2/8/22

سمری بختیارپور کا علمی، ادبی منظرنامہ - مضمون نگار : محمد خوشتر

 



سہرسہ ضلع، بہار کے 39 ضلع میں سے ایک ہے۔ سہرسہ شہر،ضلع سہرسہ کا انتظامیہ ہیڈ کوارٹر بھی ہے۔ کوسی ڈیویزن کا ایک حصہ اور کوسی کمشنری کا ہیڈ کوارٹر بھی ہے۔ اسے ۱/اپریل 1954 کو ضلع بنایاگیاتھا۔ سہرسہ سے ایک ضلع 1981 میں مدھے پورہ نام سے بنایا گیا۔ سہرسہ پہلے لوک سبھا حلقہ ہواکرتاتھامگر اب یہ سوپول،مدھے پورہ اور کھگڑیا لوک سبھا حلقے میں تقسیم ہوگیا ہے۔

سمری بختیار پور کی جانی مانی شخصیت، مشہورو معروف سیاسی قائد اور زمیندارنواب چودھری محبوب علی قیصر صاحب ہیں، ان کے والد چودھری صلاح الدین حکومت بہار میں وزارت کی ذمے داری بھی نبھا چکے ہیں، 90 کی دہائی میں چودھری محمدصلاح الدین مالک حقیقی سے جاملے۔

سمری بختیار پور علاقے کی اہم اور معتبر شخصیت جو اپنے آپ میں انجمن تھی اور ہرکوئی انھیںاپنا رہبر و رہنما تسلیم کرتاتھا۔90 کی دہائی سے قبل جتنے بھی مسلم پڑھے لکھے ہیں سب کسی نہ کسی طرح ان کے شاگر د ہی رہے ہیں اور ان کا علاقے پر احسان عظیم بھی ہے اگر ایسی شخصیت کا تذکرہ نہ کیاجائے توتعارف سمری بختیار پور بالکل ادھو را رہ جائے گا۔میری مراد حافظ وقاری مفتی عبدالرشید صاحب قبلہ چھپراوی سے ہے۔مفتی صاحب نے تقریبا چالیس سال تک مدرسہ انوارلعلوم قادریہ سربیلہ میں دینی وعلمی اور فتاویٰ نویسی کی اہم ذمے داری نبھائی ہے۔

علاقے کے یہ چند گاؤں علمی، ادبی اورقومی ومذہبی خدمات کے لیے سہرسا ضلع میں بڑی شہرت رکھتے ہیں مخدوم چک (سمستی پور) اور اشرف چک (میاںچک) چکنی، بھادا، سمری، بھٹونی، لگماں، تریانواں، نصرت چکلہ، بھٹپورہ، پہاڑپور، رنگینیاں، سمستی پور، بتھناہی، کلتوا، ہتھمنڈل، اینٹہری،کسمہی،قاسم پور، ٹولوا، پہلام، لچھمنیاں، گھوڑدوڑ، پورینی، مبارکپور، گورگانواں، پھنساہا،منگل ٹولہ، ہریوا، کھجراہا، سونپورہ،کھموتی اورسمری بختیارپور ہیں۔

سمری بختیار پورعلاقے کے علما اپنی علمی و فکری صلاحیتوں سے بڑے بڑے اداروں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ دیوبندسے تعلق رکھنے والے علما دارالعلوم دیوبند، مظاہرالعلوم، سبیل السلام، المعہدالعالی، دارالعلوم حیدرآباد اورامارت شرعیہ، پھلواری شریف پٹنہ میں اپنے علم وفکر، درس وتدریس سے طلبا کو پروان چڑھا رہے ہیں تو بہت سے اہل علم علمائ اخبارات ورسائل سے منسلک ہوکر مضامین بھی لکھ رہے ہیں۔مثال کے طور پر مفتی شاہد قاسمی( بھٹونی)، مولوی نثار احمد حصیر القاسمی (مبارکپور) اور ظفر سعیدی(مبارکپور)نوشاد نوری بھٹپورہ، ڈاکٹر شمشاد قاسمی رنگینیاں کا نام لیا جا سکتا ہے۔ 

بہت سے علما کی اپنی علمی فکری تدریسی اور انتظامی صلاحیتوں سے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں دینی فرائض کی اہم ذمے داری کو بحسن وخوبی انجام دے رہے ہیں۔ الحاج مولانا ممتاز احمد اشرفی مصباحی جامعہ شمس العلوم گھوسی مئواتر پردیش میں پرنسپل کے عہدے پر فائز ہیں۔ ’مصافحہ ومعانقہ کی شرعی حیثیت‘،’ مسلم معاشرہ اور جہیز کی تباہ کاریاں‘ آپ کی تحریر کردہ کتابیں ہیں۔مولانا مفتی فی الحال شیخ احمد کھٹو احمدآباد،گجرات میں شیخ الحدیث کے فرائض انجام دے رہیں۔مفتی شبیر احمد اشرفی مصباحی (اینٹہری) مفتیِ اعظم گجرات کے عہدے پر فائزہیں۔ آپ شیخ احمد کھٹوکے ناظم ومہتمم کے ساتھ ہی ساتھ شاہی جامع مسجد احمدآباد کے امام وخطیب بھی ہیں۔مولانا طبیب الدین اشرفی مصباحی مرحوم ’سیرت اشرفی ‘اور’ شرح ماقال الاشرف‘ کے علاوہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ تفسیر میں اچھی دسترس رکھتے تھے، اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔مفتی شمشاد مصباحی اینٹہری سے تعلق رکھتے ہیں کئی کتابوں کے مصنف ہیں مدھیہ پردیش میں اپنی صلاحیت کے جواہر لٹارہے ہیں۔ کھجراہا سے تعلق رکھنے والے مولاناداؤد حسین اشرفی مصباحی مرحوم دارالعلوم عمادیہ منگل تالاب پٹنہ سٹی میں شیخ الحدیث اورصدرالمدرسین کے عہدے پر فائز تھے۔ مولانانورعالم نور مصبا حی کا تعلق گھوڑدوڑ گائوں سے ہے اور فی الحال امبیکاپور چھتیس گڑھ میں علمی ودینی فرائض بحسن و خوبی انجام دے رہے ہیں،اس سے قبل جھارکھنڈ اور گجرات کی سرزمین پر بھی انھوں نے اپنے علم سے لوگوں فیضیاب کیاتھا۔ حسن اتفاق کہ شاعری سے بھی شغف رکھتے ہیں اور نورتخلص ہے آئیے ان کی شاعری کے بھی نمونوں کا جائزہ لیتے ہیں اور قلب و وجدان سے محسوس بھی کرتے ہیں۔ نورنے نظمیں بھی لکھی ہیں اور نعت و حمد اور منقبت بھی            ؎

اگر مدینے میں پڑجائیں کچھ قدم مخصوص

تو سمجھو تیرے لیے ہوگیا ارم مخصوص

تم اپنے سجدوں کو آوارہ اب نہ ہونے دو

قیام وقعدہ کی خاطر ہوا حرم مخصوص

میں جس سے نعت حبیب خدا فقط لکھوں

مجھے بھی دے میرے معبود وہ قلم مخصوص

نبی کی نظر عنایت جو نور ہو جائے

تو ہوگا تو بھی زمانے میں محترم مخصوص

نور عالم نور مصباحی کے صاحبزادے رضاعالم بھی شاعری کا ذوق رکھتے ہیںور اصلاح خود والد محترم سے لیتے ہیں،رضاکی ابتدائی شاعری کا نمونہ آپ بھی ملاحظہ کریں      ؎

ہرعاشق احمد کے لب پہ یہ ترانہ ہے

اک میں ہی نہیں ان پر قربان زمانہ ہے

مولاناخورشید عالم مصباحی صوفی منش آدمی ہیں ادری میں باباسے شہرت رکھتے ہیں، ضیاالعلوم ادری مئواترپردیش میں گزشتہ تیس سال سے طلبا کو مستفید کر رہے ہیں،ان کاگورگانواں سے تعلق ہے۔ مولاناا بوسفیان مصباحی صاحب دارالعلوم غریب نواز الہ آباد کے پرنسپل تھے منطق وفلسفہ پرعبوررکھتے ہیں،ہزاروں کی تعداد میں شاگرد ہیں۔ ان کی کوئی بھی تصنیف منظر عام پر نہیں آئی ہے، 27 رمضان المبارک 1442ھ کو ان کا حرکت قلب بند ہوجانے کی وجہ سے اچانک انتقال بھی ہوگیا تھا۔مولانا عبدالمصور صاحب مصباحی مدرسہ رؤفیہ دھام نگر اڑیسہ کے صدر المدرسین ہیں، آپ کو عربی خدمات کے صلہ میں صدر جمہوریہ ایوارڈ سے نوزا جا چکا ہے، اڑیسہ کے علمی وادبی اور دینی لوگوں میں اپنی انتظامی اور اصلاحی شخصیت کے ساتھ پہچانے جاتے ہیں اور وہ لوگ آپ کو بڑے مولوی صاحب کے لقب سے پکارتے ہیں۔مفتی حسیب الدین قادری علمی و تقریری صلاحیتوں کی وجہ سے اپنی شہرت آپ رکھتے ہیں۔ وہ شاعر بھی تھے ان کا کلام کا کوئی دیوان اب تک شائع نہیں ہوسکاہے۔ نمونتاً ان کی ایک نعت پیش خدمت ہے      ؎

کوئی کاش جا کہ کہہ دے سالار کارواں سے

تیری یاد میں تڑپتا کوئی جا رہا ہے جاں سے

کوئی کاش جاکے کہتا رورو کے عرض کرتا

میری دکھ بھری کہانی طیبہ کے مہرباں سے

بیمار عشق ہوں میں میری دوا یہی ہے

کچھ خاک لاکے دے دو طیبہ کے آستاں سے

کوئی کاش آکے کہتا لو آگیا بلاوا

تیرا اے حسیب عاصی آقا کے آستاں سے

مفتی قاسم مصباحی،مفتیِ اعظم اڑیسہ کے لقب سے ملقب ہیں۔ مدرسہ رؤفیہ دھام نگر اڑیسہ میں دودہائی سے دینی وعلمی خدمات میں مصروف ہیں، سلجھی اور سنجیدہ تقریر کے لیے جانے جاتے ہیں بہت سے فتاوے ان کے نوک قلم سے تحریر کیے جاچکے ہیں۔  مولانا طاہر حسین مصباحی اشرفی اپنی خوبصورت آواز اور اچھی تقریر کے لیے جانے جاتے ہیں۔شاعری بھی کرتے ہیں، تخلص عاصی ہے۔عاصی نے زیادہ تر نعت ومنقبت ہی لکھی ہے،وہ بھی ضرورتاً۔ تاہم ان کی شاعری سے ایک نعت بطور مثال دیکھیں          ؎

کتنے نازک سے گھر میں رہتے ہیں

وہ میری چشم تر میں رہتے ہیں

روح میں وہ بسے ہوئے ہیں مری

بن کے خوشبو جگر میں رہتے ہیں

اس لیے چاند خوبصورت ہے

ان کے جلوے قمر میں رہتے ہیں

اس میں اک گھر نصیب ہوجائے

مصطفی جس شہر میں رہتے ہیں

مجھ سے عاصی کا بھی ٹھکانہ ہے

وہ شفاعت نگر میں رہتے ہیں

مولانا رفیق وارث مصباحی حافظ وقاری ہونے کے ساتھ ہی شاعری کا بھی شغف رکھتے ہیں گذشتہ کئی سالوں سے ساؤتھ افریقہ کی سرزمین پر دینی خدمات انجام دے رہے ہیں۔رفیق وارث مصباحی عمدہ مقرر بھی ہیں اور اچھے اناؤنسر بھی۔نام ونمود سے ہمیشہ پرہیز کرتے رہے ہیں۔ ان کی شاعری سے چنداشعار بطورمثال ملاحظہ فرمائیں           ؎

کیا بیاں ہواس زباں سے حسن خوباں آپ ہیں

ہم شبیہ غوث اعظم نور جیلاں آپ ہیں

وارث مسکیں ہے سائل درپہ بخشش کے لیے

ہوکرم سرکار میرے ابر نسیاں آپ ہیں

ماسٹر نذیر احمد مرحوم ایک بہترین شاعر تھے اور مشہور و معروف شاعر شکیل بدایونی کے ساتھی تھے،آ پ زیادہ تر اپنے نانیہال وسسرال سربیلہ گاؤں میں ہی رہتے تھے۔ ان کا انتقال بھی سربیلہ ہی میں ہوااوروہیں مدفون بھی ہوئے۔ نذیراحمد کے زیادہ تر اشعار غیر محفوظ ہیں۔

مولانا ایوب عرف صابرالقادری صاحب کا تعلق ہتھمنڈل گائوں سے ہے۔ آپ گورنمنٹ ٹیچر رہے ہیں اور فی الحال وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہونے کے بعد شاعر ی کرتے ہیں اور علمی و ادبی خدمات میں لگے ہوئے ہیں، انہوں نے مضامین بھی لکھے ہیں، نعتیہ اور حمد پر بھی ان کاقلم چلا ہے وہیں قطعات اور نظمیں بھی تحریر کی ہیں، ان کے کلام میں سے ایک غزل پیش خدمت ہے         ؎

رات بھر سونے نہ دیتی تھی مسرت عید کی

اس کی تو رہ رہ کے ہوتی دل میں حسرت دید کی

عید پر آئے گا اس کا کر رہے تھے انتظار

وہ نہیں آیا تو پھیکی سی ہے لذت عید کی

کو ن دیکھے ہے مجھے اس طرح کہ میں ہوں سوچتا

بانٹنا چاہے ہے وہ شاید مسرت عید کی

غیر جب دینے لگے مجھ کو مبارکباد تو

رفتہ رفتہ بڑھ گئی ہے جب تو شہرت عید کی

 کون دیکھے ہے کہ کس کے دل میں کیا پنہاں ہے دوست

مجھ کو تو ہر صورت میں ہی ملتی ہے لذت عید کی

عید کے موقع پہ غربائ کا جو رکھتا ہے خیال

اصل میں حاصل ہے اس کو ہی مسرت عید کی

میرے دل میں تو نہاں ہر دم ہے صابر آرزو

کاش مل جائے ہر اک مومن کو برکت عیدکی

سمری بختیار پور کے پہلے مسلم جنھوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی،علی گڑھ سے فزیکس میں پی،ایچ ڈی کی ہے انھیں ڈاکٹر جنید احمد کے نام سے جانا جا تاہے،جنید صاحب کم گو ئی اورسادگی کے لیے بھی شہرت ر کھتے ہیں۔ انتقال سے چند ماہ قبل تک بھی لوگ ریاضی کی پیچیدہ گتھیوں کو سلجھانے کے لیے بلا مذہب و ملت ان کے یہاں حاضر ہوتے تھے۔اسفر فریدی اردو روزنامہ انقلاب کے بہار چیف بیورو ہیں اور اہم موضوع پر ان کے مضامین مختلف اخبارات ورسائل کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ افضل مصباحی اورافسر عالم پی ایچ ڈی کرچکے ہیں اور اول الذکربنارس ہندو یو نیورسٹی میں ار دو کے لکچرر ہیں ان کی ایک کتاب ’اردو صحافت آزادی کے بعد‘منظر عام پر آچکی ہے۔ڈاکٹر مرشد اقبال ہریواگاؤں کے پہلے ایم بی بی ایس ہیں تونقیب عالم گاؤں کے پہلے انجینئر۔ابھی ہریواگاؤں کے اعجاز احمدنے جامعہ ہمدرد سے پی ایچ ڈی کی ہے اور امریکہ میں برسرروزگار ہیں تو جواہر لال نہرو یونیورسٹی،دلی سے عربی زبان میں حامد رضا قادری پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔اسی طرح سے علاقے کے بہت سے افراد مختلف جامعات میں خدمات انجام دے رہے ہیں، یہاں پر تمام کو شمار کرانا مقصود نہیں بس دوایک مثال کے لیے کافی ہیں،ڈاکٹرعبدالسلام صاحب ہتھمنڈل سے تعلق رکھتے ہیں اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبئہ فارسی سے منسلک ہیں تو ڈاکٹر محمدعلی جوہر کا چکنی سے تعلق ہے اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبۂ اردومیں فی الحال پروفیسر اور  چیرمین ہیں۔ڈاکٹرموصوف احمداشرفی کا تعلق گھوڑدوڑ کی سرزمین سے ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے بعد روزگار سے منسلک ہوئے اور فی الحال صدر شعبۂ اردو ونود بہاری مہتو یونیورسٹی دھنباد میں ا ردو ادب کی خدمات میں لگے ہوئے ہیں۔ اشر فی نے ملک کے مختلف جامعات میں تین درجن سے زائد قومی اور بین الاقوامی سمینارمیں بحیثیت مہمان مقالہ نگار کے شرکت کی ہے۔ دوکتا بیں’تحقیق وتنقید :سمت و رفتار‘اور’ ادب کی تفہیم‘ پر یوپی اور بہار اردو اکیڈمی نے انعام سے بھی نوازا ہے۔ یوپی، بنگال اور جھارکھنڈ یونیورسٹی کے تقریری اور تحریری ممتحن کے علاوہ نیشنل سروس اسکیم کے پروگرام آفیسر، رسائل وجرائد کے ایڈیٹوریل ممبر وایڈوایزر بھی رہے ہیں۔ اسی علاقے کے تین طالب علم اپنی اپنی جامعہ میں سیاسی اعتبار سے بھی سرگرم ہیں ابولفرح شاذلی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی  میں توحامد رضا قادری جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں راقم الحروف (محمد خوشتر) یونیورسٹی آف حیدرآبا د میں ہیں۔

نوجوان علما اور فارغین میں سے کچھ اہم کے نام یہ ہیں جو اپنی دینی،علمی وادبی اور سماجی ومعاشی، سیاسی اور فلاحی خدمات سے جڑے ہوئے ہیں۔مولاناعمان رضا برکاتی کاتعلق ہریوا سے ہے، ابتدائی تعلیم گاؤں کے ادارہ دارالعلوم فیضان وارث سے ہی حاصل کی پھر حمیدیہ بنارس اور ضیاالعلوم ادری سے ثانوی درجے کی تعلیم لی۔ بعد میں کلکتہ کارخ کیااور فراغت تک ضیا الاسلام ہوڑہ کلکتہ میں ہی اکتساب علم کیا۔اپنی علمی ودینی اور خطیبانہ صلاحیتوں کی وجہ سے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں تشریف لے جا رہے ہیں اور لوگوں کی علمی پیاس بجھا رہے ہیں ایک کتاب بنام’ حیات طیبہ سلطان الہند غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ‘ تحریر بھی کی ہے، سماجی خدمت بھی کرتے رہتے ہیں اور اسی سلسلے میں بنگلہ دیش کا دورہ بھی کیا ہے۔ مولانا اعجاز انجم اشرفی آپ بہترین خطیب ہیں، حق اور کھری بات کہنے میں یقین رکھتے ہیں۔ مولاناعمار احمدقادری مصباحی فراغت کے بعد سے ہی مختلف اداروں میں خدمات کی انجام دہی کے بعد فی الحال اسکول ٹیچر ہیں اور ہریواجامع مسجد کے خزانچی بھی۔مولاناقمرعارف ازہری جامع اشرف کچھوچھہ شریف سے فراغت کے بعد عارف نے الجامعۃ الازہر مصر سے بھی علم حاصل کیا ہے۔ ایساماناجاتاہے کہ یہ پہلے سہرساوی ہیں جنہیں ازہری ہونے کا شرف حاصل ہے۔ جامع اشرف کچھوچھہ شریف میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں اور کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں، فی الحال مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد سے ایم اے عربک کررہے ہیں۔مولانا رضوان احمد قادری کھجراہا سے ان کا تعلق ہے جامع اشرف سے فراغت کے بعد ندوہ سے بھی خوشہ چینی کی ہے۔ فی الحال اپنے علاقے میں ملی خدمات میں سرگرم رہتے ہیں اور ہریوا کنیا مکتب اسکول میں بحیثیت استاد خدمت انجام دے رہے ہیں۔ مولانا شاہد رضا اور مولانا سرفراز،مولانا ابولفتح آپ سبھی ہتھمنڈل گاؤں سے تعلق رکھتے ہیں اور مولانااکبر لچھمنیاں کے رہنے والے ہیں۔مولاناشاہد رضاجامعی اشرفی کاتعلق چکنی گاؤں سے ہے اور فی الوقت مدرسہ عمادیہ پٹنہ کے پرنسپل ہیں۔ کھجراہا سے تعلق رکھنے والے منہاج عالم علاقے کے لیے مثال ہیں جو کہ دارالعلوم فیضان وارث سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد(BPSC)بہار پبلک سروس کمیشن کاامتحان کامیاب کرکے عالم نگرچوساضلع مدھے پورہ میں بلاک ترقیاتی آفیسر ((B.D.O کی خدمات انجام دے رہے ہیں،ہنوز میری معلومات کے مطابق سہر سہ ضلع سے پہلے مسلم ہیں جس نے اس طرح کے مقابلہ جاتی امتحان میں کامیابی حاصل کی ہے۔ڈاکٹر زاہد صاحب کا تعلق گھوڑدوڑ کی سرزمین سے ہے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم بی بی ا یس کی تعلیم مکمل کی اور آ نکھ کے اسپشلیسٹ ڈاکٹر تسلیم کیے جارہے ہیں۔ بہار گورنمنٹ میں ملازمت اور میڈیکل آفیسر ہیں اور سمری بختیار پور میں پرائیوٹ ہاسپٹل کے ذریعے عوامی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ذوالنونین سیفی کا تعلق ہریوا گاؤں سے ہے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم بی بی ایس کررہے ہیں۔وجیہ ا حمد تصور کاتعلق لچھمنیاں گاؤں سے ہے،بچپن ہی سے ان کی تحریریں پڑھتا آیاہوں،جب کہ خاتون مشرق کا بول بالاتھا،فی الحال گورنمنٹ ٹیچر ہیں۔ سوشل سائٹ فیس بک پر بہت زیادہ ایکٹیو ہیں اور علاقے کی اہم خبروں کواردواور ہندی زبانوں کے ذریعے خوبصورت الفاظ وجملے میں پروکرعام لوگوں تک بحسن وخوبی پہنچارہے ہیں، مذکورہ سبھی اہل سمری بختیارپور کے لیے مستقبل کے سنہرے باب کا درجہ رکھتے ہیں۔


 

 

Md. Khushtar

Research Scholar, Dept of Urdu

School of Humanities

Hyderabad Central University

Hyderabad - 500046 (Telangana)

Mob.: 8341116397





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو غزل میں کرداروں کی اہمیت، مضمون نگار: قسیم اختر

  اردو  دنیا، مئی 2025 اردو غزل اپنے ایمائی اور علامتی اظہار کی بنیاد پرسماجی اور سیاسی معاملات سے بھی گہرا تعلق رکھتی ہے، یہ الگ بات ہے کہ ...