5/8/22

اودھ کا بابائے صحافت: منشی نول کشور - مضمون نگار: سفیان احمد انصاری

 



شمالی ہند میں اُردوصحافت کاآغاز1837  ہی میں ہوگیاتھا؛اور مرزا پور (بنارس) سے اردو کاپہلا رسالہ ’خیر خواہ ہند‘ 1837 میں ایک عیسائی پادری آرسی ماتھر کی ادارت میں نکلنا شروع ہواتھا،لیکن اودھ میں اُردوصحافت کاآغاز کرنے اور اُردو صحافت کو ترویج وفروغ دینے میں جن شخصیات کا نام سرِ فہرست ہے، ان میں منشی لال جی اورمولوی محمد یعقوب فرنگی محلّی کے بعد ایک بڑا نام منشی نول کشور کاآتا ہے، جوخاص اہمیت کا حامل ہونے کے ساتھ اردوصحافت کے باب میں زریں حروف سے لکھے جانے کے لائق ہے۔

منشی نول کشور کی ولادت کائستھ خاندان میں 3 جنوری 1836 کو ضلع علی گڑھ کے بستوئی میں ہوئی تھی۔ والد پنڈت جمنا پرشاد علی گڑھ کے زمیں دار تھے۔ منشی جی کی ابتدائی تعلیم کا آغاز زمانہ کے رواج کے مطابق مکتب میں ہوا؛ جہاں انھوں نے عربی،فارسی اور اردو سیکھی، اور دس سال کی عمر میں ابتدائی تعلیم سے فارغ ہو گئے، پھرثانوی تعلیم کے لیے 1822 میں پنڈت گنگادھر شاستری کے ذریعے قائم کیے گئے مشہور تعلیمی ادارہ آگرہ کالج میں داخل ہوئے، جہاں پانچ سال تک تعلیم حاصل کی۔ دوران تعلیم ہی مضمون نگاری کاشوق پیدا ہوگیا تھا،چنانچہ دورِطالب علمی ہی میں مضامین لکھ کر اخباروں میں شائع کرواتے تھے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد میدانِ صحافت میں قدم رکھا؛اوراپنی صحافتی زندگی کاآغاز ’سفیر آگرہ‘ نامی اخبارسے کیا۔

سفیر آگرہ‘ کس کا اخبار تھا؟ کس نے نکالا تھا؟ اس سلسلے میںمحققین کے درمیان اختلاف پایا جاتاہے ؛ بعض تاریخ نگاروں کے مطابق ’سفیرآگرہ‘ خود منشی نول کشور نکالتے تھے، لیکن یہ بات درست نہیں ہے۔ صحیح اور درست بات یہ ہے،جیسا کہ دیگر محققین کی رائے ہے کہ ’سفیر آگر ہ‘ کے ایڈیٹر اور مالک دیوان چند تھے؛منشی نول کشورصرف اُس میں مضامین لکھتے تھے۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ جب سولہ سال کی عمرمیں اُن کی تعلیم مکمل ہوگئی ؛تو ’سفیرآگرہ ‘سے مکمل طور پرمنسلک ہوگئے۔

 پھر جب لاہور میں منشی ہرسکھ رائے نے 14جنوری 1850 کو ’کوہ ِنور‘ جاری کیا؛ توانھیں ایک ایسے باصلاحیت شخص کی ضرورت پڑی جو ’کوہِ نور‘ کے انتظام وانصرام میںاُن کاہاتھ بٹاسکے، اس کے لیے انھوں نے منشی نول کشور کا انتخاب کیا،لہٰذا منشی نول کشور ایک سال تک ’سفیر آگر ہ‘ سے منسلک رہنے کے بعد سترہ سال کی عمر میں’کوہ ِ نور‘ سے وابستہ ہوگئے؛ جہاں انھوں نے اخبار نویسی کے اسرار و رُموز کے علاوہ تجارتی اور کاروباری نکات وگُر بھی سیکھے۔ پھر 1867 میں ’کوہ ِ نور‘ سے علیحدہ ہوکراپنے وطن آگرہ واپس آگئے۔ اُن کاارادہ تھا کہ آگرہ پہنچ کر اپنا اخبار نکالیں گے، لیکن لوگوں کے مشورہ (کہ یہاں فی الحال اخبار نکالنے کے لیے ماحول سازگار نہیںہے)پر آگرہ سے اپنا اخبار نکالنے کا ارادہ ترک کرکے اودھ کے دارالسلطنت لکھنؤ کی راہ لی؛ اور وہاں ایک نئی زندگی کی شروعا ت کی۔ لکھنؤ کی زندگی میں بہت سے کارناموں میں بطور خاص مطبع نول کشور کا قیام اور ’اودھ اخبار‘ کا اجرا قابل ذکر ہے ؛جو دنیائے ادب میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔

1858 کے اوائل میں آگرہ سے لکھنؤ پہنچے، اور لکھنؤ میں اولاً محلہ آغا میر کی ڈیوڑھی میں ایک چھوٹاسا مکان کرایے پر لے کر اس میں اپنا پریس لگایا۔ پریس کانام ’مطبع اودھ اخبار یا مطبع نول کشور‘ تھا۔ کچھ عرصے کے بعد منشی جی نے اپنا یہ پریس گولہ گنج میں منتقل کردیا۔ پھر جب طباعتی کام بڑھنے لگا؛ تو کشادہ جگہ کی ضرورت محسوس ہوئی؛تو اس ضرورت کی تکمیل کے لیے مہاراجہ مان سنگھ بہادروالیِ اجودھیاکی کوٹھی کرایے پر لی،اور مطبعِ مذکور کو اس میں منتقل کردیا۔  پھر1870 میں منشی نول کشور نے حضرت گنج میں واقع کوٹھی غالب جنگ خرید لی؛ جس کااحاطہ بہت وسیع تھا، اُس میں اودھ اخبارکا دفتر قائم کیا؛اور مشہور شاہی عمارت ’مبارک منزل ‘ خرید کر اُس کواپنی رہائش گاہ بنایا۔

اس وقت ہندوستان پر برطانوی حکومت کا غلبہ تھا۔ اور پریس چلاناجان جوکھم میں ڈالنے کے مترادف تھا۔ لیکن منشی نول کشور نے بڑی بہادری اور ہمت سے کام لیا؛ اور اپنے مشن میں کامیاب ہوئے۔چنانچہ ابتدا میں انھوں نے چند مذہبی رسائل اور بچوں کے قاعدے چھاپے ؛اور انھیں خود ہی بیچنا شروع کیا: حتی کہ وہ خود اپنے کندھوں پر طبع شدہ مواد کے گٹھراُٹھا کر بازار اور دفاتر تک لے جاتے تھے، اُن کی اسی محنت اورجد وجہد کی وجہ سے انھیں بھارت کاCaxtonکہا جاتا ہے۔انگریزوں کو منشی جی کی یہ سادگی اور جد وجہد بہت پسند آئی؛ اور انھیں انگریزی دفاترکی اسٹیشنری کے ٹھیکے ملنے لگے۔   

منشی نول کشور نے اپنے مطبع سے دنیاکی بہت سی زبانوں میں مختلف قسم کی کتابیں شائع کیں؛ جن میں عربی، فارسی، اردو،ہندی اور مذہب سے تعلق رکھنے والی کتابیں شامل ہیں۔ہندو ہونے کے باوجود منشی نول کشور نے قرآن کی تفاسیر، احادیث کے مجموعے اور فقہ کی کتابیں جیسے سنن ابی داؤد،سنن ابن ماجہ اور فتاویٰ عالمگیری کے علاوہ مثنوی مولانا روم،قصائدِ عرفی،تاریخِ طبری، تاریخِ فرشتہ،دیوانِ امیر خسرو،مراثی انیس، فسانۂ آزاد، داستانِ امیر حمزہ، دیوانِ غالب، کلیاتِ غالب فارسی، الف لیلہ، آثار الصنادید (سر سید احمد خان)،قاطعِ برہان (غالب)،آرائشِ محفل، دیوانِ بیدل،گیتا کا اردو ترجمہ، رامائن کا اردو ترجمہ،بوستانِ سعدی وغیرہ جیسی بہت سی اہم اسلامی، غیراسلامی اور ادبی کتابیں بطورِ خاص شائع کیں۔ اس سلسلے میں غالباً ان کے پریس کا سب سے بڑا کارنامہ46 جلدوں میں داستانِ امیر حمزہ کی اشاعت ہے جسے دنیا کی سب سے بڑی داستان کہا جاتا ہے۔اسی طرح تقریباً اٹھارہ ہزار صفحات پر مشتمل کتاب ’طلسم ہوش ربا‘کی طباعت واشاعت بھی منشی نول کشور کی کتاب دوستی اور علم پروری کی بہترین مثال ہے۔اس کے علاوہ انھوں نے بہت سی کتابوں کا ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ بھی کروایا۔

منشی جی ہندو ضرورتھے؛ لیکن وہ ہر مذہب کی عزت دل وجان سے کرتے تھے۔ اس لیے انھوں نے ہندوؤں کی مقدس کتابوں کے ساتھ ساتھ قرآن پاک بھی شائع کیے۔ ان کے مطبع میں جب قرآن پاک کی پروف ریڈنگ کا وقت آتا؛ تومنشی جی خود وضو کرکے پروف ریڈنگ کرتے؛ اور دوسرے کارکنان کو بھی یہی مشورہ دیتے تھے۔یہاں تک کہ قرآن مجید کی طباعت کے وقت منشی جی اور مطبع کے دیگرکارکنان پاک صاف ہو کراور صاف ستھرے کپڑے پہن کر قرآن کی طباعت کے کام میں لگ جاتے تھے؛ کیوں کہ ان کے نزدیک قرآن پاک سب سے مقدس کتاب تھی؛ اس لیے وہ کوئی ایساکام ہر گز نہیں ہونے دیتے تھے جس سے قرآن پاک کی کسی قسم کی بے حرمتی ہو۔

اسی طرح جہاں قرآن پاک کی جلد بندی ہوتی تھی وہاں کسی شخص کوحتی کہ خود نول کشورکو بھی جوتوں کے ساتھ داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔دو ایسے ملازم رکھے گئے تھے جن کا صرف اور صرف ایک ہی کام تھا کہ تمام دن ادارے کے مختلف کمروں کا چکر لگاتے رہیں؛اور جہاں کہیں کوئی کاغذ کا ایسا ٹکڑا جس پر قرآنی آیت لکھی ہو؛ اُس کو انتہائی عزت و احترام سے اٹھا کر بوریوں میں جمع کریں ؛ پھر ان بوریوں کو احترام کے ساتھ زمین میں دفن کر دیا جاتا۔منشی نول کشورنے قرآن پاک کی طباعت و اشاعت کے وقت احترامِ قرآن کا جو معیار مقرر کیا تھا وہ کسی اور ادارے کوکبھی نصیب نہ ہوسکا، اس کے لیے منشی جی نے پہلے تو اعلی صلاحیت والے حفاظ اکٹھے کیے؛ اور ان کو زیادہ تنخواہوں پر ملازم رکھاتھا۔

ہندوؤں کی مقدس کتابیں بھگوت گیتا، رامائن اور اپنیشد بھی اُ ن کے مطبع میں چھپتی تھیں۔ سکھوں کی مقدس کتاب گروگرنتھ صاحب بھی اسی مطبع سے شائع ہوتی تھی۔  بھگوت گیتا، رامائن اور بہت سی دیگر کتابوں کا ترجمہ بھی اردواور فارسی زبان میں انھوں نے کرایاتھا۔ قرآن مجید کے ترجمے بھی انھوں نے ہندی و دیگر زبانوں میں کرواکر شائع کیا تھا۔     

مطبع نول کشورکے کتبِ مذکورہ کی طباعت واشاعت کی وجہ سے ایران اور افغانستان والے بھی منشی جی کی قدر کرنے لگے تھے؛ اور منشی نول کشور کے پریس کی شہرت ہندوستان سے باہر نکل کر دوسرے ملکوں میں بھی پھیل گئی تھی۔ چونکہ منشی نول کشورخود اُردو اور فارسی کے عالم تھے، اس لیے اُ ن کا پسندیدہ مشغلہ یادستور تھا کہ جہاں کہیں انھیں کوئی اچھا مخطوطہ نظر آیا؛ اُسے حاصل کرکے زیورِ طباعت سے آراستہ کر دیا۔

منشی جی کے مطبع کی کامیابی کااندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ ہندوستان کی کسی بھی زبان کی کتاب اس میں شائع ہو کر نہ صرف پورے ملک میں بلکہ ملک سے باہر بھی خوشبو کی طرح پھیل جاتی تھی۔معین اعجاز منشی نول کشور کے مطبع کی اہمیت اور شہرت بیان کرتے ہوئے ایک واقعہ لکھتے ہیں:

’’1885 کاایک واقعہ بہت مشہور ہے۔لدھیانہ میں افغانستان کے بادشاہ امیر عبدالرحمٰن کے اعزاز میں لفٹنٹ گورنرکی جانب سے ایک دربار منعقد ہواتھا۔ (جس میں) منشی جی کو شہزادوں سے زیادہ اہمیت دی گئی جس پرکچھ  لوگوں نے ناک بھوں چڑھائی،بلکہ احتجاج بھی کیا۔ اس پر لفٹنٹ گورنر نے فوراً کہا: یہ نامناسب بات آپ کچھ نہیں جانتے، اس پرآپ لوگ اعتراض کرتے ہیں۔ یہ مشہورمنشی نول کشور صاحب ہیں۔ شاہِ افغان نے جب ان کانام سناتو بڑی محبت سے پیش آئے اور بولے: کیا یہ وہی منشی نول کشور ہیں جنھوں نے جنوبی ایشیا میں علم وادب کی شمع روشن کی ہے؟ انھیں میرے پاس لے آئیے۔ جب منشی جی ان کے قریب پہنچے ؛ تو بادشاہ تعظیماً کھڑے ہوگئے، پھر ان سے یوں مخاطب ہوئے : خدا کاشکر ہے، ہم نے آپ کو دیکھ لیا،ہندوستان میں جو مسرت آپ کو دیکھنے سے ہوئی، کسی کام سے نہیں۔1

اسی طرح معین اعجاز ایک دوسرا واقعہ بھی تحریر کرتے ہیں:

’’1886 میں شہنشاہِ ایران بھی ہندوستان تشریف لائے، کچھ لوگوں نے ان سے تشریف آوری کا سبب دریافت کیا، توانھوں نے کہا: میرے ہندوستان آنے کی سب سے بڑی غرض یہ ہے کہ منشی نول کشور اور وائسرائے ہند سے ملاقات کرسکوں۔‘‘2

یہی وجہ تھی کہ مرزاغالب کوبھی منشی نول کشور سے ملنے کی خواہش ہوئی اور وہ دسمبر 1863 میں دہلی میںمنشی جی سے صرف ملے ہی نہیں بلکہ منشی جی کے وفادار دوستوں میں شامل ہوگئے؛اورمطبع نول کشور پریس سے اس قدر متاثر ہوئے کہ مطبع کی تعریف کرتے ہوئے ایک خط میں  مرزا غالب یوں لکھتے ہیں:

’’اس چھاپہ خانہ نے جس کسی کا بھی دیوان چھاپا ہے  اس کو زمین سے آسمان پر پہنچا دیا۔‘‘3

جب منشی نول کشور کو کسی مخطوطے یا نایاب اورقدیم نسخے کے بارے میں کسی سے معلوم ہوتا تو وہ اُس کے حصول میں ہمہ تن لگ جاتے، اور حاصل کرنے کے بعد پوری ایمانداری کے ساتھ اس کی طباعت واشاعت پایہ تکمیل تک پہنچا کر ہی دم لیتے تھے۔

1801  میں فورٹ ولیم کالج نے بڑے پیمانے پر اُردو کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ شروع کیا؛ لیکن اس فن کو منشی نول کشور نے جو ترقی دی وہ کسی اور کے حصے میں نہیں آ سکی۔ جیساکہ علامہ سید سلیمان ندوی فرماتے ہیں:

’’سب سے آخرمیں لکھنؤکے اس مطبع کانام لیا جاتا ہے جس کی زندگی اب 80 برس کے قریب پہنچ گئی ہے۔ اس سے میری مراد نول کشور کا مشہور نول کشور پریس ہے۔ یہ غدر کے بعد 1858 میں قائم ہوا ؛ اور بلا مبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ مشرقی علوم وفنون کی جتنی ضخیم اور کثیر کتابیں اس مطبع نے شائع کیں۔ ان کا مقابلہ ہندوستان کیا مشرق کا کوئی مطبع نہیں کرسکتا۔ ہماری زبان کی اکثر ادبی اور علمی کتابیں اسی مطبع سے چھپ کر نکلیں ؛شعرائ کے دواوین، مثنویاں، قصائد، قصے، افسانے، داستانیں اور درس کی عام کتابیں سب اسی کی کوششوں کی ممنون ہیں۔‘‘4

منشی نول کشور نے اپنے مطبع میں ایک دارالترجمہ بھی قائم کیا تھا؛ جس کے تحت کتابوں کو ملک کی دیگر زبانوں میں ترجمہ کرنے کا نظم تھا۔

مطبع نول کشور میں تقریباً بارہ سوکارکنان طباعتی کام کو بحسن وخوبی انجام دیتے تھے۔ تصنیفی کام کرنے والوں کو منشی جی معقول معاوضہ بھی دیتے تھے۔اس کے علاوہ ملک کے کتب خانوں اور تدریسی اداروں کو وہ مفت کتابیں بھی فراہم کرتے تھے۔جیسا کہ حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب (سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند) ماہنامہ نیا دور لکھنؤ کے منشی نول کشور نمبر کی اشاعت کے موقع پر ایڈیٹر کے نام ارسال کردہ پیغام میں تحریر فرماتے ہیں:

’’عبدالرحمن خاں صاحب اور منشی نول کشور جب تک زندہ رہے، برابر اپنے مطبع سے چھپنے والی کتابوں کے نسخے دارالعلوم کو بھیجتے رہے، رودادوں میں نہ صرف ان کی دی ہوئی کتابوں کا ذکر موجود ہے بلکہ جا بجا ان کا شکریہ بھی ادا کیا گیا ہے،اور لکھا ہے کہ منشی نول کشور صاحب مالک چھاپہ خانہ اعظم لکھنؤ اس امر میں زیادہ قابلِ شکریہ ہیں کہ باوجود بعد مسافت بہت سی کتب سے معاونت کی۔‘‘5

اس کی تائید سوانح منشی نول کشور کی عبارت سے بھی ہوتی ہے، سیدامیر حسن نورانی تحریر کرتے ہیں:

’’منشی نول کشور نے ہندوستان کی سب سے بڑی اسلامی درس گاہ کو نظرانداز نہیں کیا جودارالعلوم کے نام سے 1866 میں قائم ہوئی تھی؛ جس کے روح رواں مولانا محمد قاسم نانوتوی تھے۔ دارالعلوم کے نصاب میں عربی کی جو کتابیں شامل تھیں،ان میں سے اکثر دستیاب نہیں ہوتی تھیں، کیوں کہ طباعت واشاعت کاکام ابھی ابتدائی منزلوںمیں تھا۔ منشی نول کشور نے مدارس اور اہلِ علم کی ضرورت کا احساس کرکے ایسی کتابوں کی طباعت شروع کردی تھی، متعدد کتابیں شائع ہو چکی تھیں، دارالعلوم کی طرف سے طلبہ کے لیے فراہمی کتب کی اپیل شائع کی گئی، بعض مطابع اور کچھ لوگوں نے بطور ہدیہ کتابیں دے دیں۔ جب دارالعلوم کی اپیل منشی نول کشور کی نظر سے گزری تو انھوں نے اپنی تمام مطبوعہ عربی کتابیں بلاقیمت بطور تحفہ پیش کردیں، جس کے لیے دارالعلوم کی مجلس شوریٰ نے منشی موصوف کاشکریہ اداکیا۔‘‘6

اپنا مطبع قائم کر نے کے ساتھ ہی منشی نول کشور نے اپنے پہلے شوق اور دیرینہ آرزویعنی صحافت کی طرف توجہ کی؛ اور ’اودھ اخبار‘ (اردو)، ’لکھنؤ ٹائمس‘ (انگریزی) اور ’اودھ ریویو‘ (اردو)جیسے اخبارات نکالنا شروع کردیا؛ لیکن ان میں ’اودھ اخبار‘ ہی ممتازاہمیت کا حامل رہا، جو 26  نومبر 1858 کو انھیں کے مطبع سے جاری ہوا۔جیسا کہ اس سلسلے میں ڈاکٹر اکبر حیدری کشمیری تحریر کرتے ہیں:

’’منشی نول کشور نے بتیس برس کے سن میں 1858 میں لکھنؤ میں واقع کوٹھی مہاراجہ مان سنگھ بہادرایک پریس ’مطبع اودھ اخبار‘ کے نام سے قائم کیا۔ پھر اسی سال انھوں نے ایک ہفتہ واراخبار ’اودھ اخبار‘ کے نام سے شائع کرنا شروع کیا۔‘‘7

یوں تومنشی نول کشور صحافت کی ابتدا ’سفیر آگرہ‘ سے کرچکے تھے، پھر’ کوہِ نور ‘ اخبار سے وابستگی نے ان کی صحافتی صلاحیت کو مزید جلا بخشی، لیکن صحیح معنوں میں ان کی صحافت اُس وقت منظر عام پر آتی ہے، جب انھوں نے ’اودھ اخبار‘ کاآغاز کیا۔ یہاں لاہور کی صحافت کا تجربہ کام آیا؛ اور جلد ہی انھوںنے صحافت کے میدان میںاپنی دھاک بٹھا دی؛ اور ’اودھ اخبار‘ کو بلندیوں تک پہنچانے میں انھوں نے اپنی پوری صلاحیت صرف کردی، اور ’اودھ اخبار‘ کو روزانہ پہلے سے زیادہ دل کش اورخوبصورت بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، بایں وجہ اودھ اخبار کا سرورق انتہائی جاذبِ نظر ہوتاتھا،اور صفحہ اول پر یہ ایک شعر بھی درج ہوا کرتا تھا      ؎

الٰہی   جلوہ   برق   تجلی  دہ  زبانم   را

قبول  خاطر  موسٰی  کلاماں کن بیانم را

 منشی جی کی محنت اور کوشش کے نتیجے میں ’اودھ اخبار‘ نے بتدریج ترقی کے منازل اس طرح طے کرنے شروع کردیے کہ ’اودھ اخبار‘ پہلے پندرہ روزہ تھا،پھر ہفت روزہ ہوگیا؛جو ہر چہار شنبہ کو شائع ہوتا تھا،بڑھتی مقبولیت کے باعث  1872 میںہفتے میں دو بارہ طبع ہونے لگا، پھر 1876  میں سہ روزہ ہوگیا، اور 1877 میں روزنامہ ہو گیا۔ابتدا میں 18x22 کے چار صفحات پرشائع ہوتا تھا، 1864 میں صفحات کی تعداد بڑھ کر 16 ہوگئی، اور سائزبھی 22x29  ہوگیا۔ پھر کچھ دنوں بعد صفحات بڑھ کر 48  ہوگئے۔

اودھ اخبار کے پندرہ روزہ اور روزنامہ ہونے کے بارے میں محققین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے؛ اس سلسلے میںحسن ابرار روزنامہ ہونے کی بات کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’اودھ اخبار ابتدا میں پندرہ روزہ رہا پھر ہفت روزہ رہا ؛بعد میں ہفتہ میں دو بار شائع ہونے لگا؛ اس کے بعد روزنامہ ہو گیا۔‘‘8

لیکن ڈاکٹر اکبر حیدری کشمیری قول مذکور کی تردید کرتے ہوئے لکھتے ہیں

’’ راقم الحروف کو اودھ اخبار کی جوفائلیں 1862 سے دسمبر1875 تک دیکھنے کااتفاق ہوا،ان میں کوئی پندرہ روزہ یا روزانہ نظر سے نہیں گزرا۔ ان فائلوں سے معلوم ہوتاہے کہ اخبار ہمیشہ ہفتہ وار ہی تھا۔‘‘9

ڈاکٹر اکبر حیدری کشمیری کے قول مذکور کی تائید میں مشہور فرانسیسی مستشرق گارساں دتاسی کے خطبے کا درج ذیل اقتباس بھی کافی اہمیت کا حامل ہے؛وہ لکھتا ہے:

’’یہ اخبار پچھلے سات سال سے نہایت کامیابی کے ساتھ نکل رہا ہے۔ چنانچہ اس کی ہر اشاعت پچھلی اشاعتوں سے بہتر نظر آتی ہے۔ اس کی تقطیع اور صحافت کی تعداد بھی بڑھتی جارہی ہے۔ یہ اخبار ہفتہ وار ہے اور ہر چہار شنبہ کے روز شائع ہوتاہے۔ شروع شروع میں اس میں صرف چارصفحے ہواکرتے تھے اور وہ بھی چھوٹی تقطیع پر ؛پھر چھ ہوئے اور پھر سولہ ؛اور اب وہ اڑتالیس صفحات پر مشتمل ہوتاہے۔پہلے کے مقابلے میں اس کی تقطیع بھی بڑی ہوگئی ہے۔ میرے خیال میں اس سے زیادہ ضخیم اخبار ہندوستان بھر میں اور کوئی نہیں ہے۔‘‘10

لیکن دیگر محققین کے مطابق’اودھ اخبار‘ 1877 میں روزنامہ میں تبدیل ہو گیا تھا،اس طرح صحافتی دنیا میں اپنے معیار اور امتیازی شان کی وجہ سے ’اودھ اخبار‘ کو پہلے ڈیلی نیوز پیپر کا اعزاز حاصل ہے۔ 

منشی نول کشور نے اودھ اخبار کو ایک معیاری اخبار بنا کر پیش کیا تھا جس کے اصول انھوں نے خود متعین کیے تھے؛یہی وجہ تھی کہ ’اودھ اخبار‘ کو ہندوستان اور ہندوستان سے باہر پڑھنے والوں کی ایک بڑی تعداد تھی۔کیونکہ اودھ اخبار میں اردو اخباروں سے ہی خبریں نہیں لی جاتی تھیں بلکہ گزٹ آف انڈیا، انڈین ڈیلی نیوز، فرینڈ آف انڈیا اور پائینیر جیسے انگریزی اخباروں کی خبریں اور اہم مضامین بھی ترجمہ کروا کر ’’اودھ اخبار‘‘ میں شائع کیے جاتے تھے۔

اس کے لیے منشی نول کشور نے بڑے بڑے شہروں میں کثیر تعداد میں اپنے نامہ نگار متعین کیے تھے جس کی وجہ سے ملک کی اہم ترین خبریں شائع کرنے میں اس اخبار کو اولیت حاصل ہوئی، ساتھ ہی بیرون ممالک کی خبریں بھی اس میں بر وقت شائع ہوتی تھیں؛ کیوں کہ ملک سے باہر اس کے خبر نویس ایمانداری کے ساتھ اپنے کام کو انجام دیتے تھے ؛ نامہ نگاروں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ اس زمانے میں کہاجاتا تھاکہ ہندوستان کے ہر شہر میںحکومتی کارندے رہتے ہیں یا اودھ اخبار کے نمائندے۔بقول مولاناامداد صابری:

’’تھوڑے ہی عرصہ میں ان کے اخبار نے غیر معمولی مقبولیت حاصل کرلی۔ ملک بھر میں سچی،صحیح اور تازہ خبریں دینے کے لیے اودھ اخبار مشہور تھا۔ اس کے نامہ نگار تمام صوبوں اورریاستوں میں پھیلے ہوئے تھے، مشہور تھا کہ ہندوستان کی مختلف راجدھانیوں میں یا توحکومت کے نمائندے رہتے ہیں یامنشی نول کشور کے۔ اس اخبار نے منشی نول کشور کے نام کو چمکایا۔ حکومت میں بھی ان کی قدر ہونے لگی۔‘‘11

اس طرح ’اودھ اخبار‘ پوری علمی دنیا میں اپنا نام روشن کیے ہوئے تھا اور اس نے ہندوستان کی اردوصحافت کے میدان میں ایک الگ پہچان بنالی تھی۔عوام کو ان کے اخبار سے ملک اور بیرون ملک کی خبروں کے علاوہ رفاہ عامہ کی خبریں بھی برابر ملتی رہتی تھیں۔ ساتھ ہی اس میں سرکاری قوانین، احکامات، عدالتی کارر وائیوں کی اطلاعات اور ریلوے ٹائم ٹیبل وغیرہ بھی ہوتاتھا جنھیں کبھی تو ترجمہ کروا کر اور کبھی ضرورت کے مطابق دیو ناگری رسم الخط میں ہی شائع کر دیا جاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ کم عرصے میں ہی اخبار کی مقبولیت کا عالم یہ ہوا کہ اس کی تعدادِ اشاعت 12 ہزار تک پہنچ گئی، اور یہ نہ صرف ملک میں مقبول ہوا؛ بلکہ بیرون ملک میں بھی اس کی رسائی ہوگئی۔ چنانچہ گارساں دتاسی کو یہ اخبار مسٹر ایڈورڈ ہنری پامر بھیجا کرتے تھے۔

اودھ اخبار اُردو کا ایک مکمل اورمقبول ترین اخبار تھا؛ اور یہ صرف خبروں کے لیے مشہور نہیں تھا بلکہ اس میں بہت سے ادبی وعلمی مضامین، ممتاز فارسی اوراُردو گو شعرا کے کلام، افسانے، تنقید و تبصرے اوربہت سے سرکاری اعلانات بھی شامل ہوتے تھے؛اور ہر طرح کے موضوعات اور مضامین کااحاطہ کیاجاتاتھا؛ تاکہ ہر طرح کے لوگ اس اخبار سے مستفید ہوسکیں۔ اسی اخبار میں پنڈت رتن ناتھ سرشار کا ’فسانۂ آزاد‘ قسط وار دسمبر 1878 سے دسمبر 1879 تک شائع ہوا، اسی طرح غالب کے خطوط اور سرسید احمد خاں کے مضامین بھی اس اخبار کی زینت بنتے رہے۔ اسی طرح منعقد ہ ادبی محفلوں اور ثقافتی پروگراموں کی خبروں کو بھی اودھ اخبار کے صفحات میں جگہ ملتی تھی۔ علاوہ ازیں شہر میں جب بھی کوئی ادبی،سماجی سیاسی یا علمی شخصیت کی آمد ہوتی؛تو منشی جی اُسے اپنے مطبع پر ضرور دعوت دیتے، اس کی حسبِ مرتبہ وحسبِ حیثیت ضیافت کااہتمام کرتے؛ پھراس کا تعارف اوراس کے پروگرام کی مفصل رپورٹ بھی اپنے اخبار میں شائع کرتے۔

منشی نول کشور کو اگر کسی کے بارے میں یہ معلوم پڑ جاتا تھاکہ یہ انسان کسی زبان کاماہر اور ایک اچھا تجربہ کار ہے؛یاوہ کسی مخصوص صلاحیت کا حامل ہے؛ تو اُس کو وہ بہت عزت واحترام کی نظر سے دیکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جس قدراہل علم اور معروف ہستیاں ’’اودھ اخبار‘‘کی ایڈیٹر ہوئیں،اُردو کے کسی دوسرے اخبار کو اب تک یہ فضیلت حاصل نہیں ہوپائی، چنانچہ ’اودھ اخبا ر‘ کے پہلے ایڈیٹر مولانا ہادی عالم شاہ اشک لکھنوی تھے؛ان کے بعد شیو پرساد؛ پھرمنشی غلام احمد تپش، منشی امیر اللہ تسلیم، سید امجدعلی اشہری، منشی ہادی علی اشک، مفتی فخرالدین قدر بلگرامی، مولانا عبدالمجید سحر کاکوروی، مولانا عبدالحلیم شرر، پنڈت رتن ناتھ سرشار، نسیم دہلوی، سیدجالب دہلوی، مرزا حیرت دہلوی، مرزایاس یگانہ چنگیزی، نادر حسین نادر کاکوروی، نوبت رائے نظر، دوارکاپرشاد افق، منشی پریم چند، مولانا عبدالباری آسی، شوکت تھانوی، مرزا محمد عسکری، پیارے لال شاکر اور امین سلونوی وغیرہ جیسے نامور اور عظیم ادباو شعرا نے یکے بعد دیگرے اس کی ادارت کے فرائض انجام دیے؛ اوران حضرات کی صلاحیتوں نے اودھ اخبار کی بقا میں اہم ترین کردار ادا کیا۔

منشی نول کشور اپنے اخبار سے منسلک تمام افراد واشخاص کا خاص خیال رکھتے تھے؛ اُن کے غم اور خوشی میں برابر شریک ہوتے۔کسی کے بیمار ہو جانے پر خود عیادت کے لیے جاتے؛ اس کا علاج و معالجہ کرواتے۔ امین سلونوی اُن کی ان صفات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’منشی نول کشور اپنے ادارے میں کام کرنے والوں سے بڑا شاہانہ سلوک کرتے تھے۔مثلاً سنا ہے کہ رتن ناتھ سرشار کے لیے یہ انتظام تھا کہ وہ چاندنی راتوں میں دریائے گومتی کے کنارے بیٹھ کر اپنی تخلیقات سپرد قلم کریں۔ وہاں جس چیز کی خواہش انھیں ہوتی وہ مہیا کی جاتی۔‘‘12

اسی طرح اُس وقت مقالہ نگاروں اور نامہ نگاروں کوکوئی معاوضہ نہیں ملتا تھا؛ سب سے پہلے منشی جی نے اودھ اخبارکے مقالہ نگاروں کو معاوضہ دینے کی شروعات کی۔

اودھ اخبار‘ ہندومسلم اتحاد کا علمبردار اور سماجی خدمات کا ترجمان تھا؛ ہندو مسلم دونوں قوموں کے تہواروں کے موقع پر خاص نمبر بڑی آب وتاب کے ساتھ نکالے جاتے تھے۔جیسا کہ ڈاکٹر عبد السلام خورشید لکھتے ہیں:

’’اودھ اخبار ایک خالص غیر فرقہ وارانہ اخبار تھا بظاہر ٹیپ ٹاپ سے اور مضامین دیکھ کر کچھ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے مسلمانوں کا اخبار تھا……اس کا کوئی خاص سیاسی مسلک نہ تھا ہمیشہ دامن بچا کر چلتا تھا۔ ‘‘ 13

 یہی وجہ تھی کہ ’اودھ اخبار‘کی شہرت صرف ہندستان ہی میں نہیں تھی بلکہ اس وقت کے سپر پاور ممالک انگلینڈ و فرانس کے علاوہ دیگر ممالک میں بھی اس کی ایک الگ پہچان تھی؛اور ایک موقراخبار کی حیثیت سے عوام میںاس کی شہرت تھی۔اسی کے سبب ’اودھ اخبار‘ میں مقالہ لکھنے والوں کی کمی کبھی محسوس نہیں کی گئی، بلکہ ہمیشہ قابل اوربا صلاحیت اربابِ قلم کے مضامین ومقالات کاہجوم رہتا تھا؛ جن میں سر سید احمد خان اور مرزا غالب جیسی اہم شخصیات بھی شامل تھیں۔

 منشی جی نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ کتابوں کی طباعت اورصحافت میں صر ف کیا۔اور صرف ایک اودھ اخبار ہی نہیں بلکہ بہت سارے اخبار منشی جی نے اپنے مطبع سے شائع کیے ؛ جن میں کوہ نور، پنجابی اخبار، اخبار عالم، اکمل الاخبار، وکٹوریہ اخبار، تہذیب الاخلاق، شعلہ طور، احسان الاخبار، علی گڑھ گزٹ، دبدبہ سکندری وغیرہ کا نام بطور مثال لیا جاسکتا ہے؛لیکن دنیائے صحافت میں ’اودھ اخبار‘ سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ 

حاصل یہ کہ اودھ اخبار کے ذریعے منشی نول کشور نے تا حیات اُردو صحافت کی عظیم الشان خدمت انجام دی؛  اور اُن کا ’اودھ اخبار‘ 92 سال تک پوری آب و تاب کے ساتھ جاری رہا؛لیکن بدقسمتی سے وارثانِ مطبع کے باہمی نزاع کے سبب 49-50 19 میں ہمیشہ کے لیے بند ہو گیا۔

حواشی

1       ماہنامہ نیا دورلکھنؤ، منشی نول کشورنمبر،ص194

2       ایضاً، ص194

3       ایضاً، ص193

4       نقوش سلیمانی،ص87،طبع اول1939

5       ماہنامہ نیا دور لکھنؤ، منشی نول کشور نمبر،ص 10

6       سیدامیرحسن نورانی،سوانح منشی نول کشور،ص178

7       ماہنامہ نیا دور لکھنؤ،منشی نول کشور نمبر،ص23۔لیکن ڈاکٹر اکبر حیدری کی بتیس سال کی عمر میں پریس قائم کرنے والی بات درست نہیں ہے، درست یہ ہے کہ بائیس سال کی عمر میں منشی نول کشور نے لکھنؤ میں پریس قائم کیا؛ جیسا کہ تاریخ ولادت سے ظاہر ہے۔

8       ایضاً، ص40

9       ایضاً، ص 23

10     ایضاً، ص40

11     مولاناامداد صابری، تاریخ صحافت اُردو(جلد دوم، پہلاحصہ)، ص112

12     ماہنامہ نیا دورلکھنؤ، منشی نول کشورنمبر، ص161

13     ڈاکٹر عبد السلام خورشید، صحافت پاکستان وہند میں،ص181


 

Sufyan Ahmad Ansari

Mohalla Nazirpura Purvi

Near: Qadir Montessori School

Bahraich - 271801 (UP)

Mob.: 9839574196

 





کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں