22/2/22

پریم چند اور تعلیم و تدریس - مضمون نگار : محمد عظمت الحق




پریم چند (31 جولائی 1880-8 اکتوبر 1936) ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔ انھیں زندگی کے مختلف شعبوں سے دلچسپی تھی۔اپنے وقت کے سماجی، سیاسی اور تعلیمی حالات اور اس کے تقاضوں سے وہ بخوبی واقف تھے۔ تعلیم وتدریس،مختلف علوم وفنون اور صنعت و حرفت سے بھی انھیںلگاؤ تھا۔اس لگاؤ کی وجہ سے پریم چند نے مختلف قدیم وجدید علوم وفنون پر بھی مضامین ومقالات قلمبند کیے ہیں۔فکشن کے علاوہ انھوں نے مختلف موضوعات پر مضامین بھی لکھے ہیں۔ان میں تعلیم وتدریس اور نصابِ تعلیم پر لکھے گئے مضامین کے ذریعے وہ ایک ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے بھی سامنے آتے ہیں۔اس حوالے سے پریم چند پر شاید کچھ نہیں لکھا گیا۔ راقم الحروف نے پریم چند کے ایسے مضامین کی روشنی میں انھیںایک ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے دیکھنے اور دکھانے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔

پریم چند بنیادی طور پر ایک مدرس تھے اسی لیے تعلیم وتدریس کے مسائل پربھی ان کی گہری نظر تھی۔ تعلیم وتدریس اور نصابِ تعلیم کے موضوع پر لکھے گئے ان کے مضامین کے مطالعے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس بارے میں نہ صرف غور وخوض کیا کرتے تھے بلکہ اس موضوع سے متعلق مسائل کا حل بھی تجویز کیا کرتے تھے۔پریم چند جدید زرعی تعلیم اور تجربات سے استفادہ کرتے ہوے ہندوستان کی زرعی پیداوار میں اضافہ کرنے کی طرف ارباب مجاز کو توجہ دلایا کرتے تھے۔ پریم چند نے تعلیم وتدریس اور نصابِ تعلیم کے موضوع پر اردو اور ہندی میں کچھ مضامین اور اداریے بھی تحریر کیے ہیں۔ان مضامین میں اردو زبان میںلکھے گئے ان کے تین مضامین بہت اہم ہیں جن کے عنوانات یہ ہیں: ’’زراعتی ترقی کیوں کر ہو سکتی ہے‘‘،  ’’صوبۂ متحدہ میں ابتدائی تعلیم‘‘ اور  ’’ کلا بھون‘‘۔ زیرِ نظر مضمون میں پریم چند کے ان تینوں مضامین کے حوالے سے تعلیم وتدریس کے تئیں ان کی دلچسپی،زراعتی، صنعتی اورتکنیکی تعلیم و تربیت کی طرف ان کی رغبت اور ان کے تعلیمی نظریات پر بساط بھر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔

زراعتی ترقی کیوں کر ہو سکتی ہے

پریم چند نے یہ مضمون ہندوستان میں زراعت کے مسائل اوراس کے حل کے حوالے سے لکھا ہے۔انھوں نے اس مضمون میں زراعت کو فروغ دینے کے ممکنہ طریقوں اورامکانات پر اختصار کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ ہندوستان ایک زراعتی ملک ہے اورآج کی تاریخ میں آبادی کی کثرت کے اعتبار سے یہ دوسرے نمبر پر ہے۔آبادی کی کثرت اور اناج کی قلت کے مسئلے پر پچھلے سو دیڑھ سو برسوں سے مغربی ملکوں کے دانشور مختلف خطوط پر سوچ رہے ہیں۔بعض ماہرین کم وقت اور کم زمین پر زیادہ سے زیادہ فصل حاصل کرنے کے عملی تجربے کر رہے ہیں اور ا س میں انھیں کامیابی بھی مل رہی ہے۔ظاہر ہے کہ یہ مثبت اور بہتر اقدامات ہیں۔ دوسری طرف ’کچھ دانشور‘ ایسے بھی گذرے ہیں جو آبادی کو کم کرنے کے نہایت مضحکہ خیزطریقے اپنانے کی سفارشات کیں۔پریم چند کے اس مضمون سے کچھ ایسے ہی مضحکہ خیز مشوروں اور سفارشات سے واقفیت ہوتی ہے۔اس بابت پریم چند نے لکھا ہے:

یورپ میں آبادی کو روکنے کے لیے مالتھس نے یہ تجویز نکالی تھی کہ غربا کو شادی سے محترز ہونا چاہیے۔ایک دوسرے فرقے کی تجویز یہ تھی کہ صرف انھیں لوگوں کو شادی کرنی چاہیے جو قوی الاعضا اولاد پیدا کر سکیں۔اور ایک تیسرے فرقۂ علما کا خیال ہے کہ ہمیں اضافۂ نسل کو معاش کے محکوم رکھنا چاہیے۔لیکن جدید ترین تحقیقات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہر ملک کی زمین اس کی بڑھتی ہوئی آبادی کے لیے کافی غلہ پیدا کرنے کی قابلیت رکھتی ہے بشرطیکہ اس کی قوت کو قائم رکھنے اور بڑھانے کی کوشش کی جاتی رہے۔1

پریم چند کے اس مضمون سے واضح ہوتا ہے کہ وہ آبادی کو کم کرنے کے نہیں بلکہ اناج کی پیدائش کو بڑھانے کے طریقوں پر عمل کرنے کے قائل تھے۔ان کا یہ ماننا تھا کہ ہندوستان میں غلے کی پیدائش کو بڑھانے کے طریقوں پر اتنی توجہ نہیں دی گئی جتنی دینی چاہیے تھی۔ اس سلسلے میں انھوں نے انگلستان،فرانس اور ڈنمارک میں ہونے والی زراعتی اصلاحات کا ذکر کرتے ہوے بتایا ہے کہ وہاں فی ایکڑ اناج اگانے کی مقدار ہندوستان سے تین چار گنہ زیادہ ہے۔پریم چند ایسی اصلاح اپنے ملک میںبھی لانے کے خواہش مند تھے۔ مگر اصلاح کیسے لائی جائے ؟ہندوستان اس ضمن میں طرح طرح کے مسائل کا شکارکل بھی تھا اور آج بھی ہے۔ بقول پریم چند جب تک یہ مسائل حل نہیںکیے جاتے زراعتی ترقی نا ممکن ہے۔

پریم چند کی نگاہ میں سب سے پہلا مسئلہ یہ تھا ( جو آج بھی برقرار ہے) کہ ہندوستان کے بیشتر کاشتکار غیرتعلیم یافتہ ہیں۔کاشتکاروں کو محض علمی تحقیقات سے نہ دلچسپی ہوتی ہے اور نہ اس سے انھیںکوئی فائدہ پہنچتا ہے۔ تاو قتیکہ عملی اصلاحیں کاشتکاروںکو نہ بتا ئی جائیں۔ پریم چندنے لکھا ہے کہ ہر سال انڈسٹریل کانفرنسیں منعقد ہوتی ہیں لیکن اس کی کوئی خبر کاشتکاروں تک نہیں پہنچتی تھی کیونکہ ساری کا روائی انگریزی میں ہوتی تھی۔ اس سلسلے میں انھوں نے کانفرنسوں کے منتظمین کو یہ مشورہ دیا تھاکہ وہ ایسی کانفرنسوں کی روداد کو عام فہم ملکی زبان میں لکھ کر مفت تقسیم کریں۔ بقول ِپریم چند ایسا کرنے سے کچھ نہ کچھ اثر پڑنے کے امکانات تھے۔

پریم چند نے نصابِ تعلیم میں زراعتی تعلیم کو بھی داخل کرنے کی تجویزپیش کی ہے۔انھوں نے اس کا فائدہ یہ بتایا ہے کہ اس سے طلبا میں اوائلِ عمر ہی سے زراعت سے دلچسپی بڑھے گی اور وہ آگے چل کر زراعت کے پیشے کو کم نگاہی سے نہ دیکھیں گے۔اس کے علاوہ محنت ومشقت سے جی چرانے کا رجحان بھی کم ہو گا۔پریم چند نے تعلیم یافتہ لوگوںکی ملازمت پسندی کوزراعت کی ترقی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ کہا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

زراعت کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ تعلیم یافتہ فرقے کی ملازمت پسندی ہے۔یہاں تک کہ بڑے بڑے ذی اقتدار اور صاحبِ ثروت رؤ سا بھی اپنے لڑکوں کو اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کر کے انھیں ملازمت کے لیے پیش کر دیتے ہیں۔اس طرح وہ لوگ جو کاشتکاروں کی حالت میں کچھ اصلاح کرنے کے قابل ہیں،اپنے ایک قومی فرض کی طرف سے آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ 2

یہاں پریم چند نے کاشتکاروں کی اصلاح کو قومی فرض کہا ہے۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ زراعت کے میدان میں اصلاح اور کاشتکاروں کی فلاح وبہبودی کو کتنی اہمیت دیتے تھے۔

پریم چند نے ایک تجویز یہ بھی پیش کی تھی کہ دیہاتوںمیں تقرر پانے والے مدرسین کو یہ تربیت دی جائے کہ وہ کاشتکاروںکومصنوعی کھاد اور عمدہ بیجوں کے استعمال کے مشورے دے سکیں۔کیونکہ اس دور میں یورپ میں مصنوعی کھاد کے استعمال سے فصل کی پیدائش دو چند بلکہ سہ چند ہو چکی تھی۔جب کہ ہندوستان میں گوبر ہی سے کھاد کا کام لیا جارہا تھا۔پریم چند نے حکومت کی توجہ اس طرف بھی مبذول کروائی کہ بڑے بڑے کارخانے شہروں میں قائم کرنے کے بجائے دیہاتوں میں قائم کیے جائیں۔پریم چند کی نظر میں اس کا فائدہ یہ تھا:

ہمارے کاشتکار فاضل اوقات میں کوئی مفید مشغلہ نہ ہونے کے باعث بیکار بیٹھے رہتے ہیں...ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ بجائے بڑے بڑے شہروں میں کارخانے کھولنے کے مواضعات میں صنعت وحرفت کا شغل جاری کریں۔ تاکہ ہمارے کاشتکارخود مختار مالکانِ زمین کی حیثیت سے گر کر محض مزدور نہ ہو جائیں۔آج کل ملک میں کپڑے کا قحط ہے۔اس کا باعث بجز اس کے اور کیا ہے کہ ہم کپڑوں کے لیے بڑے بڑے کارخانوں کے محتاج ہیں۔ہمارے پاس نہ اتنا سرمایہ موجود ہے نہ آسانی سے کلین دستیاب ہو سکتی ہے۔لیکن اگر کاشتکاروں میں سوت کاتنے اور کپڑا بننے کی صنعت زندہ کی جائے تو یہ قحط بڑی حد تک رفع ہو سکتا ہے۔3

اس مضمون میں پریم چند نے اس طرح کی کئی تجاویز پیش کی ہیں۔یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ پریم چند کی ان تجاویز کو حکومت اور قوم کے دانشوران کہاں تک روبہ عمل لاسکے،لیکن اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ پریم چند ہندوستان کی زراعتی ترقی کے مسئلے پر نہایت متفکر رہا کرتے تھے۔ اس ضمن میں وہ جو کچھ سوچ سکتے تھے انھوں نے سوچا اور جو کچھ تجاویزپیش کرسکتے تھے انھوں نے پورے خلوص کے ساتھ پیش کیں۔اس مضمون کے مطالعے سے یہ بات اجاگر ہوتی ہے کہ پریم چند صرف ادیب نہیں تھے اور نہ انھوں نے خود کو ادب تک محدود رکھا بلکہ جتنے بھی قومی اور ملکی مسائل ہو سکتے تھے ان پرانھوں نے پورے خلوص کے ساتھ غورو خوض کیا اور مختلف تحریروں کے ذریعے اپنی بات اربابِ مجاز اور عوام تک پہنچادی۔

صوبۂ متحدہ میں ابتدائی تعلیم

پریم چند کی عملی زندگی کا آغاز مدرس کی حیثیت سے ہوا۔ لگ بھگ بائیس برسوں تک انھوں نے معلمی کی خدمت انجام دی۔ اس دوران میں انھیں پرائمری، اپر پرائمری اور ہائی اسکول کی سطح تک تدریس کا تجربہ حاصل ہو چکا تھا۔ان کی ملازمت زیادہ تر دیہاتوں میں رہی۔ اسی لیے وہ پرائمری تعلیم کے مسائل اور اس کے نصاب سے اچھی طر ح واقف تھے۔چوں کہ ان کی ملازمت زیادہ تر دیہاتوں میں رہی اس لیے وہ دیہاتوں میں تعلیم کے مسائل اور اس کی دقتوں سے بھی بخوبی آگاہ تھے۔ دوسری اہم بات یہ بھی ہے کہ وہ برائے نام مدرس نہیں تھے بلکہ ان کے دل میں تعلیم کو عام کرنے کے تئیں پُر خلوص جذبہ بھی تھا۔اسی لیے وہ تعلیم سے جڑے ہوے مسائل پر غور کیا کرتے تھے اور اس میں اصلاح لانے کے طریقے سوچا کرتے تھے۔

زیرِ تبصرہ مضمون پریم چند کے اسی جذبے کی عکاسی کرتا ہے۔آزادی سے قبل آگرہ اور اودھ کو’صوبۂ متحدہ ‘ کہا جاتا تھا۔غالباً ان دونوں صوبوں کو ملا کر ایک صوبہ بنایا گیا تھا۔اس مضمون میں پریم چند نے اسی صوبے کی ابتدائی تعلیم کی صورتِ حال کاجائزہ لیا ہے۔

 ہندوستان میں پرائمری تعلیم کی جو صورتِ حال تھی اور جو اس کا انفرا اسٹرکچر تھا، اس سے پریم چند بہت دلبرداشتہ اور مایوس تھے۔پریم چند نے سینٹ نہال سنگھ کے ایک مضمون کو پڑھ کر (جو امریکا کے ایک موضعے میں تعلیم کے انتظام سے متعلق تھا) جن احساسات کا اظہار کیا ہے اس سے ان کی مایوسی اور دلبرداشتگی کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔وہ لکھتے ہیں:

دسمبر کے ماڈرن ریویو میں سینٹ نہال سنگھ نے ایک نادر مضمون لکھا ہے۔جس میں امریکا کے ایک موضع کی کیفیت بیان کی ہے۔اسے پڑھ کر حیرت بھی ہوتی ہے اور مایوسی بھی۔حیرت اس لیے کہ تہذیب کی جو آسانیاں اور اسباب اس گاؤں میں ہیں وہ ہندوستان کے بڑے بڑے شہروں کو نصیب نہیں۔اور مایوسی اس لیے کہ شاید ہندوستان کی قسمت میں ترقی لکھی ہی نہیں۔دو ہزار آدمی کا موضع اور ہائی اسکول،اس کی عمارت، اس کے کتب خانے، اس کی لیبورٹری پر ہندوستان کا کوئی کالج ناز کرسکتا ہے۔کیا ہندوستان کے بھی کبھی ایسے نصیب ہوں گے۔4

پریم چندنے امریکا کے دیہات کے اس مدرسے کا موازنہ ہندوستان کے مدارس سے کرتے ہوے افسوس کے ساتھ لکھا ہے کہ:

اب ایک طرف تو اس دیہاتی مدرسے کو رکھیے، اور دوسری طرف ایک ہندوستانی دیہاتی مدرسے کا خیال کیجیے۔ایک درخت کے نیچے جس کے ادھر ادھر کوڑا کرکٹ پڑا ہوا ہے،اور جہاں شاید برسوں سے جھاڑو نہیں دی گئی،ایک پھٹے پرانے ٹاٹ پربیس پچیس بچے بیٹھے اونگھ رہے ہیں۔سامنے ٹوٹی ہوئی کرسی اور ایک پرانی میز ہے اس پر حضرتِ مدرس کی ذات متمکن ہے۔ لڑکے جھوم جھوم کر پہاڑے رٹ رہے ہیں،شاید کسی کے بدن پر ثابت کرتہ نہ ہوگا۔دھوتی ران کے اوپر تک بندھی ہوئی۔ٹوپی میلی کچیلی، صورت گرسنہ، چہرے پژمردہ،یہ آریہ ورت کا مدرسہ ہے جہاں کسی زمانے میں تکس شلا اور ندیا  [کذا، نالندہ] کے دارالعلو م تھے۔کس قدر تفاوت ہے، ہم تہذیب کی دوڑ میں دیگر اقوام سے کس قدر پیچھے ہیں کہ شاید وہاں تک پہنچنے کا حوصلہ بھی نہیں کر سکتے۔5

ہندوستان میں پرائمری تعلیم کی یہ صورتِ حال پریم چند کو افسردہ کر دیتی تھی۔ان کی خواہش تھی کہ ہندوستان کے مدارس میں بھی معیاری تعلیم کاا نتظام ہو۔یہاں کے نظامِ تعلیم اور نصابِ تعلیم میں وہ بہت زیادہ اصلاحات کی ضرورت محسوس کرتے تھے۔ قابل مدرّسوں کی کمی اور اسکول کی عمارتوں کے فقدان کوپریم چنداس اصلاح کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے۔حکومت چار چار درجوں پر صرف ایک مدرس کا تقرر کرتی تھی،اور ان کا مشاہرہ تھا چار تا پانچ روپے۔پھر اس غریب مدرس پر ڈاک خانے کے کام کا اضافی بوجھ بھی لاد دیا گیا تھا۔گویا وہ ٹیچر بھی تھا، گاؤں کا پوسٹ ماسٹر اورڈاکیہ بھی تھا۔

اس مضمون کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانے میں دیہات کے مدرسوں کو ڈاک خانے کے کام کی زائد ذمے داری بھی دی جاتی تھی۔ گو اس کام کی وجہ سے انھیں خفیف سی آمدنی ہوتی تھی لیکن تعلیم وتدریس پراس کا منفی اثر پڑتا تھا۔مدرس تعلیم و تدریس پر خاطر خواہ توجہ نہیں دے پاتا تھا۔پہلے ہی چار چار درجوں کے بچوں کی تعلیم اور ان کی نگرانی پھر ڈاک خانے کا کام۔یہ تویک نہ شد دو شد والا معاملہ تھا۔

پریم چند اس نظام ِمیں تبدیلی اور اصلاح چاہتے تھے۔انھوں نے اس مضمون میں مدرس کی تنخواہ کم سے کم پندرہ روپے ماہانہ کی سفارش کی ہے۔اس کے علاوہ انھوں نے ٹریننگ کالج سے تعلیم وتدریس کی ٹرینگ پانے والے اساتذہ کے تقرر پربھی زور دیا ہے۔ عام طور پر غیر تربیت یافتہ اساتذہ کی تدریس موثر نہیں ہوتی۔ کیوں کہ وہ تعلیم وتدریس کے سائنٹی فک اصولوں سے واقف نہیں ہوتے۔

پریم چند نے نصابِ تعلیم کی اصلاح کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا ہے کہ پرائمری تعلیم کا نصاب ایسا ہونا چاہیے کہ چار برس تک پڑھنے کے بعد بچے اپنی روز مرہ کی ضروریات کی حد تک تعلیم یافتہ ہو جائیں۔اپر پرائمری کے نصاب کے تعلق سے پریم چند نے لکھا ہے کہ:

ہمارا خیال ہے کہ اپر پرائمری درجے کی تعلیم اگر وہ ذرااور وسیع کر دی جائے تو کاشت کاروں کی ضروریات کے لیے کافی ہے۔ریڈریں جو اس وقت مروج ہیں زبان کے لحاظ سے ناکارہ ہیں۔ان کے پڑھنے سے لڑکے بجز بول چال کے نہ ہندی زبان جانتے ہیں اورنہ اردو،ان کی زبان کی اصلاح ہونی چاہیے تا کہ لڑکے رامائن تو سمجھ لیں۔ قاعدے کی ضرورت نہیں اسے خارج کر دینا چاہیے۔ جغرافیہ کی تعلیم کا فی ہے۔ حساب میں بھی کچھ کسر نہیں، عملی سوالات کی مشق زیادہ ہونی چاہیے۔ڈرائنگ فضول ہے، اس کے بجائے تندرستی کے متعلق ایک چھوٹی سی پرائمری ہونی چاہیے اور قواعدِ زبان کی جگہ زراعت کے کچھ اصول سکھائے جانے چاہیئں۔اس وقت خط وکتابت کا طریقہ نہیں سکھایا جاتا یہ اک بہت ضروری شے ہے۔اس کا بھی کچھ انتظام ہونا چاہیے۔اور تب ابتدائی تعلیم کا مسئلہ گویا حل ہو جائے گا۔6

بقولِ پریم چند عموماً دیہاتوں میں مدرسے کی کوئی عمارت نہیں ہوتی تھی۔بیشتر دیہاتوں میں کسی درخت کے نیچے یا کسی زمین دار کے گھر کے سامنے جھونپڑے میں یا گو شالہ کے اند ر کسی کونے میں بچوںکو پڑھایا جاتا تھا۔ اگر کہیں کوئی عمارت ہوتی بھی تو اس قدر خستہ اور بوسیدہ کہ خدا کی پناہ۔ایسے ماحول میں کیسے تعلیم دی جاسکتی تھی؟ چنانچہ پریم چند نے مدرسوں کے لیے ڈھنگ کی عمارتوں کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔حکومت سے کہا ہے کہ وہ مدارس کے معائنے(انسپیکشن) کی مد میں جتنی رقم خرچ کرتی ہے اس میں سے کچھ کم کر کے انفرا اسٹرکچر میں لگا دے تویہ زیادہ بہتر ہوگا۔

ابتدائی تعلیم،اس کی اصلاح اور ترقی کے باب   میں پریم چند کے یہ خیالات یقینا قابلِ قدر اور قابلِ غور ہیں۔ پریم چندنے یہ مضمون 1909 میں لکھا تھا جب کہ انھیں تعلیم وتدریس کے میدان میں آئے ہوئے تقریباً بیس برس ہو چکے تھے۔ان بیس برسوں کے دوران میں وہ جن تجربات اور مشاہدات سے گزرے اور جن مسائل ومشکلات کا انھیں سامنا کرنا پڑا ان کی روشنی میںپریم چند نے یہ مضمون سپردِ قلم کیا ہے۔پرائمری تعلیم کے مسئلے اور اس کی اصلاح پر پریم چندنے جن خیالات کا اظہار کیا ہے موجودہ زمانے میںبھی ان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

 دراصل پریم چند کو تعلیم وتدریس کے موضوع سے بڑی دلچسپی تھی۔وہ جتنی دلچسپی سے ادبی اور علمی کتابوں کا مطالعہ کیا کرتے تھے اتنی ہی رغبت سے تعلیم وتربیت سے متعلق کتابوں کو بھی پڑھا کرتے تھے۔تعلیم وتربیت سے متعلق کتابوں کی اشاعت پر وہ بڑی مسرت کا اظہار بھی کرتے تھے اور ایسی کتابوں کے مصنفین کا حوصلہ بھی بڑھاتے تھے۔ تعلیم وتربیت کے موضوعات پر لکھی گئیں کتابوں پر پریم چند نے جو تبصرے اورتنقیدی مضامین تحریر کیے ہیں ان کے مطالعے سے بھی اس موضوع سے ان کی گہری وابستگی کا اندازہ ہوتا ہے۔لالہ گوکل چند کی تصنیف ’بچوں کی تربیت‘ پرتحریر کردہ تبصرے کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں جس سے راقم الحروف کے دعوے کی تصدیق ہوتی ہے۔ پریم چند نے لکھا ہے :

ہمارے یہاں ہر شخص اپنے لڑکے کو یونیورسٹی تعلیم دلوانا چاہتا ہے۔اس کی قدرتی مناسبت کے تحقیق کرنے کی ذرا بھی کوشش نہیں کی جاتی۔جس کا نتیجہ مضر یہ ہے کہ بہت سے لڑکے جو دوسرے صیغۂ تعلیم میں ترقی کرتے وہ اپنی طبیعت کے خلاف کتابیں رٹنے پر مجبور کیے جاتے ہیں۔مگر سوال یہ ہے کہ رجحاناتِ طبعی کا اندازہ کیوں کرکیاجائے۔بچپن میں قویٰ بہت ضعیف ہوتے ہیں اور کسی خاص میلان کا اظہار نہیں ہو تا۔لہٰذا 13؍برس کے سن تک لازم ہے کہ بچے کو اسکول کی معمولی تعلیم دی جائے۔ اس کے بعد جس کی طرف توجہ دیکھیںاسی ڈھرے پر لگا دیں۔اگرمصنف نے چند لفظوں میں کنڈر گارٹن طریقۂ تعلیم کا تذکرہ دیا ہوتا تو کتاب اور بھی مفید ہوجاتی۔ قدیم اسپارٹا یا قدیم ہندوستان کے طرزِ تربیت کا تذکرہ کرنے سے جو اب بالکل متروک اور گئی گزری باتیں ہو گئیں ہیں کنڈر گارٹن کا تذکرہ بدرجہا زیادہ فائدہ بخش ہوتا۔7

المختصرپریم چند کا یہ مضمون ابتدائی تعلیم کے مسائل، حل اور اصلاحات پر ان کی گہری فکر مندی کا مظہر ہے۔ اس مضمون میںبھی پریم چند نے ابتدائی تعلیم کے نصاب میں زراعتی تعلیم کی بنیادی باتیں شامل کرنے کی بات کی ہے تاکہ آگے کاشتکاروں کو اس سے فائدہ پہنچے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ہمیشہ اور ہر معاملے میں قومی اور ملکی مفاد پریم چندکے پیشِ نظر رہا کرتا تھا۔

 کلا بھون

کلا بھون‘ کے نام سے بڑودہ ریاست کے مہاراجہ نے ایک نہایت معیاری اور عصری تقاضوں کی تکمیل کرنے والا صنعتی کالج( انڈسٹریل کالج) قائم کیا تھا جو آج بھی برقرار ہے اور غالباً یونیورسٹی میں تبدیل ہو گیا ہے۔ یہ مضمون اسی کالج کے تعارف اوراس کے معیارِ تعلیم کے تذکرے پر مشتمل ہے۔ پریم چند نے اس کالج کے قائم کرنے پر بڑودہ ریاست کے مہاراجہ کی بڑی تحسین وستائش کی ہے اور ان کے اس اقدام کو دوسری ریاستوں کے لیے قابلِ تقلید کہا ہے۔وہ لکھتے ہیں :

ریاستِ بڑودہ نے صرف عام تعلیم اور معاشرتی مسائل ہی میںحیرت انگیز ترقی نہیں کی ہے بلکہ صنعتی معاملات میں بھی وہاں پوری توجہ صرف کی گئی ہے۔اور اس عقدہ کا حل کرنے میں اس دور بینی سے کام لیا گیا ہے جو ہندوستان کی دوسری ریاستوں کے لیے قابلِ تقلید ہے۔مہاراجہ صاحب بڑودہ پختہ کار مدبر اور منتظم شخص سے یہ امر کیسے مخفی رہ سکتا ہے کہ کسی قوم کی ترقی کا سب سے بڑا ذریعہ صنعت وحرفت ہے۔کلابھون جو بڑودہ کا خاص صنعتی کالج ہے.....کیا بہ لحاظ ِمعیارِ تعلیم اور کیا بہ لحاظِ طلبایہ کالج سب ہندوستانی ریاستوں کے کا لجوں میںممتاز ہے۔8

اس اقتباس میں پریم چند نے جس مسرت آمیز اسلوب میںاپنے احساسات کا اظہاکیا ہے اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پریم چند کو ریاستِ بڑودہ کے مہاراجہ کے اس اقدام سے کتنی خوشی ہوئی تھی۔یہ خوشی اور مسرت پریم چند کے اس میلان و رغبت کو بھی ظاہر کرتی ہے جو انھیں تعلیم  وتدریس کے موضوع سے تھی۔دراصل پریم چند ہندوستان کو تعلیم اور ہنر کے میدان میں خودمکتفی دیکھنا چاہتے تھے،یہی نہیں بلکہ وہ اپنے ملک کومعیارِ تعلیم کی بلندی پر پہنچتا دیکھنے کی خواہش بھی رکھتے تھے۔وہ یہ جانتے تھے کہ صنعتی کالجوں کے قیام کے بغیر صنعت وحرفت کو فروغ نہیں مل سکتا۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ یوروپی ممالک کی طاقت اور ترقی کا راز صنعتی ترقی میں پوشیدہ ہے۔

پریم چند نے اس مضمون میں کالج میں چلنے والے کورسس، داخلے کا طریقۂ کار،فیس، امتحانات کا طریقہ، مصارفِ تعلیم، وظائف کی سہولت،نظریاتی تعلیم اور عملی تربیت کے معیار،لیبوریٹری اور اس میں استعمال ہونے والے آلات وغیرہ پر گفتگو کی ہے۔پریم چند کے کہنے کے مطابق اس کالج میں زیرِ تعلیم طالبِ علم کے ماہانہ مصارف صرف سولہ روپیے ہوتے تھے جب کہ اس طرز کے دوسرے کالجوں میں چالیس روپیے خرچ آتا تھا۔

پریم چند نے لکھا ہے کہ ہمارے ملک کو تحقیقاتی کالجوں کی اتنی ضرورت نہیں ہے جتنی مفیدِ عام صنعتی کا لجوں کی ہے۔اسی لیے انھوں نے انگریزی حکومت اور دیسی ریاستوں کے حکمرانوں سے اس طرز کے زیادہ سے زیادہ کالج کھولنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔آخر میں صوبہ ٔ  متحدہ ( آگرہ اور اودھ) کے خواہش مند طلبا سے کہا ہے کہ اس کالج میں زیادہ سے زیادہ طلبا داخلہ لے کر اس سے فیض یاب ہوں۔ کیوں کہ یہاں ماہانہ صرف سولہ روپیوں کے مصارف سے تین سالہ کوئی کورس کر کے طلبا اچھے سے اچھا روز گار حاصل کر سکتے ہیں۔

تعلیم وتدریس اور نصابِ تعلیم سے متعلق ان مضامین کے مطالعے سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ پریم  چندکو ان موضوعات سے گہری دلچسپی اور ذہنی مناسبت تھی۔ان موضوعات ومسائل پر وہ غور وفکر کرتے تھے۔ جہاں جو بات قابلِ ستائش ہوتی اس کی تعریف و تحسین کرتے اور جہاں جو بات قابلِ گرفت ہوتی بے باکی کے ساتھ اس کی مذمت بھی کرتے تھے۔ وہ ہر معاملے میں قومی اور ملکی مفاد کو پیشِ نظر رکھتے تھے۔

’’زراعتی ترقی کیو ں کر ہو سکتی ہے‘‘ایسا مضمون ہے جس میں انھوں نے زراعتی علم وتحقیق کے شعبے میں ہندوستان کی پسماندگی پرافسوس کا اظہار کیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس شعبے میں ہونے والی سائنسی تحقیقات سے ہندوستانی کاشتکاروں کو اچھی طرح واقف کروانے کا سجھائو بھی دیا ہے۔ اس کے علاوہ اس راستے میں جو رکاوٹیں پیش آتی تھیں ان کی طرف اشارے بھی کیے ہیں اور انھیں کس طرح دور کیا جاسکتا ہے اس کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔’’صوبۂ متحدہ میں ابتدائی تعلیم ‘‘ کے مطالعے سے تعلیم وتدریس کے موضوع سے ان کی فطری رغبت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس مضمون میں انھوں نے ایک ماہرِ تعلیم کی طرح ابتدائی تعلیم کے مسائل اور اس کی اہمیت وافادیت پر نتیجہ خیز گفتگو کی ہے۔ مضمون’کلا بھون‘ تیکنیکی اور صنعتی تعلیم کے موضوع سے پریم چند کی رغبت کو ظاہر کرتا ہے۔

حوالے

1       زراعتی ترقی کیوںکر ہو سکتی ہے مشمولۂ کلیاتِ پریم چند مرتب مدن گوپال( قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان دہلی،2003) جلد 21ص 58

2       ایضاً ص60

3       ایضاً ص61

4       صوبۂ متحدہ میں ابتدائی تعلیم مشمولۂ کلیاتِ پریم چند مرتب مدن گوپال( قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان دہلی، 2003) جلد 20ص 252

5       ایضاً ص 252

6       ایضاً ص257

7       حال کی بعض کتابیں مشمولۂ کلیاتِ پریم چند مرتب مدن گوپال( قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان دہلی، 2003) جلد 20ص 133

8       کلا بھون مشمولۂ کلیاتِ پریم چند مرتب مدن گوپال( قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان دہلی،2003)جلد 20ص 375

 

Dr. Mohammed Azmat ul Haq

Assit. Professor,  Dept. of Urdu,

Degloor College, DEGLOOR-431717

Dist Nanded (M.S)      

Mob :7020407042




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں