3/8/22

مجروح کی ’غزل‘ کے چند امتیازی پہلو - مضمون نگار : غلام نبی کمار

 



مجروح سلطان پوری صفِ اول کے غزل گوشاعر ہونے کے ساتھ ساتھ جدید اردو شعرا میں ممتاز مقام کے حامل ہیں۔ اردو کے جن شعرا نے خدا داد صلاحیت پائی تھی ان میں مجروح بھی شامل ہیں۔انھوں نے بیسویں صدی کی چوتھی دہائی میں شعر گوئی کا آغاز کیا تھاتاہم کم گوئی کے سبب وہ اپنے شعری سرمائے میں خاطرخواہ اضافہ نہ کر سکے۔مجروح صاحب کی خوش بختی تھی کہ انھیں جگر مراد آبادی جیسا رہنما مل گیا جو انھیں مشاعرے کی طرف لے گئے۔جگر مراد آبادی اپنے زمانے کے نوجوان نسل کے باصلاحیت شعرا کواپنے ساتھ مشاعروں میں لے جایا کرتے تھے جیسا کہ قول مشہور ہے کہ’ ہیرے کی پرکھ جوہری جانے‘کے مصداق جگر مراد آبادی مجروح کی صلاحیت کو بھانپ چکے تھے۔چوں کہ مشاعرے کو مقبول بنانے کے لیے اچھے ترنم کا ہونا بھی ضروری ہے گویا مجروح اس کا اچھا انتخاب تھے جو اچھی شاعری، خوبصورت لب و لہجے اور عمدہ ترنم کے ساتھ شعر پڑھنے کا ہنرجانتے تھے۔یہیںسے مجروح کی شہرت و مقبولیت اور عزت و وقار میںاضافہ ہونے لگتا ہے اور ان پر فلموں  میں کام کرنے کے دروازے کھلتے ہیں۔مجروح اپنی کم سخنی کا ذمے داراپنی قسمت کو ٹھہراتے ہیں۔وہ اس بات سے دل شکستہ ہوئے تھے کہ صحیح وقت پر انھیں کوئی رہنما نہ مل سکاجو ان کا حوصلہ بڑھاتا اور ان کے پیش پیش رہتا۔مجروح اردو شاعروں کی اس قبیل سے تعلق رکھتے ہیں جو خود کو مشاعروں تک محدود نہیں رکھنا چاہتے تھے۔انھوں نے اس بات کو ملحوظ رکھا کہ شاعری ادب کا ایک اہم حصہ ہے اور اس کی ادبی سطح اور معیارکا ہونا بہت ضروری ہے۔اسی لیے مجروح بڑے شوق کے ساتھ ادبی رسائل و جرائد کو اپنا کلام اشاعت کے واسطے بھیجتے تھے۔شاید یہی وجہ ہے کہ آج مجروح کا جتنا بھی شعری سرمایہ ہمارے پاس موجود ہے وہ فلمی نغموں تک محدود نہ رہ کر ہمارے شعری ادب کا ایک اٹوٹ حصہ بن گیا ہے۔

مجروح سلطان پوری کا پہلا مجموعہ کلام’غزل‘کے عنوان سے 1953 میںانجمن ترقی اردو( ہند)علی گڑھ سے شائع ہوا۔بعد میں اس مجموعے کے متعدد ایڈیشن شائع ہوئے۔لیکن بعد کے ایڈیشن پہلے ایڈیشن ہی کا متبادل روپ ہوتے تھے جو وقتافوقتاً ’غزل‘ ہی کے عنوان سے شائع ہوتے رہے۔مجروح نے1991 میں اسی مجموعہ کلام کو پھر معمولی ترمیم و اضافے کے ساتھ ’مشعلِ جاں‘ کے نام سے شائع کیا۔جس میں محض چند غزلوں اور نظموں کااضافہ کیا گیا۔جب کہ متفرق اشعار اور چند نظمیں جو پہلے ایڈیشن میں شامل ہیں اُن کو’مشعلِ جاں‘ میں شامل نہیں کیا گیا۔مجروح کا کُل غزلیہ سرمایہ تقریبا بیالیس غزلوں پر مشتمل ہے۔

اردو کے ترقی پسند شاعروں میں مجروح سلطان پوری کا نام سرفہرست رکھا جاتا ہے۔ مجروح ترقی پسندمصنّفین کے علمبرداروں میں بھی شمار ہوتے ہیںکیوں کہ مجروح زندگی بھر ترقی پسند تحریک کے اصولوں کی پیروی کرتے رہے۔ انھوں نے اپنی غزل گوئی کے ذریعے ترقی پسند خیالات اور رجحانات و میلانات کی بھرپوری عکاسی کی۔ مجروح اس وقت بھی غزل کی تائید میں کھڑے رہے جب ترقی پسند ادب میں اسے مردود صنف قرار دیا جا رہا تھا، اسے ہدفِ ملامت سمجھا جاتا تھا اور یہاں تک کہ اسے ’وحشی صنفِ سخن ‘‘بھی قرار دیا گیا۔ دراصل ترقی پسند حلقے میں غزل کے مقابلے میں نظم کو فوقیت دی جا رہی تھی۔ انھیں اعتراض تھا تو غزل کی تنگ دامنی پر،وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ غزل ان کے اصولوں پر کھری نہیں اترتی۔اس بے بسی اور تنہائی کے عالم میں بھی مجروح نے ہمت نہیں ہاری کیونکہ انھیں خود پر اعتماد تھا کہ وہ ترقی پسند نظریات اور عصری مضامین کوغزل کے سانچے میں ڈھالنے کی بھرپور اہلیت رکھتے ہیں وہ اسی یقین اور اعتماد کے ساتھ آگے بڑھتے گئے اور ثابت کر دیا کہ غزل میں زندگی اور کائنات کے رنگارنگ موضوعات کو اپنے اندر جذب کرنے کی صلاحیت بدرجۂ اتم موجود ہے۔پھر وہ وقت بھی آیا جب مجروح ترقی پسند تحریک کے اہم رکن تسلیم کیے گئے اور ان کا کلام ترقی پسندادب کے ترجمان رسائل ’عصری ادب‘ اور ’گفتگو‘ میں باقاعدگی کے ساتھ شائع ہونے لگا۔مجروح کے کلام میں جوجاذبیت،جو معنویت اورجو لطافت ہے وہ اسے وسعتوں سے ہمکنار کرتی ہے۔ان کے کلام میں اتنی تاثیر اور دلکشی ہے کہ وہ اردو کے ضرب المثل اشعار بن سکتے ہیں جس کی بہترین مثال ان کا یہ شعر ہے          ؎

میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر

لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

ترقی پسند اردو غزل کو عروج بخشنے میں مجروح سلطان پوری نے ایک اہم کردار نبھایاہے۔ان کا کوئی بھی ہم عصر غزل گو شاعر ترقی پسندشاعری کو اتنی بلندی تک نہ لے جا سکا۔مجروح کے کئی اشعار ان کی ترقی پسند فکری اساس کی بہترین ترجمانی کرتے ہیں۔ترقی پسند ادیبوں کا گروہ سمجھتا تھا کہ اس تحریک کے مقصد کی صحیح ترجمانی نظم کے پیرایہ اظہار ہی میں ممکن ہے۔ مگر مجروح کے بارے میں خلیل الرحمن اعظمی کچھ الگ رائے رکھتے ہیں:

’’غزل کے میدان میں انھوں نے وہ سب کچھ کہا ہے جس کے لیے بعض ترقی پسند شعرا  صرف نظم کا پیرایہ ہی ضروری اور ناگزیر سمجھتے ہیں۔ صحیح طور پرانھوں نے غزل کے نئے شیشے میں نئی شراب بھر دی ہے۔‘‘1

مجروح نے اپنے توانا اور پُرجوش لب و لہجے سے ترقی پسند رجحان میںایک نئی حرارت ڈال دی۔ان کی غزلوں کے سامنے ان کے ہم عصر شعرا کی نظمیں بھی پھیکی پڑنے لگی تھیں۔اردو کے کئی بڑے شعرا جن کی ان کے زمانے میں اُتنی قدرومنزلت نہیں ہوئی جتنی کہ ہونی چاہیے تھی۔ٹھیک اسی طرح کا ماحول مجروح سلطان پوری کے لیے پیدا کیا گیا تھا مگر مجروح کے پروازِ تخیل کا کمال تھا کہ فضا نے کروٹ بدلی اورتنقیص تعریف میں بدل گئی۔ مجروح کی غزل کے کچھ اشعار جو ان کے ترقی پسند رجحان کے امتیازی پہلوؤں کو بہت خوبی کے ساتھ نمایاں کرتے ہیں،یہاں ملاحظہ فرمائیے        ؎

سر پر ہوائے ظلم چلے سو جتن کے ساتھ

اپنی کلاہ کج ہے اسی بانکپن کے ساتھ

ہشیار، سامراج کہ زنجیر ایشیا

ٹوٹے گی تیرے سلسلہ جان و تن کے ساتھ

دیکھ زنداں سے پرے رنگِ چمن جوشِ بہار

رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ

اب زمین گائے گی، ہل کے ساز پر نغمے

وادیوں میں ناچیں گے ہر طرف ترانے سے

مجروح اٹھی ہے موجِ صبا آثار لیے طوفانوں کے

ہر قطرۂ شبنم بن جائے اک جوئے رواں کچھ دور نہیں

مجروح سلطان پوری کی غزلوں میں اس نوع کے درجنوں شعرہیں جو ان کی انقلابی فکر کی تائید کرتے ہیں۔ ترقی پسند فکر کے ان اشعار میں انقلابی گھن گرج، پُرجوش و توانا لب ولہجہ،نئی سوچ، نئی فکر، نئی صبح کی آمد، ولولہ و عزم، آزادی  اور بے باکی کی ایک نئی تاثیر دیکھی جا سکتی ہے۔ مجروح کے اِن اشعار میں جس جرأت مندی کا اظہار ہوا ہے وہ مادی، ذہنی، روحانی، سیاسی،سماجی،اخلاقی اور معاشرتی جبرو استحصال سے آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ شاعر نے اپنے شعروں میں جو روح پھونک دی ہے وہ ان کی آزادیِ فکراور ایک نئی صبح کی آمد کا اعلان ہے۔ مزدوروں اور محنت کش طبقوں کی حمایت میں ترقی پسندوں نے سماج کے ٹھیکے داروں کے خلاف جو عَلم بلند کیا تھا مجروح نے اسے مزید بلندیوں سے ہمکنار کرایا۔انھوں نے فنی،فکری اور موضوعی ہر سطح پر اس احساس کو اس طرح برتا کہ وہ نہ صرف ترقی پسندوں کے بلکہ اردو کے ممتاز ترین شعرا میں شمار ہونے لگے۔مجروح سلطان پوری کی ترقی پسند غزل کے حوالے سے ڈاکٹر تنویر احمد علوی لکھتے ہیں          ؎

’’ترقی پسند Idialogy کے تحت انھوں نے فنی اقدار کو ترک نہیں کیا، غزل سے ان کی وفاداری میں کبھی کوئی تزلزل نہیں آیا لیکن زمانے کے ساتھ ٹکرانے کے لیے ان کا ذہن ہمیشہ آمادہ رہا۔اس میں ان کی جرأت مندی کسی طرح شامل نہیں تھی۔ بلکہ ان کے قلم و قدم کی حرکت کے برابر طے شدہ منزل اور روشن مرحلوں کی طرف بڑھتی گئی۔ان کی غزل ان کی زندگی اور ان کے ذہن کے مدوجزر کی نشانی بن کر سامنے آتی ہے۔‘‘2

مجروح کی غزل گوئی میں کلاسیکی غزل کا رچاؤ بھی ملتا ہے۔ان کے ابتدائی عشقیہ اشعار میں کلاسیکی شعار صاف نظر آتا ہے۔ ان کی ابتدائی شاعری کلاسیکی رنگ میں ڈھلنے کے باجود حال کے تناظرسے اپنا دامن نہیں چھڑاتی۔ اچھے شاعرکی خصوصیت ہی یہی ہے کہ اس کی شاعری مختلف رنگوں سے مزین نظر آئے۔مجروح اس آزمائش میں پوری طرح کھرے اُترتے ہیں۔جب وہ کسی تحریک یا رجحان سے وابستہ نہیں ہوئے تھے تب ان کی غزلوںمیں الگ ساخمار نظر آتا ہے اور جب انھوں نے ترقی پسند رجحان کو اپنا یا تو ان کی شاعری پر ایک انوکھا مزاج حاوی ہوا۔اگر مجروح کی شاعری کو مختلف ادوار میں تقسیم کیا جائے تو ان کے یہاںجس چیز کی جھلک عمومی طور پردیکھنے کو ملتی ہے وہ ہے کلاسکیت۔ جو چھاؤں بن کر ان کا پیچھا کرتی رہتی ہے۔دراصل مجروح کا لہجہ، ان کی لفظیات،تشبیہہ و استعارے اور رمز و ایما وغیرہ میں کی گئی مشکل باتیں بھی ہمیںروایت کا پتہ دیتی ہیں اور روایت سے مدغم ہوکر شاعری جس طرف اشارہ کرتی ہے وہ انھیں کلاسکی شاعری کا دلدادہ بنا دیتی ہے اس ضمن میں چند شعر ملاحظہ ہوں        ؎

گو خاکِ نشیمن پر اب بھی ہیں گریہ کناں اربابِ چمن

جب برق تڑپ کر ٹوٹی تھی اس وقت کا عالم کیا ہوگا

اس نظر کے اٹھنے میں اس نظر کے جھکنے میں

نغمۂ سحر بھی ہے آہ صبح گاہی بھی

مجھے سہل ہوگئیں منزلیں وہ ہوا کے رُخ بھی بدل گئے

ترا ہاتھ، ہاتھ میں آگیا کہ چراغ راہ میں جل گئے

مہ و خورشید بھی ساغر بکف ہو کر اُتر آئے

بوقت    بادہ    نوشی    جب    نچوڑی    آستیں    میں  نے       

یہ شوقِ کامیاب، یہ تم، یہ فضا، یہ رات

کہہ دو تو آج روک دوں بڑھ کر سحر کو میں

 مجروح کی ابتدائی دور کی کئی غزلیں کلاسیکی پن کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہیں۔یہ کلاسکی عنصر ہمیں مجروح  کے کئی معاصرین مثلاً فیض احمد فیض، مخدوم محی الدین، زبیر رضوی،  فراز احمد فراز، خلیل الرحمن اعظمی، وحید اختر وغیرہ کی غزلوں میں بھی نظر آتا ہے۔کلاسیکی غزل کا ایک اہم وصف اس میںپوشیدہ جمالیاتی حسن ہے جو نئی غزل میںمفقود نظرآتا ہے۔جس کی وجہ نئی غزل میں کیے جا رہے تجربے ہیں۔چناں چہ بدلتے وقت کے ساتھ غزل کی شعری ہیئت، اس کے موضوعات، ڈکشن اور لفظیات میں خاطر خواہ تبدیلی سے غزل کی صحت پر بھی بے کم و کاست اثر پڑا ہے۔البتہ آزادی کے بعد چند شعرا ہوئے جنھوں نے اپنی غزل میں کلاسیکی حسن پیدا کیاجن میں مجروح بھی شامل ہیں۔انھوں نے کئی کلاسیکی استعارات و ترکیبات اور لفظیات کا بے تکلفی کے ساتھ استعمال کیاجو بعد میں ان کی شاعری کا امتیاز بن گیا۔

اردو کے بیشتر معروف ناقدین نے مجروح کی غزل گوئی میں سیاسی رمزیت کی طرف اشارہ کیا ہے۔بلکہ یوں کہیں کہ بیشتر ترقی پسند شعرا کے یہاں ہمیں سیاسی و سماجی طور پر متاثر ہونے کے واضح نقوش ملتے ہیں۔ شاعری میں سیاسی رمزیت کی روایت میر سے ہوتی ہوئی جذبی،فیض اور مجروح تک پہنچ کرکمال کو پہنچتی ہے۔ڈاکٹر محمد حسن ترقی پسند شعرا کے یہاں سیاسی رمزیت کا ذکر یوں کرتے ہیں:

’’1953 کے آس پاس جذبی کی غزل نے پھر فیض نے پھر مجروح نے آگھیرا اور ان سب کے یہاں تمام آرائش جمال کے باجود کوشش تھی تو صرف ایک... غزل کو نئی سیاسی رمزیت دینے کی، نئی وسعت بخشنے کی۔‘‘3

 چونکہ ترقی پسندوں کی لڑائی ہی سماج کے ٹھیکے داروں کے خلاف تھی جو مظلوم غریبوں پر طرح طرح کا ظلم وجبر کرتے تھے اور ان کے حق میں اُٹھنے والی ہرآواز کو دبانے کی کوشش کرتے تھے۔نتیجے کے طور پر وہ جیل میں ڈال دیے جاتے۔ اس لیے بعض ترقی پسند شعرا نے شاعری سے تیز دھاری تلوار کا کام لیا اورنتیجتاً ان کے یہاں سیاسی طنز کی شعوری کوششیں شروع ہوئیں جس میں مجروح نے اہم کردار ادا کیا۔اس حوالے سے چند شعر حاضر خدمت ہیںملاحظہ ہو        ؎

یہ جبر سیاست یہ انسان مظلوم آہیں مجبور فغاں

زخموں کی مہک داغوں کا دھواں مت پوچھ فضائے زنداں میں

ستون دار پہ رکھتے چلو سروں کے چراغ

جہاں تلک یہ ستم کی سیاہ رات چلے

ستم کو سرنگوں ظالم کو رسوا ہم بھی دیکھیں گے

چل اے عزمِ بغاوت چل تماشا ہم بھی دیکھیں گے

ہم کو جنوں کیا سکھلاتے ہو‘ ہم تھے پریشاں تم سے زیادہ

چاک کیے ہیں ہم نے عزیزو‘ چار گریباں تم سے زیادہ

متذکرہ اشعار مجروح کی غزل گوئی میں سیاسی رمزیت کی بہتر مثال پیش کرتے ہیں جو علامتی بیانیہ اظہار کا خوبصورت پیکربھی کہے جا سکتے ہیں۔ خلیل الرحمن اعظمی نے اپنی کتاب’اردو میںترقی پسند ادبی تحریک ‘ میں لکھا ہے کہ مجروح کی تمام غزلیں گھوم پھر کر قفس، زنجیر، زنداں اور دارورسن کے دائرے میں چکرلگاتی ہیں اور ان میں ایک ہی قسم کی کیفیتوں اور جانے پہچانے انداز میں سنی ہوئی آواز سے سابقہ پڑتا ہے،میں کتنی سچائی ہے اس کا اندازہ مجروح کی غزلوں کے مطالعے سے ہوجاتا ہے۔ خلیل الرحمن اعظمی کی یہ کتاب 1972 میں شائع ہوئی تھی اور ظاہر ہے کہ مجروح  کا شعری سلسلہ بیسویں صدی کے اخیر تک چلتا رہا۔بے شک وہ اپنی شاعری میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہ کر سکے تاہم اس قلیل عرصے میں مجروح نے جتنی بھی غزلیں لکھیں ان کا رنگِ سخن بھی بالکل منفرد ہے۔ بلکہ ان کی ابتدائی دور کی شاعری کا رنگ رومانی انداز لیا ہوا ہے۔چونکہ ان تمام غزلوں کا شاعر ایک ہی ہے،اس کا طرزِ اظہار اپنا ہے اور وہ اپنا ایک مخصوص آہنگ رکھتاہے اس لیے آوازوں میں مشابہت پایا جانا کوئی غیر فطری بات نہیں۔

مجروح کی شاعری کاایک امتیاز اس میں پنہاں عشقیہ پن ہے۔اردو شاعری میںعشقیہ و رومانی عناصر ابتدا ہی سے پائے جاتے ہیں۔ بلکہ ابتدائی شعرا کے یہاں عشق و محبت کی کیفیت کچھ زیادہ ہی انتہا کو پہنچتی ہوئی نظر آتی ہے۔ بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ اردو شاعری خصوصاً اردو غزل میں حیات و کائنات کے مختلف موضوعات اور مسائل بھی جگہ پانے لگے۔ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہونے سے قبل مجروح کی غزلوں میں عشق و عاشقی کے غالب اثرات نظر آتے ہیں۔اس موضوع سے متعلق مجروح کے چند اشعار حاضر ہیں            ؎

التفات سمجھوں یا بے رخی کہوں اس کو

رہ گئی خلش بن کر، اس کی کم نگاہی بھی

کہاں وہ شب کہ تِرے گیسوؤں کے سائے میں

خیالِ صبح سے ہم آستیں بھگو دیتے

یہ انجامِ محبت دیکھ کر بھی وائے مجبوری

جلے گی شمع بھی محفل میں پروانے بھی آئیں گے

نہ مٹ سکیں گی یہ تنہائیاں مگر اے دوست

جو تو بھی ہو تو طبیعت ذرا بہل جائے

غزل کے شعر کی خوبیوں میں ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس کا ہر شعر معنیاتی سطح پر جداگانہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔یہ وہ خوبی ہے جو شعر کی وقعت کے علاوہ اس کی وسعت میں بھی اضافہ کرتی ہے۔مذکورہ اشعار میں عشقیہ رنگ صاف جھلکتا ہے جو مجروح کی رومانی حِس کی دلالت کرتے ہیں تاہم اس کے علاوہ بھی ان کی غزلوں میں ایسے کئی اشعار ملتے ہیں جوجہاں عشقیہ اور رومانی و جمالی حظ کی کیفیت پیدا کردیتے ہیں وہیں ان اشعار کو معنیاتی سطح پر مختلف انداز میں بیان کرنے یا برتنے کی گنجائش بھی موجود ہے۔

موجودہ معاشرے میں انفراد پر زیادہ زور دینے سے اجتماعی قدریں تہذیبی اور معاشرتی سطح پر زوال پذیر ہیں۔یہ مسائل ہمارے سماج میںپہلے سے موجود تھے لیکن اب ان میں روز افزوں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ہمارے اردو شعرا نے سماجی و معاشرتی قدروں کی اہمیت کو مختلف اوقات میں اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔انھوںنے اپنی شاعری کو انسان دوستی، مساوات، بھائی چارگی، مشترکہ تہذیب، اخوت، امن و امان اور انسانی تہذیب کی بقا کی جڑوں کو مضبوط کرنے اور ان کی حفاظت کا وسیلہ بنایا۔ مجروح کی شاعری میں بھی یہ موضوع اپنی شاہراہیں تلاش کرتا نظر آتا ہے۔اس ضمن میں کچھ شعر پیش کرتا ہوں           ؎

ہم ہیں کعبہ، ہم ہیں بتخانہ، ہمی ہیں کائنات

ہو سکے تو خود کو بھی اِک بار سجدہ کیجیے

لیے بیٹھا ہے دل اِک عزم بیباکانہ برسوں سے

کہ اس کی راہ میں ہیں کعبہ و بتخانہ برسوں سے

نہ دیکھیں دیر و حرم سوئے رہروانِ حیات

یہ قافلے تو نہ جانے کہاں قیام کریں

غیروں کی خلش، اپنوں کی لگن، سوزِ غمِ جاناں، دردِ وطن

کیا کہیے کہ ہم ہیں کس کس کو سینے سے لگائے زنداں میں

مجروح سلطان پوری کے یہ اشعار دوریوں، نفرتوں، فتنوں،  فسادوں اورقباحتوں سے آزادی کی ایک دلنشین آوازیں کہی جا سکتی ہیں۔ان شعروں میں انسان کے اندر انسانیت جگانے کی ایک پرعزم کوشش ہوئی ہے۔ جو وحدتوں، فرحتوں اور مسرتوںکی حدوں سے سرشار کرتی ہے۔

جس طرح اردو کے دو بڑے قد آور شاعروں میرتقی میر اور مرزا غالب کو اپنی سخن وری اور استادی پر ناز تھااور جس کے لیے وہ کہنے پر مجبور ہوئے تھے کہ

بقول ِغالب         ؎

ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے

کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیان اور

اور میر فرماتے ہیں          ؎

ریختہ رتبے کو پہنچایا ہوا اس کا ہے

معتقد کون نہیں میر کی استادی کا

بالکل اسی طرح کے احساس اور اعتماد کا اظہار مجروح سلطان پوری کے اس شعر سے ہوتا ہے          ؎

دہر میں مجروح کوئی جاوداں مضموں کہاں

میں جسے چھوتا گیا وہ جاوداں بنتا گیا

ایسے مرصع اور مضمون آفریں اشعار جو شائستگی،شگفتگی اوربے ساختگی کی عمدہ مثال پیش کرتے ہیں میر،غالب اور مجروح ہی کہہ سکتے ہیں۔بے شک یہ تینوں شعر الگ الگ زمانے میں کہے گئے ہیں تاہم ان میں شاعر کا انفرادی شعور،خود پر اعتماد اورفن میں یکتا ہونے کی دلیل موجود ہے۔

 حواشی

1       اردو میں ترقی پسند ادبی تحریک از خلیل الرحمن اعظمی،EBH، علی گڑھ،2002،ص 154

2       تہذیبِ غزل کاشاعر: مجروح سلطانپوری،مرتب از ڈاکٹر زیبا محمود، EPH،دہلی 2012، ص 31

3       معاصر اردو غزل مسائل: مسائل و میلانات،مرتبہ از پروفیسر قمر رئیس،اردو اکادمی،دہلی،2014، ص 16

 

Gh Nabi Kumar

Kumar Mohalla, Charari Sharief Budgam- 191112  (J&K)

Mob.: 7006738304

 

 

 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں