22/7/22

لتا منگیشکر اور اردو تلفظ مضمون نگار : نازیہ


 


گزشتہ چند دہائیوں کے دوران جن خاتون گلوکاروں نے ہندوبیرون ہند اپنی آواز کا جادو جگایا، اور جنھیں عوام وخواص میں بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی ان میں لتامنگیشکر کا نام سرفہرست ہے۔لتا منگیشکر نے تقریباً سات دہائیوں تک ہندی سنیما کواپنی آواز دی اور چار نسلوں کو اپنے گائے ہوئے نغموں سے مسحور کیا۔نہایت کم عمری ہی میں وہ مقبولیت کے زینے چڑھنے لگی تھیں۔تقریباً بیس سال کی عمر میں ان کی شہرت دور دور تک پھیل گئی تھی۔یہ وہ زمانہ تھا جب کلاسیکی نغموں کی گونج ہر طرف سنائی دیتی تھی، لتاجی نے ان نغموں کو بہترین ا ندازمیں گایااور لوگوں کا دل جیت لیا۔اس کے بعد بدلتے وقت اور ماحول میں وہ اپنی گائیکی کو ڈھالتی رہیں اور ایک کے بعدایک کامیاب نغمے ہندی سنیماکو دیتی رہیں۔یہاں تک کہ جب بیسویں صدی کے اواخر اور اکیسویں صدی کے اوائل میں نئے انداز کے نغموں کا رواج بڑھا تب بھی لتا جی کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی اور ان کے اس دورکے گائے ہوئے گانوں کو بھی پسند کیا گیا۔ دراصل لتا جی حقیقی معنوںمیں فنکار تھیں، ان کی آواز میں جادو جیسی تاثیر تھی اور ان کا ترنم دل وروح میں اترنے کی صلاحیت رکھتاتھا۔ اس لیے وقت کا اتارچڑھائو ان کے فن کو متاثر نہ کرسکابلکہ جیسے جیسے وقت بڑھتا گیا، اس میں اورزیادہ نکھار پیدا ہوتا گیا۔

 لتامنگیشکر کی گائیکی کو جن اسباب کی بنیادپر مقبولیت حاصل ہوئی ان میں ایک سبب ان کا اردو تلفظ تھا۔اسی لیے انھوں نے گیتوں میں مستعمل اردو حروف والفاظ کی بہترین ادائیگی کی۔اردوزبان کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں خوبصورت الفاظ کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ اگراردوالفاظ کو سلیقے سے گفتگو میں برتا جائے، تو اس میں لطف پیدا ہوجاتاہے، تحریر کی لڑی میں پرویا جائے تو تحریر کی خوبصورتی بڑھ جاتی ہے اور جب ان لفظوں کو شاعری کے قالب  میں ڈھالا جاتا ہے تو شاعری کے حسن میں اضافہ ہوجاتا ہے۔غالباً یہی وجہ ہے کہ ہندی تحریروں، تقریروں،نظموں اورگیتوں میں بھی اردو الفاظ کا خوب استعمال کیا جاتا ہے۔ اردوکی اسی شیرینی کو محسوس کرتے ہوئے ہندی سنیما بھی ہندی فلموں کے مکالموں اور گیتوں میں اردو الفاظ کے استعمال میں کسی سے پیچھے نہیں رہا، خاص طورسے ہندی سنیما میں ابتدائی کئی دہائیوں تک تو اردو کاہی دبدبہ قائم تھا۔ اس وقت کے نغمے لکھنے والے شعرا ساحر لدھانوی، شکیل بدایونی، مجروح سلطانپوری اردو  کے عظیم شاعر تھے۔ یہ تمام حضرات غزل گوئی میں بھی اپنا مقام رکھتے ہیں۔ ان کے لکھے گئے نغموں کی خاص بات یہ ہے کہ انھوں نے نغموں میں بھی شاعری کے معیار سے سمجھوتہ نہیں کیا۔ اس وقت کے مقبول نغمے سنیے، آپ کو ا ن میں بہترین شاعری نظرآئے گی اوریہ بھی دکھائی دے گا کہ شعرانے نغموں کی لڑی میں اردو کے خالص اور خوبصورت لفظوں کو کس حسن وخوبی کے ساتھ پرویا ہے۔ لتا منگیشکر کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے ان لفظوںکا تلفظ بہت خوبصورت انداز میں کیا ہے، جس کی وجہ سے ان نغموں میں جان پڑگئی۔

تلفظ کی سطح پر اردو الفاظ میں بہت نزاکت پائی جاتی ہے۔ اگر الفاظ کا تلفظ درست طورپر کیاجاتا ہے تو وہ سننے میں اچھے محسوس ہوتے ہیں لیکن اگر ان کی ادائیگی میں بے احتیاطی برتی جاتی ہے تو ان کی ساری کشش جاتی رہتی ہے اوروہ بذاتہٖ پُرکشش ہونے کے باوجود بھدے معلوم ہوتے ہیں۔لتا منگیشکر اس راز سے واقف ہوگئی تھیں، اس لیے انھوں نے اردولفظوں کی ادائیگی پر بہت زور صرف کیا اور اپنی گائیکی میں اس طرح ان کوادا کیا کہ ان کا حسن دوبالا ہوگیا۔اس کے برعکس اگر وہ تلفظ پر توجہ نہ دیتیں اور ان کی ادائیگی میں احتیاط سے کام نہ لیتیں تو بہترین آواز وانداز کے باوجوداردو کے وہ لفظ ا تنا مزہ نہ دیتے اور اس سے ان کی گائیکی متاثر ہوسکتی تھی۔

اردوالفاظ کو صحیح طورسے ادا کرنے کے لیے لتامنگیشکر نے اپنے کیرئیر کے آغاز میں ہی دھیان دینا شروع کردیا۔ وہ یہ بات سمجھ چکی تھیں کہ اردو تلفظ پر عبور حاصل کرنے کے لیے اردوکے چند الفاظ کے تلفظ کو درست کرلینا کافی نہیں ہے بلکہ اردو زبان جاننا بھی ضروری ہے۔ اس لیے انھوں نے نہ صرف اردو کے حروف کی ادائیگی کی مشق کی بلکہ اردو کے رسم الخط کو بھی سیکھا۔اس لیے کہ رسم الخط حروف کی ادائیگی اور لفظوں کے تلفظ میں معاون ثابت ہوتا ہے، نیز اردوزبان کے مزاج ومذاق سے بھی قریب تر کردیتا ہے۔اچھی بات یہ ہوئی کہ انھیں ایک مولوی صاحب کی خدمات حاصل ہوگئیں۔ مولوی صاحب نے انھیں اردو زبان سکھائی اور ان کے تلفظ کو درست کرادیا۔اردو سیکھ لینے کے بعد اردوسے انھیں خاصا لگاؤ ہوگیا تھا۔اس کااعتراف لتاجی نے ماہنامہ’ شمع‘ کے ستمبر 1967کے شمارے میں شائع ایک انٹرویومیں کرتے ہوئے کہا تھاکہ ’’بلاشبہ انھوں نے تیس مختلف زبانوںمیں گیتوں کو اپنی آواز دی ہے مگر جو بلند و بالا وقار ان کے وجود میں اردو کا ہے، اس کا اپنا مزہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ مراٹھی ایک طرح سے ان کی مادری زبان کی طرح تھی مگر جس طرح سے اردوکو مولوی عبدالصمد اور پھر بعد میں دلیپ کمار سے سیکھا، وہ ان کے دل کی زبان بن گئی۔‘‘ 

 لتامنگیشکر کے لیے ج،خ،ز،ش، ع،غ،ق، جیسے حروف کی ادائیگی نہایت آسان تھی۔ یہ بات ہم ان کے گانے سنتے ہوئے بآسانی محسوس کرسکتے ہیں۔اگرچہ دوسری اور بھی بہت سی گلوکارہ ایسی ہیں جواردو الفاظ کا صحیح تلفظ کرنے کی کوشش کرتی ہیں،لیکن جس خوبصورتی کے ساتھ لتا جی ان کی ادائیگی کرتی ہیں، اس کی نظیر نہیں ملتی۔ان کا گایا ہوا گانا’’ ترے بنا زندگی سے کوئی شکوہ تو نہیں‘‘ میں ’ ز‘ کی ادائیگی انھوں نے بہت خوبصورتی کے ساتھ کی ہے۔تلفظ کی جونزاکت اردو میں ہوتی ہے، اس کا پورا خیال انھوں نے رکھا ہے۔’ز‘ کو انھوں نے نہ تو ’ذال ‘کی طرح اداکیا ہے اور نہ ہی اس کو رگڑ کر اداکیا ہے اور یہی اردو کے حروف کی ادائیگی کا مزاج بھی ہے۔ اسی گانے میں لفظ ’ شکوہ‘ کی ادائیگی بھی بہت خوبصورت ہے۔  ان کا گایا ہوا گانا ’لگ جاگلے‘  بہت مشہور ہوا۔ اس گانے کی کئی ایک خصوصیات ہیں۔ یہ گانا لفظ کے اعتبار سے بھی بہت عمدہ ہے اور معنی کے اعتبارسے بھی۔ اس کے علاوہ اسے مزیدپرکشش اور موثر لتاجی کی آواز نے بنادیا ہے کہ سننے والا کھوسا جاتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ایک اور بات جو بہت اہم ہے وہ ہے لتاجی کے ذریعے الفاظ کا خوبصورت تلفظ۔اس گانے کی یہ لائنیں قابل سماعت ہیں         ؎

لگ جاگلے کہ پھر یہ حسیں رات ہونہ ہو

 شاید پھر اس جنم میں ملاقات ہونہ ہو

اس میں لتاجی نے ’ شاید‘ اور ’ملاقات‘ کا تلفظ بہت خوبصورتی کے ساتھ کیا ہے۔ ’شاید‘میں حرف ’ ش‘ توجہ کا حامل ہے۔اگر اس کی ادائیگی کے وقت ’ س‘ کی آواز نکالی جاتی تو نہ صرف لفظ ’شاید‘ کی کشش ختم ہوجاتی بلکہ پوری لائن بڑی بھدی سی معلوم ہوتی۔خاص طورسے یہاں’ ش‘ کی ادائیگی ’ س ‘ کی شکل میں کرنے سے اہل زبان کو تکلیف سے گزرنا پڑتا۔ایسے ہی لفظ’ ملاقات‘ بھی تلفظ کے اعتبار سے اپنے اندر بڑی نزاکت رکھتا ہے۔حرف ’ ق‘ کو لتاجی نے بہت ہی عمدگی کے ساتھ اداکیا ہے۔جب کہ بہت سے لوگ ’قاف ‘کو ’کاف ‘کی طرح ادا کرتے ہیں لیکن گانے کے اندر جس میں ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرف اہمیت رکھتاہے، یہاں تک کہ آواز کے زیر و بم کی بھی اپنی اہمیت ہوتی ہے۔کسی بھی سطح پر ذراسی چوک نہ صرف ترنم کو متاثر کرسکتی ہے بلکہ اس کی خوبصورتی پر بھی اثر انداز ہوسکتی ہے۔ گائیکی میں ایک اور دقت یہ ہوتی ہے کہ کئی مرتبہ لفظ کی صحیح طورپر ادائیگی کی صورت میں ترنم یا سر کے متاثر ہونے کاخوف دامن گیر  رہتا ہے اور اگر سر چلاجاتا ہے تو پھر بات ہی خراب ہوجاتی ہے، اس لیے حرف کی ادائیگی کے وقت اس بات پر بھی دھیان دینا پڑتا ہے کہ کہیں ادائیگی کے سبب سر ہی غائب نہ ہوجائے۔ اب یہاں اگر’ ملاقات‘ کے حرف’ ق‘ کو زیادہ حلق سے رگڑ کر نکالا جائے گا توسر یا ترنم کے متاثر ہونے کاخدشہ ہے اور اگر’ قاف‘ کی آوازکو’ کاف‘ کی آواز میں اداکیاجائے گا تو لفظ کی خوبصورتی کا ختم ہونا یقینی ہے۔ ایسے میں کمال یہ ہے کہ حرف ’ قاف‘ بھی اداہوجائے، سر بھی غائب نہ ہو یعنی ترنم کی کشش بھی باقی رہے اور لفظ کا حسن بھی ختم نہ ہو۔

ایسے مواقع پر لتامنگیشکر بہت خوبصورتی کے ساتھ اپنا رول نبھاتی ہیں۔ لفظوں کی صحیح ادائیگی کرتی ہیں، اور ترنم یا سرکو بھی متاثر نہیں ہونے دیتیں۔جبکہ کتنے گلوکار ایسے مواقع پر پوری طرح کامیاب نہیں ہوپاتے۔

لتاجی کا گایا ہوا ایک اور گانا’ اک پیار کا نغمہ ہے‘ بھی بہت مشہور ہے۔ اس گانے میںمستعمل لفظ ’نغمہ‘ کا حرف ’غ‘ ادائیگی کے اعتبارسے توجہ طلب ہے۔لتاجی نے ’غین‘ کو اس کے صحیح مخرج کے ساتھ اداکیا ہے۔اس گانے کو نیتی موہن نامی ایک گلوکارہ نے بھی نقل کرتے ہوئے گایا ہے مگر وہ حرف ’غین ‘کو ٹھیک سے ادانہ کرپائیں اور لفظ ’نغمہ‘ کا’ غین‘ حرف ’گاف‘ میںبدل گیا،اس طرح ان کی زبان سے یہ لفظ ’نگمہ ‘بن کرنکلا۔ظاہرہے کہ جب لفظ کا تلفظ ہی ٹھیک سے نہ کیاجائے تو اس میں کشش کہاں باقی رہے گی۔

 فلم ’سوتن‘ کا گیت ’شایدمیری شادی کا خیال۔دل میں آیا ہے‘‘ لتامنگیشکر نے گایا ہے۔یہ گانا شوخی بھرے انداز میں گایا گیا ہے۔ اس گانے کی خوبی یہ ہے کہ اسے سننے وا لا سنتے سنتے خود بھی گانے لگتا ہے۔اس نغمے کا گنگنانا ’ شاید میری شادی کا خیال‘ تلفظ کے اعتبارسے ہر ایک کے لیے آسان نہیں ہے۔کیونکہ تین الفاظ شاید، شادی اور خیال ادائیگی کی سطح پر اپنے اندر نزاکت رکھتے ہیں۔ اردوتلفظ پر عبوررکھنے والوں کے لیے ان الفاظ کا تلفظ کچھ بھی دشوار نہیں مگر جنھیں اردو نہ آتی ہو، ان کے لیے یقینا متواتر طورپر ان تینوں لفظوں کا صحیح تلفظ دشوار ہوگا، لیکن لتا جی نے ان لفظوںکا یکے بعددیگرے اتنا شاندار تلفظ کیا ہے کہ داد دینے کو جی چاہتا ہے۔

لتا منگیشکر کا گایا ہوا گیت’اے میرے وطن کے لوگو!‘ عام طورپر ان محفلوںمیں خوب سننے کو ملتا ہے جہاں وطن سے محبت کا اظہارکیاجاتاہے۔ لتا نے اس گانے کو جس دل سے گایا ہے، اس کا اندازہ تو اسی وقت ہوجاتا ہے جب اس کی چند لائنیں کانوں میں پڑتی ہیں۔ اس گیت کے الفاظ،تھیم، ترنم، آواز،موسیقی سب کچھ بہت عمدہ ہے۔ اسی لیے یہ گیت سامعین کی سماعتوں کی حدود سے ٹکراکر واپس نہیں آتا بلکہ دل کی گہرائیوں میں اتر تاجاتا ہے اور سننے والے کو ایسے ماحول میں لے جاتا ہے، جس میں ہر طرح کی قربانی کے جذبات موجزن ہونے لگتے ہیں۔ اس گیت کو گاتے وقت لتا جی نے اپنے فن کا ہر اعتبارسے شاندارمظاہرہ کیا ہے اور اس گیت کی روح میں اپنی روح ملادی ہے،لیکن ایک اور چیز یہاں قابل توجہ یہ ہے کہ انھوں نے اس گیت میں استعمال ہونے والے تمام الفاظ کا تلفظ نہایت خوبی کے ساتھ کیا ہے کہ اگر اس پہلو سے اس گیت پر غور کیاجائے تو اس کا مزہ دوچند ہوجاتا ہے۔ اس گیت میں اردو کے جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں، وہ اس طرح ہیں ذرا، قربانی، شہید،خطرہ، آزادی، سرحد، خون، ہندوستانی، بندوق، ہوش،خوش،سفر، دیوانے وغیرہ۔ ان تمام ہی الفاظ کا تلفظ لتاجی کے ذریعے بہترین انداز میں کیا گیا ہے۔ خاص طورپر یہ تین الفاظ ذرا، قربانی اور شہید کا تکرار اس گیت میں بار بار ہوتا ہے اور تینوں لفظوںکی ادائیگی نہایت خوبصورت ہے۔اگر ان کے تلفظ میں ذرابھی کمی رہ جاتی تو شاید اس گیت کی کشش پر بھی فرق پڑتااور جوش وتاثیر میں بھی کمی واقع ہوجاتی۔لیکن لتا منگیشکر نے لفظوں کے تلفظ کی نزاکت کو ہر جگہ ملحوظ  رکھا۔ یہی لتاکا کمال ہے۔اس گیت کو اور بھی بہت سے گلوکار موقع بہ موقع گاتے ہوئے نظرآتے ہیں۔ وہ اسی انداز میں گانے کی کوشش کرتے ہیں جس انداز میں لتاجی نے اسے گایا تھا۔اس میں شبہ نہیں کہ ان میں سے کتنے تو بالکل اسی انداز، لہجے، ترنم وغیرہ کو اختیار کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں لیکن پھر بھی ان کا گایا ہوا گیت وہ تاثیر نہیں چھوڑ تا جو لتاجی کا گایا ہوا گیت چھوڑتاہے،اس کی  دوبنیادی وجوہات ہوتی ہیں۔ایک تو یہ کہ ان کے پاس لتاجی کی آواز نہیں ہوتی اور دوسری وجہ الفاظ کاصحیح تلفظ وہ نہیں کرپاتے۔ لفظ ’قربانی‘کے ’ق‘ کو جس طرح لتاجی نے اداکیا ہے،  دوسرے گلوکار اس طرح اداکرنے سے قاصر رہتے ہیں، ایسے ہی اور کئی لفظوںکی ادائیگی میں کمیاں رہ جاتی ہیں۔اس طرح کی بے شمار مثالیں ہمیں لتاجی کے گائے ہوئے گیتوں میں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ گویاکہ لتاجی کے  ذریعے گائے ہوئے گیتوں کو زندگی اور تازگی بخشنے میں ان کے اردو تلفظ کا بہت بڑا دخل رہا ہے۔ جس شخص کو اردو تلفظ پر گرفت حاصل ہوجاتی ہے، اس کے لیے دوسری زبانوں کے الفاظ کا تلفظ بھی آسان ہوجاتا ہے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ لتاجی اپنی مادری زبان مراٹھی ہونے کے باوجود ہر زبان کے لفظوں کا تلفظ بہتر طورپر کرتی ہیں کہ ا نھوں نے اردو تلفظ پر عبور حاصل کرلیا تھا۔ بہر کیف لتامنگیشکر کا اردوزبان، اردورسم الخط اور اردو تلفظ سے گہرا رشتہ تھا جو ان کے گیتوں کو سن کرمحسوس کیا جاسکتا ہے۔

 

 

Dr. Nazia

House 186, Street No 136

Jafrabad,  Delhi-53

Mob: 9717153680





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں