگر رہا جس نے انہیں ہجر کی تنہائی میں بھی خدا کے ترحم
کا درس دیا تھا اور شہر کی ہائوہو میں بھی اسی کی کرپا کا پاٹھ پڑھایا۔البتہ فلمی
دنیا میں رومانیت کے سہارے اپنی غزلوں سے فلموں میں چار چاند لگانے والے ندا فاضلی
کے جن بولوں نے لوگوں کو متاثر کیا ان میں ’کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا‘،
’ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے‘ جیسے سدا بہار اور مشہور نغمے سر فہرست
ہیںجنھیں ہندوستانی عوام کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔
شہریار:
مرزا ہادی رسوا کے ناول ’امرائو جان ادا‘ پر بنائی ہوئی مظفر علی کی یادگارفلم
’امرائو جان ‘ میں اپنے نغموں سے سحر طاری کرنے والے شاعر شہریار اپنی فنی صلاحیتوں
کی وجہ سے ہندوستانی فلمی دنیا میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ شہریار نے امرائو جان
ادا کے فلمی نغمے واقعی اتنے اچھے تحریر کیے تھے۔ آج بھی وہ نغمے روح کو تازگی
بخشتے ہیں۔ مثال کے طور پر ان کا مشہور نغمہ
؎
دل چیز کیا
ہے آپ مری جان لیجیے
بس ایک بار
میرا کہا مان لیجیے
شہریار
اردو ادب میں اپنی فنی بصیرت اور ادبی خدمات کی وجہ سے ہمیشہ یاد کیے جائیں
گے۔ہندوستانی فلم انڈسٹری نے بھی ان کے کلام کی پختگی کو قبول کیا اور ان کی انمول
اور بے بہا خدمات کی وجہ سے انھیں 2012میں ہی ان کے انتقال سے کچھ عرصہ پہلے مشہور
اداکار امیتابھ بچن کے ہاتھوں سے ایک ایوارڈ سے نوازا گیا۔شہریار نے فلموں کی طرح
اپنی ادبی زندگی میں شاعری سے لوگوں کو متاثر کیا۔
اخترالایمان:
اخترالایمان کے اندر چونکہ ایک بہت ہی اہم شاعر وقت کے ساتھ ساتھ پروان چڑھ رہا
تھا اس لیے وہ بہت جلد ہی روایت شکن بن کر ابھرے اور ان کی یہی روایت شکنی انہیں
ممبئی کی فلم نگری کی جانب کھینچ لائی۔ ممبئی میں ان کی آمد 1945میں ہوئی۔ انھیں
اپنی مکالمہ نگاری کے سبب 1963میں فلم’ برہمپتر‘ اور 1966 میں فلم ’وقت‘ کے لیے
فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اخترالایمان نے تیس سے زائد فلموں میں مکالمے لکھے۔
اخترالایمان
کے لیے کہا جاسکتا ہے کہ انھوں نے جس قدر کامیابی اپنے ادبی کریئر میں حاصل کی اتنی
ہی انھیں فلمی دنیا میں بھی ملی۔چونکہ وہ زبان و بیان پرقادر تھے اس لیے انھوں نے
کئی فلموں میں گیت بھی لکھے اور مکالموں کی ہی طرح ان کے نغمے بھی عوام کے لیے سدا
بہار ثابت ہوئے۔
اخترالایمان
اپنی شاعری کی ہی طرح بالکل منفرد شخصیت کے حامل تھے۔انھوں نے فلم نگری میں رہ کر
بھی اپنی فنی صلاحیتوں کو کسی بھی طور کم نہیں ہونے دیا۔وہ ایک باکمال اور با صلاحیت
ادیب ہونے کے ساتھ ایک خوبصورت مکالمہ نگار بھی تھے۔اسی لیے یہ بات پورے وثوق سے
کہی جاسکتی ہے کہ جب جب اردو اور بالی ووڈ کے رشتوں کا ذکر ہوگا۔تب تب اردو کے
شعرا و ادبا کو یاد کیا جائے گا۔
کیفی اعظمی:
14جنوری9 191کو آنکھیں کھولنے والے کیفی اعظمی کو آج ہندوستانی فلم انڈسٹری میں
کون شخص نہیں جانتا ہوگا۔ان کا مشہور زمانہ نغمہ ’’عجیب داستاں ہے یہ، کہاں شروع
کہاں ختم‘ لوگوں کے لیے آج بھی کلاسیک کا درجہ رکھتا ہے۔ان کی فلمی خدمات کے لیے
انھیں خواجہ احمد عباس کی ہدایت میں بنی ہوئی فلم ’سات ہندوستانی‘ میں برائے نغمہ
نگاری نیشنل فلم ایوارڈ سے 1970میں نوازا گیا۔اس کے علاوہ 1975میں انہیں فلم فیئر
کی جانب سے بہترین مکالمہ نگاری، بہترین منظرنامے اور بہترین کہانی کے لیے ایوارڈ
سے نوازا گیا۔کیفی اعظمی نے اپنی اردو زبان دانی کی بدولت فلمی کرئیر میں ایسی کئی
فلمیں لکھیں اور ایسے نغمے تحریر کیے جس میں اس زبان کا جادو سننے والے کے سر چڑھ
کر بولتا ہوا محسوس ہوا۔ ان کے کچھ سدا
بہار نغمے مندرجہ ذیل ہیں ؎
آج کی رات بہت گرم ہوا چلتی ہے
تو جو بے جان کھلونوں سے بہل جاتی ہے
وقت نے کیا کیا حسیں ستم
تم اتنا جو مسکرارہے ہو
زندگی بھر مجھے نفرت سی رہی اشکوں سے
آج سوچا تو آنسو بھر آئے مدتیں ہو گئیں مسکرائے
اس کے
علاوہ اور بھی بہت سے نغمے ہیں جو ان کے قلم سے نکلے اور ہندوستانی فلم انڈسٹری کے
آسمان پر ستاروں کی صورت جگمگائے۔
شکیل بدایونی:
ساحر لدھیانوی کی طرح شکیل بدایونی بھی اردو ادب کے حوالے سے فلموں میں ایک بہت عظیم
نام بن کر ابھرے۔ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کی ہی بدولت انھیں فلم انڈسٹری میں سو سے
زائد فلموں کے گیت لکھنے کا موقع ملا۔یوں تو ان کے بہت سے نغمات مشہور ومقبول ہوئے
لیکن ان کا سب سے بڑا کارنامہ مغلِ اعظم جیسی فلم میں لکھے گئے ان کے نغموں کو ہی
قرار دیا جاسکتا ہے۔بھلا کون ہے جو’پیار کیا تو ڈرنا کیا‘ اور ’اے محبت زندہ باد‘
جیسے گانوں کی کھنک آج بھی اپنے کانوں میں محسوس نہیں کرتا۔ بہترین نغمہ نگار کے
طور پرانھیں کئی بارفلم فیئر ایوارڈ ملا۔ شکیل بدایونی کے تقریباًتمام فلمی نغمے
مقبول و محبوب ہوئے ہیں، مثال کے طور پر کچھ مشہور نغموں کا ایک ایک مصرعہ پیش
کرنا چاہتا ہوں ؎
اودور کے
مسافر ہم کو بھی ساتھ لے لے (اڑن کھٹولہ)، تو گنگا کی موج میں جمنا کی ھار (بیجو باورا)، او دنیا کے رکھوالے سن دردبھرے میرے نالے(بیجو باورا)، جب پیار
کیا تو ڈرنا کیا (مغل اعظم)
حسرت جے
پوری : حسرت کا نام اقبال حسین تھا۔ 15اپریل 1922کو جے پور میں پیدا ہوئے۔ ان کے
نانا فدا حسین اردو اور فارسی میںشاعری کرتے تھے حسرت کو بچپن ہی سے شعروشاعری میں
دلچسپی تھی اکثراپنے نانا کے ساتھ مشاعروں میںشریک ہوتے تھے۔یہیںسے ان کے اندر شعر
فہمی کی صلاحیت پیدا ہوئی۔ اٹھارہ سال کی عمر میں ممبئی آگئے اور پابندی سے
مشاعروں میںشریک ہونے لگے۔
ایک مرتبہ
ایک مشا عرے میں پرتھو ی راج کپور نے ان کی نظم ’مزدور کی تلاش‘ سنی تو ان کی
ملاقات اپنے بیٹے راج کپور سے کرائی۔راج کپورنے ان سے کچھ اور غزلیں سنیں تو انھیں
اندازہ ہواکی ان کے اندر نغمہ نگاری کی صلاحیت کوٹ کوٹ کر بھری ہے اسی ملاقات نے
حسرت کی زندگی بدل کر رکھ دی راج کپور کے ہی وسیلے سے ان کو فلموں میں کام مل گیا۔اسی
بنا پرہم دیکھتے ہیں کی راج کپور کی بیشتر فلموں کے نغمے حسرت جے پوری کے تحریر
کردہ ہیں۔راج کپور کی فلموں کے سدا بہار نغمے حسرت جے پوری کی گہری بصیرت اور کمال
فن کے مظہر ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر پروڈکشنز کے تحت بننے والی فلموں میں بھی ان کی
بڑی حصے داری ملتی ہے۔ان کے کچھ نغمے جو انھیں بالی ووڈ میں بلند مقام عطا کیے ؎
زندگی ایک
سفر ہے سہانہ (انداز)، تیری پیاری پیاری
صورت کو کسی کی نظر نہ لے (سسرال)، پنکھ ہوتے تو اڑ آتی رے (صحرا)، احسان تیرا ہو
گا مجھ پر(جنگلی)، تم مجھے یوں بھلا نہ پائو گے (پگلا کہیں کا )، بدن پر ستارے لپیٹے
ہوئے (پرنس)
حسرت نے
اپنا پہلا فلمی نغمہ ’جیا بے قرار ہے چھائی بہارہ ہے،آجا مورے بالما تیرا انتظار
ہے‘ لکھا،ان کے نغموں میں سہل نگاری اور سلاست پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے یہ بہ
آسانی زبان زد عام ہوئے۔کبھی کبھی ہندی تراکیب کا استعمال کر کے اپنے کلام میں ایک
نیاآہنگ پیدا کر دیتے ہیں۔
گلزار: ہندوستانی فلمی صنعت میںکم لوگوں کو اس بات کا
اعزاز حاصل ہے کہ جنھوں نے فلم سازی کے مختلف شعبوں میں اپنی انفرادیت اور صلاحیتوں
کے چراغ روشن کیے ہیں۔ پورن سنگھ عرف گلزار بھی انھیں لوگوں میں سے ایک ہیں و ہ
بہترین اور حساس نغمہ نگار، کامیاب ہدایت کار، فطری مکالمہ نویس اور چست اسکرپٹ
رائٹر کی حیثیت سے جا نے جاتے ہیں۔ بحیثیت نغمہ نگار گلزار کی پہلی فلم ’بندی‘ تھی
جس کے ایک نغمے نے حسن کی ایک نئی تعریف وضع کی اور وہ نغمہ بہت مقبول ہوا۔ گلزار ایک ایسے نغمہ نگار ہیں جو اپنے نغموں میں
نئی لفظیات، اچھوتے خیال اور اپنی انفرادیت کو برقرار رکھتے ہیں ؎
ہزار راہیں
مڑکے دیکھیں کہیں سے کوئی صدا نہ آئی
بڑی ادا سے
نبھائی تم نے ہماری تھوڑی سی بے وفائی
(فلم ’تھوڑی سی بے وفائی)
وہ شام کچھ
عجیب تھی، یہ شام بھی عجیب ہے
وہ کل بھی
آس پاس تھی، وہ آج بھی قریب ہے
(فلم’خاموشی‘)
نوشاد:
نوشاد صاحب ہندوستان میں موسیقار اعظم کے نام سے جانے جاتے ہیں۔انھوں نے بیجو
باورا سے لے کر مغل اعظم جیسی فلموں تک میں اپنی موسیقی سے جادو جگایا ہے۔ان کی
عظمت کا اعتراف آج بھی ہندوستان کے کم و بیش تمام موسیقار کرتے ہیں۔نوشاد صاحب کے
بارے میں شاید زیادہ تر لوگ یہ بات نہیں جانتے ہیں کہ وہ اردو کے ایک بہت اچھے
شاعر بھی تھے اور ان کا شعری مجموعہ ’آٹھواں سر‘ کے نام سے شائع ہوکر منظر عام پر
آیا تھا۔نوشاد صاحب کو اردو زبان وادب دونوں سے دلچسپی تھی۔انھوں نے فلم مغل اعظم
کی کلاسیکیت کو برقرار رکھنے کے لیے جس طرح نرگسی موسیقی کی دھنیں تیار کی تھیں اس
سے یہ بات تو ثابت تھی کہ وہ اردو کے کلاسیکی مزاج سے پوری طرح واقف ہیں اور نہ
صرف ان دھنوں کو زبان عطا کرنا جانتے ہیں بلکہ زبان کی دھنوںکا بھی پورے طور پر
ادراک رکھتے ہیں۔
کمال امروہی:
یہ ہندوستانی فلم سینما کی تاریخ میں اپنی تخلیقی صلاحیت کی وجہ سے ہمیشہ یادرکھے
جائیں گے۔ انھوں نے جو مکالمے لکھے اور جن فلموں میں ہدایتکاری کے فرائض انجام دیے۔ان
میں سے بیشتر کامیاب رہیں۔
کمال صاحب
کا کمال یہ تھا کہ وہ ذہنی طور پر اپنا بالکل جداگانہ انداز رکھتے تھے۔جب ہندوستانی
سینما میں تشدد اور عریانیت سے بھرپور فلمیں بنائی جانے کا ایک فیشن چل نکلا تھا
تو انھوں نے ’پاکیزہ‘ جیسی خوبصورت اور پاکیزہ فلم بنائی۔زبان و بیان کے معاملے میں
بھی ابتدا سے ہی کمال صاحب اپنی زبان میں اردو الفاظ کا بھرپور استعمال کیا کرتے
تھے۔ان کی لکھی ہوئی کہانیوں اور مکالموں میں اردو زبان کی چاشنی و شیرینی کو بہت صاف
طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔پھر مغل اعظم کے مکالموں کو کون شخص بھول سکتا ہے۔جن کی
وجہ سے انھیں فلم فیئر ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔اصل میں کمال امروہی صاحب صرف اردو
زبان سے ہی نہیں بلکہ اس کی تہذیب اور تہذیب کے ہر مخفی وظاہر گوشوں سے اچھی طرح
واقف تھے۔اسی لیے انھوں نے فلمی دنیا میں اردو زبان و ادب کی ترویج میں ایک اہم
کردار ادا کیا۔
کمال امروہی
صاحب نے بمبئی جوگیشوری (مشرق) میں کمالستان نام کا ایک اسٹوڈیوبھی تعمیر کروایا
تھا۔اس اسٹوڈیو میںخود ان کی ہدایتکاری میں بننے والی فلم رضیہ سلطان کے علاوہ امر
اکبرانتھونی، کالیہ، کوئلہ اور حال میں بننے والی فلم دبنگ دوئم کی بھی شوٹنگ ہوئی
ہے۔یہ اسٹوڈیو تقریباً پندرہ ایکڑ میں پھیلا ہوا ہے۔
کمال صاحب
کی مقبولیت ان کی زندگی میں تو تھی ہی، فلم انڈسٹری نے ان کے انتقال کے بعد بھی ان
کی شخصیت کے اثر کے حصار سے کبھی خود کو باہر محسوس نہیں کیا ہے۔گزشتہ سالوں میں
ان کی شخصیت اور فلم انڈسٹری میں ان کی جدوجہد اور کردار سے متاثرہوکر ’کھویا کھویاچاند‘
نام کی ایک فلم بھی بنائی گئی تھی جس میں ’شاہنی آہوجہ‘ نے کمال امروہی صاحب کا
کردار ادا کیا تھا۔
اردو زبان اور ادب سے ان کو
گہرا عشق تھا۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ جب وہ اردو رسائل میں سید امیر
حیدر کمال کے نام سے شائع ہوا کرتے تھے تب سے شہرت کی بلندیوں کو سر کرنے کے ساتھ
ساتھ ان کو ممبئی کے فلمی طلسم کدے میں ہمیشہ اسی زبان نے اپنی ایک الگ پہچان بنانے
میں مدد دی۔
Mohammad
Arif
62,
Paick Road, Ajeet Nagat
Pratapgarth
- 230001 (UP)
Mob.:
9015799692
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں