25/7/22

گیتا کا اردو ترجمہ: انور جلالپوری کے حوالے سے - مضمون نگار : سعود عالم

 



گیتا ہندوستان کی ایک عظیم کتاب ہے۔اس کتاب کے بارے میں لوگوں کی عام رائے ہے کہ :گیتا ایک روحانی صحیفہ ہے۔گیتا انسانی بھلائی کی عالمی دستاویز ہے۔گیتا آدمی کو انسان بنانے کی بے انتہا کامیاب کوشش ہے۔گیتا کو پڑھنے میں لذت ہے، سمجھنے میں سکون ہے اور عمل کرنے میں موکچھ یعنی نجات ہے اوراب دورحاضر میں گیتا شاعری بھی ہے اور دانشوری بھی۔

اس عظیم کتا ب میں ارجن اور کرشن کے بنیادی کردار کے علاوہ بہت سارے کردار ہیں جن کا یہاں تفصیلی ذکر ناممکن ہے تاہم اس مقدس کتاب کا ماحصل ارجن کی اضطرابی کیفیت اور ان کے استفسار کا بیان ہے۔

بقول شنکر آچاریہ:

بھگوت گیتا18باب پر مشتمل ہے جس میں تقریباً 701شلوک مندرج ہیں۔

یہ کتاب پہلی بار1809 میں کلکتہ سے شائع ہوئی۔ اس کتاب کوہند وبیرون ہند متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔ چارلس وکنس (Charles Wikins) جو کہ Asistic Society کے اولین بنیاد گزاروں میں سے ہیں،انھوں نے 1885 میں اس کتاب کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا اور اسے لندن سے شائع کیا۔ شیلگل (Schlegel) نے1823 میں اس کتاب کالاطینی سے ہندی (دیوناگری رسم الخط) میں ترجمہ کیا۔ اس کا ایک ترجمہ فرانسیسی زبان میں بھی ملتا ہے جس کے مترجم N.I.Novikovہیں۔ جرمنی زبان میں اس کے ایک سے زائد ترجمے کا ہمیں پتہ چلتا ہے۔ ان میں C.R.S.Priper کا 1834کا ترجمہ اور Lorinsor کا 1869کا ترجمہ کافی مشہور ومقبول ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سارے انگریزی ترجمے جابجا نظرآتے ہیں۔

فرانسیسی، جرمنی، انگریزی، ہندی کے علاوہ تقریباً دنیا کی تمام زبانوں میں اس کتاب کے ترجمے کیے جاچکے ہیں مزید برآں ہندوستان کی اکثر علاقائی زبانوں میں اس کتاب کے ترجمے منظرعام پرآچکے ہیں۔ان میں بالخصوص ہندی، اردو، فارسی اور عربی ایسی زبانیں ہیں جن  میں سریمد بھگوت گیتا کے اولین نمونے ترجمے کی شکل میں ہمیں نظرآتے ہیں۔جس کی ایک لمبی فہرست ہے۔ذیل میںاُس کا ایک مختصر خاکہ پیش کیاجارہا ہے۔

1       کنہیا لال الاخ وہاری (مترجم)،منثورترجمہ بعنوان ’گیان پرکاش‘ مطبوعہ گیانی پریس،اکبرآباد،آگرہ، اترپردیش 1863

2       منشی شیام سندیری لال بنارسی(مترجم)،مطبوعہ، نول کشور، اترپردیش، 1884

3       منشی دیوی پرساد(مترجم)، مطبوعہ، رام پریس، میرٹھ، اترپردیش،1913

4       رام ساہے(مترجم)، مطبوعہ، نول کشور، لکھنؤ، اترپردیش، 1913

5       قاضی محمد نیر صدیقی (مترجم)، بعنوان ’اسرار معرفت‘ مطبوعہ سیوک سیام پریس، لاہور،1915

6       پنڈت جناکی ناتھ مدن دہلوی(مترجم)، بعنوان ’فلسفۂ الوہیات‘ (منثور ترجمہ)پانچواں ایڈیشن، مطبوعہ، رام نرائن پریس، متھرا،یوپی، 1922

7       منشی جگن ناتھ پرساد عارف (مترجم)، بعنوان ’سرچشمۂ عرفان‘ مطبوعہ،میرٹھ، اترپردیش،1925

8       ’’بھگوت گیتااورلوک مانیہ بال گنگادھرتلک کی رہسیہ گیتا‘ شانتی نارائن(مترجم)، پہلی کتاب میں ’گیتا پڑھنے کے آداب‘سے روشناس کرایاگیا ہے۔جبکہ دوسری کتاب میںبھگوت گیتا کے اشلوک کاآسان اردو میں ترجمہ پیش کیاگیا ہے۔ یہ کتاب امرتھ پریس، لاہورسے 1925میں شائع ہوئی ہے۔

9       سریمد بھگوت گیتا‘ مترجم، منشی کیدار ناتھ بعنوان ’راہ مغفرت‘ مطبوعہ، مہتاب پریس،دہلی1926

10     بابو بھگوان داس بھارگو(مترجم)، مطبوعہ، نول کشور، لکھنؤ،اترپردیش، 1927

11     چودھری روشن لال(مترجم)،بعنوان ’گیتا امرت‘ معروف بہ ’اکسیر روح‘(منظوم)

12     پنڈت یوگی راج نظرسُہانوی (مترجم)، بعنوان ’کلام ربّانی‘(منظوم)مطبوعہ، محبوب المطابع، برقی پریس، جامع مسجد، دہلی

13     پنڈت روپ نرائن پانڈے (مترجم)، بعنوان ’سریمد بھگوت گیتا‘ مطبوعہ، لکھنؤ، اترپردیش،1941

14     بنکٹ پرساد خلیق(مترجم)،بعنوان ’مخزن گیان اور آنند پرکاش‘، ناشر،فرزند نرسنگھ راج کپور، مطبوعہ، اعظم اسٹیم پریس،حیدرآباد، دکن (تلنگانہ)1945

15     بسویشورپرساد منّور لکھنوی (مترجم)،بعنوان ’نسیمِ عرفان‘ (منظوم)، مطبوعہ، آدرش کتاب گھر، دہلی 1955

16     پنڈت لکشمی نارائن مشرا(مترجم)، منثور ترجمہ،مطبوعہ، انجمن ترقی اردو (ہند)، حیدرآباد،(تلنگانہ)

17     ستیہ پرکاش سری واستو (مترجم)، بعنوان ’گیتا ہندوستانی نظم میں‘(منظوم)،ناشر، نونتم پرکاشن، شنکر بھون،شہدرا، دہلی،1964

18     حسن الدین احمد(مترجم) بعنوان ’نغمۂ الوہیات‘ (منظوم)، ناشر، نیشنل بک ٹرسٹ، نئی دہلی۔1975 (الخلاصہ: مترجم: ریٹائرڈ I.A.S.آفیسر ہیں۔)

19     چرن داس ریڈّی (مترجم)،ناشر، شری بھگوتی آشرم، عادل آباد(تلنگانہ)1983

20     سروانندکول پریمی(مترجم)(منظوم)، دہلی،1992

21     STV.Appalachari (مترجم)، بعنوان ’ نغمۂ الٰہی‘ (منثور) مطبوعہ، گیتا پریس، گورکھپور، اترپردیش، 2003 (Appalachariحیدرآباد کے رہنے والے تھے۔

22     عبدالعزیز خالد(مترجم)،مطبوعہ، انجمن ترقی اردو، پاکستان، کراچی

23     خلیفہ عبدالحکیم (مترجم)، ترجمۂ گیتا(منظوم)، مطبوعہ، اتحاد پریس، لاہور

24     سلطان احمد صدیقی گورکھپوری (مترجم)،بعنوان ’گیتا منظوم‘ ناشر، ہیرا لال بھٹناگر

25     مہاراشی شیوبھرت لال(مترجم)، سریمدبھگوت گیتا Vol.11 مطبوعہ، سلیمی برقی پریس، الہ آباد، اترپردیش

26     پنڈت بربھودیال عاشق لکھنوی (مترجم)، بعنوان ’غذائے روح‘(منظوم)

27     سورج نرائن مہردہلوی (مترجم)،بعنوان ’فلسفہ گیتا‘(منظوم)

28     شان الحق حقی(مترجم)، سریمد بھگوت گیتا (منظوم) ناشر، انجمن ترقی اردو(ہند)، نئی دہلی، 1994/ فاضل سنس، (pvt.)اردو بازار، کراچی، 2006

29     محمد اجمل خاں(مترجم)، بعنوان ’نغمۂ خداوندی‘ ناشر، انجمن ترقی اردو (ہند)علی گڑھ، یوپی،1959،( پہلا ایڈیشن، ادارہ نوامیزالٰہیہ، الٰہ آباد،اترپردیش سے 1935میں شائع ہوا)

30     خان بہادر مرزا ظفر علی خان اثر (مترجم)، بعنوان ’نغمۂ جاوید‘ (منظوم) ناشر، راج محل پبلشرز، جموں (جموں کشمیر)

31     خواجہ دل محمد(مترجم)، بعنوان ’دل کی گیتا‘ (منظوم) ناشر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، 2004 (پہلا ایڈیشن، آزاد بک ڈپو، امرتسر (پنجاب)سے شائع ہواتھا)

32     انور جلال پوری(مترجم)،بعنوان ’اردو شاعری میں گیتا‘(منظوم)عرشیہ پبلکشن،2013

اردومیں سریمد بھگوت گیتاکے اَن گنت ترجمے ملتے ہیںجن کی گنتی سوسے تجاوز کرجاتی ہے۔ بھگوت گیتا کے ایک معروف مترجم انور جلال پوری کے حوالے سے غلام نبی خیال اپنے ایک مضمون میں رقم طراز ہیں:

’’انھوںنے گیتا کے80 تراجم دیکھے ہیں، جن میں ساٹھ نثر میں اور باقی منظوم ہیں۔ انھوں نے سات سو ایک شلوک، اٹھارہ ابواب سے ایک ہزار سات سو اکسٹھ اشعار میں ڈھالے ہیں۔‘‘

(بحوالہ، بھگوت گیتا کے اردو تراجم، رسالہ آجکل، مئی 2016)

حالیہ دور کے مترجم انورجلالپوری کے علاوہ جن لوگوں نے اس فن میں طبع آزمائی کی ہے ان میں مشہور ومقبول مترجم خواجہ دل محمد،خلیفہ عبدالحکیم، منور لکھنوی،حسن الدین احمد،شان الحق حقّی، محمد اجمل خاں، منیر بخش عالم، وینکٹ اپالاچاری، اجے مالویہ اور ان کے علاوہ سریمد بھگود  گیتا  کے مترجمین کی ایک طویل فہرست ہے۔ یہاں تفصیل میں نہ جاکر صرف انور جلال پوری کے حوالے سے بات کی جائے گی۔

پدم شری اور یش بھارتیہ انعام یافتہ شاعر انور جلال پوری اترپردیش کے ایک مردم خیز ضلع امبیڈکرنگر کے ایک چھوٹے سے شہر جلال پور میں 6جولائی 1947میں پیدا ہوئے۔ انور جلالپوری پیشے سے انگریزی کے استادتھے لیکن انھیں شہرت و مقبولیت ایک شاعراور ایک اچھے ناظم کی حیثیت سے ملی۔خدائے واحد نے انور جلالپوری کی زبان میں ایسی تاثیر دی تھی کہ سامعین ان کی مسحور کن آواز سن کردم بخود رہ جاتے اورانھیں دادسے نوازنے پر مجبور ہونا پڑتا۔ اس طرح انور جلالپوری نے اپنی نظامت اور منفرد آواز کی بدولت ہر خاص وعام میں اپنی جگہ بنائی۔ یہی تھی انور جلا پوری کی خاص پہچان ہے۔

انور جلالپوری نے شاعری اور نظامت کے علاوہ فن ترجمہ نگاری میں بھی اپنے قلم کے جوہر دکھائے ہیں۔ انھوں نے سریمد گیتا کا منظوم ترجمہ ’اردو شاعری میں گیتا‘ (نغمۂ علم وعمل)کے عنوان سے کیا ہے۔یہ ترجمہ انھوں نے سنہ1913میں انجام دیا تھا۔

انورجلالپوری نے بھگوت گیتا کے ترجمے کے لیے جس بحر کا انتخاب کیاوہ مثنوی کے لیے سب سے موزوں اور مناسب ہے۔ فردوسی کا شاہنامہ، نظامی کا سکندرنامہ، سراج کی بوستان خیال او رمیرحسن کی سحر البیان یہ تمام کلاسیکی مثنویاں اسی بحر میں لکھی گئی ہیں۔ وہ بحر، بحرمتقارب مثمن/مقصور ومحذوف (فعولن فعولن فعولن فعل)ہے۔

انور جلالپوری کے ترجمے کی ایک دوسری خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے ہر باب کے شروع میں اس باب میں مذکور واقعے کی تخلیص آسان اور سرل زبان میں پیش کردی ہے جس سے عام قاری کے لیے شاعری کی زبان مزید آسان ہوگئی ہے۔ بھگوت گیتا 18باب پر مشتمل ہے جس میں تقریباً 701آیتیں(اشلوک) مندرج ہیں۔انور جلالپوری نے اسے 1761اشعار میں منتقل کیا ہے۔ ترجمہ کرتے وقت ان کے سامنے بہت ساری دشواریاں پیش آئیں جس کا ذکر آگے کہیں آئے گا تاہم یہاں یہ بتانا غیر مناسب نہ ہوگا کہ انور جلالپوری نے بعض اشلوک کا ترجمہ ایک شعر میں ہی کردیا ہے اور بعض میں انھیں ایک سے زائداشعار کا سہارا لینا پڑاہے۔مثال کے طور پر باب دوم میں شلوک نمبر98کو دیکھا جاسکتا ہے، جس میں شاعر ومترجم نے ایک اشلوک کا ترجمہ دو بیت میں پیش کیا ہے       ؎

کہ قبضے میں ہیں جس کے سارے حواس

بُرائی پھٹکتی نہیں جس کے پاس

وہی معتدل، عقل والا وہی

زمانے میں ارفع و اعلیٰ وہی

اسی طرح اسی باب سے ایک دوسری مثال شلوک نمبر 35 کو دیکھا جاسکتا ہے۔ شاعر نے یہاں بھی ایک شعر کی بجائے دو شعر میں ترجمہ کیا ہے        ؎

کہا جس کے دل میں نہیں خواہشیں

اسی پر تو رحمت کی ہیں بارشیں

کہ دل جس کا خوش، روح جس کی ہے خوش

وہی تو ہے دنیا میں بہتر پُرش

اس طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ انور جلالپوری نے ترجمہ کرتے وقت قدیم وجدید دونوں روایت کی پاسداری کو برقرار رکھا ہے۔

انور جلالپوری نے اپنے ایک مضمون میںسریمد بھگوت گیتاسے اپنی ذاتی انسیت اورذہنی لگاؤ کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ موصوف نے یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ انھوں نے یہ ترجمہ ہندی اور انگریزی کی مدد سے کیا ہے، نہ کہ سنسکرت سے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’بنیادی طور پر سنسکرت زبان سے واقفیت میری نہ کے برابر ہے پھر بھی میں نے ہندی اور انگریزی کے ذریعے بہت کچھ سمجھنے کی کوشش کی۔‘‘ (ص:26)

دوران ترجمہ مترجم نے ہندی، اردو اور انگریزی کے دستیاب نسخے کے استفادہ شدہ نسخے کی ایک فہرست بھی دی ہے۔ جس کی تفصیل میں نہ جاکرمیںیہاں صرف شاعر کی ان مضطرب ومضمحل کیفیت کی طرف اشارہ کرنے کی کوشش کروں گاجس سے ایک مترجم بالخصوص شاعر گزرتا ہے۔ ترجمہ خواہ نثر کا ہو یا نظم کا،دونوں کی اپنی کچھ بنیادی غرض وغایت ہوتی ہے، اس سے وہ بچ نہیں سکتا۔منظوم ترجمہ میں بحر کی پابندی، ردیف کا اہتمام اور قوافی کا تتبع بسا اوقات ترجمہ میں نقص بھی پیدا کردیتا ہے۔ خیالات من وعن ترسیل کی راہ میں حائل ہوجاتے ہیں۔  اس طرح منظوم ترجمہ اطناب کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس لیے منظوم ترجمہ علماوناقدین کے نزدیک ایک دشوار عمل ہے۔کیونکہ اس میں دریا کو نہیں بلکہ سمندر کو کوزہ میں بند کیا جاتا ہے۔شعر کے ترجمے میں ایک مترجم کو کئی بنیادی باتوں پر دھیان دینا پڑتا ہے۔ مترجم کے لیے مصنّف کے فلسفہ، طرز احساس، علمی لیاقت، نفسیاتی کیفیت اور اس کے فنّی طریقۂ کار سے واقفیت ضروری ہے۔ مصنف کے عہد اور حالات سے بھی واقفیت ضروری ہے۔اسی طرح اُس زبان کی تاریخ سے بھی واقفیت ضروری ہے جس زبان (Source Language) سے ترجمہ کرنا اور جس زبان (Target Language) میں ترجمہ کرنا ہے۔ زبان کے قواعد،ساخت اور صوتیات سے بھی واقفیت ہونی چاہیے۔مترجم کے لیے ضروری ہے کہ وہ جس کتاب کا ترجمہ کرنا چاہتاہے اس کے موضوع پرحاوی ہو، اس کی اصطلاحات،  محاورے اور ضرب الامثال سے بھی اچھی طرح واقف ہو۔انھیں کیفیات کا اظہار شاعر ومترجم انور جلالپوری نے اپنے ترجمہ سے متعلق کیا ہے، وہ لکھتے ہیں:

’’سریمدبھگوت گیتا کو سمجھنے اور اسے اردو شاعری کا لباس پہنانے میں مجھے بڑی ذہنی محنت اور تحقیقی صلاحیت خرچ کرنا پڑی۔ مجھے شلوک کا ترجمہ اردو، ہندی اور انگریزی میں پڑھنا پڑا، پھر تشریح وتفصیل سے واقفیت حاصل کرنی پڑی، پھر تشریح کا خلاصہ دماغ میں محفوظ رکھنا پڑا اور بعد میں اس خلاصے کو شعری پیکر میں ڈھالنا پڑا۔‘‘    (ص:27-28)

 متذکرہ بالا ترجمے کی دشواریوں اور آسانیوں کے پیچ وخم کے بیچ انور جلالپوری نے اپنی جگہ کس حیثیت سے بنائی ہے۔ اس کااعتراف پروفیسر رمیش دیکچھت نے اپنے ایک وقیع مضمون ’ساجھی سانسکرتک وراثت کا شاعر‘ میں کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’گیتا سنسکرت کی سریشٹھم کاویہ رچناؤ میں ایک ہے۔ بھلے ہی انور صاحب نے اردو شاعری میں گیتا کا انواد اس کے ہندی انواد وں کے آدھار پر کیا ہے، پرنتو انھوں نے سنسکرت کے موٗل پاٹھک کی آتما کو بچائے رکھنے کی پوری کوشش کی ہے۔‘‘

وہ ایک دوسری جگہ انور جلالپوری کی زبان، اسلوب اور مرصع سازی پر تبصرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

جناب انور جلالپوری کا بھاشا پر غضب کانینترن ہے۔ان کی بھاشا کی روانی گیتا کے شلوکوں کے معنوں کی پرت درپرت کھولتی چلی جاتی ہے۔وہ کئی بار کسی ایک شلوک کو کئی اشعار میں سپشٹ کرتے ہیں تاکہ پاٹھک کے لیے اشلوک کا ارتھ سمجھنے میں زیادہ آسانی ہو کیوں کہ اِس ترجمہ کا اُدیشیہ ہر شلوک کے مرم کو پاٹھک تک پہنچانا ہے، صرف اوپری ارتھ بھر ہی نہیں۔‘‘(ص:19)

ہنومان پرشاد عاجر ماتوی بھی انور جلالپوری کے ترجمہ کی خوش اسلوبی اور انداز بیان سے متعلق کچھ یوں گویا ہیں:

’’موصوف نے نہایت سادہ، سلیس اور عام فہم زبان میں منظوم ترجمہ کر کے اپنی دور اندیشی اور بالغ النظری کا ثبوت پیش کیا ہے۔ کم اردو جاننے والے اور ہندی داں طبقہ بھی اسے بآسانی پڑھ اور سمجھ سکتا ہے۔‘‘      

(بحوالہ، حرف چند، ہنومان پرشاد عاجز ماتوی، ص:25)

بھگوت گیتا ہمارے معاشرے کی ایک ایسی عظیم کتاب تصور کی جاتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان جب چہار جانب سے گھرا ہوتا ہے تو اس کو صرف ایک راستہ نظرآتاہے اور وہ راستہ مذہب ہے۔ انسان اپنی زندگی میں چاہے جتنا بھی گناہ کا مرتکب ہوجائے باوجود اس کے ان کے دلوں میں ایک مذہبی گوشہ ضرور مضمرومستتر رہتا ہے۔متذکرہ بالا باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم اس عظیم کتاب سے متعلق چند اکابرین کے کلمات اور ان کے خیالات سے آپ کو روشناس کرانے کی کوشش کریں گے اور یہ بھی باور کرانے کی کوشش کریں گے کہ اس کتاب کے سلسلے میں ان کی رائے کیا تھیں۔ شیخ عبدالغنی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں:


"The Bagavad Gita 'The song of God' is the symbol of indian culture, tradition and religion. The holy book is well known in the world and it has been translated in almost all the imagaes of the world."

(Bagavad-Gita in Urdu paratnakirti, Vol,1, Issue-4.2014. ISSN-2322-0694)

سوامی تپسیانند گیتا کے فلسفے کی وضاحت کچھ ان الفاظ میں کرتے ہیں:

’’اس صحیفے کی زبردست پذیرائی کی وجہ یہ ہے کہ اس میں زندگی کے عملی مسائل پر روشنی ڈالی گئی ہے جن پر قابو پانے کے لیے انسان کا یہ فریضہ بھی شامل ہے کہ بنی آدم ایک نامکمل سماجی نظام میں اپنا کام سرانجام دے تاکہ  اسے تکمیل کا اعلا مرتبہ حاصل ہوسکے۔ گیتا اسی مسئلے سے شروع ہوکر اسی کے حل پر اختتام پذیر ہوتی ہے اور اس میں عقیدتی فلسفے کی پُر اثر ترسیل موجود ہے۔‘‘

مہاتما گاندھی کابھگوت گیتاسے دلی لگاؤ تھا اور وہ اسے عقیدت واحترام کی نظرسے دیکھتے تھے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جب بھی کسی مصیبت سے دوچار ہوتے سب سے پہلے بھگوت گیتا کی طرف رجوع کرتے اور اس کا سہارا لیتے۔ گاندھی جی ایک جگہ اپنے دلی جذبات کا اظہار کچھ اس طرح کرتے ہیں:

’’جب بھی شکوک وشبہات مجھے گھیر لیتے ہیں۔ جب ناامیدی میرے چہرے بشرے سے جھلکتی ہے اور مجھے افق پر امید کی کوئی کرن نظرنہیں آتی، میں بھگوت گیتا کا مطالعہ کرتا ہوں اور اسے سکون قلب عطاکرنے والی ایک راحت بخش تخلیق پاتا ہوں۔ میں اس عالم افسردگی میں فوراً ہی مسکرانے لگتا ہوں۔ میرے خیال میں جو بھگوت گیتا کا سہارا لیتے ہیں انھیں ہر دن اس سے حیات بخش سرور اور نئے معنے حاصل ہوں گے۔‘‘

اسی طرح سوامی وویکانندکے بارے میں کہاجاتا ہے کہ سوامی جی 1888سے 1893تک کے دوران جب پورے ہندوستان کے دورے میں تھے، تب ان کے پاس صرف دو کتابیں تھیں، ایک The Imitation of Christاور دوسری بھگوت گیتا۔

اگرچہ انور جلالپوری صاحب آج ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں تاہم وہ اپنے کارنامے کی بدولت ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ وتابندہ رہے گے۔


 

Dr. Saud Alam

B.114, Yadav Building

Okhla Main Market, Jamia Nagar,

New Delhi- 110025

M0b: 8076495936





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں