14/2/22

راجندرسنگھ بیدی کی تخلیقات میں پنجابیت کی جھلک - مضمون نگار: ڈاکٹر رشید جہاں انور

 



          اردو ادب کے مراکز ہمیشہ سے ہی لکھنؤ اور دہلی گردانے جاتے رہے ہیں مگر اس زبانِ شیریں کی ترقی میں جتنا اہم رول خطۂ پنجاب نے ادا کیا ہے اس سے کسی کو بھی منکر ہونے کی گنجائش نہیں۔ مولانا محمد حسین آزاد نے اسی سرزمین میں ’’آبِ حیات‘‘ لکھا اور مولانا الطاف حسین حالی نے ’’مسدسِ حالی‘‘ جیسی عظیم ترین نظم کی تخلیق کی۔

          1930اور 1940کے دوران میں افسانہ نگاروں کے ایک نوجوان گروہ نے ادبی دنیا میں تہلکہ مچا دیاتھا۔افسانے کو نئے اسلوب، نئے زاویے، نئے معنی اور نیا اندازِ فکردے کر جلد ہی افسانوی ادب کے سربراہوں کا سا مقام حاصل کرلیاتھا۔ ان میں اوپندرناتھ اشک، سعادت حسن منٹو، کرشن چندر، راجندرسنگھ بیدی، خواجہ احمد عباس اور احمد ندیم قاسمی پیش پیش تھے۔

          راجندرسنگھ بیدی کافن شدید انفرادیت کا حامل ہے ۔ ان کا اسلوب بالکل جدا ہے۔بیدی کے اسلوب کا جائزہ لینے سے پہلے ادب میں اسلوب کی کیا معنویت ہے اس پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے تو بہتر ہوگا۔ آل احمد سرور جوراجندر سنگھ بیدی کے مداحوں میں سے تھے، اسلوب کے بارے میں کہتے ہیں:

’’اگر واضح خیال، موزوں اظہار کافی ہے تو اس میں ندرت ، انفرادیت یا بانکپن کا کیا سوال ہے۔ یہیں شخصیت اور اسلوب کی بحث آتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسٹائل میں شخص ہے (Style is the man) ۔حالانکہ شخصیت ، اسلوب میں سیدھے سادے طریقے سے جلوہ گر نہیں ہوتی۔ وہ الفاظ کی چھلنی میں چھن کر آتی ہے ۔ اور یہ الفاظ ہی ایک خاص سانچہ رکھتے ہیں۔ جو الفاظ ایک شخص استعمال کرتا ہے وہ ایک دور یا مزاج یا روایت کے آئینہ دار ہوتے ہیں یعنی وہ انفرادی کے ساتھ اجتماعی خصوصیات رکھتے ہیں۔

(نظر اور نظریے: آل احمدسرور)

          ایک رائے کے مطابق کرشن چندر، سعادت حسن منٹو اور راجندرسنگھ بیدی سے اردو کے عظیم افسانہ نگاروں کا ایک مثلث بنتا ہے۔ ایک ایسا مثلث جس کے تینوں زاویے برابر ہیں ۔یہ تینوں افسانہ نگار اتفاق سے پنجاب سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔

          پروفیسر محمد حسن نے اردو کے افسانوی ادب میں موجود اسلوب کی اقسام پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’پہلا اسلوب منٹو کا ہے۔منٹو کی زبان اپنی روزکی گفتگو سے گہرا رشتہ رکھنے والی شیریں زبان ہے جس میں پنجابی لہجے کے ساتھ بمبیا اردو کی آمیزش ہے۔ دوسرا اسلوب کرشن چندر کی رومانوی نثر کی تابناکی ہے جہاں روشنی اور دھوپ ہے۔ زندگی کی ناہمواری پر سخت طنز ہے اور یہ طنز واقعات کی زبان میں پیش ہوتا ہے۔ اچانک موڑ کاٹنے کا کرشن چندر کو ، کوئی شوق نہیں ہے بلکہ یہاں زندگی اپنے پورے توازن اور ہم آہنگی کے ساتھ ابھرتی ہے۔ اسلوب کی رومانوی خوابناکی کے ساتھ ساتھ یہاںقصے کی فضا اور واقعات اور اس کے زیرِ زمین تاثرات کا بہاؤ فیصلہ کن ہے۔ جبکہ راجندرسنگھ بیدی کے اسلوب میںعام انسان کے اندرونی کرئہ ارض کی سیر ہے جس میں غیر فطری اور غیر معمولی کرداروں کی تحلیل نفسی کی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ بلکہ عام انسانوں کی باطنی زندگی کی چھوٹی موٹی مسرتوں اور حسرتوں کی عکاسی کی گئی ہے۔ یہ گویا چیخوف اور گوگول کی کہانیوں سے قریب ہیں اور اس خصوصیت میں ان کا کوئی ہمسفر ہے تو صرف غلام عباس ،جن کی کہانیاں’آنندی‘ اور ’دھنک‘یا ’اوور کوٹ‘اس کی مثالیں ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ غلام عباس تخیل کے ذریعہ بہت دور تک پرواز کرتے ہیںجبکہ بیدی باطنی زندگی کی لطافتوں اور نزاکتوں سے قریب رہتے ہیں۔’اپنے دکھ مجھے دے دو‘ اور ’لاجونتی‘ اس کی اعلیٰ ترین مثالیں ہیں۔

(افسانوی ادب کی تدریس ،ادبیات شناسی :پروفیسر محمد حسن)

          بیدی کے فن کی ایک اور خوبی بہت نمایاں طور پر نظر آتی ہے ۔ وہ اپنے کام کو بہت ایمانداری سے لیتے ہیں۔ اس کے لیے وہ کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے اور نہ ہی اپنے کسی ذاتی مسئلے کو بیچ میں لاتے ہیں۔

          بیدی نے اپنے افسانوں میںویسے ماحول کا ذکر کیا ہے جن سے وہ گہری واقفیت رکھتے ہیں۔ ان میں پنجاب کے دیہات کی خوشبو بھی ملتی ہے اور مہابھارت و گیتاکی رو شنی بھی۔لہٰذا اس تناظرمیں بیدی کے خیال جس طرح نمودار ہوئے وہ عام روش سے مختلف نظر آئے۔ پنجاب سے ان کا رشتہ اٹوٹ ہے۔ یہ اور بات ہے کہ مجبوری ٔحالات کی وجہ سے وہ ملک کے کئی حصوں میں رہے۔ وہاں کی زندگی کے زیر اثر بھی انھوں نے کئی کہانیوں کی تخلیق کی لیکن مجموعی طور پر ان کی تخلیقات کے ماحول پنجاب کے رنگوں میں ڈوبے ہوئے نظر آتے ہیں۔ پنجابیت کا یہ رنگ بے ساختہ طور پر پیدا ہوتا ہے اور پڑھنے والا اس رنگ میں ڈوب کر مسرور ہوجاتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ بیدی کی زبان پر لگاتار اعتراضات ہوتے رہے لیکن بیدی پر اس بے جا نکتہ چینی کاکوئی خاص اثرنہیںہوتا ۔ آخر کاربڑے بڑے ناقدوں نے جب قدرے غور سے دیکھا تو بیدی کی یہ خاص خوبی نظر آنے لگی۔

          آل احمد سرور ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’گرہن ‘‘ کا پہلا جملہ سن کر ایک اہلِ زبان نے کہا تھا کہ یہ کون سی زبان ہے ، کیا یہ اردو ہے؟ اور مجھے کہنا پڑا تھا :ہاں یہ اردو ہے لیکن یہ ایک پنجابی نے لکھی ہے۔

          اور وہ جملہ تھا:’’روپو، سیتو، کھتّو اورمنّا ۔ ہولی نے اساڑھی کے کائستھوں کو چار بچے دئے تھے اور پانچواں چند ہی مہینوں بعد جننے والی تھی۔‘‘

          اس طرح سے ایک اور جملہ جو بیدی کی شاہکار کہانی ’’لاجونتی‘ کا ہے ۔’’ہتھ لائیاں کملان نی لاجونتی کے بوٹے۔‘‘

          اس مشہو ر پنجابی بول سے اس کہانی کی شروعات ہوئی ہے ۔ یہ کس قدر فطری نظر آتا ہے لیکن اگر اسی بول کا اردو میں ترجمہ کریں تو کچھ اس طرح سے ہوگا:یہ چھوئی موئی کے پودے ہیں ذرا ہاتھ بھی لگاؤ تو کمہلا جاتے ہیں۔

          یہاں یہ بات صاف نظر آ رہی ہے کہ ترجمے میں وہ مفہوم نہیں آیا۔ ’’ہتھ لگائیاں ‘‘کا ترجمہ ہو ہی نہیں پاتا کیونکہ زبان کی لطافتیں بھی لاجونتی کے پودوں کی طرح ہی ہوتی ہیں۔

          بیدی اپنی کہانیوں میں ایسی زبان کا استعمال کرتے ہیں جو ان کے کرداروں کے جذبات و احساسات کی صحیح معنوں میں ترجمان ہیں۔ جہاں تک ممکن ہو ایسی زبان ہوتی ہے جو اردو زبان تو ہوتی ہے لیکن اپنے کرداروں کے ماحول سے ہم آہنگ۔ بیدی اسی طرح کی زبان لکھتے رہے اور اعتراض کرنے والے آخر کار خاموش ہوگئے۔ منٹو کا ایک مشہور جملہ ہے :جب کوئی پنجابی اردو بول رہا ہوتا ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے جھوٹ بول رہا ہو۔

          یہ اس فنکار کا جملہ ہے جس کی نثر اردو زبان کا ایک بیش قیمت سرمایہ ہے۔ منٹو کے اس جملے سے یہ بات صاف ظاہر ہوجاتی ہے کہ کسی بھی زندہ زبان کو مختلف خطوں کے لوگ مختلف ڈھنگ سے استعمال کرتے ہیں۔ اس سے بنیادی طور پر تو کوئی فرق نہیں پڑتا ،بلکہ اس سے زبان میں ایک وسعت پیدا ہوتی ہے۔ بیدی خود اپنے معترضوںکوخاموش کرنے کے لیے ڈاکٹر اقبال کی مثال دیا کرتے تھے کہ اس صدی کا سب سے بڑا شاعر اقبال گفتگو میں ایسی اردو کا استعمال کرتا تھا جس کا لہجہ خالص پنجابی ہوتا تھا۔ مثال کے طور پر ایک بار ایک لکھنوی مولانا نے علامہ سے لاہور میں ملاقات کی۔ مولانا کے دوست نے پوچھا کہ علامہ سے گفتگو ہوئی؟ تو ان کا جواب یہ تھا:’’ہاں بھئی ہوئی۔۔۔۔میں جی ہاں، جی ہاں کرتا رہا اور وہ ہاں جی، ہاں جی کرتے رہے۔‘‘

          بیدی کی بیشتر کہانیوں کے پس منظر میں پنجابیت کی جھلک باربار ملتی ہے۔ بیدی نے ملک کی تقسیم کے وقت پنجاب کی پانچ ندیوں میں پانی کی جگہ خون کو بہتے دیکھا ہے۔ ان کے کئی عزیزوں کی بھی جانیں گئیں۔ اس بربریت اور خونی کھیل کو دیکھتے ہوئے انھوں نے ایک کہانی لکھی ’’لاجونتی‘‘۔اس موضوع پر بیدی کے کئی ہم عصروں نے بھی خوبصورت کہانیاں لکھیں، جن میں منٹو کی’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ ایک لافانی تخلیق ثابت ہوئی۔ لیکن ان دردناک حادثات کاسب سے اہم اور جذباتی موضوع جسے بیدی نے چُنا ،وہ تھااغوا شدہ عورتوں کا مسئلہ۔ بیدی نے بتایا کہ جب کوئی عورت اغوا کی جاتی ہے تو اس کے ساتھ مرد کی مردانگی بھی ختم ہوجاتی ہے۔ چاہے وہ مرد وہی کیوں نہ ہوں جن پر ان عورتوں کی حفاظت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اس مسئلے کا حل کسی کے پاس نہیں تھا۔ یہ مسئلہ مغربی پنجاب کا بھی تھا اور مشرقی پنجاب کا بھی ۔ ایسی بدنصیب عورتوں کو پھر سے قبول کرنے کا حوصلہ کہاں سے آئے۔ یہ وہ عورتیں تھیں جو بے بس اور لاچارتھیں ۔ ان کو وہی دکھ ملا تھاجو سیتا کو راون کے پاس قید ہونے کے بعد ملا تھا۔ لیکن جب سیتا کو اگنی پریکشا سے گزرنا پڑا تو ان عورتوں کو کیوں نہ گزرنا پڑتا۔ ’’لاجونتی‘‘ ایسی ہی ایک اگنی پریکشا کی کہانی ہے۔ ان عورتوں کی حالتِ زار کو اس طرح بیدی نے ظاہرکیا ہے۔

’’مغویہ عورتوں میں ایسی بھی تھیں جن کے شوہروں ، جن کے ماں باپ ، بہن اور بھائیوں نے انہیں پہچاننے سے انکار کردیاتھا۔ آخر وہ مر کیوں نہ گئیں۔ انھوں نے زہر کیوںنہ کھالیا۔ کنویں میںچھلانگ کیوں نہ لگا دی۔ وہ بزدل تھیں جو اس طرح زندگی سے چمٹی ہوئی تھیں۔ سینکڑوں ہزاروں عورتوں نے اپنی عصمت لٹ جانے سے پہلے اپنی جان دے دی لیکن انہیں کیا پتہ کہ وہ زندہ رہ کرکس بہادری سے کام لے رہی ہیں۔ کیسے پتھرائی ہوئی آنکھوں سے موت کو گھور رہی ہیں۔ایسی دنیا میں جہاں ان کے شوہر تک انہیں نہیں پہچانتے ۔ پھر ان میں کوئی جی ہی جی میں اپنا نام دہراتی ،سہاگ وتی ، سہاگ وتی۔ اور اپنے بھائی کو اس جم غفیر میں دیکھ کر آخری بار اتنا کہتی، تو بھی مجھے نہیں پہچانتا بہاری؟میں نے تجھے گودی کھلایا ، تھارے! اور بہاری چلّا دینا چاہتا تھا۔ پھروہ ماں باپ کی طرف دیکھتا اور ماں باپ اپنے جگر پر ہاتھ رکھ کر نارائن بابا کی طرف دیکھتے اور نہایت بے بسی کے عالم میں نارائن بابا آسمان کی طرف دیکھتا ۔‘‘

          بیدی نے یہ کہانی اپنے کرداروں کے جذبات واحساسات سے پوری ہم آہنگی کے ساتھ لکھی تھی تو مشہور افسانہ نگار و صحافی کلام حیدری نے بیدی کی وفات پر ایک تعزیتی نشست میں یہ سوال کیا تھا:بیدی تم لاجونتی ہو یا لاجونتی کے شوہر؟

          اور ان کے اس سوال کا جواب پنجاب کے عظیم صوفی شاعر بھُلّے شاہ کے اس جملے میں ملتا ہے ۔’’رانجھا ، رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوی۔‘‘

          ان کی کہانیوں میں پنجابی ماحول، رہن سہن، عادات واطوار ، عقاید ونظریات کی حقیقی عکاسی دیکھنے کو ملتی ہے کیونکہ ان کی کہانیوں کے بیشتر کردار اسی خطۂ زمین سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے فن کا نقطۂ عروج بھی پنجابی خوشبو میں رچا بساناولٹ ’’ایک چادر میلی سی‘‘ میں ملتا ہے۔ اس میں پنجابی تہذیب، وہاں کا معاشرہ ، ان کے لوگ ،ان کے سوچنے کا ڈھنگ ، رسم ورواج بے حد نمایاں طور پر ظاہر ہوتا ہے۔ اردو ادب کو بیدی کی طرف سے یہ ایک انمول تحفہ ہے۔ اس ناولٹ کے بارے میں کرشن چندر نے ایک بار بیدی کو مخاطب کرے ہوئے کہا تھا۔’’کم بخت، تم خود نہیں جانتے کہ تم کیا لکھ گیے ہو۔‘‘

          ’’ایک چادر میلی سی‘‘ میں شروع سے آخر تک پنجابیت کی چھاپ نظرآتی ہے۔ اس میں انھوں نے رانو کی مجبوری اور بے چارگی کا ذکر اس انداز میں کیا ہے کہ پوری کہانی حقیقت کے بہت نزدیک نظر آتی ہے۔ جیسے کہ

’’رانی چلا رہی تھی۔رانی بندیے !تیرا پیچھا نہ آگا ہائے رنڈیے!تیری شکل اب باجار بیٹھنے والی بھی نہیں،اب تو پیشہ کرنے یوگ بھی نہیں رہی۔‘‘

          کچھ اہل زبان کو اس زبان پر اعتراض ہوسکتا ہے۔ لیکن یہ ایک پنجابی عورت کے ٹوٹے دل کی صدا ہے اور یہ بیدی کا کمال ہے کہ انھوں نے رانو کے جذبات کو، اس کے درد کی شدت کو پنجابی خوشبو کے ساتھ اور پوری صداقتوں کے ساتھ ہم تک پہنچایا ہے۔

          پنجابی ہندی الفاظ جہاں جہاں استعمال ہوئے ہیں وہاں وہاں اس کا فنی نقطۂ نظر پورے عروج کے ساتھ نظر آتا ہے۔پنجاب سے ان کی بے پناہ انسیت اور وابستگی ان کے خون میں تھی۔پھر بھی اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان کی تخلیقات کسی محدودیت کی شکار ہیں۔ ان کی مقبولیت کسی ایک علاقے تک محدود نہیں ۔ ان کی تحریروں میں بے پناہ سچائی ہے اسی لیے وہ سب کے محبوب ادیب ہیں۔

 

Dr. Rasheed Jahan Anwar

H.No.40-B, Road No.1

Azadnagar

P.O.: Maango

Jamshedpur-831012 (Bihar)

Contact No.: 8507967120,

E-mail: rjanwar2811@gmail.com

 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں