26/7/22

مقدمۂ دیوان فانی گورکھپوری: ایک تجزیاتی مطالعہ - مضمون نگار : محسن علی



دیوان فانی اردو زبان و ادب کاایک بیش قیمت سرمایہ ہے جو اپنے دل نشیں اسلوب نگارش،عمدہ طرزِ بیان،مختلف  اصنافِ سخن اور متنوع موضوعات کے لحاظ سے انفرادی حیثیت کا حامل ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ اتنا وقیع دیوان اب تک کیوں اہل علم و ادب کی نگاہوں سے اوجھل اوران کی دسترس سے دور رہا۔دیوان کی تصحیح ونظر ثانی کے بعد ڈاکٹر فضل الرحمن شررمصباحی نے دیوان اور صاحب دیوان کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے تحریر کیاہے
:

’’ مشربی طور پر آپ خم خانۂ تصوف کے مست الست تھے،اس لیے آپ کے اشعار میں جو تغزل کا جوہر ہے وہ آپ کے ہم عصرشعرا میں خال خال پایا جاتا ہے۔ پھر سرکار آسی غازی پوری کے دربار عالی کی خاک روبی نے اس رنگ تغزل کو اور چوکھا کردیا۔شاعری صرف قافیہ پیمائی نہیں ہے۔ علم عروض کا ماہر بلند شعور شاعر ہو،یہ بھی ضروری نہیں ہے۔ نہ اتنے سے کوئی شاعر نام آور ہوسکتا ہے۔اچھا شعر وہی ہے جو بلندیِ تخئیل کا حامل ہو اور جس کے لیے الفاظ کا انتخاب اسی کے متناسب ہو۔اس نقطۂ نظر سے’دیوان فانی‘میں بڑی جامعیت نظر آتی ہے۔بے شبہ’دیوان فانی‘ میخانۂ تصوف کی رحیق مختوم اور خوانِ تغزل کا مزعفر و مطنجن ہے۔‘‘1

تعجب کی بات ہے کہ جس شاعر کی شعری عظمت اور فنی کما ل کا اعتراف ان کے معاصر اصحاب علم و ادب اور اربابِ شعر وسخن نے کیا ہواور مشاعروں میں جس کا کلام حاصل مشاعرہ قرار پائے اور جس کی شرکت مشاعرے کی کامیابی کی ضامن ہو، ایسے شاعر کا دیوان بے اعتنائی کا شکار رہا اور اس کے مطالعے و استفادے سے اہل علم وادب محروم رہے،جس کی وجہ سے اردو دواوین اور تذکروں میںفانی گورکھپوری اور ان کے مجموعۂ کلام کا ذکر نہیں ملتا اور کہیں ملتابھی ہے توبہت کم۔مقدمے کے مطالعے سے یہ بھی منکشف ہوا کہ اس کے مقدمہ نگار بھی صاحب علم اور فن شناس تھے۔ایک عظیم علمی و ادبی خانوادے کے فرد تھے۔ حضرت فانی کے حاضر باشوں،مجلس نشینوں اور نیازمندوں میں سے تھے اور ان کے یہاں  ان کی آمد و رفت کا سلسلہ بھی خوب تھا۔وہ اپنے والد وسیم خیر آبادی اورعم محترم ریاض خیر آبادی کے ہمراہ صاحب دیوان کی خدمت میں برابر حاضر ہوتے تھے۔

صاحب دیوان کا تعارف

صاحب دیوان سید شاہ شاہد علی سبز پوش فانی گورکھپوری اپنے عہد کے نامور عالم،باکمال  بزرگ اور عظیم شاعر تھے۔ان  کے مورث اعلیٰ سید شاہ قیام الدین گورکھپور ی تھے جن کاسلسلۂ نسب سلطان العارفین میر سید موسیٰ  اودھی کے  واسطے  امیر المومنین خلیفۂ چہارم حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچتا ہے۔آپ  20؍ نومبر 1888 کو جعفرا بازار ضلع گورکھپور میں پیدا ہوئے۔ چودہویں صدی ہجری کے معروف عالم دین،عظیم شیخ طریقت اور ممتاز صوفی شاعرحضرت مولانا شاہ محمدعبد العلیم آسی غازی پوری (آٹھویں سجادہ نشیں خانقاہ رشیدیہ جون پور)  کے تلمیذ اور خلیفہ و جانشیں تھے اورخانقاہ رشیدیہ جون پور کے نویں سجادہ نشیں۔شاعری میں حضرت شمشاد لکھنوی سے شرف تلمذ تھا۔ حضرت آسی  غازی پوری کے بعد خانقاہ رشیدیہ کے سجادہ نشیں ہوئے اور اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے خلق خداکی رشد و ہدایت اورراحت رسانی خلائق میں عظیم خدمات پیش کیں۔آپ کی چار اولادیں تھیں جن میں سید شاہ راشد علی سبزپوش،سید شاہ عارف علی سبزپوش،سید شاہ مصطفی علی سبزپوش اورسید شاہ ہاشم علی سبزپوش شامل ہیں اور چاروں صاحبزادگان علم و فضل اور فکر و فن میں آپ کے سچے وارث و امین تھے۔

حضرت فانی ایک شیخ کامل اور مرشد طریقت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بلند پایہ شاعربھی تھے۔آپ کا تخلص فانی تھا۔آپ کا مجموعۂ کلام آپ کے فرزند سید مصطفی علی سبزپوش آنی گورکھپوری نے دیوان فانی کے نام سے مرتب کرکے شائع کیا ہے۔آپ اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں شعر کہتے تھے۔حضرت فانی گورکھپوری نے بیشتر اصناف میں اپنی جودتِ طبع اور مذاقِ شاعری کا اظہار کیا ہے جن میں نعت، منقبت، قصیدہ، غزل، مثنوی، مثلت، مخمس، رباعی ومسدس وغیرہ مختلف اصناف شامل ہیں۔ آپ نے اپنے پیر ومرشد اور استاذ گرامی حضرت آسی غازی پوری کے دیوان’عین المعارف ‘کو جدید ترتیب وحواشی کے ساتھ شائع کرایااور اس پر ایک مفصل اور معلوماتی مقدمہ ثبت فرمایاجس کے ذریعے علمی وادبی دنیا،حضرت آسی کے شاعرانہ فن سے آگاہ ہوئی جو دیوان آسی کے نام سے معروف ہے۔آپ کی ایک بہت بڑی لائبریری بھی تھی جس میں عربی، اردو، فارسی کی ہزاروں مطبوعہ کتابوں کے ساتھ ساتھ بہت سے نایاب قلمی نسخے بھی تھے۔آپ کی جمع کردہ کتابوں کا ایک بڑا ذخیرہ آپ کے چھوٹے فرزند سید ہاشم علی سبزپوش جامی گورکھپوری نے ’خدابخش لائبریری، پٹنہ‘ کو دے دیا تھاجو آج بھی’سید شاہد علی سبزپوش کلیکشن‘ کے نام سے موجود ہے اوراہل علم و تحقیق برسوں سے اس سے مستفید ہورہے ہیں۔ آپ نے 27؍جولائی1952کو وفات پاکر رشید آباد ضلع جون پور میں مدفون ہوئے۔

مرتب دیوان کاتعارف

مرتب دیوان سید شاہ مصطفی علی سبزپوش آنی گورکھپوری صاحب دیوان حضرت فانی کے فرزند وجانشین اور خانقاہ رشیدیہ کے دسویں سجادہ نشین  تھے۔آپ 1922 میں گورکھپور میں پیدا ہوئے۔ مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ اورجامعہ ازہرقاہرہ کے تعلیم یافتہ تھے۔ آپ نے بے شمار لوگوں کو اپنے علمی و روحانی فیوض سے سرفراز کیا۔آپ کا وصال 1958کو ہوااور اپنے والدماجد کے پہلو میں رشید آباد ضلع جون پور میں سپرد خاک ہوئے۔آپ کو شعر وسخن کا ذوق وراثت میں ملا تھا۔آپ کا تخلص آنی تھا۔آپ کی شاعری بڑی بامعنی ہوتی تھی۔ فن شاعری میں اپنے والد حضرت فانی کے شاگرد تھے۔آپ کا مجموعۂ کلام اب تک شائع نہیں ہوا ہے۔ آپ نے اپنے والد کے مجموعۂ کلام کو’دیوان فانی‘ کے نام سے مرتب کرکے شائع کیا اور اس پر ایک اپنی مختصر اور جامع تحریربھی رقم کی جس میں حضرت فانی کے شعری اصول اوردیوان فانی کی اشاعت وغیرہ کاذکر ہے۔ چنانچہ دیوان کے دیباچے میں رقم طراز ہیں :

’’والدصاحب قبلہ اپنے کلام کی اشاعت پسند نہیں کرتے تھے۔میرے اصرار پر بھی جواب دیتے تھے کہ’’ نظر ثانی کی ضرورت ہے،ممکن ہے کہ فرو گزاشتیں ہوں‘‘۔ میرے زیادہ اصرار پر اجازت عطا فرمائی۔اگر ناظرین کرام کچھ فروگزاشت ملاحظہ فرمائیں تومقتضہائے بشریت سمجھ کر عفو سے کام لیں۔والد صاحب قبلہ جناب مولانا شمشاد فرنگی محلی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد ہونے کی حیثیت سے جملہ قواعد کے سختی سے پابند تھے۔بعض بعض جگہ خلاف قواعدالفاظ پائے جاتے ہیں۔جیسے مکان، آسمان وغیرہ میں بے عطف و اضافت کے بھی نون غنہ آگئے ہیں،میں نے [والد صاحب سے] استفسار کیا تھا تو [آپ نے] یہ فرمایا:بعض غزلوں میں جناب وسیم [خیرآبادی] کی فرمائش سے ایسا نظم کیاگیا ہے اور چند اشعار میں جو قواعد کی پابندی اختیار کرنے کے قبل کے ہیں،یوں ہی رہنے دیا گیا ہے۔‘‘1

مقدمہ نگار کاتعارف

دیوان کے مقدمہ نگار حضرت اثیم اترپردیش کے ضلع سیتا پور کے معروف موضع خیر آبادمیں 1900 میں پیدا ہوئے۔ تعلیم کا آغاز اپنے والد حضرت وسیم خیر آبادی سے کیا اور شعری اصلاح بھی انھیں سے لی۔ا س کے بعد وہ1916 میں مدرسہ نیازیہ میں داخل ہوکر 1921تک تعلیم حاصل کی۔اس کے بعد منبع الطب کالج لکھنؤ میں علم طب کا درس لے کر1927میں سند سے نوازے گئے۔ فراغت تعلیم کے بعد آپ نے کچھ دن  مطب چلایا۔اس کے بعد اپنے عم محترم حضرت ریاض خیر آبادی کی طلب پرگورکھپور پہنچ کرایک اسکول میں اردو اور فارسی کے استاذ مقرر ہوگئے۔اسی زمانے میں ’گل چین‘ اور ’تحفۂ خوشتر‘ کے نائب مدیر بھی رہے۔اس کے بعدبہار اور حیدر آباد دکن بھی گئے جہاں1949 تک آپ کا قیام رہا۔اس کے بعد آپ خیر آباد واپس آگئے اور یہیں ایک  مدرسے میں مدرس اور ’کارواں‘ کے مدیر ہوئے۔ا س کے بند ہونے کے بعدآپ کان پور پہنچ کراپنی ادارت میں ’جھلک‘ نکالنے لگے۔ آپ نے خیر آباد میں ’انجمن ادب‘ کے نام سے ایک ادارہ بھی قائم کیا تھا ۔عمر کے اخیر حصے میں زیادہ تر آپ کا قیام کان پور میںتھا،جہاں 1960 سے 1971تک مدرسہ ارشادیہ اور احسن المدارس میں استاد رہے۔ 6؍اپریل 1972 میں داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے سپردِ خاک ہوگئے۔ آپ جہاں بھی رہے تدریسی، علمی اور ادبی سرگرمیاں پوری شان و شوکت کے ساتھ جاری رکھیں۔ آپ کا پورا گھرانہ علم و ادب اور شعر و سخن کا گہوارہ تھا۔آپ کے دادا سید محمد مہدی غمگین خیر آبادی بھی شاعر تھے۔آپ کے والدحضرت وسیم  خیر آبادی اپنے عہد کے مقبول شاعر اور تلامذۂ امیر مینائی میں ایک بلند مقام رکھتے تھے۔آپ کے بھائی سید محمد خلیل احمد شمیم خیر آبادی اور ہمشیرہ سیدہ وارث فاطمہ صنوبر خیر آبادی دونوں شعری مذاق اورذوقِ سخن رکھتے تھے۔ آپ کو نظم و نثر دونوں پر بڑا عبور حاصل تھا۔ نظم میںآپ کو غزل کے علاوہ مختلف اصنافِ سخن میں بھی مہارت تھی۔آپ کے شعری نمونے ’تذکرۂ شعرائے اترپردیش ‘ اور’تذکرۂ معاصرین ‘ میں درج ہیں۔آپ کا کلام مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہوتا تھا۔ مصنف ’تذکرۂ شعرائے اترپردیش‘ کے بقول:

’’ افسوس !اس قدر قادر الکلام اور زود گو شاعر کا کلام زیور طبع سے آراستہ نہ ہو سکا اور شاید آئندہ بھی نہ ہوسکے لیکن اس کے سینوں میں اترے ہوئے اشعار بہت دنوں تک اس کے نام اور تذکرے کو زندہ رکھیں گے ۔‘‘3

مقدمہ دیوان فانی آپ کا بہترین نثری نمونہ ہے جس سے آپ کی عمدہ نثر نگاری، زبان و بیان پر قدرت، اسلوبِ نگارش پر دسترس اور وسعت مطالعہ بخوبی عیاں  ہوتی ہے اوراس سے آپ کے علمی مقام اورشعری مرتبے کا بھی اندازہ ہوتاہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو شاید بے جا نہ ہوگا کہ یہ مقدمہ خود ایک مستقل تصنیف کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ تعجب کی بات ہے کہ آپ کے تذکرہ نگاروں نے اس مقدمے کا کوئی ذکرنہیں کیاہے جب کہ اس مقدمے میں نہ صرف صاحب دیوان حضرت فانی گورکھپوری کی حیات و سیرت،ان کے خاندانی احوال، شعری و ادبی خدمات، شاعری میں ان کا مقام و مرتبہ،شعرا  و ادبا سے ان کے روابط اور ان سب کا حضرت فانی کے علم و فضل اور کمال فکر و فن کا اعتراف کے علاوہ دیوان فانی کی ترتیب و تدوین کے ایام کے احوال و کوائف وغیرہ پر تفصیلی روشنی  ملتی ہے بلکہ اسی ضمن میں خود مقدمہ نگار،ان کے والدحضرت وسیم خیر آبادی اوران کے عم محترم حضرت ریاض خیر آبادی کے حوالے سے بھی نادر معلومات ملتی ہیں اور شعر و ادب میں ان کی اہم دریافتیں بھی سامنے آتی ہیں۔ ان تینوں حضرات کے دیگرشعرا و ادبا سے تعلقات وغیرہ کا بھی ذکرجگہ جگہ ملتا ہے نیز یہ کہ آپ اور آپ کے خانوادے کا تعلق حضرت فانی سے نہایت گہرا اور بڑا دیرینہ تھا۔

دیوان فانی کے اب تک تین اشاعتی مراحل عمل میں آئے ہیں جن میں پہلا نسخہ 1956 میں خود مرتب دیوان سیدمصطفی علی سبزپوش گورکھپوری کا شائع کردہ ہے، دوسرا نسخہ انجمن فیضان رشیدی کمر ہٹی کلکتہ کے زیر اہتمام 1998 میں طبع ہوا ہے جب کہ تیسرا نسخہ شاہ عبد العلیم آسی فائونڈیشن نئی دہلی نے 2019میں شائع کیا ہے جو اَب تک کا تازہ ترین اور محقق نسخہ ہے۔نسخۂ دہلی میں مرتب دیوان کے دیباچے اور اثیم خیر آبادی کے مقدمے کے ساتھ ’ابتدائیہ‘ بھی شامل ہے جس میں  مرتب اور مقدمہ نگار کے کچھ احوال وکوائف کو بیان کیا گیا ہے جب کہ نسخہ کلکتہ میں مرتب دیوان کے دیباچے کی بجاے  ناشر کا پیش لفظ  ہے۔نسخہ دہلی 525؍صفحات پر مشتمل ہے جس میں 108؍صفحات پر سید امیر احمد اثیم خیر آبادی کا طویل اور مبسوط مقدمہ ہے۔ مجھے یہاں دیوان فانی پر تبصرہ کرنا مقصودنہیں ہے بلکہ اس کے مقدمے کا ایک تجزیاتی مطالعہ پیش کرتے ہوئے علمی و ادبی اور معلوماتی اعتبار سے اس کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالنی ہے۔

مقدمۂ دیوان کی علمی و ادبی افادیت

اثیم خیر آبادی کا یہ مقدمہ فانی گورکھپوری کی حیات اور شاعری پرنہایت ہی معلوماتی اورمستند تحریر ودستاویز ہے جس کو آپ نے خود صاحب دیوان کی حیات اور ان کے یہاں رہ کر لکھا ہے اور اپنے خاندانی بزرگوں کی فراہم کردہ معلومات  اور اپنے ذاتی مشاہدات وتجربات کی روشنی میں قلم بند کیاہے جیسا کہ اس کا ذکر آپ نے  جا بہ جا اپنے مقدمے میں کیاہے۔ایک جگہ آپ یوں خامہ فرساہیں :

’’والد قبلہ اور عم بزرگ وارآپ کے یہاں اکثر قدم رنجہ فرماتے تھے۔ کبھی حسب طلب کبھی بذوقِ خود۔ جب کوئی شاندار مشاعرہ ہونے والا ہوا یا جب مولوی صاحب مذکور کے یہاں مشاہیر ملک سے کچھ اربابِ سخن تشریف لائے تو ان حضرات کو مجھ کو اور میرے بھائی شمیم  سلمہ کو اور بسا اوقات اپنے دیگر تلامذہ و احباب کو ساتھ لے کر ضرور تکلیف کی۔لطف سخن رہتا تھا۔سنتے تھے، سناتے تھے، نقد و تبصرہ، تبادلۂ خیالات،ادبی مکالمات، علمی مناظرات اور مختلف مباحث رہتے تھے۔‘‘4

اس طرح یہ کہا جائے تو شاید بے جا نہ ہوگا کہ حضرت فانی کے علم و فن کے تعارف میں  خیر آبادی شعرا  یعنی مقدمہ نگاراثیم خیر آبادی، ان کے والدبزرگ وار وسیم خیر آبادی اور عم محترم ریاض خیر آبادی نے اہم کردار پیش کیا ہے۔ واضح رہے کہ مقدمہ نگار نے صاحب دیوان کو ’حضرت فانی‘ سے کم اور ’ـشاہ صاحب‘ سے زیادہ مخاطب کیا ہے۔ مقدمہ نگار کے حوالے سے کچھ اہم معلومات خود مقدمے ہی سے فراہم ہوتی ہیں،مثلاً یہ کہ آپ بھی آل انڈیا مشاعرۂ گورکھپور(1942) کے ایک رکن  تھے۔نیز یہ کہ مقدمہ نگار نے حضرت فانی کے حوالے سے کچھ نادر معلومات کوشامل مقدمہ نہیں کیاہے جیساکہ مجنوں گورکھپوری کا ذکر کرتے ہوئے  ایک جگہ لکھتے ہیں:

’’شاہ صاحب کو درمیان میں ڈال کر مجھ سے یہ معاملہ کرنا چاہتے تھے کہ عم محترم حضرت ریاض کا دیوان طبع کریں۔ ان کی ضدیں،عم بزرگوار کی فہمائشیں،بابوبدری پرشاد صاحب قمر، بابو رنگ بہادر لال صاحب جگر،وکلاے گورکھپور  اور دو ایک اور احباب گورکھ پورکی کوششیں اور سب کا مل کران کو مجبور کرناکچھ عجب لطف رہ چکا ہے۔ بہت سی تحریریں بطور یادگار میں نے رکھ چھوڑی ہیں۔ خیر! چھوڑئیے۔‘‘5

مقدمہ نگار نے جہاں حضرت فانی نیز اپنے خانوادے کے بزرگوں سے متعلق اپنے چشم دید واقعات،بصیرت افروز نظریات اورمستند روایات کو اپنے مقدمے کا حصہ بنایاہے، وہیںاپنے والد گرامی اور عم محترم کی روایت کردہ باتوں سے بھی اپنے مواقف کو مبرہن کرکے اور باوزن  بنادیاہے،نیزآپ نے مشاہدات اور تجربات کی روشنیمیں بھی چیزوں کو تحریر فرمایاہے۔ دیوان کی ترتیب و تدوین اور تحریر مقدمہ کا کام صاحب دیوان ہی کی حیات میں ہوا تھا۔مثلاًاپنے مقدمے میں ایک جگہ رقمطرازہیں:

’’میں آ پ ہی کے یہاں مقیم اور اس مضمون اور آپ کے کلام کی تدوین میں مصروف تھا کہ جارج اسلامیہ انٹر کالج،گورکھپور بسلسلہ علمی نمائش قرار پایاکہ شاندار پیمانے پرایک آل انڈیامشاعرہ کیا جائے۔‘‘6

مقدمے کی ترتیب بھی خوب ہے۔اس میںحضرت فانی کی حیات و سیرت کے اہم پہلوئوں کو پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی علمی، اخلاقی، روحانی، ادبی  و شعری  خدمات اور سرگرمیوں کو بڑی شرح و بسط کے ساتھ بیان کیاگیا ہے اور شاعری کے موضوعات پر بھی تبصرہ کیا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

 مقدمہ نگار نے صاحب دیوان کے اندازِ مطالعہ، طریقۂ خواندگی،کمالِ انہماک، شوقِ مطالعہ،قوتِ حافظہ، ذہانت دادی، استحضارِ علمی وغیرہ پر بھی خاص طور پرگفتگو کی ہے، چنانچہ ایک جگہ لکھتے ہیں :

’’یہ مطالعہ سرسری نہیں،گہری نظر اور افادئہ نقطۂ نگاہ سے کرتے تھے۔ اساتذئہ اردو اور فارسی کے دواوین دیکھتے وقت ایراد و اسناد کا بھی کام کرتے چلتے تھے۔ دو مصرعوں کے بیچ کی نالی اور حواشی پر ذہن سے ترتیب دادہ نشان لگاتے اور ایک آدھ سندی شعر جلد کے اِدھر اُدھر کے سادہ کاغذ پراتار تے جاتے تھے۔ جمع  رکھا جائے تو یہ ایک سرمایہ ہے۔تبصرہ و تنقید اور لغات نویسی کے کام کی چیز بجائے خود بھی ضخیم مجموعہ ہو جائے گا۔‘‘7

اثیم نے صاحب دیوان کی اخلاقی و روحانی شخصیت اور ان کی بافیض محافل و مجالس کا بھی ذکر کیا  ہے اور ان کی خصوصیات کو بیان کرتے ہوئے ان کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالی ہے،ایک جگہ وہ  رقم طراز ہیں :

’’تصوف کے رموز و اسرار،روحانیت کے حقائق و معارف یا پھر خدااور خاصانِ خدا کا ذکر، اذکار اُن کا خاص موضوع اور دلچسپ مشغلہ ہے اور ہر عنوان کا آخر الکلام۔ ہزاروں روایتیں اور سیکڑوں مضامین کتابوں کے اقتباسات، بزرگوں کے ارشادات، اولیائ اللہ کے کلمات اور مفصل بیانات مع ماخذ و حوالہ جات نوکِ زبان پر ہیں۔ بات چھڑی اور سلسلہ چلا۔ عموماًایساسماں بندھ جاتا ہے کہ روح وجد میں آجاتی ہے۔‘‘8

مقدمہ نگارنے حضرت فانی کے کتب خانے کا بھی ذکر کیا ہے اور اہل علم و ادب میں اس کی اہمیت  پر بھی روشنی ڈالی ہے چنانچہ لائبریری کاتعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’کتب بینی کے ذوق میں کتابیں کافی جمع کیں۔ اچھا خاصاایک کتب خانہ ہو گیا۔اکثرکم یاب و نایاب و نادر کتابیں مہیا کرلیں۔ ایسے بھی چند نسخے ہیں جن کا مثنی دستیاب ہونا دشوار ہے۔ ایک کتاب تو ایسی نادر ہے کہ دنیا میں نظیر نہیں۔‘‘9

مقدمہ نگار نے بیان کیا ہے کہ اس لائبریری سے پروفیسر احمد صدیق مجنوں گورکھپوری جو اردو زبان و ادب کے معروف نقاد و محقق تھے،نے بھی بھرپور استفادہ کیا ہے اور یہاں برابر ان کی آمد و رفت رہتی تھی اور وہ میر تقی کے برادر خرد میر اثر،بیدار اور کاشف لکھنوی کے غیر مطبوعہ دیوان ایوان میں شائع کرنے کے لیے یہیں سے  لے جاتے  تھے۔

مقدمہ نگار نے حضرت فانی کی علمی،ادبی  اور شعری سرگرمیوں کو تفصیل  کے ساتھ بیان کیا ہے اور بعض مشاعروں میں آپ کے پڑھے گئے کلام پر عمدہ تبصرہ بھی کیا ہے، چنانچہ ’دیوان فانی‘کے طویل مقدمے میں انھوں نے ایک واقعہ نقل کرتے ہوئے لکھاہے کہ میرے والداور جگر بسوانی کے مابین خصوصی تعلقات تھے۔میرے والدہی کی وساطت سے جگر بسوانی حضرت فانی کی علمی و ادبی شخصیت سے  متعارف ہوئے اور  ان کوحضرت فانی سے ملاقات کا اشتیاق ہوا،یہاں تک کہ انھوں نے حضرت فانی کو اپنے وطن بسواں میں مدعو بھی کیا تھا جس میں حضرت فانی کی شرکت تو نہیں ہوئی تھی البتہ آپ کا کلام ضرور پہنچا تھا۔ جب جگر بسوانی کی ملاقات حضرت فانی سے ہوئی تو انھوں  نے یاد دلاتے ہوئے کہا کہ:

’’آپ کو تکلیف دینا چاہی تھی۔خیر آپ تو معذور رہے۔غزل پہنچی تھی۔یہ شعر تو گویا حاصل مشاعرہ رہا          ؎

اے دست کرم ہمت سائل کی ذرا شرم

کونین سے بھرتے نہیں دو ہاتھ دعا کے‘‘10

اس شعر کی اہمیت و معنویت پر تبصرہ کر تے ہوئے اثیم خیرآبادی نے لکھا ہے :

’’واقعی شعر ہی کچھ ایسا ہے کہ جتنی تعریف کی جائے کم ہے-معلوم تو یہی ہوتا ہے کہ ایک مشاعرہ کیا،یہ شعر اپنے مضمون کی نوعیت کے اعتبار سے اس زمین میں جتنے مشاعرے ہوں،سب کا حاصل رہے گا۔‘‘11

آپ کی شعری اصناف کو بیان کرتے ہوئے مقدمہ نگار نے تحریر کیا ہے:

’’شاہ صاحب کو غزل گوئی سے زیادہ شغف رہا۔دو تین خمسے بھی ہیں اور لاجواب ہیں۔ صاحب غزل کی زبان میں ایسی زبان ملائی ہے کہ امتیاز نا ممکن ہے۔ ناظرین ملاحظہ فرمائیں گے۔ رباعیاں بھی چند ہیں۔ قصیدے کے بارے میں فرماتے تھے: ’’اہل دنیا کی مدح میرے لیے عار ہے۔ ‘‘ایک بارنعت میں قصیدہ کہنا شروع کیا تھا۔ پندرہ بیس شعر ہوئے تھے کہ خیال ہوا کہ میرے طائر وہم وخیال کی انتہائی پرواز بھی باعث کمال منقصت ہوگی، اس لیے اس خیال کو ترک کردیا۔احباب کی فرمائش سے البتہ قصیدے قلم برداشتہ اُنھیں کے نام سے لکھ کے دے دیے۔ ایک مثنوی بھی کہی تھی؛ مگر ضائع گئی۔‘‘12

مقدمہ نگار نے حضرت فانی کی تضمین نگاری پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے اس کی  اہمیت و افادیت کو پیش کیا ہے،چنانچہ لکھتے ہیں :

’’تضمین میں شاہ صاحب کو عجب ملکہ اور شغف ہے۔ قریب قریب شاعروں  کے ہر مصرع پر مصرع لگائے جو دیکھنے ہی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہر غزل جس میں تضمین کا مصرع ہے،واضح کر دیا گیا ہے۔ ناظرین محظوظ ہوں گے۔‘‘13

 حضرت فانی نے اساتذہ کی غزلوں پر بھی بلند پایہ اور بصیرت افروز غزلیں کہی ہیں،چنانچہ مقدمہ نگار لکھتے ہیں :

’’زبان اور انداز بیان پر قدرت ایسی ہے کہ جو کہنا چاہتے ہیں، خوب کہتے ہیں۔شاہ صاحب کی اکثر غزلیں اساتذہ کی غزلوں پر ہیں، خصوصاًحضرت داغ اور حضرت امیر مینائی کی غزلوں پر۔کچھ غزلیں آتش کی غزلوں پر بھی ہیں۔ ذوق و مومن  کی زمینوں میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ میر کی طرح میں دو ایک غزلیں ہیں ؛مگر خصوصیت یہ ہے کہ جس کی غزل  ہے، وہی رنگ غالب ہے۔ ناظرین خود ہی ملاحظہ فرمائیں گے ۔‘‘14

حضرت فانی اردو کے ساتھ ساتھ فارسی زبان میں بھی شاعری کرتے تھے جس کے کچھ نمونے  دیوان میں بھی ملتے ہیں لیکن اثیم خیر آبادی کے بقول حضرت فانی کا فارسی کلام ضائع ہوگیاہے،جیسا کہ وہ رقمطراز ہیں:

’’کبھی کبھی فارسی میں بھی کہتے تھے۔ بعد میں ترک کی اس خیال سے کہ اردوہی میںجو اپنی زبان ہے، امتیاز پیدا کرنا آسان نہیں۔ دوسری زبان میں اہل زبان کے سامنے کیا درجہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ غالباً فارسی کا کلام تلف ہوا۔چند اشعارملے جو مشاقی اور قدرت کا نمونہ ہیں۔‘‘15

اس  مقدمے میں حضرت فانی کی شخصیت اور شاعری کے ضمن میں ان کے پیرومرشدحضرت آسی غازی پوری اور شاعری کے استاذ حضرت شمشاد لکھنوی کا بھی  ذکر کیاگیا ہے اور ان کے حوالے سے خاصا مواد مقدمے میںجمع کردیا ہے۔ حضرت فانی کی کیفیت شاگردی اور طریقۂ استفادہ وغیرہ کو بیان کرتے ہوئے حضرت فانی کی قدر و منزلت کو بھی اجاگر کیا ہے۔حضرت فانی کو شمشاد لکھنوی سے چار پانچ غزلوں پر اصلاح لینے کا موقع ملا اور ان کا  طریقۂ اصلاح بھی منفرد اور قابل رشک تھا جیسا کہ مقدمہ نگار کہتے ہیں :

  ’’ان کااصلاح لینے کا طریقہ عام انداز سے جدا گانہ اور کمال استفادہ کو لیے ہوئے تھا۔غزل کے ساتھ ان کے علوفکر،رسانی ذہن،سلیقۂ حسن، نشست وانتخاب، الفاظ کی اصلاح اور بجمیع حیثیات قوت فکریہ کی ترقی ہوجاتی تھی، بصیرت تامہ حاصل ہورہی تھی،ملکہ بڑھتاہی جاتا تھا اور وجوہِ اصلاح دل نشیں ہوتے جاتے تھے۔‘‘16

جب یہ غازی پور جاتے تو اپنے پیر و مرشد کے آرام فرمانے کے وقت دو پہر کو خود حضرت شمشاد کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے اور عرض کرتے : ’’جو لفظ بدلوانا ہو، مجھ ہی سے بدلوائیے۔‘‘ جب تک استاذ کے پسند کا لفظ نہ مل جاتا، طبیعت پر زور دے کر الفاظ بدلتے جاتے تھے۔ تمام زمانۂ اصلاح میں دو تین مرتبہ انھوں نے  اظہار ِعجز کیا اور مولانا شمشاد نے لفظ رکھا۔یہاںتک کہ ایک روز کسی شعر کے ایک لفظ پر استاد و شاگرد دونوں میں دیر تک مکالمہ رہا۔حضرت فانی نے استاد محترم حضرت شمشاد کا لفظ ادباً قبول کرلیااوریہاں سے فارغ ہوکر اپنے شیخ کامل حضرت آسی غازی پوری کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت آسی نے پوچھا:’’میاں شاہد! کہاں گئے تھے؟ ‘‘۔حضرت فانی نے کہا:حضرت شمشاد کی خدمت میں۔حضرت آسی نے فرمایا:’’اصلاح کے لیے کوئی غزل لے گئے تھے؟‘‘ حضرت فانی  نے کہا: جی حضور۔حضرت آسی کا حکم ہوا:’’ سناؤ!‘‘۔حضرت فانی نے سنائی تو حضرت آسی نے فرمایا: ’’مولوی شمشاد صاحب نے کیا اصلاح دی؟‘‘۔حضرت فانی نے اپناشعراور اپنے استادمولانا شمشادکی اصلاح پیش کی۔حضرت آسی نے فرمایا:’’تمہارا لفظ بہتر ہے‘‘۔اس کے بعد حضرت فانی کو تشفی ہوئی۔  صاحب دیوان کے طریقۂ اصلاح و استفادہ  پر بصیرت افروز تبصرہ کرتے  ہوئے مقد مہ نگار کہتے ہیں:

’’یہ طریقہ غیر معمولی افادی پہلو رکھتا ہے۔ استاد شفیق مل جائے تو یوں ہی اصلاح لینی چاہیے۔ یہ اکثر کہتے ہیں اور ٹھیک کہتے ہیں کہ ان چار پانچ غزلوں کی اصلاح سے جو نفع مجھ کو حاصل ہو ا،اگر سیکڑوں غزلیں بھیج کر اصلاح  لی جاتی تو نہ ہوتا۔‘‘17

حضرت فانی کادولت کدہ اہل علم وفن کامسکن اور فکرو ادب کا گہوارہ بن چکا تھا۔آپ کے یہاں بڑی تعداد میں اہل علم پہنچتے۔ علمی وادبی مجالس خوب آراستہ ہوتیں اور مشاعرے بھی ہوا کرتے تھے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ مقدمہ جہاں حضرت فانی کی شخصیت اور شاعری کے حوالے سے بیش بہامعلومات فراہم کرتا ہے، وہیں دیگر شعرا و ادبا کے بارے میںبھی گراں قدر مواد فراہم کرتا ہے۔ مثلاً  وسیم  خیر آبادی، ریاض خیر آبادی، بیخود دہلوی، افضل لکھنوی وغیرہ کے بارے میں نادر معلومات موجود ہیں۔ اس مقدمے کی روشنی میں بیخود دہلوی اور فانی گورکھپوری، وسیم خیر آبادی اور فانی گورکھپوری، ریاض خیر آبادی اور فانی گورکھپوری وغیرہ کے عنوانات سے بڑے اچھے مضامین لکھے جاسکتے ہیں اور اس حوالے سے مقدمہ نگار نے بڑی طویل اور تفصیلی گفتگو کرکے قابل قدر مواد مہیا کردیا ہے۔ مقدمے کی روشنی میں معاصر شعرا  و ادبا اوراصحاب علم و دانش میں سے حضرت فانی کے درج ذیل حضرات سے تعلقات و روابط تھے:

 بیخود دہلوی،وسیم خیر آبادی، ریاض خیر آبادی، افضل لکھنوی، احسن مارہروی، اصغر گونڈوی، عزیز لکھنوی، صفدر مرزاپوری، عالم لکھنوی،سیماب اکبر آبادی، وصل بلگرامی، فصاحت لکھنوی،عشرت لکھنوی، ابر قدوائی، ناطق کانپوری، جگر بسوانی، ظریف لکھنوی، ہادی مچھلی شہری، مولاناعبد الباری آسی، برہم فتح پوی، حسرت موہانی، ثاقب لکھنوی،اثر لکھنوی،سائل دہلوی،مجنوں گورکھپوری، ممتاز حسین ایڈیٹر اودھ پنچ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

آپ کے معاصرین آپ کے علم و فن کے مداح اور فضل و کمال کے معترف تھے۔ چنانچہ بیخود دہلوی  سے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے مقدمہ نگار نے لکھا ہے  :

’’حضرت بیخود ان کے یہاں گورکھپور آبھی چکے ہیں۔ تفصیل یہ ہے کہ 1942 میں جگہ جگہ مشاعرے ہو رہے تھے۔ گورکھپور میں بھی ایک معرکہ آرا مشاعرہ طے پایا۔ آخر مارچ یا اول اپریل میں کوئی تاریخ معین ہوئی، جناب حبیب احمد صاحب صدیقی یہاں ڈپٹی کلکٹر تھے۔ انتظام انھیں کا تھا۔ شاہ صاحب سے ان کے خاص مراسم تھے۔انھوں نے شاہ صاحب کو مجبور کیا کہ حضرت بیخود کو بلوایے!صحیفۂ شوق روانہ کیا گیا۔ موصوف آئے۔مصافحے معانقے کے بعد ارشاد فرماتے ہیں :

 ’’گورکھپور کی توکوئی طاقت مجھ کو مجبور نہیں کر سکتی تھی۔ جناب کے حکم نامے کے بعد اگر فرشتۂ اجل بھی تشریف لاتے  تو میں ان سے معذرت کرتا کہ بھائی! مجھے اتنا موقع عنایت فرمائیے کہ جناب شاہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوکر حکم کی تعمیل کرلوں۔ وہاں سے واپسی کے بعد آپ کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہوں۔‘‘18

اسی طرح حکیم برہم فتح پوری بھی ایک  فاضل شخص گزرے ہیں جن کا تذکرہ کرتے ہوئے مقدمہ نگار لکھتے ہیں :

’’اربابِ وطن سے ان کے قدردانوں میں میرے ایک محترم بزرگ خاص شخصیت رکھتے ہیں۔ جناب حکیم برہم مرحوم فتح پوری،ایڈیٹر ’مشرق‘ گورکھپور کی نظر جوہر شناس میں آپ کی بڑی قدرو قیمت تھی۔ ’تحفۂ خوشتر‘ کے ہم زمانہ ’مشرق‘ کی فائل اٹھا کر دیکھیے کہ وہ آپ کے کلام پر کس طرح تبصرہ فرماتے ہیں۔اس وقت کا ’مشرق‘ ادبی حیثیت،ناقدانہ نوٹوں اور ایڈیٹوریلوں کے اعتبار سے معیاری اور مستند اخبار سمجھا جاتا  تھا۔‘‘19

مقدمہ نگار نے اس بات کی مکمل صراحت کی ہے کہ حضرت فانی کی  نغزگوئی، خوش فکری اورکمالِ فنی کا یوں تو ہر شخص ستائش گر تھا، مگر حضرت جگر بسوانی  جو حضرت امیر مینائی کے تلامذہ میں باقیات الصالحات سے ہیں  اور کامل الفن ہیں، یہ آپ کی  بہت زیادہ مدح سرائی فرماتے تھے۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ دیوان فانی ایک ادبی سرمایہ ہے اور اس کامقدمہ صاحب دیوان کے احوال وکوائف اور ان کے علمی  و ادبی آثار پر ایک نہایت مستند اور وقیع دستاویز ہے جو بڑی  قدر واہمیت کی حامل ہے۔ مقدمے کی  اہمیت اورگونا گوں خصوصیات کے پیش نظراس کو کتابی شکل میں بھی مرتب کرکے ضرور شائع کرنا چاہیے تاکہ حضرت فانی کا علمی و ادبی تعارف اصحابِ علم و ادب میں  ہونے کے ساتھ ساتھ خود اثیم خیر آبادی کی یہ بیش قیمت تحریر بھی اہل علم کے مطالعۂ میز کی زینت بنے اور لوگوں کو اس مقدمے کابھی بخوبی علم ہوسکے۔ دیوان فانی تک رسائی ہر ایک کی نہیں ہوسکتی ہے تاہم یہ مقدمہ اگر الگ سے کتابی شکل میں مرتب ہوکر شائع ہوجائے تو نہ صرف اس سے استفادہ آسان ہوگا بلکہ ایک اہم علمی کام بھی انجام پائے گا۔

 حوالہ جات

1       دیوان فانی،ص:26/27،ناشر شاہ عبد العلیم آسی فاؤنڈیشن،نئی دہلی-2019                             2       ایضاص:29

3       تذکرۂ شعراے اترپردیش حصہ سوم،ص:20،از عرفان عباسی 

4       دیوان فانی،دیوان فانی،ص:59،ناشر شاہ عبد العلیم آسی فائونڈیشن، نئی دہلی-2019

5       ایضاًص:75      6       ایضاًص:67

7       ایضاًص:44      8       ایضاًص:43

9       ایضاًص:44     10     ایضاًص:66/67

11     ایضاًص:67      12     ایضاًص:81

13     ایضاًص:122/123      14     ایضاًص:82

15     ایضاًص:77     16     ایضاًص:80

17     ایضاًص:81      18     ایضاً ص:68/69

19     ایضاًص:70

 

Dr. Mohsin Ali

Dept of Persian, Jamia Millia Islamia

New Delhi - 110025





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں