22/7/22

لتا منگیشکر کا ایک یادگار اردو سبق - مضمون نگار : محمد قاسم انصاری

 



اردو زبان کی چند نمایاں خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ اردو شیریں اور میٹھی زبان ہے اسی لیے اردو جیسی حسین، خوبصورت اور دلکش زبان سے محبت کرنے والے ملک کے طول و عرض میں موجود ہیں۔یہی نہیں بلکہ سرحدوں کے پار بھی اس زبان کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔  اردو شاعری بالخصوص اردو غزل کی مقبولیت اس کی سب سے روشن مثال ہے۔اردو کے لاتعداد شعرا کے کلام اور انکے اشعار زبان زد خاص و عام ہیں۔ ملک کی مختلف محفلوں، مشاعروں اور بڑے بڑے پروگراموں میں اردو اشعار بکثرت پڑھے اور سنے جاتے ہیں۔ گلی کوچوں، محلوں اور بازاروں سے لے کر ایوان بالا اور قصر شاہی تک اردو اشعار کی جلوہ گر ی دیکھی جا سکتی ہے۔ غزل سرائی کے کنسرٹس اور غزل گلوکاروں نے اردو کو عوام میں مقبول بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ بڑے غلام علی خان،  مہدی حسن، بیگم اختر، جگجیت سنگھ،  طلعت عزیز، غلام علی، پنکج ادھاس، ہری ہرن، چترا سنگھ کے علاوہ درجنوں نام ہیں جنھوں نے اردو غزل کو شہرت دوام بخشا۔ اس پس منظر میں استاد داغ دہلوی نے کچھ غلط نہ کہا تھا کہ         ؎

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ

ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے

اس تمہید کو پیش کرنے کا مقصد فقط اتنا ہے کہ سروں کی ملکہ، فخر ہندوستان اوراس کائنات کی ایک عظیم گلوکارہ لتا منگیشکر کی سریلی، شیریں اور سحرانگیز آوازکو دلکشی، غنائیت و موسیقیت عطا کرنے میں اردو کا نمایاں کردار ہے۔ قدرت نے انھیں آواز کا انمول تحفہ تو عطا کیا ہی تھا اس میں مزید نکھار پیدا کرنے کے لیے انھیں اردو زبان کی جانب مائل کردیا۔ ان کے جادوئی گلے سے نکلی آواز میں اردو الفاظ کی مٹھاس اس طرح رچ بس گئی کہ ان کے گیتوں کی پہچان ان کی آواز کے ساتھ اردو زبان بھی بن گئی۔

یوں تو لتا جی کی مادری زبان مراٹھی تھی اور اپنے کیریئر کا آغاز انھوں نے مراٹھی فلموں سے ہی کیا لیکن اس مراٹھی گلوکارہ نے اپنے فن کوجلا بخشنے کے لیے اردو زبان بھی سیکھی۔یہ خوبصورت زبان سیکھنے کے پیچھے ایک بڑا دلچسپ واقعہ ہے جسے اکثر لوگ نہیں جانتے۔ اس واقعہ کونسرین منی کبیر نے اپنی کتاب بعنوان ’لتا منگیشکر‘ میں کچھ اس طرح بیان کیاہے۔ وہ لکھتی ہیں:

’’بات 1948 کی ہے جب لتا منگیشکر انل بسواس کے ساتھ ٹرین میں سفر کر رہی تھی۔ اس ٹرین میں شہنشاہ جذبات دلیپ کمار صاحب بھی تھے۔ سفر کے دوران انل بسواس نے لتا کا تعارف دلیپ صاحب سے کرایا اور کہا کہ یہ نئی لڑکی ہے یقیناً آپ کو اس کی آواز پسند آے گی۔ انھوں نے گذارش کی کہ وہ اس مراٹھی لڑکی سے فقط ایک نغمہ سن لیں۔ لتا کی نغمگی اور دلکش آواز سننے کے بعد دلیپ صاحب نے ان کی خوب تعریف اور حوصلہ افزائی کی۔ تلفظ اور اردو الفاظ کی ادائیگی میں کچھ کمی نظر آئی تو بطور مشورہ واصلاح یہ تلقین کی کہ وہ اردو زبان اور سیکھ لیں تاکہ آواز کی مٹھاس کے ساتھ اردو کی شیرینی اس میں مزید شامل ہو جائے۔ کیونکہ آپ کے گانے میں صحیح تلفظ کی ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے کہیں کہیں دال بھات کی بو آتی ہے۔ لتا جی نے دلیپ کمار صاحب کی اس نصیحت پر بھرپور عمل کیا اور آواز کی اس ملکہ نے اردو زبان سیکھنی شروع کردی۔ نسرین کہتی ہیں کہ لتا جی نے یہ واقعہ محمد شفیع نامی شخص کو بتایا جو ہندی فلموں میں اردو زبان کی اہمیت سے بخوبی واقف تھے۔ محمد شفیع نوشاد اور انل دا کے معاون بھی تھے۔ لتا جی کے اصرار پر انھوں نے محبوب نامی شخص کو اردو سکھانے کے لیے مقرر کیا۔گویا محبوب لتا جی کے اردو استاد مقرر ہوئے اور کچھ عرصے تک انھوں نے اردو زبان سکھائی۔ اس کتاب میں لتا کہتی ہیں کہ وہ اردو زبان بہت اچھے طریقے سے نہیں بول پاتی تھیں لیکن نغموں میں اردو الفاظ کی ادائیگی پورے اعتماد کے ساتھ کرتی تھیں۔ بعض مشکل الفاظ کو وہ ناگری میں لکھ لیا کرتی تھیں۔اس طرح انھوں نے اردو زبان سیکھی۔ آگے چل کر دلیپ صاحب اور لتا جی کا یہ رشتہ بہن بھائی کے رشتے میں تبدیل ہوگیا۔ وہ انھیں ہمیشہ اپنی جھوٹی بہن تصور کرتے رہے اور لتا جی بھی ہمیشہ دلیپ صاحب کی کلائی میں راکھی باند ھ کر اس مقدس رشتے کی پاسداری کرتی رہیں۔

لتا کی اردو زبان سے وابستگی اور ان کے اعتماد کی تعریف اس عہد میں نرگس کی ماں جدن بائی نے بھی کی۔ لتا کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ وہ فلم محل کے نغمہ ’آے گاآنے والا‘ کی ریکارڈنگ کے لیے اسٹوڈیو گئی تھیں۔ ساتھ والے کمرے میں نرگس اور ان کی ماں جدن بائی موجود تھیں۔ ریکارڈنگ کے دوران جدن بائی نے لتا کا پورا نغمہ سنا۔ پھر انھیں بڑی شفقت سے اپنے قریب بلایا اور ان کا نام پتہ پوچھا۔ جدن بائی نے لتا کی آواز اور اردو الفاظ کی ادائیگی کی خوب ستائش کی۔لتا نے جدن بائی سے مزید کہا کہ وہ ابھی اردو زبان سیکھ رہی ہیں۔لتا اردو زبان سیکھنے سے متعلق مزید کہتی ہیں کہ جو بھی نغمہ انھیں گانے کے لیے دیا جاتا تو وہ نغمہ کے الفاظ اور اس کے تلفظ کی خوب مشق کرتی اور ان کی ادائیگی پرزور دیتی تھیں۔ ایک مرتبہ جب وہ کسی نغمے کے بول سنتی تو اس کے تلفظ اور صوتی آہنگ کو ناگری رسم خط میں بھی لکھ لیا کرتی تھیں۔

یہ اور اس قسم کی متعدد باتیں لتا جی اور اردو زبان سے متعلق اس کتاب میں ملتی ہیں۔ انھوں نے اردو کی مقبول ترین صنف غزل میں بھی اپنی آواز کی جلوہ گری اور اس کی سحرانگیز ی دکھائی ہے۔ اردو کے شہرہ آفاق شاعر مرزا غالب کی غزلوں کو ترنم بخشا جو ان کے غیر فلمی ریکارڈس میں درج ہے      ؎

رونے سے اور عشق میں بے باک ہو گئے

نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا

پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا/ کوئی امید بر نہیں آتی

بازیچہ اطفال اور ہزاروں خواہشیں ایسی وغیرہ غزلوں کو اپنی مسحورکن آواز بخشی۔ اپنے پورے کیریئر میں لتا نے ہندی اردو فلموں کے علاوہ دیگر زبانوں کے تقریباً تیس ہزار نغمات کو اپنی آواز بخشی۔

اردو کے ممتاز شاعر مجروح سلطانپوری نے اپنی ایک نظم کا عنوان ’لتا منگیشکر‘ کے نام دیاہے اس نظم میں لتا جی کے فن اور ان کی عظمت کا اعتراف جس انداز میں مجروح صاحب نے کیا ہے وہ اعتراف اردو کے حوالے سے ہندی سنیما کی تاریخ میں دور دور تک نظر نہیں آتا۔ مجروح لکھتے ہیں          ؎

میرے لفظوں کو جو چھو لیتی ہے آواز تیری

سرحدیں توڑ کے اڑ جاتے ہیں اشعار میرے

تجھ کو معلوم نہیں،یا تجھے معلوم بھی ہو

وہ سیاہ بخت جنھیں غم نے ستایا برسوں

ایک لمحے کو جو سن لیتے ہیں نغمہ تیرا

پھر انھیں رہتی ہے جینے کی تمنا برسوں

جس گھڑی ڈوب کے آہنگ میں تو گاتی ہے

 آیتیں پڑھتی ہیں سازوں پے صدا تیرے لیے

دم بدم خیر مناتے ہوئے تیری چنگ و رباب

سینۂ نے سے نکلتی ہے دعا تیرے لیے

نغمہ و ساز کے زیور سے رہے تیرا سنگار

ہو تیری مانگ میں تیرے ہی سروں کی افشاں

تیری تانوں سی تیری آنکھ میں کاجل کی لکیر

ہاتھ میں تیرے ہی گیتوں کی حنا ہو رقصاں

میرے لفظوں کو جو چھو لیتی ہے آواز تیری

سرحدیں توڑ کے اڑ جاتے ہیں اشعار میرے

مجروح صاحب نے ہندی فلموں کے لیے لا تعداد نغمے تخلیق کیے لیکن انھیں قبول عام لتا جی کی آواز سے ہی نصیب ہوا۔یہ بات فقط مجروح صاحب کے ساتھ ہی مختص نہیں بلکہ لا تعداد اردو اور ہندی کے شاعروں کے نغمات کوابدی آہنگ لتا جی نے ہی عطا کیا لیکن مجروح نے جومنظوم خراج عقیدت پیش کیا ہے وہ لتا منگیشکر کی عظمت کا ہی خاصہ ہے۔

ہندی سنیما کی اس عظیم گلوکارہ کا فلمی سفر تقریباً سات دہائیوں پر محیط ہے۔اس پورے سفر میں انھوں نے ہزاروں اردو ہندی نغمات کو آواز دی۔ گویافن گلو کاری میں لتا جی خود میں ایک ایسی انجمن و دبستان تھیں جہاں سے اس فن کے بہت سے چشمے پھوٹے اور آج کی نئی نسل ان چشموں سے خوب فیضیاب وسیراب ہو رہی ہے۔ آواز کی جادوگری اور نغمہ سرائی کی کوئی ایسی محفل اور کوئی ایسا منچ نہیں جہاں انھیں نہ یاد کیا جاتا ہو۔ قدرت نے انھیں جوسحر انگیز آواز عطا کی تھی وہ ہندی سنیما میں کسی اور گلوکار و گلوکارہ کو میسر نہ آسکی۔ اسی لیے ملک کے ہر بڑے اعزاز سے انھیں نوازا گیا۔ بھارت رتن، دادا صاحب پھالکے ایوارڈ، پدم بھوشن وپدم و بھوشن جیسے باوقار اعزازات کے ساتھ بلبل ہند اور سروں کی ملکہ کے خطابات اور متعدد اعزازات، انعام و اکرام سے انھیں سرفراز کیا گیا لیکن پھر بھی ہر ایک کو یوں لگتا ہے کہ ان کی آواز اور ان کے فن کا مقام کچھ اور ہی ہے۔

28ستمبر 1929 میں لتا منگیشکر مدھیہ پردیش کے اندور شہر میں پیدا ہوئیں۔فن موسیقی اور گلوکاری کی تعلیم گھر میں ہی ملی۔ان کے والد پنڈت دینا ناتھ منگیشکر خود ایک گلوکار اور اداکار تھے۔ لتا کا بچپن غربت میں گزرا۔ لتا کے والد گھر میں بچوں کو موسیقی اور گانے کی تعلیم دیتے تھے۔ لتا خوب دلچسپی کے ساتھ والد کے درس کو سنا کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ لتا کے والد گھر پر نہیں تھے اور وہ کلاس نہیں لے سکے۔ کہتے ہیں کہ اس دن ان کی جگہ ننھی لتا نے وہ کلاس لے لی۔ والد اپنی بیٹی کی خوبیوں سے بخوبی واقف تھے انھوں نے یہ پیشن گوئی بھی کی تھی کہ ایک دن اس کی آواز پورے افق پر چھا جائے گی لیکن اس دن وہ لتا کی اس کامیابی کو دیکھنے کے لیے موجود نہیں ہوں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا لتا کو کامیاب دیکھنے سے قبل ہی اس کے والد کا انتقال ہوگیا۔ لتا گھر میں سب سے بڑی تھیں۔آشا بھونسلے اور اوشا منگیشکر ان کی چھوٹی بہنیں ہیں جو اس میدان میں ایک منفرد مقام رکھتی ہیں۔ہر دے ناتھ منگیشکر لتا کے چھوٹے بھائی ہیں۔اپنے ابتدائی دور میں انھوں نے سخت محنت و جدو جہد کی۔والد کے انتقال کے بعد اپنے مستقبل کو سنوارنے سے لے کر گھر کی ذمے داریاں انھیں کے کاندھوں پر تھیں اور انھوں نے بحسن خوبی اسے انجام دیا۔ لتا جی نے کلا سیکی موسیقی وگلوکاری کی تعلیم اور اس کی باریکیاں استاد امانت علی خان سے سیکھیں۔ استاد کے پاکستان ہجرت کر جانے کے بعد انھوں نے اس سلسلے کو جاری رکھا۔ بڑے غلام علی خان کے شاگرد پنڈت تلسی داس شرما سے فیض حاصل کرتی رہیں۔

لتا جی نے اپنے فلمی سفر کا آغاز 1948 میں کیا۔ انھوں نے فلم ساز غلام حیدر کی فلم مجبور کے لیے نغمے گائے اس فلم کا دل میرا توڑا جیسا نغمہ بے حد مقبول ہوا۔ 1949 میں فلم محل اور انداز منظر عام پر آئیں اس طرح وہ اپنے معاصر ین شمشاد بیگم، امیر بائی کرناٹکی جیسی صف اول کی گلوکاراوں میں شامل کی جانے لگیں۔

بلبل ہند لتا منگیشکر کو جب شہرت ملنی شروع ہوئی تو ان کے مخالفین و حاسدین بھی پیدا ہونے لگے۔ ایک مرتبہ وہ سخت بیمار پڑ گئیں۔ڈاکٹر نے دیکھنے کے بعد یہ انکشاف کیا کہ انھیں کھا نے میں زہر دیا جارہا ہے نیز یہ سلسلہ کافی دنوں سے جاری ہے۔ڈاکٹر کے انکشاف کے بعد چھان بین اس بات کی شروع ہوئی کہ انھیں کون زہر دے رہا ہے اور کب سے دے رہا ہے؟۔ بالآخر گھر کے ملازم بالخصوص طباخ کی چھٹی کر دی گئی۔ یہ راز پوری طرح افشا نہ ہو سکا کہ انھیں زہر کون اور کیوں دے رہا تھا۔ وجہ صاف تھی کہ وہ معاصرین کی نظروں میں کھٹکنے لگی تھیں۔لتا جی اس وقت کی ملکہ ترنم نورجہاں کو اپنا گرو مانتی تھیں۔وہ غیر منقسم ہندوستان کی سب سے مشہور گلوکارہ تھیں۔ نورجہاں بھی لتا کی عظمت کا اعتراف کرنے لگی تھیں۔

1950-60 لتا منگیشکر کے کیریئر کا اہم موڑ ہے۔ اس عہد میں انھوں نے پلے بیک سنگنگ میں اپنا منفرد مقام بنایا۔یہ ایسا دور تھا کہ فلم انڈسٹری کا ہر بڑے سے بڑا فلم ساز لتا جی کو اپنی فلموں میں ترجیح دیتا۔ بیجو باورا، مغل اعظم اس دور کی سب سے یادگار فلمیں ہیں۔ ان فلموں کو شاہکار بنانے میں لتا جی کی آواز کو بہت بڑا دخل ہے اور انھیں متعدد فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اسی طرح 80 کی دہائی میں شنکر جے کشن، نوشاد، ایس ڈی برمن، مدن موہن، سی رام چندر، سنیل چودھری،خیام اور سجاد حسین کے ساتھ موسیقی کی دوسری نسل میدان میں آچکی تھی۔اب لکشمی کانت پیارے لال، آر ڈی برمن اور کلیان جی آنند جی جیسے بڑے موسیقار آچکے تھے۔ لتا جی نے ان تمام موسیقی کاروں کی دھنوں کو لا زوال بنا دیا۔ کہتے ہیں اسی دوران ہند چین جنگ ہوئی تو فوج کے جوانوں میں جوش و ولولہ پیدا کرنے کے لیے ایک گیت کی ضرورت شدت سے محسوس کی گئی۔چناچہ پردیپ جی کو ایک نغمہ تخلیق کرنے کی ہدایت کی گئی۔انھوں نے موقع کی مناسبت سے بڑی جانفشانی سے اے میرے وطن کے لوگو!  جیسابیش قیمت نغمہ خلق کیااور اسے لتا جی نے جب اپنی آواز بخشی تو پورا گانا سننے کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم پنڈت نہرو نے کہا تھا کہ بیٹی تونے مجھے رلا دیا۔90 کی دہائی میں لتا جی کی عمر بڑھ رہی تھی لیکن اس بڑھتی عمر میں بھی ان کی آواز ماند نہ پڑی۔ اسی تازگی کے ساتھ وہ فلموں میں گاتی اور کروڑوں دلوں کو مسحور کر تی رہیں۔ہندی سینما کی لا تعداد اداکاراؤں کو انھوں نے اپنی آواز بخشی۔مینا کماری۔ مدھوبالا، نندا، وجینتی مالا، مالا سنہا، آشا پاریکھ، سائرہ بانو، شرمیلا ٹیگور،ہیما مالنی وجیا بچن سمیت درجنوں ایکٹریس سے لے کر شری دیوی، جیا پردہ، مادھوری دکشت، رانی مکھرجی پریتی زنٹا و عہدِ حاضر کی لا تعداد اداکاراؤں کو اپنی آواز بخشی۔ا نہوں نے اپنے کیریئر میں سب سے زیادہ نغمے محمد رفیع کے ساتھ گائے۔ لتا اور رفیع کی جوڑی نے ایک عرصے تک لوگوں کے دلوں پر حکمرانی کی۔رفیع کے بعد لتا جی نے کشور کمار کے ساتھ 327 نغمے گائے جبکہ مکیش کے ساتھ 161 گانے گائے۔ اسی طرح مناڈے، مہندر کپور، طلعت محمود، ہیمنت کمار،سی رام چندر،سریش واڈیکر، شبیر کمار، امت کمار، نتن مکیش محمد عزیزمحمد، ادت نارائن، کمار شانو، سونو نگم کے علاوہ موجودہ گلوکاروں کے ساتھ بھی نغمے گائے اور ہندی سنیما کو بلندی عطا کی۔لتا جی کی گائیکی کا یہ طویل سفر اردو دوستی اور اردو زبان سے محبت کا بھی مظہر ہے۔آج وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن ان کے لازوال نغمے فضاؤں میں گونجتے اورہمارے کانوں کو مسحور کرتے رہیں گے۔ وہ ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ انھوں نے خود ہی کہا تھا کہ’تم مجھے یوں بھلا نہ پاؤگے۔‘ ان کی سنگنگ کا ذکر جب جب اور جہاں کہیں ہوگا اس میں ان کی آواز کی عظمت کے ساتھ اردو کا مذکورہ سبق بھی یقینا یاد رکھا جائے گا۔

 

Dr. Mohd Qasim Ansari

Asst. Prof. Dept of Urdu, BHU,

Varanasi (UP)

Mob.: 8112967265

 

 


 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں