10/2/22

غزل کائنات کا آئینہ گر: شائق مظفرپوری - مضمون نگار : اختر آزاد

 



 نیا سورج کا تحفہ دے رہا ہوں

زمانہ خواب سے بیدار بھی ہے

شائق مظفر پوری نے 1983 میں اپنے پہلے شعری مجموعے ’نیا سورج ‘ کے انتساب میں ’بیدار آنکھوں کے نام‘یہ شعر لکھ کر نہ صرف اپنے ہونے کا احساس کرایابلکہ ادبی پارکھوں کے روبرو یہ اعلان بھی کیاکہ میں اردو شاعری کے آسمان میں قوس و قزح رنگوں کے حسین امتزاج سے ایک نیا سورج طلوع کر رہا ہوں۔ یہ میری طرف سے نئے زمانے کے لیے تحفہ ہے۔ جو خواب غفلت میں ہیںوہ بیدار ہو جائیں۔اپنے شعور کی کھڑکیاں کھول لیں تاکہ میرے اشعار کی کرنوں سے اندرون منور ہو سکے         ؎

کاسۂ ظلمت میں دے گا کون پھر کرنوں کی بھیک

وقت سے پہلے اگر سورج کو ڈھل جانا پڑا

ان کا نام سیّد معین احمد تھا۔تعلیم میڑک تک حاصل کی۔ٹسکو کمپنی ( جمشید پور )جوائن کیا اور ریٹائرڈ بھی یہیں سے ہوئے۔ 1958 سے شاعری کا آغاز کیا۔ سروش مچھلی شہری کی شاگرد ی اختیار کی۔آج شائق مظفر پوری اردو شاعری کا وہ معتبر نام ہے جن کی شناخت بحیثیت استاد شاعر کی ہے۔ انھوںنے اپنی شاعری سے غزل کائنات کے بال و پر ہی نہیں سنوارے،بلکہ پچاسوں شاگردوں کو بھی اس لائق بنایا کہ وہ ان کی زلفیں سنوار سکیں۔ آج اس میں کوئی شک نہیں کہ شہر سنگ و آہن جمشید پور اور جمشید پورسے باہر بھی کچھ ایسے شعرا ہیں جو شائق مظفر پوری کی غیر موجودگی میں اپنے ہونے کا احساس کرا رہے ہیں۔یا یوں کہا جائے کہ شائق مظفر پوری کی شعری روح،شاگردوں کی روشنائی میں تحلیل ہو کر ہمیشہ ان کی تحریروں میںزندہ رہے گی کیونکہ سوچ کبھی نہیں مرتی۔ خیالات منتقل ہوتے رہتے ہیں۔اس لیے شائق بھی صدیوں باقی رہیں گے۔

شائق مظفر پوری کی پوری شاعری ایک ایسا نگار خانہ ہے جس کی دیواریں شیشے کی لیکن فرش چاک کی ہے۔ اس چاک پرشاعری کی گوندھی مٹی رکھی ہوئی ہے جسے شائق وقت کے ہاتھوں گھماکر غزل پیکر میںڈھالا کرتے تھے۔وہ خوبصورت شعر دیکھیے جس میں انھوں نے کائنات کا فلسفہ خالق اور مخلوق کے حوالے سے نئے تناظر میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ ہم جو کچھ بھی ہیںوہ کسی کی مرہون مّنت ہے۔کل کیا ہو جاؤں گا یہ بھی نہیں جانتا۔ پیدائش سے موت تک انسان کو زندگی کے کتنے اسرارورموز سے گزرنا پڑتا ہے اسے جس طرح شائق نے دو چھوٹے چھوٹے مصرعوں میںپرویا ہے وہ لائق ستائش ہے۔ شعر دیکھیے      ؎

میںپھر ایک چاک پر رکھا گیا ہوں

نہ جانے کیا بنایا جا رہا ہوں

مجھے لگتا ہے کہ یہ وہ شعر ہے جسے کسی بھی بڑے شاعرکے اہم شعر کے مد مقابل رکھا جا سکتا ہے۔شائق مظفر پوری کی شعری کائنات چار شعری مجموعوں پر مشتمل ہے۔ ’نیا سورج‘ (1983)’سفر لہجے کا ‘(2003) آئینہ احساس کا (2007) اور’نقطہ اور زاویہ‘(2016)۔آخری مجموعہ ان کی وفات کے بعدشائع ہوا۔ان مجموعوں کے مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوںکہ شائق مظفر پوری کوئی عام شاعر نہیں تھے۔پچاسوں شاگرد یوں ہی نہیں ہوئے۔ بحیثیت انسان وہ سراپا سادگی کا پیکر تھے۔خلوص و محبت کا ایسا پیکر جو ایک بار ان سے مل لیتا، اسی سانچے میں ڈھل کر ہمیشہ کے لیے ان کی اپنائیت کا اسیر ہو جاتا تھا۔ کم گو لیکن بلا کے ذہین۔ سبھوں کو ساتھ لے کر چلنے والے۔ جب تک زندہ رہے’ حلقہ شائق‘ کے لیے ’سائبان‘ بنے رہے       ؎

چاہیے منزل تو شائق دھوپ کی چادر سنبھال

     وقت کا اصرار ہے اب سائباں سر پر نہ رکھ

وہ جانتے تھے کہ جو لوگ دورانِ سفر دھوپ سے بچ کر چھاؤں کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں، منزل ان سے دور ہوتی چلی جاتی ہے اور ایسے لوگ جو اپنی منزل نہیں پا سکتے وہ اوروں کے لیے منزل نہیں بن سکتے۔ لیکن جن کے اندر دوسروں کے لیے کچھ کر گزرنے کا جنون ہے انھیں آگ اگلتی سڑک پر چلنے اور گہرے ساگر میں اترنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔لیکن اس لیے شرط ہے کہ اسے چلنا اور ساگر کی گہرائی ناپنے کا تجربہ ہونا چاہیے۔

 آگ اگلتی راہ پر چلنا کچھ اتنا آسان نہیں ہے

ہم سے پوچھوکیا ملتا ہے اوروں کا دکھ اپنانے میں

جس ساگرمیں سیپی چنتے عمر ہماری گزری ہے

وہ ساگر کتنا گہرا ہے ہم کو ہے معلوم میاں

آنکھوں کے سمندر کی تہہ میں ہر خواب سہانا لگتا ہے

تعبیر کے موتی چننے میں اے دوست زمانہ لگتا ہے

نئی امید لے کرجنوری آتی تو ہے لیکن

گزرتے سال میں ہم تا دسمبر ٹوٹ جاتے ہیں

نقطہ ہی میں سہی تو کوئی زاویہ بنا

تیرے لیے ہے کام یہ دشوار تو نہیں

غزل کائنات کی سڑک پر انھیںہر لمحہ اس بات کا احساس تھاکہ وہ ’نقط ‘سے’ دائرہ ‘کی طرف سفر کر رہے ہیں۔ ذات سے کائنات میں تبدیل ہو رہے ہیں۔اور یہ تبدیلی تب واقع ہوتی ہے جب انسان کی زندگی ’آئینہ‘ ہو جائے۔ جس میں وہ خود کو دیکھ سکیں۔ اندر بھی اور باہر بھی۔لیکن یہ مشکل اَمرَہے۔اس کے باوجودشائق مظفر پوری نے اپنی سہل پسندی سے اسے آسان بنا دیا ہے۔لفظوں کوبرتنے کا ہنر بھی انھیں خوب آتا ہے۔وقت، روشنی، عشق، زندگی، پرندہ، دنیا، زمین، آسمان، سمندر، صحرا، جنگل، سورج، آگ،  قطرہ، آنکھ، پتھر، شیشہ اور آئینہ بار بار اشعار میں استعمال ہوئے ہیں۔ جن سے انہوں نے اپنی شاعری میں مفاہیم کی ایک نئی دنیا آباد کی ہے۔جذبۂ حب الوطنی، قوم پرستی، عشق ِ دنیا داری،حوصلہ مندی، کچھ کر گزرنے کی تمنّا،حقوق کی خاطرمر مٹنے کی آرزوجہاں اشعار میں جا بہ جا دکھائی دیتے ہیں وہیں انسان کو اس کے حرکات وسکنات دیکھ کر پہچاننے کا ہنر بھی شائق مظفر پوری کے یہاں بدرجہ اتم موجود تھا۔شعر دیکھیے اور ساتھ ہی تخیّل کی اڑان بھی۔بالکل عام فہم زبان میں کتنی بڑی بات کہہ دی ہے۔آپ سنیں گے عش عش کرنے پر مجبور ہو جائیں گے      ؎

پرند وقت سے پہلے اڑان چاہتا ہے

زمیں کا اہل نہیں آسمان چاہتا ہے

میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ سارے مضامین ان کے یہاں بالکل نئے نہیں ہیں۔ لیکن جس طرح سے انہوں نے اپنے اشعار میں پرانے مضامین کو برتا ہے اس سے نیا پن ضرور پیدا ہوا ہے۔ اور یہی ایک فنکار کی سب سے بڑی خوبی ہوتی ہے۔کچھ ویسے ہی مضامین جو انہوں نے اپنے اشعار میں باندھے ہیں ان پر بھی ایک نظر ۔۔۔۔۔  جیسے شکستہ پا ہونے کے باوجود زمانے کا اس کی چال پر رشک کرنا۔خود کو بھولنے کے لیے بھی کسی بہانے کی تلاش کرنا، بے معنی ہونے کے باوجود کسی کتاب میں لفظ بن کر محفوظ ہونے کی خواہش کا پیدا ہونا،خون سے تاریخ کا لکھا جانا اور اخبار میں اپنی ہی موت کی خبر شائع ہونے پراخبار کا ممنون ہونا وغیرہ میں انہوں نے نہایت ہی فنّی مہارت دکھاتے ہوئے خوبصورت اشعار نکالے ہیں: چند اشعار پیش خدمت ہیں         ؎

    چلو تو یوں کہ زمانے کو رشک آ جائے

یقیں نہ آئے کسی کو شکستہ پا تم ہو

 میں خود کو بھول جانا چاہتا ہوں

مگر کوئی بہانا چاہتا ہوں

میں حرف حرف بکھرنے لگا ہوں بے معنیٰ

تو کوئی لفظ بنا کر مجھے کتاب میں رکھ

دنیا نے میرے خون سے تاریخ لکھی ہے

ممنون میرا کون سا اخبار نہیں ہے

 شائق مظفر پوری کی شاعری کوایک لفظ میں کوئی نام دیناہو تو میں سمجھتا ہوں کہ یک زباں ہو کر سب کہیں گے  ’آئینہ ‘ ۔۔۔۔۔۔کیونکہ ان کے چاروں مجموعے میں سیکڑوں اشعار ایسے ہیں جس میں انھوں نے آئینہ کو نہ جانے کتنے روپ میں دیکھا ہے۔حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک لفظ’ آئینہ‘ اور  اشعار میں موضوع کی مناسبت سے اس کی تصویریں، معنی الگ۔ایسا لگتا ہے کہ ہر شعر کو لکھنے کے بعد وہ آئینے میں اس کا عکس دیکھتے ہوں، یا آئینے کو دیکھ کر وہ بحرو اوزان کے سمندر میں غوطہ لگاتے ہوں۔ ہر کسی کی تحریر میں کچھ الفاظ ایسے ہوتے ہیں جو شاعر کی آواز بن کر سامنے آتے ہیں اور یہی وہ آواز ان کے اسلوب کو زندگی عطا کرتی ہے۔ لاشعوری طور پر بھی ایک لفظ کا بار بار آناکسی کے اسٹائل کا حصہ بن سکتا ہے۔ لیکن شائق مظفر پوری کے یہاں یہ ایک شعوری عمل ہے، کیوں کہ انہوں نے اپنے آخری مجموعے کو ترتیب دیتے وقت ایسے نوے اشعار شامل کیے ہیں جس میں لفظ’ آئینہ‘ کاخوبصورت استعمال ہوا ہے    ؎

میرے محبوب کی تصویر آنکھوں نے اتاری ہے

اٹھا کر آئینہ کو آئینہ کہنے کو جی چاہے

وہ پتھر پھینکتے ہیں آئینوں پر

مگر شوق خود آرائی بہت ہے

  تم تو خود کو مجھ میں پا کر ہو چکے ہو مطمئن

میں بھی خود کو دیکھ لوں وہ آئینہ دینا مجھے

  اپنی آنکھوں میں برا تو بھی نہیں میں بھی نہیں

ہر نظر میں آئینہ تو بھی نہیں میں بھی نہیں

اب آئینے میں سنورنے لگا ہے وہ شائق

تری پسند پہ کتنا دھیان رکھتا ہے

آئینے کو روبرو کرتا چلوں

خود سے بھی کچھ گفتگو کرتا چلوں

وقت احساس کا آئینہ دکھائے مجھ کو

اپنے ہونے کا یقین پھر بھی نہ آئے مجھ کو

   مجھ سے ملنا ہو جسے آئینہ لے کر آئے

میں بھی دیکھوں تو ذرا کون چھپا ہے مجھ میں

نظر پہلے ملاؤ آئینے سے

پھر اس کے بعد تم پتھر چلانا

ایسے بے شمار اشعار بکھرے پڑے ہیں جس میں لفظ’ آئینہ‘ اپنے نئے مفاہیم کے پیکر میں آپ کو ملیں گے۔

کہیں آئینہ محبوب کی آنکھ ہے۔کہیں آئینہ چہرہ کتاب ہے۔کہیں آئینہ روشنی کا منبع ہے۔کہیں آئینہ خانۂ دل ہے۔کہیں آئینہ زندگی کا استعارہ ہے۔کہیں آئینہ حسن مجسم ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

کہیں گفتگو آئینہ ہے،کہیں سادگی آئینہ ہے،کہیں تحریر آئینہ ہے،کہیں تصویر آئینہ ہے،کہیں لمس آئینہ ہے، کہیںاحساس آئینہ ہے۔

کبھی عشق آئینہ، کبھی فرار آئینہ، کبھی وقت آئینہ،کبھی دوست آئینہ،کبھی شناخت آئینہ، کبھی شعور آئینہ، کبھی نور آئینہ۔

کہیں شوق خود آرائی سے عبارت، توکہیں صداقت کا نام آئینہ

 کہیں سچ کی علامت،  تو کہیںدنیا کی تعبیر آئینہ

کہیں ٹوٹتی بکھرتی زندگی کا نوحہ، تو کہیںخوشیوںکا گہوارہ آئینہ

یعنی اپنے اشعار میں شائق مظفر پوری نے زندگی کے تمام جذبات واحساسات کو آئینے کے سامنے رکھ کرہر زاویے سے دیکھنے اور رنگ بھرنے کا کام کیا ہے۔ اورجب کبھی آئینے پر گرد جمی ہے۔ تصویر دھندلی ہوئی ہے۔ اسے وقت کے ہاتھوں صاف کیا ہے۔اس لیے ان کی غزل کائنات کا آئینہ ہمیشہ صاف و شفاف اور چمچماتا ہوا نظر آیا ہے۔آئینہ ان کی شاعری کا محور ہے۔

شائق مظفر پوری کی شاعری میں ہمیں ایک وژن نظر آتا ہے۔ ان کی زبان چست درست اور کلاسیکی آہنگ سے لبریز دکھائی دیتی ہے۔ جس میں جدّت طرازی بھی ہے۔کہیں کہیں صوفیانہ رنگ صاف جھلکتا ہے۔کہیں عاجزی و انکساری، فقیرانہ انداز بیان اس طرح غالب ہے کہ پڑھتے وقت روحانی طمانیت کا احسا س جاگزیں ہوتاہے۔تشبیہ و استعارے کے برمحل استعمال نے ان کے یہاں ایک ایسی تخلیقی فضا قائم کی ہے جس سے ان کا شعری نظام، عہد حاضر کی المناکی،عصری حقائق،زمانے کی شکست وریخت کاتجربہ و مشاہدہ،صرف ان کا نہیںرہ جاتا بلکہ دورانِ مطالعہ قاری بھی اس میں برابر کا شریک نظرآتا ہے۔ جس کے باعث شعر کی ترسیل آسان ہو جاتی ہے اورقاری ذہنی کسرت سے بچ جاتا ہے۔یہ بہت بڑی خوبی ہے ان کی شاعری کی۔

یوں تو’نیا سورج‘ کے جنم کے ساتھ ہی شائق مظفر پوری کے اسلوب کی روشنی چہار سو پھیلنے لگی تھی۔ ’سفرلہجے کا‘ جب آہستہ آہستہ اپنی منزل کے آخری پڑا ؤ پر پہنچا تو انھیںاس بات کا احساس ہوا کہ’ آئینہ احساس کا‘ کے اندر ’نقطہ اور زاویہ ‘ کا عکس جھلک رہا ہے۔ بار بار آئینے کے بیچ ایک ’نقطہ‘ ابھرتا ہے جو الگ الگ’زاویہ‘ بناتاہے۔کبھی90  ڈگری کا،کبھی 180 اور کبھی۔۔۔۔۔۔ وہ مستقبل کی آنکھوںسے یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ آگے بھی’ نقطہ‘ ابھرے گا اوراسی طرح’ زاویہ‘ بھی بڑھتا جائے گا۔17؍ مئی 1939 کو خواجہ چاند چھپرہ میںجو ایک’ نقطہ‘ بن کر ابھرا تھاوہ ’غزل کائنات کا آئینہ گر‘اپنی زندگی کی سترویں بہار میںمختلف شعری زاویے بناتا ہوا آخر کار2؍ اکتوبر 2008 کوعید کے دن دائرے میں تبدیل ہو کراپنے مکمل ہونے کا ثبوت فراہم کر گیا            ؎

  شائق ہمارے بعد بھی روشن رہے ڈگر

ایسا کوئی چراغ سر رہگزر جلے

کاش اس حقیقت سے لوگ آشنا ہوتے

اک چراغ سے شائق سو چراغ جلتے ہیں

اور چراغ سے چراغ جلانے کا کام اب شروع ہوگیا ہے اور امید ہے یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔ 


Dr. Akhtar Azad

House No.: 38, Road No.: 1

Azad Nagar

Jamshedpur - 832110

Mob.: 9572683122

Email.: dr.akhtarazad@gmail.com

 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں