15/2/22

بہار کی خواتین افسانہ نگار - مضمون نگار : ریحانہ پروین

 



          بہار میں اردو افسانہ نگاری کاپہلا دور 1936سے شروع ہوتا ہے۔ بہار میں اردو کے پہلے افسانہ نگار مسلم عظیم آبادی کو تسلیم کیا جاتا ہے۔    ان کے ساتھ ساقی عظیم آبادی اور جمیل مظہری بھی افسانے لکھ رہے تھے ۔ جمیل مظہری کا افسانہ ’’فرض کی قربان گاہ‘‘ ،رسالہ’’ ندیم ‘‘گیا  میں شائع ہوا۔ مسلم عظیم آبادی کا افسانہ’’ محبت وجاہ وثروت کی کشمکش ‘‘کے عنوان سے’’الناظر‘‘ لکھنؤ سے شائع ہوا۔ اسی دور میں زبیر احمد تمنائی کا افسانہ ’’سماج کی قربان گاہ پر‘‘حبیب اللہ جھٹکیا وی کا افسانہ ’’قربان گاہ رسم پر ایک بھینٹ‘‘ اور سید مظہر الحق قادری کا افسانہ ’’سو سائٹی کی قربان گاہ پر‘‘ کے نام سے شائع ہوئے۔

          جہاں تک بہار میں فکشن افسانہ نگاروں کا معاملہ ہے تو اردو کی پہلی خواتین ناول نگار رشیدۃ النسائ جو پٹنہ کی رہنے والی تھیں۔ انھوں نے 1881میں ’’اصلاح النسائ‘‘ کے نام سے ایک ناول لکھا۔ جو 1894میں ان کے صاحبزادے نے شائع کرایا۔

          اب تک کی تحقیق کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شکیلہ اختر بہار کی پہلی خواتین افسانہ نگار ہیں۔ ان کا پہلا افسانہ بعنوان ’’رحمت‘ ‘ 1936 میں رسالہ ’’ادبِ لطیف‘‘ لاہور میں شائع ہوا تھا۔ اب تک ان کے چھ افسانوی مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔(1)درپن ،(2)آنکھ مچولی (3) ڈائن ،(4)آگ اور پتھر(5)لہو کے مول(6)آخری سلام۔ ان کا ایک نا ولٹ ’’تنکے کا سہارا ‘‘بھی اہمیت کا حامل ہے۔ شکیلہ اختر کے مشہور افسانوں میں ’’آنکھ مچولی‘‘ ، ’’ڈائن‘‘ ،’’پیاسی نگاہیں‘‘، ’’گھریا ویرانہ‘‘، ’’سیندور کی ڈبیا‘‘ ، ’’موسی‘‘، ’’لجیا‘‘، ’’کیڑے‘‘ اور مظلوم و غیرہ ہیں۔ موضوع و مواد، زبان و بیان، کردار و مکالمے، مناظر وماحول وغیرہ پر ان کی گرفت بہت مضبوط ہے۔ جزئیات نگاری میں بھی کمال رکھتی ہیں۔ ’’ڈائن‘‘ میں تلخ حقیقت نگاری اور ’’نئی نسل‘‘میں اخلاقی قدروں کی پامالی کو پیش کیا گیا ہے۔ ’’پیاسی نگاہیں‘‘ میں ایک بیوہ عورت کے درد کو بیا ن کیا گیا ہے۔ ’’آنکھ مچولی ‘‘ ایک نفسیاتی افسانہ ہے جس میں پروین کے کردار کو بہت ہی خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

          شکیلہ اختر کے بعد نسیمہ سوزاور رضیہ رعنانے بھی افسانے لکھے ہیں۔ نسیمہ سوزکے افسانے رسالہ ’’ندیم‘‘، ’’سہیل‘‘ گیا اور ’’ادبِ لطیف‘‘ لاہور میں شائع ہوئے۔ بعد میں نسیمہ سوزپا کستان چلی گئیں اس لیے ان کی تخلیقات بہت کم نظروں سے گزری ہیں۔ رضیہ رعنا بھی چند افسانے لکھنے کے بعد شاعری کی طرف چلی گئیں۔

          خواتین افسانہ نگاروں میں اعجاز شاہین، نعیمہ قمر، عصمت آرا، نصرت آرا، امتیاز فاطمی، شمیم افزائ قمر، شمیم صادقہ وغیرہ نے کئی اچھے افسانے لکھیں۔ اس دور کا آغاز 1960سے ہوتا ہے۔

          شمیم صادقہ اس دور میں ایک اہم افسانہ نگار کے روپ میں اُبھرتی ہیں۔ ان کے مشہور افسانوں میں’’کر چیاں‘‘، ’’لت‘‘ اور ’’ ڈیڈ ہاؤس‘‘ کو شمار کر سکتے ہیں۔ شمیم صادقہ نے موضوع سے زیادہ اسلوب پر دھیان دیا ہے۔آدھے ادھورے چہرے، تنہائی کا کرب،ذات کی شناخت کا مسئلہ اور اس کی اہمیت ان کے افسانوں میںزیادہ نمایاں ہے۔ ان کے افسانے ایک نئے منظر نامے کا پتہ دیتے ہیں اور یہ محسوس کراتے ہیں کہ کس طرح عورتیں مردوں کے مقابلے میں کھڑی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ممتاز افسانہ نگاروں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ ان کے تین افسانوی مجموعے’’کر چیاں‘‘ 1979 ’’ادھورے چہرے‘‘ 1980اور ’’طرح ِدیگر‘‘ 1984میں شائع ہوئے۔ شمیم صادقہ کا افسانہ ’’ڈیڈ ہاؤس ‘‘ میں ایک بوڑھے اور بوڑھی کی کہانی پیش کی گئی ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ ہندوستان میں ڈیڈ ہاؤس کی کوئی ضرورت نہیں لیکن افسانہ کے آخر میں اس کا بیٹا اسے چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔ ہندوستان میں ’’ڈیڈ ہاؤس ‘‘ بھی نہیں ہے جہاں وہ اپنی بقیہ زندگی گزار سکے۔ بوڑھے والدین کے درد کو شمیم صادقہ نے بہت خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔

          اعجاز شاہین خواتین افسانہ نگاروں میں ایک اہم نام ہے۔ 1962 سے ان کے افسانے رسالوں میں شائع ہونے لگے تھے۔ ان کے دو افسانوی مجموعے ’’تصور اور تصویر‘‘ 1975میں اور ’’یہ وادیاں‘‘ 1983میں شائع ہو چکے ہیں۔ اعجاز شاہین کا انداز ِ بیان بے حد خوبصورت ہے اگر یہ کہا جائے تو بے جانہ ہوگا کہ اعجاز شاہین نے اپنے تجربات اور مشاہد ات کو اکثر اوقات بڑے خوبصورت انداز میں کہانی کا رنگ دے دیا ہے وہ خود اعتراف کرتی ہیں:

’’میرے اکثر افسانے کا موضوع بے بس مظلوم عورت …بے چاری عورت جو سراپا ایثار وفا ہے اکثر غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ اس نے اپنا حق پا لیا۔‘‘

          اعجاز شاہین کے افسانوں میں ہماری معاشرتی زندگی کی تلخ سچائیاں پوشید ہ ہیں۔ ان کے نمائندہ افسانوں میں ’’دو بوند آنسو‘‘ ،        ’’تصور اور تصویر‘‘ ، درد لا دوا‘‘، شیشہ کی دیوار‘‘، کچی کلی‘‘ اور ’’آئینہ‘‘ وغیرہ کا شمار ہوتا ہے۔دونوں افسانوی مجموعے پر اعجاز شاہین کو بہار اردو اکاڈمی نے انعامات سے نوازاتھا۔

          اسی زمانے میں عصمت آرا نے بھی چند خوبصورت افسانے اردوکو دیے ہیں۔ ان کے افسانے ’’دودھ کا جلا‘‘، ’’خول‘‘، ’’بابل کے گیت‘‘، ’’ستاروں کی موت‘‘ اور ’’گردِ کارواں‘‘ اہم ہیں۔ ان کا کوئی بھی افسانوی مجموعہ سامنے نہیں آیا ہے۔ افسانہ ’’گردِ کا رواں ‘‘میں عصمت آرانے لڑکیوں کے مزاج اور ان کی پسند نا پسند کو بہت دلکش انداز میں پیش کیا ہے۔ افسانہ ’’بابل کے گیت‘‘ میں شادی بیاہ کے مسئلے کو اٹھا یا ہے۔

          نصرت آرا بھی اردو کی ایک اہم افسانہ نگار تسلیم کی جاتی ہیں۔ ان کا ایک افسانوی مجموعہ ’’درد کا رشتہ‘‘ 1973میں منظر عام پر آیا۔اس میں کل سولہ افسانے شامل ہیں۔ نصرت آرا کے نمائند ہ افسانوں میں ’’درد کا رشتہ‘‘، ’’چوٹ‘‘، ’’باغی‘‘،’’ چنگاری کی آنچ‘‘، ’’کانٹے، ’’داغ‘‘ اور ’’قاتل‘‘ وغیرہ ہیں۔نصرت آرا نے بہت خوبصورت افسانے لکھے ہیں۔ اردوکی خواتین افسانہ نگاروں میں ان کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔

          نعیمہ قمر نے جب افسانہ لکھنا شروع کیا تو ان کے افسانے ’’آج کل‘‘،’’ایوان اردو‘‘ اور ’’شاعر‘‘ جیسے رسالوں میں شائع ہوئے لیکن بہت جلد افسانوی افق سے وہ غائب ہو گئیں۔ ان کے مشہور افسانوں میں ’’یادوں کاچراغ‘‘ ،’’طوفان کے بعد‘‘ اور ’’خواب اور حقیقت‘‘ وغیرہ ہیں۔ ان کے افسانے جدید طرز کے ہوتے تھے زبان و بیان پر مہارت حاصل تھی۔ انھوں نے اپنے وقت کے موجودہ سماجی مسائل کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا۔

          ذکیہ مشہدی ار دو کی معتبر افسانہ نگار ہیں۔ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’پرائے چہرے‘‘ 1984میں شائع ہوا۔ اس کے علاوہ ان کے پانچ افسانوی مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔’’تاریک راہوں کے مسافر‘‘ 1993 ’’صدائے بازگشت‘‘ 2003 ’’نقش نا تمام‘‘ 2008’’یہ جہان رنگ وبو‘‘ 2013اور ’’آنکھن دیکھی‘‘ 2015میں منظر عام پر آچکے ہیں اس کے علاوہ ان کے دو ناولٹ ’’پار سا بی بی کا بگھار‘‘ اور’’بلہاکہ جاناںمیںکون‘‘بھی شائع ہو چکے ہیں۔ ذکیہ مشہدی کے مشہور افسانوں میں ’’ماں‘‘، بکسا‘‘، ’’ہدو کا ہاتھی‘‘ ’’بُدا نہیں مری‘‘ ،’’ بھیڑیئے سیکولر تھے‘‘،’’ منظور وا‘‘، ’’اجن ماموں کا بیٹھکہ‘‘ اور ’’ہر ہر گنگے‘‘ کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ذکیہ مشہدی نے گھر اور آنگن کو اپنے افسانوں میں اس طرح سمیٹا ہے کہ وہ گھر آنگن نہ ہو کر ایک دنیا معلوم ہوتی ہے۔ افسانہ ’’ماں‘‘ میں ایک غریب عورت کی کہانی ہے جو اپنے محسن کو اپنا سب کچھ سونپ دیتی ہے لیکن اس کا محسن اسے گناہ سمجھتا ہے اور اس کا کفارہ ادا کرنا چاہتا ہے۔ ’’ہدو کا ہاتھی‘‘ میں اقدار کی پامالی کو پیش کیا گیا ہے۔افسانہ ’’بھیڑیئے سیکولر تھے‘‘ میں کئی ڈائمنشن نکلتے ہیں۔ افسانہ کی شروعات ساس سسر اور بہو کے رشتے کی تلخی سے ہوئی ہے ساس سسر مزاجاً سخت ہیں جو بہو کے ساتھ سختی سے پیش آتے ہیں۔ ایک عورت جو اپنا سب کچھ چھوڑ کر ایک اجنبی گھر پریوار میں آتی ہے اور اُسے وہ عزت نہیں ملتی جس کی وہ مستحق ہے تو اس کے اندر کی عورت ٹوٹ جاتی ہے۔ سروجا کو لہو کے بیل کی طرح کام میں لگی رہتی ہے اور جب وہ اپنے بیٹے مہیش کو سوتا ہوا چھوڑ کر ساگ دھونے چلی گئی اور جب واپس آئی تو اندھیرے کا فائدہ اُٹھا کر بھیڑیا اس کے بچّے کو لے کر بھاگ گیا۔ بدّا نہیں مری ’’کا آغاز‘‘ گاؤں کی مشترکہ تہذیب کی منظر نگاری سے ہوتا ہے۔ صفیہ افسانہ کا بنیادی کردار ہے جس کے گرد افسانہ گھومتا ہے۔ اس کی سہیلی ودھیا عرف بدّا بھی افسانہ میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے جو ہندو گھرانے سے تعلق رکھتی ہے۔ دونوں میں گہری دوستی ہے۔ دونوں کی شادی ہو جاتی ہے لیکن اب گاؤں کا ماحول بدل چکا ہے۔ نظریات میں تبدیلی آچکی ہے۔ گاؤں میں مذہبی جھگڑے پھیل رہے ہیں۔ گاؤں آنے پر صوفیہ بدّا کے بھائی سے ملنے جاتی ہے کیونکہ بدّا مر چکی ہے۔ بدّا کے بھائی کی تنگ نظری کودیکھ کر حیرت میں پڑ جاتی ہے۔ مصنفہ نے بدلتے حالات کی بہت خوبصورت عکاسی کی ہے۔

          قمر جہاں اردو کی اہم افسانہ نگار ہیں۔ اب تک ان کے تین افسانوی مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ ’’چارہ گر‘‘، ’’اجنبی چہرے ‘‘اور ’’یا د نگر‘‘ کے علاوہ کئی تنقیدی کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں۔ قمر جہاں کے افسانوں میں آج کی زندگی اور موجودہ عہد کے سائنسی ترقیوں کو بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔بقول اقبال واجد :

’’ہم قمرجہاں کو کسی بھی ازم کے خانہ میں رکھنا پسند نہیں کرتے۔ وہ بلا شبہ ایک Genuine فن کار ہیں جو خود اپنی تخلیقی تشکیل پر رواں دواں ہیں…انہوں نے 1980 کے بعد اردو افسانے میں اپنی ایک الگ پہچان بنائی ہے۔یہ پہچان اُن کی اپنی دریافت بھی ہے۔اور ان کا اپنا طرزِنشان بھی ۔‘‘

          شمیم افزائ قمر اردو کی اہم افسانہ نگار تسلیم کی جاتی ہیں۔ ان کا افسانہ ’’دل کا کیا رنگ کروں‘‘ بے حد مقبول ہے۔ ’’وش کنیا‘‘، ’’زیر لب‘‘ اور ’’کاغذی پیرہن ‘‘ان کے اچھے افسانوں میں شمار ہوتے ہیں۔ان کے دو افسانوی مجموعے ’’کاغذی پیرہن‘‘ اور ’’سب خیریت ہے‘‘ شائع ہو چکے ہیں۔ ان کا اندازِ بیان دلکش اور صاف ستھرا ہے۔ افسانہ ’’دل کا کیا رنگ کروں‘‘ میں مدعو لیکا اور امر جیت کی کردار نگاری کمال کی ہے ۔ بقول کلام حیدری یہ افسانہ کسک کا افسانہ ہے۔

          تبسم فاطمہ کے دو افسانوی مجموعے’’لیکن جزیرہ نہیں‘‘ 1995اور ’’تاروں کی آخری منزل ‘‘2012میں شائع ہو چکے ہیں۔ پہلے مجموعے کے مقابلے دوسرا مجموعہ ہر اعتبار سے بہتر اور خوبصورت کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ ’’تاروں کی آخری منزل‘‘ کے نام میں بھی کشش ہے۔ موضوع میں نئے پن کے ساتھ اسلوب میں بھی ہنر مندی اور قاری کو آسانی سے اپنی گرفت میں لینے کا انداز نمایاں ہے۔تبسم فاطمہ کے یہاں باغیانہ تیور دکھائی دیتے ہیں ۔ وہ سوئی ہوئی عورت کو جگانا چاہتی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ عورت اپنے حق کے لیے لڑے اور نئی ایجادات کو نہ صرف اپنی زندگی میں شامل کرے بلکہ مردوں سے بھی آگے نکل جائے۔ افسانہ ’’جرم،’’تاروں کی آخری منزل‘‘، حصار شب کا طلسم‘‘اور ’’ندامت‘‘ وغیرہ ان کے کامیاب افسانے ہیں۔

          تسنیم کوثر کا ایک افسانوی مجموعہ’’بونسائی‘‘ 1995میں شائع ہوا ۔ ان کے افسانوں میں عورت کا ایک نیا روپ سامنے آتا ہے۔ ’’بونسائی‘‘، ’’ملیچھ‘‘،’’مہاجر‘‘،’’انوکھارشتہ‘‘اور’’گردش ایام ‘‘ان کے مشہورافسانے ہیں۔ ان کااسلوب ان کے ہم عصروں سے علیحدہ ہے۔ کہانی کہنے کافن بھی انھیںآتاہے اورنبھانابھی ۔حالانکہ انھوںنے بہت کم افسانے لکھے لیکن بہارکی خواتین افسانہ نگاروںمیںایک اہم افسانہ نگار تسلیم کی جاتی ہیں۔

          عنبری رحمن کا ایک افسانوی مجموعہ منظرِ عام پر آچکا ہے۔ عنبری رحمن نے اپنے افسانوں میں مردوں کی نفسیات اور ان کی ذہنیت کا بھر پور مطالعہ کیا ہے۔ان کے مشہورافسانوںمیں’’آخرمیںبھی انسان ہوں‘‘،’ ’کسوٹی ‘‘، ’’چڑیوںکاچمپا‘‘اور’’میرافیصلہ‘‘ہے۔وہ عورت کو مجبوراوربے بس دیکھنا نہیں چاہتیں بلکہ عورت کے اندر توانائی پیداکرناچاہتی ہیں۔

          تسنیم کوثر کی ہی معاصر نکہت پر وین بھی ہیں۔ ان کا افسانوی مجموعہ ’’سلسلے درد کے‘‘ 1997میں منظرِ عام پر آیا اور ادبی حلقے میں مقبولیت حاصل کر چکا ہے۔ ’’رشتوں کے گیت ‘‘، ’’سلسلے درد کے‘‘ ،’’پتھر کا آدمی ‘‘، اور ’’بوجھ‘‘ وغیرہ ان کے مشہور افسانوں میں شمار ہوتے ہیں۔

           زینب نقوی کاتعلق سیوان سے ہے ۔ان کا پہلاافسانوی مجموعہ ’’ریت کی دیوار‘‘2004میںشائع ہوا جس میںکل 15افسانے شامل ہیں۔زینب نقوی کے افسانے کے موضوعات عام زندگی سے لیے گئے ہیں۔وہ چھوٹے چھوٹے واقعات کواس طرح افسانے میںڈھال دیتی ہیں کہ پڑھنے والااس سے متاثر ہوئے بغیر نہیںرہتا۔ان کے مشہور افسانوںمیں’مہندی آپ کی‘،’‘زیور،’ہنی مون‘،’اپناپرایا‘،’خوشی کے آنسو‘ اور ’ریت کی دیوار‘ہیں۔

           نزہت پر وین کاپہلاافسانہ ’گردان‘کے نام سے 1972 میںشائع ہوا۔وہ1972سے لگاتارلکھ رہی ہیں۔ ’گردان‘ ، ’اندھیرے کاسفر‘ ’روشن اندھیرا‘اور ’تاش کے پتے‘ان کے مشہورافسانے ہیں۔

           نزہت نوری1941میںگیامیںپیداہوئیں۔ان کا پہلا افسانہ 1969میںبیسویںصدی ،دہلی میںشائع ہوا۔وہ تقریباً سبھی بڑے اور معیاری رسالوںمیںشائع ہوچکی ہیں۔’سبز نقش‘،’شیشے کاچاند‘،’روشنی اورریزے‘،’سناٹا‘ان کے مشہورافسانے ہیں۔

           شیریںنیازی کاافسانوی سفر 1960کے آس پاس شروع ہوا۔ انھوںنے تقریباًدوسوافسانے لکھے ہیں۔وہ عام زندگی کو اپنے افسانے کاموضوع بناتی ہیں۔ریزہ ریزہ ،ایک پتہ پت جھڑ کا،ٹوٹے شیشے کادرپن،فسانہ شب تار ان کے مشہورافسانے ہیں۔

           امتیاز فاطمی کاافسانوی مجموعہ ’ڈوبتی شام‘1993میںشائع ہوا۔ انھوںنے عورتوںکے دکھ دردکواپنے افسانوں کاموضوع بنایا۔وہ عورتوں کو تعلیم یافتہ دیکھناچاہتی ہیںتاکہ ایک نئے سماج کی تشکیل ہوسکے۔’مٹی کے دئیے ‘،’شمع فروزاں‘،’امربیل‘اور’گھرکاچراغ‘ان کے اہم افسانے ہیں۔

           صبوحی طارق کا پہلاافسانہ ’جنگلی پھول کے نام سے‘سالنامہ عفت کراچی 1962میںشائع ہوا۔وہ پابندی سے لکھتی رہی ہیںاورملک کے اہم اورمعیاری رسالوںمیںشائع ہوتی رہی ہیں۔ان کاایک افسانوی مجموعہ ’دردکاگلاب‘1986میںشائع ہوا۔’تم زلیخاہو‘،’دردکاگلاب‘، ’تنہائی کازہر‘،’شعلوںکی لپک‘ان کے مشہورافسانے ہیں۔

          ذکیہ مشہدی اورقمرجہاںکے بعداشرف جہاںمقبول افسانہ نگار تسلیم کی جاتی ہیں۔ وہ پٹنہ یونیورسٹی میںصدرشعبہ اردوبھی رہ چکی ہیں۔ان کاافسانوی مجموعہ’شناخت‘ کے نام سے1997میںشائع ہوا۔ اشرف جہاں کے افسانوںمیںعور ت کی شناخت کامسئلہ ابھرکرسامنے آتاہے۔ وہ عورت کو مختلف زاویے سے دیکھتی ہیں۔’وہ شام‘،’شناخت‘،’موم کی مریم‘اور’فکرآگہی‘ان کے مشہورافسانے ہیں۔

           نشاط افزانے 1964سے لکھناشروع کیا۔ان کاافسانوی مجموعہ ’آخر بہارآئی‘1994میںشائع ہوا۔ان کے یہاں گھرآنگن کی کہانی ہے۔موضوعات کاتنوع ہے اورلڑکیوںکے ذہنی انتشارکوبہت خوبصورتی سے اپنے افسانوںمیںپیش کیاہے۔’چاہت کی رہگزر‘،’جن پرتکیہ تھا‘،’آخر بہارآئی‘ان کے مشہورافسانے ہیں۔

     کہکشاں پروین کاپہلاافسانہ1979میںشائع ہوا۔ان کے افسانوںکاایک مجموعہ’ایک مٹھی دھوپ‘1986میںمنظرعام پر آچکا ہے۔ انھوں نے اپنے سماج ،ماحول اورتہذیب کواپنے افسانوںمیںجگہ دی ہے۔’ایک مٹھی دھوپ‘،’تلاش‘،’سمجھوتہ‘اور ’پھول کازخم‘ان کے اہم افسانے ہیں۔

           آشا پر بھات بہارکی اہم افسانہ نگار تسلیم کی جاتی ہیں۔ان کے دوافسانوی مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔انھوںنے بہت کم وقت میں اپنی پہچان بنائی ہے اوراردوفکشن میںاپنی اہمیت کالوہامنوایاہے۔آشاپربھات کے بغیر بہارمیںاردوافسانے کی تاریخ نہیںلکھی جاسکتی ۔

          امروز جہاں نے اپناافسانوی سفر1982سے شروع کیا۔ان کاایک افسانوی مجموعہ ’جذبوںکی آگ‘1990میںمنظر عام پر آ چکا ہے۔’گھرکااندھیرا‘،’زخمی کلی‘،’شکست آرزو‘،’جذبوںکی آگ ‘اور ’بزدل ‘ ان کے مشہورافسانے ہیں۔

           شگفتہ عارف کاایک افسانوی مجموعہ ’ہنستے زخم‘1990میںشائع ہوچکاہے۔ ان کے کرداراورموضوعات بالکل سامنے کے ہوتے ہیںجن سے ان کا روزسابقہ پڑتاہے۔ ٹھیلہ والا،ضمیرکی آواز،کہرااورہنستے زخم ان کے اہم افسانے ہیں۔

           ناہید اخترنے بہت کم افسانے لکھے لیکن اپنے اسلوب کی وجہ سے اردوافسانے میںایک اہم مقام بنایا۔’نارسائی کادکھ‘،’پپوکاجنم دم‘، اور ’اماںجی‘ان کے اہم افسانے ہیں۔

           عامر ہ فر دوسی نے1984سے افسانہ لکھناشروع کیا۔ابھی تک ان کاکوئی بھی افسانوی مجموعہ شائع نہیںہواہے۔’خواب ریزہ ریزہ‘،’زخمی کلی‘،’بیٹی‘،’دیوار‘اور’سویرا‘ان کے اہم افسانے ہیں۔

           محمودہ نغمی تقریباً پچیس سال سے افسانے  لکھ رہی ہیں۔ ان کے افسانوںمیںمسلم معاشرے کے مسائل نمایاں طور پر سامنے آتے ہیں۔ ان کا کوئی بھی افسانوی مجموعہ منظر عام پرنہیں آیاہے۔

           کہکشاں انجم 1968سے لکھ رہی ہیں۔’یادوںکے چراغ‘، ’انتظار کے قیدی‘،’پتھرکے گلاب‘اور’نئی سحر‘ان کے مشہورافسانے ہیں۔

          اس کے علاوہ بے بی موتی ناز پوری، نیلو فر پروین، نسرین ترنم، اورحُسن جبیں شکیل نے بہار کی اردو افسانہ نگاری کے فروغ میں اہم کار نامہ انجام دیا ہے۔

rrr

Rehana Parvin

Diamond Moble Care

Opp: UCO Bank

Gaya-823001 (Bihar)

Mob: 7903952526






کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں