2/8/22

جاں نثار اختر : ایں ہمہ خانہ آفتاب است - مضمون نگار: وسیم فرحت


 


میں بہت ذمے داری کے ساتھ یہ بات عرض کرتا ہوں کہ اردو ادب کی تاریخ میں بجز جاں نثار اخترکسی اور شاعر یا فنکار کے حصے میں اس قدر طویل اور قدیم خاندانی روایت و ورثہ نہیں آیا۔بلکہ خود پدری علمی وراثت کے ساتھ ساتھ سسرالی وارثت بھی بہ یک وقت جاں نثار اختر کو میسر آئی۔انسانی نفسیات کے مطالعے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کسی بھی انسان کی سیرت اور شخصیت کی تشکیل میں اس کا خاندان اہم کردار ادا کرتا ہے۔ہم اور آگے بڑھیں تو پائیں گے کہ انسانی ذہنی ارتقا میں بھی خاندانی پس منظرکا خاصا دخل ہوتا ہے۔جاں نثار اختر وہ خوش بخت فنکار ہیں جنھیں ان کی پیدائش سے ایک صدی قبل کا مکمل اردو و فارسی ادب خاندانی ورثے کے طور پر ملا۔بات صرف یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ خود اپنی زندگی میں بھی شریکِ حیات صفیہ اختر کے وسیلے سے مجاز لکھنوی اور ان سے بھی بہت پہلے یہ سلسلہ صوفی شاعر عثمان ہارونی سے جا ملتا ہے۔

یہاں فی الوقت جاں نثار اختر کے علمی خانوادے پر مجھے گفتگو مقصود ہے۔خیر آباد کا نام سنتے ہی ذہن ریاض خیر آبادی،مضطرخیرآبادی،وسیم خیر آبادی و دیگر کی طرف جاتا ہے۔یوپی کے ضلع سیتا پور کی ایک مردم خیز و ادب خیز بستی خیر آباد ہے۔یہاں کی مٹی سے محض گیہوں ہی نہیں اگتے بلکہ دنیا شاہد ہے کہ اس مٹی نے لعل و گہر بھی بخشے ہیں۔ان ہی جواہرات میں ایک نام جاں نثار اختر بھی ہے جن پر میر انیس کا یہ شعرصادق آتا ہے          ؎

پانچویں پشت ہے شبیر کی مداحی میں

عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں

جاں نثار صاحب کا خانوادہ ’ایں ہمہ خانہ آفتا ب است‘ ہے۔علم و ادب اور تہذیبوں کی نگہداشت اس گھرانے کا وطیرہ رہا۔ذیل میں جاں نثار اخترکے اہلِ علم و فضل بزرگوں اوران کی اولادوں کی تفصیلات درج کی جاتی ہیں۔

میرسید تفضل حسین خان

میر تفضل حسین،جاں نثار اختر کے جدامجد تھے، ٹونک ریاست کی سفیری آپ کے ذمے تھی۔میرزا غالب کے بے حد قریبی دوست رہے۔غالب دہلی کے ساتھ اس دربار سے بھی وابستہ تھے۔ جیسا کہ اس دور کا مزاج تھا، دربار سے منسلک ہر شاعر قصیدہ خوانی سے انعام و اکرام کا متمنی رہا کرتا تھا، لہٰذا غالب بھی اس فیض سے بہرہ ور ہونا چاہتے تھے، بہ ایں ہمہ بقر عید(6 اکتوبر 1851 بروز پیر ) کے موقعے پر میرزا غالب نے والیِ ٹونک نواب وزیر الدولہ بہادر (1834-64) کی شان میں قصیدہ لکھا جو میر تفضل حسین کی معرفت والیِ ٹونک تک پہنچایا گیا۔میر تفضل حسین اور غالب کے درمیان قریبی تعلقات رہے۔ مذکورہ قصیدے کے طفیل جو انعام غالب کو میسر آیا اس کا ذکر غالب نے اپنے خطوط میں کیا ہے۔تاہم محترمہ کشور سلطان صاحبہ کے اس بیان سے میں اتفاق نہیں رکھتا کہ ’انہی (میر تفضل حسین)کے توسط سے میرزا غالب کا دربارِ ٹونک سے تعلق استوار ہوا۔‘کیوں کہ مالک رام کے جس مضمون کا حوالہ کشور صاحبہ نے اپنی کتاب ’جاں نثار اختر۔ حیات و فن‘میں درج کیا ہے اسی مضمون میں مالک رام فرماتے ہیں کہ’’طالع یار خان،غالب کے گہرے دوست تھے،اور میرا خیال ہے کہ دربارِ ٹونک اور غالب کے درمیان جو تعلق قائم ہوا، اس میں بھی ان کا کسی نہ کسی پہلو سے ضرور ہاتھ رہا ہوگا۔‘‘

(مضمون ’ذکرِ غالب‘ مشمولہ رسالہ آجکل دہلی،شمارہ بابت فروری 1963، ص 11)

میر تفضل حسین کے انتقال پر غالب  نے شدید رنج کا اظہار کیا ہے۔میرزا تفتہ کے نام اپنے خط مورخہ 23 فروری 1854 میں غالب رقمطراز ہیں:

’’ہائے ہائے میر تفضل حسین خاں ہائے ہائے۔ رفتی و مرا خبر نہ کردی۔ بر بیکسم نظر نہ کردی۔یہاں یہ سنا گیا ہے کہ میر احمد حسین،بڑا بیٹا ان کا،ان کے کام پر مقرر ہوا اور میرارشاد حسین بدستور نائب رہے۔‘‘

(اردوئے معلی،مطبوعہ اکمل المطابع،دہلی،مطبوعہ ص59)

حافظ سید احمد حسین رسوا

میر سید تفضل حسین کے فرزند حافظ سید احمد حسین شاعری کے علاوہ قران کے حافظ تھے۔فارسی زبان پر عبور رکھتے تھے۔فضل حق خیر آبادی کے داماد تھے۔فضل حق خیرآبادی کی شہرت عالم گیر ہے۔آزادی کی لڑائی میں کالے پانی کی سزا،غالب کے دیوان کی تدوین وغیرہ امور فضل حق سے منسوب ہیں۔میر سید تفضل حسین کے انتقال کے بعد حافظ سید احمد رسوا دربارِ ٹونک سے وابستہ ہوگئے۔ان کی اہلیہ حرماں اعلیٰ پایے کی شاعرہ تھیں۔

  حِرماں

سید النسا حرماں،مولانا فضل حق خیر آبادی کی بیٹی اور حافظ سید احمد حسین کی اہلیہ تھیں۔شعر کہنے کی خداداد صلاحیتیں رکھتی تھیں۔ان کے دونوں بیٹے بسمل خیر آبادی اور مضطر خیر آبادی،اپنے وقت کے بے حد مشہور فن کار ثابت ہوئے۔ان کا مندرجہ ذیل شعر بہت مشہور ہے          ؎

دردِ دل،دردِ جگر،کاوشِ دل،کاہشِ جاں

اتنے آزار ہیں اور ایک کلیجہ میرا

حافظ سید محمد حسین بسمل

مولانا فضل حق کے نواسے،حافظ سید احمد حسین رسوا  اور حرماں کے بڑے فرزند، حافظ سید محمد حسین والیِ ٹونک امین الدولہ نواب محمد ابراہیم علی خان خلیل کے میر منشی تھے۔اردو ادب میں بسمل خیر آبادی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔’ملک الشعرا‘،’لسان الملک‘ کے خطابات سے نوازے گئے۔میرزا غالب کے شاگرد تھے۔بسمل 1857 سے چند سال قبل خیر آباد میں پیدا ہوئے۔1857 کا غدر اور علامہ فضلِ حق کے خاندان کی عملی شرکت۔لہٰذا جنگِ آزادی کی پاداش میں ان کی تمام جائداد حکومت نے ضبط کر لی۔یہ سچائی بھی اہلِ وطن کے نزدیک سورج سی عیاں ہے کہ علامہ فضلِ حق کو دی گئی کالے پانی کی سزاعلامہ کے نزدیک ملک کی آزادی کا اولین خراج رہا۔بسمل اپنی سوتیلی ماں کے پاس دہلی چلے گئے۔انھوں نے بسمل کو تحصیلِ علم کے لیے میرزا غالب کے سپرد کردیا۔اس کی تفصیل امجد سندیلوی نے اپنی کتاب ’احوالِ غالب ‘ میں درج کی ہے۔غالب کی وفات کے بعد بسمل امیر مینائی سے اصلاح لینے لگے۔بسمل لکھتے ہیں کہ ’میں ایک فقیر کا پوتا، ایک فقیر کا بیٹا اور ایک فقیر کا بھائی ہوں۔‘(ماخوذ از مضمون ’مضطر خیر آبادی‘ از جاںنثار اختر مشمولہ کتاب ’شاہکار‘ مرتبہ وسیم فرحت مطبوعہ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی 2020 ص 128) خواجہ معین الدین چشتی سے بسمل کو گہری عقیدت تھی لہٰذا آخری عمر میں ملازمت ترک کر کے آپ نے اجمیر شریف میں سکونت اختیار کی۔1900 میں اجمیر ہی میں آپ کا انتقال ہوا اور وہیں دفن بھی ہوئے۔انہی کے چھوٹے بھائی سید افتخار حسین رضوی بہ متخلص مضطر خیر آبادی، جاں نثار اختر کے والد ہیں۔

سید محمد افتخار حسین رضوی مضطر

افتخار الشعرا، اعتبارالملک، اقتدار جنگ،خان بہادر سید محمد افتخار حسین رضوی مضطر خیر آبادی 1875 میں خیر آباد میں پیدا ہوئے۔مولانا فضل حق کے نواسے،حافظ سید احمد حسین رسوا  اور حرماں کے چھوٹے فرزنداورامیر مینائی کے شاگرد تھے۔نواب ٹونک کی ماتحتی میں اودے پور کے وکیل دربار عہدے پر فائز تھے۔بسمل خیر آبادی کی وفات کے بعد والیِ ٹونک کے مشیرِ سخن ہوئے۔ٹونک کے سول جج کا عہدہ بھی سنبھالا۔1904 میں ریاستِ گوالیارسے وابستہ ہوئے۔گوالیار دربار کے وکیل،پھر گوالیار کے ضلعی جج اور بعد میں شیو پوری کے جج کی ذمے داریاں نبھائیں۔ عدالتِ دیوانی و فوجداری میں جج کے عہدے پر کام کرتے ہوئے اسی رعایت سے مضطر نے خوب شعر کہا ہے         ؎

نہ گیا کارگزاری میں بھی وحشت کا خیال

جس عدالت کا میں ناظم ہوں وہ دیوانی ہے

مضطر کی والدہ سید النسا حرماں دانشوران کے خاندان سے تھیں اور کمال کا علم رکھتی تھی۔فنِ شعر اور عروض پر حرماں کو بلا کی قدرت حاصل تھی۔مضطر نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنی والدہ سے مکمل کی بلکہ ابتدائے سخن کے زمانے میں اصلاح بھی والدہ سے ہی لی۔بعد کو اپنے بڑے بھائی اور شاگردِ غالب و امیر محمد حسین بسمل سے مشورئہ سخن کرتے رہے۔ہر چند کہ دونوں بھائیوں کی افتادِ طبع میں بڑا فرق رہا۔بسمل عارفانہ اور سوز و گداز والی شاعری کے قائل تھے اور مضطر معاملہ بندی کے گرفتار۔لہٰذایہ سلسلہ زیادہ دن نہ چل سکا اور پھر مضطر بھی اپنے بھائی کی طرز پر امیر مینائی سے اصلاح لینے لگے۔مضطر کی طبیعت ہمیشہ رواں دواں رہتی تھی۔بلکہ مکمل اردو شاعری میں دو واقعہ میں نے کہیں اور نہیں دیکھے۔اول مضطر نے اپنی عدالت کے کئی مقدمات کے فیصلے منظوم کرڈالے۔دوم سیماب اکبر آبادی نے بھی ’شاعر‘ کا ایک مکمل شمارہ مع اشتہارات منظوم کردیا تھا۔بدیہہ گوئی میں مضطر کا یہ عالم تھا کہ جاںنثار اخترنے اپنے مضمون ’مضطر خیرآبادی‘ میں ایک واقعہ درج کیا ہے۔ ’ایک مرتبہ دربار میں مشاعرہ تھا۔مضطر حسبِ معمول دربار میں حاضر ہوئے۔مشاعرہ کا خیال نہ تھا لہٰذا غزل نہ لاسکے تھے۔چونکہ نواب کے استاد تھے لہٰذا اصرار ہوا کہ پہلی غزل استاد پڑھیں گے۔مضطر آداب بجا لاتے ہوئے کھڑے ہوئے اور جیب سے ایک کاغذ کا ٹکڑا نکالا اور غزل پڑھنی شروع کردی۔ہر شعر پر داد و تحسین ملتی رہی۔ نواب صاحب نے غزل طلب کی، لہٰذا وہی سادہ کاغذ پیش کردیا اورواقعہ سنایا کہ میں نے مکمل غزل فی البدیہہ کہہ ڈالی۔اس پر نواب بہت خوش ہوئے۔‘‘

(ماخوذ از مضمون ’مضطر خیر آبادی‘ از جاںنثار اختر مشمولہ کتاب ’شاہکار‘ مرتبہ وسیم فرحت،محولہ بالا، ص 129)

جاں نثار اختر نے متذکرہ مضمون میں مضطر کے متعلق کئی ایک دلچسپ واقعات درج کیے ہیں جن کا یہاں محل نہیں۔ابھی چند سال قبل جاوید اختر صاحب نے مضطر کا کلیات بہ عنوان ’خرمن‘ شائع کیا ہے۔اردو کے عوامی بول چال میں بروئے کار لاجانے والے جتنے اشعار مضطر کے ہیں شاید ہی کسی اور شاعر کے حصے میں یہ بات آئی ہو۔ مضطر نے ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ بالخصوص ہندی زبان پر انھیں بڑی قدرت حاصل تھی۔اور اسی کی خوبو جاں نثار اختر میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ 31مارچ 1937 کو انتقال کیا۔

نشتر  خیر آبادی

مضطرکی پہلی بیوی سے دو بیٹے تھے جن میں سید اعتبار حسین برتر اور سید یادگار حسین نشتر شامل ہیں۔برتر کے متعلق بہ تلاشِ بسیار مجھے معلومات نہ مل سکی۔جاوید اختر صاحب کی اطلاعات کے مطابق نشتر ایک کوآپریٹیو بینک میں سپروائزر کے عہدے پر فائز تھے۔خون کی خرابی کے عارضے سے 1968 میں انتقال ہوا۔ان کے پسماندگان علی گڑھ میں بستے ہیں۔رئیس احمد وارثی نشتر کے شاگرد رہے،جن کے پاس ان کا کچھ کلام جمع ہے۔

اخترِ تابندہ‘جاں نثار اختر :

میانہ قد،گندمی رنگ،کشادہ پیشانی،خمار آلود پلکیں،سلگتی ہوئی چمک دار آنکھیں،سُتواں لمبی ناک،پتلے پتلے ہونٹ،نکلتی ہوئی ٹھڈی،کنگھے کی آرائش سے بے نیاز کانوں پر بکھرے ہوئے لمبے لمبے بال،نگاہوں میں درد مندی، ہونٹوں پر مسکراہٹ، چہرے پر معصومیت اور بھولپن، مزاج میں سادگی، طبیعت میں نزاکت و نفاست، فطرت میں قلندری، عادتوں میں لاپرواہی، باتوں میں بے تکلفی، گفتگو میں شگفتگی،اندازِ بیان میں شائستگی،آواز میں نرمی، لب و لہجہ میں گھلاوٹ اور لوچ،بات چیت کے دوران بار بار انگلیوں سے زلفوں کو سنوارنے کی خاص ادا،چال ڈھال میں بے پروائی و بے نیازی، لباس میں قناعت پسندی، کُرتا اور چوڑی موہری کا سفید پاجامہ،کبھی کبھی کھلے بٹنوں کی نہرو کٹ واسکوٹ،پاؤں میں چپل، تعلقات میں رکھ رکھائو اور میانہ روی،بڑوں کے ساتھ عزت و احترام کا رویہ، ہم عمروں کے ساتھ بے تکلفی وخوش مذاقی،چھوٹوں کے ساتھ شفقت و محبت،ایک شفیق بزرگ،مخلص دوست ہمدرد ساتھی،شگفتہ طبیعت،بامروت اور ملنسار انسان، یہ تھے جاں نثار اختر۔‘آفاق حسین صدیقی نے جاں نثار اختر پر لکھی کتاب’جاں نثار اختر۔ شخص و شاعر‘ میں یہ خوبصورت نقشہ کھینچا ہے۔

جاں نثار اختر کاخاندانی نام سید جاں نثار حسین اختر ہے۔ ان کی ولادت 18 فروری 1914 کو گوالیار میں ہوئی جہاں ان کے والد مضطر بر سرِ روزگار تھے۔جاں نثار اختر کی ابتدائی تعلیم گوالیار میں ہوئی۔وکٹوریہ ہائی اسکول سے میٹرک کا امتحان سیکنڈ ڈویژن میں پاس کیا۔1934 میں علی گڑھ کالج سے سائنس میں انٹر پاس کیا اور انگریزی و اردو ادب کے مضامین لے کر 1937 میں بی اے آنرز کی سند حاصل کی۔1939 میں ایم اے اردو فرسٹ ڈویژن میں کامیاب کیا۔’اردو ناول اور اس کا ارتقا‘ اس عنوان پر پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ لکھنا شروع کیا لیکن اسی اثنا میں وکٹوریہ کالج گوالیار میں لیکچرر کے عہدے پر ان کا تقرر عمل میں آیا۔علی گڑھ کی پر کیف فضا نے جاں نثار اختر پر گہرے اثرات قائم کیے۔علی گڑھ میگزین کی ادارت مجاز لکھنوی سنبھالے ہوئے تھے لیکن ان کی دہلی ملازمت کے بعد یہ ذمہ جاں نثار اختر کو سونپا گیا جو اپنے آپ میں ایک اعزاز تھا۔علی گڑھ میں جاں نثار اختر کی مقبولیت کا اندازہ اس واقعے سے بھی لگایا جاسکتا ہے جو کشور سلطان صاحبہ نے اپنی کتاب میں درج کیا ہے۔فرماتی ہیں،’جاں نثار اختر کے دورانِ تعلیم علی گڑھ کے ایک مشاعرے میں دیگر شعرا کے علاوہ جگر مرادآبادی نے بھی شرکت کی تھی اس زمانے میں جگر کی شہرت عروج پر تھی۔اور کسی مشاعرے میں جگر کی موجودگی میں کسی دوسرے شاعر کا کامیاب ہونا نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور تھا،لیکن اس مشاعرے میں ایک عجیب انہونی ہوئی۔جب جگر صاحب اپنا کلام سنا چکے تو مشاعرہ ختم ہونے کا اعلان ہوا۔لیکن طلبہ نے اصرار کیا کہ جاں نثار اختر اپنی مشہور نظم’گرلس کالج کی لاری‘ سنائیں۔ اختر نے نظم شروع کی۔ ابھی کچھ بند ہوئے تھے کہ وہاں کے اوپری حصے سے جہاں طالبات اور خواتین فروکش تھیں، کسی خاتون پروفیسر نے اختر کو نظم پڑھنے سے روکا۔ اختر بڑی سعادت مندی سے واپس اپنی جگہ آکر بیٹھ گئے۔لیکن لڑکوں نے اپنے غوغائے محشر خیز سے ہال سر پر اٹھا لیا۔ایسے موقع پر لڑکوں کو کنٹرول کرنے کے خیال سے جگر صاحب سے استدعا کی گئی کہ وہ کوئی غزل سنائیں۔ جگر صاحب نے غزل شروع کی۔لڑکوں نے ایک شعر خاموشی سے سننے کے بعد پھر طوفان اٹھایا۔ان کی ضد تھی کہ جاں نثار کو نظم پڑھنے دی جائے۔جگر صاحب کو مایوس ہو کر لوٹنا پڑا اور پروگرام ختم کردیا گیا۔اس واقعے سے بھی جاں نثار اختر کی شاعرانہ مقبولیت کا پتہ چلتا ہے۔‘‘

(جاں نثار اختر: حیات و فن از ڈاکٹر کشور سلطان، محولہ بالا، ص 68)

1940 میں جاں نثار اختر گوالیار وکٹوریہ کالج میں اردو کے استاد مقرر ہوگئے، اسی دوران 25 دسمبر 1943 کو ہندوستان کا مایۂ ناز شاعر ایک بلند قامت خاتون صفیہ سراج الحق سے رشتۂ ازدواج میں بندھ گیا۔یہی صفیہ سراج الحق اردو ادب میں صفیہ اختر کے نام سے مشہور ہوئیں۔

صفیہ اختر

صفیہ اختر یا صفیہ سراج الحق ممتاز ترقی پسند شاعر مجاز لکھنوی کی ہمشیرہ تھیں۔ 25 جنوری 1918 کو ضلع بارہ بنکی کی مشہور بستی ردولی میں آپ کی پیدائش ہوئی۔صفیہ کے والد چودھری سراج الحق ملازمت کے بعد لکھنؤ منتقل ہوگئے لہٰذا صفیہ کا بچپن لکھنؤ کی ادب سے مالا مال فضامیں گزرا۔بلا کی ذہانت رکھنے والی صفیہ نے علی گڑھ سے تمام ہی امتحانات نمایاں نمبرات سے کامیاب کیے۔اور وہیں مسلم گرلز کالج میں اقتصادیات کی لکچرر ہوگئیں۔جاں نثار اخترکی صفیہ سے ملاقات یہیں ہوئی تھی۔شادی کے بعد صفیہ علی گڑھ میں اور جاں نثار اختر گوالیار میں۔بقول آفاق حسین صدیقی 3 سال دس ماہ تک یہ دونوں کبھی علی گڑھ میں،کبھی لکھنؤ میں اور کبھی گوالیار میں تعطیلات میں ملتے رہے اور اسی ملنے بچھڑنے سے محظوظ ہوتے رہے۔ اسی دوران جناب جاوید اختر اور جناب سلمان اختر کی لکھنؤ میں پیدائش ہوئی۔

1947 میں تقسیمِ ہند کے بعد گوالیار کے حالات خراب تر ہوگئے اور فرقہ وارانہ کشیدگی کی وجہ سے جاں نثار اختر ستمبر 1947 کے تیسرے ہفتے میں بھوپال آگئے۔چند ماہ بعد صفیہ بھی علی گڑھ کی ملازمت ترک کرکے بھوپال آگئیں۔ چند مہینوں میں ہی جاں نثار اختر کو حمیدیہ کالج بھوپال میں صدر شعبۂ اردو کی ملازمت مل گئی۔ اس کے بعد صفیہ اختر بھی اسی اردو شعبے میں درس و تدریس کرنے لگیں۔لیکن جاں نثار اختر کی گر دنواحی ابھی رکی نہیں تھی۔ 1949 میں بھوپال کا انضمام واقع ہوا اور حکومت ترقی پسندوں کے خلاف ہوگئی۔لہٰذا پھر جاں نثار اختر کو با دل نخواستہ بھوپال چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا۔وہ 19 دسمبر 1949  کو بمبئی کے لیے روانہ ہوگئے۔صفیہ اختر چھوٹے بیٹے سلمان کے ساتھ بھوپال میں تھیں،جاوید اختر لکھنؤ میں اور بے سر وساماں جاں نثار اختر بمبئی میں۔اس آئے دن کی کشاکش نے صفیہ کی صحت پر برا اثر ڈالا۔صفیہ رفتہ رفتہ اپنی غیر متعینہ موت کی جانب بڑھتی چلی گئیں۔ 17؍ جنوری 1953 کو صفیہ نے اس جہانِ فانی کو الوادع کہا۔ ایک وفا شعار بیوی اور ایک لاچار و عالمِ کس مپرسی کا شکار خاوند۔ وہ تمام لازوال خطوط جو ’زیرِ لب‘ اور ’حرف آشنا‘ میں آراستہ ہیں، اسی دورانیہ کی دین ہیں جن میں جذباتِ صائب کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا طوفان نظر آتا ہے۔ القصہ مختصر کہ صفیہ اختر خلاق طبیعت کی خاتون رہیں۔ ’حرف آشنا‘ اور ’زیرِ لب‘ ان خطوط کے مجموعوں کے علاوہ ’اندازِ نظر‘ کے عنوان سے ایک تنقیدی مضامین کا مجموعہ بھی شائع ہوا جس کی تقریظ باقر مہدی جیسے سخت نقاد نے لکھی اور کھلے طور پر صفیہ کی تنقیدی قوت کا اظہار کیا۔

خدیجہ اختر

خدیجہ اختر یا خدیجہ ہارون کی پیدائش 24 اکتوبر 1930 کو بھوپال کے ایک علمی خانوداے میں ہوئی۔ان کے والد ہارون میاں مفتی و عالم تھے۔بجائے خود خدیجہ بھی اردو ادب کا ستھرا ذوق رکھتی تھیں۔لہٰذا ان ہی خاتون کے وسیلے سے جاں نثار اخترنے اپنی دو شاہکار نظمیں ادب کو عطا کی ہیں۔ اول ’تمہارے شہر میں‘ اور دوم’ خدیجہ کے نام‘۔ خدیجہ اختر نے جاں نثار اختر کے آخری لمحے تک ساتھ نبھایا۔جاں نثار اختر کا شعری مجموعہ ’گھر آنگن‘ کا انتساب بھی خدیجہ اختر سے کیا گیا ہے۔کشور سلطان لکھتی ہیں کہ ’خدیجہ ہارون کی پہلی شادی شمس اللطیف نامی بھوپال کے مشہور ہاکی کھلاڑی سے ہوچکی تھی جو پاکستان چلے گئے تھے او راسی بنا  پر خدیجہ نے ان سے عدالت سے طلاق لے لیا۔ لہٰذا 17 ستمبر 1956 کو خدیجہ ہارون اور جاں نثار اختر کی شادی ہوئی۔غرض کہ جاںنثار اخترکی ازدواجی زندگی صفیہ اختر کے ساتھ 9 سال ایک ماہ اور خدیجہ اختر کے ساتھ 24 سال چھ ماہ کے عرصے پر محیط ہے۔صفیہ اختر سے جاںنثار اختر کی اولادوں میں جاوید اختر اور سلمان اختر ہیں، خدیجہ اختر سے شاہد اختر، عنیزہ اختر اور البینا اختر ہیں۔

چلیے اب جاںنثار اختر کے پسماندگان کا بھی مختصر تعارف پیش کروں۔

جاوید اختر:

17 جنوری1945، لکھنؤمیں آپ کی پیدائش ہوئی۔ سنیما میں کہانی کار کی حیثیت سے ابتدا کی اور بتدریج نغمہ نگاری تک پہنچ گئے۔فی زمانہ ہندوستانی سنیما کے سب سے اچھے اور سب سے مہنگے گیت کار کے طور پر انھیں جانا جاتا ہے۔بلا کا مطالعہ رکھتے ہیں۔اردوزبان و ادب کے مزاج سے خوب واقف ہیں۔لہٰذا ان کے نغمات میں اردو زبان کی چاشنی جابہ جا نظرآتی ہے۔ نثر نگار ہوتے ہوتے شاعری شروع کی اور اپنے فطری شاعر ہونے کا لوہا منوا لیا۔ موصوف کے تا حال دو شعری مجموعے بہ عنوان ’ترکش (1995)‘ اور ’لاوا‘(2011) منظرِ عام پر آچکے ہیں۔ ’ترکش‘ کا دیباچہ قرۃ العین حیدر نے تحریر فرمایا تھا۔ جاوید صاحب اردو ادب کے قدیم سرمایے پر گہری نظر رکھتے ہیں۔اردو فارسی کے ہزار ہا اشعار ازبر ہیں اور ان کے برملا استعمال پر آپ قادر ہیں۔انگریزی ادب پر بھی باریک نظر ہے۔ 1972 میں آپ نے فلمی اداکارہ ہنی ایرانی سے شادی کی لیکن یہ رشتہ 1984 تک ہی چل سکا۔ ہنی ایرانی سے دواولادیں زویا اختر، فرحان اختر ہیں یہ دونوں بھی ہندوستانی سنیما سے جڑے ہیں۔ آگے جاوید اختر کیفی اعظمی کی بیٹی شبانہ اعظمی سے رشتہئ ازدواج میں جڑ گئے۔جاوید اختر کا ادبی سفر تاحال جاری ہے۔

سلمان اختر

سلمان اختر عرف اویس 31جولائی 1946 کو لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم لکھنو اور علی گڑھ سے حاصل کی۔ بعد از آں چندی گڑھ سے ڈاکٹری تعلیم مکمل کی۔ 1972 میں آپ امریکہ چلے گئے جہاں آپ میڈیکل کالج میں درس و تدریس کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ تاحال آپ کے اردو و انگریزی کی 13 کتابیں شائع ہوچکی ہیں جن میں سب سے اہم ان کا اولین شعری مجموعہ ’کو بہ کو‘ ہے۔ اہم اس لیے بھی کہ اس شعری مجموعہ کا پیش لفظ خود ان کے والد جاں نثار اخترنے بڑے فخر کے ساتھ تحریر فرمایا تھا۔ نئی آواز پبلی کیشنز،دہلی سے نومبر 1976 میں یہ مجموعہ شائع ہوا جس کے پانچ سال بعد جاں نثار اختر اس دنیا سے چل بسے۔

سلمان اختر صاحب کے وہ اشعار جو جاں نثار اختر نے اپنے پیش لفظ میں یہ کہتے ہوئے درج کیے تھے کہ ’چند شعر اس کے ضرور سنانا چاہتا ہوں جن پر مجھے رشک آتا ہے کہ یہ میں نے کہے ہوتے،‘ تبرکاً یہاں پیش کیے جاتے ہیں            ؎

ہم بہت دن جیے ہیں دنیا میں

ہم سے پوچھو کہ خود کشی کیا ہے

کھڑکیاں دیر سے کھولیں یہ بڑی بھول ہوئی

میں یہ سمجھا تھا کہ باہر بھی اندھیرا ہوگا

زندگی ہے وہ کش مکش جس میں

خود سے ہارے تو سب سے ہار گئے

سلمان اختر مع اپنی دو اولادوں، کبیر اختر اور نشاط اختر امریکہ میں مقیم ہیں۔

شاہد اختر

خدیجہ اخترصاحبہ سے پہلی اولاد شاہد اختر ہیں۔آپ کی پیدائش بھوپال میں ہوئی۔ فی الوقت بمبئی میں ملازمت کرتے ہیں۔ ڈاکٹر لتا اختر شریکِ حیات ہیں۔ اکلوتی اولاد شنیزی اختر ہیں۔بڑے زندہ دل آدمی ہیں۔

عنیزہ اختر

جاں نثار اختر صاحب کی پہلی بیٹی۔لاڈلی بیٹی۔یہ وہی بیٹی ہے جس پر جاں نثار اختر نے اپنی لافانی اور طویل نظم’آخری لمحہ‘ لکھی تھی۔چند شعر ملاحظہ فرمائیں،

تم مری زندگی میں آئی ہو

میرا اک پاؤں جب رکاب میں ہے

دل کی دھڑکن ہے ڈوبنے کے قریب

سانس ہر لحظہ پیچ و تاب میں ہے

ٹوٹتے بے خروش تاروں کی

آخری کپکپی رباب میں ہے

کوئی منزل نہ جادئہ منزل

راستہ گم کسی سراب میں ہے

تم کو چاہا کیا خیالوں میں

تم کو پایا بھی جیسے خواب میں ہے

تم مری زندگی میں آئی ہو

میرا اک پاؤں جب رکاب میں ہے

عنیزہ اختر کی پیدائش بھوپال میں ہوئی۔اپنے شوہرسلمان انصاری کے ساتھ شکاگو میں ملازمت کرتی ہیں۔ اولادوں میں ایمن او ر احمد ہیں۔

البینا اختر

جاں نثار صاحب کی دوسری بیٹی جنھیں گھر میں فینی کے نام سے پکارا جاتا ہے۔آپ کی پیدائش بمبئی میں ہوئی۔فینی صاحبہ گھریلو خاتون ہوکر اپنے خاوند اشوک شرما جی اور بیٹے ابیر کے ساتھ بمبئی میں مقیم ہیں۔



Waseem Farhat (Alig)

Editor : Sah Mahi 'Urdu'

'Adabistan' Near Wahed Khan

Urdu, D, Ed, College, Walgaon Road

Amrawati  - 444601 (MS)

Mob.: 9370222321

 




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں