8/2/22

جارج برنارڈ شا کا شاہکار ڈرامہ’آرمس اینڈ دی مین‘ - مضمون نگار : محبوب حسن

 



نوبل انعام یافتہ جارج برنارڈ شا عالمی ادبیات کا نہایت محترم نام ہے۔ ولیم شیکسپیئر کے بعد انگریزی ڈرامے کی روایت کو پروان چڑھانے والے قلم کاروںمیںجارج برنارڈ شا کوخاص اہمیت حاصل ہے۔ ان کی پیدائش /26جولائی 1856میں ڈبلن، آئرلینڈ میںہوئی۔ان کے والد شراب کی لت میں بری طرح مبتلا تھے۔ان کی والدہ نہایت مہذب اور ذمے دار عورت تھیں جنھوں نے برنارڈ شا کو اپنے شوہر سے دور رکھا تاکہ بیٹے پر شرا ب نوشی کا برااثر نہ پڑے۔ جارج برنارڈشا کی والدہ نے ان کی تعلیم و تربیت اور ذہنی پرورش پرخصوصی توجہ صرف کی۔وہ بچپن سے ہی نہایت ذہین تھے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم مس کیرولین نامی استانی سے حاصل کی۔اپنے والد کی غیر ذمے دارانہ حرکتوں کے سبب انھیں مالی دشواریوں کا سامنابھی کرنا پڑا۔ان ناموافق حالات کی وجہ سے ان کی ابتدائی زندگی مشکلات سے دو چار رہی۔ /2نومبر 1950 کو یہ ادیب اس جہان فانی سے ہمیشہ کے لیے کوچ کر گیا۔

جارج برنارڈ شا کوزندگی کے ابتدائی دور سے ہی علمی، ادبی اور تہذیبی اقداروروایات سے خاص دلچسپی تھی۔اپنی اس ادبی تشنگی کی تسکین کے لیے انھیں لندن آنا پڑا،جہاں ان کا ادبی ذوق رفتہ رفتہ نکھرتا گیا۔ لندن جیسے ادبی مرکز میں بطور ادیب اور ڈرامہ نگار اپنی شناخت قائم کرنے میںانھیں شدید جدوجہد سے گزرنا پڑا۔انھوں نے ادب کو پیشے کے طور پر اختیار کیا تھا۔ادب سے اپنی اس خاص دلچسپی کا سبب بیان کرتے ہوئے موصوف نے لکھا ہے کہ ’’روزی روٹی کے لیے ادب کو اختیار کرنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قارئین ادیب کو دیکھتے نہیں بلکہ اس کی تحریریں پڑھتے ہیں۔اس لیے اچھی پوشاک کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ڈاکٹر،تاجر، وکیل اور فن کار بننے کے لیے اچھے اورصاف ستھرے کپڑے پہننے پڑتے ہیں۔ادب ہی ایک ایسا مہذب پیشہ ہے، جس کی اپنی کوئی مخصوص پوشاک نہیں۔اس لیے میںنے اس پیشے کا انتخاب کیا۔‘‘ جارج برنارڈ شا کی مذکورہ باتوںسے ان کے ادبی مزاج اور فکری میلان کابخوبی اندازہ ہوتاہے۔

جارج برنارڈ شاکو بچپن سے کتب بینی کا شوق تھا۔انھوںنے ابتدائی عمر میں ہی عالمی ادبیات کابغور مطالعہ کر لیا تھا۔جارج برنارڈ شا کی شخصیت بے حد پہلوداراور ہمہ جہت تھی۔انہوں نے ڈرامہ،ناول،تنقید اور سیاست کے میدان میں اپنے گہرے نقوش ثبت کیے ہیں۔اپنی ادبی زندگی کے آغاز میں انھوں نے "Immaturity""Irrational Knot""Love Among the Artist""An Unsocial Socialist"جیسے ناول تخلیق کیے لیکن انھیں خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی۔یہ نکتہ قابل غور ہے کہ جی بی شاکا پہلا ناول ان کی زندگی میں شائع نہ ہو سکا۔ابتدا میں ہی انھیں اس بات کا احساس ہو گیاتھا کہ ناول نگاری کی دنیا میں ان کا چراغ روشن نہ ہو سکے گا۔اس لیے وہ جلد ہی ڈرامہ نگاری کی جانب راغب ہو گئے۔برناڈ شا کی ڈرامہ نگاری کا آغاز انیسویں صدی کے نصف آخرسے ہوا۔ ا ن کا پہلا ڈرامہ "Widower's Houses" 1882میں منظر عام پر آیا۔اس ڈرامے کو اسٹیج پر پیش بھی کیا گیا۔جارج برنارڈ شا کا یہ پہلا ڈرامہ در اصل ان کی تخلیقی زندگی کا ایک ایساموڑ ہے، جہاں سے شہرت اور کامیابی کی راہیں ہموار ہوتی ہیں۔ان کے دوسرے اہم ڈراموں میں "Arms and the Man""Candida""Man and Superman""The Philanderer""Man and Dstiny""Mrs. Warren's Proffession""The Apple Cart""The Dostor's Dillema""Heartbreak House""The Devil's Disciple""Saint Joan" وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ان میں بیشتر ڈرامے لندن،امریکہ،جرمنی،روس اور آسٹریا جیسے ممالک میں اسٹیج کیے گئے۔ ان کی بے پناہ تخلیقی عظمت کے پیش نظر سویڈیش اکادمی نے انھیں ادب کے نوبل انعام سے نوازا۔انعام کے پیسوں سے انہوں نے "Anglo Swedish Literary Foundation" جیسا اہم ادبی ادارہ قائم کیا۔

ڈرامہ "Arms and the Man"جارج برنارڈ شا کی شاہکار تخلیق ہے۔ ’’آرمس اینڈ دی مین‘‘ 1894 میں منظر عام پر آیا جو تین ابواب پر مشتمل رومانی اور طربیہ قسم کی تخلیق ہے،جسے "Anti War Play" یا "Problem Play"بھی کہا جا تاہے۔ "Problem Play"ڈرامے کی ایک ایسی قسم ہے،جس میں متعلقہ عہد کے سنجیدہ سماجی،سیاسی،اقتصادی اور تہذیبی مسائل کو حقیقت پسندانہ انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔اس نوع کے ڈراموں کا آغاز انیسویں صدی میں انگلینڈ میں ہو ا۔ جارج برنارڈشا کے بیشتر ڈراموں میں یہ خوبیاں نظر آتی ہیں۔انھوں نے  خیالی اور تصوراتی دنیا سے قطع نظر اپنے دور کے سلگتے ہوئے حالات و مسائل کو کلیدی اہمیت دی۔ یہی وجہ ہے کہ جارج برنارڈ شا ایک حقیقت پسند قلم کار کے طور پرہمارے سامنے آتے ہیں۔ جارج برنارڈشا نہایت پرآشوب دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس عہد میں عالمی سطح پر کئی جنگیں ہوئیں۔سماجی،سیاسی،مذہبی اور اقتصادی اعتبار سے دنیا ایک نئی کروٹ لے رہی تھی۔ جارج برنارڈ شا نے ایسی غیرمعمولی تبدیلیاں اپنی آنکھوں سے دیکھی تھیں۔جنگ و جدال،قتل و خون،ظلم و استحصال اورسسکتی ہوئی انسانی قدروں نے انھیں شدید طور پر متاثر کیا۔ انھوں نے اپنے بیشتر ڈراموں میں جنگوں کا مذاق اڑایاہے۔ان کی تخلیقات میں غیر انسانی حرکتوں کے خلاف محبت اور امن و آشتی کا پیغام موجود ہے۔ انھوں نے اپنے کردارو ں کے توسط سے طبقاتی کشمکش کو بھی طنز کا نشانہ بنایا ہے۔ان کا شاہکار ڈرامہ "Arms and the Man" اس کی عمدہ مثال ہے۔جارج برنارڈ شا نے اپنے اس ڈرامے میں بلغاریہ اور آسٹریاکے درمیان ہونے والی عالمی جنگ کو پس منظر کے طور پر استعمال کیا ہے۔ ڈرامے کا عنوان بھی اس جانب اشارہ کرتا ہے۔

جارج برنارڈ شا انگریزی زبان و ادب کی دنیا میں ایک روایت شکن تخلیق کار کی حیثیت سے مشہور ومعروف ہیں۔ جدت پسندتخلیقی مزاج کے مالک جارج برنارڈ شا نے اپنے تخلیقی امتیازات سے انگریزی ڈرامے کی روایت کو فکروفن کی نئی بلندیوں سے ہم کنار کیا۔ موصوف نے اپنے پیش رو ڈرامہ نگاروںکی تخلیقی روایات کو یکسرنظر انداز نہیں کیا بلکہ اسے نت نئی جہتوں سے آشنا کیا۔طربیہ ڈرامہ "Arms and the Man" ان کی جدت پسندی کی عمدہ مثال ہے۔تین حصوں پر مشتمل ڈرامہ ’’آرمس اینڈ دی مین‘‘اپنی موضوعاتی وابستگی اور تکنیکی انفرادیت کے سبب قارئین /ناقدین کی توجہ کا مرکز بنا۔مغربی نقادوں اوردانشوروں کے درمیان ان کی اس تخلیقی کاوش کو خاطر خواہ پذیرائی حاصل ہوئی۔ یہ ڈرامہ پلاٹ،کردارنگاری، مکالمہ نگاری، زبان و بیان اور اسلوب کے اعتبار سے خوبصورت فن پارے کی حیثیت رکھتا ہے۔جارج برنارڈ شا نے پلاٹ میں تجسس اور دلچسپی کے عناصر پیدا کرنے کی غرض سے کشمکش/ تصادم سے کام لیا ہے۔ مکالمہ نگاری کے عمدہ نمونے موجود ہیں۔ حسب ضرورت طنزومزاح کے رنگ بھی ہیں۔ اس ڈرامے کے اہم کرداروں میں بلنٹشلی، رینا، سرجیس، میجر میٹکاف، کیتھرین اورلوکا، پلاٹ کی ترنگوں پر ہچکولے کھاتے نظر آتے ہیں۔بلنٹشلی اور رینا ڈرامے کے مرکزی کردار ہیں۔میجر میٹکاف ہیروئن رینا کے والد اورکیتھرین ماں ہیں۔لوکا رینا کے گھر میں نوکرانی  ہے۔

ڈرامے کا آغاز ہیروئن رینا کی خواب گاہ سے ہوتا ہے۔ہیروئن رینا اپنی بالکونی پرتنہا بیٹھے بیٹھے رات کی رومانی فضامیں کھوئی ہوئی ہے۔ڈرامے کی ہیروئن رینا کی ماں کیتھرین تیز تیز قدموں سے چل کراس کی خوا ب گاہ میں داخل ہوتی ہیں۔وہ اسے خوش خبری سناتے ہوئے بتاتی ہیں کہ اس کے منگیتر سرجیس نے اپنے دشمنوں پر فتح حاصل کر لی ہے۔ اس خبر سے ماں بیٹی بے حد جذباتی ہو جاتی ہیں۔تبھی اچانک گلیوں میں گولیوں کی آوازیں سنائی پڑتی ہیں۔رینااور نوکرانی لوکاتیزی سے کھڑکیاں بند کرتی ہیں۔ رینا بلب بجھا کر اپنے بستر پر لیٹ جاتی ہے۔اسی درمیان بلنٹشلی نامی سربیا کا ایک فوجی افسرہاتھ میں پستول لیے اس کی خواب گاہ میں چپکے سے داخل ہوتا ہے۔اسے دیکھ کر رینا گھبرا جاتی ہے لیکن بلنٹشلی کی منت سماجت پروہ اسے پردے کے پیچھے چھپا دیتی ہے۔ بلنٹشلی کی تلاش میں روسی فوج کاایک افسر رینا کے کمرے میں داخل ہوتا ہے اورخالی ہاتھ واپس لوٹ جاتا ہے۔نوکرانی لوکا یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتی ہے۔ تھوڑی دیر بعد بلنٹشلی پردے سے باہر آتا ہے اور رینا سے اپنی حقیقت ظاہر کرتا ہے۔ بلنٹشلی رینا سے بتاتا ہے کہ میںآسٹریا اور سربیا کا نہیں بلکہ سوئٹزرلینڈ کا پیشہ ور فوجی ہوں۔میرے پستول میں گولیاں نہیں تھیں۔وہ کہتا ہے کہ’’ جنگ میں گولیاں بے کار ہوتی ہیں۔ میںہمیشہ کارتوس کی جگہ چاکلیٹ رکھتا ہوں۔‘‘رینا اس کی باتو ںمیں دلچسپی لیتی ہے اور اسے چاکلیٹ کا ڈباتھما دیتی ہے۔ بلنٹشلی چاکلیٹ کھاکر اسے ڈبا لوٹا دیتا ہے۔رینا اوربلنٹشلی کے درمیان فوج اور جنگ کے متعلق باتیں ہوتی ہیں۔رینا بلنٹشلی سے کہتی ہے کہ ہمارے فوجی ایسے بالکل نہیں ہیں۔ بلنٹشلی اس کے فوجیوں کا مذاق اڑاتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ بیوقوف اور ناتجربہ کار ہیں۔ دوران گفتگو رینااسے اپنے منگیتر سرجیس کی تصویردکھاتی ہے۔تصویر دیکھتے ہی بلنٹشلی اسے پہچان لیتا ہے۔ بلنٹشلی سرجیس پر طنز کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس نے دھوکے سے فتح حاصل کی ہے۔رینا کو اپنے منگیتر سرجیس کی تذلیل بالکل پسند نہیں۔ رینا اس سے بے حد محبت کرتی ہے۔اس لیے وہ بلنٹشلی کی باتوںسے ناراض ہو تی ہے۔لیکن وہ بلنٹشلی کی میزبانی اور خاطر تواضع میں کوئی کمی نہیں کرتی۔رینا بلنٹشلی کو Chocolate Cream Soldier" " کہہ کر پکارتی ہے۔

ڈرامے کے دوسرے باب کا آغاز میجر میٹکاف کے باغ میں ہوتا ہے۔ میجر میٹکاف ڈرامے کی ہیروئن رینا کے والد ہیں۔وہ جنگ سے واپس ہوتے ہیں۔میجر میٹکاف اپنی بیوی کیتھرین سے جنگ کے متعلق گفتگو کرتے ہیں۔صلح کی بات سن کرکیتھرین کوذرا بھی خوشی نہیں ہوتی۔ان کی خواہش تھی کہ جنگ کے ذریعے سربیا پر اختیار حاصل کیا جائے۔ٹھیک اسی درمیان سرجیس کی آمد ہوتی ہے۔کیتھرین محبت آمیز انداز میں اس کا استقبال کرتی ہیں۔ انھیں اپنے ہونے والے داماد سرجیس پر ناز ہوتا ہے۔ سرجیس اداس اداس نظرآتا ہے۔کیتھرین اداسی کی وجہ پوچھتی ہیں تو وہ بتاتاہے کہ غلط طریقے سے جنگ جیتنے کی وجہ سے اس کا پرموشن نہ ہو سکا۔اس لیے اس نے استعفا دے دیاہے۔بلنٹشلی کا جنگ سے بھاگ نکلنے کے متعلق بھی باتیں ہوتی ہیں۔اسی درمیان ہیروئن رینا اور سرجیس ایک دوسرے سے تنہائی میںملتے ہیں۔دونوں میںپیار محبت بھری باتیں ہوتی ہیں۔ڈرامے میں جگہ جگہ داخلی کشمکش/ تصادم بھی نظر آتا ہے۔ نوکرانی لوکا سرجیس اوررینا کے درمیان دراڑیں ڈالنے کی کوشش کرتی ہے اور کامیاب بھی ہو تی ہے۔لوکا سرجیس سے بلنٹشلی اور رینا کی ملاقات کا ذکر کرتی ہے۔وہ سرجیس سے کہتی ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ سرجیس نوکرانی لوکا کی باتوں پر اعتبارکرلیتا ہے۔وہ اب لوکا میں دلچسپی لیتا ہے۔ ان چاروں کرداروںکے درمیان غضب کی رقابتیں چلتی ہیں۔

جارج برنارڈ شا نے واقعات و کردار کی تشکیل میں فنی مہارت کا ثبوت پیش کیا ہے۔ ڈرامے کے کرداروں کی آپسی کشمکش اوررقابت سے پلاٹ میں تجسس کی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔جارج برنارڈ شانے کرداروں کے حرکت وعمل سے جگہ جگہ طنزیہ ومزاحیہ فضا تخلیق کی ہے۔ان کے بیشترکردار وںکے قول وعمل میں تضاد نظر آتا ہے۔ ہیروئن رینا اپنے منگیتر سرجیس کو چھوڑ کربلنٹشلی سے شادی کر لیتی ہے جبکہ سرجیس کی زندگی کی ڈور نوکرانی لوکا سے جڑ جاتی ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو اس ڈرامے کا بنیادی موضوع عشق،محبت اور جنگ ہے۔جارج برنارڈ شا نے پلاٹ اور کرداروںکا تانا بانا عشق اور جنگ کے توسط سے ہی بنا ہے۔ڈرامہ نگار نے اس ڈرامے کے ذریعے محبت اور جنگ کو فلسفیانہ انداز میں پیش کیا ہے۔ظاہر ہے کہ ان کا تعلق نہایت پرآشوب دور سے رہا ہے۔ انہوں عالمی جنگوں کے الم ناک نتائج کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ اس لیے انھوں نے اپنی بیشتر تخلیقات میں جنگوں کا مذاق اڑایا ہے۔ان کا خیال ہے کہ گولیاں انسانی دکھ درد کا پیش خیمہ ہوتی ہیں۔ انسانی خوشیوں اور امیدوں سے ان کا کوئی واسطہ نہیں۔ جارج برنارڈ شا محبت کے ترانوں میں زندگی کی خوشحالی اور کامیابی تلاش کرتے ہیں۔انھیں عشق کا افلاطونی نظریہ اور شدید جذباتیت پسند نہیں۔بلکہ ان کے یہاں ایک نوع کی متانت اور سنجیدگی نظر آتی ہے۔ اس لیے ان کے کردار جنگ سے گھبراتے ہیں اور محبت کی گھنی چھاؤں میں پناہ لیتے ہیں۔ڈرامے کا ہیرو بلنٹشلی اس کی عمدہ مثال ہے۔ جارج برنارڈ شا ایک حقیقت نگار ادیب ہیں۔ وہ زندگی کی سچائیوں سے آنکھ نہیں چراتے۔ انھوں نے انسانی سماج کو طبقاتی کشمکش کے برعکس مثبت اور صالح قدروں کا پیغام دیا ہے۔لوکا نوکرانی ہے جبکہ سرجیس کا تعلق سماج کے اعلی طبقے سے ہے لیکن دونوں رشتہ ازدواج میں بندھ جاتے ہیں۔

روایت شکن مغربی قلم کار جارج برناڈ شا نے انگریزی ڈرامے کی دنیا کوفکروفن کی نئی راہوں پر گامزن کیا۔ جارج برنارڈ شاکے ڈراموں میںان کی تخلیقی جدت پسندی اورفکری انفرادیت آشکارا ہے۔ "Arms and the Man" انگریزی زبان وا دب کا ایک لافانی فن پارہ ہے۔معروف مغربی نقاد George Orwell  نے ’آرمس اینڈ دی مین‘ کو جارج برناڈ شا کے فن کی معراج قرار دیتے ہوئے لکھا ہے"Arms and the man was written when Shaw was at the height of his powers as a dramatist."  یہ ڈرامہ ہمیںانسانی زندگی کے فلسفیانہ شعور اور نفسیاتی آگہی سے آشنا کرتا ہے۔ اس ڈرامے سے جارج برناڈ شا کی تخلیقی تہہ داری، فکری ہمہ جہتی اورفنی باریک بینی کا بخوبی احساس ہوتا ہے۔


 

Dr Mahboob Hasan

Asst. Professor, Department of Urdu

Deen Dayal Upadhyay Gorakhpur

University, Gorakhpur- 273009 (UP)

Mob.: 8527818385

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں