16/2/22

اردو ادب میں خواتین کا کردار - مضمون نگار : صبا زہرا رضوی

 



 

یوں تو زندگی کے  ہر شعبے میں خواتین نے اپنی نمائندگی کو یقینی بنایا ہے لیکن ادب سے ان کی دلچسپی اس لیے زیادہ رہی ہے کہ ادب زندگی کا آئینہ ہے اور اس آئینے میں خواتین کا چہرہ نظر نہیں آتا تو ادب بے مایہ ہو جاتا۔ زندگی کی طرح ادب کا محل بھی وجود زن سے قائم ہے۔ اس حقیقت کے باوجود اردو ادب کے تناظر میں خواتین کا چہرہ ایک زمانے تک گرد وغبار سے ڈھکا رہا۔ہمارے ملک میں صنف نازک سے تغافل کی پرانی روایت رہی ہے۔ اردو ادب کے آغاز میں بھی اس روایت کی پاسداری نظر آتی ہے۔ اردو کے تعلق سے اب یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اردو زبان کے ابتدائی نقوش دہلی اور اطراف دہلی میں ملتے ہیں جبکہ اردو ادب کے ابتدائی نقوش دکن کی سرزمین میں نظر آئے۔ دکن میں اردو ادب کا جو ابتدائی سرمایہ ہے اس میں خواتین بطور مصنف اور شاعر نظر نہیں آتی ہیں لیکن بطور سرپرست ان کی خدمات نمایاں ہیں۔

اُردو ادب میں خواتین کے بڑھتے رجحان کی نشاندہی دو سطح پر کی جا سکتی ہے۔ ایک تصنیف و تالیف اور تخلیق کی سطح پر اور دوسری بطور قاری حصہ داری کے طور پر۔ ہر دو سطح پر خواتین کی حصہ داری کا رجحان بیسویں صدی کی پہلی دہائی سے ہی زیادہ واضح نظر آنے لگا۔ ادب کی تخلیق کے ساتھ ساتھ اردو ادب پڑھنے کا رجحان بھی خواتین میں تیزی سے بڑھا ہے جو کہ ایک خوش آئند بات ہے۔ اکیسویں صدی کی اِن دو دہائیوں میں تو خواتین نے اردو ادب کے منظر نامے پر اپنی بھرپور اور با معنی موجودگی درج کرائی ہے۔ نئی مواصلاتی ٹیکنالوجی کے عام ہونے سے بھی خواتین میں اردو ادب پڑھنے کا رجحان بڑھا ہے۔ رسائل و جرائد کے آن لائن ایڈیشن نے خواتین میں اردو ادب پڑھنے کے شوق کو پروان چڑھایا ہے۔ بیسویں صدی کی تیسری و چوتھی دہائی میں جب ہندوستان میں ریڈیو کا چلن عام ہونے لگا تو یہ بات سامنے آئی کہ اب کتاب و رسائل پڑھنے کا چلن ختم ہو جائے گا یا کم ہو جائے گا۔ لیکن جس رفتار سے ریڈیو نے ترقی کی اسی رفتار سے اردو ادب کی کتابیں بھی منظر عام پر آنے لگیں۔

دنیا ترقی کی راہوں پر آگے بڑھ رہی ہے۔ قوم تہذیب کی بلندیوں کے نزدیک پہنچ رہی ہے۔ سماج وسیع النظر ہو رہا ہے۔ لوگوں کا معیار زندگی بلند ہو رہا ہے۔ معاشرہ ترقی یافتہ ہونے پر فخر محسوس کر رہا ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ خواتین ہمیشہ اور ہر دور میں فعال رہی ہیں اور انھوں نے ہر میدان میں اپنی عظمت کے پرچم کو بلند کیا ہے۔ خواتین نے اپنی فضیلت، حیثیت، صلاحیت کو ہمیشہ تسلیم کرایا ہے۔

اردو کی بقائ میں خواتین نے اہم رول ادا کیا ہے۔ تاریخ ادب اردو کا جائزہ لیا جائے تو اردو ادب میں خواتین اہم کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں۔ یہ بات دیگر ہے کہ بعض وجوہات کی بنا پر لا تعداد خواتین کے نام، ان کی کوششیں، صلاحیتیں منظر عام پر نہیں آئی ہیں۔ پروین شاکر، عفت موہانی، جیلانی بانو، قرۃ العین حیدر، عطیہ پروین، ہاجرہ شکور، بانو سرتاج، عصمت چغتائی، امر تاپریتم، مسرور جہاں، رفیعہ منظو ر الا مین، صغریٰ مہدی، امراؤ جان ادا، زہرہ نگاہ، ساجدہ زیدی، انجم رہبر اور واجدہ تبسم اردو ادب کے وہ نام ہیں جن پر اردو کو ناز ہے۔ 

اردو شاعری ہو یا دنیا کی دوسری زبانوں کی شاعری، اس میں خواتین کا حصہ کم ہے، لیکن ہندوستان میں بالغ نظر شاعرات کا فقدان نہیں ہے۔ پروفیسر زاہدہ زیدی، پروفیسرساجدہ زیدی کی ادبی خدمات مردوں سے کم نہیں ہیں، ڈاکٹررفیعہ شیخ عابدی، پدم شری ممتاز مرزا، عزیز بانو داراب و فا علم و ادب کا بڑا نام ہیں۔ مسعودہ حیات، جمیلہ بانو، نسیم مخموری، شہناز ہنی، نسرین نقاش، ملکہ نسیم، ڈاکٹر نسیم نکہت، ریحانہ نواب، ڈاکٹر ذکیہ انجم شاعرات اپنی ادبی شناخت رکھتی ہیں۔ مشاعروں کے حوالے سے ساحرہ قزلباشی، تسنیم صدیقی، ترنم کانپوری،ثریا رحمانی، انجم رہبر، حنا تیموری، شانتی صبا،عارفہ شبنم، ریحانہ شاہین، سنبل فیضانی، ایکتا شبنم نے اپنا مقام بنایا ہے۔ ان کے علاوہ نزہت پروین بھاگلپور، رباب جعفری بمبئی، سید ہ شان معراج شاہجہانپوری، بیگم ممتاز امید بھوپال،نصرت مہدی،بشریٰ پروین علی گڑھ، ممتاز نازاں (بمبئی)،علینہ عترت (نوئیڈا)، پروفیسر مہ جبیں سیتا مڑھی، فہمیدہ ناز مالیگاؤں، بیگم ممتاز بنگارپیٹ، نمّی رضا پورنیہ، سیدہ نسرین نقاش نوا کول سری نگر، حنا نیازی برنپور (مغربی بنگال)، تبسم پرویز سنبھل، شگفتہ طلعت، سیما  کولکاتہ، فاطمہ تاج حیدر آباد، راشدہ رخسانہ کودگ(ایم پی)، ڈاکٹر شبانہ نذیر (نئی دہلی)، ڈاکٹر عفت  زریں، سعدیہ انصاری(بمبئی)، سیدہ عنوان چشتی، صبوحی پروین (مونگیر)، قریشہ بانو روحی (لکھنؤ)، صابرہ نکہت (لکھنؤ)،عظیمہ نشاط نگینوی(نگینہ)، غزالہ مسرور (چمپارن)، حناانجم (بلرام پور)، قمر قدیر ارم،مینا نقوی (مرادآباد)، صبا بلرامپوری (بلرام پور) وغیرہ خواتین اردو شاعری میں طبع آزمائی کر رہی ہیں۔

اردو شاعری میں اودھ کی شاعرات کا بڑا نام ہے۔ وقا ر فاطمہ اختر جائسی، انیس بانو انیس لکھنو ی،پار سا لکھنوی، سیدہ خیر النسائ بہتر،معصومہ تسنیم ملیح آبادی، جانی بیگم، جعفری لکھنوی، دلہن فیض آبادی، خورشید لکھنوی، کنیز فاطمہ حیا لکھنوی، حور لکھنوی، حسر ماں خیر آبادی، شیبہ لکھنوی، شیریں لکھنوی، زینت زہرہ خیر آبادی، زیبا کاکوری، مہک لکھنوی،ناز سندیلوی، نیہا ردولوی، ناز لکھنوی وغیرہ کے نام اودھ کی شاعرات کی تاریخ میں بمع کلام ملتے ہیں۔اردو ادب کی ابتدائ میں خواتین شاعری کا بڑا ذخیرہ ہے۔

افسانہ نگاری کی شروعات بیسوی صدی میں ہوئی۔ افسانہ نگار خواتین کو ہندوستان کے ادب کا منظر نامہ فراموش نہیں کر سکتا ہے ڈاکٹر رشید جہاں اردو کی پہلی خاتون افسانہ نگار سمجھی جاتی ہیں۔ ان کے بعد حجاب اسمٰعیل اور نذر سجاد حیدر کے افسانے اردو میں نظر آئے۔ اردو افسانہ نگاری میں عصمت چغتائی کا نام اہمیت کا حامل ہے۔صدیقہ بیگم سیوہاروی نے بھی کئی اردو افسانے لکھے۔ شکیلہ اختر کے افسانوں کی کتاب ’’درپن‘‘ اردو افسانہ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ گیان پیٹھ ایوارڈ یافتہ اردو کی منفرد افسانہ نگار قرۃ العین حیدر نے اردو ہی نہیں،ہندوستانی ادب کے فکشن میں ایک نمایاں مقام حاصل کیا ہے۔ رضیہ سجاد ظہیر کے افسانے ترقی پسندانہ نظریات کے حامل ہیں۔ صالحہ عابد حسین اردو کی موقر افسانہ نگار ہیں۔ سلمیٰ صدیقی نے متو سط طبقہ کی زندگی پر افسانے لکھے۔ ان کے علاوہ حیدر آبادکے فرخندہ باد کی جہاں بانو نقوی، زینت ساجدہ، نجمہ نگہت کے نام سامنے آتے ہیں۔ جیلانی بانو ترقی پسند تحریک کی پروردہ ہیں۔ حیدر آباد کی مشہور افسانہ نگار واجدہ تبسم کے افسانے موضوع سخن بنتے رہے۔ عفت موہانی، آمنہ ابو الحسن، رفیعہ منطور الامین، الطاف، کوثر جہاں، وسیم بانو قدوائی، فرحت جہاں، کشور جہاں، سعیدہ سلمیٰ، ڈاکٹر شمیم نکہت، حمیرہ اقبال، حسن بانو، صائمہ ضنّور، مہناز وغیرہ کے نام نمایاں طور پر آتے ہیں۔

ناول ادب کی انتہائی اہم صنف ہے۔خاتون ناول نگاروں نے بیسوی صدی کے آغاز میں ناول کی تخلیق کی۔ آج کئی خاتون ناول نگار بین الا قوامی شہرت کی مالک ہیں۔ ابتدائی خاتون ناول نگاروں نے اپنے ناولوں میں عورتوں کے بنیادی مسائل کو جگہ دی ہے۔ اس ضمن میں محمد بیگم کے ناول ’’آجکل‘‘،’’سگھڑھ بیٹی‘‘اور’’شریف بیٹی‘‘طیبہ بیگم کا ناول ’’انوری بیگم‘‘قابل ِذکرہیں۔ نذر سجاد کا ’’اختر النسائ‘‘ میں عورتوں کی تعلیم و تربیت پر کافی زور دیا گیا ہے۔

عطیہ پروین اور بشریٰ رحمن اس دور کی مقبول ناول نگار ہیں۔ مسرور جہاں کا ناول اجالے، اچانک، عفت موہانی کا ناول بھور، پھول، مینا ناز کا ناول ’’بدنام‘‘ دیبا خانم کا ناول’’پتھر کے صنم‘‘رضیہ بٹ کا ’’روپ‘‘ جمیلہ ہاشمی کا ناول’’داغِ فراق‘‘ وغیرہ مقبولیت حاصل کر چکے ہیں۔

 ٹیکنالوجی کی مدد سے آج خواتین جو ادب پڑھ رہی ہیں اس کے اعلیٰ درجہ کے ادب ہونے میں یقینا شک ہے۔ لیکن ادب کی درجہ بندی ناقدین ادب کا کام ہے۔ ادب عالیہ، لوک ادب، تفریحی ادب، جاسوسی ادب، سِرّی ادب، پاپولر لٹریچر یا کوئی بھی ادب پڑھنے کا رجحان اگر خواتین میں بڑھ رہا ہے تو یہ خوش آئند بات ہے۔ خواتین میں اردو ادب پڑھنے کا رجحان جس تیزی سے بڑھے گا اسی تیزی سے ان کی زندگی میں مثبت تبدیلی رونما ہوگی۔ اردو ادب کی جتنی اصناف ہیں ان میں غزل، ناول اور افسانہ ایسی اصناف ہیں جنھیں خواتین دلچسپی سے پڑھتی ہیں۔ قصیدہ، مرثیہ، مثنوی یا سفر نامہ جیسی اصناف عام طور پر وہی خواتین پڑھتی ہیں جنھیں کسی کالج یا یونیورسٹی کی نصابی ضرورتوں کو پورا کرنا ہو۔افسانہ اور ناول کا معاملہ یہ ہے کہ بانو قدسیہ، عصمت چغتائی، واجدہ تبسم اور رضیہ بٹ جیسی فکشن لکھنے والیوں کی کتابیں آج بھی ہزاروں کی تعداد میں فروخت ہو رہی ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اردو میں ناول نگاری کا آغاز کرنے والے ڈپٹی نذیر احمد اور مصور غم کے لقب سے نوازے گئے راشد الخیری جس طرح خواتین کی اصلاح کے لیے ناول اور افسانے لکھ رہے تھے، اس کی آج ضرورت نہیں ہے۔ آج کا سماج،خواتین کے لیے وہ سوچ نہیں رکھتا ہے جو راشد الخیری کے زمانے میں تھا۔ آج کی خوا تین  اپنے حقوق سے  واقف ہیں اور اپنی زندگی کی سمت و رفتار طے کرنے کی قوت اور صلاحیت رکھتی ہیں۔

اردو ادب کی تخلیق میں خواتین نے جو کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں اس پر اکثر گفتگو ہوئی ہے، مضامین اور مقالے لکھے گئے ہیں، کتابیں بھی شائع ہوئی ہیں۔ اردو ادب کی تاریخ کے ہر دور میں خواتین کی حصہ داری رہی ہے۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اس حصہ داری کا تناسب بہت کم رہا ہے۔ اردو شاعری میں خواتین کی بات آتی ہے تو ہم مہ لقا بائی چندا سے پروین شاکر تک درجنوں نہیں سیکڑوں نام گنوا دیتے ہیں۔ لیکن کیا اردو شاعری کی تاریخ میں میر،  غالب  اور اقبال  کے مقام و مرتبہ کی کوئی شاعرہ نظر آتی ہے؟ شاید نہیں۔ اس کی تاریخی، سماجی،ثقافتی اور نفسیاتی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن حقیقت تبدیل نہیں کی جا سکتی ہے۔  شاعری کے مقابلے اردو فکشن نگاری میں خواتین کے کارنامے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ بات پاپولر ادب کی ہو یا اعلیٰ ادب کی، ہر دو سطح پر خواتین نے اپنی ناقابل فراموش موجودگی درج کرائی ہے۔ رضیہ بٹ، بشریٰ رحمن، عفت موہانی اور واجدہ تبسم جیسی فکشن لکھنے والی خواتین نے اپنی الگ شناخت قائم کی ہے۔ ان کے قارئین کی تعداد لاکھوں میں رہی ہے۔ اردو افسانہ اور ناول کے حوالے سے صرف عصمت چغتائی اور قرۃ العین حیدر کا نام لکھ دیا جائے تو تاریخ کے صفحات پرچاند سورج کی طرح نظر آئیں گی۔ حالانکہ حیدر آباد دکن کی رہنے والی طیبہ بیگم نے بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں ہی تین ناول لکھ کر یہ واضح کر دیا تھا کہ اردو فکشن کے میدان میں خواتین بڑے کارنامے انجام دیں گی۔ طیبہ بیگم کے راستے پر چل کے ہی بنت نریندر ناتھ برج کماری، حجاب امتیاز علی، اور نذر سجاد حیدر جیسی خواتین نے اردو ناول کو کچھ نئے موضوعات دیے۔

اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک نے خواتین کو ایک نیا پلیٹ فارم عطا کیا۔ لکھنؤ میں ترقی پسند تحریک کے پہلے جلسے میں بطور صدر منشی پریم چند نے جو خطبہ دیا اس نے اردو ادب کی سمت و رفتار کا کسی حد تک تعین کر دیا۔ یہاں منشی پریم چند نے حُسن کا معیار بدلنے کا جو تاریخی جملہ کہا اس نے خواتین کو آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا۔ ترقی پسند تحریک نے خواتین میں خود اعتمادی پیدا کی۔ انھیں ادب کی دنیا میں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا۔ اسی حوصلے نے ڈاکٹر رشید جہاں سے وہ افسانے لکھوائے جن کو پڑھ کر سماج کا ایک طبقہ بلبلا اُٹھا۔ ڈاکٹر رشید جہاں، رضیہ سجاد ظہیر، عصمت چغتائی اور واجدہ تبسم جیسی فکشن نگاروں نے سماج کو آئینہ دکھانے کا کام کیا۔ شجر ممنوعہ کو چھونے کا حوصلہ دکھایا۔ انھیں کے ساتھ قرۃ العین حیدر اپنی ایک الگ دنیا آباد کرتی ہیں۔ ’’یہ غازی یہ تیرے پُر اسرار بندے‘‘ اور ’’فوٹو گرافر‘‘ جیسے لازوال اور شاہکار افسانے لکھ کر قرۃالعین حیدر نے اردو فکشن کو عالمی فکشن میں ممتاز مقام عطا کر دیا۔ اس فہرست میں جیلانی بانو، ہاجرہ مسرور، خدیجہ مستور، بانو قدسیہ، جمیلہ ہاشمی، اور سلمیٰ صدیقی جیسی اعلیٰ پائے کی فکشن نگاروں کے نام بھی شامل کیے جا سکتے ہیں۔ یہ سبھی بیسویں صدی کی اہم اردو ادیبائیں ہیں جنھوں نے اردو ادب کے دامن کو مالامال کیا ہے۔ اکیسویں صدی کی دو دہائیوں پر نظر ڈالیں تو اردو ادب کے تئیں خواتین میں جو رجحان بڑھا ہے اس میں جدید موضوعات پر لکھنے والی خواتین کا بہت اہم کردار ہے۔ ذکیہ مشہدی، ثروت خان، صبیحہ انور، ترنم ریاض اور نگار عظیم جیسی فکشن نگاروں نے نئے موضوعات کو اپے افسانوں اور ناولوں میں جگہ دی ہے۔ نئی نسل کی خواتین میں اردو ادب پڑھنے کا جو رجحان نظر آتا ہے اس کی بڑی وجہ یہی خواتین افسانہ نگار ہیں۔ آج کی خواتین جن مسائل سے دوچار ہیں، ان مسائل کو مرکز میں رکھ کر جو فکشن لکھا جا رہا ہے وہ مقبول بھی ہو رہا ہے اور اس کی معنویت بھی ظاہر ہو رہی ہے۔

 مجموعی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اردو ادب میں خواتین کا بڑھتا رجحان ایک خوش آئند بات ہے۔ تخلیق، تحقیق اور تنقید کی سطح پر خواتین آج پہلے سے زیادہ سرگرم نظر آرہی ہیں۔ حکومت ہند کی جانب سے ’’خواتین دنیا‘‘ جیسے رسائل شائع ہو رہے ہیں۔ خواتین اہل قلم کی اپنی تنظیمیں اردو ادب کے میدان میں سرگرم ہیں۔ بطور قاری بھی خواتین کی سرگرمی قابل ستائش ہے۔ اس رفتار کو ذرا اور بڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ اردو ادب میں خواتین کا یہ بڑھتا رجحان کم نہ ہونے پائے۔



 

Saba Zehra Rizvi

Zamir Apartment,1st-Floor

Napier road -2

Near Almaa Marriage hall

Hussainabad Chowk

Lucknow-226003  (U.P)

 





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں