14/2/22

بلبل دکن پروفیسر فاطمہ پروین - ڈاکٹر عزیز سہیل




          جامعہ عثمانیہ حیدرآباد ایسی عظیم مادر علمیہ ہے جس نے زندگی کے تمام شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دینے والے کئی انمول رتن پیدا کیے۔ شعبۂ اردو جامعہ عثمانیہ سے وابستہ اساتذہ بھی اردو تحقیق و تنقید ‘دکنی علوم کے فروغ اور اردو زبان و ادب کی خدمت کرنے والوں میں پیش پیش رہے ہیں۔ اساتذہ شعبہ اردو جامعہ عثمانیہ میں درس وتدریس‘تحقیق و تنقید اورفروغ اردو کے حوالے سے یکساں طور پر جن کوصاحبان علم و ادب کابلند مقام حاصل ہوا ہے ان میں ایک اہم نام پروفیسر فاطمہ بیگم (پروین) کا بھی ہے ۔ جو حیدرآباد کے علمی و ادبی افق پر اپنے زور خطابت‘تبحر علمی اور لیاقت اور دانشوری کے سبب بلا شبہ بلبل دکن کہلانے کی مستحق تھیں۔ پروفیسر فاطمہ پروین 30دسمبر1953 کو حیدرآباد میں پیدا ہوئیں،آپ کے والد جناب سید محمد علی صاحب طوبی محکمہ آبکاری میں سپرنٹنڈنٹ کے عہدے پر فائز تھے، وہ شعر وادب کااچھا ذوق رکھتے تھے ،آپ کی والدہ رضیہ بیگم شاعرہ تھیں وہ ریاضت تخلص کرتی تھیں،ان کے شعری مجموعے’ اشک غم اول‘ ، اشک غم دوم، مراثی کے مجموعے ، خمسہ ٔ مراثی ،مشاہدۂ غم،اور چشم غم شائع ہو کر مقبول ہو چکے ہیں ۔پروفیسر فاطمہ پروین کا تعلق ایک علم پرور گھرانے سے رہا ہے۔ ان کی ابتدائی تعلیم بھی اچھے انداز میں ہوئی ،انھوں نے میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کی تکمیل کے بعد اعلی تعلیم کے لیے جامعہ عثمانیہ کا رخ کیا اور 1972 میںیہاں سے بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی،انھوں نے اپنے تعلیمی سفر کو آگے بڑھاتے ہوئے ، ایم اے اردو میں داخلہ لیا اور1975 میں امتیازی کامیابی حاصل کرتے ہوئے گولڈ میڈل حاصل کیا،تعلیمی سفر یوں ہی جاری رہا 1979میں ایم فل کامیاب کیا ،ایم فل کی کامیابی کے بعد جامعہ عثمانیہ سے ہی پی ایچ ڈی میں داخلہ لیا جہاں ان کے مقالہ کا موضوع ’’غواصی کی شاعری کا تنقیدی مطالعہ ’’ تھا1989 میں پی ایچ ڈی کی تکمیل کی۔

          پروفیسر فاطمہ پروین صاحبہ کی شادی 1980 میں جناب ڈاکٹر محمد مجید اللہ صدیقی سے ہوئی وہ سنگھی کالج آف کامرس اینڈ سائنس میں وائس پرنسپل تھے ۔ ان کے شوہرمجیداللہ صدیقی ایک اچھے شاعر تھے جن کا شعری مجموعہ ’’درد کے اتھاہ سمندر میں‘‘ اردو حلقوں میں کافی مقبول ہوا تھا ۔آپ کو اللہ رب العزت نے دوبیٹوں اور دو بیٹیوں سے نواز ا ۔

          پروفیسر فاطمہ پروین کے تدریسی سفر کا آغاز 1976ئ میں بحیثیت جونیئر لیکچرر اردو عمل میں آیاانھوں نے جونیئر لیکچرر کی حیثیت سے 14سال تک خدمات انجام دی ،1990 میں آپ کا تقرر بحیثیت لیکچرر شعبۂ اردو عثمانیہ یونیورسٹی میں ہوا۔آپ کی خدمات کو دیکھتے ہوئے 1997 میں بطور ریڈر ترقی دی گئی اور 2005 میں پروفیسر کے عہدے پر ترقی ہوئی ۔2006 میں چیٔر پرسن بورڈ آف اسٹڈیز مقرر ہوئیں ۔کچھ عرصہ بعد صدر شعبۂ اردو بنائی گئیں۔2012ئ میں بحیثیت وائس پرنسپل آرٹس کالج عثمانیہ یونیورسٹی کے ترقی دی گئی ان کے لیے یہ ایک بہت بڑا اعزاز تھا۔ 30دسمبر 2013 کووہ اپنے عہدے سے سبکدوش ہوئیں۔سبکدوشی کے کچھ عرصہ بعد امبیڈکر اوپن یونیورسٹی میں شعبہ اردو میں برسرکارر ہیں۔ 27 ا گست 2021 بروز جمعہ صبح 9 بجے، مختصر سی علالت کے بعد ان کا انتقال ہوگیا گویا اردو سمیناروں اور ادبی اجلاسوں میں گونجنے والی بلبل دکن کی یہ آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی۔

          پروفیسر فاطمہ پر وین کی پہلی تصنیف’’ اختر انصاری کی شاعری کا تنقیدی مطالعہ ‘‘1980 میں شائع ہوئی ۔ان کی دیگر تصانیف میںکربِ کربلا، زاویہ ٔ نگاہ2005 ،ننھی نظمیں(تلگو سے ترجمہ)،کلاسیکی شاعری کا مطالعہ2009،اشک غم ،دکنی ادب کا مطالعہ2019،پروفیسر مغنی تبسم ایک روشن چراغ تھا نہ رہا‘2019 شامل ہیں ۔ان کی تصانیف کو اردو اکیڈمی آندھراپردیش ،تلنگانہ اسٹیٹ اردو اکیڈمی ،مغربی بنگال اردو اکیڈمی نے انعامات سے نوازا ہے ۔2011 میں اردو اکیڈمی آندھراپردیش کی جانب سے انھیں یونیورسٹی اساتذہ کے زمرے میں’’ بسٹ ٹیچر ایوارڈ‘‘ سے نوازا گیا ۔2013 میں اردو اکیڈمی آندھراپردیش نے ان کے علمی وادبی خدمات کے پیش نظر باوقار کارنامہ حیات ایوارڈ عطا کیا۔ان کے علاوہ دیگر اداروں اورانجمنوں کی جانب سے ان کی خدمات کے اعتراف میں انعامات و اعزازت سے نوازا ہے ۔محترمہ فاطمہ پروین صاحبہ نے ملک و بیرون ملک مختلف سمیناروںاور ورکشاپ میں عثمانیہ یونیورسٹی کی نمائندگی کی ہے ۔انھوں نے لندن کا بھی علمی سفر کیا ہے ۔پروفیسر فاطمہ پروین کی خدمات کے اعتراف میں ایوان فنکار اورگواہ اردو ویکلی کی جانب سے 2014 میں ’’ بلبل دکن ‘‘کا خطاب عطا کیا گیا۔

          پروفیسر فاطمہ پروین کی شخصیت اپنی ذات میں ایک انجمن تھیں ۔فرد کی صلاحیتیں خدا کی ایک عظیم نعمت ہے اور شخصیت کی تعمیر میں خاندان کا اثر بھی نمایاں ہوتا ہے ،پروفیسر فاطمہ پروین کو اللہ رب العزت نے متنوع صلاحیتوں سے نوازا ہے ،ساتھ ہی ان کا تعلق ایک علمی گھرانے سے رہا ہے جس کے اثرات ان کی تعلیم و تربیت پر مرتب ہوئے ہیں ان کی شخصیت کو ہم بحیثیت استاد،محقق، نقاد،مترجم،مقرر اور بحیثیت منتظم کے دیکھ سکتے ہیں۔

بحیثیت استا د :

           پروفیسر فاطمہ پروین کا تدریسی سفر کافی طویل رہاہے انھوں نے 1976 میں بحیثیت جونیئر لیکچرر کے اپنی تدریسی خدمات کاآغاز کیا تھا جو 2013ئ تک جاری رہا اپنی ملازمت کے دوران انھوں نے اپنے پیشے کا مکمل طور پر حق ادا کیا اور پوری دیانت داری سے اپنی ذمہ داری کو انجام دیتی رہیں،وہ ایک خوش اخلاق نگراں بھی تھیں جن کی نگرانی میں درجنوں طالب علموں نے اپنا تحقیقی سفر مکمل کیا عموماََ جامعات میں پی ایچ ڈی کی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ ریسرچ سپروائز کا اپنے شاگرد وںسے درست رویہ ہے ،لیکن میرے علم کے مطابق جن تحقیق کاروں کو سوپروائزر کی حیثیت سے پروفیسر فاطمہ پروین کا ساتھ ملا ان کے بڑی آسانی کے ساتھ تحقیقی مقالے مکمل ہوئے اوران کے شاگردوں نے ان سے آداب و اخلاق سیکھا،اس کی مثال میں خود بھی ہوں میں محترمہ کے رویہ سے اتنا زیادہ متاثر ہوا کہ میں نے اپنے کام میں کوئی تساہلی نہیں کی اور وقت مقررہ پر اپنا کام مکمل کیا ،حالانکہ اس وقت میڈم آرٹس کالج کی وائس پرنسپل تھیں اپنی مصروفیات کے باوجود انھوں نے کبھی مجھے واپس نہیں کیااور نا کبھی سختی سے پیش آئیں وہ مجھے اپنے ماں کی طرح نصیحت فرماتیں اور میری خوب ہمت افزائی کرتیں تھیں، میری شخصیت کی تعمیر میں ان کا نمایاں کرادر رہا ہے۔میرے ساتھ ساتھ دیگر اسکالرس سے بھی میں نے سنا ہے کہ ان کا رویہ اپنے ہر ایک طالب علم کے ساتھ یکساں ہیں۔ میرے پیشرو تحقیق کار ’ڈاکٹر جاوید کمال نے اپنے مضمون شفیق استاد،ہمدرد انسان،منکسرالمزاج شخصیت پروفیسر فاطمہ پروین ‘‘ میں لکھا ہے:

’’ میری استاذ محترمہ پروفیسر فاطمہ پروین صاحبہ کا نام جب بھی ذہن میں آتا ہے ایک شفیق استاد ،ہمدرد انسان اور منکسر المزاج شخصیت کا پیکر ابھر کر سامنے آجاتا ہے اور میرا سر احتراماً خودبخود جھک جاتا ہے ۔سچ بات تو یہ ہے کہ ان ہی شفیق استاد ہی کی بدولت بڑی آسانی سے ڈاکٹر جیسا باوقا ر لفظ تادم حیات میرے نام کا جزبن گیا جس کی تمنا بیسوں اسکالرس کے دل میں ہوتی ہے ‘‘۔

(ڈاکٹر جاوید کمال ،گواہ اردو ویکلی حیدرآباد،7تا13فروری 2014،ص13)

          ڈاکٹر سید فاضل حسین نے ’’ممتا کا آنچل ‘‘کے عنوان سے پروفیسر فاطمہ پروین پر مضمون لکھا ہے جس میں بہت سے واقعات کو انھوں نے رقم کیا اور محترمہ کے الفاظ کوبطور نصیحت ممتا کے آنچل سے تعبیر کیا ہے ۔سید فاضل حسین پرویز نے پروفیسر فاطمہ پروین سے جو کچھ سیکھا اس کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’محترمہ سے جتنی بار ملنے کا موقع ملا ہر بار ان سے کچھ نہ کچھ سیکھا،رواداری،مروت،اخلاص،باہمی احترام،کسی سے اختلاف کے باوجود اسے اہمیت دینا۔نہ تو کسی کو کمزور سمجھنا اور نہ اپنی کمزوریوں سے غافل رہنا،جو ذمہ داری قبول کی جائے اسے اتنی ہی ذمہ داری سے پوری بھی کی جائے استاد اور شاگرد کے درمیان باہمی اعتماد کا رشتہ کیسے برقرار رکھا جائے اور یہی میری پانچ سال محنت کاحاصل ہے ‘‘

(ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز،گواہ اردو ویکلی حیدرآباد،7تا13فروری 2014،ص16)

          بحیثیت محقق : پروفیسر فاطمہ پروین نے بیسوں تحقیقی کام انجام دیے جن میںایم اے کا مقالہ’’ اختر انصاری کی شاعری کا تنقیدی مطالعہ‘‘ 1975، ایم فل کا تحقیقی مقالہ ’سترہویں صدی میں ہندالمانی عناصر‘‘ 1979اور پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ ’’غواصی کی شاعری کا تنقیدی مطالعہ‘‘ 1989 شامل ہیں،ان کے علاوہ دیگر تصانیف کی اشاعت اور سیکڑوں سمیناروں میں پیش کئے گئے مقالات اور مضامین شامل ہیں جو ان کے تحقیقی فکراور شعور کو نمایاں کرتے ہیں ،ان کے علاوہ محترمہ نے مختلف جامعات کی نصابی کتابوں کی ترتیب میں بھی کافی اہم کردار ادا کیا ہے ۔

          بحیثیت نقاد: پروفیسر فاطمہ پروین تنقیدی مزاج بھی رکھتی ہیں جہاں ایم اے اردو میں ان کی تحقیق کا آغاز ہوا وہیں ان کی تنقیدی صلاحیتیں فروغ پانے لگی جس کا اندازہ ان کی تصنیف ’’ اخترانصاری کی شاعری کا تنقیدی مطالعہ‘‘ سے ہوتا ہے ۔پروفیسر مغنی تبسم نے پروفیسر فاطمہ پروین کے تنقیدی شعور سے متعلق لکھا ہے :

’’فاطمہ پروین نہایت انہماک کے ساتھ اس کام میں لگی رہیں،انھوں نے تلاش اور جستجو سے اختر انصاری کی تقریباََ سبھی تحریریں فراہم کیں اور طالب علمانہ لگن کے ساتھ ان کامطالعہ کیا پھر ہر صنف ادب کے فنی اصولوں کی روشنی میں معروضیت کے ساتھ ان کا تنقیدی جائزہ لے کر اختر انصاری کے ادبی مرتبے کو متعین کرنے کی کوشش کی ہے ۔‘‘

(پروفیسر مغنی تبسم’’ اختر ؔانصاری کی شاعری کا تنقیدی مطالعہ ‘‘ مقدمہ،ص9)

          پروفیسر فاطمہ پروین نے اخترانصاری کی شاعری کا تجزیہ کرتے ہوئے انھیں جمال پرست شاعر قرار دیاہے۔ان کی تنقیدی فکر دیکھیں

’’اخترانصاری ایک جمال پرست شاعر ہیں ،کیٹس اور شیلی کی طرح انھوں نے زیادہ تر حسن و عشق کے گیت گائے ہیں۔ اپنی شاعری کے آغازمیں وہ ادب برائے ادب کے نظریے کے قائل تھے اور آج تک بھی وہ ادب اورشاعری کے جمالیاتی پہلوپر زیادہ زور دیتے ہیںان کے بیش تر قطعات حسن اور کیفیات عِشق سے لبریز ہیں،اپنی بڑھی ہوئی جمال پرستی کا انھیں احساس بھی ہے ‘‘

(پروفیسر فاطمہ پروین’ اخترؔ انصاری کی شاعری کا تنقیدی مطالعہ ‘‘ ص99)

          پروفیسر فاطمہ پروین کا تنقیدی سرمایہ کچھ زیادہ نہیں ہے ان میں اختر انصاری کی شاعری کا تنقید ی مطالعہ،زاویۂ نگاہ ،دکنی ادب کا مطالعہ شامل ہیں۔ انھوں نے اپنی ان کتابوں میں جن تنقیدی موضوعات کا تجزیہ کیا اوربحث کی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے اندر تنقیدی ذہن ہے اور تنقیدی شعور بھی بہتر پایا جاتا ہے۔

          بحیثیت متر جم: پروفیسر فاطمہ پروین نے ترجمہ نگاری کے بھی کام انجام دئے ہیں بحیثیت مترجم انھوں نے ڈاکٹر گوپی کی تلگو شاعری میں صنفِ سخن ’’نانی لو‘‘کا اردو میں ترجمہ’ ننھی نظمیں ‘کے عنوان سے کیا ہے۔ پروفیسر مظفر شہ میری وائس چانسلر عبدالحق اردو یونیورسٹی پروفیسر فاطمہ پروین کی ترجمہ نگاری سے متعلق رقم طرازہیں:

’’پروفیسر فاطمہ کے ترجمے کو تین بڑے حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔اولاَ۔ من وعن ترجمہ ،ثانیاََ آزاد ترجمہ اور ثالثاََ نئے ترجمے!من و عن ترجمہ میں پروفیسر فاطمہ نے لفظ بہ لفظ ،نظم کی روح کے ساتھ ترجمہ کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ایسا لگتا ہے جیسے تلگو الفاظ نکال کر ان کی جگہ اردو الفاظ رکھ دیے ہیں ۔‘‘

(پروفیسر مظفر شہ میری،پروفیسر فاطمہ پروین کی ترجمہ نگاری ،گواہ اردو ویکلی حیدرآباد، 7تا13 فروری 2014،ص14)

          ننھی نظموں کے علاوہ بھی انھوں نے علمی ضرورت کے تحت بھی ترجمے کیے ہیں ،بہرحال ان کے اندر ایک اچھے مترجم کی خصوصیات پائی جاتی ہیں ترجمے کے مفہوم کو اپنے مخصوص انداز میں پیش کرنااور زبان وبیان کی نزاکتوں کو مدنظر رکھ کر ترجمے کیے ہیں۔

          بحیثیت مقرر:تقریر سے متعلق کہا گیا ہے تقریر اس مہارت فن کا نام ہے جس کے ذریعے کوئی شخص کسی متعین موضوع ،متعین وقت میں، مکمل، مسلسل اور موثر اظہار خیال کرسکتا ہے ۔ تقریر کا یہ فن اللہ رب العزت نے خصوصی طور پر پروفیسر فاطمہ پروین کو عطا کیا ہے ان کی تقریر کوسن کر ہر کوئی حیران و ششدر رہ جاتا ہے ،الفاظ موتیوں کا روپ اختیار کرلیتے ہیں، جب وہ تقریر کررہی ہوتی ہیں تو الفاظ ایک تسلسل کے ساتھ زبان سے ادا ہوتے ہیںایسا محسو س ہوتا ہے کہ الفاظ ہاتھ باندھے کھڑے ہوںوہ ہر موضوع پر انتہائی بصیر ت افروز اور سحر انگیز خطاب سے نوازتی ہیںکہ سننے والے   عش عش کرنے لگتے ہیں۔جب کسی موضوع پر وہ اپنی تقریر اختتام پر لے آتیں ہیں تو سامعین پوری طرح اطمینان کااظہار کرتے ہیں ۔مجھے اچھی طرح یاد ہے نظام ٹرسٹ کی جانب سے 4جون2011 کو پرنسس عیسن کالج پرانی حویلی حیدرآباد ،آصف سابع نواب میر عثمان علی خان کی 129 ویں یوم پیدائش کے موقع پر منعقد یادگار لیکچر کے لیے پروفیسر فاطمہ پروین کو مدعو کیا گیا تھا، میں نے بھی محترمہ کو سننے کے لیے اس پروگرام میں شرکت کی۔ پہلا موقع تھا کے محترمہ کو ایک بہترین مقرر کی حیثیت سے سن رہا تھا اورساتھ ہی رپورٹ بھی لکھ رہا تھامیں ان کی تقریر سے بہت زیادہ متاثر ہوا اوراس پروگرام کی طویل رپورتاژ لکھ ڈالی ، جس سے میری رپورتاژ نگاری کا آغاز ہوتا ہے اور چند سال بعد میری ایک تصنیف بھی اس صنف پر شائع ہوئی ۔

          پروفیسر فاطمہ پروین کی تقریر کا سب سے بڑا کمال یہی ہے کہ وہ سامعین کو اپنا قائل اور ہم نوا بنا لیتی تھیں۔میر ے اندازے کے مطابق پروفیسر فاطمہ پروین نے اپنے ملازمت کے سفرکے دوران سیکڑوں خطبات دئے ہیں اور حیدرآباد میں منعقد ہونے والی ادبی محفلوں میں صدارت اور مقرر کی حیثیت سے محفل کی رونق میںاضافہ کیا ہے ،حیدرآباد کی اکثر ادبی سرگرمیوں کی پروفیسر فاطمہ پروین روح رواں ہیں ۔

          پروفیسر فاطمہ پروین میں غیر معمولی تنظیمی صلاحیتیں تھیں وہ ایک بہترین منتظم بھی ہیں دوران ملازمت کالج اور یونیورسٹی کی سطح پر مقابلے کا انعقاد،ورکشاپ اور سمینار کا انعقاد،توسیعی لیکچر کا اہتمام ہر کام میں وہ متحرک رہیں اور بہتر منصوبہ بندی ،باہمی ربط کے ذریعے انھوں نے ہر پروگرام کے کامیاب انعقاد میں اپنا نمایاں کردار ادا کیا،اکثر پروگراموں کی نظامت ان ہی کے ذمہ ہواکرتی تھی انھوں نے بحیثیت صدر شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی کے 90سالہ جشن میں بھی نمایاں رول ادا کیا اور اس موقع پر مجلہ عثمانیہ کی اشاعت بھی عمل میں لائیں، اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے بحیثیت وائس پرنسپل آرٹس کالج کے بھی کئی ایک پروگراموں کو منظم انداز میں انجام دیا۔وہ شہر کے مختلف ادبی اداروںو انجمنوں سے بھی وابستہ رہیں جن میں اقبال فاؤنڈیشن،حیدرآباد اکیڈمی اور ادارہ شعر وحکمت ۔ان اداروں کے مختلف پروگراموں کے کامیاب انعقاد میں ان کا اہم کردار رہاہے ،ان باتوں سے ان کی تنظیمی صلاحیتوں کا خوب اندازہ ہوتا ہے۔ 

          بُلبل دکن پروفیسر فاطمہ پروین کی ہمہ جہت صلاحیتوں کا تذکرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر آمنہ تحسین،شعبہ ٔ ویمنس ایجوکیشن ،مولاناآزاد نیشنل حیدرآباد نے لکھا ہے:

 ’’ پروفیسر فاطمہ پروین ایک شاعرہ کی حیثیت نہیں رکھتیں،لیکن نثر میں شاعری کرنے والے چند ایک غیر معمولی افراد کی فہرست میں ضرور شامل ہوسکتی ہیں ،وہ ایک فعال اور ہمہ جہت شخصیت کی مالک ہیں ،ان کے کارنامے علمی ،ادبی ،سماجی ،تہذیبی شعبوں پر محیط ہیں۔ ان کی علمیت اور فعالیت کی جہات کو اگر دیکھا جائے تو ان کے جو اہم ترین پہلو واضح ہوتے ہیں وہ ہیں ،تدریس،تحقیق،تنظیم ،اور تقریر۔ان چاروں شعبوں میں ان کے کارنامے مساویانہ اہمیت رکھنے کے باوجود ان سب میں ان کی خطابت کاپہلو مزید اہمیت کا حامل اور غالب نظرآتا ہے ۔‘‘

(ڈاکٹر آمنہ تحسین ،پروفیسر فاطمہ بیگم پروین ۔صنّاع کلام،گواہ اردو ویکلی حیدرآباد، 7تا13 فروری 2014،ص15)

          ڈاکٹر فاضل حسین پرویز گواہ ویکلی نے ادارہ ایوان فنکار کے ساتھ 2014 پروفیسر فاطمہ کے جلسے اعتراف خدمات کا انعقاد عمل میں لائے تو اس موقع پر انھوںنے احمد علی برقی اعظمی سے پروفیسر فاطمہ بیگم پروین کی خدمات پر منظوم تاثرات لکھنے کی فرمائش کی تھی ،جس کو گواہ اردو ویکلی کے پروفیسر فاطمہ پروین نمبر میں بھی شائع کیا ۔ملاحظہ ہو:

فاطمہ بیگم ہیں فخر روزگار

شخصیت ہے ان کی وجہہِ افتخار

ان کی علمی کاوشیں ہیں لازوال

دلنشیںہیں ان کے ادبی شاہکار

شعبۂ اردو سے وابستہ تھیں وہ

جس کو حاصل ہے جہاں میں اعتبار

اپنی معیاری کتابوں کے لیے

ہیں کئی اعزاز سے وہ ہمکنار

ان کو ہے تدریس سے فطری لگاؤ

ان کے اردو ترجمے ہیں شاندار

کام سے اپنے بڑھایا عمر بھر

اپنی تہذیب و ثقافت کا وقار

اختر انصاری پہ ان کی نقد سے

ان کا معیار شرف ہے آشکار

ان کے گلہائے مضامیں آج بھی

گلشنِ اردو میں ہیں مثلِ بہار

وہ رہیں گی زیب تاریخ ادب

ہیں جو اقلیم ِادب کی تاجدار

معترف ہے ان کی عظمت گواہ

نامور لوگوں میں ہے جن کا شمار

 تصانیف کا جائزہ :

          پروفیسر مغنی تبسم نے پروفیسر فاطمہ پروین کی پہلی کتاب’’ اختر انصاری کی شاعری کا تنقید مطالعہ ‘‘کا مقدمہ لکھا ہے جس میں پروفیسر فاطمہ کی صلاحیتوں کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے :

’’اس کتاب کے مطالعے سے اندازہ ہوگا کہ فاطمہ پروین ادب کا ستھرا ذدوق رکھتی ہیں،ان کامطالعہ وسیع ہے ۔تنقید میں انھوں نے کسی ایک دبستان کی پیروی کرنے کے بجائے سبھی دبستانوں سے بقدر ضرورت استفادہ کیا ہے ،دوسرے نقاد وں کی آرا سے متاثر ہونے کے بجائے اپنے ذوق ادب اور مطالعہ پر بھروسہ کیا ہے ،تنقید نگاری میں انھوں نے جس خود اعتمادی کا اظہار کیا ہے اس سے توقع بندھتی ہے کہ وہ آئندہ چل کر ایک اچھی نقاد ثابت ہوں گی ۔‘‘

(پروفیسر مغنی تبسم’’ اختر انصاری کی شاعری کا تنقیدی مطالعہ ‘‘ مقدمہ،ص10,9)

          پروفسیر فاطمہ پروین کی صلاحیتوں کے پیش نظر ان کے استاد محترم نے 1980 میں  جوپیشین گوئی کی وہ آج درست ثابت ہوئی آج ان کا شمار اردو کے اہم نقادوں میں ہوتاہے ،انھوں نے سخت محنت،ریاضت اور سنجیدہ جدوجہد سے ادب میں ایک مقام بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔

          پروفیسر فاطمہ پروین نے اپنی پہلی تصنیف ’’ اخترانصاری کی شاعری کا تنقیدی مطالعہ ‘‘میں جدید شعرا میں اختر انصار کی اہمیت اور ان کے کارناموں کو بیان کرتے ہوئے لکھاہے:

’’جدید شعرائے اردو میں اختر انصاری کی اہمیت اور انفراد یت مسلمہ ہے وہ جس پایہ کے شاعرہیں اس درجہ کے افسانہ نگار اور نقاد بھی ہیں،انگریزی اور دوسری زبانوں کے ادبیات میں ایسی مثالیں بکثرت ملیں گی لیکن اردو میں ایسی ہمہ گیر شخصیتیںخال خال ہی نظر آتی ہیں،اخترانصاری کا سب سے اہم اور ہمیشہ زندہ رہنے والا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے قطعہ جیسی روایتی صنف کو نیا قالب اور نئی روح عطا کی ۔ان کے دیگر تخلیقی اور تنقیدی کارناموں سے صرف ِنظر بھی کیا جائے تو وہ صرف اپنے قطعات کی وجہ سے اردو شعرائ میں ایک نمایاں مقام پانے کے بجا طور پر مستحق ہیں۔‘‘

(پروفیسر فاطمہ پروین’’ اختر انصاری کی شاعری کا تنقید ومطالعہ ‘‘ حرف آغاز،ص5)

          پروفیسرفاطمہ پروین نے مطالعہ کے مفہوم ،اقسام پر اپنی کتاب کلاسیکی شاعری کا مطالعہ میں اوراس سے متعلق لکھا ہے:

 ’’مطالعہ۔۔ایک ایسا لفظ جس میںمعنی تہہ در تہہ چھپے ہیں،سر سری نظر بھی مطالعہ،گہری نظر بھی مطالعہ،حاصلِ مطالعہ، صاحبِ مطالعہ کے ذوق پر منحصر۔غر ض اس اتھا ہ سمندر میں، میںاپنی استعداد کے موافق شامل ہوئی ہوں۔ غزل ،مرثیہ ، قصیدہ اردو شاعری کی کلاسیکل اصناف اپنے چند اٹوٹ حصوں کے ساتھ میرے اور آپ کے مطالعہ کی کڑی بن کر کتابی شکل میں سامنے ہیں۔‘‘

(پروفیسر فاطمہ پروین،کلاسیکی شاعری کا مطالعہ ،ص9)

          پروفیسر فاطمہ پروین نے ڈاکٹر گوپی کی ’’نانی لو‘‘ کا ترجمہ اردو میں ننھی نظمیں کے عنوان سے کیا ہے ۔ڈاکٹر گوپی نے تلگو شاعری میں صنفِ سخن ’’نانی لو‘‘کو ایجاد کیا ۔ان کے اس کارنامے سے متاثر ہوکر پروفیسر فاطمہ نے نانی لو کا ترجمہ’’ ننھی نظمیں‘‘ کے عنوان سے کیا ہے۔

          پروفیسر فاطمہ پروین کی ترجمہ نگاری ’ننھی ننھی نظموں کے حوالے سے‘ کا جائزہ لیتے ہوئے پروفیسر مظفر شہ میری وائس چانسلر عبدالحق اردو یونیورسٹی نے لکھا ہے:

 ’’مجھے یہ کہنے دیجئے کہ پروفیسر فاطمہ کے ان ترجموں کو پڑھ کراردو کا کوئی بھی قاری اس طرح لطف اندوز ہوسکتا ہے جیسے تلگو کاقاری ان کی اصل کو پڑھ کر۔ یہ ترجمہ محض نرے ترجمے نہیں ہیں بلکہ ان میں اصل نظموں کی روح سمیٹ کر آگئی ہے۔جس کے لیے پروفیسر فاطمہ قابلِ مبارک باد ہیں۔ان نظموں کے بالمقابل میں تلگو میں جونظمیں تحریر ہیں وہ بالکل مختلف ہیں ،اس لیے گماں ہوتا ہے کہ ان کے بدلے نئی نظموں کو لکھ دیا گیا ہے ،پروفیسر فاطمہ نے تلگو کی ایک مقبول اور نئی صنف سخن کا ترجمہ پیش کرکے اردو قارئین کے علم میں اضافہ کرنے کے علاوہ ان کی جمالیاتی تسکین کا اہتمام بھی کیا ہے ۔‘‘

(پروفیسر مظفر شہ میری ،پروفیسر فاطمہ پروین کی ترجمہ نگاری ،گواہ اردو ویکلی حیدرآباد، 7تا13 فروری 2014،ص14)

          پروفیسر فاطمہ پروین نے ’’پروفیسر مغنی تبسم ایک روشن چراغ تھا نہ رہا‘‘ کے عنوان سے پروفیسر مغنی شخصیت اور خدمات پر یہ کتاب ترتیب دی ہے اس کتاب کے آغاز میں کتاب کی اشاعت کے مقصد اور پروفیسر مغنی کی خدمات کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے:

 ’’شاعر،محقق،نقاد،استاد،مدیر ،اردو دنیا کی مشہورو مقبول شخصیت عالیجناب پروفیسر مغنی تبسم مرحوم کے بارے میں اس کتاب کامقصد علم وادب کی منّور کرنوں کو آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ رکھنا ہے تاکہ اس کی روشنی میں وہ اپنے مستقبل کی صورت گری کرسکیں۔پروفیسر مغنی اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔شعر وادب کی خدمت میں ہمیشہ مصروف رہے ،ان کی تحریروں کا جائزہ آسان کام نہیں ،مختلف اور متعدد شعبہ ٔ جات میں موصوف کی دلچسپیاں ان کی ست رنگی شخصیت کا حصہ رہیں،اس کتاب کے توسط سے ان کی شخصیت کا اجمالی خاکہ پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ آنے والے طالب علم اس نابغۂ روزگار شخصیت سے واقفت حاصل کرکے اپنی صلاحیت کے مطابق ان سے استفادہ کرسکیں۔‘‘

(پروفیسر فاطمہ پروین،پروفیسر مغنی تبسم ایک روشن چراغ تھا نہ رہا،ص7)

           امید کی جاتی ہے کہ بلبل ہند سروجنی نائیڈو کے شہر حیدرآباد دکن سے تعلق رکھنے والی بلبل دکن پروفیسر فاطمہ پروین ہمہ جہت کارناموں سے مستفید ہوتے رہیں گے۔

 

 

Dr. M A Azeez Sohaill

Tgt Urdu

TMRS Yakuthpura Boys 1

Awaise function Hall

Mughal pura, Hyderabad 500002 (Telangana)

Mob: 9110759869

 




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں