22/2/22

مہر نیم روز : ضلع بجنور میں اردو صحافت کا امام - پرویز عادل ماحی

 



ہندوستان میں مطبوعہ اردو صحافت کی تاریخ 199 برس پرانی ہے۔مولوی محمد باقر کے دہلی ارد و اخبار کو بیشتر حضرات نے اردو کا اولین اخبار تسلیم کیا ہے۔کثرت سے زائد تعداد میں اردو مورخین کلکتہ سے شائع ہوئے جام جہاں نماکو اردو صحافت کا نشان اول اور اخبار قرار دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں گربچن چندن کی تحقیق پوشیدہ حقیقت کو بے نقاب کرتی ہے ۔چندن صاحب کے ذریعے متواتر دو برس تک نیشنل آرکائیوزآف انڈیا کے نہاں خانے میں کی گئی تحقیق کے بعدیہ خبر تصدیق کو پہنچی کہ ہندوستان میں مطبوعہ اردو صحافت کا آغاز مارچ1822میں جاری ہونے والے اردو کے حقیقی اولین مطبوعہ اخبار ’جام جہاں نما‘ سے ہوا تھا، جس کے اولین ناشر ہری ہردت اور پہلے مدیر مسئول سدا سکھ لعل تھے۔

اردو صحافت کے مشہور نامور اخبار ’مدینہ‘ بجنور پر کی گئی تحقیق کے دوران مجھ پریہ حقیقت واضح ہوئی کہ سرزمین بجنور ہمیشہ سے ہی اردو صحافت کے لیے زرخیز رہی ہے۔ یہاں پر ہر دور میں حق بات کہنے والوں کی نہ صرف فراوانی رہی بلکہ آ زادی کی جنگ میں علم بغاوت بلند کرنے والوں میں بھی یہ ضلع پیش پیش رہا۔

اردوصحافت کے فروغ اور اخبارات کی اشاعت سے متعلق جب طویل دوری تک سناٹا چھایا ہوا تھا تب بجنور ضلع کی سرزمین’ مہر نیم روز‘  کی اشاعت سے دنیائے صحافت کو حق و صداقت کا علم بلند کرنے کا سبق پڑھارہی تھی۔

مہر نیم روز بجنور ضلع سے شائع ہوا پہلا اردو اخبار تھا جو 1878میں مردم خیز بستی بجنور سے جاری ہوا تھا۔  جیسا کہ معلوم ہے کہ اختلاف ہرجگہ اور ہر شعبے میں اپنی جگہ بنائے ہوئے ہے اس لیے مہر نیم روز کی تاریخ اشاعت بھی اختلافات سے خالی نہیں لیکن اختلاف سے تحقیق کا در کھلتا ہے۔

ایک مقام پر مہر نیم روز کا سنہ اجرا 1886لکھا ہوا ہے۔ اردو صحافت پر گہری سمجھ کے لیے مشہور امداد صابری نے اپنی کتاب تاریخ صحافت میں مہر نیم روز کا سنہ اجرا 1879تحریر کیا ہے ۔ شکیل بجنوری اپنی کتاب ’ صد سالہ صحافت‘ میں اس کا سنہ اشاعت 1893درج کرتے ہیں۔ محمد افتخار کھوکر اپنی کتاب تاریخ صحافت کے صفحہ 59پر مہر نیم روز کا سنہ اجرا 1877لکھتے ہیں۔ لیکن اردو صحافت کی ایک نادر تاریخ کے مولف مولوی محبوب عالم )ایڈیٹر پیسہ اخبار لاہور( مہر نیم روز کا صحیح سنہ اجرا 1878تحریر فرماتے ہیں وہ لکھتے ہیں کہ ہمارے پاس اس اخبار کا ایک شمارہ 28 ستمبر سنہ1900محفوظ ہے۔ اس پر جلد22اور نمبر36 درج ہے اس حساب سے اس کا درست سنہ اجرا نکالنا آسان ہوجاتا ہے۔یہ اخبارہفتہ وار تھا اور 12 صفحات کے بڑے سائز پر چھاپا جاتا تھا۔ ہر صفحے پر تین کالم ہوتے تھے۔ مالک و مہتمم حافظ کریم اللہ تھے۔ یہ کریم المطابع میں چھپتا تھا۔

اخبار کی لوح پر جو اطلاعات پڑھنے والوں کے لیے چھپتی تھیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ مہر نیم روز تین بنیادی اصول پر کام کرتا تھا:

.1      اخبار کا چندہ والیان ریاست اور عمائدین سے زیادہ اور کم آمدنی والوں سے کم لیا جاتا تھا

.2      اخبار اکثر پڑھنے والوں کو بلا درخواست بھی بھیجا جاتا تھااور یہ وضاحت کردی جاتی تھی کہ اخبار کا  لینا منظور نہ ہو تو اسے واپس کردیں۔

.3      نامہ نگاروں کو اس شرط کے ساتھ اخبار مفت دیاجاتا تھا کہ وہ ہر ہفتے باقاعدگی سے خبریں اور مضامین بھیجتے رہیں گے۔

پہلے صفحے پر اخبار کے نام کے نیچے فارسی کا یہ قطعہ پابندی سے درج کیا جاتا تھا۔

تابشہ خاور بوددرباخترفیروز۔ تا بودبدرالدجیٰ قندیل مہ از مہروز

جشن سالانہ و شاہانہ مشود حاصل بدہر۔ مطبع دہم اہم مطبع را چو ایں نوروز روز

تا بعالم مطبع  واخبار را رسم بود۔مخبر صادق بود اخبار مہر نیم روز

یہ اخبار طویل عرصے تک جاری رہا۔ سنجیدہ لب و لہجے کا اخبار تھاتاہم پڑھنے والوں کی دلچسپی کے پیش نظر سنسنی خیز خبریں بھی شائع کرتا تھا۔ اس میں حالات حاضرہ پر معلوماتی اور علمی مضامین بھی ہوتے تھے۔ سرکاری پالیسیوں پر جرأ ت کے ساتھ تنقید کرتا تھا۔

مہر نیم روز‘  سرسید کے خیالات کا ہم نوا تھا اور تعلیمی معاملات میں ان کی تائید و حمایت کرتا تھا۔ لیکن اسلامی عقائد و نظریات کے معاملے میں یا علی گڑھ کالج کے منتظمین کی حکومت پرستی کے رویے پر متانت کے ساتھ گرفت بھی کرتا تھا۔ جب علی گڑھ کا لج میں بد عنوانیوں کی اصلاح کے لیے سابق طلبا اور ٹرسٹیوں کا گروپ بنا تو ’مہرنیم روز‘ اس گروپ کا ترجمان بن گیا اور اس تنازعے میں ا پنا بھرپور کردار ادا کیا۔

مہر نیم روز کی اشاعت 14فروری1881 میں مولانا  محمد حسین آزاد کا ایک مضمون شائع ہوا تھا، جس میں انھوں نے ابتدائی جماعتوں کی درسی کتابوں کی تیاریوں کا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ اس کام میں کتنی جانکاہ محنت کرنی پڑی۔ اسی مضمون میں انھوں نے آب حیات کی پذیرائی پر بھی اظہار تشکر کیا ہے اور اس  معرکہ آرا تصنیف کے وجود میں آنے کے اسباب پر بھی روشنی ڈالی۔وہ لکھتے ہیں

اکثر ذوق و شوق کے وقت سوسائیٹیوں اور کمیٹیوں کے مضامین لکھنے میں اڑ گئے۔ بڑا حصہ عمر گراں بہار کا سر رشتہ تعلیم کی ابتد ائی کتابوں کی تصنیف میں صرف ہوا۔ وہ کتابیںنام کو ابتدائی ہیں مگر مجھ سے انھوں نے انتہا سے بڑھ کر محنت لی۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ جب تک آپ پختہ نہ ہو جائیں  تب تک بچوں کے مناسب حال کتاب میں نہیں لکھ سکتے۔پھر انھیں بار بار کاٹنا اوربنانا، لکھنا اور مٹانا،بڈھا ہو کر بچہ بننا پڑا، پھرتے،چلتے، جاگتے، سوتے بچوں ہی کے خیالات میں رہا،مہینوں نہیں برسوں صر ف ہوئے۔جب وہ بچوں کے کھلونے تیا ر ہوئے۔

خیر ـ،میرے پیارے اہل وطن!

اب یہ تمھاری خدمت ہے ۔وہ تمہارے بچوں کی خدمت تھی مگر کاش وہ دن جو میری عمر کے فصل بہار تھے، طبیعت جوان تھی، جوش چمکتے تھے، مضامین برستے تھے اور رنگ اڑتے تھے ان تصنیفات میں خرچ ہوئے جن سے میرے وطن کی صلاح و اصلاح تھی۔ میں اس حال میں بھی تمہیں بھولا نہیں۔

جو وقت نوکری کے کام سے خالی پاتا تھا اس میں آرام نہ کرتا تھا، بہت کم سوتا تھا اور اپنی معلومات کو اور جو اس سے خیالات پیدا ہوتے تھے لکھتا جاتا تھا۔  اس میں سے یہ اوراق پریشاں نکالے ہیں، جو آب حیات کا جام بن کر تمھاری ضیافت طبع کے لیے حاضر کیے ہیں۔‘‘

مہر نیم روز کمزور ہندوستانیوں کی مضبوط آواز تھااور معیار صحافت پرآنچ آنے کی شکل میں ذمے داران کی گرفت بھی کرتا تھا۔ اس سلسلے کی دو شہادتیں ہمارے سامنے موجود ہیں

(1)     ریاست لنڈھورہ ’مقالہ‘ افتتاحیہ ریاست لنڈھورہ کی بابت ہے جس میں معاصر اخبار’جامع العلوم‘ مرادآباد پر سخت تنقید کی گئی ہے کہ وہ ریاست کے انتظام کے متعلق جھوٹی اور من گھڑت باتیں لکھ رہا ہے۔ علاوہ ازیں ریاست کی رانی صا  حبہ کے چال چلن پر اخبار نے جو الزام تراشیاں کی ہیں وہ اخبار نویسی کے پیشے کوپڑھنے والوں کی نظروں میں ذلیل کردیں گی،کیونکہ اخبار نے اب تک جو کچھ لکھا ہے ان سب باتوں کی ’مہر نیم روز‘نے چھان بین کی اور وہ سب کی سب بے بنیاد نکلیں۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ اس مہم کا مقصد ناجائز فائدہ اٹھانا اور اپنی مٹھی گرم کرنا ہے۔ مضمون میں یہ توقع بھی کی گئی ہے کہ ’جامع العلوم‘آئندہ ذاتیات کی بحث سے گریز کرے گا

(2)     عدالتوں میں دیوناگری زبان کا مروج ہونا۔اردو کو دیو ناگری کا لباس پہنائے جانے پر اخبار نے نہایت مدلل مضمون لکھا ہے اور ان مسائل کی نہایت تفصیل سے نشاندہی کی ہے جو فوجداری عدالتوں میں اردو کے نہ ہونے سے پیدا ہو گئے ہیں۔ اخبار نے عدالتوں میں اظہارات کا اردو زبان میں لکھنے کی اجازت دینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

مہر نیم روز مختصر اور طویل خبریں چھاپنے کا بھی اہتمام کرتا تھا کارسپانڈنس کی خبروں کوبھی اہمیت دی جاتی تھی۔ تار سے ملنے والی خبروں کو بھی اہمیت کے ساتھ شائع کیا جاتا تھا۔ انتخاب اخبارات کے ذیل میں مختصر اور طویل خبروں کے ضمنی عنوانات سے ملکی اور غیر ملکی خبریں درج ہیں بعض خبریں عجیب و غریب ہیں۔مثلا  مرادآباد کے شفاخانے میں ایک شخص علاج کے لیے ایسا آیا ہے جس کی شکل بالکل کتے کی  مشابہ ہے۔

خبروں کی زبان ادبی بھی ہوتی تھی۔12'13دسمبر کو دہلی میں اس قدر کثرت سے بارش ہوئی کہ صدہا مکانات سر بسجود ہوگئے۔ اخبار میں سنی سنائی اور غیر مصدقہ خبریں بھی چھپتی تھیں، ایک جگہ ایک عالیشان الٹا مکان ہے اس کی چھت نیچے ہے اور دروازہ آسمان کی طرف۔ دور سے دیکھنے پر چکا چوند تو لگ ہی جاتی ہے لیکن اوپر جاکر کھڑکی وغیرہ اور راستے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آدمی سر کے بل چل رہے ہیں۔اس عجیب و غریب مکان کو ایک روسی کاریگر نے بنایا ہے اور کیفیت یہ ہے کہ جب اور جہاں چاہیں اس مکان کو لے جا سکتے ہیں۔

منقولات‘کے عنوان سے ایک مضمون ’وسط ایشیا میں روسی انتظام‘ نہایت معلومات افزا ہے مضمون سے اس زمانے میںروس  کے صحافیوں کے حالات پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ ایک واقعہ جو اودھ اخبار کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے کہ روس میں ایک سول اخبار کے ایڈیٹر نے ایک کرنل کے خلاف کچھ سچی باتیں لکھ دیں۔ کرنل ریوالور لے کر ایڈیٹر کو قتل کرنے اس کے مکان پر گیا۔قبل اس کے کہ وہ اپنے ارادے کو عملی جامہ پہناتا ایڈیٹر نے اسے طمانچہ مار کر گرا دیا اور خود بھاگ کر روسی گورنر جنرل کے پاس گیا اور حفاظت کی درخواست کی لیکن وہاں سے اسے کوئی مدد نہ ملی۔ جب کرنل کو پتہ چلا کہ ایڈیٹر ہائی کورٹ میں انصاف طلب کرنے پہنچ گیا ہے تو اس نے وہاں جاکر ایڈیٹر کو قتل کردیا۔کرنل کو دو سال کی سزا ہو گئی لیکن سینٹ پیٹر برگ سے کرنل کی سزا معاف ہو گئی اور اسے عہدے سے ترقی دے دی گئی۔

کارسپانڈنس‘ کے عنوان سے خبریں چھاپی جاتی تھیں۔ ایک خبر انڈین ڈیلی ٹیلی گراف کے نمائندے مسٹر جیمس کے قبول اسلام کی بھی ہے خبر میں بتایا گیا ہے کہ 26سالہ مسٹر جیمس لندن میں پیدا ہوئے تھے۔والد کانام گلاس کن تھا ان کی تربیت و تعلیم بمبئی میں ہوئی، انھوں نے اپنا اسلامی نام علی تجویز کیا

اردو صحافت کی ایک نادر تاریخ کے مولف مولوی محبوب عالم ) ایڈیٹر پیسہ اخبار لاہور( لکھتے ہیں کہ مہر نیم روز1903میں بجنور سے ہی نئے نام ’عروج‘سے شائع ہوا۔منشی نعیم اللہ اس کے مالک و مہتمم تھے۔ سالانہ چندہ چار روپیہ تھا۔

صد سالہ صحافت ضلع بجنور کے مؤلف شکیل بجنوری نے اپنی کتاب کے صفحہ 81پر مہر نیم روز کی تعداد اشاعت 300اور فی پرچہ قیمت 2پیسہ تحریر کیا ہے انھوں نے 14فروری1893کو جاری شمارے کا عکس بھی کتاب میں چھاپا ہے۔ مشہور زمانہ کتاب ’اردو صحافت کا سفر‘کے مصنف گربچن چندن اپنی کتا ب کے صفحہ 137 پرمہر نیم روز کی تعداد اشاعت علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ سے زائد تحریر کرتے ہیں۔

اردوصحافت کا اولین مطبوعہ اخبار جام جہاں نما تھا کہ دہلی اردو اخبار۔ اس پر کافی کچھ لکھا جا چکا ہے اور لکھا جاتا رہے گا لیکن اس پر اختلاف رائے نہیں کہ اردو کے لیے شہید ہونے والے اولین صحافی ’مولوی محمد باقر‘تھے اور جب ملک میں اردو صحافت نے اپنے قدم بڑھائے تب محض چند برس بعد ہی بجنوری سر زمین سے جاری ہوا ’مہر نیم روز‘ اردو صحافت کے ماتھے کا جھومر بن کر چمک رہا تھا اور یہاں سے یکے بعد دیگر ے اخبارات کی اشاعت کا سلسلہ قائم ہوگیا تھا اس طور ہم کہہ سکتے ہیں کہ ’مہر نیم روز‘ نہ صرف ضلع بجنور میں اردو کا اولین اخبار ہے بلکہ ضلع میں اردو صحافت کا امام کہلانے کا شرف بھی ’مہر نیم روز‘کوحاصل ہے۔

مآخذ و مصادر

1       اردو صحافت کی ایک نادر تاریخ، لاہور پاکستان: مولوی محبوب عالم، مقدمہ و حواشی: طاہر مسعود

2       اردو صحافت کا سفر: گربچن چندن

3       صد سالہ صحافت ضلع بجنور: شکیل احمد خاں شکیل

4       تاریخ صحافت: محمد افتخار کھوکھر



Pervez Adil Mahi

Qazi Sarai, Nagina

Distt.: Bijnor - 246722 (UP)

Mob.: 9412568028

Email.: parvezadilmahi123@gmail.com





 


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں