10/2/22

جنوبی ہند کے نابغۂ روزگار سید احمد ایثار - مضمون نگار : رؤف خیر

 



ٹی ایس ایلیٹ اپنی شاہ کار نظم کی ابتدا میں کہتا ہے :April is the cruelest monthیاد رہے ہر فن مولا عزیز احمد نے اس شاہ کار نظم کا ’خرابِ آباد‘ کے نام سے آزاد ترجمہ کیا تھا۔2021 کا اپریل بھی بڑا ظالم مہینہ ثابت ہوا۔ اردو شعر و ادب کی کئی ہر دل عزیز شخصیتیں اس مہینے داغِ مفارقت دے گئیں۔ کیسے کیسے لکھنے والوں کے قلم کی سیاہی خشک ہوگئی۔

اسی ماہ میں علامہ اقبال کے سید التراجم حضرت ایثار بھی اس دنیا کو الوداع کہہ گئے۔

پچیس جولائی 1922کو میدانِ حیات میں قدم رنجہ فرمانے والے سید احمد ایثار کی شمسی تقویم کے اعتبار سے بھلے ہی سنچری میں ایک کسر رہ گئی ہو مگر قمری تقویم کے مطابق تو سنچری مکمل ہو ہی گئی تھی۔ اپنی باری میں انھوں نے ترانہ و ترنگ کے کئی چوّے اڑائے اور بعض یادگار چھکے بھی مارے۔ جنوبی ہند کے اس قلم کارنے وہ منفرد بے نظیر ریکارڈ قائم کیا ہے جس سے آگے جانے والا مشکل سے پیدا ہوگا۔

اول تو ہند وپاک میں فارسی لکھنے پڑھنے والے ناپید ہوگئے الا ما شا اللہ ایسے میں یہ بے حد ضروری تھا کہ علامہ اقبال کے ہر فارسی شاہ کار کا باذوق اردو داں حلقے سے بھرپور تعارف کرایا جائے اس مشکل کام کے لیے جانِ ناتواں رکھنے کے باوجود جناب سید احمد ایثار نے بیڑہ اٹھایا۔اور الحمداللہ سرخ رو بھی ٹھیرے۔

علامہ اقبال کے بے مثال شاہ کار جاوید نامہ کا منظوم ترجمہ 1979میں کیا مگر جو 2003میں شائع ہوا۔ساتھ ہی ’’اسرارِ خودی و رموز ی بے خودی‘‘ کے ترجمے سے بھی اسی سال عہدہ بر آہوئے جو 2008 میں منظرِ عام پر آیا۔ ’ارمغان حجاز ‘ کو بھی اردو میں ڈھالنے میں 1979ہی میں کامیاب ٹھیرے جو 2009میں چھپا۔   

علامہ اقبال کو اپنے مجموعۂ کلام ’زبور عجم‘ پر بڑا ناز تھا اور وہ اپنے باذوق قاری سے مطالبہ کرتے ہیں         ؎

اگر ہے ذوق تو خلوت میں پڑھ ’زبور عجم

فغان ِ نیم شبی بے نوا ے راز نہیں

اردو کے باذوق قاری تک زبور عجم کو پہنچانے کی ذمے داری سید احمد ایثار نے اپریل 1980میں نبھائی یہ الگ بات ہے کہ یہ مجموعہ اکتوبر 1999میں اشاعت کا منہ دیکھ سکا۔

اقبال کی قوم و ملت سے درد مندی و ہمدردی کی شاہ کار مثنوی ’پس چہ باید کرد اے اقوام ِ شرق‘ کو بھی قوم و ملت تک پہنچا نے کے لیے جناب ایثار نے 1980ہی میں اس کا منظوم ترجمہ کرڈالا مگر اردو داں قوم تک علامہ اقبال کا یہ پیغام 2006سے پہلے پہنچ نہ سکا۔

جرمن شاعر گوئٹے کے دیوانِ مغرب کے جواب میں اقبال کا ’پیامِ مشرق‘ آج سے تقریباً ایک سو سال پہلے منظر عام پر آیا تھا جس کا منظوم ترجمہ سید احمد ایثار نے 1982میں مکمل کردیا تھا مگر یہ کرنا ٹک اردو اکادمی کے جزوی مالی تعاون سے 1997میں منظر عام پر آیا۔

اقبال کے فارسی شاہ کار وں کے تراجم کے علاوہ سات سو بہتر 772رباعیات عمر خیام کا منظوم اردو ترجمہ رباعی ہی کی بحر میں سید احمد ایثار نے 1977ہی میں کردیا تھا مگر یہ بھی کرناٹک اردو اکادمی کے زیر اہتمام 2019 میں  شائع ہو سکا۔ 1982سے 1992کے دس سالہ عرصے میں حضرت ایثار نے مثنوی مولانا روم کا ترجمہ پانچ جلدوں میں انجام دیا تھا جسے قومی کونسل برائے فروغ اردو NCPULدہلی نے 2020میں شائع کیا۔

جنوبی ہند کے ایک گوشے میں بیٹھے ہوئے جناب سید احمد ایثار نے علامہ اقبال کے تمام فارسی شاہ کار وں کے ساتھ ساتھ رباعیاتِ عمر خیام اور مثنوی مولانا روم کی پانچ جلدوں میں جو کارنامے اپنے پیچھے چھوڑے ہیں وہ انھیں اردو ادب میں زندہ رکھنے کے لیے کافی ہیں۔ ان کا شمار بلاشبہ ماہرین اقبالیات میں ہوتا ہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ایک بڑا علمی حلقہ ان سے کماحقہ واقف ہی نہیں ہے اس میں خود جناب ایثار کی قلندرانہ بے نیازی کا دخل ہے کہ انھوں نے اپنے آپ کو منوانے کے جتن کیے ہی نہیں حالانکہ انھوں نے بڑی ہی خود اعتمادی کے ساتھ فارسی متن کے بالمقابل اردو متن رکھ کر دعوتِ خوش ذوقی دی ہے۔ اپنے طبع زاد کلام’’ ترانہ وترنگ‘‘ اور ’’آبفشار ‘‘کو ذیلی و ثانوی حیثیت دی۔ اپنی خود نوشت ’’سراغ ِ زندگی‘‘ میں اپنے حالات بلاکم و کاست بیان کردیے۔   حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

ان کے ایک قریبی دوست محمد اقبال نے ’واردات ِ ایثار اور جہاتِ اقبال ‘کے نام سے ایثار پبلیشنگ ہائوس ٹرسٹ بنگلور کے زیر اہتمام 2006میں مختلف عنوانات کے تحت ایثار صاحب کے فکروفن کے تعلق سے لکھے ہوئے کئی مضامین اور بعض مشاہیر کے خطوط مرتب کیے جن کی روشنی میں سید احمد ایثار کا بھرپور تعارف ہو جاتا ہے۔ 2017میں ایک اور مجموعہ بھی ’وارداتِ ایثار‘ ہی کے نام سے ایثار پبلشنگ ہائوز ٹرسٹ بنگلور کے تحت جناب محمد اقبال نے بعض اہم لکھنے والوں کے جناب ِ ایثار کے نام مکتوبات اور مضامین کو جمع و مرتب کرکے ایثار فہمی کی راہ ہموار کی جس میں خود جناب ایثار کے لکھے ہوئے چند معلوماتی مضامین جیسے قرآن کے ادبی محاسن، اقبال کی نعت گوئی، اقبال کا تصوراتی حج، شکوہ و جواب ِ شکوہ کی تفہیم،اقبال کے تراجم کا ایک اجمالی جائزہ اور چند شخصیات کے خاکے بھی شامل ہیں۔

سید التراجم کا ایثار ِ سخن تو دیکھیے کہ طبع زاد تخلیقات سے اپنے آپ کو منوانے کے بجائے مستند تخلیق کاروں کے فارسی شاہ کاروں کو مادری زبان کے ذریعے روشناس کروانے کے جتن کرتے رہے اور وہ بھی منظوم۔ظاہر ہے شعر کے ترجمے کا مزہ تو شعر ہی میں آتا ہے۔ اچھے سے اچھے شعر کا اگر نثری ترجمہ ہو تو اس کی روح تو مجروح ہوجاتی ہے۔ محترم سید احمد صاحب نے جس عرق ریزی سے نایاب فارسی شاہ کاروں کو منظوم اردو کا جامہ دل کش پہنایا ہے وہ ہر اعتبار سے قابل داد ہے۔مترجم ہونا دوسرے درجے کا خالق ہونا ہے۔مگر جناب سید احمد ایثارکا ایثار دیکھیے کہ انھوں نے اس حیثیت ثانوی کو اولیت بخشی اور اب یہی ان کی پہچان بھی ٹھیری۔ان کا اپنا ’ترانہ و ترنگ‘ دب کر رہ گیا ہے۔

25اگست 2005کو ان سے انہی کے درِ دولت پر نیاز حاصل کرنے کا موقع ملا۔ ان کی کاوشوں کی تفصیلی روداد سننے اور دیکھنے کا موقع ملا۔ حیرت تو یہ جان کر ہوئی کہ ایثار صاحب نے بے شمار فارسی شاہ کاروں کے تراجم محض اپنی خوش ذوقی کے بل بوتے کر ڈالے حالانکہ آپ نے کسی مدرسے میں یا کسی استادِ کامل سے باضابطہ فارسی کی تعلیم حاصل نہیں کی۔ ان تراجم کی داد دینے والا بھی کوئی آپ کو میسر نہ تھا۔ لے دے کے ایک مڈل پاس غریب دوست سید حسین تھے جو ایثار صاحب کے منظوم تراجم خوش خط لکھ کر خوش ہوا کرتے تھے اس طرح یہ تراجم محفوظ بھی رہ سکے۔ ایثار صاحب محکمہئ جنگلات کے بہت بڑے افسر اور سید حسین آب رسانی میں معمولی ملازم لیکن اس ادبی پر بہار رشتے نے دونوں کو شاداب و مستحکم رکھا تھا۔ ایثار صاحب نے سید حسین مرحوم کے احسانات کا بہت ذکر کیا ہے حتیٰ کہ اپنا شعری مجموعہ ان کے نام معنون بھی کیا ہے۔ ایک دور وہ بھی آیا کہ سید حسین کے لڑکے اتنے مرفہ حا ل ہو گئے کہ انھوں نے ایثار صاحب کی ایک کتاب کی اشاعت میں مالی اعانت بھی کی۔

محکمۂ جنگلات میں بے انتہا  مصروفیت اور اندرونی محکمہ جاتی سیاسی کشمکش کے باوجود ادبی شاہ کاروںکے تراجم کے لیے ایثار صاحب وقت نکالتے رہے۔ ان کی حوصلہ افزائی کرنے والا کوئی نہیں تھا۔ علمی ادبی ماحول بھی آپ کومیسر نہیں تھا۔ آپ نے ابتدائی زندگی کے بارے میں لکھا کہ 1942میں ’اسرار ِ خودی‘ ہاتھ لگی۔ قیمت چھے 6روپے تھی۔ مگر وہ اسے خرید نے کے قابل نہیں تھے۔ لامحالہ پوری کتاب نقل کرڈ الی اور یوں بیشتر اشعار از بر ہوگئے۔ گھر سے اسکول اور اسکول سے گھر آتے جاتے تنہائی میں اقبال ؔ کے اشعار گنگناتے جاتے۔

آپ نے بتایا کہ ’آمدن سی لفظی‘ سامنے رکھ کر فارسی سیکھی۔ اپنے طور پر فارسی شعر و ادب کا ایسا ذوق پیدا کیا جو کئی شاہ کاروں کو روشناس خلق کروانے کا باعث بنا۔ آج سارے بنگلور بلکہ سارے جنوبی ہند کے ماہرین اقبالیات میں آپ کا شمار ہوتا ہے۔ علامہ اقبال کے فرزند ار جمند ڈاکٹر جاوید اقبال نے آپ کے کارناموں کی داد دی ہے۔ یوں تو پروفیسر مسعود حسین خان، پروفیسر جگن ناتھ آزاد اور معتبر نقاد جناب شمس الرحمن فاروقی نے بھی جناب ایثار کی خدمات کو سراہا ہے پھر بھی وہ قدر ومنزلت آپ کے حصے میں نہیں آئی جس کے آپ مستحق ہیں۔ اقبال نے خرد کے بالمقابل جس جنوں کی پذیرائی اپنے کلام میں کی ہے اس کا جیتا جاگتا پیکر ایثار ہمارے سامنے ہیں۔ ڈپٹی نذیر احمد سواسو روپے (ایک روپیہ چارآنے کی)  رائل ڈکشنری سے انڈین پینل کوڈ کا ترجمہ کرسکتے ہیں توسید احمد ایثار آمدن سی لفظی سامنے رکھ کر علامہ اقبال کے تمام کلام کا ترجمہ کیوں نہیں کرسکتے۔

پیام مشرق، زبور عجم، جاوید نامہ،پس چہ باید کرد، اسرار و رموز اور ارمغان حجاز جیسے شاہ کاروں کا منظوم اردو ترجمہ بجائے خود قابل تحسین کارنامہ ہے۔ آپ نے نہ صرف یہ کہ اقبال کے ان شاہ کاروں کا منظوم ترجمہ کرتے ہوئے ایک معلوماتی مقدمہ بھی تحریر فرمایا اور یوں اس شاہ کار کی اہمیت کا احساس دلایا۔ترجمے کی شواریوں پر بھی روشنی ڈالی۔ خاص طور پر ’جاوید نامہ‘ کا 70 صفحات پر پھیلا ہوا مقدمہ بجائے خود دستاویزی نوعیت کا حامل ہے۔ اس میں آپ نے تصنیف کی ابتدا، تمہید آسمانی،تمہید زمینی،جہاں دوست و شوامترکی حقیقت،فلکِ عطار د، طاسین زرتشت، طاسین گوتم، طاسین مسیح سے لے کر جمال الدین افغانی اور سید علم پاشا کی مساعی جمیلہ کا اجمالی ذکر کیا ہے۔ غنی کا شمیری،بھر تری ہری اور احمد شاہ ابدالی وغیرہ کی سیرت پر بھی روشنی ڈالی۔ آپ نے ہر کتاب کا مقدمہ تقریباً ایسا ہی جامع تحریر فرمایا ہے جس سے کتاب، صاحب کتاب اور مترجم کی علمیت سے قاری کا شرحِ صدر ہوتا ہے۔ ’پس چہ باید کرد‘ کا مقدمہ لکھتے ہوئے ایثار صاحب نے اس مثنوی کا پس منظر بیان کیا کہ نادر شاہ والئی افغان کی دعوت پر علامہ اقبال،سید سلیمان ندوی اور سرراس مسعود افعانستان گئے تھے تاکہ اس ملک کے لیے نئی تعلیمی پالیسی پیش کریں۔ اس مثنوی میں درآنے والی اہم شخصیت نادرشاہ،حکیم سنائی اور سلطان محمود غزنوی کا ضروری تعارف لکھ کر ایثار صاحب نے خاصی معلومات فراہم کی ہیں۔

زبور عجم کا مقدمہ لکھتے ہوئے آپ نے اقبال کے تصور خودی، نظریہ وحدت الوجود وغیرہ کے ساتھ ساتھ محمود شبستری کی ’گلشن راز جاوید‘ میں اٹھائے گئے بعض اہم سوالات اور ان کے حل پر بھی کافی دلچسپ مواد پیش کیا ہے۔ غرض ترجمے تو رواں دواں ہیں ہی،مقدمے بھی آپ کی علمیت کے مظہر ہیں۔

اقبالیات کے علاوہ جناب ایثار نے عمر خیام کی ان سات سو بہتر 772رباعیات کا منظوم ترجمہ کر ڈالا۔ شمس تبریز کی چار سو چھتیس رباعیات کا ترجمہ کرتے ہوئے آپ نے محسوس کیا کہ ایک رباعی ایسی ہے جو دونوں شاعروں کے دیوان میں لفظ بہ لفظ موجود ہے        ؎

اے زندگی تن و تو انم ہمہ تو

جانی و دلی اے دل و جانم ہمہ تو

تو ہستی من شدی از آنی ہمہ من

من نیست شدم در تو از انم ہمہ تو

مخفی مباد کہ شمس تبریز تو بے چارہ مجذوب تھا۔ رومی نے ہزاروں غزلیات اپنے مرشد شمس تبریز کی یاد میں کہہ ڈالیں اور وہ غزلیں شمس تبریز کے نام سے ’دیوان ِ شمس تبریز ‘ میں جمع کی گئیں۔ یہ رباعی بھی دراصل رومی کی ہے۔ رومی اور خیام کی رباعی کی مماثلت دراصل اسی سبب سے ہے کہ بعض خوش ذوق ایک شاعر کا کلام دوسرے شاعر کے نام سے لکھ لیا کرتے تھے۔ اس طرح کے الحاق کلام کی کئی مثالیں اردو ادب میں مل جاتی ہیں۔ وہی صورتِ حال ایثار صاحب پر واشگاف ہوئی۔ خیام ورومی کی اس مشترکہ رباعی کا منظوم اردو ترجمہ بھی آپ نے یوں کیا ہے       ؎

تن کے لیے زندگی توانائی تو

تو جان میں دل میں دل وجاں میری تو

تو میرا وجود اس لیے تو خود مجھ میں

میں تجھ میں فناہوں اس لیے ہوں سبھی تو

ایثار  صاحب نے سعدی شیرازی کی 161 رباعیات، حافظ شیرازی کی 88میں سے 33 رباعیات کے منظوم اردو ترجمے کے علاوہ رومی کی مثنوی معنوی مولوی کا اردو ترجمہ بھی تین جلدوں میں کرکے رکھ دیا ہے جو اشاعت کی منتظر ہیں۔

جناب سید احمد ایثار نے رباعیات ِعمرخیام کا منظوم ترجمہ ’بادئہ خیام ‘ کے نام سے کیا جسے کرناٹک اردو اکادمی نے 2019میں شائع کیا۔ ایثار صاحب نے عبدالباری آسی کے مرتبہ 772رباعیات خیام کو بنیاد بنایا۔ کتاب کے دائیں جانب کے صفحے پر چارچار فارسی رباعیات خیام ہیں اور بائیں جانب بالمقابل ان کا منظوم ترجمہ دیا گیا ہے۔ اسی طرح 772رباعیات کا ترجمہ دراصل ایثار صاحب کا کارنامہ ہے جو 2اگست 1978ہی کو تکمیل کو پہنچا تھا۔

محترم سید احمد ایثار کی زندگی جدو جہد سے عبارت ہے۔ اپنی ابتدائی تعلیم ملک میں اور ملک سے باہر جاکر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا، شادی،جنگلوں میں پیدل چلنا، تقریباً تیس پینتیس میل کا پیدل سفررات بھر کرکے گھر پہنچنا، ملازمت میں ایک جنگل سے دوسرے جنگل کو تبادلہ،بعض ضرورت مندوں کی مدد کرنا اور پھر ولایت کا سفر ہوائی جہاز سے،وہاں سے تعلیم کے بعد سمندری جہاز کے ذریعے تجربات سے گزرتے ہوئے واپسی وغیرہ امور سے متعلق محترم سید احمد ایثار صاحب نے کھل کر اپنی آپ بیتی ’سراغِ زندگی‘ میںلکھا ہے۔

سید احمد ایثار صاحب جیسے شریف آدمی نہ اپنے ماتحتین سے خوش ہوتے ہیں نہ اپنے افسران ِ بالا کو خوش کرتے ہیں۔ یہی ان کے سراغ ِ زندگی کی روداد ہے۔ ایک باکر دار آدمی کسی بے کردار سے بھلا کیسے خوش رہ سکتا ہے۔ مگر ایسے آدمی کی خوش کرداری اسے باوقار بناتی ہے۔ اس کا اپنا مضبوط کردار اسے دوسروں کی نظروں میں سبک ہونے نہیں دیتا اور ہر ایمان دار آدمی ایسے صاحب کردار کی قدر کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اور سچ پوچھیے تو یہی ’خوش کرداری‘ مرد مومن کی کمائی ہے۔ سید احمد ایثار مرد مومن ہیں۔

جنگل کی زندگی،دفتری سیاست، ناگفتہ بہ حالات سے گزرتے ہوئے محترم سید احمد ایثار صاحب نے علامہ اقبال کے فکر و فن سے جو اپنے شغف کو بر قرار رکھا وہ قابل داد ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ماہرین اقبالیات ہند و پاک میں بہت ہیں۔ علامہ اقبال کے فارسی کلام کو اردو میں ڈھالنے والے بھی کئی ہیں مگر اقبال کے تمام  فارسی شعری مجموعوں کو منظوم اردو میں پیش کرنے کا سہرا صرف اور صرف سید التراجم حضرت سید احمد ایثار ہی کے سر بند ھتا ہے۔ آپ نے اسرار خودی،رموز بے خودی، زبورعجم، جاوید نامہ، پس چہ باید کرداے اقوام شرق، ارمغان ِ حجاز اور پیامِ مشرق کا منظوم اردو ترجمہ یکے بعد دیگرے 1979سے شروع کرکے 1982میں مکمل کردیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ان تراجم کی اشاعت مسلسل نہ ہوسکی بلکہ جیسے جیسے موصوف کو سہولت حاصل ہوئی یعنی حسب استطاعت ان کی اشاعت عمل میں آئی۔ محترم ایثار صاحب کو وظیفہ یابی کے بعد 78000 روپے کے بقایا جات حکومت سے موصول ہوئے تو انھوں نے یہ پوری رقم کتابوں کی اشاعت میں لگادی۔

میں اکثر کہتا رہتا ہوں کہ جو قلم کا ر بنیادی طور پر شاعر ہوتا ہے وہ ہر صنف سخن میں اپنی پہچان کروا کرہی چھوڑ تا ہے چاہے وہ افسانہ ہو،ناول ہو، مضمون نگاری ہو،ڈرامہ نگاری ہو،تنقید ہو، تحقیق ہو چاہے کچھ ہو،اگر وہ متوازن فکر کا حامل ہی نہ ہوگا تو کسی دوسرے کے فن پارے کو بھلا کیسے جانچ پائے گا، تحقیق کرتے ہوئے بھی کسی شاعر کا کلام مرتب نہ کرپائے گا نہ اچھا ڈرامہ لکھ سکے گا نہ اچھا افسانہ یا ناول۔ بہر حال میرا خیال ہے کہ فن کار کا بنیادی طور پر شاعر ہونا ضروری ہے، آپ کو مجھ سے اختلاف کا حق حاصل ہے اگر آپ شاعر نہیں ہیں۔

محترم سید احمد ایثار بھی بنیادی طور پر شاعر ہیں ورنہ اقبال جیسی عبقری شخصیت کے شاہ کاروں کا ترجمہ کیسے کرپاتے۔ انھوں نے ترجمے کا راستہ اختیار کرتے ہوئے اپنے آپ کو محدود کرلیا۔ وہ اسی دائرے میں سرگرداں رہنے پر مجبور ہیں جو دائرہ اقبال نے کھینچ رکھا ہے۔ اس لکشمن ریکھا سے باہر قدم رکھنا گویار اون کے حوالے ہوجانا ہے۔ اقبال ان کے فکرو فن پر اس قدر حاوی ہے کہ وہ اقبال کے بغیر ایک لقمہ بھی نہیں توڑتے۔عالم یہ ہے        ؎

من تو شدم تو من شدی، من تن شدم تو جاں شدی

تاکس نہ گوید بعد ازیں، من دیگرم تو دیگری


 

Dr. Raoof Khair

Moti Mahal, Golconda

Hyderabad - 500008 (Telangana)

Cell.: 9440945645

Email.: raoofkhair@gmail.com

 

 


 

 

 

 

 

 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں