14/2/22

قرۃالعین حیدرکا فن اور ‘جلاوطن’ - مضمون نگار : ڈاکٹر محمد شفقت کمال

 



          بیسویں صدی میں اردو فکشن کے جن علم برداروں نے اسے نئے خدوخال اور نئی وسعتوں سے ہمکنار کرایا اور زندگی کے مختلف اقدار کو سمجھنے اور اسے نئے زاویہ نگاہ سے دیکھنے کا ہنر سکھایا ان میں قرۃالعین حیدر کا نام سب سے اہم ہے۔ ان کی پیدائش سرزمین علی گڑھ میں ہوئی۔ اسے علی گڑھ کی مٹی کا اثر کہئے یا پھر لکھنؤکی تہذیبی روایات کا ثمرہ کہ جس نے قرۃالعین کے فلسفیانہ خیالات کو نہ صرف جلا بخشی بلکہ وہ نظیر بھی قائم کی جس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔قرۃ العین حیدر نے اپنی شعور کی آنکھیں ایک ادبی گھرانے میں کھولیں ۔ان کے والد اردو کے مشہور فکشن نگار سجاد حیدر یلدرم تھے اور والدہ نذر سجاد حیدر تھیں جن کا شمار اردو کے خواتین فکشن نگاروں میں ہوتا ہے۔اس طرح ادب کا ذوق انھیں وراثت میں ملا۔گھر کے علمی وادبی ماحول نے ان کے تخلیقی ذہن کی مزید آبیاری کی۔شاید یہی وجہ ہے کہ محض ۱۱ سال کی عمر میں جب شعور وآگہی پورے طور پر پختہ بھی نہیں ہوپا تے ،جب آنکھوں کی چلمن میں قوس وقزح کی طرح ہزاروں سپنے رقص کرتے رہتے ہیں ،ایسے وقت میں انھوںنے اپنا پہلا افسانہ تخلیق کیا جس کی خوب پذیرائی ہوئی۔ان کا یہ تخلیقی سفر80 سال کی عمر تک جاری رہا۔اس دوران انھوں نے کئی بہترین ناول،ناولٹ اور افسانے تخلیق کیے اور ورجنا وولف کے اس سوال کا جواب بھی دے دیا جو انھوں نے کیمبرج یونیورسیٹی کے یخ بستہ لیکچر روم میں اٹھایا تھا کہ کیا ایک خاتون اعلیٰ ادب کی تخلیق کرسکتی ہے۔ اس حوالے سے اگر دیکھا جائے تو ہمیں یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ قرۃ العین حیدر نے نہ صرف اعلی ادب کی تخلیق کی بلکہ ان کی شخصیت اردو ادب میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ان کے یہاں انسانی وجود کے داخلی اضطراب کے ساتھ ساتھ ذہنی آشوب اور احساس تنہائی کی صدائے بازگشت ہے جو ان کی تخلیقات کو ایک نئی معنویت عطا کرتے ہیں۔

          اردو افسانے میں قرۃالعین حیدر نے باضابطہ طور پر اپنی شناخت اس زمانے میں قائم کی جب ہندوستان کے منظر نامے پر زبردست تبدیلی ہورہی تھی۔ پورا سماجی نظام درہم برہم تھا ۔ایک طرف جاگیرانہ نظام کا انہدام ہورہا تھاتو دوسری طرف اس کی جگہ سرمایہ دارانہ نظام اور مغربی تہذیب وتمدن لے رہی تھی۔ مشرق سے طلوع ہونے والا آفتاب اب مغرب میں غروب ہونے کو تھا۔ ایسے میں تقسیم ہند کے سانحہ نے انسانی زندگی کی تمام تر بنیادوں کو منتشر کردیا ۔ اب انسان کا وجود ریزہ ریزہ ہوچکا تھا اور یہ زندگی کے لیے نہایت ہی پریشان کن مرحلہ تھا۔قرۃ العین حیدر نے تقسیم سے کچھ قبل ہی لکھنا شروع کیااور جلد ہی افسانوی منظر نامے پر اپنا اعتبار قائم کرنے میں کا میاب ہوگئیں۔ ان کے مخصوص اور منفرد اسلوب نے اردو فکشن میں ایک نئی روایت کو جنم دیااور اپنی ایک منفرد شناخت قائم کی۔قرۃ العین حیدر کا اختصاص یہ ہے کہ وہ اپنے منفرد اسلوب کے علاوہ نفسیاتی اور فلسفیانہ پہلوئوں پر بھی گہری نظر رکھتی ہیں۔ان کے افسانوں میں معاصر انسانی رویوں کی شکست و ریخت ہے، جس کو وہ ماضی کی بازیافت اور وقت کے تسلسل کے طور پر برتتی  ہیں۔ قرۃ العین حیدرخا لص کلاسیکی ضابطے کی افسانہ نگار ہیں۔لیکن ان کے یہاں ماضی کی بازیافت ہے، وہ فنطاسی((fantacy محض تکنیک کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔غالباً یہی وجہ ہے کہ وہ کہا نی بیان نہیں کرتیں بلکہ آئیڈیازفارم کرتی ہیں۔تا ہم ان کی زبان بیانیہ کی ٹھوس زبان ہے۔ان کی کہانی کے متن میںایک اور کہانی پوشیدہ ہوتی ہے جس کو ہم بر صغیر کے دم توڑتی مشترکہ تہذیب و ثقافت اور جاگیر دارانہ نظام کے بکھرنے کا نوحہ کہہ سکتے ہیں۔

          جہاں تک قرۃ العین حیدر کے فکشن کا تعلق ہے ان کے ناول جس بسیط ماضی اور تاریخی و تہذیبی دور کی بازیافت کرتے ہیں۔ان کے افسانے اس کے متحمل نہیں ہو سکے، اور نہ ہی ان کے اس وژن کو ہی ان افسانوں میں کوئی راہ ملی جو ان کے ناولوں میں نظر آتا ہے۔یہاں تک کہ افسانہ ’’جلا وطن‘‘ اور ’’ہاؤسنگ سوسائٹی‘‘ جیسے طویل افسانوں  میں بھی وہ تقسیم کی تہذیبی اور تاریخی واردات کو اس طرح پیش نہیں کر سکیں،جس کو وہ ناول کے پیرایہ میں پیش کرتی ہیں۔وہ بیک وقت ماضی اور حال دونوں میں سانس لیتی ہیں۔ ان کے بیشتر افسانے اچھے خاصے طویل ہوتے ہیں کیوں کہ وہ جس سماجی نظام اور تاریخی و تہذیبی ماحول کو پیں نظر رکھتی ہیں اس کے لیے افسانہ متحمل نہیں ہو سکتا۔یہاں تک کہ وہ جس معاشرے کی تاریخ وتہذیب اور ثقافت کی عکاسی کرتی ہیںوہ در اصل اودھ کی جاگیردارانہ اقدار کے زوال کی کہانی ہے۔اس کہانی میں مشترکہ تہذیب کا بیان بھی ہے اور اس کے انہدام کا رونا بھی ۔کیونکہ برصغیر میں دم توڑتی ہوئی مشترکہ تہذیب     قرۃ العین حید ر کو بارہا پریشان کر تی تھی جس کا اظہار انھوں نے اپنی تخلیقات میں جابجا کیا ہے۔ پیش نظر افسانہ ’’جلاوطن‘‘تقسیم ہند کے اسی کرب کی داستان ہے۔یہ داستان محض ذہنی انتشار کی د استان نہیں ہے بلکہ مشترکہ تہذیب کے انہدام کی بھی داستان ہے ۔اس میں رشتوں کے مابین پیدا شدہ خلیج ،تہذیبی اقدار کے زوال کے ساتھ ساتھ اجنبیت و جلا وطنی کے کرب کا بھی بیان ہے۔اس سلسلے میںشفیع جاوید کا قول کافی غور طلب ہے۔

’’’جلاوطن ‘اور ’ہاؤسنگ سوسائٹی‘قرۃ العین حیدر کے یہ دونوں قدرے طویل افسانے ہیں اور ان کے تخلیقی سفر کے دو اہم سنگ میل ہیں۔ جہاں تصادم ہے،تاریخ اور تاریخیت (Hiastoricity) ہے،نئے دور کی پیچیدہ دنیا ہے،عالم تمام الجھا ہوا ہے۔ جلاوطنی اور ہجرتوں کے عبرتناک بیان ہیں۔ انسانی رشتوں کے انہدام کا تاسف ہے اور وہ صدی جو ابھی کچھ ہی دنوں قبل گزری ہے ،اس میں زوال آدم اور گمشدہ جنتوں کے کرب جھیلتے ہوئے لوگ ہیں۔‘‘ 

          (قرۃ العین حیدر : شخصیت اور فکر و فن، خدا بخش اورینٹل پبلک لائبریری، پٹنہ، اگست2008 ،ص 171 )

          جلاوطن ا فسانہ میں تقسیم ہند کی ہولناکیوں کا ذکرہی نہیں ملتابلکہ تقسیم سے قبل وتقسیم کے بعد کا منظر نامہ بھی ملتا ہے۔یہاں تقسیم ہند سے قبل کا ہندوستا ن اپنی مشترکہ تہذیب وتمدن کی گواہی دے رہاہے۔ہندوستانی تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ اخوت وبھائی چارگی ،اخلاق ومحبت یہاں کی تہذیبی روایت کا حصہ رہی ہے۔ قدیم ہندوستان میں سامراجیت کے تصور نے اگرچہ اپنے پنکھ پسارے رکھے تھے لیکن اس معاشرے کی خوبصورتی یہ تھی کہ لوگ مذہبی تفریق کی بنا پر ایک دوسرے سے خائف نہیں تھے۔ ہندوئوں کے مذہبی تہواروں مثلاً ہولی ، دیوالی ،درگا پوجا اور مسلمانوں کے مذہبی تہواروں مثلاً عید ، بقر عید اور محرم وغیرہ  میں دونوں اقوام کے لوگ شریک ہوتے اور قو می یکجہتی کا بھر پور ثبوت دیتے۔ حکومت چاہے ہندوئوں کی رہی ہو یا مسلمانوں کی آپسی بھائی چارگی کا جو تصور ہندوستانی معاشرے میں قائم تھا اس کی مثال تاریخ میں بہت کم ملتی ہے۔ اگریہ کہا جائے کہ اس عہد میں ہندو ومسلم کا رہن سہن ،کھان پان سب کچھ ایک جیسا تھاتو مبالغہ نہ ہوگا۔اس سلسلے میں ذرا یہ مکالمہ دیکھیے:

’’ہندو مسلمانوں میں سماجی سطح پر کوئی واضح فر ق نہ تھا۔ خصوصاً دیہاتوں اور قصبہ جات میں عورتیں زیادہ تر ساریاں اور ڈھیلے پائجامے پہنتیں۔ اودھ کے بہت سے پرانے خاندانوں میں بیگمات اب تک لہنگے بھی پہنتیں ۔ بن بیاہی لڑکیاں ہندو اور مسلمان دونوں ساری کے بجائے کھڑے پائیچوں کا پائجامہ پہنتیں۔۔۔۔۔۔  زبان اور محاورے ایک ہی تھے۔ مسلمان بچے برسات کی دعا مانگنے کے  لیے منہ نیلا پیلا کیے گلی گلی ٹین بجاتے پھرتے اور چلاتے __ برسورام دھڑا کے سے بڑھیا مرگئی فاقے سے۔ گڑیوں کی بارات نکلتی تو وظیفہ کیا جاتا__ ہاتھی گھوڑا پالکی__ جے کنہیاں لا ل کی۔مسلمان پردے دار عورتیں جنہوں نے ساری عمر کسی ہندو سے بات نہ کی تھی ۔رات کو جب ڈھولک لے کر بیٹھتیں تو لہک لہک کر الاپتیں__بھری گگری موری ڈھرکائی شام__کرشن کنہیاکے اس تصور سے ان لوگوں کے اسلام پر کوئی حرف نہ آتا تھا ۔ یہ گیت اور کجریاںاور خیال، یہ محاورے، یہ زبان، ان سب کی بڑی پیاری اور دلآویز مشترکہ میراث تھی۔ یہ معاشرہ جس کا دائرہ مرزا پور اور جون پور سے لے کر لکھنؤ اور دلّی تک پھیلا ہوا تھا۔ ایک مکمل اور واضح تصویر تھا۔جس میں آٹھ سو سال کے تہذیبی ارتقا نے بڑے گمبھیر اور بڑے خوبصورت رنگ بھرے تھے۔‘‘ 

          ( قرۃ العین حیدر، پت جھڑ کی آواز(افسانوی مجموعہ)، مکتبہ جا معہ لمیٹڈ، نئی دہلی، 1965،ص 58-59)

          یہ تمام جزئیات دراصل اس تمدن کی مظہر تھیں جنہیں پچھلی صدیوں میں مسلمانوں کی تہذیبی ہمہ گیری اوروسعت نظر اور ایک رچے ہوئے جمالیاتی حس نے بڑے چاو سے جنم دیا تھا۔یہ گیت اور گجریاں اور خیال، یہ محاورے،یہ زبان ، ان سب کی بڑی پیاری اور دل آویز تصاویرہمار ے مشترکہ تہذیب کی میراث تھی جسے قرۃ العین حیدر کے یہاں بخوبی تلاش کیا جا سکتا ہے۔ اب جب کہ موجودہ تناظر میں اس کی نوعیت یکسر بدل چکی ہے، لیکن روایت کا اپنا جدلیاتی عمل تو ہوتا ہی ہے اور زبان و بیان کی جمالیات کے اپنے کچھ بنیادی خصائص بھی ہوتے ہیںجو کہ زماں و مکاں کے پا بند ہونے کے باوجود ہر مقام اور ہرزمان میں اپنی لازوال قوتوں کاثبوت فراہم کرتے ہیں۔ تاہم اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ وہ زماں و مکاںکی پابند ہو کر رہ جاتی ہیں۔ بلکہ اس کے بر عکس وہ زماں و مکاں یکسر توڑ پھوڑ دیتی ہیں۔ کیونکہ وہ جس سماج اور جس عہد سے بر سر پیکار ہیں اس میں روایت کی جڑیں بہت گہری اور وسیع ہیں تاہم فن کی اساسی اقدار یا یہ کہہ لیجیے فکشن کے اساسی اقدار پر وہ کسی مغالطے کا شکارقطعی نہیں ہو تیں۔ ان کے افسانوی بنت میں ڈرامائی کیفیت اور مصور کی جزئیات کام کرتی ہیں۔  قرۃ العین حیدر حقیقت کو رد تو نہیں کرتیںلیکن حقیقت کا نیا انکشاف ضرور کرتی ہیں چونکہ انھوں نے اپنے افسانوں میں ان تمام حالات کو پیش نظر رکھا جہاں زندگی کی اعلیٰ قدریں اپنی معنویت کھو رہی تھیں یا کھو چکی تھیں۔ افسانہ ’’جلا وطن‘‘ کو اگر سماجی اور ثقافتی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تویہ تقسیم سے قبل اور بعد کی صورت حال کو ایک ناسٹلجیا کے طور پر پیش کرتا ہے۔

          قرۃالعین حیدر نے ’’جلا وطن‘‘  میں اپنے تمام مرکزی کرداروں کی جلا وطنی کی داستان سنائی ہے ۔ انھوںنے ایسے کردار پیش کیے ہیںجن کا تعلق تین الگ الگ نسل سے یا یوں کہیں تین جنر یشن سے ہے۔ یہ کردار گرچہ اپنی نسلوں کی نمائندگی کرتے ہیں لیکن ہر ایک کی زندگی انتہائی کرب انگیزاور جلا وطنی کے درد کو سمیٹے ہوئے ہے۔دوسرے لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ اس عہد کا مقدر ہی جلا وطنی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ مصنفہ نے جان بوجھ کرزیادہ تر کرداروں کی نفسیاتی کیفیت کو اس جلا وطنی کے پس منظر میں دکھانے کی کوشش کی  ہو تا کہ قارئین اس ذہنی کرب کو محسوس کر سکیں جسے اس عہد کے ہر خاص و عام نے ہر لمحہ برداشت کیا ہے۔

          افسانے کے پہلے مرکزی کردار آفتاب رائے نہایت ملنسار ، با اخلاق اور روایتی اقدار کے پاسدارہیں۔وہ ایک یونیورسٹی میںتاریخ کے پروفیسرہیں۔ مشترکہ تہذیب کے پروردہ آفتاب رائے تقسیم سے قبل کے بدلتے ہوئے سیاسی اور سماجی حالات سے مایوس ہیں۔ جہاں ایک طرف ہندومہاسبھائی انھیں مسلمان بننے کامشورہ دیتے ہیں اور جون پور کا قاضی جیسے فقرہ سے نوازتے ہیں وہیں دوسری طرف مسلمان نو عمر لڑکے لڑکیاں انھیں کٹر مہا سبھائی تصور کرتے ہیں ۔گویا کہ آفتاب رائے جیسا مشترکہ تہذیب کا پروردہ دونوں فرقے کے لوگوں کو قابل قبول نہیں ہوتا۔ اس صورت حا ل میں آفتاب رائے اپنوں کے درمیان پھیلی اس جلا وطنی کے کرب کو بڑی شدت سے محسوس کرتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی ذات کے کھول میں سمٹ کر رہنا پسند کرتے ہیں اور جلا وطنی کی زندگی کو اپنا تے ہیں۔یہاں مصنفہ نے بڑے سفاکانہ انداز میں آفتاب رائے کی نسل کا المیہ پیش کیاہے۔

           اس افسانے کادوسرا مرکزی کردار کنول کماری ہے جسے آفتاب رائے نے نہ صرف ٹھکرا دیا بلکہ اس پر تحفظ کوشی اور سماجی ومعاشی معیار کی جستجو کا الزام بھی عائد کردیا ۔ کنول کماری آفتاب رائے کے اس رویے سے جس ذہنی کرب میں مبتلا ہوئی وہ اس کے لیے نہایت اذیت ناک ثابت ہوئی۔ یہی ذہنی کرب ، ازلی و ابدی پچھتاوئے کا یہی ویرانہ، اسے جلا وطنی کی کیفیت سے دوچار کرتا ہے اور وہ اس کشمکش میں یہ کہہ اٹھتی ہے کہ:

’’آفتاب بہادر تم کو پتہ ہے کہ میری کیسی جلاوطنی کی زندگی ہے ۔ذہنی طمانیت اور مکمل مسرت کی دنیا جو ہوسکتی تھی۔ اس سے دیش نکالا جو مجھے ملا ہے اسے بھی اتنا عرصہ ہوگیا کہ اب میں اپنے متعلق کچھ سوچ بھی نہیں سکتی۔‘‘  (ایضا ً ، ً  ص 84 )

          آفتاب رائے کا کنول کے بجائے اپنے خاندان کو ترجیح دینا ان کی ذہنیت پر سوال اٹھاتا ہے۔ یہاں قرۃ العین حیدر نے تانیثیت کے پس منظر میں کنول کماری کے احساسات کا جائزہ لیا ہے۔ جہاں درد ہے ، کسک ہے ،شکست خوردگی کا احساس ہے ۔ آفتاب رائے نے کنول کماری کے عوض زندگی کے جو خواب سجائے تھے وہ شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکے۔ شکست خواب کا کرب ناک دور شروع ہوا۔ زمینداری کا خاتمہ ہوگیا۔ اب اس کی جگہ سرمایہ دارانہ نظام نے لے لی۔ وہ اپنے ہی معاشرے میں اجنبی ہوگئے اور اپنی تلاش وجستجومیں خود کو Undergroundکرلیا۔ اس سلسلے میں مسرت جہاں نے بہت خوب لکھا ہے:

’’آفتاب رائے اپنی تہذیبی فضا سے سیاسی تبدیلیوں کے ہاتھوںجلا وطن ہوئے انھوں نے خود بن باس لیا،اپنی تکمیل کی خاطر انھوں نے کنول کو چھوڑا تاکہ خود بے گانگی کا شکار نہ ہوں۔ کنول کو سب ملا جو آفتاب رائے کو نہ ملا لیکن اسے خود بیگانگی کا کرب ملا وہ اپنی ذات سے جلاوطن ہوئی۔ آفتاب رائے کی جلاوطنی خوداختیاری ہے اور کنول کی مجبورانہ ۔رام نے اپنی تکمیل کے  لیے بن باس لیا،وہ ہیروبنے خود کو پایا۔ پھر حکومت ہی نہیں بلکہ دلوں کے راج سنگھاسن پر بھی بیٹھے ۔سیتا نے رام کی طرح بن باس لیا خود کو کھویا ۔لاکھوں کے بول سہے اور بن باس ختم ہونے کے بعد اس کا نیابن باس شروع ہوا جس کی کوئی معیاد نہ تھی، ازلی ابدی جلاوطنی…‘‘    

          (قرۃ العین حیدر کی افسانہ نگاری: ایک تنقیدی مطالعہ، ڈاکٹر مسرت جہاں،عرشیہ   پبلی کیشنز، دہلی ،2014، ص 122)

          بہرحال آفتاب رائے اور کنول کماری کے کردار کی صورت میں قرۃالعین حیدر نے نہ صرف ایک عورت کے فطری جذبات کو انگیز کیا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس دور کے بدلتے حالات اور تہذیبوں کے تصادم کو بھی پیش نظر رکھا ہے۔ ایک طرف کنول کماری ہے جو آفتاب رائے کو اپنی اس جلاوطنی کی زندگی کے لیے قصور وار ٹھہراتی ہے تو دوسری طرف آفتاب رائے آخر تک اپنی ذات کوپانے کی جستجو      میں منہمک ہے۔ ادھر کنول کماری ہے جو انھیں کھو کر بھی نہیں کھوتی وہیں دوسری طرف ٓفتاب رائے اپنی ذات کے کھول میں سمٹ کر بھی اس جلا وطنی کے کرب سے محفوظ نہیں رہ پاتے۔

          یہاں قرۃ العین حیدر نے جس خوبصورتی اور جس فنی چابکدستی سے اس جلا وطنی کے کرب کو پیش کیا ہے وہ ان کی سماجی و اخلاقی اقدار کی نمائندگی کرتا ہے۔ہمیں اس امر کو بھی ذہن نشیں رکھنا چاہیے کہ قرۃالعین حیدر کی رومانیت میں کلاسیکی اقدار و اخلاق کی بوسونگھ لینا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ تا ہم اسلوب کے اظہار سے وہ رومانی کہی جا سکتی ہیں۔ اسی ضمن میںمشہور و معروف افسانہ نگار انتظارحسین کا قول صادق آتا ہے کہ تقسیم سے پہلے قرۃالعین حیدرنہ اس انداز میں سوچ سکتی تھیں نہ لکھ سکتی تھیں۔ چونکہ قرۃالعین حیدر کلاسیکی ضبط کی افسانہ نگار ہیںاس  لیے ان کے یہاں ماضی کی بازیافت ہے جو ایک مخصوص سچویشن میں قاری کے ذہن پر اثر انداز ہوتی ہے اور اسی مناسبت سے ہمارا ردعمل کبھی کم شدید ہوتا ہے اور ذہن کے کسی ایک کونے میں وارداتوںکا ایک سلسلہ ابھرنے لگتا ہے اور پوری طرح ذہن پر چھا جا تا ہے۔ جہاں سے یہ عمل شروع ہوتا ہے وہیں سے کہانی اپنی جگہ پکڑ لیتی ہے۔

            افسانہ نگار جس عہد میں زندگی گزار رہا  ہوتا ہے وہ ا س عہد کی سیاست سے بے تعلق ہو سکتا ہے نہ سماجی اقدار سے اور نہ ہی اپنی ذات سے۔ ایسی صورت میں وہ جذبات کے دباؤ کو محسوس کئے بغیر بھی نہیں رہ سکتا۔یہ الگ بات ہے کہ جذبے کا یہ دباؤ اس کے نزدیک کتنا معنی رکھتا ہے۔ اگر اس پس منظر میں ہم دیکھیں تو ان کے افسانوں میں کہانی کرداروں کے ساتھ اپنے شیریں اسلوب میں تاریخ کی بازیافت اور تہذیب و ثقافت میں رنگ بھرتی ہوئی نظر آتی ہے ۔ افسانہ جلا وطن میں کشوری اور کھیم وتی کے کردار بھی غور طلب ہیں۔ گرچہ ان کرداروں کا تعلق نئی نسل سے ہے لیکن یہ بھی جلا وطن کے کرب سے دو چار ہیں۔کشوری اور کھیم وتی بچپن کی سہیلیاں تھیں۔ عید ،شب برات، ہولی و دیوالی کی خوشیوں میں جھوم جایا کرتی تھیں۔ لیکن اس گنگا جمنی تہذیب پر سیا ست کے کالے بادل منڈرانے لگتے ہیں اور آہستہ آہستہ ان کے درمیان مذہبی فرقہ پرستی کی دیواریں حائل ہونے لگتی ہیں۔ یونیورسٹی کی سیاسی فضا میں دونوں اس قدر کھو جاتی ہیں کہ انھیں ایک دوسرے کے خاندانی روایات و اقدار اور جذبات کا خیال بھی نہیں رہتا ۔ کھیم وتی ہندو مہا سبھا کی حمایتی بن جاتی ہے جبکہ کشوری مسلم لیگ کی ایک سرگرم رکن بن کر ہمارے سامنے آتی ہے اوردونوں لمحہ لمحہ بنتے بگڑتے سیاسی مذہبی اور تہذیبی کشیدگی میں پوری طرح ملوث ہو جاتی ہیں جیسے جیسے سیاسی حالات تبدیل ہوتے ہیں ان دونوں کے مابین بھی دیواریں حائل ہونے لگتی ہیں۔ ایک وقت ایسا آتا ہے جب دونوں ایک دوسرے کی شکل تک دیکھنا پسند نہیں کر تیں۔اس کے بر عکس کشوری کے با با سید جعفر عباس ایک قوم پرست اور روایتی اقدار کے حا مل انسان تھے۔

           قرۃالعین حیدرکے نزدیک ماضی کی باز یافت کا عمل ہی وہ واحد شناخت ہے جو انھیں انفرادیت عطا کرتی ہے۔ یہ المیہ کم نہیں کہ انھوںنے انسان کی ان بنیادی قدروں سے اسے ناپنے یا دریافت کرنے کی کوشش کی۔ان کا یہ رومان پرور رویہ ان کی جذباتیت کی گواہی دیتا ہے۔ قرۃالعین حیدر ہر صورت حال ہر واقعے اور تبدیلی کی گواہ ہی نہیں بنتیں بلکہ اس میں اپنی شراکت داری اور موجودگی کا جواز فراہم کرتی ہیں۔ جس کو ہم ایک حد تک اجتماعی Isolation  کا نام دے سکتے ہیں۔گویا محض داخلیت پر یہ اصرار ان کی ذہنی کیفیت کی غمازی کرتا ہے۔اجتماعی  Isolation  کا یہ عمل ایک حد تک اذیت ناک مرحلے میں داخل ہو جاتا ہے اور ان کے ذہنی کرب کی آماجگاہ بن جا تا ہے۔

          کشوری اپنی تعلیم مکمل کرنے کے فوراً بعد پاکستان جانا چاہتی ہے جب کہ اس کے والد ہندوستان میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ لیکن اپنے والد صاحب کو اکیلا چھوڑ کر وہ پاکستان نہیں جانا چاہتی۔ معاشی حالات خراب ہونے کی وجہ سے وہ ہندوستان میں ملازمت کی تلاش کرتی ہے مگر اسے ہر جگہ مایوسی کا سامنا کرنہ پڑتا ہے۔وہ Economicsکی بہترین طالبہ ہونے کے باوجود نوکری پانے سے قاصر رہتی ہے ۔

          اس طرح کے مکالموں سے قرۃالعین حیدرنے تقسیم کے بعد کے سیاسی اور سماجی رویے کو نہ صرف منعکس کیا ہے بلکہ اس ذہنی کرب اور کشمکش کو بھی پیش کیا ہے جس سے اس عہد کا ہر خاص و عام دوچار تھا۔کشوری کو ہندوستان میں رہنے کے باوجود پاکستانی تصور کرنا دراصل اس جلا وطنی کی داستان ہے جس کی جڑیں بے دخلی ، بے زمینی اور تہذیبی اقدار کے مٹنے سے سروکار رکھتی ہیں۔ یہ جلا وطنی محض کشوری کی نہیں بلکہ یہ اس عہد کا المیہ ہے جس کو قرۃالعین حیدر نے انتہائی کرب سے بیان کیا ہے۔یہ اقتباس دیکھئے:

’’ہم لوگ یونیورسٹی کی اونچی اونچی ڈگریاں حاصل کررہے ہیں۔ تہذیبی میلے اور تہوار منعقد کرنے میں مصروف ہیں۔ ہے مارکیٹ کے مخصوص تھیٹر وں میںاپنے بیلے کے پروگرام پیش کرتے ہیں۔ امن کانفرنسوں اور یوتھ فیسٹولزمیں شامل ہوتے ہیں لیکن یہاں سے واپس لوٹ کرکیا ہوگا۔

 تم نے کبھی خیال کیا ہے کہ میں کہاں جاؤں گی __؟ میرا گھر اب کہاں ہے؟ کیا میں اور میری طرح دوسرے ہندوستانی مسلمان ایسے مضحکہ خیز اور قابل رحم کرداربننے کے مستحق تھے__؟؟ ‘‘   ( ایضا ً ، ص 88-89)

          ان تمام غیر یقینی اور بے اطمنانی کے باوجود قرۃالعین حیدر نا امید نہیں ہیں انھیں یقین ہے ایک نہ ایک دن حالات ضرور بدلیں گے اور روح کی یہ جلا وطنی ضرور ختم ہو گی اور مستقبل کے امکانات روشن ہوںگے۔ در اصل یہ ایک طرح کی رجائیت ہے اور قرۃالعین حیدر اپنے ناول اور افسانوں میں اسے قائم رکھتی ہیں۔ جلا وطن کا اختتام جتنا ڈرامائی ہے اس سے کہیں زیادہ رجائی ہے:

’’یہ ہمارا پرانہ عہد نامہ تھا۔ان کے خیالات تباہ ہو چکے ۔اب ان کے پاس کیا باقی رہا ہے__آرگن کے مدھم اور لرزہ خیز سروں کے ساتھ قدم اٹھائے ہوئے وہ سب آہستہ آہستہ اپنے راستے پر واپس آئے۔

کنول رانی __کسی نے اندھیرے میںیک لخت پہچان کر چپکے سے پکارا۔ یہاں آجاو۔اور ہمارے ساتھ کھڑے ہو کر اس خوبصورت روشنی کو دیکھو جو آسمان پر پھیل رہی ہے۔ اب کسی پچھتاوے ۔کسی افسوس کا وقت نہیں ہے۔

پرانے عہد نامے منسوخ ہوئے ‘کشوری نے آہستہ سے دہرایا۔ ہم ا س طرح سے زندہ نہ رہیں گے۔ ہم یوں اپنے آپ کونہ مرنے دیں گے۔ ہماری جلاوطنی ختم ہوگی

ہمارے سا منے آج کی صبح ہے۔ مستقبل ہے ساری دنیا کی نئی تخلیق ہے۔ لیکن کنول کماری—تم اب بھی رو رہی ہو—؟‘‘(ایضاً، ص 91 )

          اس اقتباس سے افسانہ نگار کے رجائی پہلو کی بھر پور عکاسی ہو تی ہے۔یہ وہی کنول کماری اور کشوری ہے جو بچپن میںایک دوسرے کی دوست ہیں لیکن کالج اور یو نیور سٹی کے زمانے میں حالات کے جبر کا شکار ہو جاتی ہیں۔ تقسیم ملک کے بعد کنول کماری لندن چلی جا تی ہے کشوری بھی حالات سے مجبور ہو کر معاشی مجبوریوںکی وجہ سے لندن چلی جا تی ہے اور وہاں پر جب دونوں کی ملاقات ہوتی ہے تو کنول کنواری کشوری کو پاکستانی ہونے کا طعنہ دیتی ہے یہ قرۃالعین حید کی رجائیت ہی ہے کہ وہ اس طعنہ زنی کے باوجود دونوں کرداروں کو پھر سے یکجا کر دیتی ہیں اور دونوں میں بھائی چارگی کا وہ جذبہ پیدا کرتی ہیں جو افسانہ نگار کو بے حد عزیز ہے ۔

          مختصر طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ افسانہ محض تقسیم کا المیہ نہیں بلکہ مذہبی بھائی چارگی کے درمیان بڑھتی خلیج کی داستان بھی ہے ۔ یہ المیہ ہماری مشترکہ تہذیب کے زوال کی نشاندہی کرتاہے۔ا یک سچے فنکار کی کامیابی کی دلیل یہ ہے کہ اس کی تخلیقات ہر عہد میں با معنی ہوتی ہیںاور اپنے اندر قارئین کو متاثر کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتی ہیں۔ اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تویہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ قرۃالعین حیدر کا افسانہ ’’ جلا وطن‘‘ ان کے بہترین افسانوں میں سے ایک ہے۔

 

Dr. Mohammad Shafquat Kamal

HOD Urdu                            

T. D. B College

Raniganj- 713347 (W.B)

Mob: 9333719601

E-mail: shafquatkamal@gmail.com




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں