17/2/22

پروفیسر اکبرحیدری کشمیری کی تحقیقات عالیہ - مضمون نگار : سجاد احمد صوفی

 


جموں وکشمیر ہمیشہ علم وادب کی آبیاری کرتا رہا ہے۔  یہ وادی جس طرح حسین اورخوبصورت ہے ٹھیک اسی طرح یہاں کے ادیبوں کے قلم سے حسین اور دل کش تحریریں ابھرتی ہیں۔برصغیرمیںاردو کے محققوں اور مفکروں میں شمار کیے جانے والے محقق پروفیسر اکبر حیدری کشمیری اسی خطے سے تعلق رکھتے تھے۔جموں وکشمیر کے جن اردو ادیبوں کو بین الاقومی سطح پر پذیرائی حاصل ہوئی ان میں پروفیسر اکبر حیدری کشمیری کئی لحاظ سے اہم ہیں۔ وہ صرف محقق ہی نہیں،بلکہ ادیب، قلمکار، تذکرہ نویس، نقاد، مؤلف، استاد اور ادبی صحافت میں اپنے ان گنت نقوش مرتسم کرنے والے شخص تھے۔ میدانِ تحقیق میں ان کی شہرت کے حوالے سے پروفیسر قدوس جاوید کا اقتباس ملاحظہ کیجیے :

’’ اکبر حیدری کی موت اردو میں تحقیق کی موت ہے۔قاضی عبدالودود، عرشی رام پوری، مالک رام، جعفرعلی خان اثر اور مشفق خواجہ کے بعد اگر جمیل جالبی کا نام نامی الگ کردیں تو اکبرحیدری کے سوا کس کا نام لیا جائے کہ جس نے اردو میں تحقیق کی آبرو بچائے رکھی ہو۔‘‘

(شیرازہ، گوشۂ پروفیسر اکبر حیدری،مضمون ’ اردو تحقیق کی روشن شمعـ‘ از پروفیسر احمد قدوس جاوید،ص 30)

پروفیسر اکبرحیدری کشمیری کے کارناموں کی فہرست بہت طویل ہے۔ انھوں نے اپنی مسلسل محنت اور لگن سے اردو کے کلاسیکی ادبی سرمائے کی تحقیق میں نمایاں اضافے کیے ہیں جس میں میر تقی میر، میر ببر علی انیس، مرزا سلامت علی دبیر، مرزا اسداللہ خان غالب، علامہ سر محمد اقبال اور اسی پائے کی شخصیات کی حیات اور کارناموں کے کتنے ہی پوشیدہ گوشوں کو واضح کیا۔ اکبر حیدری کشمیری کی کلاسیکی اردو ادب پر خاص نظر تھی اور ان کی توجہ سے بہت ساادبی سرمایہ وقت کی گرد کے نیچے دفن ہونے سے بچ گیا، جس سے آنے والی نسلوں کے لیے انھوں نے فکرو تحقیق کا سامان فراہم کیا۔ تحقیق، تصنیف و تالیف میں وہ اعلا معیار کے قائل تھے۔ وہ جو بھی تحقیقی بات کرتے اسے ٹھوس شواہد سے ثابت کرتے ہیں۔

پروفیسراکبرحیدری کشمیری بحیثیت محقق اپنی تحقیق کے موضوعات کا انتخاب سوچ سمجھ کرکر تے ہیں۔ ان کی تحقیق محض مردہ پروری نہیں ہوتی۔ کیونکہ تحقیقی شعور رکھنے والا محقق اپنی ہربات دلیل اور شہادت کی بنیاد پر رکھتا ہے۔ محقق کا کام جہاں ایک طرف کسی موضوع سے متعلق اصلیت کو پیش کرنا ہے وہیں اس موضوع سے متعلق غلط بیانیوں کو رد کرنا بھی اور اصل حقیقت کو پیش کرنا بھی ہے۔ اکبر حیدری نہ صرف موضوعات کی اصلیت کا پتہ لگا کر انھیں منظر عام پر لاتے ہیں۔ بلکہ عام طور پر محققین کی غلطیوں کی تردید کرکے ان کا متبادل بھی پیش کرتے ہیں۔ اس ضمن میں شاید عصر ِحاضرمیں اردو کے ایسے محقق کم ہی ملیں گے۔ تحقیق کے دوران انھیں اپنے آپ کا بھی پتہ نہیں رہتا اتنے گہرے مطالعے اورمطالعے کی چاشنی میں گم ہوجاتے تھے کہ وقت کی خبر نہیں رہتی، اس حوالے سے اقتباس ملاحظہ کیجیے:

’’ رام پورکی رضالائبریری میں انھیں پتہ ہی نہ چلا کہ دن کب گزرا۔ رات کب ہوئی۔ وہ مصروف مطالعہ رہے جب کہ چوکیدار نے لائبریری کو مقفل کیا تھا اور اگلے دن موصوف کو مصروف مطالعہ پاکر بتایا کہ ’ جناب آپ رات بھر پڑھتے رہے ہیں‘‘!           

(شیرازہ، گوشۂ پروفیسر اکبر حیدری،مضمون ’اک شمع تھی دلیل ِ سحر ‘از ناصر مرزا،ص43)

 اکبر حیدری کی بے مثل محنت کے پیش نظر ہی نورالحسن ہاشمی نے ان کو ’ تحقیق کا بھوت ‘ کہا ہے۔اور ڈاکٹر شبیہ الحسن اور ڈاکٹر نیرمسعود نے’ فنافی التحقیق ‘بھی کہا ہے۔

پروفیسر اکبرحیدری کشمیری نے اگر کسی صنف میں زیادہ تحقیقی کام کیا ہے تو وہ اردو مرثیہ ہے۔ مرثیہ نگاری میں انھوں نے بہت سارے مرثیہ نگاروں کے غیرمطبوعہ کلام کا انکشاف ہے گرچہ مرثیہ کی تحقیق کے ضمن میں یوں تو کئی محققین کے نام آتے ہیں۔ جن میں مسعودحسن خان رضوی ادیب، پرو فیسر شبیہ الحسن، ڈاکٹر نیرمسعود، محمد زماں آزردہ اور کاظم علی خان وغیرہ شامل ہیںلیکن ان تمام محققوںکے ساتھ ساتھ مرثیہ اور مرثیہ نگاروں پر بہت اچھا کام اکبر حیدری نے بھی کیا ہے۔ ان کی کئی تصنیفات ایسی ہیں جس میں مرثیہ، مرثیہ کے ارتقا اور گمنام مرثیہ نگاروں کے بارے میں قیمتی خیالات اور نادرتحقیقی انکشافات ملتے ہیں۔ چند کتابیں درج ذیل ہیں :

 میر انیس بحیثیت رزمیہ شاعر،  اودھ میں اردو مرثیے کا ارتقا،  باقیات انیس،  مراثی میرخلیق ،  منظومات دلگیر،  انتخاب مراثی دبیر،  انیس کی منظر نگاری،  باقیات دبیر،  مرثیہ اصلاحی معنی میں، میر ضمیر لکھنوی

پروفیسر اکبر حیدری کا دوسرا خاص موضوع اقبالیات رہا ہے۔ اس میں بھی انھوں نے اہم کتابوں کا اضافہ کیا ہے جیسے اقبال : نادر معلومات ،  اقبالیات کے نئے گوشے ،  اقبال اور علامہ شیخ زنجانی ، اقبال کی صحت زبان،  کلام اقبال قدیم رسالوں کے آئینے میں، زمانہ کانپور اور اقبالیات، اقبال : احباب وآثار ، معنیِ ذبح عظم : اقبال کا شعر

یہ کتابیں اقبالیات میں گراں قدر اضافہ ہیں اور علامہ اقبال کے پوشیدہ خزانوں کا عکس بھی ہیں۔ اکبر حیدری نے رسالہ ’حکیم الامت ‘ نکالا جس میں اقبال پر زیادہ مضامین لکھے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ اکبر حیدری نے مرزا غالب پر بھی کچھ تحقیقی مقالے قلم بند کیے ہیں۔ ان کتابوں کو انعام کے ساتھ ساتھ قدر کی نگاہوں سے بھی دیکھا جاتا ہے ان میں ’ نوادرِ غالب ‘اور’غالبیات ‘ کے نام شامل ہیں۔

پروفیسر اکبرحیدری کشمیری نے دیوان، تذکرے اور شخصیتوں پر بہت اچھا کام کیا ہے۔ ان میں دیوان میرتقی میر، دیوان ذوق، دیوان قائم، دیوان ترقی  وغیرہ ہیں۔ تذکروں میں تذکرۂ بہاربے خزاں، تذکرۂ شعرائے ہندی، تذکرہ ٔ گردیزی، تذکرۂ ریختہ گویاں، تذکرہ ٔ قدیم شاعرات وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔

یہاں پر ہم صرف پروفیسر اکبر حیدری کشمیری کی ایک تحقیقی کتاب’مقالات حیدری‘ پر روشنی ڈالنے کی کوشش کریں گئے۔کہ ان کی تحقیق کس حد تک منفرد و مستند ہے اور ساتھ ہی یہ بھی دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ ان کی تحقیق میں امتیازی خصوصیات کیا ہیں۔ اس کتاب میں شامل مقالات سب کے سب تحقیقی نوعیت کے ہیں۔ آیئے اس کتاب پر نظر ڈالتے ہیں۔

مقالات حیدری

مقالات حیدری ‘ فروری 1977میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کو نظامی پریس لکھنؤ نے شائع کیا۔ اکبرحیدری نے اس کتاب کو مرحوم راجہ صاحب محمد امیر احمد خان سے منسوب کیا ہے۔ ’مقالات حیدری‘ سات تحقیقی مقالوں کا مجموعہ ہے اس تحقیقی کام کے لیے اکبرحیدری کو راجہ صاحب محمود آباد کے نادرالوجود کتب خانے سے کئی برسوں تک استفادہ کرنا پڑا۔ اس کتاب میں جو مقالات درج ہیں وہ اس طرح سے ہیں۔

1       دیوان میر کا قدیم ترین مخطوطہ: (مع میر کے گمشدہ غیر مطبوعہ اشعار )

پروفیسر اکبر حیدری کشمیری کی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ راجہ صاحب محمود آباد کے کتب خانے میں دیوان میر کے کئی نادرو نایاب اور کارآمد نسخے موجود ہیں ان ہی نسخوں میں سے ایک نسخہ قدیم ترین ہے جو 1213ھ مطابق 1786 میں میرسوز  کے شاگرد موتی لال حیف  کے ہاتھ کا مکتوبہ ہے۔ اس کے سنہ کتابت کے بعد میر 22سال تک زندہ رہے۔ اکبر حیدری کہتے ہیں کہ دیوان کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں سیکڑوں غیرمطبوعہ اشعار درج ہیں۔ جس سے میر کے حزن ویاس، دردوغم کا پتہ چلتا ہے۔

اکبر حیدری نے اس مقالے میں میر کا غیر مطبوعہ کلام بھی درج کیا ہے اور ساتھ ہی اس بات کی بھی جانکاری دی ہے کہ ان اشعار کو کلیات میر میں کہاں درج ہونا چاہیے تھا۔ اس نسخے کی سب سے بڑی اہمیت یہ ہے کہ اس میں میر کی مشہور مثنوی ’مورنامہ ‘ بھی موجودہے۔ یہ مثنوی نسخۂ کلکتہ(1811)، نسخۂ نول کشور(1868)  اور نسخہ ٔ آسی (1940)  کے نسخوں میں موجود نہیں ہے۔ البتہ ڈاکٹر عبادت بریلوی نے ’کلیات میر ‘ کو1958 میں شائع کیا جس میںیہ مثنوی موجود ہے۔ اکبر حیدری کا دعوا ہے کہ یہ مثنوی پروفیسر گیان چند جین کو حیدر آباد میں کلیات میر کے ایک نسخے میں ملی اور انھوں نے اسے 1957میںرسالے میں شائع کیا۔ اور ڈاکٹر عبادت بریلوی نے اسی مثنوی کو ’کلیات میر‘ میں شامل کر کے شائع کیا۔ اکبر حیدری کا ماننا ہے کہ ان دونوں نے یہ مثنوی غلط متن کے ساتھ چھاپی ہے۔ اس حوالے سے اکبر حیدری کا اقتباس ملاحظہ کیجیے :

’’ راجہ صاحب محمود آباد کے کتب خانے میں میر کے دیوان پنجم کا ایک نادراور نایاب قلمی نسخہ ہے۔یہ مطبوعہ دیوان پنجم سے مختلف ہے۔ اس میں میر کا غیر مطبوعہ کلام بھی درج ہے۔ دیوان میں مثنوی مورنامہ بھی ہے۔ یہ مثنوی نسخۂ کلکتہ، نسخہ ٔ نول کشور اور نسخہ ٔ آسی میں شامل نہیں ہے۔ ڈاکٹر جین صاحب کو یہ مثنوی حیدرآباد میں کلیات میر کے ایک نسخے میں دستیاب ہوئی ہے۔ انھوں نے اسے اردو ادب مطبوعہ، جون 1957میں شائع کیا۔ اس کے ایک سال بعد ڈاکٹر عبادت بریلوی نے اسے کلیات میر میں شامل کرکے شائع کیا۔ دونوں حضرات نے یہ مثنوی غلط چھاپی ہے۔ غالباً جین صاحب کے پیش نظر خط شکستہ میں کوئی ناقص نسخہ رہا ہوگا۔ راقم کو اس مثنوی کا بالکل صحیح اور خوشخط نسخہ دستیاب ہوا ہے۔ کیونکہ یہ مثنوی بہت عمدہ، سبق آموز اور مزاج میر کا آئینہ دار ہے اس لیے یہ صحت کے ساتھ پہلی مرتبہ شائع کی جاتی ہے۔‘‘

مذکورہ اقتباس میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ میر  کی مثنوی ’ مور نامہ‘ صحیح متن کے ساتھ اکبر حیدری کی ہی تحقیق ہے۔لیکن اکبر حیدری نے جو پروفیسر گیان چندجین  کے حوالے سے کہا کہ انھیں یہ نسخہ حیدرآباد میں ملا ہوگا یہ غلط ہے کیوں کہ گیان چند جین نے اپنی کتاب ’اردو مثنوی شمالی ہند میں ‘ میں لکھا ہے کہ یہ مخطوطہ کلیات میر اسٹیٹ لائبریری رام پورمیں موجود ہے۔(ص 229)اکبر حیدری نے اس مقالے میں یہ بھی ثابت کرنے کی کوشش کی کہ آسی ، ڈاکٹر عبادت بریلوی اور ظل عباس عباسی  نے یہ غلط کہا ہے کہ ان کے پیش نظر نسخۂ کلکتہ تھا کیوں کہ نسخہ ٔ کلکتہ نایاب ہے۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی نے مقدمہ کلیات میر میںجو غلط بیانی سے کام لیا ہے ان کا کہناحقیقت سے کوسوں دور ہے کہ انھوں نے حیدر آباد، علی گڑھ، رام پور اور محمود آباد کے کتب خانوںسے استفاد ہ کیا ہے۔ان دونوں نے کلیات میر کو نسخۂ آسی کی بنیاد پر مرتبہ کیا ہے۔ اقتباس ملاحظہ کیجیے:

’’ دراصل مرتبین نے کلیات میر کو نسخۂ آسی کی بنیاد پر بغیر کسی محنت و تحقیق کے نقل راچہ عقل کے طور پر جوں کا توں شائع کیا ہے۔ ان کا دعویٰ بالکل بے بنیاد ہے کہ انھوں نے نسخۂ کلکتہ سے استفاد ہ کیا ہے۔ اگر ان لوگوں نے نسخۂ آسی کے علاوہ اور کوئی قلمی نسخہ دیکھنے کی زحمت کی ہوتی کم ازکم فٹ نوٹ میں اختلاف ِ نسخ درج کرتے۔‘‘  

اکبر حیدری لکھتے ہیں کہ نسخۂ محمود آباد وہی دیوان ہے جس پر میر کو بڑا فخر تھا اور جس کے بارے میں میر نے پیش گوئی کے طور پر یہ شعر کہا تھا         ؎

جانے کا نہیں شور سخن کا مرے ہرگز

تاحشر جہاں میں مرا دیوان رہے گا

اکبرحیدری کے زیر نظر نسخۂ کلکتہ بھی رہاہے۔جس سے انھوں نے اس مقالے کے لیے بہت استفادہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نسخۂ کلکتہ میں میر کا سارا کلام موجود نہیں ہے۔جب انھوں نے نسخۂ کلکتہ کو نسخۂ محمود آباد کے نسخے سے ملایا تو معلوم ہوا کہ بعض غزلوں کی تعداد اشعار میں نمایاں فرق ہے یعنی نسخۂ کلکتہ اور دیگر مطبوعہ نسخوں میں تعداد کم اور نسخہ ٔ محمود آباد میں زیادہ ہے۔

میر تقی میر کے کلام کے بارے میں اکبر حیدری نے لکھا ہے کہ عام مشہور ہے کہ میر تقی میر کے کلام میں بہتّر نشتر ہیں لیکن اکبر حیدری کا ماننا ہے کہ کلیات میر میں صرف بہتّر(72) نشتر کا تعین کرنا میر  کے ساتھ ناانصافی ہے کیونکہ نسخۂ محمود آباد میں میر کے سیکڑوں اشعار ایسے ہیں جن میں سے ایک ایک شعر نشتر سے تیز تر ہے  اور یہ سب اشعار غیر مطبوعہ ہیں۔ مثال کے طور پر انھوں نے اپنی کتاب میں کچھ اشعار بھی پیش کیے ہیں۔دوسری بات نسخۂ کلکتہ میں مثنوی ’ جنگ نامہ ‘ بھی موجود نہیں ہے۔ 

نسخۂ محمود آباد میں بہت سارے اشعار غیر مطبوعہ موجود ہیں جو میر کے مزاج اور افتاد طبع کے آئینہ دار ہیں۔ اکبر حیدری نے ہر غزل کے فٹ نوٹ میں اختلاف ِ نسخ کے علاوہ ان تمام غیر مطبوعہ اشعار کی نشاندہی کی جو پہلی مرتبہ دریافت کیے گئے ہیں۔ مطبوعہ نسخوں میں اگر کسی شعر کے متن میں اغلاط ہیں تو فٹ نوٹ میں اس کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ اکبر حیدری نے نسخۂ محمود آباد کو میر کاقدیم نسخہ بھی دلائل سے ثابت کر دیا ہے جومیر کی حیات میںلکھاگیا نسخہ ہے۔

مختصراً اکبر حیدری کی اس تحقیق سے ایک تومیرتقی میرکا غیر مطبوعہ کلام سامنے آیا۔دوسری بات جن مرتبین نے کلیات میر کو شائع کیا ان کی غلط بیانی کا ازالہ ہوا اور مثنوی مورنامہ کا صحیح متن بھی سامنے آیا۔ یہ ساری باتیں اکبر حیدری کی تحقیق سے وجود میں آئی۔

2        کلیات میرحسن کا قدیم ترین مخطوطہ مکتوبہ بہ قبل 1192ھ اور میر حسن  کا غیر مطبوعہ کلام

کلیات میرحسن کا قدیم ترین نسخہ موتی محل کو تسلیم کیا جاتا تھا۔ اس نسخے کو فیض آباد میں 1192ھ میں کسی کاتب نے لکھاتھا۔ اکبر حیدری نے جو مخطوطہ محمود آباد کتب خانے میں دیکھا ہے وہ موتی محل کے نسخے سے بھی پہلے 1183ھ میں لکھا گیا ہے۔ انھوں نے نسخہ ٔ موتی محل کے حوالے سے کہا کہ اس میں جو تین مثنوی رموزالعارفین (1188ھ)، گلزار ارم (1192ھ)، سحرالبیان (1199ھ) ہیں وہ نسخۂ محمودآباد میں درج نہیں ہیں۔ نسخۂ محمود آباد میں غزلوں اور قصیدوں کے علاوہ دو مثنویاں ہیں ایک مثنوی قصرجواہر اور دوسری مثنوی درکتخدائی(شادی) نواب آصف الدولہ بہادر ہے۔ قصرجواہر کا سال ِ تصنیف معلوم نہیں ہوسکا لیکن دوسری مثنوی آصف الدولہ بہادر کی شادی کے موقعے پر 1183ھ میں تصنیف ہوئی ہے۔ آصف الدولہ بہادر کی شادی کی تاریخ اودھ کی تاریخوں سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ آصف الدولہ کی شادی اسی سال ہوئی تھی۔

گلزار ارم اور سحرالبیان میرحسن  کے بعض نسخوں میں درج ہیں۔ان میں دیباچہ مصنف بھی شامل ہے۔ اکبر حیدری لکھتے ہیں کہ کلیات میرحسن نسخہ ٔ محمود آباد1192ھ سے قبل کا لکھا ہو انسخہ ہے۔ اس میں دیباچہ مصنف موجود نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میر حسن  نے مثنوی قصر جواہر 1192ھ سے پہلے ہی فیض آباد میں تصنیف کی تھی۔ یعنی اس مثنوی (قصرجواہر ) کا زیر نظر نسخے میں شامل ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ مصنف نے اسے فیض آباد میں لکھنؤ جانے سے پہلے ہی تصنیف کیا تھا۔ کلیات میرحسن  کے کئی نسخے ہندستان اور باہر کے بڑے کتب خانوں میں محفوظ ہیں۔

کلیات میرحسن کا ایک نسخہ برٹش میوزیم لند ن میں محفوظ ہے۔ایک نسخہ مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ کے کتب خانے میں بھی محفوظ ہے۔یہ نسخہ پہلے نواب حبیب الرحمن خان شروانی صدریار جنگ کی ملکیت میں تھا۔ایک نسخہ لکھنؤ میں خاندان ِانیس کے ایک فرد میر محمد ہادی لائق کے پاس موجود ہے۔ پروفیسر سید مسعود حسن رضوی نے اسی نسخے سے استفادہ کیا اور کلیات میرحسن پر ایک مبسوط مقالہ لکھا ہے۔

جو نسخہ کلیات میرحسن کا محمود آباد کے کتب خانے میں محفوظ ہے،  اس میں نہ کاتب کا نام اور نہ ترقیمہ کہیں درج ہے۔ اکبر حیدری لکھتے ہیںکہ جہاں تک معلوم ہوتا ہے کلیات کا یہ نسخہ بہت پرانا ہے اورفیض آباد میں 1192ھ  سے پہلے مصنف نے خود ہی مرتب کیا ہے۔اس کے لیے انھوں نے اپنے دلائل بھی پیش کیے ہیں۔

3     کلیات انشا : دو نادرنسخے مع انشا کا غیر مطبوعہ کلام

کلیات انشا کے چند مخطوطے رام پور، علی گڑھ، پٹنہ اور حیدر آباد کے کتب خانوں میں محفوظ ہیں۔ ایک نسخہ انڈیا آفس لندن میں بھی ہے۔ کلیات انشا کا قدیم ترین مطبوعہ نسخہ جو ہے وہ مولوی محمد حسین آزاد  کے اہتمام سے 1671ھ مطابق 1855 میں دہلی اردو اخبار میں چھپا تھا۔ اس کے بعد دوسرا ایڈیشن 1293ھ مطابق 1876میں لکھنؤ نول کشور میں شائع ہوا۔ پھر 1312ھ مطابق1894 لکھنؤ میں، آخر میں مرزا محمد عسکر ی نے 1951 میں ’کلام ِانشا‘ کے عنوان سے بڑی کاوش و محنت سے مختلف قلمی و مطبوعہ نسخوں کی مدد سے ترتیب دیا جسے ہندستانی اکادمی الہ آباد نے 1952میں شائع کیا۔

جہاں تک محمودآباد کتب خانے کا تعلق ہے اکبر حیدری کا کہنا ہے کہ محمود آباد کتب خانے میں کلیات انشا ؔکے دو قدیم اور نادر الوجود مخطوطے اچھی حالت میں موجود ہیں۔ دونوں نسخے اہم اور مکمل ہیں اہم اس لیے کہ ان میں انشا  کاغیر مطبوعہ کلام بھی موجود ہے۔

کتب خانہ محمود آباد میں کلیات انشا کا نسخہ ٔاول 1242ھ کامکتوبہ ہے۔ اس نسخے میں پہلے انشا کا فارسی کلام ہے ایک مثنوی ’شیر برنج‘ کے نام سے درج ہے۔ یہ مثنوی 1205ھ میں تصنیف کی گئی ہے پھر قصائد ہیں اور فارسی اور اردومیں کہی گئی رباعیاں بھی درج ہیں رباعیوں کے بعد کچھ تاریخیں بھی موجود ہیں۔ نیز فارسی میں نواب سعادت علی خان کی تعریف میں مثنوی ’شکار نامہ‘ بھی درج ہے جو 1220ھ میں تصنیف کی گئی تھی۔نسخہ ٔ ثانی کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ مصنف کے مسودہ سے نقل کیا گیا ہے۔ اسی کتب خانے میں ’مثنوی شیربرنج ‘ بھی ہے جو مصنف کے ہاتھ کی لکھی ہے۔ اکبر حیدری نے انشا کا غیر مطبوعہ کلام بھی اس کتاب میں درج کیا ہے۔

کلیات انشا  کے قدیم نسخے میں مثنوی ’ مرغ نامہ‘ کے چھیالیس شعر درج ہیں۔ ’ کلام انشا ‘ میں مرزاحسن عسکری نے بیالیس شعر نقل کیے ہیں۔ جب کہ اکبر حیدر ی کہتے ہیں کہ نسخۂ محمود آباد میں دو سو انتالیس (239) شعر موجود ہیں۔دوسری بات پروفیسر گیان چند جین کی رائے ہے کہ انشا  کی طویل ترین اور مفصل مثنوی ’ فیل‘ ہے لیکن اکبر حیدری کا کہنا ہے کہ جو محمود آباد کے’کلیات انشا‘کا نسخہ ہے اس کے مطابق ’مرغ نامہ‘ طویل ترین مثنوی ہے۔ بقول اسپرنگر یہ مثنوی 1210ھ میں تصنیف کی گئی ہے۔ اکبرحیدری کہتے ہیں کہ انشا کی تمام مثنویوں میں بس صرف یہی ایک مثنوی ہے جو بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ اس کے لگ بھگ ایک سو پچانوے شعر غیر مطبوعہ ہیں۔ یہ پوری مثنوی اکبر حیدری نے اپنی اس کتاب میں شامل کی ہے۔ 

 4     ناسخ  اور کلیات ناسخ: مع غیر مطبوعہ کلام

دیوان ِ ناسخ  کے تین مخطوطے لکھنؤ یونی ورسٹی میں موجود ہیں۔ کچھ محقق دیوانِ  ناسخ کی پہلی اشاعت 1262ھ کہتے ہیں۔ دراصل پہلی مرتبہ دیوان ناسخ  404صفحات پر مشتمل ناسخ  کے مشہور شاگرد رشک لکھنوی کی نگرانی میں 1258ھ میں شائع ہوا۔ اس دیوان میں رشک کا مرتب کیا ہوا غلط نامہ بھی موجود ہے۔دیوان کے صفحہ 399پر ناسخ  کی وفات درج ہے۔ لیکن اکبرحیدری کا دعوا ہے کہ جو نسخہ ان کو ملا ہے وہ اس سے پہلے کا لکھا ہوا ہے۔اکبر حیدری نے اس مقالے میں ناسخ  کے حالات ِ زندگی تفصیل سے معتبر ذرائع سے اخذ کرکے قلم بند کیے ہیں۔ ان کی نظروں سے بہت سے نسخے گزرے ہیں۔ جن میں سے نسخۂ محمود آباد سب سے پرانا اور مستند مخطوطہ ہے جس کی کتابت 1239ھ سے پہلے کی گئی ہے۔ جس میں 1238ھ تک ناسخ  کا کلام درج ہے۔ اکبر حیدری کہتے ہیں کہ اس دیوان میں ناسخ کے مشہور شاگرد نواب حسین علی خان تخلص اثرکی مہر یں موجود ہیں اور ان میں 1244ھ کی تاریخ نمایاں ہے۔ دیوان بڑا ہی دیدہ زیب اور شاندار خط میں لکھا گیا ہے۔ اس میں 1238ھ تک کی اہم تاریخیں بھی د رج ہیں۔ جو مطبوعہ نسخوں میں موجود نہیں ہیں۔اس نسخے میں ناسخ کا غیر مطبوعہ کلام بھی موجود ہے اس کے علاوہ دیوان ناسخ  کے مطبوعہ نسخے 1258ھ پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ نسخۂ محمود آبادکا تیسرا مخطوطہ ناقص الطرفین ہے۔اکبر حیدری نے نسخوں کا سائز اور دوسری جانکاری بھی اس کتاب میں دی ہے۔

5       شاہ نامہ فردوسی کا قدیم ترین مخطوطہ : نسخۂ بایٔسنقر مکتوبہ 868ھ

شاہ نامہ فردوسی پہلی مرتبہ کلکتہ سے قدیم اور مستند نسخوں سے مرتب کیا گیا۔ یہ کپتان ترنرمکان نے 1245ھ مطابق 1829میں مولوی سعید رام پوری کے اہتمام سے چار جلدوں میں شائع کی تھی۔ ابتدا میں دیباچہ بایٔسنقر بھی شامل ہے۔اس میں محمود غزنوی کے خلاف 105ہجویہ اشعار بھی درج ہیں۔ کتاب شاہ نامہ فردوسی دوسری مرتب 1275ھ مطابق 1858 میں بمبئی میں تین جلدوں میں چھپی تھی۔ اس میں دیباچہ بایٔسنقر کے علاوہ دبیاچہ مطبع محمد ابراہیم الطباطبائی الاصفہائی کا لکھا ہوابھی شامل ہے۔

اکبر حیدری کو کتب خانہ محمود آباد میں ’شاہ نامہ فردوسی ‘ کاقدیم ترین مخطوطہ نسخہ ٔ بایٔسنقر دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ یہ نسخہ مرزا شاہ رخ کے بیٹے اور صاحبِ قرآن امیر تیمور کے پوتے مرزا بایٔسنقر نے 868ھ مطابق 1425 اپنے درباری شعرا سے متعدد نسخوں سے تصحیح کراکے مرتب کرایا تھا اور بایٔسنقر نے اس پر ایک مبسوط اور معلوماتی دیباچہ بھی لکھوایا تھا۔ ابتدا میں شاہ نامہ کا دیباچۂ قدیم سالِ تصنیف346ھ مطابق 957ئ بھی درج ہے۔

اکبر حیدری نے کل چار قلمی نسخے دیکھے۔ دو نسخے محمود آباد کتب خانے میں اور دو ریاست جموں وکشمیر کے محکمۂ ریسرچ سری نگر میں۔ ان میں سے وہ مخطوطہ قدیم ترین ہے جو مرزا بایٔسنقر 828ھ مطابق 1425 کا ہے۔ یہ مخطوطہ جو اب نسخہ ٔ بایٔسنقرکے نام سے راجہ صاحب محمود آباد کے کتب خانے میں محفوظ ہے،  اس کتب خانے میں اس کا دوسرا نسخہ بھی 963ھ کا مکتوبہ موجود ہے۔اکبر حیدری کی تحقیق کے مطابق نسخہ ٔ دوم فردوسی کے شاہ نامے کا قدیم ترین مخطوطہ ہے جو راجہ محمود آبادکے کتب خانے کی زینت بن چکا ہے۔مخطوطے کی جلد بڑی خوبصورت ہے اور اس پر کشمیری پیپرماشی کا کام کیا ہوا ہے۔

شاہ نامے کے کئی قلمی اور پرانے نسخے لندن، کیمبرج، پیرس اور برلن کے کتب خانوں میں محفوظ ہیں۔ ان میں سب سے قدیم نسخہ برٹش میوزیم لندن میں ہے جس کا سالِ تصنیف 841ھ مطابق 1438ہے۔

اکبر حیدری نے پاکستان کے حکیم شمس اللہ قادری سے اختلاف رائے کیا ہے کہ انھوں نے ’ شاہ نامہ فردوسی ‘ کے جس نسخے سے استفادہ کیا وہ ہندستان کا واحد نسخہ نہیں ہے۔ دوسری بات پروفیسر شیرانی کہتے ہیں کہ شاہ نامے کا دیباچۂ قدیم کم و بیش دوصدی کے بعد تصنیف کیا گیا تھا۔ جب کہ شمس اللہ قادری کی تحقیق ہے کہ یہ 306ھ میں لکھا گیا تھا۔ نسخہ ٔ بایٔسنقر کے علاوہ نسخہ ٔ محمود آباد اور نسخۂ سری نگر میں اس کا سال تصنیف346ھ درج ہے اسے علامہ قزوینی نے بھی تسلیم کیا ہے۔ دیباچہ قدیم کے شان ِ نزول کے بارے میں نسخہ ٔ بایٔسنقر میں لکھاگیا ہے کہ 301ھ تا 912ھ تک ابو منصور محمد بن عبدالرزاق طوسی نے اپنے وزیر ابومنصور المعمری سے نثر میں شاہ نامہ لکھنے کی فرمائش کی تھی۔ ابومنصور المعمری نے 346ھ میں اسے مکمل کیاتھا۔

6       تذکرۂ مخزن الغرائب کا قدیم ترین نسخہ

تذکرۂ مخز ن الغرائب شیخ احمد علی ہاشمی سندیلوی کا لکھا ہوا تذکرہ ہے اس میں فارسی کے شعراکا ذکرکیا گیا ہے۔ اس تذکرے کے کچھ نسخے پٹنہ، رام پوراور اعظم گڑھ کے کتب خانوں میں موجود ہیں۔ اس تذکرے کا سالِ تصنیف 1218ھ مطابق 1803ہے۔ اکبر حیدری نے محمود آباد کتب خانے میں اس تذکرے کے دو قدیم ترین نسخے دیکھے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دونوں مکمل ہیں اور 1219ھ کے لکھے ہوئے ہیں۔ یہ دونوں نسخے غیرمطبوعہ ہیں۔ اس مقالے میں اکبر حیدری نے ان نسخوں کو قدیم ترین نسخے ثابت کیے ہیں۔

تذکرۂ مخرن الغرائب کے دونوں نسخے کئی کاتبوں کے ہاتھ کے لکھے ہوئے ہیں۔ لیکن دونوں کا ترقیمہ ایک ہی کاتب نے لکھا ہے۔ مخطوطے میں بعض مقامات پر کاتب شاعرکا نام اور تخلص لکھنا بھول گیا ہے۔اکبرحیدری لکھتے ہیں کہ اس تذکرے کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ غالباً شیخ احمدعلی ہاشمی پہلے تذکرہ نویس ہیں جنھوں نے کشمیری فارسی شعرا کی اچھی خاصی تعداد میں ذکر کیا ہے۔ ڈاکٹر اسپرنگر نے مخزن الغرائب کا نام ’ مجمع الغرائب ‘ لکھا تھا لیکن دیباچے میں مصنف نے کہیں اس کا ذکر نہیں کیا ہے۔ قطعہ تاریخ میں مخزن الغرائب ہی لکھا ہے۔ دوسرے جو بھی مخطوطے ہیں وہ سب نامکمل ہیں۔ ڈاکٹر اسپرنگر نے اودھ کیٹلاگ میں مخطوطہ نمبر 27کے تحت اس تذکرے کا ذکر کیا ہے۔ اسپرنگر نے تذکرے کا سال تصنیف نہیں لکھا اور شعرا کی تعداد قیاساً 3061بتائی ہے۔ لیکن جو مخطوطہ محمودآباد کا ہے اس میں کل شعرا کی تعداد 3075ہیں۔ بقول اکبر حیدری مخطوطے میں خامی یہ بھی ہے کہ فہرست میں جن شعرا کے نام کے ساتھ صفحے درج ہیں وہ بھی غلط ہیں۔

7       میر غلام علی آزاد  بلگرامی اور غالب الہ آبادی کی بعض نایاب تحریریں بخط مصنّفین

اکبر حیدری نے محمود آباد کے کتب خانے میں ایک ’بیاض غالب ‘ کا مخطوطہ، غالب  الہ آبادی کے ہاتھ کا لکھا دیکھا ہے۔یہ بیاض قدیم ترین ہے۔ اس میں میر غلام علی آزاد بلگرامی اور غالب الہ آبادی دونوں بزرگوں کی تحریریں موجود ہیں جو 1147ھ میں لکھی گئی ہے۔ اکبر حیدری نے اپنے اس مقالے میں ان دونوں کے حالات ِ زندگی اور ان کی تصنیفات پر روشنی ڈالی ہے۔مقالے میں ان کی تحریروں کا عکس بھی شامل ہے۔ یہ ’بیاض غالب‘ اس لیے بھی اہم ہے اس میں مصنف نے غزلوں کے ساتھ تاریخیں بھی لکھیں ہیں۔

الغرض اس کتاب ’مقالات حیدری ‘ میں جو بھی مقالات ہیں۔ وہ سب اردو ادب میں اضافے کے طور پر ہیں۔ اس میں انھوں نے دیوان میر کا قدیم ترین مخطوطہ، کلیات میر حسن کا قدیم ترین مخطوطہ،کلیات انشا کے دو نادر نسخے، ناسخ اور کلیات ناسخ، شاہ نامہ فردوسی کا قدیم ترین مخطوطہ، تذکرہ مخزن الغرائب کا قدیم ترین نسخہ اور میر غلام آزاد بلگرامی  اور غالب آلہ ابادی کی بعض نایاب تحریروں کا جو تحقیقی جائز ہ لیاوہ قابل اعتبار ہے۔تحقیقی دعواکرنا کوئی سہل بات نہیں ہے اس کو دلائل سے ثابت کرنا پڑتا ہے جس میں اکبرحیدری کھرے اترتے ہیں۔ان کی یہ کتاب اردو کی تحقیق میں ایک اضافہ اور انمول حیثیت رکھتی ہے۔

مختصراً پروفیسر اکبر حیدری کشمیری کی تحقیقی نظرنے بے شمار پوشیدہ ادبی سرمایے کی کھوج کی۔ اکبرحیدری کی خدمت یاد رکھے جانے کے لیے کافی ہے کہ انھوں نے پردہ خفا میں کئی شعرا کا کلام اردو دنیا سے متعارف کرادیا۔ برصغیر کے اہم محققوں میں بھی ان کا نام گناجاتا ہے۔ انھوں نے جو مرثیہ یا دوسری شخصیات پر تحقیقی کام انجام دیا ہے وہ تا ابد انھیں زندہ جاوید رکھے گا۔

 

Sofi Sajad

Research Scholar

University of Hyderabad

Hyderabad - 500046 (Telangana)

Mob.: 6005000136

 

 


 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں