22/7/22

’گلزار نسیم‘ میں ایہام گوئی کی شمیم رواں - مضمون نگار : سرور مہدی

 



ایہام کا نام آتے ہی سطح خیال پر ایک مسترد شدہ اور معتوب صنعت کا تصور ابھرتا ہے جس نے بیشتر ناقدین کے مطابق اردو شاعری کو سادگی خیال و مضمون کے اعتبار سے کافی نقصان پہنچایا۔اس ضمن میں صرف ناقدین ہی کا کردار نہیں ہے بلکہ ایہام گوئی تحریک کے فوراََ بعد شعرا کے ایک گروہ نے ہی اس کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا جس میں مرزا مظہر جان جاناں علم بردار کی حیثیت رکھتے ہیں۔یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ایہام گوئی کو صرف لفظی گورکھ دھندا کہہ کر کلی طور نظر انداز کردینے سے ہم حقیقت اور واقعیت کی شاہراہ سے بہت دور رہ جاتے ہیں۔ ’ریختہ‘ کے ابتدائی دور میں ایہام گوئی کی تحریک نے جس طرح اس نومولود زبان کو لفظ و معنی کے اعتبار سے وسعت بخشی، اسے بآسانی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔خان آرزو، شاہ حاتم،شاکر ناجی، آبرواور مضمون وغیرہ نے اپنی کدّ و کاوش سے ذومعنی الفاظ تلاش کیے اور الفاظ کو دوہرے معنی عطا کرتے ہوئے دامنِ لفظ و معنی کو وسیع کیا۔اس طرح بے شمار مقامی زبانوں کے الفاظ اردو زبان کا حصہ بن گئے۔ اس سے ذخیرۂ الفاظ فراواں ہوتا چلا گیا۔ حالانکہ ایہام گوئی کا ذکر آتے ہی دبستان دہلی کی اٹھارویں صدی کے زمانی دائرے میں ذہن مقید سا ہو جاتا ہے، تاہم اسے صرف اس عہد تک محدود نہیں کیا جاسکتا۔ ایہام گوئی کا مبدا اکثر اصناف سخن اور بے شمار صنائع کی طرح دکن کی ادبی فضا ہی ہے، البتہ اس صنعت کو دہلی میں عروج بخشنے والے شعرا بڑی تعداد میں میسر آئے جنھوں نے ایہام گوئی کے ذریعہ’’ ریختہ‘‘ کو الفاظ کے نقطہ نظر سے کافی تونگر کیا۔ فطری تبدیلیاں فی زمانہ ناگزیر رہی ہیں اور یہ تبدیلیاں عہد کی ضرورت کے عین مطابق رہی ہیں۔ جب اردو کے ادبی سفر کے آغاز میں کثرتِ الفاظ کی ضرورت تھی تو ایہام گو شعرا نے زبان کو مالا مال کیا  اور جب ابتدائی ضرورت کا یہ کام مکمل ہوچکا تو دامن فکر وخیال کو موتیوں سے بھرنے کے لیے ایہام مخالف تحریک سے وابستہ شعرا نے اپنی تگ ودو کا آغاز کردیا۔یہیں سے دبستان دہلی اپنی طے شدہ سمت کی جانب پورے عزم سے گامزن ہوجاتا ہے اور سادگی خیال، دلسوزی طبیعت اور سلاست زبان کی اپنی خاص پہچان کے ساتھ ادبی تاریخ میں اپنے نشانات محفوظ کرالیتا ہے۔ ایہام گوئی کا قافلہ اسی منزل پر ٹھہرتانہیں ہے بلکہ اٹھارویں صدی کے اواخر اور انیسویں صدی کے اوائل میں دبستان لکھنؤ اس کی نئی جلوہ گاہ کے روپ میںمنصہ شہود پر ابھرتا ہے۔لکھنؤ کا پرتعیش اور فارغ البال ماحول ایک بار پھر ایہام گوئی کے لیے مناسب اور سازگار ثابت ہوتا ہے۔لاتعداد لکھنوی شعرا کے ساتھ ساتھ نوجوان شاعر پنڈت دیا شنکر نسیم نے بھی اس میدان میں اپنی جولانی طبع کا نہ صرف مظاہرہ کیا بلکہ بڑے بڑے قدآور شعرا سے اپنا لوہا بھی منوالیا۔ لکھنؤ کا یہ کشمیری الاصل،جواں سال اور جواں فکر شاعر خود بھی صلاحیت اور جودت طبع سے سرشار تھا، دوسرے خواجہ حیدر علی آتش جیسے قادر الکلام استاد کی رہنمائی نے فن کو مزید جلا بخشی۔ اپنی ذاتی خوبیوں اور آتش کی راہنما روشنی میں نسیم نے مثنویوں کی دنیا میں ’’ گلزار نسیم‘‘ جیسی شاہکار تخلیق پیش کی جسے دنیائے فن و پرکاری قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ایک طولانی کہانی کو اپنی چابکدستی سے مختصراشعار میں پیش کرکے نسیم نے کوزے میں سمندر تو بند کیا ہی، علم بیان و علم بدیع کی دنیا میںبھی ایک ہنگامہ برپا کردیا۔ اس مثنوی میں صنائع و بدائع کے اعتبار سے گفتگو کرنے کی بڑی گنجائش موجود ہے لیکن سر دست ایہام پر بحث مقصود ہے جس کا مثنوی میں جابجا دریا سا رواں ہے۔

ایہام پر سیر حاصل گفتگو سے قبل اس کی رسمی تعریف ناگزیر ہے۔ ماہرین عروض اور ادبا کی پیش کردہ تعریف کے مطابق ایہام کے معنی ’وہم میں ڈالنا‘ ہیں۔ شعر کا بنیادی لفظ ذومعنی ہوتا ہے جن میں ایک معنی قریب کے ہوتے ہیں اور ایک بعید کے۔ شاعر کی مراد بعید کے معنی ہوتے ہیں۔ حالانکہ بہت سے اشعار اس قبیل کے بھی کہے گئے ہیں جن میں دونوں معنی مراد لیے جاسکتے ہیں اور کبھی کبھی تو قاری متذبذب ہوجاتا ہے کہ کون سے معنی مراد لے کیونکہ دونوں ہی معنی مفید مطلب معلوم ہوتے نظر آتے ہیں۔ اسی بنا پر عظیم نقاد اور عروضی شمس الرحمن فاروقی نے ایہام خالص، ایہام پیچیدہ اور ایہام مساوی نام سے اس کی تین قسمیں بتائی ہیں۔ ان اقسام کی بنیاد ہی قریب و بعید کے معنی مراد لیے جانے کے اوپر رکھی گئی ہے۔ اس صنعت کو توریہ اور توہیم وغیرہ ناموں سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اردو زبان و ادب میں اس صنعت کی تدخیل و ترقی کے تعلق سے ناقدین کی مختلف آرا سامنے آئی ہیں جن میں اسے کہیں فارسی ادب اور کہیں ہندی ادب سے مستعار بتایا گیا ہے۔اس سلسلے میں دنیائے نقد و تذکرہ کی قدآور شخصیت محمد حسین آزاد کے نظریے کی صدائے بازگشت آج تک سنائی دے رہی ہے ’’ اردو میں ایہام گوئی نے ہندی دوہوں کی بنیاد پر ترقی کی ہے۔‘‘

گلزار نسیم‘ میں گوناگوں فنی خوبیوں کے درمیان رعایت لفظی کی غالب صنعت چشم تماشا کو خیرہ کرتی ہے۔ شاید ہی کوئی مصرع یا شعر رعایت لفظی سے مبرا ہو۔اسی رعایت لفظی کے بطن سے اشتقاق، شبہ اشتقاق، سیاقۃ الاعداد، مراعات النظیر، تضاد اور ایہام وغیرہ صنائع پیدا ہوئے ہیں۔ ایہام مجردہ ( جس میں معنی قریب و بعید کے مناسبات کا کچھ ذکر نہ ہو) کے مقابلے میں ایہام مرشحہ (جس میں معنی قریب کے مناسبات مذکور ہوں) زیادہ لطیف ثابت ہوتا ہے کیونکہ ایہام مرشحہ جمالیاتی و فنی حس کو جذب کرنے کی فطری صلاحیت رکھتا ہے۔مجرد ایہام میں قاری سرسری قرأت میں صنعت کو محسوس کیے بغیر گذر بھی جاتا ہے۔ پنڈت دیا شنکر نسیم نے ترجیحاً  ایہام مرشحہ کو جابجا اختیار کیا ہے۔ حمد و نعت و منقبت کے بعد دعائیہ اشعار کا آغاز ہوتا ہے تو نسیم یوں دعا کرتے ہیں          ؎

طعنہ سے زبان نکتہ چیں روک

رکھ لے مری اہل خامہ میں نوک

خامہ‘ کی لفظی مناسبت سے قاری کا خیال یک لخت نوک قلم کی جانب مبذول ہو جاتا ہے جو ایہام کی اصطلاح میں معنی قریب ہیں جبکہ شاعر کی مراد قلمکاروں اور شعرا کے درمیان خود کی ’عزت و توقیر‘ ہے۔ اگرچہ آورد کا احساس قارئین کو مثنوی کی قرأت کے دوران مسلسل ہوتا رہتا ہے،  لیکن مثنوی کے حوالے سے بات کی جائے تو اس کے نفس مضمون کے مقابلے میں اس کا انداز پیشکش زیادہ اہم ہوتا ہے۔ لہٰذا اس کو فنی زیورات سے سجانے کے لیے آورد اور عرق ریزی کو بڑا عیب نہیں قرار دینا چاہیے۔ نسیم نے ایک ہلکے سے اشارے اور ترشح کے ساتھ لفظ ’خامہ‘ کا سہارا لیتے ہوئے بڑی خوبصورتی سے ’ نوک‘ کا استعمال کیا ہے۔ ’خواستگاری جناب باری‘ سے یعنی دعائیہ حصے کا آخری شعر بھی بڑے غیر محسوس طریقے سے قاری کو وہم میں ڈال دیتا ہے         ؎؎

جو نکتہ لکھوں کہیں نہ حرف آئے

مرکز پہ کشش مری پہنچ جائے

نکتہ‘ اور ’حرف‘ ایک قریبی مناسبت رکھتے ہیں لیکن شاعر لکھنؤ کے قدآور شعرا کے مقابل ہے۔ لفظوں کی نکتہ چینی کا ماحول عام ہے۔ نکتے اور نقطے دونوں پر خوب خوب گرفت شاعرانہ تہذیب ہے۔ ایسی فضا میں نسیم کی حضرت باری سے دعا ہے کہ معاصرین ان کے نکتوں میں ’ عیب‘ نہ تلاش کر سکیں۔

نسیم مثنوی کی کہانی کا آغاز کرتے ہیں۔’صہبائے کہنہ‘ کو ’دوآتشہ‘ کرتے ہوئے تشنگان ادب کے آگے اشعار و مصارع کے ساغر و پیمانے کا دور شروع ہوتا ہے۔ پورب کا شہنشاہ سلطان زین الملوک پانچویں فرزند کے دیدار سے نابینا ہو جاتا ہے۔عیسیٰ چشم کحال ’گلستان ارم‘ میں نمو پانے والے ’ گل بکاؤلی‘ کا عرق بادشاہ کے لیے تجویز کرتا ہے            ؎

اس نے تو گل ارم بتایا

لوگوں کو شگوفہ ہاتھ آیا

ایہام مرشحہ کے ذریعے ’گل‘ کی مناسبت سے ’شگوفہ‘ چمنستان کی اکائی کا اشارہ بن جاتا ہے لیکن شاعر تو اسے ’موضوع بحث‘ کی حیثیت سے پیش کررہا ہے کہ ارباب سلطنت، خواص اور عوام کی زبان پر ’ گل ارم‘ کا ہی چرچا تھا۔ کہانی کے تسلسل میں جب یہ خبر راندہ درگاہِ بادشاہی تاج الملوک کو ملتی ہے تو اس موقع کا ذکر کرتے ہوئے نسیم کی طبیعت ’گل‘ کی مناسبت سے ذومعنی لفظ تلاش کرکے لاتی ہے۔ ’گل‘ و ’گلشن‘ کے ساتھ ’ہوا‘ کا لفظ کیسا مناسب معلوم پڑتا ہے۔نسیم کو ایسی ہی ’ دھن‘ لگی رہتی ہے         ؎

گل کی جو خبر سنائی اس کو

گلشن کی ہوا سمائی اس کو

ادھر تو شہزادے کے چاروں سادہ لوح بھائی جمعیت کے ساتھ آگے آگے نکلے، ادھر تاج الملوک بھی گل تلاش کرنے کی ’ دھن‘ میں افتاں و خیزاں چلا۔لیکن چاروں بھائیوں کی تلاش ِبسیار کا نتیجہ یہ نکلا        ؎

بلبل ہوئے سب ہزار جی سے

گل کا نہ پتہ لگا کسی سے

بلبل‘، ’ہزار‘ اور ’گل‘ کا حسین مثلث جہاں رعایت لفظی کی ایک نادر فضا تیار کرتا ہے وہاں ’بلبل‘ کا محاوراتی پہلو اور ’ہزار‘ کا توہیمی پہلو ہر فن دوست طبیعت میں وجد کی کیفیت پیدا کردیتا ہے۔

آخرکار چاروں بے عقل شہزادے ’فردوس‘ میں دلبر نامی بیسوا کی محل سرا کے قریب پہنچ جاتے ہیں۔ مسافروں کو جوئے میں مکرو فریب کے ذریعے لوٹ لینا دلبر بیسوا کا شغل تھا۔دروازے پر اسی مقصدسے اس نے نقارہ نصب کر رکھا تھا۔ شہزادے بھی بغیر سوچے سمجھے اپنی بد عقلی کا نقارہ بجا بیٹھتے ہیں        ؎

بے جا و بجا نہ سمجھے ان جان

نقارہ بجا کے ٹھہرے نادان

مذکورہ شعر میں تجنیس کے پہلو بہ پہلو ایہام کا رنگ نہایت نکھرا ہوا ہے۔ اردو شعرا کے یہاں بعض مقامات پر ایک لفظ کے بجائے جملے کے دویا سہ لفظی ٹکڑے سے لطیف ایہام پیدا کیا گیا ہے جو شعر کے جزوی مفہوم کو معنوی پہلو سے متنوع کرتے ہوئے ’ ادماج‘ سے قریب تر ہوتا ہوا معلوم پڑتا ہے۔ یہاں شعر کے ایک ٹکڑے سے دوہرے معنی برآمد ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں مومن کا یہ شعر پیش کیا جاسکتا ہے        ؎

شب جو مسجد میں جا پھنسے مومن

رات کاٹی خدا خدا کرکے

مومن کے شعر میں’خدا خدا کرکے‘ جس طرح قریب و بعید کے دو معنی کی طرف اشارہ کررہا ہے اسی طرح نسیم کے درج بالا شعر میں ’ٹھہرے نادان‘ سے دو معنی برآمد ہوتے ہیں۔ ایک تو قریب کے معنی ہیں کہ جیسے دق الباب کرنے والا دستک د یکر توقف کرتا ہے، وہ نادان شہزادے بھی نقارہ بجا کر ٹھہرے۔ بعید کے مرادی معنی یہ ہیں کہ وہ  سب غور و فکر کیے بغیر نقارہ بجا کر نادان ٹھہرے۔ان اشعار کو پڑھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ نسیم کے ذہن پر لکھنوی رنگ کیسا چڑھا ہوا ہے کہ قافیوں کا مصرف برائے مصرف نہیں کیا بلکہ اسے بھی صنعتوں سے باندھ دیا ہے۔

شہزادہ تاج الملوک جب شہر ’فردوس‘ میںوارد ہوتا ہے ا س وقت تک اس کے احمق برادران دلبر کی فریب کاریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ تاج الملوک ایک دایہ کے گھر قیام پذیر ہوتا ہے جو تاج الملوک کے چہرے میں اپنے گم شدہ بیٹے کی شباہت پاکر اسے گھر لے جاتی ہے۔ تاج الملوک کو وہیں اپنے بھائیوں کے حالات سے آگاہی ہوتی ہے۔ حسن تقدیر سے اسے زرو مال بھی ہاتھ آتا ہے اور دلبر کا سارا فریب بھی اس پر آشکار ہوجاتا ہے۔  تب وہ اپنے عزم کا اظہار یوں کرتا ہے۔   

سوچا کہ اب تو ہم ہیں آگاہ

جیتے ہیں تو جیت لیں گے ناگاہ

جیتنا‘ اور ’جینا‘ دو مختلف مصادر ہیںجن کی الگ الگ شکلوں سے شبہ اشتقاق تو برآمد ہوا ہی ہے اسی ’جیتے‘ لفظ میں اشتقاق کے شبہ کی وجہ سے ایہام بھی اپنی جھلک دکھاتا ہے اور پڑھنے والا فن کی تہ در تہ سحرکاری میں کھو سا جاتا ہے۔

آخرش اپنے عزم و استقلال اور حکمت ودانائی کے بوتے پر تاج الملوک دلبر بیسوا کو زیر کرلیتا ہے۔ دلبر تاج الملوک سے ازدواج کی خواستگاری کرتی ہے تب تاج الملوک اپنے مقصد کو آشکار کرتا ہے کہ اسے ’ارم ‘ سے ’ گل بکاؤلی‘ کی دستیابی مقصود ہے۔دلبر اسے پریوں کے ساتھ مقابلے سے منع کرتی ہے تو تاج الملوک کے یہ الفاظ ہوتے ہیں          ؎

انسان کی عقل اگر نہ ہو گم

ہے چشم پری میں جائے مردم

کس فنکارانہ صناعی کا ثبوت دیتے ہوئے نسیم نے مردم کے دونوں معنوی پہلو عیاں کیے ہیں اور کمال یہ ہے کہ اگر ’مردم‘ کے معنی قریب ’پتلی‘ کو ملحوظ رکھا جائے تو اس کی مناسبت سے لفظ ’چشم‘ موجود ہے۔ اگر معنی بعید ’آدمی‘ مراد لیے جائیں تو آغاز شعر میں لفظ ’انسان‘ موجود ہے۔ اس طرح اس شعر میں ایہام مرشحہ کے ساتھ ایہام مبینہ (جہاں معنی بعید کے مناسبات ذکر کیے جائیں) کا بھی لطف حاصل ہوتا ہے۔ نسیم کا خاص کمال یہی ہے کہ وہ لفظ کے ہر زاویے کو دیکھتے ہیں اور شعر کے مختلف الفاظ کے ساتھ معنوی طریقے سے باندھ کر اس کے شش پہلو روشن کردیتے ہیں۔

تاج الملوک راہِ مقصد کی منزلوں کو طے کرتا ہوا ایک ویران جنگل میں جاپہنچتا ہے۔ دراصل یہ جنگل بادشاہ ارم کی سرحد تھی جہاں ایک مہیب صورت دیو پہرہ پر متعین تھا۔ تاج الملوک کی اس موقع پر کیا حالت ہوئی،اسے بیان کرتے ہوئے نسیم نے لکھا ہے      ؎

سر پر پایا بلا کو اس نے

تسلیم کیا قضا کو اس نے

شاید ہی کہیں ایہام مجردہ اس سے زیادہ پراثر اور لطیف ہوتا ہو۔ لفظ ’ تسلیم‘ کی دوہری معنوی حیثیت کی جانب کہیں کوئی اشارہ نہیں کیا گیا۔ البتہ مثنوی میں خود کہانی کا متن تمہیداً اور تدریجاً کچھ اشارے کرجاتا ہے۔ اگر ’قضا‘ کو دیو کا استعارہ مان کرشعر کے مضمون پر نظر کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تاج الملوک خوف کے زیر اثر اسے آداب بجا لایا۔وہیں دوسرے رخ سے پورے منظر اور تاج الملوک کی بے سروسامانی پر نظر کی جائے تو قاری اس مفہوم تک پہنچتا ہے کہ تاج الملوک نے اپنی موت کو یقینی سمجھا۔

پھر جب تاج الملوک اپنی حکمت سے دیو کو رام کرلیتا ہے تو دیو اپنے دوسرے بھائی کو آوازدیتا ہے۔ دوسرا دیو صدائے بازگشت کی طرح آتا ہے۔ تب پہلادیو اپنے بھائی سے تاج الملوک کا تعارف ان لفظوں میں کرواتا ہے       ؎

حال اس نے کہا کہ قول ہارا

ہے پیر، یہ نوجواں ہمارا

شعر میں لفظ ’ نوجوان‘ فوری قرینہ دیتا ہے کہ ’پیر‘ سے ’بوڑھا شخص‘ مراد لیا جائے لیکن تاج الملوک تو نوجوان ہے۔ دوسرے معنی ہیں کہ یہ نوجوان شخص ہمار ا ’مرشدو استاد‘ ہے اور یہی معنی مرا د ہیں۔ اس شعر میں واہمہ پیدا کرنے کے لیے لفظ ’ نوجوان‘ کا سہارا لیا گیا ہے۔ اس اشارے یا ترشح کے باعث یہاں ایہام مرشحہ ہے لیکن ترشح بھی دو طریقے سے دیا جاتا ہے۔ کہیں معنی قریب کے مناسبات تضادِ لفظی کی صورت میں ہوتے ہیں، کہیں تضاد کے علاوہ کوئی اور مناسبت ہوتی ہے۔ اس بنا پر ایہام مرشحہ کی بھی ایہام تضاد اور ایہام تناسب کے نام سے اقسام ذکر ہوئی ہیں۔

گلزار نسیم‘ کی اصل کہانی میں زین الملوک اور فرخ ( بکاؤلی پری اس نام سے مرد بنی ہوئی تھی) کے مابین گفتگو میں ضمنی کہانیاں بھی آتی ہیں۔ فرخ بادشاہ زین الملوک سے ایک ایسے بادشاہ کی حکایت بیان کرتا ہے جسے اولاد نرینہ نہ تھی۔ ہر بار اس کے یہاں بیٹی متولد ہوتی تھی۔ بادشاہ ہر دفعہ قتل ِدختر کے عظیم گناہ کا مرتکب ہوتا تھا۔ اس بار جب بیگم امید سے ہوئیں تو اس ظالم بادشاہ نے قسم کھالی کہ بیٹی جننے کی صورت میں دختر و زوج دونوں کو قتل کردے گا۔ حکمت خداوندی سے پھر دختر ہی پیدا ہوئی۔ اہل خانہ نے زن و دختر کو شرّسلطان سے محفوظ رکھنے کے لیے نجومیوں اور رمّالوں کو اپنا ہمنوا کرلیا اور بادشاہ کو اطلاع دی گئی کہ بیٹا تولد ہوا ہے لیکن ایک خاص عمر تک بادشاہ سلامت اپنے فرزند کو نہیں دیکھ سکتے۔ ایک مدت کے بعد دیدار پسر کا آرزومند سلطان بیتاب ہوااور بیٹے کو دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ اس واقعہ کو چنندہ الفاظ کے پردوں میں بڑے اختصار سے نسیم نے ذکر کیا ہے۔

وہ گندمِ جو نما تھی بالی

مردانہ لباس سے نکالی

گندم‘ اور ’جو‘ کے کنایہ میں نسیم نے پوری حکایت کا جو خلاصہ کیا ہے وہ قابل تعریف تو ہے ہی، گندم اور جو کے دو معتبر اشاروں نے ’ بالی‘ لفظ میں غضب کا ایہام پیدا کیا ہے۔گندم اور جو کی زرعی بالیاں کس نے نہیں دیکھیں لیکن نگاہ شاعر کا مقصود ومرکوز تو شہزادہ نما شہزادی کی ’کم عمری‘ ہے۔حالانکہ یہ بات پوری طرح محسوس ہورہی ہے کہ نسیم نے بڑی ذہنی کاوش اور عرق ریزی سے مضمون کو ان چند الفاظ میں باندھ کر پیش کیا ہے۔ اصطلاحی پیرائے میں کہیے تو آورد کی بو مشام نقد میں پوری طرح محسوس ہورہی ہے لیکن نسیم مضمون کے ساتھ ساتھ ایہام کی صنعت کو پہنچانے میں پوری طرح کامیاب ہوئے ہیں۔ کسی طرح کے انسداد یا معنوی انفصال کا شائبہ تک نہیں گذرا۔

مثنوی ’گلزار نسیم‘ میں ازاوّل تا آخر رعایت لفظی کے بعد جس صنعت کی بہتات ہے وہ ایہام ہی ہے۔ یقینا ’گلزار نسیم‘ سرتاسر اس کی شمیم سے معطر ہے۔ ایہام کے خدوخال سنوارنے میں اکثر جگہوں پر رعایت لفظی نے اپنا کردار اد ا کیا ہے اور ایہام کو واضح سے واضح تر کر دکھایاہے۔ بنظر اختصار ایسے چند اشعار اس مثنوی سے پیش کیے جاتے ہیں۔

اس گل کے ہاتھ جو زر آیا

جاں بازی کو سوئے دلبر آیا

 

(زر=مال،سنہری رنگت)

آہستہ پھرا وہ سرو بالا

سایہ نہ اس پری پہ ڈالا

 

(سایہ=آسیب، پرچھائیں)

منھ  دھوتی  جو  آنکھ  ملتی آئی

پرآب  و ہ  چشم   حوض   پا ئی

 

(پرآب= پانی سے بھری، ڈبڈبائی ہوئی)

بولا جب اس نے باندھے بازو

کھلتا نہیں کس طمع پہ ہے تو

 

( کھلنا = باندھنا کا متضاد، ظاہر ہونا)

دیکھے  جو  جوہرات کے ڈھیر

سب من کی ہوس سے ہوگئے سیر

 

 ( من= قیمتی جواہر، دل)

وہ چتر کے زیرسایہ بیٹھے

افسر سب پایہ پایہ بیٹھے

 

(پایہ= تخت کا پایہ، عہدہ)

کر یاد کہیں چہ ذقن کو

کودے نہ کنویں میں باولی ہو

 

( باولی= کنویں پر بنی عمارت، دیوانی)

سلطاں  فیروز  رشکِ جم  تھا

نوشہ  مسند  پہ  جم  کے  بیٹھا

 

(جم= جمشید بادشاہ، ڈٹ)

اژدر  نظر  آیا  در  کا  سایہ

سمجھا   وہ   پلنگ   چار  پایہ

 

( پلنگ= بستر، چیتا)

یوسف کی خبر  لے   او  زلیخا

زنداں میں ہے  وہ عزیز  مرتا

 

( عزیز= بادشاہِ مصر، پیارا)

اس بات سے انکار مشکل ہے کہ دیا شنکر نسیم کو جس طرح بیانیہ پر قدرت حاصل ہے اسی طرح فن پر بھی ان کی گرفت نہایت مضبوط ہے۔ یہ نسیم کی افتاد طبع تھی، مذاقِ لکھنؤ کا اثر تھا یا اساتذہ لکھنؤ و دبستان دہلی سے حریفانہ کشاکش تھی کہ انھوں نے اپنی مثنوی کو صنعتوں کے نقطہ نظر سے بھی ایک طلسم کدہ بنادیا۔ ایہام گوئی کے تناظر میں دہلوی شعرا نے الفاظ کو معنویت کے اعتبار سے وسیع کیا ہی تھا، دیا شنکر نسیم نے بھی بشمول تمام لکھنوی شعرا کے اپنا خاطر خواہ حصہ ادا کیا۔ غزلوں، نظموں اور دیگر ان اصناف میں جہاں جذبات اولیت رکھتے ہوں، یہ صنعت غیر ضروری تصور کی جا سکتی ہے لیکن مثنوی جیسے بیانیہ اور فنّی لحاظ سے پیچیدہ صنف سخن میں اسے تزئین کاری اور حسنِ شاعری پر ہی محمول کرنا چاہیے۔

حوالہ جات

1       گلزار نسیم  مرتبہ رشید حسن خاں

2       آب حیات  از محمد حسین آزاد

3       تعبیر کی شرح  از شمس الرحمن فاروقی

4       اردو شاعری میں ایہام گوئی  از مولوی عبد الحق

5       تاریخ ادب اردو  از جمیل جالبی

6       اردو شاعری کے دبستان: نورالحسن نقوی

 

Sarvar Mahdi

Assistant Professor(Urdu)

H.S.College Udakishunganj

Madhepura -852220 (Bihar)

Mob.: 9452259955

 

 

 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں