8/2/22

اکیسویں صدی کی شاعرات بنگالہ اور تانیثی ڈسکورس - مضمون نگار: سعدیہ صدف

 



عورت قدرت کا حسین شاہکار ہے ۔ اس کا وجود فطرت کی دلکشی کا مظہر ہے۔ عورت، خاندان میں پائیدار ترقی اور معیار زندگی کی کلید ہے۔ انسان کو خدا نے اشرف المخلوقات بنایا ہے لیکن ماں کا درجہ اس سے بھی زیادہ ہے۔ماں ہونا ایک خدائی اعزاز ہے جو صرف اور صرف عورتوں کو ہی حاصل ہے۔ اسی اہمیت کے پیش نظر اقبال نے کہا تھا       ؎

وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں

گرچہ ایک طویل مدت تک عورت کو اس کے حقوق سے دور رکھا گیا۔اسے آزادیِ اظہار کے لیے ناقابل اعتنا سمجھاگیا۔ فطرت کی اس معاون کے ساتھ کب تک یہ جبر جاری رہتا ؟آخر وہ وقت آیا جب عورتیں جسم سے ہٹ کر بھی دیکھی گئیں۔انھیں بھی شعور سے پیراستہ سمجھاگیا۔ اور انھیں مزید خود مختار بنانے کے لیے زیورِتعلیم سے آراستہ کر کے اپنے فیصلے لینے کے لائق بنانے کا عمل شروع ہوا۔ اس طرح خواتین کے حوصلے بلند ہوتے گئے اوراب وہ سماج میں اپنی شناخت کے ساتھ موجود ہیں۔کیونکہ عورت صرف ثانوی جنس نہیں بلکہ معاشرے کی اکائی کا مساوی حصہ ہے۔ آج women empowerment  بھی معاشرے کا اہم موضوع بحث ہے اور کیوں نہ ہو آخر خواتین اب کسی سے پیچھے نہیں رہیں۔تعلیمی ادارے ہوں‘ کھیل کی دنیا ہو یا دفتری معمولات ‘ ہر جگہ تانیثیت تذکیریت پر حاوی نظر آتی سہے۔ یہاں پدری و مادری نظام سے بحث مقصود نہیں۔یہاں مقصد اکیسویں صدی میں خواتین کی شعوری و فکری ارتقا کی ترجمانی ہے۔

اس تیزرفتار دور میں خواتین بھی وقت کی نباض بن چکی ہیں۔اب وہ نہ صرف خود کفیل ہیں بلکہ سربراہی بھی کررہی ہیں۔ادب کے حوالے سے بھی اپنی شناخت قائم کررہی ہیں اور اپنی تخلیقات کے ذریعے دنیا کو اپنی منفرد فکر سے حیران بھی کررہی ہیں۔ جو اس بات کا اعلانیہ ہے کہ لو اب ہم نے بھی اپنی زباں کھول دی ہے !۔یہ اور بات کہ عورت کی بے باکی اور اس کی smartness   کو معاشرے کے تنگ نظرافرادبے شرمی سے تعبیر کرتے ہیں۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ خواتین کی ترقی سے خوش نہیں۔ مگر اب وفا و اخلاص کی یہ پتلی زمانے سے آنکھیں ملانے کا حوصلہ رکھتی ہے۔ضرورت پڑنے پر یہ چنڈی، کالی اور درگا کا روپ بھی دھارنا جان چکی ہے۔

زندگی کے تمام شعبوں میں عورت اپنے ہنر کے اختصاص کے ساتھ موجود ہے۔ ادب کی دیگر اصناف کی طرح شاعری میں اور بالخصوص غزلیہ شاعری میں خواتین، نسوانی جذبات کی عکاسی خوب خوب کررہی ہیں۔ اردو کی پہلی صاحب دیوان شاعرہ ماہ لقا بائی چندا سے لے کر پروین شاکر تک،شاعرات کی کم سہی لیکن تعداد موجود رہی ہے۔ہر زمانے میں شاعرات نے اپنے عہد کے تقاضوں کے تحت شاعری کی ہے۔ ابتدا میںخواتین کی شاعری میں صرف ہجرو وصال، بے وفائی اور تصوف کے موضوعات ملتے تھے۔تضادات زمانہ سے خواتین بھی متاثر ہوئیں۔ اور انھوں نے ان موضوعات کے ساتھ زندگی کے دیگر مضامین کو بھی اپنی شاعری میںجگہ دی۔یعنی اب شاعرات نے غزلوں میں اپنے جذبات و احساسات کی ترجمانی شروع کردی تھی۔ان روایت شکن شاعرات میں پروین شاکر، کشور ناہید، سارا شگفتہ، ساجدہ زیدی اور فہمیدہ ریاض وغیرہ کے نام سر فہرست ہیں۔

بنگال میں اٹھارہویں صدی سے شاعری کے نقوش ملتے ہیں۔ شعرا کے زیر اثر خواتین نے بھی اپنے جذبوں کی طغیانی کو شعری صورت دینا شروع کیا۔ کہا جا تاہے کہ بنگال کی پہلی شاعرہ شرف النسا ہیں۔ لیکن موجودہ تحقیق کے مطابق بنگال کی اولین صاحب دیوان شاعرہ ہونے کا اعزاز واجد علی شاہ کی زوجہ عالم آرا بیگم کو حاصل ہے۔ یکے بعد دیگرے شاعرات اپنے خیالات کو پیش کرتی رہیں۔ ضابطے کی پیروی کرتے ہوئے یا اس سے انحراف کرتے ہوئے خواتین بر سر اظہار رہیں۔ اکیسویں صدی کی شاعرات قدما  سے مختلف ہیں۔ ان کے یہاں غزل کی کلاسیکیت کے ساتھ عصری شعور کی عکاسی بھی موجود ہے۔ ذیل میں مغربی بنگال کی نمائندہ شاعرات کے فکری سوتے ملاحظہ فرمائیں۔

1       نغمہ نور

مغربی بنگال کی شاعرات میں نغمہ نور اپنی شوخی کے سبب جانی جاتی ہیں۔ نغمہ کی شاعری اپنے آس پاس کے ماحول کا احاطہ کرتی ہے۔ متوسط طبقہ اور اس کے مسائل ان کی شاعری میں موجود ہیں         ؎

ہیں نغمہ اپنی روٹیاں سب سینکنے والے

کہ دل میں جذبۂ خدمات اردو کون رکھتا ہے

نغمہ کے یہاں پراعتمادی کاجذبہ بھی ہے۔ جو ان کے عزائم و بلند حوصلگی کو ظاہر کرتا ہے۔عورت ہونا جن کے نزدیک کمزوری ہے ان کے لیے نغمہ کے یہ اشعار ہی کافی ہیں         ؎

میرے آنسو مجھے کمزور نہیں کرسکتے

ہمت و عزم کی اک آ ہنی دیوار ہوں میں

میرے مضبوط ارادوں کا کرشمہ ہے یہ

اک دیا میں نے ہتھیلی پہ جلا رکھا ہے

اب ان کا یہ شعر دیکھیں جو ترقی پسند مزاج خواتین کے رویے کو ظاہر کرتا ہے۔اکیسویں صدی میں جہاں کئی ملکوں میں عورتوں کی حالت بدلی ہے وہاں اب بھی کئی ایسے ممالک موجود ہیں جہاں عورت آج بھی اپنی شناخت کی تلاش میں سرگرداں ہے۔نغمہ نے اسی موضوع کے تحت اس شعر میں ان خواتین کی حمایت کی ہے۔کہ عورت بھی کھلے آسمانوں کی حقدار ہے        ؎

کھلے موسم میں اڑنے کا مزہ کچھ اور ہوتا ہے

حصارِ قید میں رہ کر تو پر اچھا نہیں لگتا

نسوانیت سے بھر پور یہ شعر ملاحظہ فرمائیں جس میں فطری جذبے کا موثر اظہار ملتا ہے      ؎

خود کو محسوس میں کرتی ہوں مکمل عورت

جب مرا بچہ لپٹ جاتا ہے آنچل کی طرح

2       شگفتہ یاسمین غزل

شگفتہ یاسمین غزل نے اپنے انفرادی رنگ سے شاعری کی دنیا میں جگہ بنائی ہے۔ان کے یہاں ایک عورت کی بلند نظری، رواداری، اعتماد اور زمانے کے تضادات سے آنکھیں ملا نے اور مقابلہ کرنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ ان کا یہ شعر ملاحظہ کریں جو عورت کی خودکفالت پر دال ہے       ؎

کنواں کھود سکتی ہوں اپنے لیے میں

مجھے بادلوں کی ضرورت نہیں ہے

شگفتہ کی شاعری میں جہاں خود کفیل عورت زمانے کے سردو گرم سے نبرد آزما ہوتی نظر آتی ہے وہاں اس کے حوصلے میں تیور بھی شامل ہے۔اب عورت کو مرد کے بغیر بھی جینا آگیا ہے اور وہ اس بات کا اظہار کرنے کا ہنر بھی رکھتی ہے۔ ذیل کے اشعار اس بات کے غماز ہیں          ؎

اب کے روٹھے تو صنم تم کو منائیں گے نہیں

ہم بھی تیار ہیں اب خود کو بدلنے کے لیے

غزل کی شاعری کا وصف ہے سب سے جداگانہ

ادا سے‘فکر سے‘اسلوب سے‘ جدت سے‘ تیورسے

حوصلے کی انتہا تو دیکھیے کہ عورت رواداری کے ساتھ بھی اپنا بھرم قائم رکھنا جانتی ہے        ؎

گھر سے باہر اوڑھ لے تو مسکراہٹ کی ردا

آنسوؤں سے بھیگے تکیے چار دیواری میں رکھ

3       صابرہ حنا

عصر حاضر کی شاعرات میں صابرہ حنا بھی نمائندہ ہیں۔ ان کے یہاں عورت کا عزم،اس کی فکر اور اس کا زاویۂ نظر موجود ہے۔یعنی وہ اوروں کے بنائے اصولوں پہ اکتفا نہیں کرتی بلکہ اس کا اپنا شعور بھی ہے جو اسے غور و خوض کی دعوت دیتا ہے اور اپنی راہ کاتعین بھی کرواتا ہے۔مجاز نے کہا تھا      ؎

ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن

تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا

صابرہ کہتی ہیں         ؎

مرے ہاتھوں میں وہ پرچم تھما کر

مرے ماتھے پہ آنچل ڈھونڈتا ہے

خواتین کی جانب سے آزادیِ اظہار کا بیان اس شعر میں صابرہ صاحبہ کس سلیقے سے کرتی ہیں          ؎

برس پڑے مرے تپتے وجود پر آخر

ہے آرزو کہ وہ چھوٹا سا ابر پارہ ہو

یہ دوشعر ملاحظہ فرمائیں جن میں حوصلے کی اڑان دیدنی ہے       ؎

غم کا طوفان کیا بگاڑے گا

دل میں جب تک ہے حوصلہ باقی

نہ بال و پر میں ہے سستی نہ حوصلے میں کمی

مری حیات مسلسل ابھی اڑان میں ہے

4       سلمیٰ سحر

عصر حاضر کی شاعرات میں سلمیٰ سحر اپنی خوبصورت نسائیت سے بھر پور شاعری کے سبب جانی جاتی ہیں۔ نسائیت سے بھر پور اور بے باک اظہار کا حامل ان کا یہ شعر دیکھیں         ؎

صبا نے‘گل نے‘ کلی نے‘مجھے چھوا لیکن

تمھاری طرح کسی نے نہیں چھوا مجھ کو

عورت کو ہمیشہ جسم کی حد تک دیکھنے والوں کو سلمیٰ نے کیاخوبصورت انداز میں اس شعر کے ذریعے طنز کیا ہے کہ سرسری نگاہ سے نہیں ہمیں توجہ سے پڑھنے کی ضرورت ہے      ؎

نگاہ جس نے بھی ڈالی ہے سرسری ڈالی

کہاں کسی نے توجہ سے ہے پڑھا مجھ کو

5       زرینہ ذریں

زرینہ زریں کا اختصاص یہ ہے کہ ان کے یہاں مابعد جدید رنگ کلاسیکی رنگ سے ہم آمیز نظر آتا ہے۔ ساتھ ہی خیالات کی بلندی،ہمت اور حوصلے کا پیغام دیتی نظر آتی ہے۔ اس حوالے سے مغربی بنگال کے ادبی حلقوں میں آپ کا نام محترم ہے۔ چند اشعار اس ضمن میں ملاحظہ ہوں          ؎

فضا میں تھے ریت کے بگولے

سمجھ رہے تھے کہ آسماں ہے

دوستوں نے مل کے کی تھیں سازشیں

یہ نیا سا تجربہ اچھا لگا

آسماں سے جس گھڑی بجلی گری اچھی لگی

آشیاں میرا ‘جلا ان کی ہنسی اچھی لگی

6       ریحانہ نواب:

ریحانہ نواب ستر کی دہائی سے شاعری کررہی ہیں۔ ان کی شاعری نجی تجربات کا عکس پیش کرتی ہے۔اعلیٰ ظرفی، بلند حوصلگی، ذاتی کرب ان کی شاعری کے خاص موضوعات ہیں۔ان کے یہاں عورت اپنی تمام محرومیوں اور مجبوریوں کے ساتھ موجود نظر آتی ہے        ؎

دامن کی کشیدہ کاری پر دنیا کی نگاہیں ہیں لیکن

یہ کس کو پتہ ہے پھولوں سے دھبوں کو چھپایا جاتا ہے

منزل پہ پہنچنے کی قسم کھائی ہے ہم نے

کچھ غم نہیں رسنے لگے گر پاؤں کے چھالے

نجی تجربا ت کو سلیقے سے اپنی غزلوںمیں سمونے سے شاعرہ خوب خوب واقفیت رکھتی ہیں         ؎

میں جو ٹوٹ کر گری ہوں تو سبب ہے ٹوٹنے کا

نہ لچک ہو جس میں کوئی وہی شاخ ٹوٹتی ہے

ان کی غزلوں کے مطالعے سے یہ بھی آشکارا ہے کہ مجبور و محروم عورت جب اپنی ضد پہ آجائے تو وہ اپنے محبوب سے بدلہ لینے کا حوصلہ بھی رکھتی ہے۔یہ وصف روایت سے بغاوت کی علامت بن جاتا ہے۔ اشعار ملاحظہ ہوں          ؎

غیروں کی طرح اس سے سلوک اب کے کریں گے

اس بار ملے گا تو مروت نہ کریں گے

جو میری پیاس کو سمجھے‘جو میرا ظرف پہچانے

ہے جتنی پیاس مجھ کو اتنا پیاسا کوئی تو ہوگا

7       کوثر پروین کوثر

کوثر صاحبہ کلاسک کی گرویدہ نظر آتی ہیں۔ ان کی فکر کلاسک سے کچھ یوں ہم آہنگ ہوئی ہے کہ ان کے تجربات اسی پیکر میں ڈھل کر صفحۂ قرطاس پر نمو پاتے نظر آتے ہیں۔عشق و محبت، ہجر و وصال، خواہش الفت،جہد و عمل، طنز، تلمیح و تصوف،عقل و دل کی کشمکش اور حالات حاضرہ کا بیان ان کی غزلوں کے خاص موضوعات ہیں جنھیں وہ استعاراتی انداز میں کامیابی کے ساتھ غزلوں میں پیش کردیتی ہیں          ؎

اب ہواؤں کو جھیلیے کوثر

آپ نے شمع کیوں جلائی ہے

نور جیسے دلوں سے غائب ہو

چہرہ چہرہ بجھا سا لگتا ہے

کوثر پروین روایت کی امین ہیں۔خالص کلاسیکی انداز کے چند اشعار دیکھیں جس سے اس بات کی تصدیق ہوجاتی ہے     ؎

کوثر یہی تو زندہ کرامت ہے شیخ کی

پی عمر بھر شراب مگر پارسا رہا

اجنبی ہے نہ آشنا کوئی

دور تک بے کسی کے سائے ہیں

پی کے کوثربھی جام ِبے خودی

آج پیرِ مغاں ہوگئی

8       شہناز نبی

شہناز نبی، مغربی بنگال میں اردو غزل کو متنوع موضوعات سے رنگا رنگ کرنے والی شاعرہ ہیں۔ کون سا موضوع ہے جو ان کے قلم سے بچ سکا ہے۔کلاسیکی رنگ ہو کہ جدید موضوعات کا بیان، ذاتی انتشار ہو یا محرومی کا بیان،ان کے یہاں سب موجود ہے۔عشق کے معاملات میں ان کے یہاں عام شاعرات سی کیفیت نہیں ملتی۔آپ بچھڑنے کے بعد بھلانا بھی جانتی ہیں اور آگے بڑھنا بھی۔ یعنی ان کے یہاںمحبوب کا شکوہ مفقود ہے۔شکوہ کسی صورت میں ہے بھی تو خدا سے ہے۔ اس سلسلے میں یہ شعر ملاحظہ کریں          ؎

قسام ازل نے بڑی خست ہے دکھائی

جنت رکھی قدموں میں جہنم سے گزارا

شاعرہ نے تانیثیت کے تمام پہلووں کو اپنی شاعری میں سمو دیا ہے۔ ان کی شاعری میں عورت کا باغی روپ بھی نظر آتاہے اور بغیر مردکے سہارے کے اپنے فیصلے لینے کا حوصلہ بھی ملتا ہے۔ان کے یہاں عورت نہ صرف خود مختار و خود کفیل ہے بلکہ اپنی سمت بھی متعین کرنا جانتی ہے          ؎

مٹاتی اور لکھتی ہوں نوشتہ اپنی قسمت کا

کسی تقدیر کی تقدیر ہونے سے ہراساں ہوں

اک آبجو کہ جو تھی اسیرِ محیط وہ

بہنے لگی ہے اپنی طرح سے طلاق میں

جذبات کے اظہار میں مرد اور عورت کے درمیان کشمکش اب ختم ہوچکی ہے۔ پہلے کبھی خواتین اپنے جذبات کو بے باکی سے بیان کرنے سے قاصر ہوا کرتی تھیں۔ لیکن تانیثیت کی لہر نے خواتین کے اندر پوشیدہ عناصر کو کچھ اس طرح مہمیز کیا کہ وہ نہ صرف روشن ہوئیں بلکہ معاملات اظہار میں مردوں پہ سبقت بھی لے گئیں          ؎

ہم نے بھی تو لفظوں میں نئے رنگ بھرے ہیں

اک تم ہی رہو در پئے اظہار بہت خوب

گلوبل ولیج میں سانس لیتے انسان کی زندگی مشینوں کی مرہون منت بن چکی ہے۔ ایسے میں صنعت کاری کی تیز رفتاری نے نہ صرف فطرت کی خوبصورتی کو متاثر کیا ہے بلکہ انسانی صحت پر بھی مضر اثرات مرتب کیے ہیں۔ شاعرہ کی حساس فکر اس کی ترجمانی یوں کرتی ہے         ؎

چاروں طرف دھوئیں کی بڑھتی ہوئی لکیریں

یہ شہر ہے کہ جیسے شمشان ہورہا ہے

شہناز نبی عصری میلانات سے ہم آہنگ ہیں۔وہ عورتوں کے ساتھ روا مظالم کے خلاف احتجاجی صدا بلند کرتی ہیں۔انھیں عورت کی ہنر مندی کا احساس ہے جو کہیں نہ کہیں چولہے چوکے کی نذر ہوجایا کرتی ہے۔ ایسی عورتوں کی آواز ان کی آواز میں سنائی دیتی ہے جو کچھ کر گزرنے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔ جو روایت سے بغاوت کرنا جانتی ہیں۔ درج ذیل اشعار اسی تیور کے حامل ہیں           ؎

چوکا‘ چکی‘ نل اور کل

کب تک برتن باسن میں

مجھے اپنا چہرہ ابھی یاد ہے

ہٹو‘ آئینہ مت دکھاؤ مجھے

ان مثالوں سے صاف ظاہر ہے کہ اکیسویں صدی کی شاعرات ِ بنگالہ کا تانیثی ڈسکورس کس قدر واضح اور بیباک ہے۔یہ خواتین نہ تو زمانے سے ڈرتی ہیں نہ ہی اس کے ضابطے کی اندھی تقلید کرنا چاہتی ہیں۔ بلکہ وہ اپنی الگ راہ اختیار کرچکی ہیں اور اسی ڈگر پر اپنے آپ کو پانے کی آرزو مند ہیں یا یوں کہیے کہ خود کوپا چکی ہیں۔موجودہ معاشرے کی خاتون تخلیق کاروں کی self discovery  کے تناظر میں شہناز نبی صاحبہ اپنی کتاب ’تانیثی تنقید‘ میں لکھتی ہیں:

’’خواتین کی تخلیقی حسیت کا جائزہ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ عورتیں بہ حیثیت قلم کار خود کو دریافت کرچکی ہیں۔‘‘

(تانیثی تنقید: شہناز نبی،  ص64، کلکتہ یونیورسٹی، کولکاتا، 2009)

مختصر یہ کہ اکیسویں صدی کے تیور سے ہماری شاعرات ہم آہنگ ہیں۔ مزاج کے اختلاف کے باوجود ان کے یہاں،عصری مسائل کی عکاسی، تشکیک،تشخص کا بحران، جیسے مسائل موجود ہیں۔تانیثیت کے مسائل و مباحث بھی ان کے زیر نظر رہے ہیں۔ یہ اور بات کہ شعوری یا غیر شعوری طور پر اس کااظہار کیا جاتا رہا ہے۔ عصر حاضر میں عورت کی زندگی، اس کے مسائل، اس کی خواہشات کی تکمیل اور عدم تکمیلیت کسی نہ کسی صورت میں ان شاعرات کے یہاں مل جاتی ہیں۔ گرچہ کسی کے یہاں عصری شعور کی بہتات ہے تو کسی کے یہاں ذاتیات کا بیان زیادہ ہے۔ کوئی کلاسیکیت سے ہم آہنگ ہے تو کسی کے حوصلے کی بلندی اپنی طرف مائل کر لیتی ہے۔ بعض خواتین نے ان تمام موضوعات کو احاطۂ تحریر میں لے لیا ہے جن پر صرف مرد کی نظر ہی جا سکتی تھی۔  شاعرات اپنی اپنی سطح پر کوششیں کررہی ہیں۔ کچھ کے یہاں روایت کی توسیع ہے تو کچھ شاعرات کے یہاں امکانات روشن ہیں۔


 

Sadia Sadaf

Research Scholar, Dept of Urdu

Aliah University

Kolkata- 700156 (West Bengal)




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں